”*کرونا وائرس*“ کا آغاز چین سے ہوا۔ اس وبائی امراض نے دیکھتے ہی دیکھتے پہلے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لیا اور اب اس کے اثرات ِبد پوری دنیامیں پھیلنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے گزشتہ صدیوں میں ایسی ایسی وبائی بیماریاں آئیں کہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ مرگئے، گاوں کے گاوں اور شہرکے شہر صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ یہاں پر صرف ایک تاریخی خوف ناک وباءکاذکر کرتا ہوں۔ اس وباءکو مورخین "طاعون عمواس“ کہتے ہیں۔
"عمواس“ بیت المقدس اور رملہ کے بیچ واقع ایک بستی کا نام ہے، چونکہ اس علاقے سے طاعون کی ابتدا ہوئی تھی اسی لیے اس کو ”طاعون عمواس“ کہا جاتا ہے۔ 17 ہجری کے میں یہ وبائی مرض عمواس سے شروع ہو کر شام و عراق کے پورے درمیانی علاقے میں پھیل گیا، مسلسل ایک ماہ تک جاری رہا۔ ایک دفعہ اس وباءکی شدت کچھ کم ہوگئی، لیکن اس نے پھر زورپکڑ لیا۔ مجموعی طور پر اس نے 52 ہزارمردوں، عورتوں، شہریوں اور فوجیوں کی جانیں لیں۔
مورخین کے مطابق معرکة الجزیرہ کے سلسلے میں سیدنا عمرؓ کے جابیہ نامی مقام تک پہنچ کر مدینہ واپس لوٹنے کی وجہ یہی وباءتھی۔ انہوں نے طاعون کی خبر سن کر مہاجرین و انصار سے مشاورت کی تو کچھ نے کہا کہ آپ جس کام سے آئے ہیں، اسے پورا کیے بغیر نہ لوٹیں۔ دوسروں نے مشورہ دیا کہ کبار اصحابِ رسول کووبا کے خطرے میں ڈالنا مناسب نہیں۔ جب انہوں نے واپسی کا فیصلہ کر لیا تو ابوعبیدہ بن جراحؓ نے پوچھا: ”کیا اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟“
حضرت عمرؓ کا جواب تھا: ”ہاں! ہم اللہ کی ایک تقدیر سے اس کی دوسری تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں۔“ عبدالرحمن بن عوفؓ نے یہ فرمان نبوی سنا کر عمرؓ کے موقف کی تائید کی: ”جب تم کسی قوم کی سر زمین میں طاعون پھیلنے کی خبر سنو تو وہاں نہ جاو اور جب یہ اس جگہ پھوٹے جہاں تم موجود ہو تو اس سے فرار کی خاطر وہاں سے نہ نکلو۔“ (بخاری)
اس مرض کا شکار ہونے والوں میں حضرت ابوعبیدہؓ، معاذ بن جبلؓ، عبدالرحمن بن معاذؓ، یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم وغیرہ جیسے کبار صحابہ شامل تھے۔ حارث بن ہشام کے ساتھ شام جانے والے ان کے 70 اہل خانہ میں سے صرف 4 بچ پائے۔ خالد بن ولیدؓ کے 40 بیٹوں نے اس وباءمیں جان دی۔
آپﷺ نے اپنی حیات میں جہاں روحانی اور باطنی بیماریوں کے حل تجویز فرمائے وہیں جسمانی اور ظاہری امراض کے لیے بھی اس قدر آسان اور نفع بخش ہدایات دیں کہ دنیا چاہے جتنی بھی ترقی کر لے، مگر ان سے سرِمو انحراف نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم اطباءنے اس کو موضوع بحث بنایا؛جس کے سبب نہ صرف طب کے میدان میں نئی نئی تحقیقات منظرعام پر آئیں، بلکہ بہت ساری نئی نئی ادویات بھی متعارف ہوئیں، بہت سے لاعلاج امراض کا علاج دریافت کیاگیا۔ یونانی کتابوں کے عربی ترجمے کیے، ہسپتال اور شفاخانے قائم کیے اور طب کو خیالی مفروضوں سے نکال کر ایک عملی سائنس کی شکل دی، گویا اسلام اور اگلے دور کے مسلمان صحت عامہ کے بارے میں غیرمعمولی حد تک سنجیدہ اور حساس رہے۔
ہمارا دین جدید دور کے علاج معالجے کی سہولتوں کے استعمال کا مخالف نہیں ہے، بلکہ ان سے استفادہ کاامر کرتا ہے، فرمان نبوی ہے علم وحکمت مومن کی گم شدہ میراث ہے، اس کو جہاں ملے اس سے استفادہ کی کوشش کرے۔ جب اس طرح کے وبائی امراض پھیلیں تو ہمیں اپنا عقیدہ درست رکھنا چاہیے کہ وبائی امراض میں حضورﷺ اور صحابہ کرامؓ کا اس موقع پر کیا عمل تھا۔
یوں توبیماری اور شفاءاللہ کے قبضہ قدرت میں ہے، وہ جسے چاہتا ہے بیماری میں مبتلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے صحت جیسی عظیم الشان نعمت سے سرفراز فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کے ساتھ ساتھ اس کا علاج بھی نازل فرمایا ہے۔ جہاں بیماری کا لاحق ہونا مشیت ایزدی پر موقوف ہے، وہیں بیماری کا متعدی ہونابھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر ناممکن ہے۔ اس لیے مسلمان کا عقیدہ یہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی بیماری لاحق نہیں ہوتی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی طبیعت اور اس کی فطرت کا خیال رکھتے ہوئے اسے حکم دیا ہے کہ ”مجذوم یعنی کوڑھ کے مریض سے اس طرح بھاگو جس طرح تم شیر سے بھاگتے ہو۔“ (بخاری)
اسی طرح طاعون وپلیگ کی بیماری کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ”جس شہر میں طاعون پھوٹ پڑا ہو، وہاں مت جاو، اوراگر پہلے سے اس شہر میں ہوں، تو وہاں سے باہر نہ جاو۔“(بخاری)
ہمارے دین میں ان امراض سے نمٹنے کے لیے کیا تعلیمات دی گئی ہیں۔ علاج کرنا سنت ہے۔ حضورﷺ کا حکم ہے: ”یَاعِبَادَ اللّٰہِ تَدَاوَوا“ اور یہ بخاری و مسلم کی یہ بھی حدیث ہے: ”اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کا علاج رکھا ہے۔“ تو علاج کا بھی اہتمام رکھنا چاہیے۔ ساتھ میں متوجہ بھی کریں کہ ریسرچ بھی کرنی چاہیے جیسا کہ ارشاد نبویﷺہے: ”اللہ تعالی نے ہر بیماری کی دوا نازل کی ہے، یہ الگ بات ہے کہ کسی نے معلوم کر لی اور کسی نے نہ کی۔“ (مستدرک حاکم)
نبیﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر بیماری کا علاج موجود ہے تو کورونا وائرس کا علاج نہیں ہے، اس کا مطلب ہے کہ علاج تو موجود ہے، مگر ہمیں معلوم نہیں ہے۔ مسلم سائنسدانوں کو اس حدیث کی روشنی میں ریسرچ کرنی چاہیے۔ حفاظتی تدابیر جو ڈاکٹر حضرات بتاتے ہیں اس کا اہتمام بھی کرنا چاہیے۔