*قسط نمبر (1) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم*

 ﷽

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيد ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آل مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيد.

*یَا صَاحِبَ الجَمَالِ وَ یَاسَیِّدََالبَشَرْ

مِنْ وَجْہِکَ الْمُنِیْرِ لَقَدْ نُوِّرَ الْقَمَرْ

لَا یُمْکِنُ الثَّنَائُ کَمَا کَانَ حَقَّہ

بعد از خدا بزرگ توئی قصۂ مختصر

اے صاحب جمال کل اے سرورِ بشر                          

رْوئے منیر سے ترے روشن ہوا قمر

ممکن نہیں کہ تیری ثنا کا ہو حق اَدا                                  

بعد از خدا بزرگ توہے قصہ مختصر*


اللہ پاک نے اس دنیا میں جب انسانی سلسلہ شروع فرمایا تو اس روئے ارض پر انسانی ہدایت کے لیے حق تعالیٰ نے جن برگزیدہ بندوں کو منتخب فرمایا ہم انہیں انبیاء ورسل کی مقدس اصطلاح سے یاد کرتے  ہیں اس کائنات کے انسانِ اول اور رسولِ اول  ایک ہی شخصیت  یعنی حضرت آدم علیہ السلام  تھے جو اللہ تعالی کی طرف سے فریضۂ ہدایت کےلیے مبعوث ہوئے اور پھر یہ کاروانِ رسالت مختلف صدیوں اور مختلف علاقوں میں انسانی ہدایت کے فریضے ادا کرتے ہوئے پاکیزہ سیرتوں کی ایک کہکشاں ہمارے سامنے منور کردیتا ھے درخشندگی اور تابندگی کے اس ماحول میں ایک شخصیت خورشید جہاں تاب کی صورت میں زمانےاور زمین کی ظلمتوں کو مٹانے اورانسان کےلیے ہدایت کا آخری پیغام لے کر مبعوث ہوئی جسے محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کہتے ہیں ۔ آج انسانیت کے پاس آسمانی ہدایت کا یہی ایک نمونہ باقی ہے۔ جسے قرآن مجید نےاسوۂ حسنہ قراردیا اور اس اسوۂ حسنہ کےحامل کی سیرت سراج منیر بن کر ظلمت کدۂ عالم میں روشنی پھیلارہی ہے ۔ رہبر انسانیت سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  قیامت تک آنے والےانسانوں کے لئے ’’اسوۂ حسنہ‘‘ ہیں ۔ حضرت محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  ہی اللہ تعالیٰ کے بعد ،وہ کامل ترین ہستی ہیں جن کی زندگی  اپنے اندر عالمِ انسانیت کی مکمل رہنمائی کا پور سامان رکھتی ہے ۔ ۔ گزشتہ چودہ صدیوں میں اس ہادئ کامل  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی سیرت وصورت پر ہزاروں کتابیں اورلاکھوں مضامین لکھے جا چکے ہیں ۔اورکئی ادارے صرف سیرت نگاری پر کام کرنے کےلیےمعرض وجود میں آئے ۔اور پورے عالمِ اسلام میں سیرت النبی  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے مختلف گوشوں پر سالانہ کانفرنسوں اور سیمینار کا انعقاد بھی کیا جاتاہے جس میں مختلف اہل علم اپنے تحریری مقالات پیش کرتے ہیں۔ ہنوذ یہ سلسلہ جاری وساری ہے  اور ان شاء اللہ قیامت تک جاری رھے گا

خاتم الآنبیاء حضرت محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی حیات طیبہ ہمارے لیے اسوۂ حسنہ ہے آپ صلی  اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی قرآن کریم کا عملی نمونہ ہے گویا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  چلتا پھرتا قرآن تھے آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی اطاعت ہی سے ہدایت میسر آسکتی ہے ’’وان تطیعوا تہتدوا‘‘(القرآن) اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی حیات اقدس کامطالعہ کیا جائے او راپنے کردار و عمل کو اس کے مطابق ڈھالا جائے 

رسولِ کائنات، فخرِ موجودات محمد عربی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خالق ارض و سما رب العلیٰ نے نسلِ انسانی کے لیے نمونہٴ کاملہ اور اسوہٴ حسنہ بنایاہے اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کو فطری طریقہ قرار دیا ہے۔ محسن انسانیت صلوات اللہ علیہ وسلامہ کے معمولات زندگی ہی قیامت تک کے لیے شعار ومعیار ہیں، یہی وجہ ہے کہ سیرة النبی  صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر گوشہ تابناک اور ہر پہلو روشن ہے یومِ ولادت سے لے کر روزِ رحلت تک کے ہر ہر لمحہ کو قدرت نے لوگوں سے محفوظ کرادیا ہے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ادا کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے متوالوں نے محفوظ رکھاہے اور سند کے ساتھ تحقیقی طور پر ہم تک پہنچایا ہے، لہٰذا سیرة النبی  صلی اللہ علیہ وسلم کی جامعیت و اکملیت ہر قسم کے شک و شبہ سے محفوظ ہے دنیائے انسانیت کسی بھی عظیم المرتب ہستی کے حالات زندگی، معمولات زندگی، انداز و اطوار، مزاج و رجحان، حرکات و سکنات، نشست و برخاست اور عادات وخیالات اتنے کامل ومدلل طریقہ پر نہیں ہیں جس طرح کہ ایک ایک جزئیہ سیرة النبی  صلی اللہ علیہ وسلم کا تحریری شکل میں دنیا کے سامنے ہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے متعلق افراد اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق اشیاء کی تفاصیل بھی سند کے ساتھ سیرت و تاریخ میں ہر خاص و عام کو مل جائیں گی۔

                اس لیے کہ اس دنیائے فانی میں ایک پسندیدہ کامل زندگی گذارنے کے لیے اللہ رب العزت نے اسلام کو نظامِ حیات اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نمونہٴ حیات بنایا ہے وہی طریقہ اسلامی طریقہ ہوگا جو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً، فعلاً منقول ہے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ سنت کہلاتا ہے اور آپ نے فرمایا ہے من رغب عن سنتی فلیس منی   جس نے میرے طریقے سے اعراض کیاوہ مجھ سے نہیں ہے

                صحابہٴ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی دنیا وآخرت میں کامیابی وسرفرازی کا عنوان اتباع سنت ہے یہی اتباع ہر دور ہر زمانہ میں سربلندی اور خوش نصیبی کی کنجی ہے۔ اگر کسی کو عہدِ رسالت  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نہ مل سکا تو پھر ان کے لیے عہدِ صحابہ معیارِ عمل ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی پاکیزہ جماعت سیرة النبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا عملی پیکر ہے ہر طرح سے پرکھنے جانچنے کے بعدان کو نسلِ انسانی کے ہر طبقہ کے واسطے ایمان وعمل کا معیار بنایاگیاہے خود رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تربیت فرمائی ہے اور اللہ رب العالمین نے ان کے عمل و کردار، اخلاق واطوار، ایمان واسلام اور توحید وعقیدہ، صلاح وتقویٰ کو بار بار پرکھا پھر اپنی رضا وپسندیدگی سے ان کو سرفراز فرمایا، کہیں فرمایا ”اولئک الذین امتحن اللّٰہ قلوبہم للتقویٰ“ کہ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کے تقویٰ کو اللہ نے جانچا ہے، کہیں فرمایا ”آمنوا کما آمن الناس“ کہ اے لوگو ایسے ایمان لاؤ جیساکہ محمد کے صحابہ ایمان لائے ہیں تو کہیں فرمایا اولئک ہم الراشدون یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔

                یہ سب اس لیے کہ سیرت النبی  صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس جمیل تھے ان کی عبادات میں ہی نہیں بلکہ چال ڈھال میں بھی سیرة النبی  صلی اللہ علیہ وسلم کا نور جھلکتا تھا یہی سبب ہے کہ خود رسولِ کائنات  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اصحابی کالنجوم بایہم اقتدیتم اہتدیتم“ (ترمذی) میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں جن سے بھی اقتداء ومحبت کا تعلق جمالوگے ہدایت پاجاؤگے۔

                چونکہ صحرا، جنگل میں سفر کرنے کے لیے سمت معلوم کرنے کے لیے ستاروں کی رہنمائی حاصل کی جاتی ہےاسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو ستاروں سے تشبیہ دی گئی ہے کہ وہ نفوس قدسیہ شرک وکفر کے صحراء میں مینارہٓ ایمان ہیں۔

                  نو یا بارہ ربیع الاوّل (عام الفیل ) کو آپ نے شکمِ مادر سے تولد فرمایا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سیرت کے ساتھ ساتھ صورت میں بھی بے مثال تھے میانہ قد، سرخی مائل، سفید گورا رنگ، سرِ اقدس پر سیاہ ہلکے گھنگھریالے ریشم کی طرح ملائم انتہائی خوبصورت بال جو کبھی شانہ مبارک تک دراز ہوتے تو کبھی گردن تک اور کبھی کانوں کی لوتک رہتے تھے۔ رخِ انور اتنا حسین کہ ماہِ کامل کے مانند چمکتا تھا، سینہٴ مبارک چوڑا، چکلا کشادہ، جسم اطہر نہ دبلا نہ موٹا انتہائی سڈول چکنا کہیں داغ دھبہ نہیں، دونوں شانوں کے بیچ پشت پر مہرِ نبوت کبوتر کے انڈے کے برابر سرخی مائل ابھری کہ دیکھنے میں بے حد بھلی لگتی تھی، پیشانی کشادہ بلند اور چمکدار، ابروئے مبارک کمان دار غیر پیوستہ، دہن شریف کشادہ، ہونٹ یاقوتی مسکراتے تو دندانِ مبارک موتی کے مانند چمکتے، دانتوں کے درمیان ہلکی ہلکی درازیں تھیں بولتے تو نور نکلتا تھا سینہ پر بالوں کی ہلکی لکیر ناف تک تھی باقی پیکر بالوں سے پاک تھا صحابہ کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ جیسا حسین و خوبصورت کہیں نہیں دیکھا گیا۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ شاعرِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ہیں وہ اپنے نعتیہ قصیدے میں نقشہ کھینچتے ہیں:

واحسن منک لم ترقط عینی      واجمل منک لم تلد النساء

خلقت مبریًا من کل عیب         کانک قد خلقت کما تشاء

                آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے حسین مرد میری آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھااور آپ سے زیادہ خوبصورت مرد کسی عورت نے نہیں جنا آپ ہر قسم کے ظاہری وباطنی عیب سے پاک پیدا ہوئے گویا آپ اپنی حسب مرضی پیداہوئے ہیں، نہ کبھی آپ چیخ کر بات کرتے تھے نہ قہقہہ لگاتے تھے نہ شور کرتے تھے نہ چلاکر بولتے تھے ہر لفظ واضح بولتے جو مجمع سے مخاطب ہوتے تو تین بار جملہ کو بالکل صاف صاف دہراتے تھے اندازِ کلام باوقار، الفاظ میں حلاوت کہ بس سنتے رہنے کو دل مشتاق، لبوں پر ہمہ دم ہلکا سا تبسم جس سے لب مبارک اور رخِ انور کا حسن بڑھ جاتا تھا راہ چلتے تو رفتار ایسی ہوتی تھی گویا کسی بلند جگہ سے اتررہے ہوں نہ دائیں بائیں مڑمڑکر دیکھتے تھے نہ گردن کو آسمان کی طرف اٹھاکر چلتے تھے تواضع کی باوقار مردانہ خوددارانہ رفتار ہوتی، قدمِ مبارک کو پوری طرح رکھ کر چلتے تھے کہ نعلین شریفین کی آواز نہیں آتی تھی ہاتھ اور قدم ریشم کی طرح ملائم گداز تھے اور قدم پُرگوشت، ذاتی معاملہ میں کبھی غصہ نہیں ہوتے تھے، اپنا کام خود کرنے میں تکلف نہ فرماتے تھے کہ کوئی مصافحہ کرتا تو اس کاہاتھ نہیں چھوڑتے تھے جب تک وہ الگ نہ کرلے جس سے گفتگو فرماتے پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوتے کوئی آپ سے بات کرتا تو پوری توجہ سے سماعت فرماتے تھے، پھر بھی ایسا رعب تھا کہ صحابہ کو گفتگو کی ہمت نہ ہوتی تھی ہر فرد یہی تصور کرتا تھا کہ مجھ کو ہی سب سے زیادہ چاہتے ہیں

آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ اور عادات شریفہ پر برابر لکھا اور بیان کیا جاتا رہتا ہے۔ دنیا میں ہر لمحہ ہر آن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ خیر کہیں نہ کہیں ضرور ہوگا آپ کی سیرت  تا قیامت سنائی اور بتائی جاتی رہے گی پھر بھی سیرت النبی  صلی اللہ علیہ وسلم کا عنوان پُرانا نہیں ہوگا یہی معجزہ ہے سیرت النبی  صلی اللہ علیہ وسلم کا اور یہی تفسیر ہے وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْـرَكَ (4) کی

جاری ھے ۔۔۔۔۔

Share: