ماہِ رمضان ایک عظیم مہمان
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ-فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕ-وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ-یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘-وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۱۸۵)
رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی ہے اور فیصلے کی روشن باتوں (پر مشتمل ہے۔) تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے تو ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار ھو یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں رکھے۔اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور ( یہ آسانیاں اس لئے ہیں ) تاکہ تم (روزوں کی) تعداد پوری کرلو اور تاکہ تم اس بات پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔
رمضان المبارک کے مہینے سے پہلے شعبان المعظم کا مہینہ آتا ہے اس وقت شعبان کا مہینہ ختم ہونے میں تھوڑے دن باقی رہ گئے ہیں۔ رسول کریم (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) رمضان کے آنے سے پہلے رمضان المباک کی تیاری شروع کردیتے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو روزے کی اہمیت وافادیت بیان فرماتے اور اس کی حقیقت واضح کرتے۔
گھر میں کسی مہمان کی آمد ھو تو اھلِ خانہ یقیناً اس کی تیاری پہلے سے کرتے ھیں اور اگر کوئی بڑا معزز مہمان آرہا ہو تو اُس کے لئے تو بہت کچھ کیاجاتا ہے تاکہ مہمان کی مہمان نوازی میں کوئی بھی کسر باقی نہ رھ جائے۔ ان دنوں ھمارے ھاں جس معزز مہمان کی آمد ھونے والی ھے اسے رمضان المبارک اور رمضان الکریم کے ناموں سے یاد کیا جاتا ھے۔ رمضان المبارک یقیناً بہت ھی معزز مہمان ہے ۔ ھمیں اس کے استقبال اور مہمان نوازی کے لئے پہلے سے تیاری کرنی چاھیے ہمیں اپنا دل اور منہ دھوکر اس معزز مہمان سے ملاقات کی تیاری کرنی چاہئے…
کاروباری حضرات اپنے کاروبار سمیٹ کر ایسی ترتیب بنائیں کہ انہیں عبادت وتلاوت کا زیادہ سے زیادہ وقت مل سکے…
اللہ والوں کو خروج فی سبیل اللہ کا رُخ کرنا چاہئے کہ رمضان المبارک غزوہ بدر اور فتح مکہ کا مہینہ ہے… یہ مہینہ اگر جہاد یا رباط میں گزرے تو پھر کیا ہی مزے ہیں…
اہل قرآن کو قرآن پاک کی طرف زیادہ توجہ شروع کردینی چاہئے … اور خواتین کو خاص طور سے رمضان المبارک کی تیاری کا اہتمام کرنا چاہئے…رمضان المبارک کی تیاری کے لئے درج ذیل کام بہت ضروری ہیں۔
٭…جن کے ذمہ زکوٰۃ باقی ہے وہ فوراً خوشدلی کے ساتھ زکوٰۃ ادا کریں ۔ نوٹ اور زیورات کم ہونے سے نہ گھبرائیں ، بلکہ ان نوٹوں اور زیورات کو اپنی اصل زندگی کے لئے آگے بھیجنے کی عقلمندی کریں جہاں آپ نے ھمیشہ رھنا ھے
٭…جن کی نمازوں میں کسی بھی قسم کی کمزوری چل رہی ہیں وہ باجماعت اور باتوجہ نماز کا ابھی سے اہتمام شروع کردیں نماز کے بغیر ایمان اور اسلام بس نام کے ہی رہ جاتے ہیں اور کمزوری کے آخری درجے پر پہنچ جاتے ہیں۔
٭…جن کے ذمے کسی کاقرضہ ہے یا کسی کا حق واجب الادا ھے اور ان کے پاس مال موجود ہے توفوراً قرضہ/حق ادا کریں… مال کو اپنے پاس رکھ کر خوش ہوتے رہنا بہت بُری عادت ہے مال اس لئے ہوتا ہے کہ اس کے ذریعہ نیکیاں کمائی جائیں اور گناہوں سے بچا جائے ۔ پس آپ بھی اپنا قرضہ/ واجب الادا حق ادا کرکے مرنے سے پہلے اپنی جان چھڑائیں…قرضہ/ حق ادا ہو گا تو رزق میں برکت بھی شروع ہوجائے گی۔
٭…جن لوگوں کی موبائل یا نیٹ پر دوستیاں چل رہی ہیں۔ ناجائز یاریاں بڑھ رہی ہیں۔ وہ رمضان المبارک کے استقبال میں اپنا رویہ بدل لیں اور اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم کھالیں کہ… ہم اب موبائل اور کمپیوٹر کا غلط استعمال نہیں کریں گے ، اللہ تعالیٰ کے نام کی عظمت اور قسم ان شاء اللہ ان کے ارادوں کو مضبوط کردے گی…
٭…جن کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہے وہ ابھی سے اپنے غریب رشتہ داروں اور جاننے والوں کیلئے اور مجاہدین و دینی مدارس کیلئے لفافے بنانے شروع کردیں…بہت خوشی اورروحانی سرمستی کے عالم میں بڑے بڑے نوٹ ان لفافوں میں بھر کر…ان لفافوں کو خوشی سے دیکھیں کہ یہ ہے میرا اصل مال جو میرے کام آئے گا…
٭… افطار کیلئے کھجوریں خریدیں کہ رمضان المبارک سے پہلے تقسیم کرنی ہیں اور کھلے دل کے ساتھ مالی ہدایا کے ذریعے رمضان المبارک کے استقبال کی تیاری کرلیں…
٭…اہل جہاد اور اہل دعوت الی اللہ نیت کرلیں کہ جہاد اور دعوت کے حوالے سے جو کام ہمارے ذمے لگا ھے اُسے رمضان المبارک میں بھرپور اخلاص اور محنت کے ساتھ کرینگے۔ شہداء کرام کے گھرانوں کا خصوصی خیال رکھیں گے اپنے اسیربھائیوں کیلئے خوب اچھا سامان بھیجیں گے اور ان کیلئے زیادہ دعائیں مانگیں گے…
٭..غریبوں اور محتاجوں کو خود تلاش کرکے ضروریاتِ زندگی ان تک پہنچائیں اور اور یہ کام نہایت خاموشی اور رازداری سے کریں ان کی عزتِ نفس کا پورا پورا خیال رکھیں ۔ آپ نے یہ کام صرف اور صرف اللہ تعالی کی رضا کے لئے کرنا ھے وہ آپ کو ھر آن دیکھ رھا ھے
٭... رمضان المبارک کے لئے اپنا نظام الاوقات مرتب کریں، جس میں رات کے آخری حصہ میں اٹھ کر تہجد، ذکر و ازکار ، دعائیں سحری ، نمازوں اور تلاوت سے لیکر افطاری ، تراویح و دیگر معمولات تک کے لیے مناسب وقت متعین ہو اور نیند ، آرام اور گھر اور دفتر وغیرہ کے کاموں کی بھی رعایت رکھی جائے۔
خوش قسمتی سے مسلمانوں میں روزہ رکھنے کا جذبہ تو بہت پایا جاتا ہے الحمد للہ اکثریت روزہ رکھنے کی کوشش کرتی ھے لیکن بد قسمتی سے روزے سے فائدہ حاصل کرنے کی اور اپنی زندگی، اپنے گھر بار اور اپنے محلے کو بدلنے کی خواہش اکثریت میں نہیں ہوتی۔ نیکیوں کے اس موسم بہار میں عام طور صوم و صلوٰۃ، تلاوت قرآن، قیام اللیل، اعتکاف اور انفاق فی سبیل اللہ جیسی عبادات کا اہتمام روٹین کی عبادات کے طور پر کیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مسلم معاشرہ پر اس ماہ مبارک کے وہ خوشگوار اثرات جو مرتب ھونے چاھیں مرتب نہیں ہوپاتے۔ اگر انہی امور دین کو کامل شعور، جذبہ اخلاص اور سنت رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے مطابق ٹھیک ٹھیک ادا کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ ایک مہینہ ہی ایک مسلمان کی زندگی میں انقلاب برپا کرنے کیلئے کافی ہے۔ غیر شعوری طور پر کی گئی عبادات کے اثرات انسان کے دل و دماغ پر نہیں پڑتے جبکہ شعوری طور پر کی جانے والی عبادات کے نتیجے میں ذہن و فکر بدلتا ہے، اخلاق و اعمال بدلتے ہیں، پسند اور ناپسند کے رجحانات بدل جاتے ہیں اور فی الجملہ پوری زندگی میں اسلامی رنگ نمایاں ہوتا چلا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں روزے کے ذکر سے پہلے جان و مال کے سلسلے میں بہت واضح احکامات دیے گئے ھیں ۔ مال کے سلسلے میں کہا گیا ہے:
كُتِبَ عَلَيْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَـرَكَ خَيْـرَاۚ ِ ۨ الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِـدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ بِالْمَعْرُوْفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِيْنَ (180)
”مسلمانو! یہ بات بھی تم پر فرض کردی گئی ہے کہ جب تم میں سے کوئی آدمی محسوس کرے کہ اس کے مرنے کی گھڑی آگئی اور وہ اپنے بعد مال و متاع میں سے کچھ چھوڑ جانے والا ہو، تو چاہئے کہ اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں کیلئے اچھی وصیت کرجائے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔“(سورہ بقرہ)
روزے کے بیان کے ختم ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے پھر مال کے بارے میں جو ذکر کیا ہے وہ انتہائی غور وفکر کے لائق ہے۔
وَلَا تَاْكُلُوٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِهَآ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْـمِ وَاَنْتُـمْ تَعْلَمُوْنَ (188)
”اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناجائز طریقہ سے کھاؤ اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کیلئے پیش کرو کہ تمہیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے۔ (سورہ بقرہ)
مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ اس آیت مبارکہ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ھیں
یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ھے کہ مشقتِ نفس کی عبادتیں کچھ سود مند نہیں ہوسکتیں اگر ایک شخص میں بندوں کے حقوق سے بے پرواہی ہے اور مال حرام سے اپنے آپ کو نہیں روک سکتا تو اُس کی عبادتیں بس خالی خول کی مانند ھیں ۔ نیکی صرف اسی میں نہیں ہے کہ چند دنوں کیلئے تم نے جائز غذا اور جائز خواھشات ترک کردیں بلکہ نیکی کی راہ یہ ہے کہ ہمیشہ کیلئے ناجائز غذا اور ناجائز اُمور کو ترک کردو۔“
روزے سے پہلے، روزے کے بعد جو باتیں قرآن پاک میں بیان کی گئی ہیں اس کو اگر غور سے دیکھا جائے تو روزے کی مقصدیت پورے طور پر واضح ہو جاتی ھے ۔ ایک طرف جان کی حرمت کے بارے میں بیان کیا گیا ہے، دوسری طرف مال کی حرمت کا ذکر کیا گیا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی انسان کی جان، اس کی آبرو، اس کی عزت کا خیال نہیں کرتا اور ناجائز طریقہ سے دوسروں کا مال ہڑپ کرتا ہے تو اس کی ساری عبادتیں خاک میں مل جاتی ہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے کہ روزے دار جس سے اکثر ناواقف ہوتا ہے اور اگر واقف بھی ہوتا ہے تو اس کا خیال نہیں کرتا اور روزے داروں کی اکثریت کچھ ایسی ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہ رمضان المبارک آتے ہی مسجدیں بھر جاتی ہیں اور رمضان المبارک جاتے ہی خالی ہوجاتی ہیں۔ مساجد بھر اس لئے جاتی ہیں کہ ظاہری طور پر لوگ عبادت کے قائل ہیں لیکن ان کا باطن بدل جائے، ان کی فکر بدل جائے، ان کا رجحان بدل جائے، جھوٹ بولنا بند کردیں، وعدہ خلافی سے باز آجائیں، اپنے سے بڑوں کے ساتھ گستاخی اور بے ادبی سے پیش نہ آئیں، چھوٹوں سے بے رحمی کارویہ نہ اپنائیں، ماں باپ کے حقوق بلکہ اولاد ، رشتہ داروں، عزیزوں، پڑوسیوں کی حق تلفی نہ کریں۔ یہ چیزیں ایسے روزے داروں کے پلے نہیں پڑتیں جو محض بھوک پیاس اور جنسی عمل سے اپنے آپ کو باز رکھتے ہیں اور باقی سب کام دھرلے سے بغیر کسی روک ٹوک کے کرتے رہتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ھے ہر دینی حلقہ ، جماعت اور تنظیم اپنے حلقۂ اثر کے لوگوں کو روزے کی اس حقیقت سے واقف کرائیں کہ رمضان المبارک کا روزہ رکھنے کی کیا غرض و غایت ہوتی ہے اور رمضان المبارک میں روزے کی اتنی اہمیت کیوں ہے؟ رمضان المبارک ہی میں قرآن نازل ہوا ہے یعنی اسلام کا احکامات، ہدایات اور قوانین نازل ہوئے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سارے قوانین،احکامات کی پابندی کی جائے محض دن میں روزہ رکھ کر اور رات کے وقت قیام اور تلاوت کرکے یہ نہ سمجھا جائے کہ قرآن مجید کی تلاوت کا یا سننے کا حق ادا ہوگیا۔ ایک قرآن، دو قرآن، تین قرآ ن پڑھ کر ثواب لوٹ لیا گیا۔ اگر قرآن پاک صرف بالفرض قرآن پاک اسی کیلئے نازل ہواہوتا تو پھر وہ ہدایتیں جو چوروں کا ہاتھ کاٹنے کیلئے، زانی کو سنگسار کرنے کیلئے، جھوٹ بولنے والوں پر لعنت بھیجنے کیلئے، ناحق جان لینے والوں کیلئے، سزائے موت یا سنگسار کرنے کی بات کیوں کہی گئی ہوتی؟ صلاة التراویح میں تلاوت کرتے وقت امام اور مقتدی دونوں کو یہ باتیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس میں وہ باتیں ہیں جو انسانی زندگی کو بدلنے کیلئے آئی ہیں، جو معاشرے میں تبدیلی لانے کیلئے آئی ہیں، جو ہر طرح کے کرپشن اور ہر طرح کی برائی، ہر طرح کی گندگی اور غیر پاکیزگی کو دور کرنے کیلئے آئی ہے۔ سوچنے کی بات ھے کہ اگر ہم نہاکر بھی گندے ھی رہیں، ہم کھا کر بھی بھوکے رہیں، تو پھر نہانا کیسااور پھر کھانا کیسا؟
اللہ پاک ھمیں عمل کی توفیق عنایت فرمائے
آمین یا رب العالمین