سید الشھداء ، عمِ٘ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت آمیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ


*نام و نسب* 


حضرت حمزہ  رضی اللہ تعالی عنہ بن عبدالمطلب بن ھاشم بن عبد مناف بن قصی۔ 


*کُنیت*


آپ  رضی اللہ تعالی عنہ کی کُنیت آپ  رضی اللہ تعالی عنہ کے دونوں بیٹوں کے نام کی نسبت سے ابویَعْلٰی، اور ابو عُمارۃ ہے۔والد کا نام :حضرت عبدالمطلب بن ھاشم۔والدہ کا نام:ھالۃ بنت وُھیب۔


*حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے تعلّق*


آپ نبی پاکﷺکے سگےچچا تھےاور رسول کریم ﷺکے رضاعی بھائی بھی تھے۔ راجح قول کے مطابق حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت حضورﷺسے دوسال قبل ہوئی۔


*اسلام لانے کا واقعہ*


حضرت حمزہ  رضی اللہ تعالی عنہ اعلانِ نبوّت کے دوسرے سال اسلام لائے۔ایک دن ابو جہل نے حضورﷺ کو  بُرا بھلا کہا،حضورﷺنے اُس کی باتوں کا جواب نہیں دیا۔ایک  کنیز نے یہ تمام منظر دیکھا اورحضرت حمزہ  رضی اللہ تعالی عنہ کو بتادیا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ جلال میں آگئے، ابوجہل اپنی قوم کے ساتھ مسجد حرام میں بیٹھا ھوا تھاا،آپ نے اپنی کمان مار کر اُس کا سر زخمی کردیا اور وہیں اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان بھی کردیا ۔ابو جہل کا سر پھاڑنے اور جوش و غضب میں اپنے ایمان لانے کا اعلان کر کے جب حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے گھر پہنچے تو اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

“تم سردارِقُریش ہو کیا تم اس نئے دین کی پیروی کرو گے ؟اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ دو گے؟جو کام تم نے کیا ہے اُس سے بہتر تھا کہ تم مر جاتے”

وہ ساری  رات اِسی تذبذب کے عالم میں اللہ کے حضور صحیح اور سیدھا راستہ دکھانے کی دعا کرتے رھے صبح حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اوراپنی کیفیت بتائی ،رسول اکرمﷺ  نے آپ کو اسلام کے بارے میں بتایا حتّٰی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اسلام لانے کی توفیق عنایت فرما دی ۔


*حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شان*


نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ہم چھ حضرات اولادِ عبدالمطّلب اہلِ جنّت کے سردار ہیں:  


(۱)میں (محمّد مصطفیﷺ)


(۲)میرے چچا جان حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ


(۳،۴) میرے بھائی علی المرتضی اور جعفر رضی اللہ تعالی عنہما


(۶،۵) میرے نواسے امام حسن اور امام حسین رضی اللہ تعالی عنہھما


ایک صحابی کے ھاں لڑکے کی ولادت ہوئی ، انہوں  نےنام رکھنے کے حوالے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا تو   آپ ﷺ نے فرمایا:اُس کا نام اُس شخص کے نام پر رکھو جو مجھے سب لوگوں سے زیادہ محبوب ہے یعنی حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ نبی پاکﷺنے فرمایا: میرے سب چچاؤں میں سب سے بہترین حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔


*نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلے عَلَمبردار*


نبی کریم ﷺنے پہلا جنگی عَلَم حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے باندھا اور اُس عَلَم کے ساتھ آ پ  کو سَر زمینِ جُہینہ کے ساحل کی طرف روانہ فرمایا۔


*غزوۂ بدر میں دادِ شُجاعت*


اس غزوہ میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا انداز ہی نرالا تھا آپ حضورﷺ کے قریب رہتے ہوئے آپ ﷺ کا دِفاع کرتے ہوئے بیک وقت دو تلواریں چلا رہے تھے اس جنگ میں آپ نے کئی کافروں کو واصل جہنم کیا ۔جنگِ بدر میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے جوش و جذبہ کا عجیب عالَم تھا مشرکین پر حملے کرنے میں آپ اس قدر آگے بڑھ گئے کہ حضورﷺ کو تشویش ہوئی اور آپﷺنے حضرت علی کو بھیج کر انہیں اپنے قریب بلا لیا۔کافروں کے لشکر میں سے سب سے پہلے اسود بن عبدالاسد المخزومی جب مسلمانوں کے پانی کے حوض کو منہدم کرنے کے ارادے سے آیا تو حضرت حمزہ  رضی اللہ تعالی عنہ ہی اُس پر حملہ آور ہوئے اور اُس کی پنڈلی کاٹ کر رکھ دی اور دوسرے  وارمیں اسے قتل کردیا۔


جنگ اُحد کے بارے میں حضورﷺ کی  اور  بہت سے آکابر صہابہ کرام کی رائے یہ تھی کہ مدینے میں رہتے ہوئے کُفّار سے مقابلہ کیاجائے جبکہ حضرت حمزہ   رضی اللہ تعالی عنہ اور متعدد نوجوان صحابہ  کرام کی رائے مدینے سے باہر جا کر جنگ کرنے کی تھی  تاکہ مسلمانوں  کے اس دفاعی انداز اختیار کرنے پر دشمن بزدلی نہ سمجھیں المختصر حضورﷺنے حضرت حمزہ   رضی اللہ تعالی عنہ اور نوجوان صہابہ کرام  کی رائے کو قبول فرما لیا۔یہ جمعہ کے دن کی بات تھی اُس دن بھی حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ روزے دار تھے اور جس دن آپ شہید ہوئے یعنی بروزِ ہفتہ بھی آپ روزے سے تھے۔


*جنگِ اُحُد میں دادِشجاعت*


جنگِ اُحُد میں بھی حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ حضورﷺکے قریب رہتے ہوئے  دو تلواروں کے ساتھ لڑ رہے تھے اور آپ  کی زبان پر یہ کلما ت تھے:

“میں اللہ تعالیٰ کا شیر ہوں اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شیر ہوں” 

غزوۂ اُحد میں آپ نے تنِ تنہا تیس سے زائد کافروں کو قتل کیا تھا۔


*شہادت کا واقعہ*


شوّال کا مہینہ اور ہفتہ کے دن  ان کی شھادت پر تو سب کا اتفاق ھے لیکن چونکہ غزوۂ اُحد  کی تاریخ میں آختلاف ھے اس لئے ان کی شھادت کی تاریخ میں بھی اختلاف پایا جاتا ھے حضرت حمزہ  رضی اللہ تعالی عنہ میدان  جنگ میں اپنی شجاعت و بہادری کے جوہر دکھا رہے تھے، ایک کافر کو   قتل کرنے کے بعد جب آپ اُس کی زرہ اُتاررہے تھے توآپ کے پیٹ سے زرہ سرک گئی وحشی رضی اللہ تعالی عنہ نے جو اس وقت تک مسلمان نہیں ھوئے تھے  نشانہ باندھ کر ایک چھوٹا نیزہ آپ کے پیٹ میں دے مارا جو کہ آر پار ہو گیا اور آپ شہید ہوگئے ۔جنگِ بدر میں سیّدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جُبَیْر بن مُطْعَم کے چچا کو ہلاک کیا تھا وحشی حبشی رضی اللہ تعالی عنہ جبیر کا غلام تھا جبیر نے اس سے کہا تھا اگر تم میرے چچا کے عوض محمدﷺ کے چچا کو قتل کر دو توتم میری طرف سے آزاد ہو۔اسی لالچ  میں وحشی حبشی رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت حمزہ  رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کر دیا۔  اللہ کی شان اس نے حَبشی وَحشی رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی بعد میں اسلام لانے کی توفیق دے دی ۔حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کرنے کے بعد کافروں نے آپ کا پیٹ چاک کیا اور کلیجہ نکال لیا گیا  ، ہندزوجہ ابوسفیان نے کلیجہ کو چبایا نگلنے کی کوشش کی لیکن نگل نہ سکی پھر اُسے تھوک دیا۔کافر عورتوں نے  حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے اور دیگر شہداء کے کان ناک کاٹ کر انہیں لڑی میں پرو کر اُن کے کڑے،بازو بند اور پازیب بنائے اور انہیں پہن کر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئیں۔ (ہندہ اور ان کے شوہر ابوسفیان دونوں نے  بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا رضی اللہ تعالی عنہما) بوقتِ شہادت آپ کی عمر چوّن ۵۴سال یا انسٹھ(۵۹)سال کی تھی۔


*غمِ مصطفیﷺ*


جب نبی کریمﷺ نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے جسم کو دیکھا تو آپﷺ رونے لگے ،آپ کے کٹے ہوئے جسم کو دیکھ کر شدّتِ غم سے آپﷺ کی آواز بلند ہو گئی پھر آپﷺنے ارشاد فرمایا:اگر حضرت صفیّہ رضی اللہ تعالی عنہا نہ ہوتیں  تو میں حضرت حمزہ  رضی اللہ تعالی عنہ کو یونہی رکھ چھوڑتا حتّٰی کہ اُنہیں پرندوں اور درندوں کے پیٹوں سے جمع کیا جاتا۔ (حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی سگی بہن تھیں۔)اُس وقت نبی کریمﷺنے فرمایا: ’’حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ سیّدالشُّہداء ہیں‘‘۔ایک روایت کے مطابق فرمایا: حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ سب سے بہترین شہید ہیں۔نبی کریم ﷺحضرت حمزہ  رضی اللہ تعالی عنہ کی لاش کے  پاس کھڑے تھے،آپﷺنے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کومُخاطَب کرتے ہوئے فرمایا:اے چچاجان ! اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے بلاشبہ آپ خوب صلہ رحمی کرنے والے اور کثرت سے نیکیاں کرنے والے تھے۔ 



*حضرت حمزہ  رضی اللہ تعالی عنہ کی نمازِ جنازہ*


نبی کریم جس کسی جنازے پر تکبیر کہتے تو اُس پر چار بار تکبیر کہتے اور آپ ﷺ نے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ پر ستّر بار تکبیر کہی۔ نبی پاکﷺ نے حضرت حمزہ  رضی اللہ تعالی عنہ کی نمازِ جنازہ پڑھی تو سات تکبیرات کہیں پھر جس شہید کو بھی لایا گیا اُس کے ساتھ نبی پاکﷺنے حضرت حمزہ  رضی اللہ تعالی عنہ کی بھی نمازِ جنازہ پڑھی حتّٰی کہ حضورﷺنے حضرت حمزہ پر رضی اللہ تعالی عنہ بہتّر بار نمازِ جنازہ پڑھی۔


*سیدا لشہداء  رضی اللہ تعالی عنہ کا کفن*


سیِّدالشُّہداء رضی اللہ تعالی عنہ کو ایک چادر میں کفن دیا گیا تھا وہ چادر لمبائی میں اتنی کم تھی کہ چہرے کو ڈھانپا جاتا تو پیر کُھل جاتے اور پیروں کو ڈھانکا جاتا تو چہرے سے چادر ہٹ جاتی پس آپ کے چہرے کو ڈھانپ دیا گیا اور پیروں کو ڈھانپنے کے لیے اِذْخَرْنامی گھاس رکھ دی گئی۔ 


*جسم کا صحیح سلامت ہونا*


حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے دورِ خلافت میں بعض شہداءاُحد کی قبریں کُھل گئیں تو دیکھا گیا  کہ شہداء اُحد کے اجسام  بالکل تروتازہ تھے اور اُن کے جسم میں خون کی روانی ہوتی نظر آتی تھی ۔ کسی شخص کا پھاوڑا غلطی سے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاؤں پر لگ گیا تو ان کے پاؤں سے خون نکلنے لگا بلا شبہہ شھداء زندہ ھیں

اللہ پاک سے دعا ھے کہ اللہ سید الشہداء رضی اللہ تعالی عنہ کے درجات کو مزید بلند فرمائے 

آمین یا رب العالمین

Share: