آصحابِ کہف کا واقعہ


اصحاب کہف  !

 رسول کریم  ﷺ کے دور میں کچھ قریشِ مکہ  ایک یہودی عالم کے پاس  گئے  اور اس سے کہا کہ حضور ﷺ سے ایسا کیا سوال  پوچھاجائے کہ  ان کے نبی ہونے کی حقیقت واضح ہوجائے ۔ا س کے جواب میں یہودی عالم  نے آپ ﷺ سے تین سوال  پوچھنے کو کہا، جن میں ایک سوال  یہ تھا  کہ اصحاب  کہف  کون تھے ؟ لہذا  اللہ پاک نے  اپنے پیارے  محبوب ﷺ کو اس کا جواب قرآن پاک   کی سورۃ الکہف  کے اندر مکمل وضاحت  کے ساتھ بیان فر مایا ۔


 واقعہ کی تاریخی  حیثیت  :۔


 حضرت عیسی ٰ  علیہ السلام  کا دورتھا جب اللہ تعالیٰ   نے آپ ؑ کو آج  کے دور کے فلسطین  کے علاقے   میں اسلام کی تبلیغ کے لیے بھیجا  یہ علاقہ  اس وقت  رومن ائمپائر  میں شمار ہوتاتھا   یہ بت  پرست لوگ تھے یہاں ایک یہودی  بادشاہ کی حکمرانی  تھی جو رومن حکومت کے ماتحت  کام کررہاتھا جب حضرت عیسیٰؑ نے  تبلیغ شروع کی  تو رومی  لوگ آپ ؑ کے مخالف ہوگئے  اور آپ ؑ کو گرفتار کر کے سولی  پر لٹکا نا چاہا  مگر اللہ کے حکم سے  آپ ؑ  کو زند ہ آسمان  پہ اٹھالیاگیا  اس واقعہ کے کچھ عرصہ  بعد یہودی  لوگوں نے  رومی حکومت کے خلاف بغاوت  کردی  لہذا اس  کےرد عمل  میں عنقہ  ہو کر  ٹرٹس نامی  رومی بادشاہ  نے یروشلم  اور فلسطین پر حملہ کرکےاسے بالکل تباہ کردیا   حتی کہ  بیت المقدس کو بھی تباہ کردیا اسی دوران  اس نے ڈیڑھ لاکھ  یہودیوں کو قتل کردیا  جو بچے  کھچے  یہودی یہاں رہ گئے تھے  وہ جان بچا کر  فلسطین سے نکل گئے ۔ مگر جو حضرت عیسیٰ  علیہ السلام   کے ماننے والے  اور ان کی تعلیمات  کے پیروکار  تھے صرف  وہی فلسطین  میں موجود رہ گئے  جو کہ رومی تھا اور بت پرست تھا ، لہذا اس کی حکومت  میں موجود عیسائی  لوگوں پر  اس نے ظلم  وستم کرنا شروع کردیے ۔  ایک دن حضرت عیسیٰ  علیہ السلام کے چند ماننے والے حواریوں کو اس نے اپنے دربار میں بلایا  اور ان سے کہا: میں تمہیں چند دن کی مہلت دیتاہوں  ، تم ا پنے نئے دین یعنی عیسائیت سے  باز آجاؤ ورنہ میں تمہیں قتل کردوں گا  ، حضرت عیسیٰ ؑ  کے پیروکار  یہ نوجوان   لوگ دراصل اصحاب  کہف تھے ، جن کے واقعہ کا ذکر قرآن پاک میں سورہ کہف  میں وضاحت سے آیاہے ،


ان نوجوانوں  نے جب یہ دھمکی   سنی  تو وہ شدید پریشان ہوگئے کیونکہ وہ بادشاہ سے لڑنے کی ہمت نہیں  رکھتے تھے  اور نہ ہی شہر میں رہ کر عیسائی تعلیمات  جاری رکھ سکتے تھے  ورنہ دقیانوس  انہیں قتل  کروادیتا ۔ لہذا انہوں نے شہر چھوڑ کر  کہیں بھاگ جانے  کا  فیصلہ کیا اور


اللہ پاک کی ذات  پر بھروسہ  کرکے شہر سے  نکل گئے  یہ سوچتے ہوئے  کہ اب اللہ پاک ہی ہمارے لیے کوئی فیصلہ  کرے گا اور کوئی راستہ نکالے گا ، یہاں تک کہ وہ ایک پہاڑ  کے غار میں  جاکر چھپ  گئے  اور وہیں سوگئے  یہاں تک کہ سوتے سوتے ان پر تین سو سال کا عرصہ گزرگیا ۔


ذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا ﴿١٠﴾ فَضَرَبْنَا عَلَىٰ آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا ﴿١١﴾


ان چند نوجوانوں نے جب غار میں پناه لی تو دعا کی کہ اے ہمارے پروردگار! ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما اور ہمارے کام میں ہمارے لئے راه یابی کو آسان کردے


پس ہم نے ان کے کانوں پر گنتی کے کئی سال تک اسی غار میں پردے ڈال دیئے”


دقیانوس  نے جب ان لوگوں کو تلاش کروایا  تو اسے معلوم ہوا کہ یہ لوگ اسی غار میں  موجود  ہیں ۔اسے بہت غصہ آیا  اور حکم دیا کہ غار کو ایک مضبوط دیوار  سے بند کردیاجائے  تاکہ یہ لوگ  اندر  ہی مرجائیں ۔


 بادشاہ نے جس  شخص کے ذمہ یہ کام لگایا وہ بہت ہی نیک  اور ایماندار تھا  اس نے اصحاب کہف کے نام اور  ان کی تعداد  اور پورا واقعہ  ایک تختی   پر لکھواکر لوہے کے صندوق میں رکھ کر دیواروں کی بنیادوں میں رکھ دیا اور ایک  تختی شاہی خزانے میں بھی رکھوادی  ۔

اس تین سو سال کے دوران دقیانوس بادشاہ مرگیا  اور کئی بادشاہ اور حکومتیں آئیں اور چلی گئیں۔ یہاں تک کہ  300 عیسوی رومن  ایمپائر  نے بھی عیسائیت اختیار کرلی ۔

440 عیسوی  میں  بیدروس نامی  عیسائی بادشاہ  کی حکومت آئی جو ایک نیک دل  اور انصاف پسند  بادشاہ تھا  اس نے 68 سال تک حکومت کی  اس  کے دور میں مذہبی  فرقہ  پسندی جب عروج پر پہنچ گئی  اور لوگوں میں مرنے کے بعد  دوبارہ زندہ  کیے جانے   اور قیامت   کا یقین ختم  ہوتا جارہاتھا ۔قوم کا یہ حال دیکھ کر  بادشاہ بہت رنجیدہ  ہوا اور  اللہ سے دعا کی۔  اے اللہ کچھ ایسی  نشانی  ظاہر فرما کہ میری قوم  کے لوگوں  کا ایمان  پھر سے تازہ  ہوجائے  انہیں قیامت  ، مرنے  کے بعد دوبارہ  زندہ کیے جانے اور ایک خدا کا  یقین ہوجائے۔ا للہ تعالیٰ   نے  اس کی یہ دعا قبول فرمائی ۔

لہذا ایک  روز ایک چرواہا  اپنی بکریوں  کو  ٹھہرانے کے لیے اس غار کے پاس پہنچا  یہ وہی  غار   تھا  جس میں اصحاب  کہف موجودتھے ۔ا س چرواہے نے  چند لوگوں کےساتھ مل کر  اس دیوار کو  گروادیا ۔ دیوار  کے گرتے ہی  لوگوں پر ایسی  ہیبت  وخوف طاری  ہوا کہ سب گھبرا کر وہاں سے  بھاگ گئے  ،یوں اللہ تعالیٰ کے حکم سے اصحاب کہف  اپنی نیند سے بیدار ہوئے  اورایک دوسرے سے سلام کلام کرنے لگے اور اپنےایک ساتھی یملیخا کو بازار سے کھانا لانے بھیجا ۔ جب یملیخا بازار پہنچے تو  یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ  شہر میں  ہر طرف اسلام کا  چرچا  ہے  یہاں تک کہ لوگ اعلانیہ حضرت عیسیٰ  علیہ السلام   کا کلمہ پڑھ رہے ہیں  اور ان کی تعلیمات پر عمل  بھی کررہے ہیں 

اس کشمکش میں  یملیخا نے کھانے کے عوض  اپنے زمانے کے سکے دکاندار کودیے  ۔ دکاندار  نے جب یہ سکے  دیکھے تو اسے شک ہوا کہ شاید اس شخص کو پرانا خزانہ مل گیاہے  لہذا ا س نے یملیخا کو سپاہیوں  کے سپرد کردیا۔ سپاہیوں  نے  یملیخا سے پوچھا:  بتاؤ یہ خزانہ کہاں سے آیا ۔ یملیخا  نے کہا ہمارے  پا س کوئی  خزانہ نہیں  یہ ہمارا ہی  پیسہ ہے ۔ سپاہیوں نے  کہا ہم کیسے مان لیں کیونکہ  یہ سکے تین سو سال  پرانے ہیں۔

یملیخا نے  کہا  : پہلے  مجھے بتاؤ کہ دقیانوس بادشاہ کا کیا حال ہے ؟ سپاہیوں  نے جواب دیا : آج اس نام کا کوئی بادشاہ  نہیں ہے مگر  سینکڑوں سال پہلے  اس نام کا ایک بے ایمان بادشاہ  گزرا ہے  وہ بت پرست تھا ۔ یہ سن کر یملیخا حیران پریشان ہوئے  اور بتایا کہ ہم کل تو اس کے شہرسے  اپنا ایمان اور جان بچاکر بھاگے تھے  اور میں اور میرے ساتھی قریب  کے ایک غار میں چھپ گئے تھے جبکہ  میرے باقی ساتھی اب بھی غار میں موجود ہیں ۔ تم میرے ساتھ  چل کر خود ہی دیکھ لو۔

 جب سپاہی  اور  بہت سے لوگ  اس غار  کے پاس پہنچے تو اصحاب کہف  یملیخا کے انتظار میں  تھے۔ جب غار پر  بہت سے آدمی  پہنچے  اور شوروغل  سنائی دینے لگا تو اصحاب کہف  سمجھے کہ دقیانوس کی فوج ہمارا تعاقب  کرکے غار  تک آپہنچی ھے لہذا وہ اللہ کے ذکر اور حمد وثناء میں مشغول ہوگئے ،سپاہیوں نے غار  پر پہنچ کر  تانبے کا وہ صندوق بر آمد  کرلیا اور اس کے اندر سے تختی کو نکال کر پڑھا تو وہاں اصحاب  کہف کے نام اور یہ لکھا تھاکہ یہ مومنوں کی جماعت  ہے جو  اپنے دین  کی حفاظت  کے لیے دقیانوس  بادشاہ  کے خوف سے  اس غار میں پناہ  گزیں ہوئی ہے ۔دقیانوس نے اس غار کے منہ کو بند کروادیا ہے ۔

سپاہی یہ دیکھ کر حیران وپریشان  رہ گئے  جب کچھ سمجھ نہ آیا تو اپنے بادشاہ   بیدروس کو اطلاع  دی۔

 بادشاہ  نے یہ خبر  سنی توفوراً اپنے امراء اور  علماء کے ہمراہ پہنچ گئے ۔ا صحاب کہف  نے غار  سے نکل کر  تمام واقعہ  بادشاہ سے بیان کیا۔ بیدروس نے سجدہ  گزار  ہوکر اللہ تعالیٰ کا  شکر ادا کیا کہ اے اللہ میری دعا قبول ہوئی  اور آپ نے ایسی نشانی  ظاہر فرمائی   کہ انسان  موت کے بعد  زندہ ہونے کا یقین  ضرور کرے گا۔اس کے بعد اصحاب  کہف نے بادشاہ کو دعا دی  اور سلام کرنے کے بعد دوبارہ اسی غار میں واپس چلے گئے اور دوبارہ واپس  جاکر سوگئے  اور اسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے انہیں موت دے  دی ۔ بادشاہ  نےا سی غار میں ان کی قبریں بنوائی اور  سالانہ ایک دن مقرر کردیا جب لوگ اصحاب کہف کی قبروں کی زیارت  کے لیے آیاکرتے تھے ۔


اصحاب کہف ورقیم  :

  اس سلسلے میں متعدد قول  پائے  جاتے ہیں حضرت  عبداللہ  بن عباس  کا قول ہے کہ کیونکہ ان اصحاب  کے نام ایک  تختی   پر کندہ تھے اس لیے انہیں رقیم  کہاجاتاہے ۔ا ور ان ہی کا  یہ قول  بھی ہے کہ  رقیم اس بستی کانام  ہے  جس کے پہاڑؤں کے ایک غار میں  یہ  چھپے تھے ۔ا لبتہ جمہور  اور محدثین  ان دونوں کے ایک ہی  جماعت ہونے  پر متفق ہیں ۔


 (أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا   ( سورۃ الکہف آیت 9 )

 کیا تو اپنے خیال میں غار اور کتبے والوں کو ہماری نشانیوں میں سے کوئی بہت عجیب نشانی سمجھ رہا ہے؟

آثار قدیمہ  کی تحقیقات کے جو جدید  انکشافات  کئے ہیں ان میں سب سے نمایاں اسی شہر  رقیم  کی دریافت   ہے اور جس قدر تحقیق  کی جارہی ہےا س سے قرآن  کی حرف بہ حرف  تصدیق ملتی ہے ۔


اصحاب کہف کا زمانہ :

جدید تحقیقات کے مطابق  یہ تخمینہ  لگایا گیاہے  کہ یہ واقعہ  حضرت عیسیٰ ؑ کے بعد رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے قریب  پیش آیا ۔


اصحاب کہف کا غار : ۔

 خلیج عقبہ سے شمال کی  جانب بڑھتے ہوئے   پہاڑوں  کے دو متوازی  سلسلےملتے ہیں  ان میں سے ایک  پہاڑ کی بلندی  پر رقیم  شہر آباد  تھا۔ اس شہر کے عجیب  وغریب  غار قابل ذکر  ہیں جو اس طرح واقع ہیں کہ  دن  کی دھوپ  اور تپش ان تک پہنچتی ھے  اور ایک غار  کے قریب  قدیم عمارتوں  کے آثار  بھی پائے گئے  ہیں ۔


وَتَرَى الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَت تَّزَاوَرُ عَن كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَإِذَا غَرَبَت تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَهُمْ فِي فَجْوَةٍ مِّنْهُ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّـهِ ۗ مَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۖ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا ﴿١٧


اصحاب کہف کے نام اور ان کی تعداد :۔

کسی  بھی صحیح حدیث سے اصحاب کہف کے نام اور  تعداد  صحیح ثابت   نہیں ، تفسیری  اور تاریخی   واقعات  میں نام مختلف  بیان کئے گئے ہیں  ۔ حضرت عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ ان کے نام  یہ تھے۔


 مکسلمینا، تملیخا،مرطونس،سنونس، سارینونس، ذونواس،  کعسططیونس،

 جبکہ آٹھواں اور ان کا  کتا جس کانام قطمیر تھا۔


ان ناموں اور تعداد  میں کافی اختلاف  پایا جاتا ہے ۔


 خود قرآن کہتا ہے   کہ ان کی  صحیح تعداد  اللہ ہی کو معلوم  ہے ۔


سَيَقُولُونَ ثَلَاثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ وَيَقُولُونَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًا بِالْغَيْبِ ۖ وَيَقُولُونَ سَبْعَةٌ وَثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ ۚ قُل رَّبِّي أَعْلَمُ بِعِدَّتِهِم مَّا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ ۗ فَلَا تُمَارِ فِيهِمْ إِلَّا مِرَاءً ظَاهِرًا وَلَا تَسْتَفْتِ فِيهِم مِّنْهُمْ أَحَدًا ﴿٢٢﴾


کچھ لوگ تو کہیں گے کہ اصحاب کہف تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا۔ کچھ کہیں گے کہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا، غیب کی باتوں میں اٹکل (کے تیر تکے) چلاتے ہیں، کچھ کہیں گے کہ وه سات ہیں اور آٹھواں ان کا کتا ہے۔ آپ کہہ دیجیئے کہ میرا پروردگار ان کی تعداد کو بخوبی جاننے واﻻ ہے، انہیں بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں۔ پس آپ ان کے مقدمے میں صرف سرسری گفتگو کریں اور ان میں سے کسی سے ان کے بارے میں پوچھ گچھ بھی نہ کریں۔


 بنیادی مقصد  :َ

 اگرچہ  کوئی بات ہمیں عقل کے مطابق  عجیب  معلوم ہوتی ہے  مگر یہ ضروری  نہیں کہ حقیقت  کے لحاظ  سے بھی وہ عجیب  ہو کیونکہ  اس کائنات کے خالق نےا یسا  منظم نظام  قائم کیاہے کہ عقل  حیران رہ جاتی  ہے۔ا صحاب کہف  کو زمانہ  دراز  تک سلانے  کے بعد جگانے  کا مقصد  یہ تھا  تاکہ لوگ سمجھ  لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا  ہے قیامت  میں سب مردوں  کےا جسام  کو زندہ کرے گا اور قیامت  کے آنے  میں کوئی  شبہ نہیں ۔


سائنسی تحقیق :

   آخر ایسا کیسے ممکن  ہو ا کہ اصحاب کہف  پر وقت  اثر انداز نہ ہوا اور نہ ہی  ان کے جسمانی  خدوخال  میں کوئی تبدیلی آئی  جبکہ ان کے آس پا س تین سو سال  اک عرصہ گزرگیا۔

 یہ افراد زمین  پر سوئے ہوئے تھے  ان  کے پورے جسم  پر کشش ثقل  کی مقدار برابر  تھی او را ن کی جگہوں کی کشش ثقل  اور ارد گرد کی کشش ثقل  سے بہت زیادہ  تھی لیکن  یہ مقدار  ایک ہی وقت میں کیسے ممکن  ہوسکتی ہے ۔


سائنسدان  اب یہ تسلیم کرچکے ہیں  کہ زمین کے مختلف  حصوں پر  کشش ثقل ایک جیسی  نہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیےیہ مقدار کم  زیادہ  کرنا کچھ  مشکل نہیں ۔ان لوگوں  کی جگہوں  کا کشش ثقل  اتنا زیادہ  بڑھ گیا تھا کہ وقت کی رفتار بہت کم ہوگئی تھی  یہاں تک کئی سو سال  گزر گئے ۔


سورۃ کہف کی خصوصیت :

  حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت  ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

 ” جو شخص جمعہ کےدن سورہ کہف  پڑھ لے وہ  آٹھ روز تک   ہر فتنہ  سے بچا رہے گااور اگر دجال نکل آئے  تو یہ اس کے فتنے سے بھی بچارہے گا۔ ( تفسیر ابن کثیر )


مسندا حمد  میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

 ” جو شخص سورہ کہف  کی پہلی  اور آخری آیتیں  پڑھ لے  اس کے لیے  اس کے قوم  سے سر تک ایک نور ہوجاتا ہے ، اور جو پوری  سورۃ پڑھ لے  اس کے لیے  زمین  سے آسمان  تک نور ہوجاتا ہے

Share: