سب سے بہترین آواز “دعوت الی اللہ”

وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللّـٰهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِىْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ (33) 

اور اس سے بہتر کس کی بات ہے جس نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا اور خود بھی اچھے کام کیے اور کہا بے شک میں بھی فرمانبرداروں میں سے ہوں۔  (سورہ فصلت)

دنیا میں ھر زمانے میں بہت سی  آوازیں  لگتی رھتی ھیں اور دورِ حاضر میں بھی لگ رھی ھیں۔   کوئی سیاست کی آواز لگا رھا ھے ۔ کوئی معیشت کی آواز لگا رھا ھے ۔ کوئی وزارت کی آواز لگا رھا ھے  ۔ کوئی صدارت کی آواز لگا رھا ھے ۔ کوئی تجارت کی آواز لگا رھا ھے ۔ کوئی سیادت  کی آواز لگا رھا ھے ۔ کوئی قیادت کی آواز لگا رھا ھے ۔ کوئی طاقت  کی آواز لگا رھا ھے ۔ الغرض دنیا میں بے شمار آوازیں بلند ھوتی رھی ھیں اور ھو رھی ھیں اور ھوتی رھیں گی ۔ لیکن  یہ ایک ناقابلِ فراموش حقیقت ھے کہ یہ سب آوازیں وقت کے ساتھ ساتھ دم توڑ دیتی ھیں ، اس کے چاھیے کوئی بھی اسباب پیدا ھو جائیں ۔ البتہ انہی آوازوں میں ایک آواز اللہ کے بندوں  کو اللہ کی طرف بلانے  کی آواز  بھی ھے جو ھمیشہ سے بلند ھو رھی ھے جب تک یہ دنیا ھے جب تک یہ آواز بھی  لگتی رھے گی۔  اللہ پاک نے اس آواز کے بارے میں  خود ھی فیصلہ فرما دیا ھے کہ تمام آوازوں میں بہترین آواز  “دعوت الی اللہ “ کی آواز ھے  جو ان شاء اللہ قیامت تک اللہ تعالی  کے فضل وکرم سے اس دنیا میں گونجتی رھے گی  اور اس آواز کے لگانے والوں میں جو جو لوگ بھی شریک ھوں گے  اُنہیں اللہ پاک  اس دنیا میں بھی خوب چمکائیں گے اور آخرت میں بھی جو  مطلوب و مقصود ھے یہ لوگ پورے پورے کامیاب ھوں گے

یہ ایک کھلی ھوئی حقیقت ھے کہ دنیا میں ھر زمانے میں حق اور باطل مقابلے میں رھے ھیں اور آخرکار دائمی طور پر  اہل حق ھی کامیاب و کامران ھوئے ھیں ۔ اعلائے کلمتہ الحق ، تبلیغِ دین اور طرق باطلہ میں فرق کرنے کے لئے  ایک بنیادی شرط یہ ھے کہ ھم جب بھی دینِ خالص کی احیاء ٕ کے لئے اپنی کوششیں کریں گے ۔تو ہر طرح کے آلام  و مصاٸب کے پہاڑ ہم پر ٹوٹیں گے ، اپنے بیگانے بلا وجہ مخالفت پر اُتر آئیں گے ساری دنیا کی قومیں اور خود اپنے علاقے کے لوگ بھی ہمارے مخالف ہو جاٸیں گے ۔کیونکہ یہی سنت اللہ ھے اور یہی ٗ اسوہ  رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   ھے  ۔ وجہ یہ ھے کہ جب بھی اور جو بھی معاشرے کو صحیح راہ پر ڈالنے کے لئے جدوجہد کرے گا  تو ہر ہر باطل قوت شیطانِ لعین کی قیادت میں اس کے خلاف صف آراہو جائے گی ۔ سو یہاں ہمیں اس حقیقت کا ادراک  کرنا ہوگا  کہ ایک طرف تمام باطل قوتیں شیطان لعین کی قیادت میں جمع ھیں  اور دوسری طرف صرف اور صرف اللہ تعالی کی ذات  بابرکات ھے جو ھر ھر چیز پر مکمل قدرت رکھتی ھے جس کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا  کائنات کا سارا نظام وہ ذات اپنی قدرت سے بغیر کسی کی مدد کے تن تنہا چلا رھی ھے یہی ایمان کی کسوٹی ھے کہ اگر ہم نے اس صمد و خالق و رازق ذات کے مقابلے میں مخلوق  سے ڈر کر حق کی راہ کو چھوڑ دیا  تو بلا شبہہ ھم  “خسران فی الدنیا والآخرہ”  ھوں گے اور اگر ہم نے حق کاساتھ دے دیا اور اللہ کی راہ کو اختیار کر لیا اور اس کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیا  تو یقیناً دنیا و آخرت میں کامیابی ھمارے قدم چومے گی ۔ باطل کے مقابلے میں حق کی آواز بلند کرنا یہی عین شیوۂ  پیغمبری ھے ۔

اگر ھم راہِ حق پر گامزن ھو گئے تو حق وباطل کے  اس معرکہ میں ہماری ایک خاص پہچان ہوگی  کہ ہم اللہ تعالیٰ کے قانون سے ہٹ کر کوئی بھی  کام نہیں کریں گے یعنی اللہ تعالی  کے حکموں اور اُس کے رسول حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کے طریقوں کے مطابق  اپنی زندگی گزاریں گے ۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے رسول پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی نورانی سنتوں یعنی طریقوں کو عملی طور پر اپنی زندگی میں نافذ کریں گے ۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا پورا پورا خیال رکھیں گے ۔ کسی کے ساتھ وعدہ خلافی نہیں کریں  گے ٗ کسی کو کسی طرح کا بھی دھوکہ نہیں دیں گے ٗ کسی کا حق غصب نہیں کریں گے ٗ حق کی گواھی بلا خوف وخطر دیں گے ہر کام میں اللہ تعالی کا حکم سامنے رکھیں گے چاھے بظاھر اُس میں ھمیں نقصان کا ھی اندیشہ کیوں نہ ھو  اور نہ صرف ھم خود ان باتوں پر عمل پیرا ھوں گے بلکہ دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی ہی تبلیغ و تلقین کریں گے ، یہی نجات کا راستہ ھے اور یہی پہچان ھے ٗ“اہل ایمان کی “۔

Share: