عوام الناس میں یہ بات بہت مشہور ھے کہ قیامت والے دن انسان کو اپنے اور اپنی والدہ کے نام سے پکارا جائے گا جبکہ اس کی کوئی واضح دلیل موجود نہیں ھے بلکہ حقیقت یہی ھے کہ قیامت کے دن انسان کو والدہ کے نام سے نہیں پکارا جائے گا، بلکہ اپنے اور اپنے والد کے نام سے پکارا جائے گا، چنانچہ حدیث شریف میں ہے
عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ اَبِي زَکَرِيَّا عَنْ اَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وسلم : إِنَّکُمْ تُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَسْمَائِکُمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِکُمْ فَأَحْسِنُوا أَسْمَاءَ کُمْ‘‘.
حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روزِ قیامت تم اپنے ناموں اور اپنے باپ کے ناموں سے پکارے جاؤگے، لہٰذا اپنے نام اچھے رکھا کرو۔‘‘
(مسند احمد بن حنبل، سنن أبی داوٗد)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’إِنَّ الْغَادِرَ يُرْفَعُ لَهُ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يُقَالُ: هَذِهِ غَدْرَةُ فُـلَانِ بْنِ فُـلَانٍ‘‘.
ترجمہ: ’’عہد شکن کے لیے قیامت کے روز ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔‘‘ (بخاري، ابن کثير )
ابن بطال اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’وفي قوله: ’’هذه غدرة فلان بن فلان‘‘ ردّ لقول من زعم أنه لایدعی الناس یوم القیامة إلا بأمهاتم؛ لأن في ذلک ستراً علی آبائهم ...‘‘
ترجمہ: ’’رسول اللہﷺ کے اس فرمان: ’’هذه غدرة فلان بن فلان‘‘ میں ان لوگوں کے اس قول کا ردّ ہے جن کاخیال ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کی ماؤں ہی کے نام سے بلایا جائے گا، کیوں کہ اس میں ان کے باپوں پرپردہ پوشی ہے۔ ‘‘
عوام میں جو بات مشہور ہے کہ قیامت کے دن والدہ کے نام سے پکارا جائے گا، اور اس پر یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر باپ کے نام سے پکارا جائے گا تو پھر حضرت عیسی علیہ السلام کو کس نام سے پکارا جائے گا، یہ بات بھی غلط ہے اور دلیل بھی درست نہیں ہے، کیوں کہ حضرت آدم علیہ السلام کے نہ تو والد ہیں اور نہ ہی والدہ۔ جیسے انہیں پکارا جائے گا، اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی پکاردیا جائے گا، عمومی حکم میں اکثر و بیش تر مستثنیات ہوتے ہیں، یہ بھی اسی قبیل سے ہے۔
بہرحال قيامت کے دن انسان کو والد ھی کی طرف منسوب کرکے پکارا جائے گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں اس مسئلے کو واضح کرنے کے لیے جو حدیث پیش کی ہے ،اس پر بایں الفاظ عنوان لگایا ہے:
*باب ما يدعی الناس بآبائهم*
اس عنوان کی وضاحت شارحِ صحیح بخاری علامہ عینی رحمہ اللہ یوں کرتے ہیں
“ای هٰذا باب في بيان ما يدعی الناس بآسماہھم و بأسماء آبائهم يوم القيامة" (عمدۃ القاری)
یعنی یہ باب اس بیان میں ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کے والد کے نام سے پکارا جائے گا۔
نیز جس روایت میں والدہ کی طرف منسوب کرکے پکارے جانے کا ذکر ہے، علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس پر یوں تبصرہ کرتے ہیں :
"قلتُ هو حديث أخرجه الطبرانی من حديث ابن عباس وسنده ضعيف جدًّا, وأ خرج ابن عدی من حديث انس مثله وقال:منكر"
(فتح الباری) یعنی وہ حدیث نہایت ہی منکر ہے۔
مندرجہ بالا دلائل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قیامت کے دن انسان کو ماں کے نام کے ساتھ نہیں بلکہ باپ کی طرف ھی منسوب کرکے پکارا جائے گا۔
ابن بطال رحمہ اللہ کاقول ھے
في التعریف وأبلغ في التمییز وبذلک نطق القرآن والسنۃ۔
ترجمہ: باپ کے نام سے پکارناپہچان میں زیادہ واضح اور تمیز میں زیادہ بلیغ ہے اور قرآن و سنت بھی اسی پر شاہد ہیں۔
(فتح الباری)
※※※※※