قسط نمبر (38) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 دارِ ارقم ،

 دارالاسلام اور ضعفائے اسلام کی جائے پناہ 


حضرت ارقم بن ابی الارقم ؓ  “سابقون اوّلون  “ اسلام لانے والوں میں سے ہیں۔

«وکانت دارہ علی الصفا» 

مکہ میں ان کا مکان کو ہِ صفا کے اوپر  تھا''

دارِ ارقم کے نام سے شہرت حاصل کرنے والے اس مکان کو اسلامی تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ یہ مکان 'دارالاسلام' کے متبرک لقب سے بھی یاد کیا جاتا ھے آپؓ کے صاحبزادے  حضرت عثمان بن ارقم،جو ثقہ محدث ہیں کہا کرتے  تھے:

«أنا ابن سبع الإسلام،أسلم أبي سابع سبعة» (۶) ''

میں(عثمان) ایک ایسی ہستی کا فرزند ہوں جنہیں اسلام میں ساتواں درجہ حاصل ہے، میرے والد اسلام قبول کرنے والے ساتویں آدمی  ہیں۔''

حافظ ابن حجرؒ نے بھی اپنی کتاب 'الاصابہ' میں ابن سعد کے قول کو ھی  اختیار کیا ہے تاہم ابن الاثیر کے مطابق حضرت ارقم ؓ کا قبولِ  اسلام میں دسواں یا بارھواں  نمبر ھے البتہ اس میں کسی کو بھی کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت ارقم ؓ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے ابتدائی دور میں ہی اسلام قبول  کر لیا تھا 

مشرکینِ مکہ جب اسلام کے پھیلاؤ  کو کسی طرح بھی نہ روک سکے تو انہوں نے کمزور مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور مسلمانوں کو بیت اللہ میں آزادانہ نماز ادا کرنے سے روکتے، ذکر الٰہی اور تلاوتِ قرآن میں خلل انداز ہوتے،دست درازی کرتے اور اکثر ان کا رویہ انتہائی گستاخانہ ہوتا تھا۔حالات اس قدر نازک ہوچکے تھے کہ مسلمانوں کے لئے گوشوں اور گھاٹیوں تک میں محفوظ اور آزادانہ طور پر عبادت اور نماز کا ادا کرنا ممکن نہ تھا۔ 

یہ وہ سنگین حالات تھے جن میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  مسلمانوں کو لے کر دارِارقم میں پناہ گزین ہوگئے تاکہ مسلمان پورے انہماک سے اپنے ربّ کے حضور اپنی جبینِ  نیاز کو جھکا سکیں ،چنانچہ جلد ہی دارِارقم اسلا م اور دعوتی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا، جہاں پر نہ صرف لوگوں کو دائرۂ  اسلام میں داخل کیا جاتا تھا بلکہ ان کی مناسب تعلیم وتربیت اور تزکیۂ نفس بھی کیاجاتا تھا، ابن ِسعد کی روایت ہے:

«کان النبي ﷺ يسکن فيها في أول الإسلام وفيها يدعو الناس إلی الإسلام فأسلم فيها قوم کثير

رسول اللہ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  ابتدائے اسلام میں ہی اس مکان (دارِ ارقم ؓ)میں تشریف فرما ھوتے  تھے، لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے تھے اور بہت سے لوگوں نے یہاں اسلام قبول کیا۔''

ابن جریر طبری بھی مکی عہد ِنبوت  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  میں 'دارِ ارقم' کو دعوتی سرگرمیوں کا مرکز قرار دیتے ہیں جہاں پر کثیر لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ چنانچہ حضرت ارقم ؓ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

«وکان داره علی الصفا، وهي الدار التي کان النبي ﷺ يکون فيها في أول الإسلام وفيها دعا الناس إلی الإسلام فأسلم فيها قوم کثير»

حضرت ارقم رضی اللہ تعالی عنہ ؓکا گھر کوہِ صفا پرواقع تھا اور یہی وہ گھر ہے جہاں آغازِ اسلام میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  تشریف فرما ھوتے  تھے۔یہیں پر آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  لوگوں کو دعوتِ اسلام دیا کرتے تھے اور یہاں پر بہت سے لوگ حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔''

ابن عبد البر اپنی شہرئہ آفاق کتاب'الاستیعاب 'میں حضرت ارقم ؓ کے تذکرہ میں لکھتے ہیں:

« وفي دار الأرقم ؓ بن أبي الأرقم هٰذا کان النبيﷺمستخفيا من قريش بمکة يدعو الناس فيها إلی الإسلام في أول الإسلام حتیٰ خرج عنها، وکانت داره بمکة علی الصفا فأسلم فيها جماعة کثيرة» 

''یہ ارقم بن ابی ارقم ؓوہی ہیں جن کے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم مکہ مکرمہ میں قریش سے پوشیدہ مقیم رہتے تھے۔کھل کر سامنے آنے سے قبل اسلام میں رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم یہاں پر لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتے تھے۔حضرت ارقم ؓرضی اللہ تعالی عنہ کا یہ مکان مکہ میں کوہِ صفا پر واقع تھا،چنانچہ یہاں پر بہت بڑی جماعت نے اسلام قبول کیا۔''

دارِ ارقم کے مرکزِ ِ اسلام بننے کے بعد دعوت وتبلیغ کا کام  اب قدرے اطمینان کے ساتھ مشرکین کی نظروں سے اوجھل  ھو کر انجام پانے لگا تھا دعوتِ اسلام کایہ مرحلہ وہ ہے جس میں مکہ مکرمہ کے بے کس، زیردست اور غلام اس نئی تحریک میں اپنی دنیاوآخرت کی نجات تصور کرتے ہوئے داخل ہوتے تھے ۔ 


حضرت عمار بن یاسرؓ اور حضرت صہیب رومیؓ کے قبولِ اسلام  کا واقعہ 

ابن الاثیر نے حضرت عمار بن یاسرؓ اورصہیب رومیؓ کے قبولِ  اسلام کے متعلق ایک بڑا دلچسپ واقعہ تحریر کیا ھے وہ تحریر فرماتے ھیں کہ ایک دن یہ دونوں حضرات  یعنی حضرت عمار بن یاسرؓ اور حضرت صہیب رومیؓ   لوگوں کی نظروں سے چھپتے چھپاتے اور دبے پاؤں  دارِ ارقم کے دروازہ پر اکٹھے ہوجاتے ہیں، حیرت واستعجاب سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں پھر گفتگو کا رازدارانہ اندازشروع ہو جاتا ھے ۔عمار بن یاسرؓ خود بیان کرتے ہیں:''میں نے خاموشی سے صہیبؓ رومی  سے پوچھا:تم یہاں کیوں کھڑے ہو؟... صہیب ؓنے جواب میں کہا:تم  یہاں کیوں کھڑے ہو؟ میں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ دارِ ارقم  کے اندر جا کر حضرت محمد  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت میں حاضری دوں  اور ان کے پاک ارشادات سنوں۔حضرت صہیبؓ نے کہا:میں بھی تو یہی چاہتا ہوں کہ رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت میں حاضر ھو کر ان کی تعلیمات سے مستفید ھوں ۔'' چنانچہ یہ دونوں حضرات اکٹھے ہی بارگاہِ رسالت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں حاضر ہوئے  رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے پاک ارشادات سنے اور فوراً اسلام  قبول کرلیا۔ ان بزرگوں کا  قبولِ اسلام تیس سے کچھ زائد آدمیوں کے بعد ہوا۔

دارِ ارقم نہ صرف ضعفائے اسلام کی جائے پناہ تھی بلکہ یہاں صحابہ کرامؓ کی تعلیم وتربیت کے ساتھ اجتماعی طور پر عبادات،ذکراللہ اور دعاؤں  کا سلسلہ بھی  ہمہ وقت جاری رہتا  تھا۔اس میں وہ دعا خصوصیت سے قابلِ ذکر ھے جو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے حضرت عمر بن خطاب ؓ اور (ابوجہل)عمرو بن ہشام میں سے کسی ایک کے قبولِ اسلام کے لئے مانگی تھی۔ابن اسحق کی روایت میں ہے کہ ایک دن حضرت عمرؓ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادے سے (معاذ اللہ) روانہ ہوئے،راستہ میں اپنی بہن فاطمہ بنت ِ خطاب ؓرضی اللہ تعالی عنہا کے گھر سورہ طہٰ کی تلاوت سنی تو کایا ہی پلٹ گئی۔ ان کو مائل بہ اسلام دیکھ کر حضرت خبابؓ بن ارت نے انہیں خوشخبری کے انداز میں بتایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو دارِ ارقم میں یہ دعا کرتے سنا ھے 

«اللّٰهم أيد الإسلام بأبي الحکم بن هشام أو بعمر بن الخطاب 

'اے اللہ!ابوالحکم بن ہشام یا عمر بن خطاب ؓسے اسلام کی تائید فرما...''

لگتا ھے  اے عمر خطاب رضی اللہ عنہ ! رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی دعا آپ کے حق میں قبول ھو گئی ھے چنانچہ حضرت عمرؓ یہاں سے سیدھے دارِ ارقم پہنچے اور اسلام قبول کرلیا۔


دارِ ارقم، مسلمانوں کے لئے'دارالشوریٰ

دارِ ارقم،  دارالاسلام ھونے  کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے لئے'دارالشوریٰ' بھی  تھا۔پہلی اور دوسری ہجرت حبشہ جیسے اہم معاملات بھی اسی جگہ باہمی مشاورت ہی سے انجام پائے۔ابن ہشام کے الفاظ اس مجلس مشاورت کی صاف غمازی کررہے ہیں: «قال لهم: لو خرجتم إلی أرض الحبشة فإن بها ملکا لايظلم عنده أحد، وهي أرض صدق،حتی يجعل اللّٰه لکم فرجا مما أنتم فيه» ''رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے صحابہ کرام ؓسے فرمایا: اگر تم سرزمین حبشہ کی طرف نکل جاؤ  تو وہاں ایک بادشاہ ہے جس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا۔ وہ سچائی کی سرزمین ہے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس مشکل سے نجات دلادے جس میں تم گرفتار ہو...''

ان الفاظ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا یہ خطاب صحابہ کرامؓ کے کسی اجتماع سے ہی ہوا ھو گا جو دارِ ارقم میں انعقاد پذیر ہوا ھو گا ۔اسی طرح ایک روز رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے پاس صحابہ ؓ جمع ہوئے اور باہمی مشاورت سے طے کیا کہ قریش نے قرآن پاک کو اپنے سامنے بلند آواز سے پڑھتے ہوئے کبھی نہیں سنا، لہٰذا کوئی ایسا شخص ہو جو یہ فریضہ انجام دے اور قریش کے عام مجمعے میں جا کر اونچی آواز سے قرآن پاک کی تلاوت کرے چنانچہ حضرت عبداللہؓ بن مسعود نے  یہ ذمہ داری قبول کی اور قریش کو ان کی مجلس میں جاکر قرآن پاک کی تلاوت سنائی اور دینِ اسلام  کی طرف دعوت دی۔

اگرچہ یہ تفصیل معلوم نہیں ہوسکی کہ صحابہ کرامؓ کی یہ مجلس مشاورت کہاں پر منعقد ہوئی تھی تاہم  غالب گمان یہی ہے کہ یہ مجلس مشاورت دارِ ارقم ہی میں قائم ہوئی ہوگی، کیونکہ اس زمانہ میں اس کے علاوہ صحابہ کرام  رضی اللہ تعالی عنہم کا اجتماع کسی اور جگہ پر مشکل  ھی  نہیں بلکہ قریب قریب ناممکن تھا۔

ابتدائی دور کے سیرت و تذکرہ نگار اور مؤرخین رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے دارِ ارقم میں فروکش ہونے کو اتنا اہم اور انقلابی واقعہ تصور کرتے ہیں کہ واقعاتِ سیرت وتذکرۂ صحابہ میں وہ یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ یہ واقعہ دارِ ارقم میں داخل ہونے سے قبل کا ھے اور یہ اس کے بعد کا ہے۔گویا جس طرح عام الفیل اور حلف الفضول جیسے واقعات کے حوالے سے اہل مکہ اپنی معاصر تاریخ کے واقعات کا تعین کرتے تھے، مسلمان مؤرخین بھی مکی عہد ِنبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں سیرت وتاریخ اسلام کے واقعات کا تذکرہ اور اندراج بھی ہادیٔ اسلام   صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے دارِ ارقم میں فروکش ہونے کے حوالے سے کرتے ہیں۔مثلاً مؤرخ ابن اثیر نے مسعود ؓبن ربیعہ، عامرؓبن فہیرہ،معمر ؓبن حارث وغیرہ کے تراجم (تذکروں)میں تصریح کی ہے کہ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے دارِ ارقم میں منتقل ہونے سے قبل مسلمان ہوچکے تھے۔اسی طرح مصعبؓ بن عمیر، صہیبؓ بن سنان،طلیبؓ بن عمیر، عماربن یاسرؓ، آمیر حمزہ رضی اللہ عنہ  اور عمر فاروقؓ وغیرہ کے تذکروں میں ابن اثیر نے تصریح کی ہے کہ یہ لوگ دارِ ارقم میں جاکر اسلام کی دولت سے مالامال  ھوئے تھے۔

ابن سعد نے مہاجرین مکہ میں سے اوّلین وسابقین اسلام کے قبول  اسلام کو دو مرحلوں  میں تقسیم کیا ھے اور یہ واضح کیا ہے کہ وہ حضرات کون کون تھے جو دارِ ارقم کو دعوتِ دین کا مرکز بنانے کے بعد حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔ابن سعد نے مندرجہ ذیل صحابہ کرامؓ کے تذکروں میں  یہ بات خصوصیت سے ذکر کی ہے کہ وہ رسول اللہ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے دارِ ارقم میں تشریف فرما ھونے سے قبل اسلام قبول کرچکے تھے:حضرت خدیجہؓ، ابوبکرؓ، عثمان غنیؓ،علی المرتضیٰؓ،زیدؓ بن حارثہ، عبیدہؓ بن حارث،ابو حذیفہؓ بن عتبہ،عبداللہؓ بن جحش،عبدالرحمنؓ بن عوف،عبداللہؓ بن مسعود،خبابؓ بن الارت،مسعودؓ بن ربیع،واقدؓ بن عبداللہ،عامرؓ بن فہیرہ،ابوسلمہؓ بن اسد،سعید ؓبن زید،عامرؓ بن ربیعہ،خنیسؓ بن حذافہ،عبداللہؓ بن مظعون اور حاطبؓ بن عمرو۔

اسی طرح ابن سعد نے ان بزرگوں کی بھی نشاندہی کرنا  ضروری سمجھی ہے جو دارِارقم کے اندر آکر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے دست ِمبارک پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ان صحابہ کرامؓ میں حضرت صہیبؓ،عمار بن یاسرؓ، مصعبؓ بن عمیر آمیر حمزہ رضی اللہ عنہ اور ،عمر بن خطابؓ، عاقل ؓبن ابی بکر،عامرؓ بن ابی بکر،ایاسؓ بن ابی بکراورخالدؓ بن ابی بکر شامل ہیں۔

ابن سعد کے اس طرزِ ترتیب سے یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک دارِ ارقم کو دین حق کی دعوتی وتبلیغی سرگرمیوں کا مرکزو محور بنانے کا واقعہ ایک ایسا بے مثال نقطۂ  تغیر ہے جس نے دنیا کی بے مثال اور انقلابی اسلامی تحریک کو ایک نیا رُخ عطا کرنے میں ایک محفوظ پناہ گاہ اور بے مثال تربیت گاہ کا کام  دیا۔اس بات پر تمام مؤرخین اور محققین کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم حضرت عمرفاروقؓ کے قبولِ اسلام تک دارِ ارقم میں ہی مقیم رہے۔جبکہ بعض روایات کے مطابق حضرت عمرؓ نے نبوت (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم) کے چھٹے سال میں اسلام قبول کیا تھا۔


دارِ ارقم میں رسولِ کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے قیام کی مدت 

مؤرّخین  اور سیرت نگاروں کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  دارِارقم میں کب فروکش ہوئے اور کتنا عرصہ دارِارقم مسلمانوں کی پناہ گاہ کاکام دیتا رہا؟ اگرچہ بعض مؤرخین نے دارِ ارقم میں قیام کی مدت کے حوالے سے ایک سال ، چھ ماہ اور ایک ماہ کے اقوال بھی نقل کئے ہیں لیکن  اگر مآخذ کا تفصیلی جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دارِ ارقم میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا قیام کافی مدت تک رہا ھو گا ۔ اگرچہ اس مدت کا تعین تو مشکل ہے اور وثوق کے ساتھ یہ بتانا بھی ممکن نہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کب دارِ ارقم میں پناہ گزین ہوئے، تاہم مؤرخین کے بعض نامکمل اشارات سے رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے قیام کی اس مدت کا اندازہ ضرور کیا جا سکتا ھے  مثلاً ابن اثیر حضرت عمرؓ کے  قبولِ اسلام کے واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

''عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ تلوار لٹکائے گھر سے نکلے، ان کا ارادہ رسول اللہ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو قتل کرنے کا تھا (معاذ اللہ)۔ مسلمان بھی آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے ساتھ دارِارقم میں جمع تھے،جو کوہِ صفا کے پاس تھا۔اس وقت آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ان مسلمانوں میں سے تقریباً چالیس  صحابہ کرام کے ساتھ وہاں پناہ گزین تھے جو ہجرتِ حبشہ کے لئے نہیں نکلے تھے۔

ابن اثیر کے اس قول سے واضح ہوتا ھے. حضرت عمرؓ نے  ہجرت ِحبشہ کے بعد اسلام قبول کیا جبکہ ابن قیمؒ نے تصریح کی ہے کہ پہلی ہجرت حبشہ ماہِ رجب سن پانچ نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں پیش آئی۔  اس سے تو ایسا معلوم ھوتا ھے کہ دارِ ارقم میں صرف وہ مسلمان پناہ گزین ہوئے تھے جو کسی  وجہ سے حبشہ کی طرف ہجرت نہ کرسکے تھے ۔ لہٰذا ان باقی ماندہ مسلمانوں کی تعداد تقریباًچالیس تھی، نہ کہ اس وقت تک اسلام قبول کرنے والوں کی کل تعداد ہی چالیس تھی ۔    ( واللہ عالم) 

پہلی اور دوسری ہجرتِ حبشہ کا فیصلہ دارِ ارقم  ہی میں باہمی مشاورت سے ہوا تھا۔ اس لحاظ سے اگر حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام اور ہجرتِ حبشہ کے درمیانی عرصہ کو شمار کیا جائے تو وہ بھی ایک سال سے زائد ہی بنتا ہے۔جبکہ یہ بدیہی بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ہجرت ِحبشہ سے کافی پہلے دارِ ارقم میں پناہ گزیں ہوچکے تھے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی ایک دو سالوں میں ہی رسول اللہ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  دارِا رقم میں مقیم ہو گئے تھے۔ مثلاً ابن اثیر عمار بن یاسرؓ کا یہ بیان نقل کرتے ہیں:

''میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو (اپنے اسلام لانے کے بعد) دیکھا تو آپ کے ساتھ صرف پانچ غلام، عورتیں اور ابوبکر صدیق ؓتھے۔

مجاہد کا بیان ہے کہ حضرت عمار بن یاسرؓ ابتداء میں اسلام قبول کرنے والے سات یا آٹھ آدمیوں میں سے ایک تھے جبکہ اس بات پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے دارِا رقم میں جاکر اسلام قبول کیا۔اس صور ت میں تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا ابتدائے اسلام ہی میں دارِ ارقم میں قیام پذیر ہونا ثابت ہوتا ھے

اسی طرح حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کب اسلام قبول کیا؟ اس بارے میں بھی مختلف اقوال  موجود ہیں، بعض نے کہا ھے کہ اعلانِ نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے پانچویں سال اور بعض نے اعلانِ نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے چھٹے سال۔لیکن علماء محققین کی تحقیق یہ ہے کہ آپؓ اعلانِ نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے دوسرے سال مشرف بہ اسلام ہوئے۔چنانچہ علامہ ابن حجرؓ جو فن ِرجال کے امام ہیں، تحریر فرماتے ہیں:

«وأسلم في السنة الثانية من البعثة ولازم نصر رسول اللّٰه صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  وهاجر معه»

''آپؓ بعثت کے دوسرے سال ایمان لائے اور ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی مدد کرتے رہے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے ساتھ ہی ہجرت کی۔''اگرچہ ابن حجرؒ نےچھ نبوی  کا قول بھی نقل کیا ہے لیکن 'قیل “  کے  ساتھ، جو ضعف پر دلالت کرتا ہے۔ علامہ ابن اثیرؒ لکھتے ہیں:

«أسلم في السنة الثانية من  المبعث 

''آپ بعثت کے دوسرے سال ایمان لائے۔''

حضرت عمر ؓنے حضرت حمزہؓ کے مسلمان ہونے کے صرف تین دن بعد اسلام قبول کیا اور علماء محققین کی یہ رائے بھی بیان کی گئی ہے کہ صحیح قول کے مطابق حضرت حمزہؓ نبوت کے دوسرے سال مشرف بہ اسلام ہوئے۔اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حضرت عمرؓنے نبوت کے دوسرے سال حضرت حمزہؓ کے تین دن بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے دست ِ مبارک پر اسلام کی بیعت کی۔ اس قول کی مزید تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اکثر علماء کی یہ رائے ہے کہ آپؓ سے پہلے اُنتالیس مرد مسلمان ہوچکے تھے۔آپؓ کے مسلمان ہونے سے چالیس کا عدد پورا ہوا۔ حضرت عمرؓکا بیان ہے 

«لقد رأيتني وما أسلم مع رسول اللّٰه ﷺ إلا تسعة وثلاثون وکمّلتهم أربعين»

'میں نے دیکھا کہ رسول اللہ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے ساتھ صرف اُنتالیس آدمی اسلام لاچکے ہیں اور میں نے ایمان لا کر چالیس کا عدد مکمل کیا''

حاصل بحث یہ ہے کہ اگر محققین کے اس قول کا اعتبار کیا جائے کہ حضرت حمزہؓ اور حضرت عمرؓ نے نبوت کے دوسرے سال ہی اسلام قبول کرلیا تھا تو یہ حقیقت مزید واضح ہوجاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  بہت ابتدا ہی میں دارِارقم کو اپنی دعوتی سرگرمیوں کا مرکز بناچکے تھے کیونکہ اس بات پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ ان دونوں حضرات نے دارِ ارقم میں ہی جاکر اسلام قبول کیاتھا۔

مؤرخین اسلام اور سیرت نگاروں کی مذکورہ بالا تصریحات سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے :

1. رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  یہاں آنے والے طالبانِ حق کو دعوتِ اسلام دیتے تھے اور جویہاں آیا فیض ہدایت پاکر ہی نکلا۔

2. دارِ ارقم اہل اسلام کے لئے اطمینانِ قلب اور سکون کا مرکز تھا؛ بالخصوص نادار،ستائے ہوئے اور مجبور ومقہور اور غلام یہاں آکر پناہ لیتے تھے۔

3. یہاں پر ذکر اللہ اور وعظ وتذکیر کا فریضہ بھی مسلسل انجام پاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اپنے جانثاروں کے ساتھ اجتماعی دعائیں بھی فرماتے تھے۔حضرت خباب ؓ کے بیان سے تو یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ محسن انسانیت یہاں راتوں کو بھی بندگانِ خداکی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور التجائیں فرماتے تھے۔

4. اس مکان میں مبلغین اسلام کی کارکردگی کاجائزہ لیاجاتا تھا، تبلیغ کے آئندہ منصوبے بنتے تھے اور خود مبلغین کی تربیت کا کٹھن کام بھی انجام پاتا تھا۔ دارِارقم کے تربیت یافتہ معلّمین میں سے حضرت ابوبکرؓ، خبابؓ بن ارت،عبداللہ ؓبن مسعوداور مصعبؓ بن عمیرخاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

5. دارِ ارقم مسلمانوں کے لئے دارالاسلام ہونے کے ساتھ ساتھ'دارالشوریٰ'بھی تھاجس میں باہمی مشاورت سے آئندہ تبلیغ کے منصوبے بنتے تھے۔ ہجرتِ حبشہ کا فیصلہ بھی باہمی مشورہ سے یہیں پر طے ہوا اور اس جگہ کو تاریخ اسلام میں وہی مقام حاصل تھا جو قریش کے ہاں دارالندوۃ کو حاصل تھا۔

6. دارِ ارقم میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا پناہ گزین ہونا ایک تاریخ ساز مرحلہ تھا اور یہ بھی حلف الفضول،حرب الفجار اور عام الفیل جیسا مہتم با لشان واقعہ تھاجس طرح کفارِ مکہ اپنی معاصر تاریخ کا تعین ان واقعات سے کرتے تھے، اسی طرح مسلمان مؤرخین بھی مکی عہد ِنبوت  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں پیش آنے والے واقعات کا تعین دارِ ارقم میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے داخل ہونے سے قبل اور بعد کے حوالے سے کرتے ہیں۔

7. حضرت ارقم ـؓ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے بہت ابتدا ہی میں اسلام قبول کرلیا تھا۔ اس لئے بہت ممکن ہے کہ انہوں نے بہت ابتدا ہی میں اپنے مکان کو تبلیغی سرگرمیوں کے لئے وقف کردیا ہو اور رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ابتدائی سالوں میں ہی دارِارقم کو اپنی دعوتی سرگرمیوں کا مرکز بناچکے ھوں ۔  کفارِ مکہ مسلمانوں کے دارِ ارقم میں پناہ گزین ہونے سے تو پوری طرح واقف تھے،تاہم دارارقم کی اندرونی سرگرمیوں اور منصوبہ بندیوں سے وہ قطعاً ناواقف تھے۔ 

8. مؤرخین کے مختلف بیانات کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ دارِارقم میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے قیام کی مدت ایک سال سے بہرحال کافی زیادہ تھی۔

جاری ھے ۔۔۔،


Share: