* ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد اور تحریکیں*
* تحریکِ تحفظِ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) 1984ء قادیانی مسئلہ اور صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی وضاحت اور اس کے عملی تقاضے *
14 نومبر 1983 کو شیرانوالہ لاہور میں مجلس تحفظ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پاکستان کی دعوت پر ملک کے تمام مذہبی مکاتب فکر کے سرکردہ نمائندوں کا ایک اجلاس حضرت مولانا خان محمد صاحب رحمہ اللہ کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ اکابر کے علاوہ جماعت اسلامی کے ذمہ دار حضرات بھی شریک ہوئے۔ اور اس میں چودہ رکنی کنویننگ کمیٹی قائم کر کے اسے مرکزی مجلس عمل ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشکیل و تنظیم کے لیے عملی اقدامات کی ذمہ داری سونپی گئی اور 25 نومبر کو لاہور میں کل جماعتی ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا۔
جیسا کہ گذشتہ قسط میں بتایا جاچکا ھے کہ صدر جنرل ضیاء الحق نے مرزائیت کےبارے اپنے اعتقادات اور احساسات کا کھل کر اعلان کر دیا تھا جس سے ان کی ذات کے متعلق شکوک وشبہات تو ختم ھو گئے تھے اب جو عملی تقاضے تھے ان کو پورا کرنا بھی حکومت کی ھی ذمہ داری تھی
*آئینی فیصلہ پر عملدرآمد*
صدر ضیاء الحق جولائی ۱۹۷۷ء میں برسرِ اقتدار آئے تھے اور ان کا مسندِ اقتدار پر فائز ہونا اس بے مثال تحریک کا نتیجہ تھا جس میں پاکستان کے عوام، علماء، طلباء، وکلاء، تاجروں، خواتین، محنت کشوں اور دیگر تمام طبقوں نے ظلم و جبر کے تاریک دور سے نجات اور نظامِ مصطفٰی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نفاذ کے جذبے سے قربانیاں دی تھیں ہزاروں نوجوانوں نے خون کا نذرانہ پیش کیا تھا اور لاکھوں پروانوں نے جیلوں کی کال کوٹھڑیوں کو آباد کیا تھا ۔ پردہ دار خواتین نے اپنے آنچلوں کو تحریک نظامِ مصطفٰی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پرچم بنا کر ایثار و قربانی کی تاریخ میں نیا باب رقم کیا تھا اور علماء نے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملتِ اسلامیہ کی متحدہ اور جرأت مندانہ قیادت کی تھی اس عظیم الشان تحریک کے نتیجے میں جب صدر ضیاء نے برسرِ اقتدار آکر انتخابات کرانے اور اسلامی نظام نافذ کرنے کا وعدہ کیا تو پوری قوم نے جشن منایا اور مسرت و شادمانی کا برملا اظہار کیا۔
یہ ایک لازوال حقیقت ہے کہ پاکستان کے عوام کے لیے اسلامی نظام کا نفاذ اور عقیدۂ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تحفظ ہی ہر دور میں جذباتی اور حساس مسئلے رہے ہیں۔ ان مقاصد کے لیے پاکستانی عوام نے ہمیشہ مصلحتوں سے بالاتر ہو کر قربانیاں دی ہیں اور اسلام اور ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب بھی پکارا ہے، غیور مسلمانوں نے سود و زیاں سے بے نیاز ہو کر سب کچھ نثار کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب صدر ضیاء نے اسلامی نظام کے نفاذ کا وعدہ کیا تو پاکستانی عوام نے بجا طور پر ان سے یہ توقع باندھ لی تھی کہ وہ اسلامی نظام کے ساتھ ساتھ عقیدۂ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تحفظ کے دینی اور قومی مسئلہ پر بھی توجہ دیں گے، اور ۱۹۷۳ء کے آئین میں ملتِ اسلامیہ نے ۱۹۷۴ء کی عظیم الشان تحریک ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نتیجہ میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا جو فیصلہ شامل کرایا تھا اس پر عملدرآمد کی راہ میں سابقہ حکومت کی مصلحتوں کی دیوار ہٹ جائے گی اور یہ فیصلہ اپنے آئینی اور دینی تقاضوں کی تکمیل کی منزل سے ہمکنار ہوگا۔ مسلمانوں کو بجا طور پر یہ توقع تھی کہ:
قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے آئینی فیصلوں کے مطابق اب قانون سازی کا کام مکمل ہوگا۔
قادیانیوں کو غیر مسلم کی حیثیت قبول کرنے پر قانوناً پابند کیا جائے گا۔
انہیں اسلام کے نام پر اپنے مذہب کی اشاعت سے روک دیا جائے گا۔
انہیں امیر المؤمنین، ام المؤمنین، خلیفہ، صحابی اور دیگر خالص اسلامی اصطلاحات کے استعمال سے باز کر دیا جائے گا۔
ان کی عبادت گاہوں کا نام اور ہیئت مسلمانوں کی مسجد سے الگ کر دی جائے گی۔
اسلام کے اجماعی عقائد کے خلاف اور انبیاء کرامؑ اور صحابہ کرامؓ و بزرگان امتؒ کی کھلم کھلا توہین پر مشتمل قادیانی لٹریچر کی اشاعت پر پابندی لگا دی جائے گی۔
اور ان کی سرگرمیوں کو دوسری اقلیتوں کی طرح عملاً غیر مسلم اقلیت کے دائرہ میں محصور کر دیا جائے گا۔ؔ
لیکن اسلامیانِ پاکستان کی یہ توقعات نقش بر آب ثابت ہوئیں اور نہ صرف یہ کہ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تحفظ کے سلسلہ میں ضیاء حکومت کا کوئی اقدام (چند جزوی اور وقتی اقدامات سے قطع نظر) ابھی تک سامنے نہیں آیا تھا بلکہ اسلامی نظام کے نفاذ کے سلسلہ میں حکومت کے وعدے اور اقدامات بھی حکومت کی مصلحتوں اور بیوروکریسی کی اٹھکیلیوں کی نذر ہوگئے تھے بھٹو حکومت نے اگر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے آئینی فیصلے پر عملدرآمد کی راہ میں مصلحتوں کی دیوار حائل کر دی تھی تو اس کی وجہ سمجھ میں آتی تھی کہ وہ خود نفاذِ اسلام کے دعویدار نہ تھے اور نہ ہی اب ان کی جماعت اسلام کی دعویدار ہے۔ وہ تب بھی سوشلزم کی بات کرتے تھے اور آج بھی اسی حوالے سے سیاست کا ناٹک رچا رہے ہیں۔ اس میں انہوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ عوام کے بے پناہ دباؤ کے تحت کیا تھا۔ اس لیے اگر انہوں نے اس فیصلہ پر عملدرآمد کی طرف پیش رفت نہیں کی تو یہ بات پاکستانی مسلمانوں کے لیے زیادہ پریشانی کا باعث نہ تھی۔ مگر جب اسلام کی دعویدار اور اسلام کو اپنا مشن قرار دینے والی حکومت نے ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تحفظ کے آئینی و قانونی تقاضوں کو نظر انداز کر دیا تو اس کا مسلمانوں کو صدمہ پہنچا، دکھ ہوا۔ اور یہی صدمہ اور دکھ دھیرے دھیرے حساس دلوں کو شکوک و شبہات کی وادی میں لے گیا۔
*مارشل لاء کے ضابطے اور قادیانی پریس*
مارشل لاء حکومت جب برسرِ اقتدار آئی تو اس نے پریس پر سنسرشپ نافذ کر دی اور اخبارات و جرائد اور کتابوں پر سنسر کے قواعد کا اطلاق کیا۔ لیکن امر واقعہ یہ تھا کہ قادیانی اخبارات و جرائد، کتابیں و رسائل اور دیگر مطبوعات اب تک سنسر کی گرفت سے دور تھیں ۔ دینی حلقوں کے مسلسل مطالبہ پر کچھ دنوں کے لیے روزنامہ الفضل اور ان کے چند ماہناموں پر سنسر بٹھا دیا گیا تھا مگر اس کی گرفت بھی ڈھیلی پڑ گئی تھی ۔ جبکہ اس کے برعکس ملک بھر میں سنسر کے قوانین کا سختی کے ساتھ اطلاق کیا گیا تھا متعدد اخبارات و جرائد بند ہوگئے، تھے ڈیکلیریشن ضبط کر لیے گئےتھے ، سرکاری اشتہارات روک لیے گئے تھے ، مدیرانِ جرائد گرفتار ہوئے اور سنسرشپ کی گرفت کو قائم رکھنے کے لیے ہر حربہ آزمایا گیا تھا مگر قادیانی اخبارات و جرائد ان تمام کاروائیوں سے مستثنیٰ رہے تھے ۔ اکا دکا اور جزوی واقعات کے سوا قادیانی قلمکاروں اور ناشروں کو اس بات کا مکمل تحفظ حاصل تھا کہ وہ جو چاہیں لکھیں اور جو چاہیں چھاپیں، ان کے لیے کوئی قاعدہ تھا نہ قانون۔ اور اگر گزشتہ چھ برس کے دوران شائع ہونے والے قادیانی لٹریچر کی چھان بین کسی غیرجانبدار انکوائری ٹیم سے کرائی جاتی تو ایسا بے پناہ مواد ریکارڈ پر آسکتا تھا جو سنسر قوانین کے سائے میں سنسرشپ کے تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے دھڑا دھڑ چھپتا اور تقسیم ہوتا رہا تھا
*ووٹر فارموں کا حلف نامہ*
ردٌِ قادیانیت کے حوالے سے اس وقت تک ضیاء حکومت کو اگر کسی اہم فیصلے کا کریڈٹ جاتا تھا تو وہ جداگانہ انتخابات کا فیصلہ تھا یہ فیصلہ بلاشبہ قادیانیوں پر ضربِ کاری کی حیثیت رکھتا تھا اور اگر اس فیصلہ پر مخلصانہ طور پر عمل ہو جاتا تو قادیانیوں کے لیے خود کو اقلیتوں کے کیمپ میں منتقل کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار باقی نہیں رہ جاتا۔ لیکن اس فیصلے کو سبوتاژ کرنے کے لیے کیا کیا حربے اختیار کیے گئے ان کی داستان انتہائی دلخراش ہے۔ انتخابات کے لیے ووٹروں کے اندراج کے لیے مسلمانوں کو ایک حلف نامہ پُر کرنا تھا جس میں عقیدۂ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان کے بارے میں آئینی فیصلے کے مطابق عبارت درج ہونا تھی۔ لیکن کروڑوں کی تعداد میں ووٹر فارم ملک میں پھیلا دیے گئے اور اس پر آئینی اور قانونی عبارت کی جگہ ایسا گول مول حلف نامہ درج کر دیا گیا تھا جو قادیانیوں کے لیے قابل قبول تھا اور جس سے مسلمان اور قادیانی کے درمیان امتیاز نہ ہوتا تھا۔ یہ ایک چور دروازہ تھا جس کے ذریعے قادیانی بھی مسلمانوں والا فارم پر کر کے مسلمان ووٹروں کی فہرست میں شامل ہو جاتے اور انہیں غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ عملاً بے اثر اور بے نتیجہ ہو کر رہ جاتا۔
اس پر احتجاج ہوا، مجلس تحفظ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دیگر جماعتوں نے ملک کے طول و عرض میں اس پر احتجاج کیا اور سب سے بڑھ کر مجلس تحفظ ختم نبوت نے اس مسئلہ کا سختی سے نوٹس لیا اور کافی تگ و دو اور ردوکد کے بعد بالآخر حلف نامہ کی عبارت کو درست کرایا گیا۔ قادیانی گروہ نے بیوروکریسی کے ذریعے کی جانے والی اس سازش کی ناکامی کے بعد ووٹروں کی فہرستوں میں اقلیت کے افراد کے طور پر اپنے نام لکھوانے سے انکار کر دیا اور اب تک وہ بائیکاٹ کے اس فیصلے پر قائم ہیں۔ مگر آئین اور قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور اس سے انکار کے باوجود ان کے خلاف آج تک کوئی قانونی کاروائی نہیں کی گئی