الصلاۃ خیر من النوم" کا جواب


فجر کی اذان میں جب موذن "*الصلاة خير من النوم" *کہے تو جواب میں "*صدقت وبررت وبالحق نطقت*" کا کہنا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں، البتہ فقہائےکرام نے اس کو بہتر جانا ہے کہ مؤذن کو یہ جواب دیا جائے.


*محدثین کرام کی رائے:*

قول: صدقت وبررت عقب قول المؤذن: (الصلاة خير من النوم)


١. ملا علی قاری کہتے ہیں کہ اذان کے جواب میں صدق رسول اللہ اور صدقت وبررت وبالحق نطقت کی کوئی اصل نہیں.

□ قال القاري: (صدق رسول الله) ليس له أصل، وكذا قولهم عند قول المؤذن: (الصلاة خير من النوم): صدقت وبررت وبالحق نطقت.


٢. علامہ دمیری کہتے ہیں کہ جو روایت اس قول کے ثبوت میں وارد ہے اس کی کوئی اصل نہیں.

□ قال الدميري: وادعى ابن الرفعة أن خبرا ورد فيه لا يعرف قائله.


٣. ابن ملقن کہتے ہیں کہ یہ روایت (جس میں "صدقت وبررت وبالحق نطقت" کا تذکرہ ہے) ہمیں کسی بھی حدیث کی کتاب میں نہیں ملی.

□ وقال ابن الملقن في تخريج أحاديث الرافعي: لم أقف عليه في كتب الحديث.


٤. صنعانی کہتے ہیں کہ "صدقت وبررت وبالحق نطقت" کہنے والے کی اپنے طرف سے نیکی ہے، ورنہ سنت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں.

□ وقال الصنعاني في سبل السلام (1/127): وقيل يقول في جواب التثويب: صدقت وبررت! وهذا استحسان من قائله، وإلا فليس فيه سنة تُعتمد.


٥. علامہ ابن حجر کہتے ہیں کہ اس عمل کی کوئی اصل نہیں.

□ ابن حجر في التلخيص الحبير (1/222 أو 211) يقول: لا أصل لما ذكروه في الصلاة خير من النوم.


*فقہائےکرام کی رائے*:


١. احناف، شوافع اور حنابلہ کے نزدیک "الصلاۃ خیر من النوم" کے جواب میں "صدقت وبررت وبالحق نطقت" کہنا زیادہ بہتر ہے.

□ فإن مذهب الحنابلة والشافعية والأحناف أن المجيب يقول عند قول المؤذن (الصلاة خير من النوم): صدقت وبررت.


٢. علامہ نَوَوِی نے بھی اسی کو مشہور مذہب قرار دیا ہے.

□ ذكر ذلك النووي في المجموع، فقال رحمه الله: ويقول إذا سمع المؤذن الصلاة خير من النوم: صدقت وبررت، هذا هو المشهور، وحكى الرافعي وجها أن يقول: صدق رسول الله صلى الله عليه وسلم، الصلاة خير من النوم.


٣. علامہ کاسانی کہتے ہیں کہ "الصلاۃ خیر من النوم" کے جواب میں "صدقت وبررت وبالحق نطقت" کہنا زیادہ بہتر ہے.

□ وقال الكاساني الحنفي في بدائع الصنائع: وكذا إذا قال المؤذن الصلاة خير من النوم: لا يعيد السامع لما قلنا، ولكنه يقول: صدقت وبررت أو ما يؤجر عليه.


٤. علامہ مرداوی حنبلی کہتے ہیں کہ "صدقت وبررت وبالحق نطقت" ہی بہتر جواب ہے، جبکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ دونوں جواب دے یعنی کہ مؤذن کا کہا ہوا جملہ بھی دہرائے اور "صدقت....." بھی کہے.

□ وقال المرداوي الحنبلي في الإنصاف: الخامس: أن يقول عند التثويب: صدقت وبررت فقط، على الصحيح من المذهب، وقيل يجمع بينهما.


             *خلاصہ کلام*

فجر کی اذان میں "الصلاة خير من النوم" کے جواب میں "صَدَقْتَ وَبَرَرتَ وَبِالْحَقِّ نَطَقْتَ" کا کہنا کسی روایت یا سنت سے ثابت نہیں ہے، البتہ فقہائےکرام نے اس کے پڑھنے کو پسند کیا ہے جس کی بظاہر یہ وجہ معلوم ہوتی ہے کہ "الصلاۃ خیر من النوم" کا کلمہ جو کہ (پہلے اذان میں نہیں تھا اور) بعد میں آپ علیہ السلام کی تائید سے اذان میں شامل کیا گیا تھا، لہذا سننے والا یوں کہے کہ "صَدَقَ رَسُولُ اللہِ" اور پھر مؤذن سے کہے "صَدَقْتَ وَبَرَرتَ وَبِالْحَقِّ نَطَقْتَ" (واللہ اعلم) لیکن اگر وہی الفاظ دہرائے جائیں تو بھی کوئی حرج نہیں.

Share: