کورونا وائرس اور تعليمات نبوى صلى الله عليه واله وسلم


جب سے حضرت انسان اس دنیا میں آیا ھے بیماریوں کا آنا جانا  اس دنیا کے نظام کا حصہ ہے۔ بعض بیماریاں وبائی شکل اختیارکرکے پورے معاشرے کو متاثر کرتی ہیں۔ انسانی تاریخ میں طاعون جیسی خطرناک بیماری اور اس کی تباہ کاریوں کا وجود  موجود ھے آج کل ’’کورونا وائرس‘‘ بھی ایک وبائی مرض کی شکل اختیار کرچکا ہے۔طبی ماہرین کے مطابق کورونا وائرس عام وائرل انفیکشن نزلہ زکام ہی کی طرح ہے ۔ تاہم یہ تیزی سے انسانوں سے انسانوں کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ اس وائرس کے اثرات کچھ دنوں بعد ظاہر ہوتے ہیں 

اس بیماری نے دنیا کو بڑے پیمانے پر متاثر کیا ہے۔ اس لیے مناسب ہےکہ اس بارے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی حاصل کی جائے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ اللہ نے تقدیر میں لکھ رکھا ہے ، صحت اور بیماری بھی اللہ ہی کے حکم سے آتی ہے اور یہ تقدیر کا حصہ ہے چنانچہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے : ’’یقین جانو! اگر ساری دنیا مل کر بھی تمہیں نفع پہنچانا چاہے تو تمہیں نفع نہیں پہنچا سکتی، سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے اور اگر وہ سارے مل کر تمہیں نقصان پہنچانا چاہیں تو تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتے، سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے ۔‘‘ (مسند احمد)

اسی طرح انسانوں کے اپنے اعمال بھی مصیبتیں اورپریشانیاں آنے کا سبب بنتےہیں ۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :’’اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہے ، وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کئے ہوئے کاموں کی وجہ سے پہنچتی ہے اور بہت سے کاموں سے تو وہ درگزر ہی کرتا ہے۔‘‘ (سورۃ الشوریٰ : 30)

 احادیث میں  اُن اعمال کی نشاندہی بھی  ہے، جن کی وجہ سے خطرناک بیماریاں آتی ہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب بھی کسی قوم میں کھلم کھلا بےحیائی ہونے لگتی ہے تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے گزرے ہوئے لوگوں میں نہیں ہوتی تھیں۔‘‘ (ابن ماجہ)

معلوم ہوا کہ معاشرے میں بے حیائی اور گناہوں کے پھیلنے کی وجہ سے نت نئی اور خوفناک بیماریاں پھیلتی ہیں ، جن سے معاشرے کا ہر طبقہ متأثر ہوتا ہے۔

البتہ مسلمانوں کے لیے ہر تکلیف ، بیماری اور مصیبت میں بھی ایک سبق پوشیدہ ہوتا ہے، نیز اس سےبندۂ مومن کے گناہوں کی معافی بھی ہوتی ہے، ایک مرتبہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’جب مومن کو کوئی تکلیف یا بیماری لا حق ہوتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ اسے شفا عطا فرماتا ہے تووہ بیماری یا تکلیف اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے اور آئندہ کے لئے یاد دہانی ہو جاتی ہے 

(سنن ابوداؤد)

چنانچہ بیماری اور پریشانی میں جزع وفزع کرنے کی بجائے ان اعمال کی طرف متوجہ ہونا چاہئے جن کی تعلیم اللہ اور اس کے رسولﷺ نے دی ہے۔ ذیل میں مختصراً چند اہم ترین اعمال ذکر کیے جارہے ہیں ،اگر ہر فرد ان کا اہتمام کرے تو 

ان شاءاللہ! حالات میں ضرور بہتری آئے گی۔

*رجوع الیٰ اللہ: *

ہر قسم کے گناہوں سے سچی توبہ کریں اور اللہ کی طرف رجوع کا اہتمام کریں (خصوصاًکبیرہ گناہوں سے جیسے بدکاری و بے حیائی ، ناپ تول میں کمی، زکوٰۃ کی عدم ادائیگی ، حقوق العباد ، سودی لین دین ، نماز کا چھوڑنا وغیرہ )

*مسنون دعاؤں اور اذکار کا اہتمام*

آیتِ کریمہ کاکثرت کے ساتھ ورد کریں، اس سے پریشانیاں دور ہوتی ہیں

:’’لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَكَ اِنِّی كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِيْنَ ‘‘(سورۃ الأنبياء) 

صبح و شام حفاظت کی مسنون دعائیں پڑھنے کا معمول بنائیں۔

*صدقہ کی عادت بنائیں*

حدیث شریف میں آتا ہے کہ صدقہ اللہ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت کو دفع کرتا ہے۔(ترمذی ) اس لیے اپنی استطاعت کے مطابق صدقہ و خیرات ادا کرنا جان و مال کی حفاظت کا سبب ہوتا ہے۔*صبرکو شیوہ بنائیں*

بندۂ مومن اگرخدانخواستہ کوئی ایسی وبائی بیماری میں مبتلا ہوجائے تو گلے شکوے کرنے کے بجائے صبر کرے ،کیونکہ تکلیف پر صبر کرنے میں بڑا اجر ہے،ایک حدیث شریف میں ارشاد ہے:’’جو بندہ کسی جانی یا مالی مصیبت میں مبتلا ہو اور وہ کسی سے اس کا اظہار نہ کرے اور نہ لوگوں سے شکوہ شکایت کرے تو اللہ کے ذمہ یہ وعدہ ہے کہ وہ اسے بخش دےگا۔‘‘ (معجم اوسط طبرانی)


*ظاہری اسباب ۔*

مندرجہ بالا اعمال کو اختیارکرنے کے ساتھ ساتھ ظاہری اسباب کو اختیار کرنا بھی سنتِ نبوی ﷺ ہے۔ اس لئے: علاج معالجے کے لیے دستیاب مستند وسائل اور احتیاطی تدابیر کو اختیار کیجیے ۔ظاہر ی و باطنی صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کا خاص خیال رکھیے۔باوضو رہنے کا معمول بنائیے، اس سے اعضاء کی صفائی ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سی نیکیاں بھی حاصل ہوتی ہیں ۔جس مجمع یا جس مقام پر بیماری لگنے کے خطرات واضح طور پر موجود ہوں ، وہاں بلاضرورت جانے سے گریز کریں۔اگر آپ ایسے علاقے میں پہلے سے موجود ہوں جہاں وبائی بیماری پھیل چکی ہے تو وہاں سے باہر نہ نکلیں ، بلکہ صبر اور مضبوط ایمان کے ساتھ وہاں ٹھہرے رہیں۔

*وبائی مرض میں فوت ہونے والا شہید ہے :۔*

حدیث شریف کے مطابق طاعون اللہ کا عذاب ہے،لیکن اللہ نے ایمان والوں کے لیے اسے رحمت بنادیا ہے۔ چنانچہ جو کوئی مسلمان وبائی بیماری کا شکارہو کر فوت ہوجائے،اس کے لیے آخرت میں شہید والا اجر ہے۔حدیث میں آتا ہے : ’’جو شخص طاعون میں مبتلا ہو اوروہ اپنے شہر میں صبر کرتے ہوئے اور ثواب کی امید کے ساتھ ٹھہرا رہے، یہ جانتے ہوئے کہ اسے صرف وہی چیز پہنچ سکتی ہے، جو اللہ نے اس کے لیے (تقدیر میں) لکھ دی ہےتو ایسے شخص کےلیے شہید جیسا اجر ہے۔(مسنداحمد) اس میں وہ شخص بھی داخل ہے جو طاعون کے زمانے میں کسی اور سبب سے مرجائے، بشرطیکہ جس علاقے میں ہو، وہیں ثواب کی نیت اور صبر کے ساتھ ٹھہرا رہے اور راہِ فرار اختیار نہ کرے۔ اللہ پاک تمام مسلمانوں کو اپنی حفظ و آمان میں رکھے

آمین یا رب العالمین

Share: