قسط نمبر (83) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 علماءِ یہود کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضری اور مختلف سوالات 

رسول کریم صلی اللہ  علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم جب مدینہ منورہ میں رونق آفروز ھوئے تو یہودی علماء خاص طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت میں حاضر ھوئےاور رسول کریم صلی اللہ  علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے بطورِ امتحان مختلف قسم کے سوالات کیے ان میں بہت سے جن کی قسمت میں اسلام کی یہ سعادت لکھی تھی فوراً حلقۂ اسلام میں داخل  بھی ھوگئے اور بہت سے بد بخت ایسے بھی تھے جو تمام تر جانکاری کے باوجود اس سعادت سے محروم ھی رھے  چنانچہ حدیث مبارکہ ھے 

‏‏‏‏عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ قَالَ: قَالَ يَهُودِيٌّ لصَاحبه اذْهَبْ بِنَا إِلَى هَذَا النَّبِي فَقَالَ صَاحِبُهُ لَا تَقُلْ نَبِيٌّ إِنَّهُ لَوْ سَمِعَكَ كَانَ لَهُ أَرْبَعَة أَعْيُنٍ فَأَتَيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَاهُ عَنْ تِسْعِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ فَقَالَ لَهُم: «لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا تَسْرِقُوا وَلَا تَزْنُوا وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا تَمْشُوا بِبَرِيءٍ إِلَى ذِي سُلْطَانٍ لِيَقْتُلَهُ وَلَا تَسْحَرُوا وَلَا تَأْكُلُوا الرِّبَا وَلَا تَقْذِفُوا مُحصنَة وَلَا توَلّوا الْفِرَار يَوْمَ الزَّحْفِ وَعَلَيْكُمْ خَاصَّةً الْيَهُودَ أَنْ لَا تَعْتَدوا فِي السبت» . قَالَ فقبلوا يَده وَرجله فَقَالَا نَشْهَدُ أَنَّكَ نَبِيٌّ قَالَ فَمَا يَمْنَعُكُمْ أَنْ تتبعوني قَالُوا إِن دَاوُد دَعَا ربه أَن لَا يزَال فِي ذُرِّيَّتِهِ نَبِيٌّ وَإِنَّا نَخَافُ إِنْ تَبِعْنَاكَ أَنْ تَقْتُلَنَا الْيَهُودُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ

سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، کسی یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا: ہمیں اس نبی رسول کریم صلی اللہ  علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے پاس لے چلو، تو اس نے اپنے ساتھی سے کہا: تم نبی رسول کریم صلی اللہ  علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نہ کہو: کیونکہ اگر اس نے تمہاری بات سن لی تو وہ بہت خوش ہو گا، پس وہ دونوں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے واضح نشانیوں کے بارے میں آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وآصحابہ وسلم سے دریافت کیا تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ”تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، نہ زنا کرو، نہ کسی ایسی جان کو جس کا قتل اللہ نے حرام قرار دیا ہے اور نہ کسی بے گناہ شخص کو کسی صاحب اقتدار کے پاس لے جاؤ کہ وہ اسے قتل کر دے، نہ جادو کرو نہ سود کھاؤ، پاک دامن عورت پر تہمت نہ لگاؤ نہ معرکہ کے دن میدان جہاد سے پیٹھ پھیر کر بھاگو، اور تم بالخصوص یہود پر لازم ہے کہ تم ہفتے کے دن کے بارے میں زیادتی نہ کرو۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، ان دونوں نے آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وآصحابہ وسلم  کے ہاتھ اور پاؤں چومے اور کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وآصحابہ وسلم  نبی ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وآصحابہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر کون سی چیز تمہیں میری اتباع نہیں کرنے دیتی؟“ انہوں نے عرض کیا: حضرت داؤد علیہ السلام  ؑ نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ نبوت کا سلسلہ اس کی اولاد میں جاری رہے، اور ہم ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اتباع کر لی تو یہود ہمیں قتل کر دیں گے۔  اس حدیث کو ترمذی، ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔  

فتح الباری میں عروی بن زبیر سے مروی ھے کہ علماء یہود میں  سب سے پہلے آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وآصحابہ وسلم کی خدمت میں حیی بن آخطب کا بھائی یاسر بن آخطب حاضر ھوا آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وآصحابہ وسلم کا کلام سنا تو اس سے متاثر ھوا واپس جا کر اپنی قوم کو سمجھایا کہ 

اطیعونی فان ھذا النبی الذی کنا ننتظر

میرا کہنا مانو یقیناً یہ وھی نبی ھے جس کے ھم منتظر تھے 

لیکن اس کا بھائی حیی بن آخطب نہ مانا  اس نے اپنے بھائی کی مخالفت کی چونکہ قبیلے میں بڑا وھی مانا جاتا تھا اس لئے اس کی قوم نے اس کی بات پر عمل کیا اور اسلام  قبول نہ کیا

حضرت سعید بن مسبب رحمہ اللہ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے  روایت کرتے ھیں کہ جب رسول کریم صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وآصحابہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو علماءِ یھود اپنے مرکز  “بیت المدارس”  میں جمع ھوئے اور مشورہ میں طے کیا کہ اس شخص ( رسول کریم  صلی اللہ  علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) سے سوالات کرنے چاھیں   ۔  فتح الباری

بیہقی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ھے ایک یہودی عالم رسول کریم صلی اللہ  علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت میں حاضر ھوا آپ صلی اللہ  علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سورہ یوسف کی تلاوت فرما رھے تھے اُس نے پوچھا یہ سورہ آپ صلی اللہ  علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو کس نے تعلیم کی ھے تو آپ صلی اللہ  علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے ۔ یہ سن کر یہودی عالم واپس گیا اور یہود کی ایک جماعت کو لے کر آپ صلی اللہ  علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت میں حاضر ھوا ان لوگوں نے آپ صلی اللہ  علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی صورت، صفت اور مہرِ نبوت  کو دیکھ کر آپ صلی اللہ  علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو پہچان لیا سورہ یوسف کی تلاوت سنی اور سب کے سب اسلام لے آئے۔ ( فتح الباری)

اس طرح اور بھی بہت سے علماء اور سردارانِ یہود آپ صلی اللہ  علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت میں حاضر ھوئے اور اسلام کی دولت سے مالا مال ھوئے جیسے حضرت زید بن سعتہ رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عبداللہ بن سلام  رضی اللہ تعالی عنہ وغیرہ


حضرت عبداللہ بن سلام

رضی اللہ تعالی عنہ کا قبولِ اسلام

حصین (عبداللہ)  بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ کا شمار یہودیوں کے سب سے بڑے عالم، امام اور سرداروں میں ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دُور دُور سے یہودی اُن سے فیض یاب ہونے کے لیے آتے تھے۔ اُنھیں توریت اور انجیل پر مکمل عبور حاصل تھا ۔ یثرب کے ایک سرسبز کھجور کے باغ کے درمیان واقع ،خُوب صورت حویلی کے اسٹڈی روم میں یہودیوں کے یہ سب سے بڑے عالم، امام اور سردار، حصین بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ توریت کے مطالعے میں مصروف رھتے تھے ۔ آکثر اوقات اُن کی سوچ کا محور توریت کا وہی حصّہ ھوتا تھا جہاں مکّہ مکرمہ میں آخری نبی صلی اللہ  علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ظہور کی بشارت تحریر تھی ۔ حصین رضی اللہ تعالی عنہ کچھ عرصے سے محسوس کررہے تھے  کہ وہ جب بھی توریت کی ان آیات کا مطالعہ کرتے ہیں، تو اُنہیں ایک عجیب کیفیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ اُنہیں توریت میں تحریر کردہ آخری نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وآصحابہ وسلم کی آمد کی تمام نشانیاں پوری ہوتی نظر آتی ہیں۔ اور پھر ایک جگہ یہ بھی تحریر ہے کہ’’ آپ صلی اللہ  علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے لوگ، آپ  صلی اللہ  علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو مکّہ مکرمہ  سے ہجرت پر مجبور کردیں گے اور وہ یثرب میں مسقل قیام کریں گے۔‘‘ تو کیا مَیں اللہ تعالیٰ کے اس آخری رسول  صلی اللہ  علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا دیدار کرنے کا شرف حاصل کرسکوں گا ؟  یہ سوال ایک شدید خواہش کے رُوپ میں ڈھل کر اُنہیں بے چین و بے قرار کردیتا تھا۔ 

رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے مدینہ منورہ آنے کے فوراً بعد، اُنہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا  اور رسول کریم  صلی اللہ  علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اُن کا نام، عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ رکھا۔ حضور آکرم صلی اللہ  علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  فرماتے تھے کہ ’’عبداللہؓ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ اہلِ جنّت میں سے ہیں۔‘‘ آپؓ کی علمی قابلیت کو مدّ ِ نظر رکھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے آپؓ کو’’ کاتبِ وحی‘‘ کے منصب پر فائز کیا۔ آپؓ کا نام، عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ، کُنیت ابو یوسف اور لقب، جر ہے۔ آپؓ یہودیوں کے ایک قبیلے، بنو قینقاع کے ایک فرد تھے، جس کا سلسلہ حضرت یوسف علیہ السّلام سے ملتا ہے

صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ ان کے قبول اسلام پر روشنی ڈالتے ھوئے فرماتے ھیں 

وعن انس قا ل سمع عبد الله بن سلام بمقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في ارض يخ رف فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال إني سائلك عن ثلاث لا يعلمهن إلا نبي: فما اول اشراط الساعة وما اول طعام اهل الجنة؟ وما ينزع الولد إلى ابيه او إلى امه؟ قا ل: «اخبرني بهن جبريل آنفا اما اول اشراط الساعة فنار تحشر الناس من المشرق إلى المغرب واما اول طعام ياكله اهل الجنة فزيادة كبد الحوت وإذا سبق ماء الرجل ماء المراة نزع الولد وإذا سبق ماء المراة نزعت» . قال: اشهد ان لاإله إلا الله وانك رسول الله يا رسول الله إن اليهود قوم بهت وإنهم إن يعلموا بإسلامي من قبل ان تسالهم يبهتوني فجاءت اليهود فقال: «اي رجل عبد الله فيكم؟» قالوا: خيرنا وابن خيرنا وسيدنا وابن سيدنا فقال: «ارايتم إن اسلم عبد الله بن سلام؟» قالوا اعاذه الله من ذلك. فخرج عبد الله فقال اشهد ان لا إله إلا الله وان محمدا رسول الله فقالوا: شرنا وابن شرنا فانتقصوه قال: هذا الذي كنت اخاف يا رسول الله

 (رواه البخاري)

انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تشریف آوری کے متعلق سنا تو وہ اس وقت پھل توڑ رہے تھے، وہ فوراً نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور عرض کیا، میں آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وآصحابہ وسلم سے تین سوال کرتا ہوں جنہیں صرف نبی ہی جانتا ہے، (بتائیں) علامات قیامت میں سے سب سے پہلی نشانی کیا ہے؟ اہل جنت کا سب سے پہلا کھانا کیا ہو گا؟ بچہ کب اپنے والد کے مشابہ ہوتا ہے اور کب اپنی والدہ کے مشابہ ہوتا ہے؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ”جبریل نے ابھی ابھی ان کے متعلق مجھے بتایا ہے، جہاں تک علامات قیامت کا تعلق ہے تو پہلی علامت ایک آگ ہو گی جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف جمع کر دے گی، رہا جنتیوں کا پہلا کھانا تو وہ مچھلی کے جگر کا ایک کنارہ ہو گا، اور جب آدمی کا پانی عورت کے پانی (منی) پر غالب آ جاتا ہے تو بچہ والد کے مشابہ ہوتا ہے اور جب عورت کا پانی غالب آ جاتا ہے تو بچہ عورت کے مشابہ ہو جاتا ہے۔ “ (یہ جواب سن کر) انہوں نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور بے شک آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وآصحابہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، (پھر فرمایا) اللہ کے رسول (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم)  ! یہودی بڑے بہتان باز ہیں، اگر انہیں، اس سے پہلے کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وآصحابہ وسلم ان سے میرے متعلق پوچھیں، میرے اسلام قبول کرنے کا پتہ چل گیا تو وہ مجھ پر بہتان لگائیں گے، چنانچہ اتنے میں یہودی آ گئے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ”عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کا تمہارے ہاں کیا مقام ہے؟ انہوں نے بتایا کہ وہ ہم میں سب سے بہتر، ہم میں سب سے بہتر کے بیٹے، ہمارے سردار اور ہمارے سردار کے بیٹے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ”مجھے بتاؤ اگر عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ اسلام قبول کر لیں (تو پھر)؟ انہوں نے کہا، اللہ انہیں اس سے پناہ میں رکھے، عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ اسی دوران باہر تشریف لے آئے اور انہوں نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور یہ کہ محمد (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم) اللہ کے رسول ہیں، پھر یہ (یہودی ان کے بارے میں) کہنے لگے: وہ ہم میں سب سے برا ہے اور ہم میں سے سب سے برے کا بیٹا ہے، اور وہ ان کی تنقیص و توہین کرنے لگے، عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم) ! یہی وہ چیز تھی جس کا مجھے اندیشہ تھا۔ رواہ البخاری۔


زیارتِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بے تابی

یہ گیارہ نبوی (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم) کی بات ہے کہ جب بنو خزرج کے چھ افراد مکّہ مکرّمہ گئے اور  رسول اللہ (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم) کے ہاتھ پر اسلام قبول کرکے یثرب واپس آگئے۔ حصین بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ کو اطلاع ملی، تو اُنہوں نے اُن افراد سے ملاقات کی اور رسول اللہ (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم) کے بارے میں تفصیل معلوم کی۔ وہ لوگ جیسے جیسے تفصیل بیان کرتے جاتے، حصین رضی اللہ تعالی عنہ کی آنکھوں میں توریت کی تحریر کردہ علامتیں حقیقت کا رُوپ دھار کر آتشِ شوق بھڑکاتی جارہی تھیں۔ اب ایک علامت کی تصدیق اور باقی تھی اور وہ تھی، یثرب کی طرف ہجرت۔ حصین بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ اللہ سے دُعا مانگتے تھے کہ’’ اے خداوندِ قدّوس! مجھے اتنی زندگی عطا فرما کہ مَیں شہرِ یثرب میں تیرے آخری نبی (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم) کی زیارت کرکے اُن کے ہاتھ پر بیعت کرلوں۔‘‘ اب ان مسلمانوں سے ملاقات نے اُن کی بے چینی اور بے قراری میں مزید اضافہ کردیا۔ وہ زیارتِ رسول (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم) کے لیے بے تاب رہنے لگے تھے۔


دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری 

حصین رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ’’ ایک صبح مَیں اپنے باغ میں درختوں سے کھجوریں اُتروا رہا تھا۔ میری چچی، خالدہ بنتِ حارث رضی اللہ تعالی عنہا بھی میرے ساتھ تھیں۔ مَیں نے سُنا کہ ایک شخص رسول اللہ (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم) کی مدینہ منورہ آمد اور قُبا میں قیام کا اعلان کرتا پِھر رہا ہے۔ اِس خبر نے میرے جسم میں بجلی سی دَوڑا دی اور بے اختیار میرے منہ سے نکلا’’ اللہ اکبر، اللہ اکبر‘‘۔ چچی نے یہ سُن کر مجھے بُرا بھلا کہا اور بولیں’’ موسیٰ بن عمران علیہ السّلام کی آمد کا سُنتا تو یہ نعرہ لگاتا۔‘‘ مَیں نے اُنہیں سمجھایا’’ چچی! خدا کی قسم یہ اللہ تعالیٰ کے آخری رسول (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم) ہیں، جو موسیٰ بن عمرانؑ کے بھائی ہیں۔‘‘ چچی بولیں ’’اچھا، جن کے بارے میں تم ہمیں توریت کی آیات پڑھ کر سُناتے رہے ہو؟‘‘ مَیں نے کہا’’ ہاں، یہ وہی ہیں۔‘‘ حصین رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ’’ مَیں نے بوڑھی چچی کو گھر چھوڑا اور قُبا کی جانب چل پڑا۔ جب وہاں پہنچا، تو مَیں نے دیکھا کہ جانثاروں کا مجمع لگا ہوا ہے۔ مَیں کسی نہ کسی طرح اندر پہنچ گیا۔ مَیں نے سُنا کہ اللہ کے رسول (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم)  فرمارہے ہیں

لوگو! سلام کو پھیلاؤ، کھانا کھلاؤ، جب رات میں لوگ محوِ خواب ہوں، تو عبادت کرو اور اللہ کی جنّت میں سلامتی سے داخل ہوجاؤ” 

اسے امام ترمذی رحمہ اللّٰہ نے اپنی کتاب سنن الترمذي میں ذکر کیا ہے، ذیل میں اس حدیث کو مکمل سند، متن اور ترجمہ کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے: 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَوْفِ بْنِ أَبِي جَمِيلَةَ الأَعْرَابِيِّ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَلاَمٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ انْجَفَلَ النَّاسُ إِلَيْهِ، وَقِيلَ: قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجِئْتُ فِي النَّاسِ لأَنْظُرَ إِلَيْهِ، فَلَمَّا اسْتَبَنْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرَفْتُ أَنَّ وَجْهَهُ لَيْسَ بِوَجْهِ كَذَّابٍ وَكَانَ أَوَّلُ شَيْءٍ تَكَلَّمَ بِهِ أَنْ قَالَ: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَفْشُوا السَّلاَمَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصَلُّوا وَالنَّاسُ نِيَامٌ تَدْخُلُونَ الجَنَّةَ بِسَلاَمٍ".

(سنن الترمذي)    وقال: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ. 

حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے مروى ہے کہ جب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے، تو لوگ آپ کى طرف دوڑ پڑے اور کہنے لگے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم آ گئے، میں بھى ان لوگوں کے ساتھ گیا تھا، تاکہ میں بھى آپ صلى اللہ علیہ وسلم کى زیارت کروں، جب میں نے آپ صلى اللہ علیہ وسلم کو اچھى طرح دیکھ لیا، تو میں پہچان گیا کہ یہ چہرہ کسى جھوٹے آدمى کا نہیں ہو سکتا، چنانچہ اس موقع پر آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم نے جو پہلى بات ارشاد فرمائى وہ یہ تھى: "اے لوگو!سلام کو عام کرو، لوگوں کو کھانا کھلاؤ اور جب رات کو لوگ سو رہے ہوں، تو تم اس وقت نماز پڑھو، تم سلامتى کے ساتھ جنت میں داخل ہو گے"۔

امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حددیث کو صحیح قرار دیا ہے۔مذکورہ بالا حدیث متعدد کتب میں بھی آئی ہے


حصین رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ’’ جب مَیں نے اللہ کے رسول (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم) کے چہرۂ انور کی جانب دیکھا، ایمان کی روشنی سے منور چہرہ، مہ و خورشید سے زیادہ چمکتی پیشانی، نورِ الٰہی سے روشن، خُوب صورت بڑی آنکھیں کہ جنھیں دیکھ لیں، اُسے اپنا گرویدہ بنالیں، دندانِ مبارک، جیسے سفید شفّاف موتی، شبِ تاریک میں جو ستاروں سے زیادہ چمکتے، میانہ قد، سُرخ و سفید رنگت، بات کریں، تو لبوں سے پھول جھڑیں۔ مُسکرائیں، تو فضا میں نغمگی بکھر جائے۔ جہاں موجود ہوں، وہ مقام مُشک وعنّبر سے مہک جائے، تو مَیں نے جان لیا کہ یہ ہی اللہ کے آخری اور سچّے نبی (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم) ہیں۔‘‘

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تین سوال

بخاری شریف میں ہے کہ آپ (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم) نے خدمتِ نبوی (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم) میں حاضر ہوکر عرض کیا’’ یارسول اللہ (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم)! مَیں تین باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں

۔(1)علاماتِ قیامت میں سے پہلی علامت کون سی ھے

(2) جنّت کو پہلی چیز کھانے کو کیا ملے گی۔

(3) کیا وجہ ہے کہ بچّہ کبھی تو ماں کی شکل پر ہوتا ہے اور کبھی باپ کی شکل پر؟ 

سرکارِ دو عالم (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم)  نے تینوں سوالوں کے جواب اس طرح دیئے

۔(1) قیامت کی پہلی نشانی ایک آگ ہوگی، جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی جانب ہنکا لے جائے گی

  (2) اہلِ جنّت کی پہلی خوراک، مچھلی کی کلیجی پر جو ٹکڑا ٹِکا رہتا ہے، وہ ہو گا۔

(3) ماں کا مادۂ تولید غالب ہو، تو بچّہ ماں کی شکل پر اور اگر باپ کا غالب ہو، تو باپ کی شکل پر ہوتا ہے۔‘‘


قبولِ اسلام 

حضرت  عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ فوری طور پر مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ آنحضرت (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم) نے آپ کا نام، حصین رضی اللہ تعالی عنہ سے تبدیل کرکے، عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ رکھا۔ وہ گھر تشریف لائے اور تمام اہلِ خانہ کو اسلام کی دعوت دی، جس پر سب نے اسلام قبول کرلیا، اُن میں آپؓ کی چچی، حضرت خالدہ  رضی اللہ تعالی عنہا  بھی شامل تھیں، لیکن آپؓ نے گھر والوں کو ہدایت کی کہ فی الحال چند دنوں کے لیے اپنے مسلمان ہونے کو ظاہر نہ کریں۔ گھر والوں کو مشرف بہ اسلام کرکے آپ ؓواپس نبی کریم (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم)  کی مجلس میں تشریف لے گئے۔


یہودی سرداروں کو دعوتِ اسلام

حضرت  عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم) سے عرض کیا’’ یارسول (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم) ! سب یہودی جانتے ہیں کہ مَیں اُن کا سردار اور اُن کے سردار کا بیٹا ہوں۔ اُن سب سے زیادہ عالم ہوں اور اُن سب سے زیادہ علم رکھنے والے کا بیٹا ہوں۔ آپ  (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم) اُن سے میرا حال تو دریافت فرمایئے۔‘‘ رسول اللہ ۔ (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم) نے یہودیوں کو بلوا لیا۔ یہودی آئے، تو حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ گھر کے اندر چُھپ گئے۔ رسول اللہ  (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم)  نے یہودیوں کو اسلام کی دعوت دی، مگر اُنہوں نے قبول کرنے سے انکار کیا۔ پھر رسول اللہ (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم) نے اُن سے پوچھا’’ اچھا یہ بتاؤ کہ حصین بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ تم لوگوں میں کیسا آدمی ہے؟‘‘، اُنہوں نے کہا’’ وہ ہمارا سردار ہے، ہمارے سردار کا بیٹا ہے۔ ہم سب سے زیادہ عالم اور ہم سب سے زیادہ عالم کا بیٹا ہے۔ وہ ہم سب سے بہتر اور ہم سب سے بہتر آدمی کا بیٹا ہے۔‘‘ رسول اللہ (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم) نے فرمایا’’ اگر وہ مسلمان ہوجائے؟‘‘یہودی کہنے لگے’’ وہ ہرگز مسلمان نہیں ہوگا۔‘‘ رسول اللہ (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم) نے فرمایا’’ اے ابنِ سلام رضی اللہ تعالی عنہ باہر آؤ ‘‘۔حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ باہر آئے اور کہا’’ اے یہودیو! اللہ سے ڈرو، تم جانتے ہو کہ یہ اللہ کے رسول (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم) ہیں اور حق کے ساتھ آئے ہیں۔‘‘ یہودیوں نے کہا’’ تم جھوٹ بولتے ہو۔ تم سب سے بدتر اور سب سے بدتر آدمی کے بیٹے ہو۔‘‘


جنّت کی بشارت 

حضرت سعد ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم) نے اُن کی زندگی ہی میں اُن کے لیے جنّت کی بشارت دے دی تھی(بخاری)۔ 

حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ کے چہرے سے خشوع ظاہر ہوتا تھا۔ ایک دن اُن سے کہا گیا’’ لوگ کہتے ہیں آپؓ جنّتی ہیں۔‘‘ کہنے لگے’’ اللہ کی قسم! کسی کو یہ سزاوار نہیں کہ وہ ایسی بات کہے، جس کا اُسے علم نہ ہو۔ مَیں تمہیں بتاتا ہوں کہ اِس کی وجہ کیا ہے۔ ایک مرتبہ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں ایک باغ میں ہوں۔ جو بہت وسیع اور سرسبز و شاداب تھا۔ اُس کے درمیان لوہے کا ایک ستون تھا، جس کا اوپر کا حصّہ آسمان میں تھا۔ اس کے اوپر ایک کڑا لگا ہوا تھا۔ مجھ سے کہا گیا کہ ’’چڑھو‘‘، مَیں نے کہا’’ مَیں نہیں چڑھ سکتا۔‘‘ پھر ایک خادم آیا، اُس نے پیچھے سے مجھے اٹھایا۔ پھر مَیں اُس پر چڑھ کر اُس کی بلندی تک پہنچ گیا اور وہ کڑا پکڑ لیا۔ پھر مجھ سے کہا گیا’’ مضبوطی سے پکڑے رہو۔‘‘ پھر میں جاگ گیا۔ مَیں نے یہ خواب رسول اللہ (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم) سے بیان کیا، تو آپ  (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم) نے فرمایا’’ وہ باغ اسلام ہے اور وہ ستون، اسلام کا ستون ہے۔ وہ کڑا، مضبوط کڑا ہے۔ تم اسلام پر قائم رہو گے، یہاں تک کہ تمہیں موت آئے‘‘( صحیح بخاری)۔


حضرت میمون بن یامین رضی اللہ تعالی عنہ کا قبولِ اسلام

آپ اہل کتاب صحابئ رسول تھے۔یہود کے مشہور قبیلہ بنی قریظہ سے تھے، رؤساء یہود میں شمار ھوتے تھے ۔ اسلام لانے سے پہلے اپنے قبیلہ میں بہت ممتاز تھے اور آپ کا شمار احبار یہود میں ھوتا تھا۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو میمون  رضی اللہ تعالی عنہ خدمتِ نبوی  (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم) میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا؛ لیکن دل میں یہ تڑپ تھی کہ ان کی قوم کے دوسرے لوگ بھی اس دولتِ سرمدی وسعادت ابدی سے بہرہ ور ہوتے تواچھا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم) یہود کو بلوائیں  اور ان سے فرمائیں کہ وہ آپ (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم) کے اور اپنے درمیان کوئی حکم مقرر کر لیں جس کے فیصلہ پر دونوں فریق گردن جھکادیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو بلوا بھیجا اور میمون رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ تم مکان کے اندر چلے جاؤ، یہود آئے تو آپ (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم) نے ان سے فرمایا کہ تم لوگ اپنے اور میرے درمیان ایک حکم مقرر کرلو جس کی تصدیق وعدم تصدیق کے فیصلہ پر ھم دونوں سرجھکا دیں ، سب نے یک زبان ہوکر کہا کہ ہم میمون بن یامین رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنا حکم مقرر کرتے ہیں؛ اگر اُنہوں  نے آپ (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ وآصحابہ ‌وسلم) کی تصدیق کرلی تو ھم  بھی تصدیق کریں گے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میمون رضی اللہ تعالی عنہ کو آواز دی، وہ مکان سے نکلے اور فرمایا:

 أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ۔

  آپ بے شک اللہ کے بھیجے ہوئے رسول ہیں۔ 

 یہود نے قبولِ حق کی بجائے حضرت میمون رضی اللہ عنہ پرطعن وتشنیع شروع کردی اور واپس چلے گئے، آپ کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی: 


قُلْ اَرَاَيْتُـمْ اِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللّـٰهِ وَكَفَرْتُـمْ بِهٖ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ عَلٰى مِثْلِـهٖ فَـاٰمَنَ وَاسْتَكْـبَـرْتُـمْ ۖ اِنَّ اللّـٰهَ لَا يَـهْدِى الْقَوْمَ الظَّالِمِيْنَ O

کہہ دیجیے بتاؤ تو سہی اگر یہ کتاب اللہ کی طرف سے ہو اور تم اس کے منکر ہو اور بنی اسرائیل کا ایک گواہ ایک ایسی کتاب پر گواہی دے کر ایمان بھی لے آیا اور تم اکڑے ہی رہے، بے شک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا۔  (سورہ الاحقاف)

حضرت میمون بن یامین رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی کے بقیہ حالات کے متعلق ارباب رجال خاموش ہیں۔

(اسدالغابہ)


جاری ھے۔۔۔۔۔

Share: