قسط نمبر (21) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 ورقہ بن  نوفل کے حالاتِ زندگی 

گذشتہ آقساط میں  حضرت خدیجہ الکبری  رضی اللہ تعالی عنھا کے چچا زاد بھائی ورقہ  بن نوفل  کا ذکر بار بار آیا ھے تو مناسب لگا کہ اُن کے کچھ حالاتِ زندگی بھی ضبطِ تحریر میں لائے جائیں ۔ اُن کا پورا نام ورقہ بن نوفل بن اسید (یا اسد) بن عبد العزی بن قصی آیا ہے۔ ورقہ بن نوفل  حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کے چچیرے بھائی تھے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال سن کر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی رسالت کی تصدیق کی تھی اور کہا تھا کہ جو فرشتہ تمہارے ( صلی اللہ علیہ وسلم  ) پاس آتا ہے وہ ناموس اکبر ہے، اپنے بڑھاپے پر افسوس کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر میں زندہ رہا تو اس وقت آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ ضرور دوں گا جس وقت آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو گھر سے نکال دے گی۔ 

روایات کے مطابق  زمانۂ جاھلیت میں ورقہ بن نوفل  اور حضرت زید بن عمرو بن نفیل  صحیح دین کی تلاش میں نکلے تھے کیونکہ یہ دونوں بت پرستی سے سخت بیزار تھے ۔ تلاش و جستجو  کے  بعد ورقہ نے عیسائی مذھب اختیار کر لیا تھا  اور  حضرت زید  دین ابراہیمی کے  پیروکار بن کر رھے  (سنن ابی داؤد)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے کے بعد سب سے پہلے جن دو شخصیتوں کے سامنے یہ حقیقت آئی ان میں سے ایک حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا اور دوسرے ورقہ بن نوفل تھے. پہلی وحی کے نزول کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا حضور آکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو لےکر ورقہ کے پاس گئیں تو ورقہ نے کہا کہ میرے علم کے مطابق  یہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  وہی نبی ہیں جن کا گذشتہ امتوں کو انتظار تھا اور پھر ورقہ نے آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے عرض کیا کہ اگر میں اس وقت زندہ رہا جب آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی قوم آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو مکہ سے نکالےگی تو میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی بھرپور مدد کرونگا. لیکن ورقہ اعلانِ نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے پہلے ھی انتقال فرما گئے تھے 

◄حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا نے  زمانۂ نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  میں جب آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے ورقہ کے بارے میں سوال کیا کہ وہ تو اعلان نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے قبل فوت ہو گئے تھے  تو آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا کہ میں نے ورقہ کو سفید لباس میں ملبوس دیکھا ھے ،  اگر وہ جہنمی ہوتا تو سفید لباس میں نہ ہوتا.  چنانچہ حدیث مبارکہ ھے 

وعن عائشة رضي الله عنها قالت سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ورقة . فقالت له خديجة إنه كان قد صدقك ولكن مات قبل أن تظهر . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أريته في المنام وعليه ثياب بيض ولو كان من أهل النار لكان عليه لباس غير ذلك" . رواه أحمد والترمذي.

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ورقہ ابن نوفل کے بارے میں پوچھا گیا ( کہ وہ مؤمن تھے یا نہیں ؟ ) اور حضرت خدیجہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کیا کہ وہ ورقہ نوفل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ظاہر ہونے سے پہلے مرگئے تھے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ کو خواب میں ورقہ بن نوفل کو اس حالت میں دکھلایا گیا ہے کہ اس پر سفید کپڑے تھے اور وہ دوزخی ہوتے تو ان کے جسم پر اور طرح کے کپڑے  نہ ہوتے ۔ (الترمذی )

◄ اسی طرح آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا کہ ورقہ کو برا مت کہو کیونکہ میں نے اس کی ایک یا دو جنتیں دیکھی ہیں.

◄ اسی طرح جب آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے سامنے آپ کے اولین محسنین کا تذکرہ ہوا  مثلا:  حضرت خدیجہ،  حضرت ابوطالب اور حضرت ورقہ بن نوفل کا تو آپ  نے فرمایا:

  ابوطالب کو میری برکت سے جہنم کی گہرائی سے نکال کر جہنم کے کنارے پر لایا گیا.

 خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کیلئے جنت میں نہر کے کنارے محل تیار کیا گیا.

  ورقہ بن نوفل کو جنت میں سندس کے لباس میں دیکھا ھے (ا


ورقہ بن نوفل کے بارے میں علمائے امت کے اقوال:

١.  ورقہ بن نوفل (حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچازاد بھائی) صحابی تھے،  اس قول کے قائل امام طبری،  بغوی،  ابن قانع،  ابن السکن وغیرہ ہیں

٢.  امام زرکلی کہتے ہیں کہ ورقہ ابن نوفل کی زندگی کے بارے میں ایک کتاب لکھی گئی جس میں ان کو صحابہ میں شامل کیا گیا ہے۔

٣.  ورقہ حالت ایمان میں دنیا سے گئے ہیں لیکن صحابی نہیں تھے۔ یہ ابن کثیر  کا قول ھے وہ فرماتے ہیں کہ ورقہ فترہ کے دور میں دعوت اسلام سے قبل انتقال کر گئے تھے۔

٤.  امام ذہبی نے ذکر کیا ہے کہ دعوت اسلام سے پہلے فترہ وحی میں ورقہ کا انتقال ہوا، لہذا وہ صحابی نہیں کہلائے جائینگے۔

٥.  حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ ورقہ نے اقرار نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  تو کیا تھا لیکن  چونکہ دعوت سے قبل  ھی ان کا انتقال ہوگیا،  لہذا ان کو صحابی کہنا مشکل ہے۔

ان تمام روایات کا خلاصہ یہی ہے کہ ورقہ بن نوفل ادیان سابقہ میں سے حق راستے پر تھے اور ان کا انتقال حالت ایمان پر ہوا تھا لہذا بعض علماء نے انکو صحابہ میں شمار کیا ہے اور بعض نے  صہابہ میں شمار نہیں کیا ،  لیکن  ورقہ کے مؤمن ہونے اور اہل جنت  میں سے ہونے میں کسی کا بھی اختلاف نہیں 

سند أبى داود )

نبئ  کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے نبوت ملنے سے پہلے کے زمانے میں ایک دن حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا سے کہا: "مجھے کچھ روشنی سی نظر آتی ہے۔ مجھے خطرہ ہے کہیں یہ جنات کی کارستانی نہ ہو ۔" انھوں نے آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو اطمینان دلایا، پھر آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں اور ساری بات بیان کی۔ ورقہ کہنے لگے: "اگر یہ بات سچی ہے تو یہ وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السّلام پر اترا کرتا تھا۔ اگر یہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  میری زندگی میں نبی بن گئے تو میں ان صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی حمایت کروں گا، مدد کروں گا اور ان صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  پر ایمان بھی لاؤں گا۔" 

(الفتح الرّبّانى) ،

 امام احمد نے اسے مرسل سند اور  متصل سند سے روایت کیا ہے۔

 ورقہ بن نوفل کا مفصل تذکرہ اور ان کے اسلام قبول کرنے کے سلسلے میں وارد شدہ احادیث کے حوالے  سے ذکر سیرت نگار عموماً وھاں کرتے ھیں جہاں نزول وحی اور اولین مسلمانوں کا تذکرہ ہوتا ھے ۔ توحید اور بعثت بعد الموت (موت کے بعد جی اٹھنے) کے موضوع پر ان کے نہایت عمدہ اشعار منقول ہیں۔ ((السيرۃ النبوية لابن ھشام

نزولِ  وحی کے بعد جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا رسول پاک  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو لے کر ورقہ بن نوفل  کے پاس آئیں تو ملاقات کے بعد انہوں نے رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی شان میں ایک نعتیہ قصیدہ لکھا جس کے چند عربی اشعار مندرجہ ذیل ھیں :- 


ہذی خدیجہ  تاتینی  لاء خبرھا

وما لنا بخفی الغیب  من خبر

بان احمد باتیہ فی خبرہ

جبریل  انک مبعوث الی البشر

فقلت عل الذی  ترجین ینجزہ 

لہ الا لہ فرجی الخبر و انتظری


ورقہ بن نوفل کے حالاتِ زندگی  میں لکھا ہے کہ یہ شرک و بت پرستی سے  سخت بیزار تھے، دین حق کی تلاش میں ملکوں ملکوں پھرے بالآخر ملک شام میں بتوفیق الٰہی نصرانی مذہب کے ایک ایسے راہب یعنی عیسوی مذہب کے درویش عالم سے ملاقات ہو گئی جو صحیح عیسوی مذہب پر تھے (یعنی عیسائیت میں الوہیت مسیح، تثلیت اور کفارہ وغیرہ جیسے جو مشرکانہ اور گمراہانہ عقیدے بعد میں شامل کر لئے گئے وہ ان سے بیزار  تھے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی لائی ہوئی صحیح تعلیم و ہدایت پر قائم تھے) ورقہ نے ان کے ہاتھ پر نصرانی مذہب قبول کر لیا اور اس کی تعلیم بھی حاصل کر لی، عبرانی زبان بھی سیکھ لی جس میں توراۃ نازل ہوئی تھی (اور بعض محققین کی تحقیق کے مطابق انجیل بھی عبرانی زبان ہی میں تھی)۔ بہرحال ورقہ بن نوفل صحیح عیسوی مذہب پر تھے اور کتب قدیمہ کے عالم تھے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب "الاصابہ" میں ان ورقہ بن نوفل کے بارے میں ایک روایت نقل کی ہے۔ 

وَكَانَ وَرَقَةُ قَدْ كَرهَ عِبَادَةَ الْأَوْثَانِ وَطَلَبَ الدِّينَ فِى الْآفَاقِ وَقَرَأَ الْكُتُبَ وَكَانَتْ خَدِيْجَةُ تَسْئَلُهُ عَنْ أَمْرِ النَّبِىِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولُ مَا أَرَاهُ إِلاَّ نَبِىّ هَذِه الَّذِى بَشَّرَ بِهِ مُوسَى وَعِيسَى . 

ترجمہ: ورقہ بتوں کی پوجا کو برا اور غلط سمجھتے تھے اور دین حق کی تلاش میں یہ مختلف علاقوں اور ملکوں میں پھرے اور انہوں نے کتابوں کا (یعنی ان کتابوں کا جو آسمانی کہی اور سمجھی جاتی تھی) مطالعہ کیا تھا، اور خدیجہ  رضی اللہ تعالی عنھا ان سے رسول اللہ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے بارے میں پوچھا کرتی تھیں تو وہ کہتے تھے کہ میرا خیال ہے کہ یہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اس امت کے نبی ہوں گے جن کی بشارت حضرت موسیٰ علیہ السلام  اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام  نے دی ہے۔ (الاصابہ) 

اس سے معلوم ہوا کہ ورقہ بن نوفل کی اس خصوصیت کی وجہ سے کہ انہوں نے اپنی قوم کے شرک و بت پرستی والے مذہب سے بیزار ہو کر عیسوی  مذہب اختیار کر لیا تھا (اور اس طرح نبوت و رسالت کے پورے سلسلہ پر وہ ایمان لے آئے تھے) اور تورات انجیل وغیرہ کتب سماویہ کے عالم تھے اور ظاہر ہے کہ ان کی زندگی بھی عام اہل مکہ کی زندگی سے الگ قسم کی عائدانہ، زاہدانہ درویشانہ زندگی رہی ہو گی۔ (الغرض ان کی ان صفات و خصوصیات کی وجہ سے) ان کی چچا زاد بہن حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا  جو ایک نہایت سلیم الفطرت اور عاقلہ خاتون تھیں، ان کو ایک روحانی بزرگ سمجھتی تھیں اور ان سے ایک طرح کی عقیدت رکھتی تھیں اور غارحراء کے اس واقعہ سے پہلے بھی حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے غیر معمولی احوال کا تذکرہ کر کے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے بارے میں ان کا خیال اور ان کی رائے دریافت کیا کرتی تھیں اور وہ جواب میں کہا کرتے تھے 

ما اراه الا نبى هذه الامة الذى بشر به موسى وعيسى 

یعنی میرا گمان ہے کہ یہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اس امت کے وہ نبی ہوں گے جن کی بشارت حضرت موسی علیہ السلام   اور حضرت عیسی علیہ السلام  نے دی ھوئی ھے 

ورقہ بن نوفل اعلانِ نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے پہلے لیکن حالتِ ایمان میں انتقال کر گئے تھے اس لئے انھوں نے رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی نبوت کا زمانہ  تو نہیں پایا تاھم آحادیث  مبارکہ میں ان کے جنتی ھونے کا ذکر موجود ھے

جاری ھے ۔۔۔۔۔

 

Share: