مفتی محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ - ایک عہد ساز شخصیت


دنیا میں سب سے زیادہ عہدے رکھنے والا شخص  مفتی محمد تقی عثمانی کون ہے ؟


کون جانتا تھا کہ 27 -اُکتوبر 1943ء کو ہندوستان کے صوبہ اُترپردیش کے ضلع سہارنپورؔ کے مشہور قصبہ دیوبندؔ میں پیدا ہونے والے اِس فرزند نے عالمِ اِسلام کے اُفق پر کس چمک دمک کے ساتھ طلوع ہو کر چمکنا ہے کہ اِن کے مقابلے میں باقی سب کی چمک دمک ماند پڑجائے گی 


پاکستان بننے سے چار سال پہلے دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور بانیانِ پاکستان اور بعداَزاں مفتیٔ اَعظم پاکستان مفتی محمدشفیع عثمانی صاحب رحمۃ اللہ کے گھر میں اُن کے سب سے چھوٹے بیٹے محمد تقی عثمانی کی شکل میں ایک ایسا گوہر نایاب پیدا ہوا‘ 

جس کی چمک سے آج پوری دنیا کی علمی محفلیں پُر رونق ہیں۔ 

اگرچہ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اپنے والد کے سب سے چھوٹے بیٹے ہیں۔ لیکن اپنی خدمات میں وہ اپنے بڑے بھائی مفتیٔ اَعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب سے بھی بہت آگے ہیں۔ اور اگر حقیقتِ حال کو مدنظر رکھا جائے‘ تو اِس وقت اَہلِ حق میں اِن کی ٹکر کی کوئی دوسری علمی شخصیت پاکستان کیا پوری دُنیا میں دیکھنے کو نہیں ملتی 

سات براعظم میں پھیلی پوری اُمتِ مسلمہ میں یہ ایک واحد شخصیت ہیں‘ جن کی بات پر عرب و عجم اور دنیا جہاں میں پھیلی اُمت سرِ تسلیم خم کرتی ہے۔ اور ہر مشکل کی گھڑی میں اُمت کے طبقات کی پہلی اور آخری نظر اِنہی کی طرف جاتی ہے 


افریقہ میں قادیانیوں کے غیرمسلم ہونے سے متعلق کیس چل رہا تھا، اور عدالت میں دلائل دینے تھے‘ 

تو افریقہ کے مسلمانوں کی پوری دُنیا میں اِس مقصد کےلئے جس ہستی کی طرف نظر گئی‘ 

وہ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب تھے۔ 

جو افریقیوں کی دعوت پر افریقہ گئے، 

اور کورٹ مین اپنے دلائل سے قادیانیوں کو کافر قرار دلوانے میں کامیاب رہے 


فجی سے لے کر مغرب کے آخری کنارے تک، 

اور ناروے سے لے کر جنوب کے آخری کنارے تک پھیلی ہوئی پوری اُمت جس کو اپنا متفقہ مفتیٔ اَعظم مانتی ہے، اور جس کے فتاویٰ کو حرفِ آخر کا درجہ دیتی ہے‘ وہ ہے مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم العالیہ 

جس سے اگر اُمتِ مسلمہ میں کوئی ناواقف ہے‘ 

تو وہ صرف اور صرف پاکستانی قوم ہے‘ 

جو چراغ تلے اندھیرے والے محاورے کا عملی نمونہ بنی ہوئی ہے، 

اور پاکستان کی اکثر آبادی مفتی صاحب سے یا تو سرے سے واقف ہی نہیں‘ 

یا پھر صرف نام کی حد تک شناسا ہے 


مفتی تقی عثمانی صاحب وہ ہستی ھیں ‘ 

جسے سعودی عرب عرصۂ دراز سے نیشنیلٹی دے کر مستقل سعودی شہریت اور رِہائش کا اِصرار کررہا ہے‘ 

مگر یہ درویش اپنی مٹی سے محبت کا قرض چکانے کےلئے حرمین کا پڑوس چھوڑے ہوئے ہے۔


جسے اپنے ملک کے حکام نے بھلے ملک کا سب سے بڑا ایوارڈ نہ دیا ہو‘ 

مگر اُردن کے بادشاہ نے اُن کی دینی خدمات کے اِعتراف میں اُنہیں اپنے ملک کا سب سے بڑا ایورڈ دیا ہے 

صرف اِسلامی دُنیا کے حکمران نہیں‘ 

بلکہ برطانیہ (اِنگلینڈ) کے سابقہ وزیراعظم  ڈیوڈکیمرون سے لے کر شمالی (لاطینی) اَمریکہ کے صُدُور تک مفتی تقی صاحب سے وقت لے کر اُن سے اِسلام کے نظامِ معیشت پر آگاہی لیتے ہیں، 

اور اپنے سودی نظام کے مقابلے میں اپنے ہاں اُسے نافذ العمل کروانے کےلئے مشورے لیتے ہیں 


جنہیں خطابات کےلئے صرف پاکستان یا دیگرممالک کے مدارس سے ہی دعوت نامے نہیں ملتے‘ 

بلکہ دُنیا کی نامور اور مشہورِ زمانہ یونیورسٹیوں سے لے کر ورلڈ اِکنامک فورم جیسے عالمی فورمز پر معیشت کے موضوع پر خطاب اور آگاہی پروگراموں کےلئے مہمانِ خصوصی کے طور پر بلایا جاتا ہے۔


ڈیڑھ سو سے زائد عربی، اُردو، فارسی اور انگریزی زَبانوں پر مبنی کتابوں کا علمی خزانہ اُمت کو لکھ کر ہدیہ کرچکے ہیں 

اور یہ کوئی ڈیڑھ سو کتابچے نہیں‘ 

بلکہ ایک کتاب کئی کئی جلدوں پر محیط ہے، 

اور ہر ہرجلد میں ہزاروں صفحات ہیں۔


پاکستان کی اَعلیٰ عدالت سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بینچ کے کم و بیش بیس سال چیف جسٹس رہ چکے ہیں 

اور اِس دَوران کئی تاریخی اور یادگار فیصلے صادر فرماچکے ہیں۔ جن میں ’’رِبا (یعنی سود)‘‘ کے خلاف تاریخی فیصلہ ہمارے عدالتی فیصلوں کے ماتھے کے جھومر کے طور پر تاقیامت چمکتا دمکتا اور یاد گار رہے گا 


سود سے لتھڑی ہوئی آلودہ بینکاری کے مقابلے میں دُنیا کو سود سے پاک اِسلامی اُصولوں پر مبنی بینکاری کا مکمل نظام لکھ کر دے چکے ہیں۔ 


(#نوٹ: 

موجودہ اِسلامی بینکاری کے نام سے مشہور بینک اِن کے بتائے ہوئے نظام پر عمل کر رہے ہیں یا نہیں‘ 

اِس میں مفتی صاحب کا کوئی دَوش نہیں. 

اُنہوں نے مکمل نظام مرتب کر دیا ہے۔ 

اب اہلِ اِقتدار کی ذمہ داری ہے کہ وہ اِسلامی بینکوں کو مفتی تقی صاحب کے مروج کردہ اُصولوں پر چلانے کےلئے قانون سازی کرے۔ 

اگر کہیں کوئی کمی کوتاہی ہے‘ تو 

اُس میں مفتی تقی صاحب کا کوئی قصور نہیں 


اور یہ واحد اِسلامی مصنف ہیں‘ 

جنہوں نے آسان ترجمہ قرآن کو زمین کی بجائے فضاء میں لکھ کر عالمِ اِسلام میں ایک نئے ریکارڈ کا اِضافہ کیا۔ 

تین جلدوں پر مبنی آج تک لکھے گئے تراجمِ قرآنیہ میں سب سے سلیس بامحاورہ اور شستہ اُردو سے مزین خوبصورت ’’آسان ترجمۂ قرآن‘‘ سارے کا سارا اپنے عالمی اَسفار کے دَوران جہاز کی پرواز میں لکھا، 

اور یوں ایک نیا ریکارڈ بھی قائم کرگئے 


اِن سے پہلے چند لوگوں نے انگریزی میں قرآن کا ترجمہ کیا تھا‘ مگر وہ لوگ چونکہ باقاعدہ مولوی اور عربی پر اِتنی مہارت نہیں رکھتے تھے‘ 

بلکہ اُنہوں نے قرآن کے اُردو تراجم کو انگریزی میں نقل کیا تھا؛ 

اِس لئے اُن انگریزی تراجم میں وہ چاشنی نہ تھی۔


اِس طرح مفتی تقی عثمانی صاحب وہ پہلے عالمِ دین ہیں‘ جنہیں بذاتِ خود عربی پر مادری زُبان جتنا عُبور تھا، اور انگریزی میں بھی مہارتِ تامہ حاصل تھی۔ 

یوں دونوں زُبانوں پر مکمل عبور کی وجہ سے اِن کا لکھا گیا انگریزی ترجمۂ قرآن پاک آج یورپ کے مسلمانوں کی متاعِ عزیز بنا ہوا ہے، 

اور بلاشبہ اُردو کی طرح انگریزی میں بھی اِن کے جیسا ترجمہ قرآن دوسرا نہیں ملتا۔


زندگی کے ایک لمحے کو قیمتی بنانے والے اور اُسے ذریعۂ آخرت بنانا کوئی مفتی تقی صاحب سے سیکھے۔ کہ جہاز کی پرواز کے دوران کے وقت کو بھی ضائع ہونے سے بچایا، 

اور اُردو کا سب سے خوبصورت، مستند ، بامحاورہ آسان ترجمۂ قرآن لکھنے جیسے خوبصورت کام میں لگاکر ذخیرۂ آخرت بنا لیا 


سن 2009 میں پی آئی اے 

(پاکستان اِنٹرنیشنل اِئیرلائن) 

پر پوری دُنیا میں سب سے زیادہ ٹریولنگ کرنے والے مفتی تقی عثمانی صاحب تھے۔ 

جس پر پی آئی اے نے اِنہیں بطور اِعزاز عمر بھر کےلئے پی آئی اے پر سفر کرنے کی صورت میں اِن کو ایک تہائی یا آدھے کرائے میں سفر کرنے کی سہولت دے رکھی ہے 


مفتی تقی عثمانی صاحب اپنی مادری زُبان اُردو کے ساتھ دیگر چار زُبانوں ’’عربی، انگریزی، فارسی، اور ہسپانوی(Spanish)‘‘ پر بھی مکمل عبور رکھتے ہیں۔ خاص کر عربی اور انگریزی میں بہت ہی زیادہ مہارت رکھتے ہیں۔ 

چنانچہ اُن کے اُردو سے زیادہ عربی اور انگریزی کے بیانات سے اِنٹرنیٹ بھرا پڑا ہے 


اِس کے علاوہ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب پاکستان کے علاوہ دُنیا بھر میں کن کن عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں ؟ 

یا ابھی تک فائز ہیں‘ 

اُن کی تفصیل ذیل میں ملاحظہ فرمائیں 

.

تاحال_جن_عہدوں_پرفائز ہیں:

1:

چیئرمین شریعہ بورڈ آف اسٹیٹ بینک پاکستان۔

2:

نائب مہتمم، اور شیخ الحدیث  جامعہ دارالعلوم کراچی۔

3:

چیئرمین  اِنٹرنیشنل شریعہ اسٹینڈرڈ کونسل، اَکاؤنٹنگ اینڈ ایڈیٹنگ آرگنائزیش آف اِسلامک فائنانشل اِنسٹیٹیوشن ،بحرین۔

4:

مستقل ممبر، اور نائب صدر اِنٹرنیشنل فقہ الاسلامی اکیڈمی، جدہ، سعودی عرب۔

5:

آرگن آف آرگنائزیشن آف اِسلامک کانفرنس (OIC)۔

6:

ممبر رابطۃ العالم الاسلامی فقہ اکیڈمی مکہ، سعودی عرب۔

7:

مستقل ممبر، اور نائب صدر اِنٹرنیشنل فقہ الاسلامی اکیڈمی، جدہ،سعودی عرب، (اسپانسرڈOIC)۔

8:

چیئرمین سنٹرآف اِسلامک اِکنامکس، پاکستان (1991)۔

9:

چیئرمین شریعہ بورڈ، سنٹرل بینک بحرین۔

10:

چیئرمین شریعہ بورڈ، ابوظہبی اِسلامی بینک، 

یواے ای(UAE)۔

11:

چیئرمین شریعہ بورڈ، میزان بینک لمیٹڈ کراچی پاکستان۔

12:

چیئرمین شریعہ بورڈ اِنٹرنیشنل اِسلامک ریٹنگ ایجنسی، بحرین۔

13:

چیئرمین شریعہ بورڈ،پاک کویت تکافُل کراچی۔

14:

چیئرمین شریعہ بورڈ ، پاک قطر تکافُل کراچی۔

15:

چیئرمین شریعہ بورڈ ’’JS‘‘ اِنویسٹمنٹ اِسلامک فنڈز، کراچی۔

16:

چیئرمین شریعہ بورڈ ’’JS‘‘ اِسلامک پینشن سیونگ فنڈز۔

17:

چیئرمین شریعہ بورڈ عارف حبیب اِنویسٹمنٹ_پاکستان اِنٹرنیشنل اِسلامک فنڈ، کراچی۔

18:

چیئرمین ’’ Arcapita‘‘ اِنویسٹمنٹ فنڈز، بحرینْ

19:

ممبر متحدہ شریعہ بورڈ اِسلامک ڈیویلپمنٹ بینک، جدہ، سعودی عرب۔

20:

ممبر شریعہ بورڈ، گائیڈنس فائنانشل گروپ، 

یو۔ایس۔اے(USA)۔

.

#ماضی_میں_جن_عہدوں_پرفائزرہ_چکے:

21:

جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ آف پاکستان،(’’1980‘‘تا،مئی’’1982‘‘)

22:

چیف جسٹس،شریعت ایپلٹ بینچ،سپریم کورٹ آف پاکستان، (’’1982‘‘تا،مئی’’2002‘‘)۔

23:

چیئرمین سنٹرآف اِسلامک اِکنامکس، پاکستان (1991)۔

24:

ممبر سنڈیکیٹ یونیورسٹی آف کراچی،(’’1985‘‘تا’’1988‘‘)۔

25:

ممبر بورڈ آف گورنمنٹ اِنٹرنیشنل اِسلامی یونیورسٹی، اِسلام آباد، (’’1985‘‘تا’’1989‘‘)۔

26:

ممبر اِنٹرنیشنل اِنسٹیٹیوٹ آف اِسلامک اِکنامکس ،(’’1985‘‘تا’’1988‘‘)۔

27:

ممبر کونسل آف اِسلامک آئیڈیا لوجی،(’’1977‘‘تا’’1981‘‘)۔

28:

ممبر، بورڈ آف ٹرسٹیز اِنٹرنیشنل اِسلامک یونیورسٹی، اِسلام آباد،(’’2004‘‘تا’’2007‘‘)۔

29:

ممبر، کمیشن آف اِسلامائزیشن آف اِکانومی، پاکستان آف پاکستان۔

۔

جس کو دُنیا جہان نے اِعزازاً  اِس قدر بڑے بڑے عہدے دے رکھے ہیں، 

اور اپنے نیشنل لیول کے اِداروں کا چیئرمین بنا رکھا ہے، اُسے پاکستانی حکومت ایک بلٹ پروف گاڑی دینے کو تیار نہیں۔ 

اور وجہ صرف اِسلام دُشمنی ہے، 

اور کچھ نہیں 


مفتی تقی عثمانی صاحب کو صرف مسلم ہی نہیں‘ 

بلکہ دُنیا جہان کے تعلیم یافتہ اور باشعور لوگ بہت عزت اور قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

لیکن نہ تو پاکستانی قوم اُن کو صحیح سے جانتی ہے، اور اُس قدر کی۔ اور نہ ہی پاکستان کی حکومتوں نے کبھی اُن سے اُن کی صلاحیتوں کے بقدر کوئی بڑا کام کیا 


جو شخص امریکہ اور طالبان جیسی دو متحارب طاقتوں کو مذاکرات کی میز پر لاسکتا ہے‘ 


اُس شخص سے اگر حکومتِ پاکستان چاہے‘ 

تو دینی چھوڑ دُنیاوی اِعتبار سے کتنے فوائد حاصل کرسکتی ہے۔ اور ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں کس قدر گراں مایہ خدمات لے سکتی ہے ؟ 

مگر افسوس ہمارے دولت پرست حکمرانوں پر‘ 

جنہوں نے کبھی پاکستان کے گوہر نایاب کو جاننے اور پہچاننے کی کوشش نہ کی۔ 


ضیاء الحق مرحوم نے اُن کی صلاحیتوں کا معترف ہوکر اُنہیں سپریم کورٹ کی شریعت ایپلٹ کا چیف جسٹس لگایا تھا‘ 

مگر جنرل نامشرف نے ’’سود‘‘ کو حرام قرار دینے کے فیصلے سے پیچھے نہ ہٹنے پر زبردستی قبل اَز وقت معزول کردیا 

مفتی تقی صاحب کی تعریف میں دیوان بھی لکھ دیے جائیں‘ تو وہ بھی کم ہیں۔ 

بس اِتنا کہنا چاہوں گا کہ اگر آج کی دُنیا میں اِقبال کے شعر کی کوئی زندہ مثال ہے‘ تو 

وہ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے سوا کوئی دوسرا نہیں۔ 

یوں لگتا ہے کہ اِقبال اپنی قبر سے اُٹھ کر دوبارہ سے مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی خدمات کو سراہتے ہوئے پھر سے اپنے شعر کو ترکیبِ لفظی دیتے ہوئے مفتی تقی صاحب کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہہ رہا ہے :


ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور تقی جیسا پیدا

Share: