عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 30)


*ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد اور تحریکیں*


*جھوٹی نبوت  اورلعنتی مرزا  کا انتخاب*


برصغیر میں ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے زیادہ تر مسائل قادیانی فتنہ کی وجہ سے پیدا ھوئے اور ظاھر ھے ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تحریکیں بھی اسی فتنہ کے خلاف چلائی گئیں جن میں ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے یہ فتنہ کیسے پیدا ھوا اس کا مختصر تجزیہ یہ ھے کی متحدہ ہندوستان میں انگریز اپنے جوروستم اور استبدادی حربوں سے جب مسلمانوں کے قلوب کو مغلوب نہ کرسکا تو اس نے ایک کمیشن قائم کیا جس نے پورے ہندوستان کا سروے کیا اور واپس جا کر برطانوی پارلیمنٹ میں یہ رپورٹ پیش کی کہ مسلمانوں کے دلوں سے جذبہ جہاد مٹانے کے لیے ضروری ہے کہ کسی ایسے شخص سے نبوت کا دعویٰ کرایا جائے جو جہاد کو حرام قرار دے اور انگریز حکومت کی اطاعت کو مسلمانوں پر اولوالامر کی حیثیت سے فرض قرار دے۔

ان دنوں لعنتی مرزا غلام قادیانی سیالکوٹ ڈی سی آفس میں معمولی درجہ کا ملازم  تھا۔ اس نے اردو، عربی اور فارسی اپنے گھر میں ھی پڑھی ھوئی تھی۔ مختاری کا امتحان بھی دیا تھا مگر اس میں بھی ناکام ہوگیا تھا ۔ غرضیکہ اس کی تعلیم دینی و دنیاوی دونوں اعتبار سے ناقص تھی۔ جھوٹے نبی کا متلاشی مسیح مشن اپنے پروگرام کے مطابق جب سیالکوٹ پہنچا تو اس کی نظرِ کرم اس لعنتی مرزا غلام قادیانی پر پڑی تحقیق حال کے بعد پتہ چلا کہ اس مردود کا خاندان پہلے ھی انگریز سرکار کا وفادار ھے چنانچہ اس مقصد کے لئے انگریزی ڈپٹی کمشنر کے توسط سے مسیحی مشن کے ایک اہم اور ذمہ دار شخص نے اس لعنتی سے ڈی سی آفس سیالکوٹ میں ملاقات کی۔ گویا یہ اس کا اس آسامی کے لئے انٹرویو تھا  انٹر ویو کے بعد مسیحی مشن کا یہ ذمہ دار شخص  انگلینڈ روانہ ہوگیااور مرزا قادیانی ملازمت چھوڑ کر قادیان پہنچ گیا۔ جب کئی دن گزرنے کے بعد غلام قادیانی ڈیوٹی پر واپس نہ گیا تو باپ کو تشویش ھوئی اس نے کہا کہ تم ڈیوٹی پر کیوں نہیں جارھے ؟ اپنی نوکری کی فکرکرو، غلام قادیانی نے باپ کو جواب دیا  کہ میں بہت آچھی جگہ نوکر ہوگیا ہوں اور پھر بغیر مرسل کے پتہ کے منی آرڈر ملنے شروع ہوگئے۔ مرزا قادیانی نے مذہبی اختلافات کو ہوا دی۔ بحث و مباحثہ، اشتہار بازی شروع کردی۔ یہ تمام تر تفصیل مرزائی کتب میں موجود ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کام کے لئے برطانوی سامراج نے مرزا قادیانی کا ھی کیوں انتخاب کیا۔ اس کا جواب خود مرزائی لٹریچر میں موجود ہے کہ مرزا قادیانی کا خاندان جدی پشتی انگریز  سرکار کا نمک خوار خوشامدی اور مسلمانوں کا غدار تھا۔ مرزا قادیانی کے والد نے 1857ء کی جنگ آزادی میں برطانوی سامراج کو پچاس گھوڑے بمعہ سازو سامان مہیاکیے تھے اور یوں مسلمانوں کے قتل عام سے اپنے ہاتھ رنگین کر کے انگریز سے انعام میں جائیدادیں حاصل کی تھیں  ۔مرزا غلام قادیانی لکھتا ہے کہ “میرے والد صاحب کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی مرزا غلام قادر خدمات سرکار میں مصروف رہا” ۔ یہ کذاب اپنی کتاب “ستارہ قیصریہ”  صفحہ 4 میں اپنے بارے میں لکھتا ہے کہ میری عمر کا اکثر حصہ انگریزی سلطنت  کی تائید و حمایت میں گذرا اور میں نے ممانعتِ جہاد اور انگریز سرکار کی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کیے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھرسکتی ہیں (تریاق القلوب صفحہ25)۔

غرضیکہ مرزا قادیانی کے گوشت پوست میں انگریز کی وفاداری اور مسلمانوں سے غداری رچی بسی ھوئی تھی۔ یہی وہ وجہ ہے کہ اس مقصد کے لئے انگریز کی نظر انتخاب مرزا قادیانی پر پڑی اور اس کی خدمات حاصل کی گئیں۔جن حضرات کی مرزائیت کے لٹریچر پر نظرہے وہ جانتے ہیں کہ مرزا قادیانی کی ہر بات میں تضاد ہے لیکن حرمتِ جہاد اور فرضیتِ اطاعتِ انگریز ایک ایسا مسئلہ ہے کہ اس میں مرزا قادیانی کی کبھی دو رائیں نہیں ہوئیں کیونکہ یہ اس کا بنیادی مقصد اور غرض و غایت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو گورنمنٹ  آف برطانیہ کا خود کاشتہ پودا قرار دیا۔ 

سرسید احمد خان مرحوم سے ایک روایت ھے جو ان کے مشہور مجلہ “تہذیب الاخلاق “ میں چھپ چکی ہے ، اس کے مطابق سرسید احمد خان سے انگریز وائسرائے ہند نے ذاتی طور درخواست کی کہ وہ  مرزا قادیانی کے مشن میں امداد و اعانت فراھم کریں بقول سرسید آحمد خان کے انہوں نے نہ صرف اس درخواست کو رد کردیا بلکہ اس منصوبہ کا راز  بھی افشاکردیا جس کے نتیجہ میں انگریز وائسرائے سرسید احمد خاں سے ناراض ہوگئے۔ 

مرزا قادیانی کے دعوؤں پر نظر ڈالیے۔ اس نے بتدریج خادم اسلام، مبلغ اسلام، مجدد، مہدی، مثیل مسیح، مسیح ، ظلی نبی، بروزی نبی ، امتی نبی، مستقل نبی، تمام انبیاء سے افضل حتیٰ کہ خدائی تک کا دعویٰ کیا۔ یہ سب کچھ ایک طے شدہ منصوبہ، گہری چال اور خطر ناک سازش کے تحت کیا۔ قطب عالم حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنے نور ایمانی اور بصیرت وجدانی سے مرزا قادیانی کے دعویٰ سے بہت پہلے پنجاب کے معروف روحانی بزرگ حضرت مولانا پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃاللہ علیہ سے حجاز مقدس میں ارشاد فرمایا  تھا کہ پنجاب میں ایک فتنہ اٹھنے والا ہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس کے خلاف آپ سے کام لیں گے۔ اُنھیں بیعت و خلافت سے سرفراز فرمایا اور  اس فتنہ کے خلاف کام کرنے کی تلقین بھی  فرمائی۔

ردِ قادیانیت کے لئے ویسے  تو مسلمانان برصغیر کے ھر طبقہ نے  حصہ لیا اور ھر مکتبِ فکر کے علماء نے بھرپور کوشش کی لیکن اس سلسلہ میں امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جن خوش نصیب و خوش بخت حضرات نے بڑی تندہی اور جانفشانی  سے کام کیا۔ ان میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا انور شاہ کاشمیری رحمة اللہ علیہ ، حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا محمدحسین بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ، جناب مولانا قاضی حمد سلیمان منصور پوری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری رحمۃ اللہ علیہ، حصرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ،پروفیسر محمد الیاس برنی رحمۃ اللہ علیہ،علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ،حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا سیدمحمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ،حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا محمد داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ،حضرت مولانا ظفر علی خان رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مظہر علی اظہر رحمۃ اللہ علیہ، حافظ کفایت حسین رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا پیرجماعت علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ، مولانا مفتی محمود رحمة اللہ علیہ، مولانا نورانی رحمة اللہ علیہ  اور اغا شارش کاشمیری رحمة اللہ  وغیرہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔

Share: