بدنظری کی قباحت اور اس کے نقصانات


اسلام  نیکیوں کو فروغ دینے اور برائیوں کو مٹانے کے لئے آیا ھے اور برائیوں سے پاک صاف معاشرہ چاھتا ھے اس لئے اس نے ایسے آحکامات جاری کیے ھیں جن سے برائیوں کا قلع قمع ھو اور ایک نیک معاشرہ وجود میں آئے یہی وجہ ھے اسلام نے عورتوں کی عفت کی حفاظت کے لئے  انہیں پردے کا حکم دیا  ھے اور اس کے ساتھ ساتھ مردوں اور عورتوں کو اپنی نگاھوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیا ھے

پردے  کے  نفاذ اور معاشرے  سے  برائیوں  کو مٹانے  کے  لئے  جو باتیں  نہایت ضروری ہیں  ان میں  نگاہ کی حفاظت کا  ایک اہم حصہ ہے  اورمسلمان مردوں  اور عورتوں  کو مشترک طور پر پردے  کے  سلسلے  میں دیا جانے  والا یہ سب سے  اہم اور پہلا حکم ہے  کہ مرد اور عورتیں  اپنی نگاہیں  نیچی رکھیں  جس کا اصل مدعیٰ اور مقصد یہ ہے  کہ ہرایسی چیز کے  دیکھنے  سے  بچیں  جس کے  دیکھنے  کو حدیث شریف میں  آنکھوں  کا زنا کہا گیا ہے  مثلاً اجنبی عورتو ں  کے  حسن اور ان کو زیب و زینت کے  دیدارسے  لطف اندوز ہونے  سے  مرد اپنی نگاہوں  کی حفاظت کرے  بالخصوص ان کے  حسن اور ان کی زیب و زینت کے  دیدارسے  لطف اندوز ہونے  سے  مرد اپنی نگاہوں  کی حفاظت کرے  بالخصوص ان عورتوں  کے  لئے  بھی ضروری ہے  کہ وہ اجنبی مردوں  کو اپنا مرکز نظر بنانے  اور میلان و رغبت کے  ساتھ دیکھنے  سے  گریز کریں ، کیونکہ یہ بد نظری ہی ایسا چور دروازہ ہے  کہ عام طور پر برائی کی ابتدا یہیں  سے  ہوتی ہے  اوراسی بد احتیاطی کی وجہ سے  زندگی بھر کی نیک نامیوں  پر بٹہ لگ جاتا ہے  اس بدترین گناہ کی سنگینی کو محسوس کرتے  ہوئے  اسلامی شریعت نے  اولاً بد نظر ی کے  ہر دروازے  کو بند کرنے  پر نہایت زور دیا ہے  قرآن کریم میں  فرمایا گیا ہے  :


قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِـمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُـمْ ۚ ذٰلِكَ اَزْكـٰى لَـهُـمْ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ خَبِيْـرٌ بِمَا يَصْنَعُوْنَ O

ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کو بھی محفوظ رکھیں، یہ ان کے لیے بہت پاکیزہ ہے، بے شک اللہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں۔

وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْـهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوْبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآئِهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآئِهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِىٓ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِىٓ اَخَوَاتِهِنَّ اَوْ نِسَآئِهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ اَوِ التَّابِعِيْنَ غَيْـرِ اُولِى الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّـذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوْا عَلٰى عَوْرَاتِ النِّسَآءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِهِنَّ ۚ وَتُوْبُـوٓا اِلَى اللّـٰهِ جَـمِيْعًا اَيُّهَ الْمُؤْمِنُـوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ O

اور ایمان والیوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے، اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں، اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں پر یا اپنے باپ یا خاوند کے باپ یا اپنے بیٹوں یا خاوند کے بیٹوں یا اپنے بھائیوں یا بھتیجوں یا بھانجوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنے غلاموں پر یا ان خدمت گاروں پر جنہیں عورت کی حاجت نہیں یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کی پردہ کی چیزوں سے واقف نہیں، اور اپنے پاؤں زمین پر زور سے نہ ماریں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے، اور اے مسلمانو! تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ۔

چونکہ اسلام برائیوں  کوجڑسے  اکھاڑ پھینکنے  کے  لئے  آیا ہے  اسی لئے  اس انداز کی تدابیر  اختیار کرتا ہے  جو اساس کی حیثیت رکھتی ہیں  آیت مذکورہ میں بد نظری اور شرم گا ہ کی حفاظت کو ایک ساتھ بیان کیا گیا کیونکہ یہ بد نظری ہی فواحش کا دروازہ ہے  اور برائیوں  پربنداسی وقت ممکن ہے  جبکہ بد نظری پر روک لگائی جائے  جب تک نظر محفوظ نہ ہو شرم گا ہ کی حفاظت کی گارنٹی نہیں  لی جاسکتی آیت کریمہ سے  ملتا مضمون ایک دوسری روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے  یوں  منقول ہے  :


عن أبی أمامٖۃ ﷺ عن النبی ﷺ قال :لتغضن أبصارکم ولتحفظن فروجکم أولیکسفن اللہ وجوھکم۔


(الترغیب والترھیب ۳! ۲۵)       


حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کا ارشاد نقل کرتے  ہیں  آپ ﷺ نے  فرمایا تم لوگ ضرور اپنی نگاہوں  کو نیچی رکھا کرو اور اپنی شرم گاہوں  کی ضرور حفاظت کیا کرو ورنہ اللہ تعالی ضرور تمہارے  چہروں  کو بے  رونق کر دے  گا۔


مذکورہ روایت میں بد نظر ی اور شرم گا ہ کی حفاظت کے  حکم کے  ساتھ ساتھ بتلایا گیا کہ اگر نگاہ کی حفاظت نہ کی گئی اور شرم گا ہ کو حرام کاری سے  نہ بچایا گیا تو اللہ تعالی چہروں  کی رونق کو ختم کر دے  گا یعنی اس برے  عمل پر آخرت میں جو سزا مرتب ہو گی وہ تو الگ ہے  دنیا میں اس کا برا اثر یوں  ظاہر ہو گا کہ ایسے  شخص کے  چہرے  سے  رونق جاتی رہے  گی اس کے  چہرے  پر نحوست ٹپکنے  لگے  گی۔


*زہر میں  بجھا ہوا شیطانی تیر*

بد نظری اس قدر گھناؤنا عمل ہے  اوراس قدر زیادہ برے  اثرات چھوڑنے  والا فعل ہے  کہ نبی ا کرم ﷺ نے  اس کو زہریلا تیر قرار دیا،آپ ﷺ نے  ارشاد فرمایا:


النظر مبھم مسموم من سھام ابلیس من ترکھا من مخافتی ابدلتہ ایمانا یجد حلاوتہ فی قلبہ۔


 حدیث شریف میں  بد نظری کو زہر میں  بجھا تیر کہنے  کا مطلب یہ ہے  کہ جس طرح زہر میں  بجھا ہوا تیر نہایت خطر ناک بہت زیادہ برا اثر چھوڑنے  والا اورجسے  لگ جائے  اس کو ہلاک کر دینے  والا ہوتا ہے  اسی طرح سے  بد نظری ہے  جواس کا مریض بن جائے  وہ ہلاکت  و بربادی کے  قریب جا لگتا ہے  لہذاجس طرح ہر ایک خود کو زہریلے  تیر کا شکار ہونے  سے  بچاتا ہے  اسی طرح بد نظری میں  مبتلا ہونے  سے  بھی خود کو بچانا چاہے ،لہذا جو شخص اللہ کے  خوف کی وجہ سے  بد نظر ی کو ترک کر دے  تو اللہ تبارک و تعالیٰ ایسی عمدہ ایمانی کیفیت سے  اس کوسرفراز فرماتے  ہیں  کہ وہ خود اپنے  دل میں  ا س کی شیرینی اورمٹھاس محسوس کرتا ہے۔

موجودہ زمانہ میں  بد نظری کی وبا آخر ی حد تک پہنچ چکی ہے  ایک عظیم سیلاب ہے  جو تھمنے  کا نام نہیں  لیتا ہر جگہ فحش مناظر عام ہو گئے  ہیں بازار،مارکیٹ،دکانیں ،سڑکیں ،چوراہے ،مکانات کی دیواریں  حتی کہ روز مرہ کی استعمال چیزیں  بھی فحش تصادیرسے  آراستہ ہوتی ہیں  یہاں  تک کہ اخبارات ورسائل بھی اس کی زدسے  بچ نہیں  سکے  ہیں  جس کی وجہ سے  آج کل ایک شریف اور دین دار آدمی کا اخبارات پڑھنا راستوں  میں  چلنا،بازاروں  میں جانا بالکل دشوار ہو گیا ہے  اوراس پرستم یہ کہ اس وبا اور سیلاب پر بند لگانے  کی فکر کے  بجائے  ہر کوئی اپنی دنیا چمکا نے  کی غرض سے  فحش تصاویر اور عریاں  پوسٹرآویزی کر کے  ا س برائی کو بڑھاوا دے   رہا ہے ،اس فواحش کی کثرت کا برا نتیجہ یہ ہوا کہ آج کل نہ چاہتے  ہوئے  بھی بہت سے  افراد بد نظری میں  مبتلا ہو جاتے  ہیں  جو بعد میں  بڑے  گنا ہوں  کا سبب بنتی ہے ،پھر اس گناہ کو ہلکا سمجھنا اوراس پر جمے  رہنا اور بھی زیادہ مضر ہے ،حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ اپنے  وعظ میں ارشاد فرماتے  ہیں  :


بد نگاہی ایسا گناہ ہے  کہ  بہت سے  لوگ ا س کو گناہ سمجھتے  ہی نہیں۔ ایساہی سمجھتے  ہیں جیسے  کسی اچھے  مکان کو دیکھ لیا اس گناہ کے  بعد دل پر رنج کا اثر بھی نہیں  ہوتا اور یہ ایسا گناہ ہے  کہ اس سے  جوان تو جوان بوڑھے  بھی بچے  ہوئے  نہیں  ہیں  بدکاری کے  لئے  تو بہت سی تدبیریں  کرنی پڑتی ہیں ،پیسہ بھی پاس ہودوسرا بھی راضی ہو وغیرہ وغیرہ مگراس گناہ (بد نظری )کو کرنے  میں کسی سامان کی ضرورت نہیں  اور نہ اس میں کچھ بدنامی ہے  چونکہ اس کی خبر تو صرف اللہ تعالی کو ہے  کہ کیسی نیت ہے  ؟کسی کو گھور لیا  تو پھر بھی صوفی صاحب صوفی ھی رھے ، حاجی صاحب حاجی ھی رھے،  پیر صاحب پیر ھی رھے ، مولوی صاحب مولوی ھی رہے،  قاری صاحب  قاری ھی رہے  اس گھورنے  سے  صوفی صاحب کے صوفی ھونے میں کوئی فرق نہ آیا ، حاجی صاحب کے حاجی ھونے میں فرق نہ آیا،  پیر صاحب کے پیر ھونے میں فرق نہ آیا مولوی صاحب کے  مولوی ہونے  میں  فرق نہ  آیا ، نہ قاری صاحب کے  قاری ہونے  میں  کوئی فرق آیا،اس گناہ کی کسی دوسرے  کو خبر ہی نہیں  ہوتی،پھر بد نگاہی میں  ایک بڑی خرابی یہ بھی ہے  کسی اور گناہ میں  نہیں  کہ اور گناہ توایسے  ہیں  کہ جب ان کو خوب دل بھر کے  کر چکے  تو پھر دل ان سے  ہٹ جاتا ہے  مگر بد نگاہی ایسی بری چیز ہے  کہ جتنی بد نگاہی کرتا ہے  اتنی ہی خواہش بڑھتی جاتی ہے۔

 حضرت مولانا اشرف علی   تھانوی علیہ الرحمہ نے  عرصہ دراز پہلے  بد نظری سے  متعلق جو کچھ بھی بیان فرمایا ہے  اس پر ذرّہ برابر لب کشائی کی ضرورت نہیں ،آج کل کے  حالات بالکل اسی طرح کے  ہیں  اور کوئی بھی اس کے  مفاسد کی فکر نہیں  کرتا حالانکہ واقعہ بد نظری کا ہی ہے۔

بد نظری کی قباحت کا اندازہ اس بات سے  بخوبی لگا یاجاسکتا ہے  کہ نبی ا کرم ﷺ نے  ایک موقع پراس بد نظری کو آنکھوں  کا زنا قرار دیا ہے ، ارشاد گرامی ہے  :

عن ابی ھریرۃ ؓ عن النبیﷺ قال: کتب علی ابن آدم نصیبہ من الزنا فھو مدرک ذلک لا محالۃ، العینان زناھما النظر، والاذنان زناھما الاستماع، واللسان زناہ الکلام، والید زناھا البھش، والرجل زناھا الخطی، والقلب یھوی ویتمنی، ویصدق ذلک الفرج او یکذبہ۔ (الترغیب ۳!۲۴)

حضرت اقدس ﷺ ارشاد فرماتے  ہیں  کہ ابن آدم پر ناز میں سے  اس کا حصہ لکھ دیا گیا ہے  اور وہ لامحالہ اس کو کر کے  رہتا ہے  لہذا آنکھوں  کا زنا بد نظری ہے او ر کانوں  کا زنا ایسی بات کوسننا ہے  جس کوسننا جائز نہ ہو اور زبان کا زنا ناجائز گفتگو ہے  ہاتھ کا زنا پکڑنا ہے او ر پیروں  کا زنا چلنا ہے  اور دل کا زنا تمنا  اور خواہش کرنا ہے او ر شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کر دیتی ہے۔


اس ارشاد نبوی میں  بد نظری اوراسی طرح کے  چند امور کو زنا کہا گیا ہے  کیونکہ یہی وہ امور ہیں  جو اصل زنا تک پہنچنے  کا ذریعہ اوروسیلہ ہیں  اور انھیں  باتوں  میں  الجھ کر آدمی زنا تک پہنچ جاتا ہے  اس لئے  ان اسباب کوہی زنا کہہ دیا گیا تو یہاں  پر زنا سے  اسباب زنا مراد ہیں  لہذا جس طرح کسی برے  عمل سے  بچنا لازم اور ضروری ہے  اسی لئے  کہا گیا ہے  کہ ہمہ وقت اپنے  تمام اعضاء پر نظر رکھے  اور غلط استعمال سے  ان سب کو بچائے  نیز مذکورہ روایت میں  کہا گیا کہ اللہ تعالی نے  زنا کا کچھ حصہ ابن آدم پر لکھ دیا ہے  اس کا مطلب یہ ہے کہ جو چیزیں  سبب بن سکتی ہیں  اور زنا کی لذت کا احساس ان سے  ہو سکتا ہے  وہ اعضاء اور حواس اللہ تعالی نے  انسان کو عطاء کیا وہ سبب بن سکتی ہیں  اور زنا کر گزرنے  پر قدرت بھی نصیب کر دی تواب راستہ چلتے  ادھر ادھر گزرتے  ہوئے  وہ آنکھوں  سے  فحش مناظر دیکھتا ہے  اجنبی اور غیر محارم کو دیکھتا ہے  اور لذت اندوز ہوتا ہے  اسی طرح فحش پروگرام سنتا ہے  اجنبیہ کی باتیں  سنتا ہے  اور فحش گفتگو کرتا ہے  اجنبی اور مشتہات عورت سے  گفتگو کے  ذریعہ لطف حاصل کرتا ہے او ر فحش پروگرام دیکھنے  یا زنا کرنے  کے  لئے  چلتا ہے  تو یہ سب مقدمات اور دواعی ہیں  جو زنا میں  مبتلا کر دینے  والے  ہیں او ر زمانہ و ماحول کی فتنہ پروری اور گناہ گا ری کے  اسباب وافر مقدار میں موجود ہونے  کی وجہ سے  عام طور پرانسان سے  ان مقدمات کا صدور ہو ہی جانا ہے  لیکن ا س کی تصدیق و تکذیب شرم گاہ کرتی ہے  یعنی انسان اگر زنا میں  مبتلا ہو جائے  تو گویا شرم گا ہ نے  مقدمات پر مہر تصدیق ثبت کر دی اور اگر مقدمات کے  بعد خوف  خدا کی وجہ سے  زنا میں مبتلا نہ ہوا تو گویا شرم گا ہ نے  تکذیب کر دی،مطلب یہ ہے  کہ زمانہ کی فتنہ سامانیوں  کی بدولت ابن آدم کا ان مقدمات میں  مبتلا ہو جانا یقینی سامان ہے  اورہرانسان کو اپنی تقدیر کی وجہ سے  ان مراحل سے  گزرنا پڑتا ہے  اس لئے  نہایت ہی احتیاط کی ضرورت ہے۔

بد نظری کے  سبب سے  انسان عام طور پر معاشرے  میں  رسوا ہو جاتا ہے  کیونکہ جب کوئی یہ جان لیتا ہے  کہ فلاں  شخص صاف نظر نہیں  رکھتا ہے  تو پھر اس سے  کراہت ہونے  لگتی ہے  اور یہ بدنظری کا مریض ا س کی نظر میں  ذلیل و خوار ہو جاتا ہے  اور ما قبل میں ایک روایت گزر چکی ہے  جس کا مضمون ہے  کہ نظر کی حفاظت نہ کرنے  پر اللہ تعالی چہرے  کو بے  رونق کر دیتا ہے ،صرف اسی پربس نہیں  بلکہ ایک اور روایت میں  نبی ا کرم ﷺ نے  بد نظری کرنے  والے  اور جو بد نظری کی دعوت دے  دونوں  پر لعنت فرمائی ہے  ارشاد گرامی ہے  :


عن الحسن مرسلاً قال بلغنی ان رسول اللہ ﷺ یقول لعن اللہ الناظر والمنظور الیہ (مشکاۃ شریف۔ ۲۷)


حضوراقدس ﷺ ارشاد فرماتے  ہیں  کہ اللہ تعالی بد نظری کرنے  اورجس کی طرف بد نظری کی جائے  اس پر لعنت فرمائے۔


منظورالیہ یعنی جس کی طرف دیکھا جا رہا ہے  وہ اس وجہ سے  لعنت کامسحتق ہے  کہ وہ اپنی چال ڈھال اور لباس کی آرائش و زینت سے  دوسرے  کو دعوت نظارہ دیتا ہے  یہی وجہ سے  کہ حدیث شریف میں اس کو بھی لعنت کا مستحق قرار دیا گیا اسکے  نقصان کا اندازہ حضرت شاہ عبدالغنی رحمۃ اللہ علیہ کے  قول سے  ہوتا ہے  فرمایا کرتے  تھے  کہ ’’ہرے  بھرے  درخت کے  پاس آگ جلا دو تو اس کے  تر و تازہ پتے  مرجھا جاتے  ہیں او ر دوبارہ بہت مشکل سے  ہرے  ہوتے  ہیں  سال بھر کھاد پانی  دو تب کہیں  جا کر ہرے  ہوتے  ہیں  اسی طرح ذکر عبادت اور صحبت اہل اللہ سے  جو انوار قلب میں  پیدا ہوتے  ہیں  اگر ایک بار بد نظری کر لی تو باطن کا ستیا ناس ہو جاتا ہے  دوبارہ ایمانی حلاوت اور ذکر کے  انوار بحال ہونے  میں  بہت وقت لگتا ہے  بد نگاہی کی ظلمت بہت مشکل سے  دور ہوتی ہے  بہت توبہ استغفارگریہ و زاری اور بار بار حفاظت نظر کے  اہتمام سے  کہیں  قلب کو دو بارہ ایمان حیات ملتی ہے  ‘‘


بد نگاہی کے  نقصان کا مزید اندازہ کرنے  کے  لئے  حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب کی یہ تحریر پڑھئے  فرماتے  ہیں کہ ’’بد نظری کے  بعد آخرت کا عذاب تو الگ ہے  دنیا ہی میں  دل بے  چین ہو جاتا ہے  منظورالیہ کے  یاد میں  تڑپے  گا نیند حرام ہو گی اور اللہ سے  دوری کے  عذاب میں مبتلاء ہو گا بد نظری کا گناہ نہایت حماقت کا گناہ ہے  کچھ ملنا نہ ملانا مفت میں دل کو تڑپانا ہے۔ اپنی کتاب (بد نظری و عشق مجازی کا علاج ) میں حضرت مولانا اشرف علی  تھانویؒ فرماتے  ہیں  غیر محرم مرد یا عورت کو دیکھنا ا س سے  کسی طرح کا علاقہ رکھنا خواہ اس کو دیکھنا ہویا اس سے  دل خوش کرنے  کے  لئے  ہو اس سے  باتیں  کرنا اور تنہائی میں  اس کے  پاس بیٹھنا اس کے  دل کو خوش کرنے  کے  لئے  اپنے  لباس کوسنوارنا اور کلام کو نرم کرنا وغیرہ سب چیزیں بہت ھی مضر ھیں ،میں  سچ عرض کرتا ہوں  کہ اس تعلق سے  جو خرابیاں  پیدا  ہوتی ہیں  اور جو مصائب پیش آتے  ہیں  ان کو تحریر کے  دائرے  میں نہیں  لایاجاسکتا۔


بد نظری سے  متعلق اکابر نے  جو نقصانات بیان کئے  ہیں  یقیناً ان سے  تمام دین دنیا برباد ہو جاتے  ہیں او ر آج کل تو اس مرض میں مبتلا ہونے  کے  اسباب کی بھی بہت زیادہ فراوانی ہے  اور بہت تیزی کے  ساتھ یہ اسباب پھیلتے  جا رہے  ہیں  سو اس سے  بچنے  کا   مختصر ساعلاج بھی  ملاحظہ فرمائیں

حدیث مبارکہ میں ہے 

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما من مسلم ینظر إلی محاسن امرأة أول مرة ثم یغض بصرہ إلا أحدث اللہ عبادةً یجد حلاوتہا رواہ أحمد (مشکاة: ۲۷۰) 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کوئی مسلمان اگر کسی عورت کے محاسن پر اول مرتبہ نظر پڑتے ہی اپنی نظر نیچی کرلے تو اللہ تعالیٰ اسے ایک ایسی عبادت کی توفیق عطا فرماتے ہیں جس کی حلاوت اسے  دل میں محسوس ہوتی ہے۔ یہ تو فضیلت ہے بدنظری سے بچنے کی 

اور وعید کے سلسلہ میں حدیث مبارکہ میں ہے کہ جو شخص کسی عورت کے محاسن پر نظر ڈالتا ہے اللہ تعالی کل قیامت میں اس کی آنکھوں میں سیسہ ڈالیں گے 

اور عمل کی تعلیم اس حدیث  مبارکہ میں ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اے علی! پہلی نظر جو دفعةً کسی عورت پر پڑجائے وہ تو معاف ہے اور اگر تم نے نظر کو جمائے رکھا یا دوبارہ نظر ڈالی تو اس کا وبال قیامت میں تم پر ہوگا۔ 

حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب قدس سرہ کی تصنیف ”بدنظری کا علاج“  اس سلسلہ کی ایک بہترین کتاب ھے اس کا مطالعہ کیا جائے تو  ان شاء اللہ بہت فائدہ مند ھوگا اور حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ کی یہ بات تو ذہن اور دل پر اچھی طرح نقش کرلینی چاھیے کہ امور اختیاریہ کا علاج بجز ارادہ اور ہمت کے کچھ نہیں۔ پس تقاضہ کے وقت ہمت کرکے نفس کو روکنا ہی اس کا بہترین علاج ہے، پھر دھیرے دھیرے تقاضہ کی قوت کمزور ہوجائے گی اور ان شاء اللہ اس مصیبت سے نجات مل جائے گی۔

Share: