عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 3 )


*عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی عظمت و ُاِھمیت*


عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی عظمت و ُاِھمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ھے کہ اس مبارک موضوع  کو ھر دور  کے علماء کرام نہ صرف یہ کہ اپنی تقریروں ، مناظروں ، مباھلوں اور تحریروں کے ذریعہ بھرپور طریقہ سے اُجاگر فرماتے رھے بلکہ علماء کرام کی ایک بڑی تعداد اس عقیدہ کی حفاظت کے لئے اپنی زندگیاں بھی وقف کرتی رھی اور یہ سلسلہ زمانۂ حال تک  جاری ھے اور  ان شاء اللہ  تا قیامت جاری رھے گا 

ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیدہ دینِ اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی رشد وہدایت کا جو سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع فرمایا تھا اسے اپنے آخری نبی اور رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ختم فرما دیا اور ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم الشان محل کی تکمیل  حضرت محمد  ؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت پر  فرما دی گویا ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم الشان محل کی تکمیل حضرت محمد  ؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود مسعود ھی ہے۔

ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیدہ ان اجتماعی عقائد میں سے ہے، جو اسلام کے اصول اور ضروریات دین میں شمار کئے گئے ہیں۔عہد نبوتؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر اس وقت تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلا کسی تاویل اور تخصیص کے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ قرآن مجید کی ایک سو آیات کریمہ، رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث متواترہ (دو سو دس احادیث مبارکہ) سے یہ مسئلہ ثابت ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا سب سے پہلا اجماع اسی مسئلہ پر ہوا کہ مدعی نبوت کو قتل کیا جائے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ حیات میں اسلام کے تحفظ و دفاع کے لئے جتنی جنگیں لڑی گئیں، ان میں شہید ہونے والے صحابہ کرام ؓکی کل تعداد  لگ بھگ 259 بنتی ہے اور عقیدہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تحفظ و دفاع کے لئے اسلام کی تاریخ میں پہلی جنگ جو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں مسیلمہ کذاب کے خلاف یمامہ کے میدان میں لڑی گئی، اس ایک جنگ میں شہید ہونے والے صحابہؓ اور تابعین ؒکی تعداد بارہ سو ہے جن میں سے سات سو قرآن مجید کے حافظ اور عالم بھی تھے۔رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کی کل کمائی اور گراں قدر اثاثہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، جن کی بڑی تعداد اس عقیدہ کے تحفظ کے لئے جام شہادت نوش کرگئی۔ اس سے ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقیدہ کی اھمیت اور عظمت کا اندازہ ہوسکتاہے۔


چنانچہ حضرت خبیب بن زید انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یمامہ کے قبیلہ بنو حنیفہ کے مسیلمہ کذاب کی طرف بھیجا، مسیلمہ کذاب نے حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں؟ حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہاں، مسیلمہ نے کہا کہ کیا تم اس بات کی بھی گواہی دیتے ہو کہ میں (مسیلمہ) بھی اللہ کا رسول ہوں؟ حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ میں بہرا ہوں، تیری یہ بات نہیں سن سکتا، مسیلمہ کذاب بار بار سوال کرتا رہا، وہ یہی جواب دیتے رہے اور مسیلمہ کذاب ھر دفعہ ان کے جسم کا ایک ایک عضو کاٹتا رہا حتی کہ خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن زید کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کو شہید کردیا گیا۔اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسئلہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و اہمیت سے کس طرح والہانہ تعلق رکھتے تھے، یہی حال حضرات تابعین کا تھا چنانچہ ایک تابعی  حضرت ابو مسلم خولانی  جن کا نام عبداللہ بن ثوب  رحمہ اللہ  ہے اور یہ امت محمدیہ (علی صاحبہا السلام) کے وہ جلیل القدر بزرگ ہیں جن کے لئے ا للہ تعالیٰ نے آگ کو اسی طرح بے اثر فرمادیا تھا جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آتش نمرود کو گلزار بنادیا تھا۔ یہ یمن میں پیدا ہوئے تھے اور رسول کریم صلی ا للہ علیہ وسلم کے عہد مبارک ہی میں اسلام لاچکے تھے لیکن رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا موقع نہیں ملا تھا۔ آنحضرت صلی ا للہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے آخری دور میں یمن میں نبوت کا  ایک جھوٹا دعویدار اسود عنسی نمودار  ہوا۔ جو لوگوں کو اپنی جھوٹی نبوت پر ایمان لانے کے لئے مجبور کیا کرتا تھا۔ اسی دوران اس نے حضرت ابو مسلم خولانی رحمہ اللہ  کو پیغام بھیج کر اپنے پاس بلایا اور اپنی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی، حضرت ابو مسلم رحمہ اللہ  نے انکار کیا پھر اس نے پوچھا کہ کیا تم محمد صلی ا للہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان رکھتے ہو؟ حضرت ابو مسلم رضی ا للہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہاں، اس پر اسود عنسی نے ایک خوفناک آگ دہکائی اور حضرت ابو مسلم رحمہ اللہ  کو اس آگ میں ڈال دیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے آگ کو بے اثر فرمادیا، اور وہ اس سے صحیح سلامت نکل آئے۔ یہ واقعہ اتنا عجیب تھا کہ اسود عنسی اور اس کے رفقاء پر ہیبت سی طاری ہوگئی اور اسود کے ساتھیوں نے اسے مشورہ دیا کہ ان کو جلاوطن کردو، ورنہ خطرہ ہے کہ ان کی وجہ سے تمہارے پیروکاروں کے ایمان میں تزلزل آجائے گا ، چنانچہ انہیں یمن سے جلاوطن کردیا گیا۔ یمن سے نکل کرمدینہ منورہ تشریف لے آئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب ان سے ملے تو فرمایا’’ا للہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے موت سے پہلے امت محمدیہ صلی ا للہ علیہ وسلم کے اس شخص کی زیارت کرادی جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جیسا معاملہ فرمایا تھا۔ ‘‘


قرآن مجید میں ذات باری تعالیٰ کے متعلق ’’ رب العالمین‘‘   آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے لئے ’’رحمۃ للعالمین‘‘ قرآن مجید کے لئے ’’ذکر للعالمین‘‘ اور بیت اللہ شریف کے لئے ’’ھدی للعالمین‘‘ فرمایا گیا ہے، اس سے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی آفاقیت و عالمگیریت ثابت ہوتی ہے، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصف ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اختصاص بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے لئے ثابت ہوتا ہے، اس لئے کہ پہلے تمام انبیاء علیہم السلام اپنے اپنے علاقہ، مخصوص قوم اور مخصوص وقت کے لئے تشریف لائے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو حق تعالیٰ نے کل کائنات کو آپ کی نبوت و رسالت کے لئے ایک اکائی (ون یونٹ) بنادیا۔جس طرح کل کائنات کے لئے اللہ تعالیٰ ’’رب‘‘ ہیں، اسی طرح کل کائنات کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ’’نبی‘‘ ہیں۔ یہ صرف اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعزاز و اختصاص ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم نے اپنے لئے جن چھ خصوصیات کا ذکر فرمایا ان میں سے ایک یہ بھی ہے:: ’’میں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مخلوق کے لئے نبی بناکر بھیجا گیا اور مجھ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نبوت کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔‘‘ 

(مسلم جلد1 صفحہ 199)



آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری نبیؐ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت آخری امت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قبلہ آخری قبلہ بیت اللہ شریف ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل شدہ کتاب آخری آسمانی کتاب ہے۔ یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے ساتھ منصب ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اختصاص کے تقاضے ہیں جو ا للہ تعالیٰ نے پورے کردیئے، چنانچہ قرآن مجید کو ذکر للعالمین اور بیت اللہ شریف کو ھدی للعالمین کا اعزاز بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے میں ھی ملا ھے

Share: