پاکستان میں نظام تعلیم کیا ھو


از مفتی محمد تقی عثمانی


پاکستان بننے سے پہلے ہندوستان میں تین بڑے نظامِ تعلیم معروف تھے: ایک دارالعلوم دیوبند کا نظامِ تعلیم، دوسرا مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا نظامِ تعلیم اور تیسرے دارالعلوم ندوۃ العلماء کا نظامِ تعلیم۔ حضرت والد ماجدؒ نے تقریباً 1950ء میں ایک موقع پر جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات فرمائی تھی:

’’پاکستان بننے کے بعد درحقیقت نہ ہمیں علی گڑھ کی ضرورت ہے، نہ ندوہ کی ضرورت ہے، نہ دارالعلوم دیوبند کی ضرورت ہے، بلکہ ہمیں ایک تیسرے نظامِ تعلیم کی ضرورت ہے جو ہمارے اَسلاف کی تاریخ سے مربوط چلا آرہا ہے۔‘‘

بظاہر سننے والوں کو یہ بات بڑی تعجب خیز معلوم ہوتی تھی کہ دارالعلوم دیوبند کا ایک مستند مفتی اعظم اور دارالعلوم دیوبند کا ایک سپوت یہ کہے کہ ہمیں پاکستان میں دیوبند کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ہمیں ایک نئے نظامِ تعلیم کی ضرورت ہے۔


حضرت والد ماجدؒ نے جو بات فرمائی وہ درحقیقت ایک بہت گہری بات ہے اور اُسی کے نہ سمجھنے کے نتیجے میں ہمارے ہاں بڑی عظیم غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔ ہندوستان میں جو تین نظامِ تعلیم جاری تھے، وہ درحقیقت فطری نہیں تھے، بلکہ انگریز کے لائے ہوئے نظام کا ایک نتیجہ اور انگریز کی لائی ہوئی سازشوں کا ایک ردّعمل تھا، ورنہ اس سے پہلے رائج مسلمانوں کے صدیوں پرانے نظامِ تعلیم پر غور کیا جائے تو اس میں مدرسے اور اسکول کی کوئی تفریق نہیں ملے گی۔ وہاں شروع سے لے کر اور انگریز کے زمانے تک مسلسل یہ صورت حال رہی کہ مدارس یا جامعات میں بیک وقت دونوں تعلیمیں دینی اور عصری تعلیم دی جاتی تھیں۔


صورت حال یہ تھی کہ شریعت نے جو بات مقرر کی کہ عالم بننا ہر ایک آدمی کے لیے فرضِ عین نہیں، بلکہ فرضِ کفایہ ہے۔ یعنی ضرورت کے مطابق کسی بستی یا کسی ملک میں علماء پیدا ہوجائیں تو باقی سب لوگوں کی طرف سے وہ فریضہ ادا ہوجاتا ہے، لیکن دین کی بنیادی معلومات حاصل کرنا فرضِ عین ہے، یہ ہر انسان کے ذمے فرض ہے۔ اُن مدارس کا نظام یہ تھا کہ اُن میں فرضِ عین کی تعلیم بلاامتیاز ہر شخص کو دی جاتی تھی، ہر شخص اُس کو حاصل کرتا تھا، جو مسلمان ہوتا تھا۔ البتہ جس کو علمِ دین میں اختصاص حاصل کرنا ہو، اُس کے لیے الگ مواقع تھے۔ جو کسی عصری علم میں اختصاص حاصل کرنا چاہتا تھا، اُس کے لیے مواقع الگ تھے۔


گزشتہ سال میں اور برادرم معظم حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مراکش میں تھے۔ میں نے پچھلے سال دیکھا تھا اور حضرت نے اِس سال اُس کی زیارت کی۔ مراکش کو انگریزی میں ’’موروکو‘‘ کہتے ہیں، اُس کا ایک شہر ہے جس کا نام ’’فاس‘‘ ہے۔ میں ’’فاس‘‘ کے شہر میں پچھلے سال گیا تھا اور اِس سال حضرت بھی تشریف لے گئے تھے۔ وہاں ’’جامعۃ القرویین‘‘ کے نام سے ایک جامعہ آج تک کام کر رہی ہے۔ اگر ہم اسلامی تاریخ کی مشہور اسلامی جامعات کا جائزہ لیں تو چار بنیادی اسلامی جامعات ہماری تاریخ میں نظر آتی ہیں۔ اُن میں سب سے پہلی مراکش کی جامعہ ’’القرویین‘‘ ہے۔ دوسری تیونس کی جامعہ ’’زیتونہ‘‘ ہے۔ تیسری مصر کی ’’جامعۃ الازہر‘‘ ہے اور چوتھی ’’دارالعلوم دیوبند‘‘ ہے۔ تاریخی ترتیب اسی طرح ہے۔


اس میں سب سے پہلی اسلامی یونیورسٹی جو مراکش کے شہر ’’فاس‘‘ میں قائم ہوئی، تیسری صدی ہجری کی جامعہ ہے۔ ابھی تک ایسی کوئی ترتیب میرے سامنے نہیں آئی کہ یہ صرف عالم اسلام ہی کی نہیں، بلکہ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے۔ اس تیسری صدی یونیورسٹی کے بارے میں اُس کی تاریخ کے کتابچے میں یہ بات لکھی ہوئی کہ اُس وقت جامعۃ القرویین میں جو علوم پڑھائے جاتے تھے اُن میں اسلامی علوم، تفسیر، حدیث، فقہ اور اس کے ساتھ ساتھ طب، ریاضی، فلکیات جنہیں ہم آج عصری علوم کہتے ہیں، وہ سارے علوم پڑھائے جاتے تھے۔ ابن خلدونؒ، ابن رُشدؒ، قاضی عیاضؒ اور ایک طویل فہرست ہمارے اکابر کی ہے جنہوں نے جامعۃ القرویین میں درس دیا۔ اُن کے پاس یہ تاریخ آج بھی محفوظ ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں ابن خلدونؒ درس دیا کرتے تھے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ابن رُشدؒ درس دیا کرتے تھے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں قاضی عیاضؒ نے درس دیا ہے۔ یہاں ابن عربی مالکیؒ نے درس دیا ہے۔ تاریخ کی یہ ساری باتیں اُن کے پاس آج بھی محفوظ ہیں۔ یہ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے، اس لحاظ سے کہ چھوٹے چھوٹے مدارس تو ہر جگہ ہوں گے، لیکن جامعۃ القرویین ایک یونیورسٹی کی حیثیت رکھتی تھی جس میں تمام دینی اور عصری علوم پڑھائے جاتے تھے۔


اس یونیورسٹی میں آج بھی تیسری اور چوتھی صدی کی سائنٹفک ایجادات کے نمونے رکھے ہیں۔ اُس زمانے میں اسی جامعۃ القرویین سے فارغ لوگوں نے جو ایجادات گھڑی وغیرہ کی کیں، اُن ایجادات کے نمونے بھی وہاں پر موجود ہیں۔ آپ تیسری صدی ہجری تصورکیجیے۔ یہ تیسری صدی ہجری کی یونیورسٹی ہے۔ اس میں اسلامی علوم کے بادشاہ بھی پیدا ہوئے، اور وہیں سے ابن رُشد فلسفی بھی پیدا ہوا اور وہیں سے بڑے بڑے سائنسدان بھی پیدا ہوئے۔ ہوتا یہ تھا کہ دین اسلام کا فرضِ عین علم سب کو اکٹھا دیا جاتا تھا۔ اُس کے بعد اگر کوئی علمِ دین میں تخصصات حاصل کرنا چاہتا تھا تو وہ اسی جامعۃ القرویین میں علم دین کی درس گاہوں میں پڑھتا۔ اگر کوئی ریاضی پڑھانے والا ہے تو وہ ریاضی بھی وہاں پڑھا رہا ہوتا۔ اگر کوئی طب پڑھانے والا ہے تو وہ طب بھی وہاں پڑھا رہا ہوتا۔ یہ سارا کا سارا نظام اس طرح چلا کرتا تھا۔ جامعۃ القرویین کی طرح جامعہ زیتونہ تیونس اور جامعۃ الازہر مصر کا نظامِ تعلیم بھی رہا۔ یہ تینوں یونیورسٹیاں ہمارے قدیم ماضی کی ہیں۔ ان میں دینی اور عصری تعلیم کا سلسلہ اس طرح رہا۔

اس میں آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ اگر قاضی عیاضؒ جو حدیث اور سنت کے امام ہیں، اُن کا حلیہ دیکھا جائے اور ابن خلدون جو فلسفہ تاریخ کے امام ہیں، ان کا حلیہ دیکھا جائے، دونوں کو دیکھنے میں کوئی فرق نظر نہیں آتا تھا کہ یہ دین کا عالم ہے اور وہ دنیا کا عالم ہے۔ دونوں کا حلیہ، لباس، ثقافت، طرزِ زندگی، طرزِ کلام سب یکساں تھا۔ اگر آپ مشہور اسلامی سائنسدان فارابی، ابن رُشد، ابوریحان البیرونی ان سب کا حلیہ دیکھیں اور جو محدثین، مفسرین اور فقہاء پیداہوئے اُن کا حلیہ دیکھیں، دونوں کا حلیہ ایک جیسا نظر آئے گا۔ اگر وہ نماز پڑھتے تھے تو یہ بھی نماز پڑھتے تھے۔ اگر اُن کو نماز کے مسائل معلوم تھے تو اِن کو بھی معلوم تھے۔ اگر اُن کو روزے کے مسائل معلوم تھے تو اِن کو بھی معلوم تھے۔ بنیادی اسلامی تعلیمات جو ہر انسان کے ذمے فرضِ عین ہیں، اُس دور میں ہر انسان جانتا تھا اور اس یونیورسٹی میں اُس کو پڑھایا جاتا تھا۔۔ تفریق یہاں سے پیداہوئی کہ انگریز نے آکر باقاعدہ سازش کے تحت ایک ایسا نظامِ تعلیم جاری کیا کہ اس سے دین کو دیس نکالا دے دیا گیا۔ اُس وقت ہمارے اکابرین مجبور ہوئے کہ وہ مسلمانوں کے دین کے تحفظ کے لیے کم از کم جو فرضِ کفایہ ہے، اُس کا تحفظ کریں۔ اُنہوں نے دارالعلوم دیوبند قائم کیا جس نے الحمدللہ! وہ خدمات انجام دیں جس کی تاریخ میں نظیر ملنامشکل ہے، لیکن یہ ایک مجبوری تھی۔ اصل حقیقت وہ تھی جو جامعۃ القرویین میں تھی، جو جامعہ زیتونہ میں تھی، جو جامعۃ الازہر کے ابتدائی دور میں تھی۔ اصل حقیقت وہ تھی۔ اگر پاکستان صحیح معنی میں اسلامی ریاست بنتا اور صحیح معنی میں اس کے اندر اسلامی احکام کا نفاذ ہوتا تو پھر اُس صورت میں ہمیں بقول حضرت والد ماجدؒ کے نہ علیگڑھ کی ضرورت تھی، نہ ندوہ کی ضرورت تھی، نہ دارالعلوم دیوبند کی ضرورت تھی، ہمیں جامعۃ القرویین کی ضرورت ہے، جامعہ زیتونہ کی ضرورت ہے اور ایسی یونیورسٹی کی ضرورت ہے جس میں سارے کے سارے علوم اکٹھے پڑھائے جائیں۔ سب دین کے رنگ میں رنگے ہوئے ہوں، چاہے وہ انجینئر ہو، چاہے وہ ڈاکٹر ہو، چاہے کسی بھی شعبۂ زندگی سے وابستہ ہو، وہ دین کے رنگ میں رنگا ہوا ہو، لیکن ہم پر ایسا نظامِ تعلیم لاد دیا گیا جس نے ہمیں سوائے ذہنی غلامی کے سکھانے کے اور کچھ نہیں سکھایا۔ اُس نے ہمیں غلام بنایا۔ اکبر الٰہ آبادی نے صحیح کہا تھا ؎

اب علیگڑھ کی بھی تم تمثیل لو

اب معزز پیٹ تم اُس کو کہو

صرف پیٹ بھرنے کا ایک راستہ نکالنے کے لیے انگریز یہ نظامِ تعلیم لایا اور اُس کے نتیجے میں مسلمانوں کی پوری تاریخ اور پورا ورثہ تباہ کردیا گیا۔


نتیجہ یہ کہ آج اس نئے نظامِ تعلیم کے ذریعے زبردست دو فرق واضح طو رپر سامنے آئے ہیں۔ ایک یہ کہ موجودہ تعلیمی نظام میں اسلامی تعلیم کے نہ ہونے کی وجہ سے فرضِ عین کا بھی معلوم نہیں۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے اکثر طالب علم جانتے ہی نہیں ہیں کہ دین میں فرض کیا ہے؟ دوسرے اُن کے اوپر افکار مسلط کردیے گئے ہیں کہ اگر عقل اور ترقی چاہتے ہو تو تمہیں مغرب کی طرف دیکھنا ہوگا۔ تیسری ان کی ثقافت بدل دی گئی۔ ان کے ذہن میں یہ بات بٹھادی گئی کہ اگر اس دنیا میں ترقی چاہتے ہو تو صرف مغربی اَفکار میں ملے گی، مغربی ماحول میں ملے گی، مغربی انداز میں ملے گی۔ افسوس یہ ہے کہ اس نئے نظامِ تعلیم سے جو گریجویٹس، ڈاکٹرز یا پروفیسرز بن کر پیدا ہوتے ہیں، وہ ہم جیسے طالب علموں پر تو روز تنقید کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے اجتہاد کا دروازہ بند کردیا، یہ اجتہاد نہیں کرتے۔ قرآن و سنت اور فقہ میں ’’اجتہاد‘‘ ایک عظیم چیز تھی، لیکن ایک ایسی چیز جس میں اجتہاد کا دروازہ چاروں طرف چوپٹ کھلا ہوا تھا، وہ تھی سائنس اور ٹیکنالوجی، ریاضی، علومِ عصریہ اس میں تو کسی نے اجتہاد کا دروازہ بند نہیں کیا۔ علیگڑھ کے اور اس نئے نظامِ تعلیم کے ذریعے آپ نے کیوں ایسے مجتہد پیدا نہیں کیے جو مغرب کے سائنسدانوں کا مقابلہ کرتے۔ اُس میں آپ نے کیوں ایسے مجتہد پیدا نہیں کیے جو اجتہاد کرکے طب، فلکیات، ریاضی، سائنس وغیرہ میں نئے راستے نکالتے۔ اجتہاد کا دروازہ جہاں چوپٹ کھلا تھا وہاں کوئی اجتہاد کیا ہی نہیں، اور جہاں قرآن و سنت کی پابندی ہے اور قرآن و سنت کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اجتہاد کرنا ہوتا ہے، وہاں شکایت ہے کہ علمائے کرام اجتہاد کیوں نہیں کرتے؟


ابھی کچھ دن پہلے کسی صاحب نے ایک کلپ بھیجا جس میں ایک عالم دین سے یہ سوال کیا جارہا تھا کہ مولانا! یہ بتائیے کہ علمائے کرام کی خدمات ویسے اپنی جگہ ہے، لیکن یہ کیا بات ہے کہ علمائے کرام میں کسی طرف سے بھی کوئی سائنسدان پیدا نہیں ہوا، کوئی ڈاکٹر پیدا نہیں ہوا، کسی بھی طرح کی ایجاد نہیں ہوئی، اس کا علمائے کرام کے پاس کیا جواب ہے؟ بندئہ خدا! یہ سوال تو آپ اپنے آپ سے کرتے کہ ہمارے نظامِ تعلیم میں کوئی ایسا مجتہد پیدا ہوا جس نے کوئی نئی ایجاد کی ہو؟ لیکن وہاں تو اجتہاد کے دروازے اس طرح بند ہیں کہ جو انگریز نے کہہ دیا، مغرب نے کہہ دیا بس وہ نظریہ ہے، اُس نے جو دواء بتادی وہ دواء ہے، اُس نے اگر کسی چیز کے بارے میں کہہ دیا کہ یہ صحت کے لیے مضر ہے تو اس کی اقتداء کرتے ہیں۔ انڈے کی زردی کے بارے میں سالہاسال سے کہا جارہا تھا کہ یہ کولیسٹرول پیدا کرتی ہے اور امراضِ قلب میں مضر ہوتی ہے، لیکن آج اچانک ہر ڈاکٹر یہ کہہ رہا ہے کہ انڈے کی زردی کھائو، اس سے کچھ نہیں ہوتا۔ کیوں؟ اس لیے کہ مغرب سے یہ پیغام آگیا ہے، اُسے آپ نے قبول کرلیا ہے۔

ہمارے ملک میں بے شمارجڑی بوٹیاں لگی ہوئی ہیں، اُس پر آپ نے کبھی تحقیق کی ہوتی، اُس سے آپ نے کوئی نتیجہ نکالا ہوتا کہ فلاں جڑی بوٹی ان امراض کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کلونجی کے فوائد بیان فرمائے تھے، اُس پر کوئی تحقیق کی ہوتی۔ وہاں تو اجتہاد کا دروازہ ٹوٹل بند ہے اور اُس میں کوئی تحقیق کا راستہ نہیں، اور جو قرآن و سنت کی بات ہے اُس میں اجتہاد کا مطالبہ ہے۔ یہ ذہنی غلامی کا نظام ہے جس نے ہمیں اس نتیجے تک پہنچایا۔ دوسرا یہ کہ تصورات بدل گئے۔ پہلے علم کا تصور ایک معزز چیز تھی جس کا مقصد معاشرے اور مخلوق کی خدمت تھی، یہ اصل مقصود تھا۔ اس کے تحت اگر معاشی فوائد بھی حاصل ہوجائیں تو ثانوی حیثیت رکھتے تھے، لیکن آج معاملہ الٹا ہوگیا، علم کا مقصد صرف پیسہ کمانا ہے۔ علم کا مقصد یہ ہے کہ اتنا علم حاصل کرو کہ لوگوں کی جیب سے زیادہ سے زیادہ پیسہ نکال سکو۔ تمہارا علم اس وقت کارآمد ہے کہ جب تم لوگوں کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ پیسہ کماسکو۔ آپ دیکھیں کہ موجودہ دور میں کتنے لوگ پڑھ رہے ہیں اور گریجویشن کررہے ہیں، ماسٹر ڈگریاں لے رہے ہیں، قسم قسم کی ڈگریاں حاصل کررہے ہیں، اُن کے ذہن سے پوچھا جائے کہ کیوں پڑھ رہے ہو؟ وہ کہیں گے کہ اس لیے پڑھ رہے ہیں کہ کیریئر اچھا ہو، اچھی ملازمتیں ملیں، پیسے زیادہ ملیں۔ تعلیم کی ساری ذہنیت بدل کر یہ تبدیلی کردی کہ علم کا مقصد پیسہ کمانا ہے۔ علم حاصل کرکے معاشرے یا مخلوق کی کوئی خدمت انجام دینی ہے، اس کا کوئی تصور اس موجودہ نظامِ تعلیم میں نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر شخص پیسے کمانے کی دوڑ میں مبتلا ہے اور اُس کو نہ وطن کی فکر ہے، نہ ملک و ملت کی فکر ہے اور نہ مخلوق کی خدمت کرنے کا کوئی جذبہ اُس کے دل میں پیدا ہوتا ہے۔ وہ دن رات اسی دوڑ دھوپ میں مگن ہے کہ پیسے زیادہ بننے چاہیے۔ اُس کے لیے چوری، ڈاکہ، رشوت ستانی وغیرہ کے ناجائز ذرائع بھی استعمال کرتا ہے۔


یہ بتائیے! موجودہ نظامِ تعلیم کے تحت جو لوگ یہاں تیار ہورہے ہیں، انہوں نے مخلوق کی کتنی خدمت کی؟ کتنے لوگوں کو فائدہ پہنچایا؟ ہمیں تو پیغمبر انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا تلقین فرمائی تھی: ’’اَللّٰھُمَّ لَاتَجْعَلِ الدُّنْیَا أَکْبَرَ ھَمِّنَا وَلَا مَبْلَغَ عِلْمِنَا وَلَا غَایَتَ رَقْبَتِنَا‘‘ ’’یااللہ! دنیا کو ہمارے لیے نہ تو ایسا بنائیے کہ ہمارا ہر وقت دھیان دنیا ہی کی طرف رہے اور نہ ہمارے علم کا سارا مَبلغ دنیا ہی ہوکر رہ جائے، اور نہ ہماری ساری رغبتوں اور شوق کا مرکز دنیا ہوکر رہ جائے۔‘‘ لیکن اس نظامِ تعلیم نے کایا پلٹ دی۔

حضرت والا ماجد مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے جو بات فرمائی تھی اُس کا منشاء یہ تھا کہ انگریز کی غلامی کے بعد جو تعلیم کی کایا پلٹی گئی ہے، اُس کایا کو دوبارہ پلٹ کر اُس راستے پر چلیں جو راستہ جامعۃ القرویین نے دکھایا، جو جامعہ زیتونہ نے دکھایا، جو ابتدائی دور میں جامعۃ الازہر نے دکھایا۔ میں ابتدائے دور کی بات اس لیے کررہا ہوں کہ آج جامعہ ازہر کی بھی کایا پلٹ چکی ہے، اسی لیے ابتدائی دور کی بات کررہا ہوں۔ ہمارے یہاں حکومتی سطح پر وہ نظام تعلیم نافذ نہیں ہوسکا، لہٰذا مجبوراً کم از کم دارالعلوم دیوبند کے نظام کا تحفظ تو ہو۔ الحمدللہ! اسی غرض سے مدارس قائم ہوئے۔ جب تک ہمیں حکمرانوں او رنظامِ حکومت پر اور اُن کے بنائے ہوئے قوانین پر بھروسہ نہیں ہے اور نہ مستقبل قریب میں کوئی بھروسہ ہونے کی امید ہے، اس لیے اُس وقت تک ہم اِن مدارس کا پورا تحفظ کریں گے۔ مدارس کو اسی طرح برقرار رکھیں گے جس طرح ہمارے اکابر نے دیوبند کی طرح برقرار رکھا۔ اس کے اوپر ان شاء اللہ کوئی آنچ بھی نہیں آنے دیں گے، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ رفتہ رفتہ یہ قوم اُس طرف بڑھے جو ہمارا ابتدائی مطمح نظر تھا۔ اسی سلسلے میں حرا فائونڈیشن کی یہ چھوٹی سی پریزینٹیشن تھی۔


اس میں رئیس الجامعہ کا چھوٹا سا خطاب تھا اور میں بھی اسے ہر جگہ بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ الحمدللہ! پاکستان میں دینی مدارس کی تعداد بقدرِ ضرورت اچھی خاصی ہوگئی، لیکن سارے مدارس فرضِ کفایہ کی تعلیم دے رہے ہیں۔ اگر ان مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے والوں کا تناسب پورے ملک کے حساب سے دیکھا جائے تو مشکل سے ایک فیصد ہوگا، لیکن ننانوے فیصد قوم جن اداروں میں جارہی ہے اور جس طرح وہ انگریزوں کی ذہنی غلام بن رہی ہے، اس تعداد کا آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں۔

میں یہ بات کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں اور کہتا رہتا ہوں کہ آپ کا اصل مقصد یہ ہے کہ خدا کے لیے ہماری اس نسل کو اس انگریز کی ذہنی غلامی سے نکالیے۔ آپ کو یہ تاثر دینا ہے کہ الحمدللہ! ہم ایک آزاد قوم ہیں، ہم ایک آزاد سوچ رکھتے ہیں، ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سوچ رکھتے ہیں اور یہ جو ذہنی غلامی کا تصور پالا گیا ہے کہ جو کچھ ہوگا وہ مغرب سے آئے گا اور ہم مغربی افکار پر پروان چڑھیں گے، خدا کے لیے اس نئی نسل کے ذہنوں سے یہ چیز مٹائیے اور ان کے اندر اسلامی ذہنیت پیدا کیجیے۔ مغرب کی بھی ہر بات بری نہیں ہے، کچھ چیزیں اچھی بھی ہیں، لیکن اُن اچھی چیزوں کو لے لو اور بری چیزوں کو پھینک دو، ’’خُذْ مَاصَفا وَدَعَ ماکدر‘‘ اس اصول کے اوپر اگر کام کیا جائے تو ان شاء اللہ ہم منزل تک پہنچ جائیں گے۔

اقبال مرحوم نے بعض اوقات ایسے حسین تبصرے کیے ہیں کہ وہ قوم کے لیے مشعل راہ ہیں۔ مغرب کی ترقی جو کہیں سے کہیں پہنچی ہے اُس پر تبصرہ کرتے ہوئے چند شعر کہے ہیں، وہ ہمیشہ یاد رکھنے کے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ؎

قوتِ مغرب نہ از چنگ و رباب

نے ز رقصِ دخترانِ بے حجاب

چنگ و رباب یعنی موسیقی کے آلات۔ مغرب کی قوت اس لیے نہیں ہوئی کہ وہاں موسیقی کا بڑا رواج ہے، نہ اس وجہ سے ہوئی کہ بے حجاب اور بے پردہ عورتیں رقص کرتی ہیں۔

نے ز سحر ساحران لالہ روست

نے ز عریاں ساق و نے ز قطع موست .

نہ اس وجہ سے ہوئی کہ وہاں حسین عورتیں بہت پھرتی ہیں اور نہ اس وجہ سے کہ انہوں نے اپنی ٹانگیں ننگی کر رکھی ہیں اور اپنے بال کٹوا رکھے ہیں۔

قوتِ مغرب ازیں علم و فن است

از ہمیں آتش چراغش روشن است

※※※※※※※

Share: