قسط نمبر (36) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 دارِ ارقم کے واقعات میں سب سے اھم واقعہ حضرت  عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا یہاں آ کر اسلام قبول کرنا ھے  اس لئے دارِ ارقم کا ذکر اس وقت تک مکمل نہیں ھوتا جب تک  مرادِ رسول  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم حضرت عمر  فاروق  رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر نہ کیا جائے  اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے حالاتِ زندگی  کو پوری طرح قلمبند کرنے کے لئے ایک ضخیم کتاب بھی ناکافی ھوگی  لیکن  ذیل میں حضرت عمر  فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے حالاتِ زندگی کے متعلق  بہت ھی اختصار کے ساتھ  کچھ تحریر کیا جا رھا ھے 


خلیفۂ ثانی ،آمیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ

 حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی پیدائش مکۃ المکرمہ میں واقعہ فیل سے تیرہ سال بعد ہوئی۔ آپؓ صحابی رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد ہیں۔ آپؓ کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے۔ حضرت عمرؓ رسول اللہ ؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خسربھی ہیں ۔آپؓ کی صاحبزادی ام المومنین حضرت سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہما رسول اللہؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج میں سے ایک ہیں۔آپؓ کا لقب فاروق، کنیت ابو حفص ہے۔ لقب و کنیت دونوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ ہیں۔ آپ  رضی اللہ تعالی عنہ کا نسب نویں پشت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐسے جا ملتا ہے۔


نام ونسب

عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ بن نفیل بن عبد العزّٰی بن ریاح بن عبد اللہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوّیٰ بن فہربن مالک۔ جبکہ والدہ کا نام خنتمہ تھا جو عرب کے مشہور سردار ہشام بن مغیرہ کی بیٹی تھیں

آپ کا لقب فاروق، کنیت ابو حفص، لقب و کنیت دونوں  رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عطا کردہ ہیں۔ آپ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ  عدی کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ  کاخاندان ایام جاہلیت سے نہایت ممتاز تھا، آپ کے جدا علیٰ عدی عرب کے باہمی منازعات میں ثالث مقرر ہواکرتے تھے اورقریش کو کسی قبیلہ کے ساتھ کوئی ملکی معاملہ پیش آجاتا تو سفیر بن کر جایا کرتے تھے اور یہ دونوں منصب عدی کے خاندان میں نسلا بعد نسل چلے آ رہے تھے، ددھیال کی طرح عمر رضی اللہ تعالی عنہ ننھیال کی طرف سے بھی نہایت معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے، آپ کی والدہ ختمہ، ہاشم بن مغیرہ کی بیٹی تھیں اور مغیرہ اس درجہ کے آدمی تھے کہ جب قریش کسی قبیلہ سے نبرد آزمائی کے لیے جاتے تھے تو فوج کا اہتمام ان ہی کے متعلق ہوتا تھا۔


حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا قبولِ اسلام

اہلِ مکہ کے جبر وستم بہت بڑھ چکے تھے ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سرِعام تبلیغ تو درکنار‘ عبادت بھی نہیں کرسکتے تھے، چھپ کر دین اسلام کی تبلیغ وعبادت کی جاتی تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد اس وقت اُنتالیس  تک تھی۔ ایک رات عبادت کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردِگار سے عجیب دعا کی، مانگی بھی تو عجب شئے مانگی۔ کسی کے وہم وگمان میں نہیں تھا کہ دعا میں یہ بھی مانگا جاتا ہے، اسلام کی بڑھوتری کی دعا کی جاتی، اہلِ مکہ کے ایمان لانے کی دعا کی جاتی، دنیائے عالم میں اسلام کی اشاعت کی دعا کی جاتی یا اہل مکہ کے ظلم وستم کی بندش کے لیے ہاتھ اُٹھائے جاتے، لیکن میرے عظیم نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ: ’’اے اللہ! عمر وابن ہشام اور عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ میں سے کسی کو اسلام کی عزت کا ذریعہ بنا ۔‘‘ 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں دو لوگوں کو نامزد کیا اور فیصلہ خدائے علام الغیوب پر چھوڑ دیا کہ اللہ ! ان دونوں میں سے جو تجھے پسند ہو وہ دے دے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو شرفِ قبولیت سے نوازا اور اسباب کی دنیا میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا سبب یہ بنا کہ ایک روز تیغِ برہنہ لیے جارہے تھے، راستہ میں بنو زہرہ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص ملا، جس نے پوچھا کہ عمر! خیریت! کہاں کا ارادہ ہے؟ کہنے لگے: محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو نعوذ باللہ قتل کرنے جارہاہوں ،اس نے نئے دین کااعلان کرکے مکہ والوں میں تفریق  ڈال دی ہے، کیوں نہ اس قصہ کو ہی ختم کردوں۔ بنو زہرہ سے تعلق رکھنے والے اُس شخص نے کہا کہ: عمر! اگر تم نے ایسا کیا تو کیا ’’بنو ہاشم وبنو زہرہ ‘‘تم سے انتقام نہیں لیں گے؟ کہنے لگے: لگتا ہے کہ تم بھی اس نئے دین میں شامل ہوچکے ہو ،انہوں نے کہا کہ پھر پہلے اپنے گھر کی خبر تو لو، تمہاری بہن وبہنوئی بھی مسلمان ہوچکے ہیں ۔

جلال میں نکلنے والا عمر رضی اللہ تعالی عنہ سیدھا بہن کے گھر پہنچتا ہے، یہاں سیدنا خباب بن الارت رضی اللہ عنہ ان کے بہنوئی وبہن کو سورۂ طہٰ پڑھا رہے تھے، باہر سے آواز سنی اور دروازہ پر دستک دی، اندر سے پوچھاگیا کون؟ عمر! نام سنتے ہی سیدنا خباب ؓ چھپ گئے، عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے آتے ہی پوچھا: تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟ انہوں نے بات ٹالتے ہوئے کہا کہ: ہم آپس میں باتیں کررہے تھے، کہنے لگے: میں نے سنا ہے تم نئے دین میں شامل ہوگئے ہو؟ بہنوئی نے کہا کہ: عمر! وہ دین تیرے دین سے بہتر ہے، تو جس دین پر ہے یہ گمراہ راستہ ہے، بس یہ سننا تھا کہ بہنوئی کو زمین پر دے مارا ، بہن چھڑانے آئی تواتنی زور سے اس کے چہرے پر طمانچہ رسید کیا کہ ان کے چہرے سے خون نکل آیا، بہن کے چہرے پہ خون دیکھ کر عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا غصہ  ٹھنڈا ہوا اور بہنوئی کو چھوڑ کر الگ ہو بیٹھے اور کہنے لگے کہ: اچھا! لاؤ، دکھاؤ، تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟ بہن نے کہا کہ: تم ابھی اس کلام کے آداب سے ناواقف ہو، اس کلامِ مقدس کے آداب ہیں، پہلے تم وضو کرو، پھر دکھاؤں  گی، انہوں نے وضو کیا اور سورۂ طہٰ پڑھنی شروع کی، یہ پڑھتے جارہے تھے اور کلامِ الٰہی کی تاثیر قلب کو متاثر کیے جارہے تھی۔ خباب بن ارت رضی اللہ عنہ یہ منظر دیکھ کر باہر نکل آئے اور کہنے لگے: عمرؓ! کل رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہِ خداوندی میں دعا کی تھی کہ: ’’اللّٰھمّ أعزّ الإسلام بأحد الرجلین إمّا ابن ھشام وإمّا عمر بن الخطاب‘‘ اور ایک دوسری روایت میں الفاظ کچھ اس طرح سے ہیں کہ: ’’اللّٰھم أید الإسلام بأبي الحکم بن ھشام وبعمر بن الخطاب۔‘‘ اے اللہ ! عمر وبن ہشام یا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ میں سے کسی کو اسلام کی عزت کا ذریعہ بنا، یا ان میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کی تائید فرما۔‘‘ اے عمر! میرے دل نے گواہی دی تھی کہ یہ دعا ئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں پوری ہوگی۔ اسی طرح کی ایک روایت سیدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ: ’’کان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا رأی عمر بن الخطاب أو أبا جھل بن ھشام قال: اللّٰھم اشدد دینک بأحبّہما إلیک‘‘ یعنی جب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بن خطاب یا ابوجہل کو دیکھتے تو رب العزت کے حضور دستِ دعا دراز کرتے ہوئے فرماتے: اے اللہ! ان دونوں میں سے جو تیرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے، اس سے اپنے دین کو قوت عطا فرما۔ (طبقات ابن سعد)

سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے سیدناعمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ: اچھا! تو مجھے بتاؤ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کہاں ہیں؟ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں، انہوں نے بتایا کہ صفا پہاڑی  پر واقع ارقم رضی اللہ عنہ کے مکان میں قیام پذیر ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ چل پڑے، دَرّے پر مقیم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب دیکھا کہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ  آرہا ہے اور ہاتھ میں ننگی تلوار ہے، تو گھبرائے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا، وہیں اسداللہ ورسولہ سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بھی تھے، وہ فرمانے لگے: آنے دو، اگر ارادہ نیک ہے تو خیر ہے اور اگر ارادہ صحیح نہیں تو میں اس کی تلوار سے اس کا کام تمام کردوں گا۔

جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے تو رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم پر نزولِ وحی جاری تھا، چند لمحوں بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر ؓ سے فرمایا:’’ اے عمر! تم کس چیز کا انتظار کر رھے  ہو؟ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم اسلام قبول کرو؟!۔‘‘ بس یہ سننا تھا کہ فوراًکلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ اصحابِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کی خوشی میں اس زور سے نعرۂ تکبیر بلند کیا کہ صحنِ کعبہ میں بیٹھے ہوئے کفار ومشرکین نے بھی سنا اور اس نعرے کی آواز سے وادیِ مکہ گونج اُٹھی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سینۂ مبارک پر دستِ اقدس رکھا اور دعا فرمائی: اَللّٰھُمَّ اخْرُجْ مَافِيْ صَدْرِہٖ مِنْ غِلٍّ وَأَیِّدْ لَہٗ إِیْمَانًا۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’یا اللہ ۔!اس کے سینے میں جو کچھ میل کچیل ہو وہ دور کردے اور اس کے بدلے ایمان سے اس کا سینہ بھردے ۔‘‘ (مستدرک للحاکم) قبولِ اسلام کے وقت بعض مؤرخین کے نزدیک آپ کی عمر تیس سال تھی اور بعض کہتے ہیں کہ عمر چھبیس سال تھی۔مصر کے ایک بہت بڑے عالم مفسرِ قرآن جناب علامہ طنطناویؒ نے عجیب جملہ کہا ہے کہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ عمرؓ اسی گھڑی پیدا ہوئے اور یہیں سے ان کی تاریخی زندگی کا آغاز ہوا ۔‘‘

مفسرِ قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم : لما أسلم أتاني جبرائیل، فقال: استبشر أھل السماء بإسلام عمرؓ ‘‘ یعنی حضور سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’جبرئیل ؑ میرے پاس آئے اور کہا کہ: آسمان والے عمر ؓ کے قبولِ اسلام پر خوشیاں منا رہے ہیں۔‘‘ (مستدرک للحاکم و طبقات ابن سعد)


حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور مسلمانوں کا خانہ کعبہ میں نماز ادا کرنا 

 حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام لانے کےبعد عرض کیا کہ: اے اللہ کے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثبات میں جواب دیا، تو عرض کرنے لگے کہ: پھر ھم چھپ کر عبادت کیوں کریں؟ چلیے خانہ کعبہ میں چل کر عبادت کرتے ہیں، میں قربان جاؤں  اپنے آقا ومولا صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ انہوں نے ایسے ہی عمر ؓ کو نہیں مانگا تھا، بلکہ دور رس نگاہِ نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم دیکھ رہی تھی کہ اسلام کو عزت وشوکت عمرؓ کے آنے سے ہی نصیب ہوگی۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دو صفوں میں تقسیم کیا: ایک صف کے آگے اسد اللہ ورسولہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ چل رہے تھے اور دوسری صف کے آگے مرادِ رسولؐ، صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عطائے خداوندی یعنی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ چل رہے تھے۔ مسلمان جب خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو کفارِ مکہ نے دیکھا، نظر پڑی حمزہ ؓ پر اور عمر ؓ پر تو بڑے غمگین ہوئے، لیکن کس میں جرأت تھی کہ کوئی بولتا؟! اس دن سے مسلمانوں کے لیے تبلیغِ دین میں آسانی پیدا ہوئی اور یہی وہ دن تھا جب اللہ کے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ: ’’إن اللّٰہ جعل الحق علٰی لسان عمرؓ وقلبہ وھو الفاروق فرّق اللّٰہ بہٖ بین الحق والباطل۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اللہ تعالیٰ نے سچ کو عمرؓ کے قلب ولسان پر جاری کردیا اور وہ فاروق ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ حق وباطل میں فرق کردیا ہے ۔‘‘ (طبقات ابن سعد)

جناب سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ’’واللّٰہ ما استطعنا أن نصلّي عندالکعبۃ ظاھرین حتٰی أسلم عمرؓ‘‘۔۔۔۔ ’’اللہ کی قسم ! ہم کعبہ کے پاس کھلے بندوں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے، یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔‘‘ (مستدرک للحاکم)

اسی طرح حضرت صہیب بن سنان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :جب عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو اسلام کو غلبہ نصیب ہوا، اور ہم کھلے بندوں اسلام کی دعوت دینے لگے اور ہم حلقہ بنا کر بیت اللہ میں بیٹھتے تھے، ہم بیت اللہ کا طواف کرنے لگے اور اب ہم پر اگر کوئی زیادتی کرتا تو ہم اس سے بدلہ لیتے تھے ۔

کچھ اسی قسم کے تأثرات فقیہ الامت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بھی ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ: ’’عمرؓ کا اسلام قبول کرنا ہماری کھلی فتح تھی، اور عمر ؓکا ہجرت کرنا ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی نصرتِ خاص تھی ، اور آپ ؓ کی خلافت تو ہمارے لیے سراپا رحمت تھی، میں نے وہ دن بھی دیکھے ہیں جب ہم بیت اللہ کے قریب بھی نماز ادا نہیں کرسکتے تھے، لیکن جب عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو آپ ؓ نے کفار سے مقابلہ کیا، یہاں تک کہ وہ ہمیں نماز پڑھنے دینے لگے۔ (طبقات ابن سعد) 


قبولِ اسلام سے پہلے کے حالاتِ زندگی

حضرت عمر بن الخطاب رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی ولادت عام الفیل کے تیرہ سال بعد محرم کی چاند رات کو ہوئی یعنی بعثت نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے وقت آپ کی عمر 27 سال تھی

ایام طفولیت کے حالات پردہ خفا میں ہیں؛بلکہ سن رشد کے حالات بھی بہت کم معلوم ہیں، شباب کا آغاز ہوا تو ان شریفانہ مشغلوں میں مشغول ہوئے جو شرفائے عرب میں عموماً رائج تھے، یعنی نسب دانی، سپہ گری، پہلوانی اور خطابت میں مہارت پیدا کی، خصوصاً شہسواری میں کمال حاصل کیا، اسی زمانہ میں انہوں نے لکھنا پڑھنا بھی سیکھ لیا تھا؛چنانچہ زمانہ جاہلیت میں جو لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے ان میں سے ایک حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے۔ تعلیم وتعلم سے فارغ ہونے کے بعد فکر معاش کی طرف متوجہ ہوئے، عرب میں لوگوں کا ذریعہ معاش زیادہ تر تجارت تھا، اس لیے انہوں نے بھی یہی شغل اختیار کیا اور اسی سلسلہ میں دور دور ممالک کا سفر کیا، اس سے آپ کو بڑے تجربے اور فوائد حاصل ہوئے، آپ کی خودداری بلند حوصلگی، تجربہ کاری اورمعاملہ فہمی اسی کا نتیجہ تھی اور ان ہی اوصاف کی بنا پر قریش نے آپ کو سفارت کے منصب پر مامور کر دیا تھا ۔ قبائل میں جب کوئی پیچیدگی پیدا ہوجاتی تھی تو آپ ہی سفیر بن کر جاتے تھے اور اپنے غیر معمولی فہم وتدبر اورتجربہ سے اس عقدہ کو حل کرتے تھے۔ حضرت عمر فاروق کی عمر کا  ستائیسواں سال تھا کہ ریگستان عرب میں آفتاب اسلام روشن ہوا اور مکہ کی گھاٹیوں سے توحید کی صدا بلند ہوئی، عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے یہ آواز نہایت نامانوس تھی اس لیے سخت برہم ہوئے، یہاں تک جس کی نسبت معلوم ہوجاتا کہ یہ مسلمان ہو گیا ہے اس کے دشمن بن جاتے، ان کے خاندان کی ایک کنیز بسینہ نامی مسلمان ہو گئی تھی، اس کو اتنا مارتے کہ مارتے مارتے تھک جاتے، بسینہ کے علاوہ اور جس جس پر قابو چلتا زدوکوب سے دریغ نہیں کرتے تھے اُس زمانہ میں آپ کا شمار اسلام کے بڑے بڑے دشمنوں میں ھوتا تھا اسلام قبول کرنے والوں حتی المقدور اذیتیں دیتے لیکن اسلام کا نشہ ایسا نہ تھا جو چڑھ کر اتر جاتا، ان تمام سختیوں کے باوجود کسی ایک شخص کو بھی وہ اسلام سے بددل نہ کرسکے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور  ان کے باپ اور ان کے دادا تینوں انساب کے بہت بڑے ماہر تھے آپ عکاظ کے دنگل میں کشتی  بھی لڑا کرتے تھے۔


حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ھجرت

مکہ میں جس قدر مسلمانوں کی تعداد بڑہتی گئی، اسی قدرمشرکین قریش کے بغض وعناد میں بھی ترقی ہوتی گئی، اگر پہلے وہ صرف فطری خونخواری اورجوش مذہبی کی بناپر مسلمانوں کو اذیت پہنچاتے تھے تو اب انہیں سیاسی مصالح نے مسلمانوں کے کامل استیصال پر آمادہ کر دیا تھا، سچ یہ ہے کہ اگر بلا کشان اسلام میں غیر معمولی جوش ثبات اوروارفتگی کا مادہ نہ ہوتا ایمان پر ثابت قدم رہنا غیر ممکن تھا۔ حضرت عمر ؓ سات نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں اسلام لائے تھے  تیرہ نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  میں ہجرت ہوئی، اس طرح گویا انہوں نے اسلام لانے کے بعد تقریباً  چھ سات برس تک قریش کے مظالم برداشت کیے، جب مسلمانوں کو مدینہ کی جانب ہجرت کی اجازت ملی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بھی اس سفر کے لیے آمادہ ہوئے اور بارگاہ نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے اجازت لے کر چند آدمیوں کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور اس شان کے ساتھ روانہ ہوئے کہ پہلے مسلح ہوکر مشرکین کے مجمعوں سے گزرتے ہوئے خانہ کعبہ پہنچے، نہایت اطمینان سے طواف کیا، نمازپڑھی، پھر مشرکین سے مخاطب ہوکر کہا جس کو مقابلہ کرنا ہو وہ مکہ سے باہر نکل کر میرا مقابلہ کرلے ؛لیکن کسی کی ہمت نہ ہوئی اوروہ مدینہ روانہ ہو گئے۔ عمر رضی اللہ تعالی عنہ مدینہ پہنچ کر قبا میں رفاعہ بن عبدالمنذر کے مہمان ہوئے، قبا کا دوسرانام عوالی تھا چنانچہ صحیح مسلم میں ان کی فرودگاہ کا نام عوالی ہی لکھا ہے، 

عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد اکثر صحابہ نے ہجرت کی یہاں تک کہ 622ء میں خود آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم بھی مکہ کی گھاٹیوں سے نکل کر مدینہ کے افق سے ضوافگن ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ تشریف لانے کے بعد غریب الوطن مہاجرین کے رہنے سہنے کا اس طرح انتظام فرمایا کہ ان میں اور انصار میں برادری قائم کردی، اس موقع پر انصار نے عدیم النظیر ایثار سے کام لے کر اپنے مہاجربھائیوں کو مال واسباب میں نصف کا شریک بنالیا، اس رشتہ کے قائم کرنے میں درجہ ومراتب کا خاص طورپر خیال رکھا گیا تھا یعنی جو مہاجر جس رتبہ کا تھا اسی حیثیت کے انصاری سے اس کی برادری قائم کی گئی تھی؛چنانچہ عمر ؓ کے برادراسلام حضرت عتبہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ قرار پائے تھے جو قبیلہ بنی سالم کے معزز رئیس تھے۔ مدینہ کا اسلام مکہ کی طرح بے بس ومجبورنہ تھا؛بلکہ اب آزادی اوراطمینان کا دورتھا اور اس کا وقت آگیا تھا کہ فرائض وارکان محدود اورمعین کیے جائیں نیز مسلمانوں کی تعداد وسیع سے وسیع تر ہوتی جاتی تھی اوروہ دور دور کے محلوں میں آباد ہونے لگے تھے، اس بنا پر شدید ضرورت تھی کہ اعلان نماز کا کوئی طریقہ معین کیاجائے؛چنانچہ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اسی کا انتظام کرنا چاہا، بعض صحابہ کی رائے ہوئی کہ آگ جلا کر لوگوں کو خبر کی جائے، بعض کا خیال تھا کہ یہودیوں اورعیسائیوں کی طرح بوق وناقوس سے کام لیا جائے، عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ ایک آدمی اعلان کے لیے کیوں نہ مقرر کیا جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ رائے پسند آئی اور اسی وقت حضرت بلال ؓ کو اذان کا حکم دیا گیا، اس طرح اسلام کا ایک شعار اعظم عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے کے موافق قائم ہوا،  جس سے تمام عالم قیامت تک دن اوررات میں پانچ وقت توحید ورسالت کے اعلان سے گونجتا رہے گا۔


حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت

حضرت ابوبکر ؓ  نے تریسٹھ سال کی عمر میں جمادی الثانی  کے آخر میں دوشنبہ کے روز وفات پائی اورحضرت عمرفاروق ؓ مسند آرائے خلافت ہوئے، خلیفۂ سابق کے عہد میں مدعیان نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ، مرتدین عرب اورمنکرین زکوٰۃ کا خاتمہ ہو کر فتوحات ملکی کا آغاز ہوچکا تھا، یعنی؁ 12ھ میں عراق پر لشکر کشی ہوئی اورحیرہ کے تمام اضلاع فتح ہو گئے، اسی طرح؁ 13ھ میں شام پر حملہ ہوا اوراسلامی فوجیں سرحدی اضلاع میں پھیل گئیں، ان مہمات کا آغاز ہی تھا کہ خلیفہ وقت نے انتقال کیا، حضرت عمرؓ نے عنان حکومت  ہاتھ میں لی تو ان کا سب سے اہم فرض ان ہی مہمات کو تکمیل تک پہنچانا تھا۔


حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نظامِ خلافت

اسلام میں خلافت کا سلسلہ گوحضرت ابوبکر صدیق ؓ کے عہد سے شروع ہوا اور ان کے قلیل زمانہ خلافت میں بھی بڑے بڑے کام انجام پائے ؛لیکن منتظم اورباقاعدہ حکومت کا آغاز حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد سے ہوا، انہوں نے نہ صرف قیصر وکسریٰ کی وسیع سلطنتوں کو اسلام کے ممالک محروسہ میں شامل کیا بلکہ حکومت وسلطنت کا باقاعدہ نظام بھی قائم کیا اوراس کو اس قدر ترقی دی کہ حکومت کے جس قدر ضروری شعبے ہیں، سب ان کے عہد میں وجود پذیر ہوچکے تھے؛لیکن قبل اس کے کہ ان کے نظام حکومت کی تفصیل بیان کی جائے  یہ جاننا ضروری ہے کہ اس حکومت کی ترکیب اورساخت کیاتھی؟ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت جمہوری طرز حکومت سےمشابہ تھی، یعنی تمام ملکی وقومی مسائل مجلس شوریٰ میں پیش ہوکر طے پاتے تھے، اس مجلس میں مہاجرین وانصار ؓ کے منتخب اوراکابر اہل الرائے شریک ہوتے تھے اوربحث ومباحثہ کے بعد اتفاق آراء یا کثرت رائے سے تمام امور کا فیصلہ کرتے تھے، مجلس کے ممتاز اورمشہورارکان یہ تھے : حضرت عثمان ؓ، حضرت علی ؓ، حضرت عبد اللہ بن عوف ؓ، حضرت معاذ بن جبل ؓ، حضرت ابی بن کعب ؓ، حضرت زید بن ثابت ؓ۔ مجلس شوریٰ کے علاوہ ایک مجلس عام بھی تھی جس میں مہاجرین وانصار کے علاوہ تمام سرداران قبائل شریک ہوتے تھے، یہ مجلس نہایت اہم امور کے پیش آنے پر طلب کی جاتی تھی، ورنہ روز مرہ کے کاروبار میں مجلس شوریٰ کا فیصلہ کافی ہوتا تھا، ان دونوں مجلسوں کے سوا ایک تیسری مجلس بھی تھی جس کو ہم مجلس خاص کہتے ہیں، اس میں صرف مہاجرین صحابہ شریک ہوتے تھے۔  مجلس شوریٰ کے انعقاد کا عام طریقہ یہ تھا کہ منادی"الصلاۃ جامعۃ" کا اعلان کرتا تھا لوگ مسجد میں جمع ہوجاتے تھے، اس کے بعد ہر ایک کی رائے دریافت کرتے تھے،  جمہوری حکومت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہرشخص کو اپنے حقوق کی حفاظت اوراپنی رائے کے علانیہ اظہار کا موقع دیا جائے، حاکم کے اختیارات محدود ہوں اور اس کے طریق عمل پر ہر شخص کو نکتہ چینی کا حق ہو، حضرت عمرؓ کی خلافت ان تمام امور کی جامع تھی، ہرشخص آزادی کے ساتھ اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا تھا اورخلیفہ وقت اختیارات کے متعلق خود حضرت عمؓر نے متعدد موقعوں پرتصریح کردی تھی کہ حکومت کے لحاظ سے ان کی کیا حیثیت ہے، نمونہ کے لیے ایک تقریر کے چند فقرے درج ذیل ہیں:

 "وإنما أنا ومالكم كولي اليتيم إن استغنيت استعففت، وإن افتقرت أكلت بالمعروف، لكم علي أيها الناس خصال فخذوني بها، لكم علي أن لا أجتبي شيئا من خراجكم و مما أفاء اللہ عليكم إلا من وجهہ لكم علي إِذَا وقع فِي يدي أن لا يخرج مني إلا فِي حقہ ومالكم علي أن أزيد أعطياتكم وأرزاقكم إن شاء اللہ وأسد ثغوركم، ولكم علي أن لا ألقيكم فِي المهالك

مجھ کو تمہارے مال میں اسی طرح حق ہے جس طرح یتیم کے مال میں اس کے مربی کا ہوتا ہے، اگر میں دولتمندوں  گا تو کچھ نہ لوں گا اوراگر صاحب حاجت ہوں گا تواندازہ سے کھانے کے لیے لوں گا، صاحبو!میرے اوپر تمہارے متعدد حقوق ہیں جن کا تم کو مجھ سے مواخذہ کرنا چاہیے، ایک یہ کہ ملک کا خراج اورمال غنیمت بے جاطورپر صرف نہ ہونے پائے، ایک یہ کہ تمہارے روز ینے بڑھاؤں اورتمہاری سرحدوں کو محفوظ رکھوں اوریہ کہ تم کو خطروں میں نہ ڈالوں۔" 

مذکورہ بالاتقریر صرف دلفریب خیالات کی نمائش نہ تھی ؛بلکہ عمر  رضی اللہ تعالی عنہ نہایت سختی کے ساتھ اس پر عامل بھی تھے، واقعات اس کی حرف بحرف تصدیق کرتے ہیں، ایک دفعہ حضرت حفصہ ؓ آپ کی صاحبزادی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ یہ خبر سن کر کہ مال غنیمت آیا ہے، عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئیں اورکہا کہ امیر المومنین !میں ذوالقربی میں سے ہوں، اس لیے اس مال میں سے مجھ کو بھی عنایت کیجئے، عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا کہ"بے شک تم میرے خاص مال میں حق رکھتی ہو؛لیکن یہ تو عام مسلمانوں کا مال ہے، افسوس ہے کہ تم نے اپنے باپ کو دھوکہ دینا چاہا، وہ بے چاری خفیف ہوکر چلی گئیں، ایک دفعہ خود بیمار پڑے لوگوں نے علاج میں شہد تجویز کیا، بیت المال میں شہد موجود تھا ؛لیکن بلا اجازت نہیں لے سکتے تھے، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جاکر لوگوں سے کہا کہ"اگر آپ اجازت دیں تو تھوڑا ساشہد لے لوں"  ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں جب عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی احتیاط کا یہ حال تھا تو ظاہر ہے کہ مہمات امور میں وہ کسی قدر محتاط ہوں گے۔ عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے  لوگوں کو احکام پر نکتہ چینی کرنے کی ایسی عام آزادی دی تھی کہ معمولی سے معمولی آدمیوں کو خود خلیفۂ وقت پر اعتراض کرنے میں باک نہیں ہوتا تھا، ایک موقع پر ایک شخص نے کئی بار عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو مخاطب کرکے کہا"اتق اللہ یاعمر" حاضرین میں سے ایک شخص نے اس کو روکنا چاہا، عمرنے فرمایا"نہیں کہنے دو، اگریہ لوگ نہ کہیں گے تو یہ بے مصرف ہیں اورہم نہ مانیں تو ہم"یہ آزادی صرف مردوں تک محدود نہ تھی؛بلکہ عورتیں بھی مردوں کے قدم بہ قدم تھیں۔ ایک دفعہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ مہر کی مقدار کے متعلق تقریر فرما رہے تھے، ایک عورت نے اثنا ئے تقریر ٹوک دیا اورکہا"اتق اللہ یاعمر!"یعنی اے عمر ؓ !خدا سے ڈر!اس کا اعتراض صحیح تھا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اعتراف کے طورپر کہا کہ ایک عورت بھی عمر ؓ سے زیادہ جانتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ آزادی اورمساوات کی یہی عام ہوا تھی جس نے عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کو اس درجہ کامیاب کیا اور مسلمانوں کو جوش استقلال اورعزم وثبات کا مجسم پتلا بنادیا۔ خلافت فاروقی کی ترکیب اورساخت بیان کرنے کے بعد اب انتظامات ملکی کی طرف توجہ کریں  اور دیکھیں  کہ فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے عہد مبارک میں خلافت اسلامیہ کو کس درجہ منظم اورباقاعدہ بنادیا تھا اور کس طرح حکومت کی ہرشاخ کو مستقل محکمہ کی صورت میں قائم کر دیا تھا۔ نظام حکومت کے سلسلہ میں سب سے پہلا کام ملک کا صوبوں اورضلعوں میں تقسیم ہے، اسلام میں سب سے پہلے حضرت عمرؓ نے اس کی ابتدا کی اور تمام ممالک مفتوحہ کو آٹھ صوبوں پر تقسیم کیا، مکہ، مدینہ، جزیرہ، بصرہ، کوفہ، مصر، فلسطین، ان صوبوں کے علاوہ تین صوبے اورتھے، خراسان، آذربائیجان، فارس، ہر صوبہ میں مفصلہ ذیل بڑے بڑے عہدہ دار رہتے تھے، والی یعنی حاکم صوبہ، کاتب یعنی میر منشی، کاتب دیوان یعنی فوجی محکمہ کا میر منشی، صاحب الخراج عینی کلکٹر، صاحب احداث یعنی افسر پولیس، صاحب بیت المال، یعنی افسر خزانہ، قاضی یعنی جج چنانچہ کوفہ میں عماربن یاسر ؓ والی، عثمان بن حنیف ؓ کلکٹر، عبد اللہ بن مسعود ؓ افسر خزانہ، شریح ؓ قاضی اور عبد اللہ بن خزاعی کاتب دیوان تھے۔  بڑے بڑے عہدہ داروں کا انتخاب عموماً مجلس شوریٰ میں ہوتا تھا، عمر  رضی اللہ تعالی عنہ کسی لائق راستباز اورمتدین شخص کا نام پیش کرتے تھے، اورچونکہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ میں  جوہر شناسی کا مادہ فطرتا تھا اس لیے ارباب مجلس عموما ان کے حسن انتخاب کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اس شخص کے تقرر پر اتفاق رائے کرلیتے تھے؛چنانچہ نہاوند کی عظیم الشان مہم کے لیے نعمان بن مقرن کا اسی طریقہ سے انتخاب ہواتھا۔


حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عدل وانصاف

خلافت فاروقی کا سب سے نمایاں وصف عدل وانصاف ہے، ان کے عہد میں کبھی بھی انصاف سے تجاوز نہیں ہوا، شاہ وگدا، شریف ورزیل، عزیزوبیگانہ سب کے لیے ایک ہی قانون تھا، ایک دفعہ عمروبن العاص ؓ کے بیٹے عبد اللہ نے ایک شخص کو بے وجہ مارا، حضرت عمرؓ نے اسی مضروب سے ان کے کوڑے لگوائے، عمروبن العاص ؓ بھی موجود تھے، دونوں باپ بیٹے خاموشی سے عبرت کا تماشہ دیکھتے رہے اورکچھ نہ کہا جبلہ بن ایہم رئیس شام نے کعبہ کے طواف میں ایک شخص کو طمانچہ مارا، اس نے بھی برابر کا جواب دیا، جبلہ نے حضرت عمرؓ سے شکایت کی تو انہوں نے جواب دیا کہ جیسا کیا ویسا پایا جبلہ کو اس جواب سے حیرت ہوئی اور وہ مرتد ہوکر قسطنطنیہ  کی طرف بھاگ گیا۔ عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے  لوگوں کی تنخواہیں مقرر کیں تو اسامہ بن زید ؓ کی تنخواہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب غلام حضرت زید ؓ کے فرزند تھے، اپنے بیٹے عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے زیادہ مقررکی، عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عذر کیا کہ واللہ اسامہ ؓ کسی بات میں ہم سے فائق نہیں ہیں، حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ہاں! لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسامہ ؓ کو تجھ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔  فاروقی عدل وانصاف کا دائرہ صرف مسلمانوں تک محدود نہ تھا ؛بلکہ ان کا دیوان عدل مسلمان، یہودی، عیسائی سب کے لیے یکساں تھا، قبیلۂ بکربن وائل کے ایک شخص نے حیرہ کے ایک عیسائی کو مارڈالا، عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے لکھا کہ قاتل مقتول کے ورثاء کے حوالہ کر دیا جائے؛چنانچہ وہ شخص مقتول کے وارث کو جس کانام حنین تھا سپرد کیا گیا اور اس نے اس کو مقتول عزیز کے بدلہ میں قتل کر دیا۔ عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک ضعیف شخص کو گداگری کرتے دیکھا، پوچھا"توبھیک کیوں مانگتا ہے؟ اس نے کہا مجھ پر جزیہ لگایا گیا ہے، حالانکہ میں بالکل مفلس ہوں"، عمر رضی اللہ تعالی عنہ اسے اپنے گھر لے آئے اور کچھ نقددے کر مہتمم بیت المال کو لکھا کہ اس قسم کے ذمی مساکین کے لیے بھی وظیفہ مقرر کر دیا جائے، واللہ! یہ انصاف نہیں ہے کہ ان کی جوانی سے ہم متمتع ہوں اوربڑھاپے میں ان کی خبر گیری نہ کریں"۔  عربسوس کے عیسائیوں کو ان کی متواتر بغاوتوں کے باعث جلاوطن کیا گیا، مگر اس طرح کہ ان کی املاک کی دوچند قیمت دی گئی،  نجران کے عیسائیوں کو جلاوطن کیا گیا تو ان کے ساتھ بھی اچھا سلوک کیا گیا۔


خلافتِ فاروقی میں نظامِ احتساب

 سربراہِ وقت کا سب سے بڑا فرض حکام کی نگرانی اورقوم کے اخلاق وعادات کی حفاظت کرنا ھوتا ہے،حضرت  عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس  فرض کو نہایت اہتمام کے ساتھ انجام دیتے تھے، وہ اپنے ہر عامل سے عہد لیتے تھے کہ ترکی گھوڑے پر سوارنہ ہوگا، باریک کپڑے نہ پہنےگا، چھنا ہوا آٹا نہ کھائے گا، دروازہ پر دربان نہ رکھے گا، اہل حاجت کے لیے دروازہ ہمیشہ کھلا رکھے گا، اسی کے ساتھ اس کے مال واسباب کی فہرست تیار کروا کر محفوظ رکھتے تھے اورجب کسی عامل کی مالی حالت میں غیر معمولی اضافہ کا علم ہوتا تھا تو اس کا باریک بینی سے جائزہ لیتے اور حسبِ حال فیصلہ کرتے اور اگر یہ ثابت ھو جاتا کہ مال میں آضافہ درست طریقہ سے نہیں ھوا تو یہ مال اس سے لے کر بیت المال میں داخل کردیتے تھے، ایک دفعہ بہت سےعمال اس بلا میں مبتلا ہوئے، خالد بن صعق نے اشعار کے ذریعہ سے عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو اطلاع دی، انہوں نے سب کی املاک کا جائز ہ لے کر آدھا آدھا مال اُن سے لے لیا  اور بیت المال میں داخل کر لیا، موسم حج میں اعلان عام تھا جس عامل سے کسی کو شکایت ہو وہ فورا بارگاہ خلافت میں پیش کرے، چنانچہ ذراذرا سی شکایتیں پیش ہوتی تھیں اور تحقیقات کے بعد اس کا تدارک کیاجاتا تھا۔ ایک دفعہ ایک شخص نے شکایت کی کہ آپ کے فلاں عامل نے مجھ کو بے قصور کوڑے مارے ہیں، عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے  مستغیث کو حکم دیا کہ وہ مجمع عام میں اس عامل کو کوڑے لگائے، حضرت عمروبن العاص ؓ نے التجا کی کہ عمال پر یہ امر گراں ہوگا، عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ میں ملزم سے انتقام نہ لوں، عمروبن العاص ؓ نے منت سماجت کرکے مستغیث کوراضی کیا کہ ایک ایک تازیا نے کے عوض دو دو اشرفیاں لے کر اپنے حق سے باز آئے۔ حضرت خالد سیف اللہ جو اپنی جانبازی اورشجاعت کے لحاظ سے تاج اسلام کے گوہر شاہوار اوراپنے زمانہ کے نہایت ذی عزت اور صاحب اثر بزرگ تھے محض اس لیے معزول کر دیے گئے کہ انہوں نے ایک شخص کو انعام دیا تھا، عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو خبر ہوئی تو انہوں نے حضرت ابو عبیدہ ؓ سپہ سالار اعظم کو لکھا کہ خالد ؓ نے یہ انعام اپنی گرہ سے دیا تو اسراف کیا اور بیت المال سے دیا تو خیانت کی، دونوں صورت میں وہ معزولی کے قابل ہیں۔  حضرت ابوموسی اشعری ؓ جو بصرہ کے گورنر تھے، شکایتیں گزریں کہ انہوں نے اسیران جنگ میں سے ساٹھ رئیس زادے منتخب کرکے اپنے لیے رکھ چھوڑے ہیں اور کاروبار حکومت زیاد بن سفیان کے سپر د کررکھا ہے اوریہ کہ ان کے پاس ایک لونڈی ہے جس کو نہایت اعلیٰ درجہ کی غذا بہم پہنچائی جاتی ہے جو عام مسلمانوں کو میسر نہیں آسکتی، عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے مواخذہ کیا تو انہوں نے دو اعتراضوں کا جواب تشفی بخش دیا، لیکن تیسری شکایت کا کچھ جواب نہ دے سکے؛چنانچہ لونڈی ان کے پاس سے لے لی گئی۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے کوفہ میں ایک محل تعمیر کرایا جس میں ڈیوڑھی بھی تھی، عمر  رضی اللہ تعالی عنہ نےاس خیال سے کہ اہل حاجت کو رکاؤ ہوگا محمد بن مسلمہ ؓ کو حکم دیا کہ جاکر ڈیوڑھی میں آگ لگادیں ؛چنانچہ اس حکم کی تعمیل ہوئی اورحضرت سعد بن ابی وقاص ؓ خاموشی سے دیکھتے رہے۔  عیاض بن غنم عامل مصر کی نسبت شکایت پہنچی کہ وہ باریک کپڑے پہنتے ہیں اور ان کے دروازہ پر دربان مقرر ہے، عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے محمد بن مسلمہ ؓ کو تحقیقات پر مامور کیا، محمد بن مسلمہ ؓ نے مصر پہنچ کر دیکھا تو واقعی دروازہ پر دربان تھا اورعیاض باریک کپڑے پہنے ہوئے تھے، اس ہیئت اورلباس کے ساتھ لے کر مدینہ آئے، عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کا باریک کپڑا اتراوادیا اوربالوں کا کرتا پہنا کر جنگل میں بکری چرانے کا حکم دیا، عیاض ؓ کو انکارکی مجال نہ تھی، مگر باربار کہتے تھے، اس سے مرجانا بہتر ہے، حضرت عمر  رضی اللہ تعالی عنہ  فرمایا کہ یہ تو تمہارا آبائی پیشہ ہے، اس میں عار کیوں ہے؟ عیاض نے دل سے توبہ کی اورجب تک زندہ رہے اپنے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے۔  حکام کے علاوہ عام مسلمانوں کی اخلاقی اورمذہبی نگرانی کا خاص اہتمام تھا، عمر رضی اللہ تعالی عنہ جس طرح خود اسلامی اخلاق کا مجسم نمونہ تھے، چاہتے تھے کہ اسی طرح تمام قوم مکارم اخلاق سے آراستہ ہوجائے، انہوں نے عرب جیسی فخار قوم سے فخروغرور کی تمام علامتیں مٹادیں، یہاں تک کہ آقا اورنوکر کی تمیز باقی نہ رہنے دی، ایک دن صفوان بن امیہ نے ان کے سامنے ایک خوان پیش کیا، عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فقیروں اورغلاموں کو ساتھ بٹھا کر کھانا کھلایا اورفرمایا کہ خدا ان لوگوں پر لعنت کرے جن کو غلاموں کے ساتھ کھانے میں عار آتا ہے۔ ایک دفعہ حضرت ابی بن کعب ؓ جو بڑے رتبہ کے صحابی تھے، مجلس سے اٹھتے تو لوگ ادب اور تعظیم کے خیال سے ساتھ ساتھ چلتے اتفاق سے عمر  رضی اللہ تعالی عنہ آ نکلے، یہ حالت دیکھ کر ابی بن کعب ؓ کودرہ لگایا، ان کو نہایت تعجب ہوا اور کہا خیر تو ہے؟ عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: اوما تری فتنۃ للمتبوع ومذلۃ للتابع۔ 

تمہیں   معلوم نہیں ہے کہ یہ امر متبوع کے لیے فتنہ اورتابع کے لیے ذلت ہے"۔ شعر وشاعری کے ذریعہ ہجووبدگوئی عرب کا عام مذاق تھا، عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے نہایت سختی سے اس کو بندکردیا، حطیہ اس زمانہ کا مشہور ہجوگوئی شاعرتھا، عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کو قید کر دیا اورآخر اس شرط پر رہا کیا کہ پھر کسی کی ہجو نہیں لکھے گا، ہواپرستی، رندی اورآوارگی کی نہایت شدت سے روک تھا م کی، شعرا کو عشقیہ اشعارمیں عورتوں کا نام لینے سے قطعی طورپر منع کر دیا، شراب خوری کی سزاسخت کردی، چالیس درے سے اسی درے کر دیے۔ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو اس کا بڑا خیال تھا کہ لوگ عیش پرستی اور تنعم کی زندگی میں مبتلا ہو کر سادگی کے جوہر سےخالی نہ ہوجائیں، افسروں کو خاص طور پر عیسائیوں اورپارسیوں کے لباس اورطرز معاشرت کے اختیار کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے، سفر شام میں مسلمان افسروں کے بدن پر حریر دیباکے حلے اورپرتکلف قبائیں دیکھ کر اس قدر خفا ہوئے کہ ان کو سنگریز ےمارے اورفرمایا تم اس وضع میں میرا استقبال کرتےہو۔ مسلمانوں کواخلاق ذمیمہ سے باز رکھنے کے ساتھ ساتھ مکارم اخلاق کی بھی خاص طورپر تعلیم دی، مساوات اورعزت نفس کا خاص خیال رکھتے تھے اور تمام عمال کو ہدایت تھی کہ مسلمانوں کو مارا نہ کریں  اس سے وہ ذلیل ہو جائیں گے۔


بیت المال کا باقاعدہ قیام

خلافت فاروقی سے پہلے مستقل خزانہ کاوجود نہ تھا ؛بلکہ جو کچھ آتا اسی وقت تقسیم کر دیا جاتا تھا، ابن سعد ؓ کی ایک روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے ایک مکان بیت المال کے لیے خاص کر لیا تھا ؛لیکن وہ ہمیشہ بند پڑارہتا تھا اوراس میں کچھ داخل کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی تھی؛چنانچہ ان کی وفات کے وقت بیت المال کا جائزہ لیا گیا تو صرف ایک درہم نکلا۔ عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے تقریبا؁ 15ھ میں ایک مستقبل خزانہ کی ضرورت محسوس کی اور مجلسِ شوریٰ کی منظوری کے بعد مدینہ منورہ میں بہت بڑاخزانہ قائم کیا، دار الخلافہ کے علاوہ تمام اضلاع اورصوبہ جات میں بھی اس کی شاخیں قائم کی گئیں اور ہر جگہ اس محکمہ کے جداگانہ افسر مقرر ہوئے، مثلاً اصفہان میں خالد بن حارث ؓ اورکوفہ میں عبد اللہ بن مسعود خزانہ کے افسر تھے، صوبہ جات اوراضلاع کے بیت المال میں مختلف آمدنیوں کی جو رقم آتی تھی وہ وہاں کے سالانہ مصارف کے بعد اختتام سال پر صدر خزانہ یعنی مدینہ منورہ کے بیت المال میں منتقل کردی جاتی تھی، صدر بیت المال کی وسعت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ دار الخلافہ کے باشندوں کی جو تنخواہیں اوروظائف مقرر تھے، صرف اس کی تعداد تین کروڑ درہم تھی، بیت المال کے حساب کتاب کے لیے مختلف رجسٹرڈ بنوائے، اس وقت تک کسی مستقل سنہ کا عرب میں رواج نہ تھا، عمر رضی اللہ تعالی عنہ  نے؁ 16ھ میں سنہ ہجری ایجاد کرکے یہ کمی بھی پوری کردی۔


*حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیت المقدس کا سفر*

حضرت عمرؓ کا یہ سفر نہایت سادگی سے ہوا، مقام جابیہ میں افسروں نے استقبال کیا اوردیر تک قیام کرکے بیت المقدس کا معاہدہ صلح ترتیب دیا، پھر وہاں سے روانہ ہوکر بیت المقدس میں داخل ہوئے، پہلے مسجد میں تشریف لے گئے پھر عیسائیوں کے گرجا کی سیر کی، نماز کا وقت ہوا تو عیسائیوں نے گرجا میں نمازپڑھنے کی اجازت دی ؛لیکن حضرت عمرؓ نے اس خیال سے کہ آئندہ نسلیں اس کو حجت قراردے کر مسیحی معبدوں میں دست اندازی نہ کریں، باہر نکل کر نماز پڑھی، بیت المقدس سے واپسی کے وقت عمر رضی اللہ تعالی عنہ تمام ملک کا دورہ کیا، سرحدوں کا معائنہ کرکے ملک کی حفاظت کا انتظام کیا اوربخیر وخوبی مدینہ واپس تشریف لائے۔


فتوحاتِ فاروقی  پر اجمالی نظر

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ میں جو فتوحات  ھوئیں ان کی تفصیل بہت طویل  ہے  جس کے لئے مستقل کتابیں تصنیف کی گئی ھیں کہ مسلمانوں نے اپنے جوش، ثبات اوراستقلال کے باعث عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دس سالہ عہد خلافت میں روم  اور ایران کی عظیم الشان حکومتوں کا تختہ الٹ دیا ؛لیکن کیا تاریخ کوئی ایسی مثال پیش کرسکتی ہے کہ چند صحرا نشینوں نے اس قدر قلیل مدت میں ایسا عظیم الشان انقلاب پیدا کر دیا ھو ؟ بلا شبہ سکندر، چنگیز اور تیمور نے  تمام عالم کوتہ وبالا کر دیا؛لیکن ان کے فتوحات کو فاروق اعظم ؓ کی کشورستانی سے کوئی مناسبت نہیں ھو سکتی ، وہ لوگ ایک طوفان کی طرح اٹھے اورظلم وخونریزی کے مناظر دکھاتے ہوئے ایک طرف سے دوسری طرف کو گزرگئے، چنگیز اورتیمور کا حال تو سب کو معلوم ہے، سکندر کی یہ کیفیت ہے کہ اس نے ملک شام میں شہر صور فتح  کیا تو ایک ہزار شہریوں کے سرکاٹ کر شہر پناہ کی دیوار پر لٹکادیئے اور تیس ہزار بے گناہ مخلوق کو لونڈی غلام بناکر فروخت کروایا، اسی طرح ایران میں اصطخر کو فتح کیا تو تمام مردوں کو قتل کرادیا، برخلاف اس کے عمر  رضی اللہ تعالی عنہ کے فتوحات میں ایک واقعہ بھی ظلم وتعدی کا نہیں ملتا، فوج کی خاص طور پر ہدایت تھی کہ بچوں، بوڑھوں، عورتوں سے مطلق تعرض نہ کیا جائے، قتل عام تو ایک طرف، ہرے بھرے درختوں تک کاٹنے کی اجازت نہ تھی، مسلمان حکام مفتوحہ اقوام کے ساتھ ایسا عدل وانصاف کرتے تھے اوراس طرح اخلاق سے پیش آتے تھے کہ تمام رعایا ان کی گرویدہ ہوجاتی اوراسلام حکومت کو خدا کی رحمت تصور کرتی تھی، صرف یہی نہیں ؛بلکہ وہ لوگ جوش امتنان میں مسلمانوں کی اعانت ومساعدت سے دریغ نہیں کرتے تھے، فتوحات شام میں خود شامیوں نے جاسوسی اورخبررسانی کی خدمات انجام دیں، حملہ مصر میں قبطیوں نے سفر مینا کا کام کیا،  اسی طرح عراق میں عجمیوں نے اسلامی لشکر کے لیے پل بندھوائے اورغنیم کے راز سے مطلع کرکے نہایت گراں قدرخدمات انجام دیں، ان حالات کی موجودگی میں  عمر رضی اللہ تعالی عنہ  کے  مقابلہ میں سکندر اورچنگیز جیسے سفاکوں کا نام لینا کس قدر بے موقع ہے، سکندر اورچنگیز کی سفاکیاں فوری فتوحات کے لیے مفید ثابت ہوئیں؛لیکن جس سلطنت کی بنیاد ظلم وتعدی پر ہوتی ہے وہ کبھی دیرپا نہیں ہوسکتی چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی  فتوحات کی بنیاد عدل وانصاف اورمسالمت پر قائم ہوئی تھی، اس لیے وہ آج تیرہ سو برس کے بعد بھی اسی طرح ان کے جانشینوں کے قبضہ اقتدار میں موجود ہے۔ یورپین مورخین عہد فاروقی کے اس بدیع مثال کارنامے کی اہمیت کم کرنے کے لیے بیان کرتے ہیں کہ اس وقت فارس وروم کی دونوں سلطنتیں طوائف الملوکی اورمسلسل بدنظمیوں کے باعث اوج اقبال سے گزرچکی تھیں؛لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کی ایسی زیردست سلطنتیں بادشاہوں کے ادل بدل اورمعمولی اختلاف سے اس درجہ کمزور ہو گئی تھی کہ روم و ایران میں قسطنطین اعظم اورخرد پرویز کا جاہ و جلال نہ تھا، تاہم ان سلطنتوں کا عرب جیسی بے سروسامان قوم سے ٹکراکرپرزے پرزے ہوجانا دنیا کا عجیب وغریب واقعہ ہے اورہم کو اس کا راز ان سلطنتوں میں کمزوری میں نہیں ؛بلکہ اسلامی نظام خلافت اورخلیفہ وقت  عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے طرز عمل میں تلاش کرنا چاہیے۔


حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کی شہادت

حضرت عمرو بن میمونؒ بیان کرتے ہیں کہ جس دن حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ  زخمی ہوئے،میں نماز فجر کیلئے صف میں موجود تھا، میرے اور حضرت عمرؓ کے درمیان صرف حضرت عبداللہ بن عباسؓ ہی تھے۔حضرت عمر فاروقؓ کی عادت تھی کہ جب صفوں کے درمیان سے گزرتے تو فرماتے "برابر ہو جاؤ" جب وہ دیکھتے کہ صفوں میں خلا نہیں رہا تو آگے بڑھتے اور تکبیر تحریمہ کہتے۔آپؓ پہلی رکعت میں سورة یوسف یا سورة نحل یا اتنی ہی طویل کوئی اور سورة  پڑھتے تھےتاکہ لوگ جماعت میں شامل ہو جائیں۔

اس دن ابھی آپ نےتکبیر تحریمہ ہی کہی تھی میں نے آپؓ کی آواز سنی،مجوسی غلام ابولؤلؤ فیروز مجوسی(دو دھاری خنجر سے )آپؓ پر حملہ آور ہوا،پھر وہ اپنا دو دھاری خنجر لیکر دائیں بائیں وار کرتا ہوا آگے بڑھا۔یہاں تک کہ اُس نے13حضرات کو زخمی کیا،۔ایک صحابیؓ نےاِس ملعون پر کپڑا ڈال کر جب اُسےجکڑ لیاتواُس ملعون ابولؤلؤ فیروز مجوسی نےخودکشی کرکےاپنےآپ کو جہنم واصل کرلیا۔اُدھر حضرت عمرؓ  نے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کا ہاتھ پکڑا اور اِنہیں امامت کیلئے مصلے پر کھڑا کر دیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے مختصر نماز پڑھائی ۔

نماز سے فارغ ہونے کے بعد حضرت عمرؓ نے فرمایا ! اے ابن عباسؓ ! دیکھو کس نے مجھ پر حملہ کیا۔؟ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے عرض کیا ؛ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ  کے غلام نے( آپؓ پر حملہ کیا )۔ حضرت عمرؓ  نے پوچھا!جو لوہار ہے ۔۔؟ حضرت ابن عباسؓ نے عرض کی۔ جی ہاں؛؛ حضرت عمرؓ نے فرمایا، اللہ اُسے برباد کرے، میں نے تو اس کیلئے بھلائی کا حکم دیا۔ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اس نے میری موت کسی ایسے آدمی کے ہاتھوں مقدر نہیں کی جو اسلام کا مدعی ہو۔

بعد ازاں زخمی حالت میں  حضرت عمر فاروقؓ کو اُنکے گھر منتقل کیا گیا۔ہم بھی آپؓ کے ساتھ ساتھ آئے۔ (یہ اتنا المناک دن تھا) ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے لوگوں پر اس سے پہلے کبھی اتنی بڑی مصیبت آئی ہی نہیں۔پھر نبیذ لائی گئی،سیدنا عمر فاروقؓ نے وہ نبیذ پی لی لیکن ساری نبیذ پیٹ کے زخموں سے باہر نکل آئی، پھر دودھ لایا گیا وہ بھی آپؓ نے پی لیا لیکن وہ بھی پیٹ کے زخموں کے راستے نکل گیا۔ یہ دیکھ کر لوگوں کو یقین ہو گیا کہ امیرالمومنینؓ کی شہادت یقینی ہے۔اسی دوران ایک نوجوان آکر عرض کرنے لگا اے امیر المؤمنینؓ ! آپؓ کو اللہ تعالی کیطرف سے خوشخبری ہو کہ آپؓ کو رسول اللہﷺکی رفاقت حاصل رہی اور آپؓ نے ابتدائی دور میں اسلام لانے کا شرف حاصل کیا۔جو آپؓ کو معلوم ہے پھر آپؓ خلیفہ بنائے گئے اور آپؓ نے پورے انصاف کیساتھ حکومت کی اور (آپؓ کو شہادت نصیب ہوئی)

سیدنا عمر فاروقؓ نے فرمایا کہ میں تو اس بات پر بھی خوش ہوں کہ ان تمام باتوں کیوجہ سے میرا معاملہ برابری پر ہی ختم ہو جائے۔ پھر وہ نوجوان واپس ہوا تو اسکا تہہ بند زمین پر گھسٹ رہا تھا،آپؓ نے فرمایا،اس نوجوان کو واپس بلاؤ۔ جب وہ آیا تو آپؓ نے فرمایا؛ میرے بھتیجے! اپنا تہہ بند اوپر اٹھاؤ۔ اس سے کپڑا صاف رہے گا اور یہ عمل اللہ کے ہاں تقوی کا باعث بھی ہو گا۔ پھر فرمایا ؛ اے عبداللہ ابن عمرؓ ! دیکھو بیٹے میرے ذمے کتنا قرض ہے۔۔؟حساب لگایا گیا تو کل قرضہ تقریباً چھیاسی ہزار (ہزار) تھا ۔ تو حضرت عمرؓ نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ ؓ ابن عمرؓ کو قرض کی ادائیگی کاحکم دیا اور فرمایا کہ تم اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے پاس جاؤ اور اُنہیں کہناکہ عمرؓ نےآپؓ کی خدمت میں سلام عرض کیا ہے،اُن سے عرض کرنا کہ عمر بن خطابؓ اپنے دو ساتھیوں کیساتھ(حجرے میں) دفن ہونے کی اجازت مانگتا ہے۔

حضرت عبداللہ ؓ ابن عمرؓ نے اُم المؤمنینؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام کیا اور اجازت لیکر حجرہ شریف میں داخل ہو گئے،دیکھا کہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ رو رہی ہیں،حضرت عبداللہؓ ابن عمرؓ  نے عرض کی۔عمر بن خطابؓ آپؓ کو سلام کہتے ہیں اور اُنہوں نےاپنےدوساتھیوں کیساتھ (آپؓ کے حجرے میں)دفن ہونے کی اجازت چاہی ہے ۔

اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ نےفرمایا میں نے یہ جگہ اپنے لئے خاص کر رکھی تھی مگر آج میں انہیں اپنے اوپر ترجیح دیتی ہوں۔حضرت عبداللہؓ ابن عمرؓ نے واپس آ کر امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقؓ سے عرض کیا کہ اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ  نے اجازت دے دی ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا اللہ کا شکر ہے میرے لئے سب سے اہم معاملہ یہی تھا۔دیکھو ! جب میں دنیا سے رخصت ہو جاؤں  تو مجھے اٹھا کر لے جانا اور ایک بارپھراُن سے(اُن کےحجرہ شریف میں)مجھے دفن کرنے کی درخواست کرنا، اگر اجازت مل جائے تو حجرہ اقدس میں دفن کر دینا اور اگر اجازت نہ دیں تو مجھے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا۔

بخاری شریف میں روایت ہے کہ امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ کی رحلت کے بعد حضرت ابن عمرؓ  نے اُم المؤمنین سیدہ عائشہؓ  سے دوسری بار اجازت لیکر امیرالمؤمنین حضرت عمرؓ  کو روضہ اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  میں ان کے دونوں ساتھیوں (حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیقؓ ) کے ساتھ دفن کر دیا۔۔۔

حضرت عمرو بن میمون فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ  پر حملہ ہوا تو میں نے انکی زبان سے تلاوت سنی،آپؓ قرآن مجید کی یہ والی آیت مبارکہ پڑھ رہے تھے۔ 

وَكَانَ اَمْرُ اللّـٰهِ قَدَرًا مَّقْدُوْرًا O

اور اللہ کا حکم (ہمیشہ سے ) اندازے کے مطابق ہے،جو طے کیا ہوا ہے۔(سورت الاحزاب)

مشہور تاریخی روایات سے یہی بات ثابت ہے کہ 23 ہجری 26 یا27 ذوالحجہ کو نماز فجر میں سیدنا فاروق اعظمؓ پر ابولؤلؤ فیرزو مجوسی ملعون نے حملہ کیا اور تین دن کے بعد یکم محرم الحرام کو امیرالمومنین سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے جام شہادت نوش فرمایا۔صحیح قول کے مطابق بوقت شھادت انکی عمر مبارک 63 سال تھی ۔ آپؓ کی مدتِ خلافت دس سال،چھ ماہ تین دن پر محیط ہے۔

حضرت معاویہؓ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے رحلت فرمائی تو انکی عمر مبارک تریسٹھ (63)سال تھی،حضرت ابوبکر صدیقؓ نے رحلت فرمائی تو انکی عمر مبارک تریسٹھ (63) سال تھی اور حضرت عمر فاروقؓ  شہید ہوئے تو انکی عمر مبارک تریسٹھ (63) سال تھی۔ حضرت عبدللہؓ ابن عمرؓ  فرماتے ہیں کہ حضرت صہیب بن سنانؓ رومی نے آپؓ کی نمازِ جنازہ مسجد نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  میں پڑھائی ۔ علامہ ابن جوزی لکھتے ہیں کہ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروقؓ کی قبر میں چار افراد حضرت عثمانؓ ، حضرت سعید بن زیدؓ ،حضرت صہیبؓ اور حضرت عبداللہؓ  ابن عمرؓ اترے۔

امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تدفین حجرہ نبویہ شریف صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  میں ہوئی۔


ازواج و اولاد

حضرت عمر   رضی اللہ تعالی عنہ  نے مختلف اوقات میں متعدد نکاح کیے، ان کے ازواج کی تفصیل یہ ہیں:


زینب

ہمشیرِ ہ عثمان بن مظعون یہ مکہ میں مسلمان ہوکر مریں۔


قریبہ بنت میۃ المخزومی، مشرکہ ہونے کے باعث انھیں طلاق دے دی تھی۔


ملکیہ بنت جرول، مشرکہ ہونے کی وجہ سے ان کو بھی طلاق دیدی تھی 


عاتکہ بنت زید، ان کا نکاح پہلے عبد اللہ بن ابی بکر ؓ سے ہوا تھا، پھر حضرت عمرؓ کے نکاح میں آئیں


ام کلثوم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی اورحضرت فاطمہ ؓ کی نور دیدہ تھیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ خاندا‌نِ‌ نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے تعلق پیدا کرنے کے لیے 17ھ میں چالیس ہزار مہر پر نکاح کیا۔


عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی  اولاد میں حضرت حفصہ ؓ اس لحاظ سے سب سے ممتاز ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ازواج مطہرات میں داخل تھیں، عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے  اپنی کنیت بھی ان ہی کے نام پر رکھی تھی، اولاد مذکور کے نام یہ ہیں:


عبد اللہ

عاصم

ابوشحمہ

عبدالرحمن

زید

محیر

ان سب میں عبد اللہ، عبید اللہ اور عاصم اپنے علم و فضل اورمخصوص اوصاف کے لحاظ سے نہایت مشہور ہیں۔


جاری ھے ۔۔۔۔



Share: