رزقِ حرام کمانے کی نحوست اور حرمت

 اسلام میں جہاں رزقِ حلال کمانے کی ترغیب دی گئی ھے اور اس کی برکات اور فضائل کثرت سے بیان کیے گئے ھیں وھاں رزقِ حرام کمانے کی نحوست  و حرمت اور آخرت میں اس کے شدید عذاب سے بھی ڈرایا گیا جو شخص یومِِ آخرت پر یقین رکھتا ھے وہ تو رزقِ حرام کمانے کا کھبی سوچ بھی نہیں سکتا اور جس کا اس پر یقین نہیں ھے تو اس کے لئے اپنے ایمان کی خیر منانے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ھے 

رزق حرام کمانا اسلام میں سخت ناجائز اور اس سے حاصل ہونے والی ہر چیز منحوس ہے، چنانچہ قرآن مجید میں ارشادِربانی ہوتا ہےکہ 


يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تَاْكُلُـوٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَكُـوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَـرَاضٍ مِّنْكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوٓا اَنْفُسَكُمْ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا (29) 

اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ مگر یہ کہ آپس کی خوشی سے تجارت ہو، اور آپس میں کسی کو قتل نہ کرو، بے شک اللہ تم پر مہربان ہے۔

۔(سورۂ نسآء 

ایک  دوسرے مقام پرارشادِ ربانی ہوتا ہےکہ 

وَلَا تَاْكُلُوٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِهَآ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْـمِ وَاَنْتُـمْ تَعْلَمُوْنَ (188) 

اور ایک دوسرے کے مال آپس میں ناجائز طور پر نہ کھاؤ، اور انہیں حاکموں تک نہ پہنچاؤ تاکہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ گناہ سے کھا جاؤ، حالانکہ تم جانتے ہو۔

(سورۂ بقرہ آیت نمبر 188) 

تیسرے  مقام پرارشاد ربانی ہےکہ 

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُـمْ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ وَلَسْتُـمْ بِاٰخِذِيْهِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِيْهِ ۚ وَاعْلَمُوٓا اَنَّ اللّـٰهَ غَنِىٌّ حَـمِيْدٌ (

(ترجمہ)اے ایمان والو!اپنی حلال کمائی میں سے خرچ کرو،اور جو ہم نے تمہارے لئے زمین میں پیدا کیا ہے اس میں سے خرچ کرو،اور حرام مال اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا ارادہ مت کرو،اور خود تم اس خراب مال کو نہیں لو گے،اگر تم چشم پوشی کر جاؤ تو یہ ایک الگ بات ہے اور سمجھ لو کہ بے شک اللہ بے پرواہ  تعریف کیا ہوا ہے 

(سورۂ بقرہ)

 اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے خبیث اور مالِ حرام کے خرچ کرنے سے منع فرمایا ہے،کیونکہ حرام مال خبیث اور ناپاک ہے۔۔۔‎حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ حضور نبی کریم  ﷺ  نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص حرام مال حاصل کرے گا اور اس سے(اپنی ضرورت میں) خرچ کرے گا تو اس میں برکت نہیں ہو گی،اور اگر اس مال سے صدقہ دے گا تو (عنداللہ) قبول نہیں کیا جائے گا،اور ترکہ میں اس مال کو چھوڑ کر مرے گا تو وہ (مال) اس کیلئے جھنم کا توشہ ہو گا

(مسند احمد)

اس طرح ایک حدیث مبارکہ میں آتا ہےکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بغیر پاکیزگی کے نماز قبول نہیں ہوتی،اور حرام مال سے صدقہ قبول نہیں ہوتا۔

(مسلم شریف )

ایک اور حدیث میں حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حضور نبی کریم ﷺ  کا فرمانِ عالیشان ہےکہ آپ ﷺ نے قسم کھا کر ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی مٹی لے اور اپنے منہ میں ڈال لے، یہ اس سے بہتر ہےکہ وہ ایسی چیز اپنے منہ میں ڈالے جو اس ہر اللہ تعالی نے حرام کی ہے

(مسند احمد)

 اللہ اکبر ! حضور نبی کریم ﷺ  مٹی سے پیٹ بھر لینے کو رزقِ حرام سے پیٹ بھرنے پر ترجیح دے رہے ہیں ،معلوم ہوا کہ رزق حرام سے بچنا مسلمان کیلئے ضروری امر ہے۔۔۔!!


‎حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں وہ گوشت اور خون داخل نہیں ہو گا جو حرام سے پلا ہو،اس کیلئے تو دوزخ ہی مناسب ہے۔

(ترمذی شریف)

 ‎حضور نبی کریم ﷺ  نے ارشاد فرمایا کہ  لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ آدمی کو اس کی پرواہ نہیں ہو گی، کہ روزی حلال طریقے سے کمائی ہے یا حرام سے۔

(بخاری شریف )

 ‎حضور نبی کریم ﷺ  نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن بندے کے قدم (اپنی جگہ سے ) نہیں ہٹ سکتے،جب تک چار چیزوں کے متعلق پوچھ گچھ نہ ہو جائے(1)عمر کہاں گنوائی؟(2)جوانی کہاں برباد کی؟مال کو کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟(4)اور جو علم سیکھا تھا اس پر کیا عمل کیا

(شعب الایمان,1785)

‎جس طرح حرام سے بچنا ضروری ہے،اسی طرح شک وشبہ کی کمائی اور مشکوک مال سے بھی بچنا ضروری ہے۔۔۔چنانچہ حضور نبی کریم ﷺ  نے ارشاد فرمایا کہ حلال ظاہر ہےاور حرام ظاہر ہے اور اس حلال و حرام کے بیچ میں بعض شبہ والی چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ آیا وہ حلال ہے یا حرام ہے،جو بعض شک و شبہ والی چیزوں سے بچا،اس نے اپنے دین(عزت کو) بچا لیا، اور جو ان شبہ والی چیزوں میں پڑ گیا تو اسکی مثال اس چرواہے جیسی ہے جو شاہی چراگاہ کے پاس اپنے جانوروں کو چرائے،قریب ہے کہ کوئی جانور اس میں گھس جائے،خبردار،ہر ایک بادشاہ کی ایک مخصوص چراگاہ ہے،جس میں دوسرے کے جانوروں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔سُن لو! اللہ تعالی کی چراگاہ میں یعنی اس کی زمین،اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں ،خبردار! جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے،جب وہ درست رہا تو سارا جسم درست رہا،اور جب وہ خراب ہو گیا تو سارا جسم خراب ہو گیا،سُن لو وہ دل ہے۔

(بخاری شریف )

 ‎رزق حرام میں مقدار میں زیادہ ہونے کے باوجود بھی برکت نہیں ہوتی،بعض دفعہ اس مالِ حرام کی  وجہ سے اللہ تعالی اس شخص کو ایسی بیماریوں  ،پریشانیوں یا ایسی مصیبتوں میں مبتلا کر دیتے ہیں،کہ وہی اللہ تعالی کی نافرمانی (ظلم وزیادتی) سے کمایا ہوا مال تباہی وبربادی کا سبب بن جاتا ہے۔


حرام چیزیں دو طرح کی ہیں ۔۔۔

پہلی)  ایک وہ چیزیں ہیں جن کو اللہ تعالی نے پیدا فرمایا ہےلیکن کسی مصلحت سے پیدا کرنے والے نے اس کا کھانا حرام کر دیا ہے،جیسے مردار،بہتا ہوا خون یا خنزیر(سؤر) جو چیز غیر اللہ کے نام پر ہو  ۔۔۔

دوسری ) وہ چیز ہے جو اصل میں حلال تھی مگر انسان نے خود اس (کو ناجائز طریقہ سے حاصل کر کے ( اپنے لئے حرام بنا لیا،جیسے چوری کا مال،یا جھوٹ بول کر دھوکہ دیکر کمایا ہوا مال،جو اصل میں تو حلال تھا لیکن انسان نے اسے ناجائز طریقہ سے حاصل کیا اور اسے اپنے لئے حرام کر لیا۔ قرآن کریم نے ان دو طریقوں سے حرام ہونے والی چیزوں کو انسان کیلئے حرام قرار دیا ہے۔۔۔۔


حرام روزی کمانے کی چند صورتیں 

‎آج کل معاشرے میں حرام کمائی کی کئی صورتیں رائج اور عام ہیں جن میں چند یہ ہیں ۔۔۔


(‎1)رشوت،مال حرام ہے،اور اگر رشوت کا نام ہدیہ یا تحفہ رکھ لیا جائے،تب بھی حرام ہی رہتا ہے،آج دنیا میں اس کے بغیر کام نہیں ہوتے۔حرام کی اس نحوست سے سارا معاشرہ گندگی سے آلودہ ہے۔

(‎2)سود،کم ہو یا زیادہ،بالکیہ حرام ہے،اگرچہ اسکا نام نفع رکھ کیا جائے۔

(‎3)ہر وہ ملازمت حرام ہے،جسمیں صراحتاً اللہ تعالی کی نافرمانی و بغاوت کی جائے.

(‎4)حرام چیزیں کی تجارت بھی حرام ہے،اور اس پر نفع بھی حرام ہے،شراب،خنزیر،خون،مردار گوشت،بت فروشی،ان سب چیزوں کی خریدو فروخت حرام ہے۔

(‎5)بیمہ پالیسی سراسر جوا ہے،چاہے کسی بھی نوعیت کا ہو،زندگی کا بیمہ ہو یا اموالِ تجارت کا ،کارخانوں کا یا سامان اور چیزوں کا۔۔۔(بیمہ پالیسی کی جائز صورت تکافل ہے جو اسلامی بینکوں میں میسر ہے۔)

(‎6)غصب کرنا(یعنی لوٹنا)چوری،ڈاکہ زنی،یعنی ناحق طریقہ سے جو کچھ بھی حاصل ہو،وہ حرام ہے۔۔۔

(‎7)وہ میراث جو شریعت کے مطابق تقسیم نہیں کی جاتی،بلکہ جس وارث کے قبضہ میں جو مال آ جاتا ہے,وہ اپنا بنا کر بیٹھ جاتا ہے،میت کے بیٹے اپنی بہنوں اور ماؤں کو وراثت نہیں دیتے،اور چونکہ میراث تقسیم نہیں ہوتی،اس لئے یتیموں کے حصہ کا مال بھی ہڑپ کر لیا جاتا ہے۔ (حدیث مبارکہ میں آتا ہےکہ حضور نبی کریم ﷺ  نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اللہ کے فرض کردہ کسی کی میراث کا حصہ کاٹ لیا،اللہ تعالی جنت کی میراث سے اُس کا حصہ کاٹ دیں گے۔

(شعب الایمان)

اسی طرح ایک حدیث میں آتاہےکہ حضور نبی کریم ﷺ نےارشاد فرمایا کہ جس نے کسی کی میراث جو اللہ نے اپنی کتاب میں فرض کی ہے،اس کو باطل کیا،تو اللہ تعالی اسکی جنت کی میراث کو باطل کر دے گا۔۔۔۔

(مصنف ابن ابی شیبہ)


رزقِ حرام کھانے والے کے اعمال اور دعائیں مقبول نہیں ہوتیں۔۔۔

‎مالِ حرام کمانے اور کھانے کی ایک نحوست یہ بھی ہےکہ اس کا کوئی عمل اللہ تعالی کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتا،نہ ہی اسکی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔عمل قبول نہ ہونے کی وعید متعدد احادیث میں آئی ہے۔

(1)چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھماسےروایت ہےکہ حضور نبی کریمﷺ نےحضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی مستجابُ الدّعوات ہونےکیلئےدعاکی درخواست پراُن کوحلال کھانےکااہتمام کرنےکی تاکید کی،پھرارشادفرمایاکہ اس ذات کی قسم جس کےقبضےمیں(سیدنا ومولانا )محمد(ﷺ )کی جان ہے،بلاشبہ بندہ جب اپنے پیٹ میں حرام لقمہ ڈالتا ہے تو اسکا چالیس دن کا عمل قبول نہیں کیا جاتا اور جس آدمی کا جسم حرام و سود سے پلا ہو،اس کیلئے جھنم ہی لائق ہے۔۔۔(معجم اوسط

(2)حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہےکہ حضور نبی کریم ﷺ  نے ارشاد فرمایا کہ جس نے کوئی کپڑا دس درہم میں خریدا اور اس میں ایک درھم حرام کا تھا تو جب تک وہ کپڑا اس کے جسم پر ہے،اللہ تعالی اسکی نماز قبول نہیں کرتا،یہ کہہ کر حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈالیں اور فرمایا کہ اگر میں نے اس حدیث مبارکہ کو اللہ کی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ سنا ہو تو یہ بہرے ہو جائیں۔

( مسند آحمد)


(3)حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ حضور نبی کریم ﷺ  نے ارشاد فرمایا کہ اے لوگو!اللہ تعالی پاک ہے، وہ پاک چیز ہی قبول کرتا ہے،اور اللہ تعالی نے مومنین کو بھی اسی بات کا حکم دیا ہے جس کا حکم اس نے اپنے رسولوں(علیھم السّلام) کو دیا ہے،پھر آپﷺ  نے یہ آیات تلاوت فرمائیں(ترجمہ)اے میرے رسولو! پاکیزہ رزق کھاؤ اور اچھے اعمال کرو، یقیناً میں تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہوں۔(سورۂ مومنون آیت نمبر 51) (‎ترجمہ)اے ایمان والو! اگر تم اللہ ہی کی عبادت کرنے والو ہو تو ہم نے تمہیں جو پاکیزہ چیزیں دی ہیں،انہی میں سے کھاؤ اور اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے رہو۔(سورۂ بقرہ آیت نمبر 172)  پھر آپﷺ  نے ایسے شخص کا ذکر کیا جو دور دراز سے سفر کر کے (کسی متبرک جگہ) آیا اس طرح کہ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے،اور سر سے پاؤں تک غبار آلودہ تھا،اور وہ خوب گڑگڑا کر دعا کر رہا تھا اور کہتا تھا کہ اے میرے رب!اے میرے رب! لیکن اسکا کھانا پینا حرام مال سے ہے،اسکا لباس حرام ہے،اور اسکی پرورش حرام سے ہوئی ہے تو اس حالت میں اسکی یہ دعا کیونکر قبول ہو گی؟(یعنی اسکی دعا مردود ہو جاتی ہے۔۔

(مسلم شریف،ترمذی شریف)


 رزق حرام کھانے کی آخرت میں سزا۔۔۔

‎رزق حرام کی آخرت میں بھی بہت سخت سزا جھنم ہے،چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ  نے حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ جو جسم حرام سے پرورش پایا ہو وہ جنت میں نہ جا سکے گا اور اس جسم کیلئے دوزخ زیادہ لائق ہے۔

(مسند احمد )

حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ  نے مجھ سے یہ فرمایا کہ جو جسم حرام سے پرورش پایا ہو وہ جنت میں نہ جا سکے گا،اور اس جسم کیلئے دوزخ زیادہ لائق ہے۔

(ترمذی ، معجم کبیر۔ ,معجم اوسط )

 حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضور نبی کریم ﷺ  سے روایت کیا ہےکہ جو جسم حرام سے پرورش پایا ہو وہ جنت میں نہ جا سکے گا۔

(معجم اوسط ، مسند ابو یعلٰی )

 ایک حدیث میں وارد ہےکہ حضور نبی کریم ﷺ  نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ مال کہاں سے اور کیسے کمائے(یعنی حلال وحرام میں تمیز نہیں کرتا) تو اللہ تعالی کو بھی اسکی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ دوزخ کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے۔

(الکبائر للذہبی)

چنانچہ موٴرخین نے لکھا ہے کہ کوفہ میں ”مستجاب الدعاء“ لوگوں کی ایک جماعت تھی۔جب کوئی حاکم اُن پر مسلط ہوتا، اُس کے لیے بد دعا کرتے، وہ ہلاک ہوجاتا۔حجاج ظالم کا جب وہاں تسلط ہوا تو اُس نے ایک دعوت کی، جس میں ان حضرات کو خاص طور سے شریک کیا اور جب کھانے سے فارغ ہوچکے تو اُس نے کہا کہ میں ان لوگوں کی بد دعا سے محفوظ ہوگیا کہ حرام کی روزی ان کے پیٹ میں داخل ہوگئی۔

(فضائل رمضان)


اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دھرتی  پر بسنے والاہر انسان اپنی گھریلو ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنی بساط کے مطابق دوڑ دھوپ کرتا ہے اور  محنت ومشقت سے اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ  بھرنے کے لیے روزی روٹی کماتا ہے۔ اگر وہ یہ تمام کام احکامِ الٰہیہ اور سنتِ نبویہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے مطابق انجام دے تو یہ سب عبادت بن جاتے ہیں۔ لیکن اگر وہ ان امورمیں اسلامی ضابطوں کی پابندی نہ کرے اور انہیں توڑتے ہوئے ناجائز طریقے اختیارکرتے ہوئے یا معاشی جدوجہد کے نام پر دوسروں کے حقوق مارنا شروع کردیتا ھے تو یہی کوشش اس کے لیے آخرت میں رسوائی کا سامان بن سکتی ہے۔ ہماری عام زندگی میں پیٹ ہماری توجہ اور ہماری بنیادی جدوجہد کا مرکز ہوتا ہے۔

اسے بھرنے کے لیے ہم سبھی محنت سے کام کرتے ہیں، خوب جدوجہد کرتے ہیں اور ایسی روزی کمانے کی کوشش کرتے ہیں جو اﷲ کے حکم کے مطابق یعنی جائز اور درست ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جائز روزی کمانا کسی بھی انسان کے لیے مشکل یا ناممکن نہیں ہے، کیوں کہ ربِ عالم نے ایک طرف انسان کو تخلیق فرمایا تو ساتھ ہی اس کی روزی کے وسائل بھی پیدا فرمادیے اور اس کے لیے ایسی سہولیات مہیا کردیں کہ انسان عملی کوشش کرکے اس دنیا میں اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے۔

راتوں رات دولت مند بن جانے کی دوڑ نے انسان سے اس کا سکون چھین لیا ہے۔ آج آپ دیکھیے کہ اس بے قراری اور دوسروں سے آگے نکل جانے کی خواہ مخواہ کی خواہش نے لوگوں کی آمدنیوں اور ان کی روزیوں میں سے برکت ختم کردی ہے۔ کیا یہ کھلی ناسمجھی نہیں ہے کہ انسان نے اپنی اچھی خاصی اور پرسکون زندگی کو اپنی حرکتوں کی وجہ سے بے سکون کردیا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حالات کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔

آج کل ایساہو رہا ہے کہ دنیا میں رہنے والے بیشتر انسانوں نے اپنی ترقی اور خوش حالی کا پیمانہ یہ مقرر کرلیا ہے کہ وہ کسی بھی طرح یعنی جائز یا ناجائز طریقے استعمال کرتے ہوئے اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے زیادہ سے زیادہ آسائشیں حاصل کرے، مال و دولت جمع کرے اور اپنے گھر والوں کی گود میں دنیا بھر کے خزانے لاکر ڈال دے، تاکہ اس کے زیر کفالت لوگ خوش ہوجائیں۔

وہ کسی نہ کسی طرح اپنے تمام گھر والوں کی ہر جائز و ناجائز فرمائش پوری کرنے کے لیے تیار رہتا ہے اور اس معاملے میں کبھی پیچھے ہٹتا نظر نہیں آتا۔ اگر دیکھا جائے تو اپنے لیے، اپنے بیوی بچوں یا اپنے ماں باپ اور چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے روزی کمانا اور ان کے آرام و آسائش کے لیے جدوجہد کرنا ہر انسان کا فرض ہے۔ لیکن اگر یہ ساری جدوجہد اور کوشش ایک حد میں ہو تو ٹھیک ہے۔ ایسا نہ ہو کہ انسان اپنے پیاروں کے لیے دولت کے حصول میں پاگل  ھی ہوجائے اور ان کے لیے آسائشیں حاصل کرنے کے لیے ہر حد سے گزر جائے اور اپنی زندگی کو اس دنیا میں بھی جہنم بنالے اور آخرت میں بھی اپنے لیے ناکامی اور رسوائیاں خرید لے۔

‎دعا ہےکہ اللہ کریم ہمیں رزق حلال کمانے اور حلال و طیب کھانے اور رزق حرام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیں۔۔۔

آمین یا رب العٰلمین

Share: