عقیدۂ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 69 )


*  مرزائی ریشہ دوانیاں،سرکاری چشم پوشی اور اربابِ اختیار کی مرزائیوں پر نوازشیں! *


صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے آرڈیننس نمبر 20 موسومہ امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کیا تھا جس کے تحت مرزائیوں کے ہر دو گروپ لاہوری و قادیانی کو ان کی خلافِ اسلام سرگرمیوں سے روک دیا گیا تھا آرڈیننس کے ذریعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298بی اور سی کا اضافہ کیا گیا تھا اس آرڈیننس کے تحت پاکستان پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس 1963ء کی دفعہ 24 میں بھی ترمیم کر دی گئی تھی جس کی رو سے صوبائی حکومتوں کو یہ اختیار مل گیا تھا کہ وہ ایسے پریس کو بند کر دے جو تعزیرات پاکستان کی اس نئی اضافہ شدہ دفعہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوئی کتاب یا اخبار چھاپتا ہو اس اخبار کاڈیکلریشن منسوخ کر دے جو متذکرہ دفعہ کی خلاف ورزی کرتا ہو اور ہر اس کتاب یا اخبار پر قبضہ کرے جس کی چھپائی یا اشاعت پر اس دفعہ کی رُو سے پابندی ہے۔ اس دفعہ سے  قادیانیوں کے اخبار  “الفضل “ پر  بھی پابندی لگ گئی تھی اور اس طرح اس اخبار کے ذریعہ مرزائیت کی جو آشاعت ھو رھی تھی وہ بند ھو گئی

اس ایکٹ کے نفاذ سے قبل 74ء میں آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے باوجود قادیانی کھلم کھلا اپنے آپ کو مسلمانوں میں شمار کرتے تھے اور اپنے حوالہ سے مسلمانوں کو کھلا دھوکہ دیتے تھے مگر اس ایکٹ کے عملی نفاذ کے بعد ان کا یہ دھوکہ سادہ لوح مسلمانوں کے سامنے کھل گیا تھا ۔ یہ مرحوم ضیاء الحق شہید کا مسلمانوں کے دین و ایمان کو منکرین ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قادیانیوں کے خطرناک دھوکہ سے بچانے کا ایسا کارنامہ ہے جو کبھی بھی مسلمانوں کے اور عقیدہ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تحفظ کا کام کرنے والوں کے دلوں سے نہیں نکل سکتا مگر جنرل ضیاءالحق کی شہادت کے بعد آنے والی حکومتوں نے مرزائیوں کی شرارتوں پر نہ صرف چشم پوشی کی پالیسی اپنائے رکھی بلکہ انہیں مختلف بہانوں سے سہولتیں دینے اور مذکورہ بالا ایکٹ کو بےاثر کرنے میں حتی المقدور کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی


*مرزائی اور بے نظیر حکومت*


جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم (جن کے دور میں قادیانیوں  کو اس وقت کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر کافر قرار دیا تھا ) کی صاحبزادی (بیگم زرداری ) محترمہ بے نظیر صاحبہ اقتدار میں آئیں تو قادیانی بے نظیر کے دور میں پھر متحرک ہوئے وہ اس آئینی ایکٹ کی دھجیاں بکھیرنے میں مصروف رھے  بے نظیر بھٹو چونکہ ضیاء الحق سے شدید نفرت کرتی تھی اس لئے وہ ھر اس نشان کو مٹا دینے کے درپے تھیں جس کا تعلق کسی طرح بھی ضیاء الحق سےھو چونکہ ضیاء دور میں مرزائیوں پر سخت پابندیاں عائد کی گئی تھیں اس لئے ضیاء دشمنی کی بنا پر بے نظیر حکومت کا رویہ مرزائیوں کے ساتھ انتہائی ھمدردانہ رھا  حالانکہ اس کےباپ کے دور میں ھی مرزائیوں کو کافر قرار دیا گیا تھا  لیکن ضیاء دشمنی کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ اس نے اس بات کا بھی کوئی خیال نہ کیا لہذا بے نظیر نے اپنے دورِ حکومت میں ایک کام تو یہ کیا کہ سرکاری طور پر عملاً اس ایکٹ کو بے اثر کر کے رکھ دیا  مرزائیوں کے خلاف ایکٹ کی خلاف ورزیوں پر کوئی ایکشن نہ لیا گیا گویا اس دور میں یہ قانون صرف کاغذوں تک ھی محدود ھو گیا اس طرح مرزائیوں کو  حوصلہ ملا اور انہیں اپنی مکروہ کاروائیاں جاری رکھنے میں کوئی رکاوٹ نہ رھی  

دوسرا  انتہائی غلط کام بے نظیر دور میں یہ ھوا کہ چونکہ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے نافذ کردہ اس ایکٹ کی وجہ سے مرزائیوں کا آخبار “الفضل “ بند پڑا تھا اس کی آشاعت کو دوبارہ کھولنے کے لئے بے نظیر حکومت نے پریس کی آزادی کا ڈھونگ رچایا اور اس ضمن میں عملی اقدامات کرتے ہوئے پریس آرڈیننس کی اس ترمیم کو  سرے سے ھی اُڑا  دیا جس کی وجہ سے لعنتی مرزائیوں کے اس آخبار پر پابندی عائد تھی  اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے بھی اس پر تائیدی دستخط کر دئیے اس طرح مرزائی آخبار “الفضل “ دوبارہ جاری ہو گیا۔ محترمہ بے نظیر صاحبہ اور صدر غلام اسحاق خان کی اس سیاہ حرکت کا بیچارے مسلمانوں کے پاس سوائے افسوس کے اور کوئی علاج نہ تھا۔ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب  اور مولانا عبدالستار نیازی صاحب ان دنوں قومی اسمبلی کے ممبر تھے۔ ان حضرات نے بڑی کوشش و سعی کی مگر محترمہ بے نظیر صاحبہ اور  اُس وقت کے وزیر داخلہ اعتزاز صاحب نے ان کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا ۔

بے نظیر کے دوسرے دور حکومت میں بھی مرزائیوں پر نوازشوں کا یہ سلسلہ مختلف طریقوں سے اسی طرح جاری رھا اور مرزائیوں کو اپنا کفر وارتداد پھیلانے کی کوششوں میں کوئی رکاوٹ نہ رھی البتہ مجلس ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے پلیٹ فارم سے پوری شدٌ و مدٌ سے آواز بلند کئے رکھی اور پورے زور و شور سے مرزائیوں کا ناطقہ بند کیے رکھا یہی وجہ ھے یہ قانون اب بھی موجود ھے اور  مجلس ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد کا یہ سلسلہ بھی اب تک جاری وساری ھے اور ان شاء اللہ اس وقت تک جاری وساری رھے گا جب تک ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان ڈاکوؤں کا ناپاک وجود اس دنیا سے مٹ نہیں جاتا

Share: