حشر کے پانچ سوال “چوتھا سوال”

 *حشر کے پانچ سوال*



*چوتھا سوال: * *مال کہاں خرچ کیا*؟


حدیث مبارکہ کے مطابق حشر میں جن چیزوں سے متعلق استفسار ہونا ھے  ان میں مال کا سوال بھی شامل ھے مال کے بارے میں دو سوال ھوں گے ایک یہ کہ مال کہاں سے کمایا تھا اور  دوسرا یہ کہ کہاں خرچ کیا تھا  یعنی جس طرح مال کمانے میں شرعی ضوابط کا خیال رکھنا ضروری ھے اسی طرح خرچ کرنے میں بھی شرعی آصولوں کو مدنظر رکھنا ضروری ھے مال اللہ تعالی کی ایک دی ھوئی آمانت ھے اسے اس کے حکموں کے مطابق ھی خرچ کرنا ضروری ھے یہ نہیں جہاں جی چاھا اُڑا دیا یا پھر جہاں خرچ کرنا چاھیے تھا وھاں خرچ نہ کیا ، خرچ کرنے کے اعتبار سے پھر دو حکم ھیں اول یہ کہ فضول خرچی نہ کی جائے اور دوم یہ کہ کنجوسی نہ کی جائے  بلکہ میانہ روی اختیار کی جائے لہذا حشر کے اس سوال  کی مشکل سے بچنے کے لئے ضروری ھے کہ ھم فضول خرچی اور کنجوسی ، دونوں سے پرھیز کرکے میانہ روی اختیار کریں  


اللہ رب العا لمین نے اس دنیا میں زند گی گزار نے کیلئے جوا سباب ووسائل عطا کئے ہیں ، ان کے تعلق سے یہ ہدایت  بھی دی ہے کہ ان کے استعمال میں افراط وتفریط سے پر ہیز کیا جائے۔ اسی افراط کو فضو ل خرچی یا اسراف وتبذیر کہا جا تا ہے اور تفریط کو بخل یا تقتیر کا نام دہا جا تا ہے۔

دین اسلام ہر شعبہ زندگی میں سادگی، اعتدال اور میانہ روی کی تلقین کرتا ہے۔ فضول خرچی، عیش و عشرت اور نمود و نمائش سے نہ صرف منع کرتا ہے بلکہ اس کی شدید مذمت بھی کرتا ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید کے اندر متعدد آیات میں فضول خرچی اور کنجوسی سے منع کیا ہے    اور اس کی مذمت  فرمائی  ہے  چنانچہ اللہ پاک  کا ارشاد ھے


وَلاَ تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلاَ تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا O

ترجمہ: اپنا ہاتھ گردن سے باندھ کر نہ رکھو (کنجوسی نہ کرو) اور نہ ہی اسے بالکل کھول دو (بے تحاشا خرچ کرنے لگ جاؤ۔ اگر ایسا کرو گے) تو تم ملامت کا نشانہ بنو گے اور افسوس سے ہاتھ ملتے رہ جاؤ گے


وکُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ O

ترجمہ: اور کھاؤ اور پیؤ اوراسراف(ضرورت سے زائدخرچ) نہ کرو، بے شک اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔


وَالَّذِیْنَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ یُسْرِفُوا وَلَمْ یَقْتُرُوا وَکَانَ بَیْْنَ ذَلِکَ قَوَاماً O

ترجمہ: اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچی نہیں کرتے اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان کا خرچ ان دونوں کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے۔


وَآتِ ذَا الْقُرْبَی حَقَّہُ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِیْراً ِ؛انَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُواْ إِخْوَانَ الشَّیَاطِیْنِ وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِرَبِّہِ کَفُوراًO

ترجمہ: اور رشتہ دار اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق دے دو اور مال کو بے جا خرچ نہ کرو۔بے شک بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا ناشکرگزار ہے۔ 


إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌO

ترجمہ: بے شک خداوند  اسرافکار جھوٹھے کو ہدایت نہیں کرتا۔


جب ہم اپنے معاشرے میں رہنے 

والے افراد کی زندگی  کا بغور مشاہدہ کرتے ہیں تو مال خرچ کرنے  کے حوالے سے  عموماً تین قسم کے لوگ  نظر آتے ہیں یعنی تین مختلف   انسانی رویوں کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔


پہلی قسم : مال سمیٹ کر رکھنے والے لوگ  کہ   جہاں پر    مال خرچ کرنا ضروری ہو وہاں  بھی بخل  کا مظاہرہ  کرتے ہیں ایسے لوگوں کو بخیل کہا جاتا ہے۔


دوسری قسم : وہ لوگ جو عیش و عشرت کے لئے  مال  کو بے دریغ خرچ  کرتے ہیں   یہ رویہ اسراف یا فضول خرچی کہلاتا ہے۔


تیسری قسم : ضرورت کے مطابق خرچ کرنے والے لوگ  کہ جو اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اعتدال کا اسلوب اختیار کرتے ہیں یعنی  چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کے طریقے پر عمل کرتے ہیں۔


پس ان سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ ان تینوں قسم کے لوگوں میں سے تیسرے  یعنی اعتدال کے رویے کے حامل لوگ ہی اللہ  تعالی کے پسندیدہ ہیں کیونکہ وہ خدا کے عطا کردہ  رزق کو اسی کے فرمان کے مطابق خرچ کرتے ہیں۔ اگر ہم اپنی روز مرہ زندگی کا جائزہ لیں تو انکشاف ہوتا ہے کہ خرچ کرنے کے معاملے میں  ھم اعتدال کی راہ سے ہٹ چکے ہیں۔جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بے شمار معاشی، سماجی اور نفسیاتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ شہروں میں ہوٹلز، ریسٹورنٹس، شاپنگ مالز اور مہنگے سنیما گھروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ہماری سوسائٹی کے لوگوں میں کماؤ، کھاؤ پیو، خرچ کرو، اور عیش کرو کا نظریہ رواج پانے لگا ہے۔ ہمارے معاشرے میں امارت اور غربت کے درمیان فاصلہ بتدریج زیادہ ہوتا جارہا ہے۔ غریب ضروریاتِ زندگی کے پیچھے بھاگ بھاگ کر ادھ موا ہو رہا ہے جبکہ امراء آسائشوں اور عیاشیوں پر بے دریغ پیسہ خرچ کر رہے ہیں۔

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسراف کی اصل کیا ہے ؟ تو اس  نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ  اسراف  لوگوں کی شان و مقام، سلامتی و بیماری، جوانی و پیری اور ثروت و ناداری کے لحاظ سے  فرق  رکھتا ہے۔ ممکن ایک غذا یا لباس ایک شخص کے لئے اسراف ہو اور وہی غذا اور لباس  ایک  دوسرے شخص  کے لئے اسراف نہ ہو۔


فر ما نِ الہٰی ہے : جو خرچ کر تے ہیں تو نہ فضول خرچی کر تے ہیں نہ بخل ،بلکہ ان کا خر چ دونوں انتہاوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔ 

در حقیقت فضول خر چی ،اللہ کی ناشکری اور نعمت کی ناقدری ہے ،کیوں کہ اپنے مال واسباب کو اِدھر ادھر بے دردی کے ساتھ اڑانے والا انسان ، اللہ کی مرضی کو فراموش کر کے اپنے نفس امارہ کا غلام بنا ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ھے :

إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا O

فضول خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ھے 

بہت سے لوگ مال کمانے میں تو اس بات کا خیال رکھتے ھیں کہ ذریعۂ آمدن حلال ھو لیکن یہی لوگ خرچ کرنے میں خصوصاً بیاہ شادی کی تقریبات میں رسم ورواج پورے کرنے میں حد درجہ فضول خرچی کرتے ھیں پیسے پاس نہ بھی ھوں تو اپنے شوق پورا  کرنے کے لئے اُدھار لینا بھی گوارہ کر لیتےھیں کیونکہ آخر ناک بھی تو رکھنی ھوتی ھے یہ ھمارے معاشرے کا ایک سلگتا  ھوا مسئلہ ھے جس پر بہت کام  کرنےکی ضرورت ھے

فضول خرچی کی مختلف شکلیں اور مظاہر موجود  ہیں۔ایک غیر محتاط انسان مختلف طریقوں اور مختلف موقعوں پر اس بری عادت اور مذموم عمل کو دہراتا رہتا ہے ، جن میں خاص طورسے کھانے پینے ،پہننے اوڑھنے ، خوشی منانے اور مختلف مذہبی وسماجی تقریبات شامل ہیں۔اکل وشرب کے تعلق سے قرآنی آیت بڑے واضح اور صریح الفاظ میں اہلِ ایمان کو مخاطب کر تی ہے :


وَكُلُواْ وَٱشْرَبُواْ وَلَا تُسْرِفُوٓاْ ۚ إِنَّهُۥ لَا يُحِبُّ ٱلْمُسْرِفِينَO

اور کھاﺅ پیو اور حدسے تجاوز نہ کرو ، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

دیکھئے کس قدر مختصر اور دوٹوک انداز میں اسراف کی ممانعت کو اکل و شرب سے جوڑاگیا ہے۔ 

حضرت مقدام بن معدی کر بروایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناہے کہ ٓادمی پیٹ سے زیادہ برے کسی برتن کو نہیں بھرتا۔ انسان کے لئے چند لقمہ ہی کافی ہیں جو اس کی پیٹھ سیدھی رکھ سکیں۔البتہ آدمی اگر بضد ہے تو ایک تہائی حصے میں کھانا کھائے ،ایک تہائی حصے میں پانی پئے ،اور ایک تہائی حصہ سانس لینے کے لئے باقی رکھے۔ (احمد ،ترمذی،ابن ماجہ) 

کھانے پہنے میں اسراف اور بے احتیاطی کے جودینی اور روحانی نقصانات ہیں وہ اپنی جگہ پر ، ساتھ ہی اس کے متعدد جسمانی اور طبی نقصانات بھی ہیں۔ پھر جو سماجی برائیاں اس سے جنم لیتی ہیں وہ الگ ہیں۔ اکل وشرب میں اسراف جو کہ  سماجی فیشن بن چکا ہے ،جو گھن کی طرح معاشرے کو چاٹ رہا ہے۔ پانچ آدمی کو کھانے یا کھلانے کے لئے پچاس آدمیوں   کا کھانا بنایا یا خریدا جا تا ہے اور انواع واقسام اتنے کہ سب میں سے اگر صرف ایک ایک لقمہ بھی لیا جائے تو معدہ اس کی تاب نہ لا سکے۔ اس کےبعد بچا ہوا کھانا کو ڑے دان کی نذر ہوجاتا  ہے۔

بہرحال یہ مال ھمارے پاس اللہ کی ایک آمانت ھے جس کے خرچ کے بارے لازمی پوجھا جائے گا لہذا ھمارا فرض ھے کہ مال کو اللہ پاک احکام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق خرچ  کریں تاکہ قیامت والے دن اس کے سخت مطالبے سے بچ جائیں

اللہ پاک عمل کی توفیق عنایت فرمائے

آمین یا رب العالمین

Share: