کیا صرف اکثریت کا ھی ھونا معیارِ حق ھے


کیا دنیا میں  مختلف قوموں یا افراد کی اکثریت کا کسی بات پر متفق ھونا  ھی معیارِ حق ھے اس کا جواب یقیناؔ نفی میں ھے  یہ معیار مغربی جمہوریت میں تو ھو سکتا ھے جسے بدقسمتی سے ھمارے ملک سمیت کئی اسلامی  ملکوں نے بھی اختیار کیا ھوا ھے لیکن اسلام میں حق کا یہ معیار ھرگز نہیں بلکہ اسلام میں حق کا معیار وہی ھے جو  قرآن و سنت کی شکل میں ھمارے  دین نے ھمیں دیا ھوا ھے  اس کے ماننے والے اکثریت میں ھوں یا اقلیت میں وھی حق پر ھیں یہ قیامت تک کے لئے ایک فارمولہ طے ھو چکا ھے اس میں کسی قسم کے کسی  تغییر وتبدل کی قطعی کوئی گنجائش نہیں


آج کل مغربی ممالک میں اکثریت کو ھی معیارِ حق مان لیا گیا ھے یہی وجہ ھے وہاں اکثریت کے بل بوتے پر ایسے ایسے قوانین بنا دیے گئے ھیں  کہ اللہ کی پناہ ، بہت سے مغربی ممالک میں انسانیت سے گرے ھوئے حضرت لوط علیہ السلام کی قومِ جیسے غلیظ افوال کو بھی اکثریت کے بل بوتے پر قانونی تحفظ دے دیا گیا ھے جسےکسی صورت میں بھی معیارِ حق نہیں کہا سکتا

اگر ھم اس بات کا جائزہ لیں کہ جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ھے تب سے لیکر آج تک  دنیا میں اھل حق تقریباً اقلیت میں ھی رھے ھیں حضرت نوح علیہ السلام سے لیکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم  کے مبارک زمانہ تک دنیا میں کفار اکثریت اور اھل حق اقلیت میں رھے ھیں اور آج کے زمانہ میں بھی دنیا میں کفار ھی اکثریت میں ھیں اور اھل ایمان اور اھل حق اقلیت میں ھیں جبکہ معیارِ حق صرف اور صرف دینِ اسلام ھے تو  خلاصۂ کلام یہ کہ معیارِ حق وھی ھے جس پر اھل حق ھیں وہ اکثریت میں ھوں تب بھی اور اقلیت میں ھوں تب بھی معیارِ حق کو اپنائے ھوئے ھیں

ایک بار حضرت عمر رضی الله عنه بازار میں جا رہے تھے، وہ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو دعا کر رہا تھا، "اے اللہ مجھے اپنے چند لوگوں میں شامل کر، اے اللہ مجھے اپنے چند لوگوں میں شامل کر"۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس سے پوچھا، یہ دعا تم نے کہاں سے سیکھی؟ وہ بولا، اللہ کی کتاب سے، اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے

وَقَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِىَ الشَّكُـوْرُ O

(سورہ سبا)

اور میرے بندوں میں سے شکر گزار تھوڑے ہیں۔


حَتّــٰٓى اِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّوْرُۙ قُلْنَا احْـمِلْ فِيْـهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَاَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَ ۚ وَمَا اٰمَنَ مَعَهٝٓ اِلَّا قَلِيْلٌ O 

یہاں تک کہ جب ہمارا حکم پہنچا اور تنور (سیلاب) نے جوش مارا، ہم نے کہا کشتی میں ہر قسم کے جوڑے نر مادہ چڑھا لے اور اپنے گھر والوں کو مگر وہ (نہیں بٹھاؤ) جن کے متعلق فیصلہ ہو چکا ہے اور سب ایمان والوں کو (بھی بٹھا لو)، اور اس کے ساتھ ایمان تو بہت کم لائے تھے


حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ یہ سن کر رو پڑے اور اپنے آپ کو نصیحت کرتے ہوئے بولے،"اے عمر ! لوگ تم سے زیادہ علم والے ہیں، اے اللہ مجھے بھی اپنے چند لوگوں میں شامل کر۔"

ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہم کسی شخص سے کوئی گناہ کا کام چھوڑنے کا کہتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ یہ  تو اکثر لوگ کرتے ہیں ۔ میں کوئی اکیلا تو نہیں۔ اگر آپ قرآن میں "اکثر لوگ" سرچ کریں  تو آپ کو  یہ رزلٹ ملے گا کہ اکثر لوگ،


يَسْاَلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَيَّانَ مُرْسَاهَا ۖ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّىْ ۖ لَا يُجَلِّيْـهَا لِوَقْتِـهَآ اِلَّا هُوَ ۚ ثَقُلَتْ فِى السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ ۚ لَا تَاْتِيْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً ۗ يَسْاَلُوْنَكَ كَاَنَّكَ حَفِىٌّ عَنْـهَا ۖ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّـٰهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ O

قیامت کے متعلق تجھ سے پوچھتے ہیں کہ اس کی آمد کا کونسا وقت ہے، کہہ دو اس کی خبر تو میرے رب ہی کے پاس ہے، وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کر دکھائے گا، وہ آسمانوں اور زمین میں بھاری بات ہے، وہ تم پر محض اچانک آجائے گی، تجھ سے پوچھتے ہیں گویا کہ تو اس کی تلاش میں لگا ہوا ہے، کہہ دو اس کی خبر خاص اللہ ہی کے پاس ہے *لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے*

(سورہ اعراف)


اَلَمْ تَـرَ اِلَى الَّـذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِهِـمْ وَهُـمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِۖ فَقَالَ لَـهُـمُ اللّـٰهُ مُوْتُوْا ۚثُـمَّ اَحْيَاهُـمْ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَ كْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُـرُوْنَ O

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکلے حالانکہ وہ ہزاروں تھے، پھر اللہ نےان کو فرمایا کہ مرجاؤ، پھر انہیں زندہ کر دیا، بے شک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے *لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔*

(سورہ بقرہ)


اَفَمَنْ كَانَ عَلٰى بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ وَيَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِنْ قَبْلِـهٖ كِتَابُ مُوْسٰٓى اِمَامًا وَّرَحْـمَةً ۚ اُولٰٓئِكَ يُؤْمِنُـوْنَ بِهٖ ۚ وَمَنْ يَّكْـفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٝ ۚ فَلَا تَكُ فِىْ مِرْيَةٍ مِّنْهُ ۚ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُـوْنَ O

بھلا (برابری ہو سکتی ہے) وہ شخص جو اپنے رب کے صاف راستہ پر ہو اور اس کے ساتھ اللہ کی طرف سے ایک گواہ بھی ہو اور اس سے پہلے موسٰی کی کتاب گواہ تھی جو امام اور رحمت تھی، یہی لوگ قرآن کو مانتے ہیں، اور جو کوئی سب فرقوں میں سے اس کا منکر ہو تو اس کا ٹھکانا دوزخ ہے، سو تو قرآن کی طرف سے شبہ میں نہ رہ، بے شک یہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے *لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے*

(سورہ ھود)


قُلْ يَآ اَهْلَ الْكِتَابِ هَلْ تَنْقِمُوْنَ مِنَّـآ اِلَّآ اَنْ اٰمَنَّا بِاللّـٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ ۙ وَاَنَّ اَكْثَرَكُمْ فَاسِقُوْنَ O

کہہ دو اے اہل کتاب! تم ہم میں کون سا عیب پاتے ہو اس کے سوا کہ ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور اس پر جو ہمارے پاس بھیجا گیا ہے اور اس پر بھی جو پہلے بھیجا جا چکا ہے، اور بات یہ ہے کہ *تم میں اکثر لوگ نافرمان ہیں۔*

سورہ المائدہ


وَلَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَآ اِلَيْـهِـمُ الْمَلَآئِكَـةَ وَكَلَّمَهُـمُ الْمَوْتٰى وَحَشَرْنَا عَلَيْـهِـمْ كُلَّ شَىْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُـوْا لِيُؤْمِنُـوٓا اِلَّآ اَنْ يَّشَآءَ اللّـٰهُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُـمْ يَجْهَلُوْنَ O

اور اگر ہم ان پر فرشتے بھی اتار دیں اور ان سے مردے باتیں بھی کریں اور ان کے سامنے ہم ہر چیز کو زندہ بھی کر دیں تو بھی یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں مگر یہ کہ اللہ چاہے، *لیکن اکثر ان میں سے جاہل ہیں۔*

سورہ انعام


اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٓ ٖ اٰلِـهَةً ۖ قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ ۖ هٰذَا ذِكْرُ مَنْ مَّعِىَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِىْ ۗ بَلْ اَكْثَرُهُـمْ لَا يَعْلَمُوْنَ الْحَقَّ ۖ فَهُـمْ مُّعْرِضُوْنَ O

کیا انہوں نے اس کے سوا اور بھی معبود بنا رکھے ہیں، کہہ دو اپنی دلیل لاؤ، یہ میرے ساتھ والوں کی کتاب اور مجھ سے پہلے لوگوں کی کتابیں موجود ہیں، *بلکہ اکثر ان میں سے حق جانتے ہی نہیں*، اس لیے منہ پھیرے ہوئے ہیں۔

سورہ الانبیاء


تو اپنے آپ کو چند لوگوں میں ڈالو جن کے بارے میں اللہ نے فرمایاِ،

"میرے تھوڑے ہی بندے شکر گزار ہیں"(34:1

چند لوگوں میں اپنے آپ کو شامل کریں اور اس کی پرواہ نہ کریں کہ اور اس راستے میں نہیں اور آپ اکیلے ہیں...

اللہ کریم ہمیں اپنے چند  انعام یافتہ بندوں میں شامل فرمائے آمین یا رب العالمین

یہاں یہ نقطہ بھی پیش نظر رھنا چاھیے کہ  حدیث پاک کا مفھوم ھے کہ اُمتِ مسلمہ کی اکثریت کھبی بھی  گمراھی پر متفق نہیں ھو سکتی چنانچہ الفاظ کے فرق کے ساتھ یہ حدیث مختلف کتب میں ذکر کی گئی ہے۔

سنن ابن ماجہ میں ہے کہ

حدثنا العباس بن عثمان الدمشقي , حدثنا الوليد بن مسلم , حدثنا معان بن رفاعة السلامي , حدثني ابو خلف الاعمى , قال: سمعت انس بن مالك , يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" إن امتي لن تجتمع على ضلالة , فإذا رايتم اختلافا فعليكم بالسواد الاعظم".(حدیث نمبر: 3950)

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”میری امت گمراہی پر کبھی جمع نہ ہو گی، لہٰذا جب تم اختلاف دیکھو تو سواد اعظم ( بڑی جماعت) کو لازم پکڑو۔

تشریح:

یہ حدیث اجماعِ امت کے معیار حق ہونے پر دلیل ہے اور اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس امت کا سوادِ آعظم (بڑا طبقہ ) گناہ اور گمراہی پر اتفاق نہیں کرسکتا

Share: