اکابرین کا رمضان المبارک میں تلاوتِ قرآن کا انہماک

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ

رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی ہے اور فیصلے کی روشن باتوں (پر مشتمل ہے۔)

قرآن کریم کو رمضان المبارک سے خاص مناسبت ہے، نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ہر سال رمضان المبارک میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کریم کا دور فرمایا کرتے تھے… (بخاری شریف) صہابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا تو گویا رمضان المبارک دن رات تلاوتِ قرآن میں ھی گزرتا تھا

الحمدللہ آج  اس گئے گزرے زمانہ میں بھی صرف رمضان المبارک کے مہینہ میں پوری دنیا میں جتنا قرآن پاک پڑھا جاتا ہے شاید سال بھر میں بھی انتا نہ پڑھا جاتا ہوگا… اہل اللہ اور شائقین عبادت کے لئے یہ مقدس مہینہ موسم بہار بن کر آتا ہے، رمضان المبارک کا چاند دیکھتے ہی ان کے ذوق وشوق اور نشاط میں بے مثال اضافہ ہوجاتا ہے…

اب جی چاہتا ہے کہ رمضان المبارک کی مبارک ساعتیں ذکر واذکاراور تلاوت وعبادت میں گزریں اور ان بابرکت مصرفیتوں میں دنیا کی کوئی مصروفیت حائل نہ ہو، اور جب یکسوئی کے ساتھ آدمی کسی عبادت میں لگتا ہے تو حیرت انگیز طور پر عبادت کی مقدار بھی بڑھ جاتی ہے، اور وقت میں بھی صاف طور پر برکت کا مشاہدہ ہونے لگتا ہے… تمام اہل اللہ کا تجربہ ہے کہ دل کی صفائی، ایمانی کیفات میں زیادتی اور انسان میں استقامت کی صفات پیدا کرنے میں سب سے زیادہ پر اثر اور قوی التاثیر عمل’’ قرآن کریم کی تلاوت‘‘ ہے… اس لئے باتوفیق حضرات کی زندگی میں تلاوت میں اشتغال سب سے زیاہ نظر آتا ہے، اور فطری طور پر رمضان المبارک آتے ہی شوق میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے…


امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة اللہ علیہ

قطب عالم امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة اللہ علیہ کا رمضان المبارک میں مجاہدہ اس قدر بڑھا جاتا تھا کہ دیکھنے والوں کو رحم آجاتا، ۷۰/ سال کی عمر میں بھی عبادت کا یہ عالم تھا کہ دن بھر کے روزہ کے بعد اوبین کی بیس رکعتوں میں کم از کم دو پارے تلاوت فرماتے، تروایح بھی نہایت اہتمام اور خشوع وخضوع کے ساتھ ادا فرماتے، بچے ہوئے وقت میں زبانی تلاوت جاری رہتی، تہجد میں بھی دو ڈھائی گھنٹہ صرف ہوتے، نماز فجر کے بعد اشراق تک وظائف میں مشغول رہتے، دن کے اکثر اوقات بھی تلاوت واذکار اور مراقبہ میں گزرتے تھے، اس میں بھی یومیہ کم از کم ۱۵/ پارے قرآن کریم پڑھنے کا معمول تھا… (اکابر کا رمضان)  


حضرت مولانا قاسم صاحب نانوتوی رحمة اللہ علیہ

حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم صاحب نانوتوی رحمة اللہ علیہ نے رمضان المبارک ۱۲۷۷ھ میں سفر حجاز کے دوران ایک ایک پارہ یاد کرکے حفظِ قرآن مکمل فرمایا، پھر بکثرت قرآن پاک کا ورد رکھتے تھے اور تروایح میں بڑی مقدار میں قرآن پاک پڑھا کرتے تھے…


 شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب مہاجر مدنی رحمة اللہ علیہ

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب مہاجر مدنی رحمة اللہ علیہ کا رمضان المبارک اور اس کی عبادات میں انہماک زبان زد خاص وعام اور ضرب المثل ہے… ۴۲ سال تک رمضان المبارک میں روزانہ ۳۰، ۳۵ پارے پڑھنے کا معمول تھا، رمضان کی راتیں تدبر کے ساتھ تلاوت کلام پاک میں گزارتے… خط وکتابت بالکل بند رہتی، ملاقاتوں کا سلسلہ بھی بہت کم ہوجاتا، ۱۳۸۴ھ سے آپ نے پورے ماہِ مبارک کا اعتکاف فرمانا شروع کیا، آئندہ سالوں میں شائقین ومحبین کی تعداد روز افزوں ہوتی رہی اور یہ سلسلہ اتنا بڑھا کہ اس کی نظیر قریبی بزرگوں کے حالات میں نہیں ملتی… سہارنپور کے علاوہ آپ نے مدینہ منورہ، فیصل آباد (پاکستان) اور اسٹینگر(جنوبی افریقہ) میں بھی رمضان المبارک میں قیام فرمایا…

آپ کی خانقاہ میں رمضان المبارک کی راتیں دن کا سماں پیش کرتی تھیں… بہت لوگ جاگ کر ذکر وتلاوت میں مشغول رہتے اور صبح کی نماز کے بعد آرام کا معمول ہوتا… دس بجے کوئی اصلاحی بیان ہوتا، پھر ظہر تک ذکر میں مشغول رہتے تھے… عصر کے بعد سلوک وتصوف سے متعلق کتابوں (امداد السلوک اورکمال الشیم) کی سماعت ہوتی… افطار سے ۲۰ منٹ قبل ہہ سلسلہ موقوف ہوجاتا، پھر مغرب کے بعد کھانے سے فراغت کے بعد حضرت والا کی خصوصی مجلس ہوتی… تروایح میں تین پارے پڑھے جاتے جس میں ڈیڑھ گھنٹہ صرف ہوتا، وتر سورۃ یٰسین کے ختم اور۴۰ درود شریف پڑھنے کے بعد دعا کا معمول ہوتا… حضرت شیخ رحمة اللہ علیہ کے ہاں اعتکاف میں فضول بات چیت اور مجلسی گفتگو سخت ناپسند تھی، اور آپ اپنے معتمد حضرات کے ذریعہ اس پر پوری نگاہ رکھتے تھے اور اگر کسی کی کوتا ہی ظاہر ہوتی تو اس پر نکیر فرماتے تھے… (معمولات رمضان وغیرہ)


فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمة اللہ علیہ

فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی مفتی اعظم دار العلوم دیوبند رحمة اللہ علیہ کا رمضان المبارک دیکھنے والوں کو  رشک آتا تھا، اس ضعف ونقاہت کے عالم میں بھی عبادت کی ہمت کے ساتھ ادائیگی آپ ہی کا حصہ تھا… جب تک طاقت رہی رمضان میں روزانہ تیس پارے پڑھنے کا معمول رہا، اشراق، چاشت، اوبین اور تہجد کے علاوہ نمازوں کی سنن موکدہ میں طویل قرآت کا اہتمام فرماتے تھے… چھتہ کی مسجد دیوبند میں آپ اکثر رمضان میں قیام فرماتے تھے، سالوں سے آخری عشرہ کا اعتکاف فرمانے کا معمول رہا… سینکڑوں متوسلین اس موقع کو غنیمت جان کر آپ کی قدم بوسی کے حاضر ہوتے تھے، مسجد وچھتہ کی رونق رمضان میں دوبالا ہوجاتی تھی… بعد میں بنگلہ دیش اور میل وشارم( مدارس) میں بھی قیام فرمایا، جس کا عظیم الشان دینی فائدہ ان علاقوں میں ظاہر ہوا…

آپ کی خانقاہ میں دن رات تلاوت، ذکر اور مجاہدہ کا سماں رہتا تھا… صبح ۱۱سے ۱۲ بجے تک الاعتدال گلدستہ سلام وغیرہ کتابوں کی تعلیم ہوتی… ظہر سے عصر کے درمیان ختم خواجگان اور ذکر جہری کا معمول تھا… عصر کے بعد فضائل رمضان، اکابر کا رمضان اور کمال الشیم وغیرہ کتابیں پڑھی جاتی تھیں…

تروایح میں تین یا کم از کم دو کلام پاک پڑھے جاتے تھے، تہجد کی جماعت کا اہتمام نہیں تھا، لوگ الگ الگ یا دو تین ساتھی مل کر ادا کرتے تھے… حضرت مفتی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کثرت سے تلاوت میں مشغول رہتے، ظہر کی اذان ہوتے ہی سنت کی نیت باندھ لیتے اور جماعت کے قریب تک نماز میں تلاوت کرتے رہتے تھے… یہی کیفیت ظہر اور عشاء کی سنتوں میں بھی رہتی… اسی طرح چاشت کی نماز میں بھی طویل قرآت فرماتے تھے، بالخصوص رمضان المبارک میں آپ کے چہرے پر انوار وبرکات کا ایسا اثر دکھائی دیتا تھا کہ نگاہیں خیرہ ہوئی جاتی تھیں اور اس قدر مسلسل عبادت کے با وجود آپ کے روئے انور سے تکان کا احساس بھی نہ ہوتا تھا… اے اللہ! اپنے فضل سے ہمیں بھی ایسا ہی شوق تلاوت وعبادت عطاء فرمادے، آمین…


حضرت مولانا قاری سید صدیق احمد صاحب باندوی رحمة اللہ علیہ

عارف باللہ حضرت اقدس قاری سید صدیق احمد صاحب باندوی رحمة اللہ علیہ رمضان المبارک کا خاص اہتمام فرماتے تھے، عرصئہ دراز تک باندہ کی جامع مسجد میں شروع کے دس دنوں میں تروایح میں ایک قرآن پاک سنانے کا معمول رہا…

دوسرے عشرہ میں اپنے اکابر حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب رحمة اللہ علیہ حضرت شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب رحمة اللہ علیہ اور فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود صاحب گنگوہی  رحمة الله عليه وغیرہ کی خدمت میں چند یوم قیام کا معمول رہا… اس کے بعد اخیر عشرہ سے پہلے پہلے واپس ہتھورا تشریف لے آتے اور آخری عشرہ کا اعتکاف فرماتے تے اور اس اعتکاف کا ایسا التزام تھا کہ فرماتے تھے کہ ۱۶ سال کی عمر کے بعد سے کبھی اعتکاف کا ناغہ نہیں ہوا…

پہلے یہ اعتکاف ہتھورا کی گاؤں کی مسجد میں ہوتا تھا، بعد میں مدرسہ کی مسجد میں ہونے لگا، اور مجمع بھی آہستہ آہستہ بڑھنے لگا…

آخری عشرہ میں بھی ۳، ۳ پارے سناکر تروایح میں ایک ختم اور فرمایا کرتے تھے… رمضان المبارک کے اکثر اوقات ذکر وفکر اور تلاوت میں گزرتے اور وقت کا ضیاع بالکل پسند نہ فرماتے تھے… رمضان المبارک میں طبعیت تو یہ چاہتی ہے کہ میں ہوں اور کچھ ہم مزاج احباب ہوں، قرآن پاک کی تلاوت ہو اور اس کی یاد ہو لیکن کیا کروں مجبوری ہے ان دنوں اگر کوئی مجھ سے (بلا مقصد) بات کرتا ہو تو یوں لگتا ہے جیسے کسی نے مجھ پر گولی چلادی ہے‘‘… (تزکرۃ الصدیق)

رمضان المبارک میں آپ سحری سے کافی پہلے بیدار ہوکر نوافل تہجد میں مشغول ہوجاتے ، پھر سحری کے بعد اول وقت فجر کی نماز ادا کی جاتی، اس کے بعد آپ کا یاکسی مہمان عالم کا اصلاحی بیان ہوتا، اس کے بعد آپ نماز اشراق ادا کرکے آرام فرماتے… دس بجے کے قریب بیدار ہوکر نماز چاشت ادا فرماتے اور پھر تلاوت میں مشغول ہوجاتے، اس دوران ضروری ملاقاتوں ور دیگر امور کی تکمیل کا سلسلہ بھی جاری رہتا… نماز ظہر سے  کچھ پہلے آرام فرماتے، پھر ظہر کے بعد ایک گنھٹہ کے قریب بیان فرماتے، اس کے بعد پھر تلاوت کا سلسلہ شروع ہوجاتا، بہت سے معتکفین چھوٹے چھوٹے تعلیمی حلقے قائم کرکے قرآن مجید کی تصیح اور علمی مذاکرہ میں مشغول رہتے، عصر کے بعد فضائل رمضان کتاب سنائی جاتی پھر ذکر کرنے والے حضرات ذکر میں مشغول رہتے اور حضرت اس وقت دیکھ کر تلاوت فرماتے تھے،  اور تروایح کے بعد زاد السعید سے درود پاک سنانے اور دعا کا معمول تھا، آپ عموماً تروایح کے بعد ہی کھانا تناول فرمایا کرتے تھے…

الحمد للہ وفات کے سال تک یہ معمولات برابر جاری رہے، اور آپ کی طرف سے ہر طرح کے تکلفات سے اجتناب کے باوجود بڑی تعداد میں شائقین سے اکتسابِ فیض کے لئے ہتھورا پہنچتے رہے… (تحفة رمضان)

Share: