عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 1)


عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسلام کا وہ بنیادی عقیدہ ہے جس پر چودہ سو سال سے تمام امت مسلمہ متفق ھے کسی بھی زمانہ میں اس عقیدہ پر کھبی بھی کوئی اختلاف واقع نہیں ھوا  امت مسلمہ کا اس پر پوری طرح اتفاق ھے کہ عقیدۂ ختم نبوت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں معمولی سا شبہ بھی ایک مسلمان کو دائرۂ اسلام سے خارج کر دیتا ھے لہذا اس عقیدہ میں ذرا سا شبہ بھی قابل برداشت نہیں ھے چنانچہ حضرت امام اعظم امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ:

”جو شخص کسی جھوٹے مدعی نبوت (نبوت کا دعویٰ کرنے والا) سے اس کی نبوت کی دلیل طلب کرے گا وہ بھی دائرہ اسلام سے خارج ھو جائے گا “

کیونکہ دلیل طلب کرکے اس نے اجرائے نبوت (نبوت کے جاری رھنے) کے امکان کا عقیدہ رکھا (اور یہی کفر ہے)


اسلام کی بنیاد توحید ، رسالت اور آخرت کے علاوہ جس بنیادی عقیدہ پر ہے ‘ وہ ہے ”عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم “  حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر نبوت اور رسالت کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلسلۂ نبوت کی آخری کڑی ہیں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی شخص کو اس منصب پر فائز نہیں کیا جائے گا۔

ساری شریعت اور سارے دین کا مدار اسی عقیدہ پر ہے‘ قرآن کریم کی ایک سو سے زائد آیات مبارکہ اور آنحضرت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سینکڑوں احادیث مبارکہ اس عقیدہ پر گواہ ہیں۔ اھل بیت ، تمام صحابہ کرام تابعین عظام، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین اور چودہ صدیوں کے مفسرین ‘ محدثین ‘ متکلمین ‘ علماء اور صوفیاء (اللہ ان سب پر رحمت کرے) کا اس پر اجماع ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں ھے 

مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ ۔ (الاحزاب)

ترجمہ:”حضرت محمد ا تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں‘ لیکن اللہ کے رسول اور نبیوں کو ختم کرنے والے آخری نبی ہیں“۔


تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ ”خاتم النبیین“ کے معنیٰ ہیں کہ: آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی ہیں‘ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کو ”منصب نبوت“ پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ عقیدہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس طرح قرآن کریم کی نصوص قطعیہ سے ثابت ہے‘ اسی طرح حضور آکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث متواترہ سے بھی ثابت  ہے۔ چند احادیث ملاحظہ ہوں:


۱- میں خاتم النبیین ہوں‘ میرے بعد کسی قسم کا نبی نہیں۔ (ابوداؤد )


۲- مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا اور مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔ (مشکوٰة)


۳- رسالت ونبوت ختم ہوچکی ہے پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔ (ترمذی)


۴- میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔ (ابن ماجہ)


۵- میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں۔ (مجمع الزوائد)


ان  ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس امرکی تصریح فرمائی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی اور رسول ہیں‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کو اس عہدہ پر فائز نہیں کیا جائے گا‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے جتنے انبیاء علیہم السلام تشریف لائے‘ ان میں سے ہر نبی نے اپنے بعد آنے  والے نبی کی بشارت دی اور گذشتہ انبیاء کی تصدیق کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گزشتہ انبیاء  کی تصدیق تو فرمائی مگر کسی نئے آنے والے نبی کی بشارت نہیں دی۔ بلکہ فرمایا:

۱- قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ ۳۰ کے لگ بھک دجال اور کذاب پیدا نہ ہو جائیں ‘ جن میں سے ہرایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔


0- قریب ہے کہ میری امت میں ۳۰ جھوٹے پیدا ہوں‘ ہرایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں‘ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں‘ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ 

ان دو ارشادات میں رسول کریم   صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ایسے ”مدعیان نبوت“ (نبوت کا دعویٰ کرنے والے) کے لئے دجال اور کذاب کا لفظ استعمال فرمایا‘ جس کا معنیٰ ہے کہ: وہ لوگ شدید دھوکے باز اور بہت زیادہ جھوٹ بولنے والے ہوں گے‘ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے مسلمانوں کو اپنے دامن فریب میں پھنسائیں گے‘ لہذا امت کو خبردار کردیا گیا کہ وہ ایسے عیار و مکار مدعیان نبوت اور ان کے ماننے والوں سے دور رہیں۔ آپ کی اس پیشنگوئی کے مطابق ۱۴۰۰ سو سالہ دورمیں بہت سے کذاب اور دجال مدعیان نبوت کھڑے ہوئے جن کا حشر تاریخ اسلام سے واقفیت رکھنے والے خوب جانتے ہیں۔ماضی قریب میں ”قادیانی دجال“ (مرزا غلام  قادیانی) نے بھی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا‘  اللہ تعالی  نے اس کو ذلیل کیا۔ 

 یہ ”ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم “ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عظیم رحمت اور نعمت ہے‘ اس کی پاسداری اور شکر پوری امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر واجب ہے۔

اللہ تعالیٰ ٰ نے انسانیت کی ہدایت کے لیے نبوت و رسالت کا جو سلسلہ  حضرت آدم علیہ السلام سے شروع فرمایا تھا اس کا اختتام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت پر فرمایا۔ حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے جو انبیاء و رسل کی تعداد متعین تھی وہ تعداد حضور خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا میں تشریف لانے سے پوری ہوچکی ہے اب کسی ایسے نبی کی نبوت کا قائل ہونا جس سے تعداد میں اضافہ ہو یہ ختم نبوت کے عقیدہ کے منافی ہے اور کفر ہے۔عقیدۂ ختم نبوت اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اگر اس پر ایمان نہ ہوا یا اس میں تردد ہوا تو ایسا شخص کسی طور مسلمان نہیں کہلا سکتا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت پر بے حد شفیق ومہربان ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم نے اپنے بعد آنے والے تمام اہم فتنوں سے امت کو آگاہ فرمایا، ان سے بچنے کی صورتیں ارشاد فرمائیں۔صحابہ کرام بالخصوص خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کے طریقے پہ چلنے کا حکم فرمایا۔نئے پیش آنے والے مسائل میں فقہاء عظام اور علماء کرام کی طرف رجوع کا حکم دیا۔قرب قیامت پیش آنے والے حالات سے امت کو آگاہ فرمایا۔امام محمد مہدی کے پیداہونے،نام، والدہ کا نام،خلافت وغیرہ کے بارے بتایا۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اترنا، دجال کو قتل کرنا، یہودیت وعیسائیت کو ختم کرکے اسلام کو دنیا میں غالب کرنا، نکاح کرنا، روضۂ رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ حاضرہوکے سلام عرض کرنا،وفات اور ان کے جائے مدفن وغیرہ کو تفصیل سے بیان فرمایا جن کا تذکرہ احادیث صحیحہ میں موجود ہے۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم نے امت کی راہنمائی کے لئے یہ سب کچھ کیا لیکن کسی ایک حدیث میں بھی اشارتاً کنایتاً  یہ نہیں فرمایا کہ میرے بعد فلاں نام کا آدمی فلاں زمانہ میں نبی بن کر آئے گا جس پہ ایمان لانا ضروری ہوگا بلکہ اس کے برعکس جھوٹے مدعیان نبوت کے بارے آگاہ فرمایا کہ کچھ لوگ خود کونبی کہیں  گے حقیقت میں وہ کذاب اور دجال ہوں گے۔جس سے صراحتاً ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بغیر کسی تاویل وتخصیص کے اللہ تعالیٰ کے آخری نبی مرسل ہیں آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی بھی قسم کی نئی نبوت کی قطعاً ضرورت نہیں ہے اس لیے جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی نئی نبوت کا  دعویٰ کرے تو اس کا اسلام سے بالکل کوئی تعلق نہیں۔ قرآن وحدیث میں اسے صراحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ھے  تاکہ عقیدۂ ختم نبوت پر ایمان مضبوط رہے۔

Share: