عقیدۂ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 55 )


* ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد اور تحریکیں*



*  تحریک ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - 30 جون 1974ء  کو اپوزیشن کی طرف سے قومی اسمبلی میں پیش کی گئی قرارداد کا متن :*


جناب اسپیکر، قومی اسمبلی پاکستان 


محترمی! ہم حسب ذیل تحریک پیش کرنے کی اجازت چاہتے ہیں!


ہر گاہ کہ یہ ایک مکمل مسلمہ حقیقت ہے کہ قادیان کے مرزا غلام قادیانی  نے آخری نبی حضرت محمدﷺ کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کیا، 

نیز ہر گاہ کہ نبی ہونے کا اس کا جھوٹا اعلان، بہت سی قرآنی آیات کو جھٹلانے اور جہاد کو ختم کرنے کی اس کی کوششیں، اسلام کے بڑے بڑے احکام کے خلاف غداری تھی۔

 نیز ہر گاہ کہ وہ سامراج کی پیداوار تھا اور اس کا واحد مقصد مسلمانوں کے اتحاد کو تباہ کرنا اور اسلام کو جھٹلانا تھا۔ 

نیز ہر گاہ کہ پوری امت مسلمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ مرزا غلام قادیانی کے پیروکار چاہے وہ مرزا غلام مذکورہ کی نبوت کا یقین رکھتے ہوں یا اسے اپنا مصلح یا مذہبی رہنما کسی بھی صورت میں گردانتے ہوں، دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ 

نیز ہر گاہ کہ ان کے پیروکار، چاہے انہیں کوئی بھی نام دیا جائے، مسلمانوں کے ساتھ گھل مل کر اور اسلام کا ایک فرقہ ہونے کا بہانہ کر کے اندرونی اور بیرونی طور پر تخریبی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ 

نیز ہر گاہ کہ عالمی مسلم تنظیموں کی ایک کانفرنس میں، جو مکہ المکرمہ کے مقدس شہر میں رابطہ العالم الاسلامی 10 اپریل 1974ء کے درمیان منعقد ہوئی اور جس میں دنیا بھر کے تمام حصوں سے 140 مسلمان تنظیموں اور اداروں کے وفود نے شرکت کی، متفقہ طور پر یہ رائے ظاہر کی گئی کہ قادیانیت، اسلام اور عالم اسلام کے خلاف ایک تخریبی تحریک ہے جو ایک اسلامی فرقہ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ 


اب اس اسمبلی کو یہ اعلان کرنے کی کارروائی کرنی چاہئے کہ مرزا غلام قادیانی  کے پیروکار، انہیں چاہے کوئی بھی نام دیا جائے، مسلمان نہیں 

اور یہ کہ قومی اسمبلی میں ایک سرکاری بل پیش کیا جائے تا کہ اس اعلان کو مؤثر بنانے کے لئے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر ان کے جائز حقوق و مفادات کے تحفظ کے لئے احکام وضع کرنے کی خاطر آئین میں مناسب اور ضروری ترمیمات کی جائیں۔ 


*محرکینِ قرارداد* 

مولانا مفتی محمود

مولانا عبدالمصطفی الازہری، 

مولانا شاہ احمد نورانی، 

پروفیسر غفور احمد، 

مولانا سید محمد علی رضوی، 

مولانا عبدالحق (اکوڑہ خٹک)، 

چودھری ظہور الٰہی، 

سردار شیر باز خان مزاری، 

مولانا محمد ظفر احمد انصاری، 

جناب عبدالحمید جتوئی، 

صاحبزادہ احمد رضا قصوری، 

جناب محمود اعظم فاروقی، 

مولانا صدر الشہید، 

مولانا نعمت اللہ، 

جناب عمر خان، 

مخدوم نور محمد، 

جناب غلام فاروق، 

سردار مولا بخش سومرو، 

سردار شوکت حیات خان، 

حاجی علی احمد تالپور، 

جناب راؤ خورشید علی خان، 

جناب رئیس عطا محمد خان مری۔ 


بعد میں حسب ذیل ارکان نے بھی قرارداد پر دستخط کئے: 

نوابزادہ میاں محمد ذاکر قریشی، 

جناب غلام حسن خان دھاندلا، 

جناب کرم بخش اعوان، 

صاحبزادہ محمد نذیر سلطان، 

مہر غلام حیدر بھروانہ، 

میاں محمد ابراہیم برق، 

صاحبزادہ صفی اللہ، 

صاحبزادہ نعمت اللہ خان شنواری، 

ملک جہانگیر خان، 

جناب عبدالسبحان خان، 

جناب اکبر خان مہمند، 

میجر جنرل جمالدار، 

حاجی صالح محمد، 

جناب عبدالمالک خان، 

خواجہ جمال محمد کوریجہ۔


قومی اسمبلی میں 28 اگست کو لاہوری گروپ پر سوالاً جواباً جرح ختم ہوئی، 5 اور 6 ستمبر 1974ء کو اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے تفصیلی بیان اراکین اسمبلی کے سامنے پڑھا، اس بیان میں انہوں نے اسمبلی کی تمام بحث کو سمیٹ لیا۔ 7 ستمبر 1974ء کو چار بجے اسمبلی کا فیصلہ کن اجلاس ہوا اور 4 بج کر 35 منٹ پر متفقہ طور پر قادیانیوں کی دونوں شاخوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر دائرہ اسلام سے خارج کر دیا گیا۔ قادیانیوں کے بارے میں آئین پاکستان میں ترمیم کی گئی۔

قادیانیوں کے بارے میں ترمیمی بل متفقہ طور پر پاس ہو گیا تو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے قائد ایوان کی حیثیت سے 27 منٹ تک ایک وضاحتی تقریر کی جو ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے جو الگ سے پڑھنے بلکہ سمجھنے کے قابل ہے ۔انہوں نے  اپنی تقریر میں کہاکہ یہ فیصلہ پاکستان کے مسلمانوں کے ارادے ،خواہشات اور ان کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے


ان شاء اللہ آئندہ قسط میں اُن کی تقریر کا اردو ترجمہ پیش کیا جائے گا

Share: