ھم خود کو اہل سنت والجماعت کیوں کہلاتے ھیں


فرقہ وارانہ تعصب اور مسلک پرستی کے حوالے سے ایک سوال یا اعتراض سے اکثر واسطہ پڑتا ہے کہ "جب آپ مسلک پرستی کی بات چھوڑ کر صرف دینِ اسلام سے وابستہ ہونے کی بات کرتے ہیں تو پھر ساتھ ساتھ خود کو اہلِ سنت والجماعت کیوں کہتے ہیں..؟؟؟ یہ بھی تو ایک فرقہ ھی ھے اور اس طرح یہ فرقہ پرستی ہی ہے.. آپ خود کو صرف مسلمان کیوں نہیں کہتے..؟؟؟"

یہ سوال یا اعتراض دراصل سخت غلط فہمی کی وجہ سے کیا جاتا ہے.. اعتراض کرنے والا اہل سنت والجماعت کو آج کل کے مسالك كے کسی مسلک کے معنی میں لے لیتا ہے حالاںکہ یہ صد فیصد غلط ہے..

اہلِ سنت والجماعت  سے مراد کیا ہے ؟  اور هم فرقہ واریت اور مسلک پرستی کے اتنا سخت خلاف ہو کر بھی بطور ایک صحیح العقیدہ مسلمان خود کو صرف مسلمان کہنے کے بجائے کیوں اپنی پہچان "اہلِ سنت والجماعت " کہہ کر کراتے ہيں' اس حوالہ سے چند باتیں پیشِ خدمت ھیں .امید ہے کہ ان کو سمجھنے کے بعد إس حواله سے  ان شاء اللہ ساری الجھنیں دور ہو جائیں گی..

لفظ "اہل السنہ والجماعتہ" یا “سنی”  نہ تو قرآن کریم کی کسی آیت سے ثابت ہے اور نہ ہی رسول كريم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی حدیث میں استعمال ہوا ہے.. یہ دونوں اصطلاحات رسول كريم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے بعد کی ہیں.. رسول كريم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں دو ہی فریق تھے.. مومن اور کافر.. یا پهر منافق تھے جو درحقیقت کفار ہی کے زمرے میں داخل تھے..

بعد میں قسم قسم کے باطل نظریات کے حاملین نے مختلف فرقوں کی صورت اختیار کرلی اور يه سب باطل فرقے  بهي اپنے آپ كو مسلمان هي كهتے تهے تو جو صحیح العقیدہ لوگ تھے أنكي پہچان هونا ضروري تهی سو اس وقت کے صحيح العقيده مسلمانوں كے آكابرين نے مشوره كركے ان گمراہ فرقوں سے اپنی الگ پہچان کے لیے "اہل السنہ والجماعتہ" کا نام اختیار کیا..

یہ کوئی الگ سے"فرقہ" نہیں تھا.. دراصل "اہل السنہ والجماعتہ" یا “سنی “ سے مراد وہ طبقہ ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے طریقہ پر ہوں جو کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث سے بھی سمجھ میں آتا ہے جیسا کہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا..

               وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ عُمْرِوقَالَ: وَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم لَیَا تِیَنَّ عَلَی اُمَّتِی کَمَا اَتَی عَلٰی بَنِی اِسْرَائِیْلَ حَذْوَالنَّعْلِ بِالنَّعْلِ، حَتّٰی اِنْ کَانَ مِنْھُمْ مَنْ اٰتَی اُمَّہ، عَلَانِیَۃً لَکَانَ فِی اُمَّتِی مَنْ یَّصْنَعُ ذٰلِکَ وَاِنَّ بَنِی اِسْرَائِیلَ تَفَرَّقَتْ عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِیْنَ مِلَّۃً وَتَفْتَرِقُ اُمَّتِی عَلٰی ثَلَاثِ وَّسَبْعِیْنَ مِلَّۃِ کُلُّھُمْ فِی النَّارِ اِلَّا مِلَّۃً وَّاحِدَۃً) قَالُوْا مَنْ ھِیَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ ؟ قَالَ ((مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِی)) رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَفِی رِوَایَۃِ اَحْمَدِ وَاَبِی دَاؤُدَ عَن معادیۃ ثنتان وَسَبْعُوْنَ فِی النَّارِ وَوَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ وَھِیَ الْجَمَاعَۃُ وَاِنَّہُ سَیَّخْرجُ فِی اُمَّتِی اَقْوَامٌ تَتَجَارٰی بِھِمْ تِلْکَ الْاَ ھْوَاءُ کَمَا یَتَجَارٰی الْکَلْبُ بِصَاحِبِہٖ لَا یَبْقَی مِنٖہ، عِرْقٌ وَلَا مُفْصِلٌ اِلَّا دَخَلَہ،))


اور حضرت عبداللہ بن عمرو راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ بلاشبہ میری امت پر (ایک ایسا زمانہ آئے گا جیسا کہ بنی اسرائیل پر آیا تھا اور دونوں میں ایسی مماثلت ہوگی) جیسا کہ دونوں جوتے بالکل برابر اور ٹھیک ہوتے ہیں یہاں تک کہ بنی اسرائیل میں سے اگر کسی نے اپنی ماں کے ساتھ علانیہ بدفعلی کی ہوگی تو میری امت میں بھی ایسے لوگ ہوں گے جو ایسا ہی کریں گے اور بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئے تھے میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی اور وہ تمام فرقے دوزخی ہوں گے ان میں سے صرف ایک فرقہ جنتی ہوگا۔ صحابہ نے عرض کیا! یا رسول اللہ ﷺ! جنتی فرقہ کون سا ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ جس میں میں اور میرے صحابہ ہوں گے۔ (جامع ترمذی)

 اور مسند احمد بن حنبل و ابوداؤد نے جو روایت حضرت معاویہ سے نقل کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں کہ بہتر گروہ دوزخ میں جائیں گے اور ایک گروہ جنت میں جائے گا اور وہ جنتی گروہ جماعت ہے اور میری امت میں کئی قومیں پیدا ہوں گی جن میں خواہشات یعنی عقائد و اعمال میں بدعات اسی طرح سرائیت کر جائیں گی جس طرح ہڑک والے میں ہڑک سرایت کر جاتی ہے کہ کوئی رگ اور کوئی جوڑ اس سے باقی نہیں رہتا۔

اس حدیث میں جو کچھ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ صرف ایک پیشن گوئی نہیں ہے بلکہ امت کے لئے ایک بہت بڑی آگاہی بھی ہے کہ ہر امتی اس کی فکر اور اس کا دھیان رکھے کہ وہ انہی عقائد و نظریات اور اسی تعلیمات پر قائم رہے جس پر رسول كريم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام تھے.. نجات اور جنت کی ضمانت بھی انہی کے لئے ہے.. اسي طبقہ كے حاملين  نے اپني پہچان كے لئے"اہل السنہ والجماعتہ" کا عنوان اختیار کیا..

یہ اصطلاح کسی فرقہ کے تقابل پر نہیں ہے بلکہ ہر وہ شخص جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے طریق پر ہو وہ اس کا مصداق ہے.. خواہ وہ نام کے اعتبار سے دیو بندی' سلفی' حنفی' بریلوی' اہل حدیث یا کچھ بھی ہو.. یعنی اصل حیثیت اور حقیقت عقیدہ کے صحیح ہونے کی ہے' ظاہری نام کی نہیں.. اور عقیدہ صرف وہی صحیح ہے جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین تھے..

اس لیے آج کے اس دور میں جبکہ قادیانی' روافض' گوہر شاہی' ذکری' بوہری ' غامدي وغیرہ جیسے  بهت سے کھلے گمراہ فرقے بھی اپنے پہچان کے لیے مسلم کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ایک صحیح العقیدہ مسلمان کے لیے صرف مسلم یا مسلمان کا لفظ اپنی صحیح پہچان کے لیے کافی نہیں رہا.. بلاشبہ ہم صرف اور صرف مسلمان ہیں لیکن گمراہ لوگوں سے اپنی الگ پہچان کے لیے ہمارا خود کو "اہل السنہ والجماعتہ" کہنا اور سمجھںا بے حد ضروری ہے.. اور اس سے بھی کہیں زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم محض نام کے "اہل السنہ والجماعتہ"  نہ ہوں بلکہ حقیقی معنوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم اور انکے صحابہ كرام رضوان الله عليهم  کے پیروکار ہوں اور اپنے مسلک اور "باپ دادا کے دین" پر دینِ محمدی صلی اللہ علیہ واله  وسلم کو ترجیح دینے والے ہوں..

 اللہ تعالی ہم سب کو  صراطِ مستقیم پر رکھے اور شیطان کے شر سے محفوظ رکھے 

آمین ثم آمین یا رب العالمین


Share: