قسط نمبر (85) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم


ہجرت کے مقاصد ، نتائج ، فوائد، اسباق اور مدینہ منورہ کے اُس وقت کے حالات کا ایک تقابلی جائزہ

ھجرت کیوں کی گئ ؟ اس وقت یہ ھر مسلمان کی لئے کیوں ضروری قرار پائی گئی تھی؟ اور اس کا مقصد کیا تھا؟ ، اس کے کیا نتائج  برآمد  ھوئے اور اُس وقت مدینہ منورہ کے معروضی حالات کیا تھے ؟  ۔ درآصل  ھجرت کا یہ موضوع بہت تفصیل طلب ھے ۔ مختصراً یہ کہ ھجرتِ مدینہ منورہ کثیر المقاصد کے حصول کی خاطر کی گئی تھی جن میں ایک بڑا مقصد فلاحی اسلامی ریاست کا قیام بھی تھا ۔ اس کی کچھ تفصیل  ان شاء اللہ اگے آئے گی 

ہجرت کا  مقصد صرف فتنوں  اور تمسخرات کا نشانہ بننے سے نجات حاصل کر لینا ھی نہیں تھا  بلکہ اسمیں یہ اھم مقصد بھی شامل تھا کہ ایک پر امن علاقے کے اندر ایک نئے اسلامی معاشرے کی تشکیل میں تعاون کیا جائے۔یہی وجہ تھی کہ  ہر صاحب استطاعت مسلمان پر ھجرت کرنا فرض قرار دیا گیا تھا ۔ طے یہ پایا تھا کہ ھر کلمہ گو شخص اس وطن جدید کی تعمیر میں حصّہ لے اور اسکی پختگی حفاظت اور رفعت شان میں اپنی کوشش صرف کرے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  خود اس اسلامی معاشرے کی تشکیل کے سربراہ ، قائد اور راہنما تھے اور کسی نزع کے بغیر سارے معاملات کی باگ ڈور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے ہاتھ میں تھی۔مدینہ منورہ  میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو چار طرح کی  گروہوں کا سامنا تھا جن میں سے ہر ایک کے حالات جدا  جدا تھے اور ہر ایک گروہ کے خصوصی مسائل  دوسری قوموں کے مسائل سے بالکل مختلف تھے۔ نئی ریاست کے استحکام اور ترقی کے لئے ضروری تھا کہ مدینہ میں موجود تمام گروھوں کو ساتھ لے کر چلا جائے ۔ اس وقت مدینہ منورہ میں مندرجہ ذیل چار بڑے گروہ موجود تھے:-

1- صحابہ کرام  رضوان  اللہ علیھم  کی ممتاز جماعت

2-مشرکینِ مدینہ - جو ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے  

3-منافقین  ۔ جو بظاھر مسلمان ھوگئے تھے  

4-یہودِ مدینہ - جو مسلمان نہیں ھوئے تھے


(الف)  

صحابہ کرام  رضوان  اللہ علیھم  کی ممتاز جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کا  یہ مقدس گروہ  نئی اسلامی ریاست کی آصل طاقت تھی ۔ مسلمانوں کے اس گروہ میں دو طرح کی جماعتیں تھیں ، ایک اس جماعت کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم جو خود اپنی زمین، اپنے مکان اور اپنے اموال کے اندر رہ رہے تھے اور اس بارے میں انکو اس سے زیادہ فکر نہ تھی جتنی کسی آدمی کو اپنے اہل و عیال میں امن و سکون کے ساتھ رہتے ہوئے کرنی پڑتی ہے۔ یہ انصار کا گروہ تھا اور ان میں پشتہا پشت سے باہم بڑی مستحکم عداوتیں اور نفرتیں چلی آرہی تھیں۔ انکے پہلو بہ پہلو دوسرا گروہ مہاجرین صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کا تھا جو ان ساری سہولتوں سے محروم تھا اور لُٹ پُٹ کر کسی نہ کسی طرح  مدینہ منورہ پہنچ گیا تھا۔ان کے پاس نہ تو رہنے کے لئے کوئی ٹھکانہ تھا نہ پیٹ پالنے کے لئے کوئی کام اور نہ کسی قسم کا کوئی مال جس پر انکی معیشت کا ڈھانچہ کھڑا ہو سکے، پھر ان پناہ گیر مہاجرین کی تعداد کوئی معمولی بھی نہ تھی اور ان میں دن بہ دن اضافہ بھی ہو رہا تھا کیونکہ  اعلان کر دیا گیا تھا کہ جو کوئی اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر ایمان رکھتا ہے وہ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آجائے؛ اور یہ بات معلوم  تھی کہ مدینہ منورہ میں کوئی بڑی دولت نہیں تھی نہ ہی آمدنی کے ذرائع اور وسائل۔  چنانچہ  اسی معاشی تنگی میں اسلام دشمن طاقتون نے بھی مدینہ منورہ  کا تقریبا" اقتصادی بائیکاٹ  کر دیا تھا جس سے درآمدات بند ہو گئیں تھیں  اور اقتصادی طور پر حالات انتہائی سنگین ہو گئے تھے ۔ 

صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم  کے حوالے  سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو جن مسائل کا سامنا تھا انکی توضیح یہ ہے کہ مہاجر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم  کے لئے مدینہ منورہ کے حالات مکہ مکرمہ کے حالات سے قطعی مختلف تھے۔ مکہ مکرمہ میں در اصل انکا کلمہ ایک تھا اور انکے مقاصد بھی ایک تھے مگر وہ خود مختلف گھرانوں میں بکھرے ہوئے تھے، اور مجبور و مقہور اور کمزور تھے۔ انکے ہاتھ میں کسی قسم کا کوئی اختیار نہ تھا۔سارے اختیارات دشمنان دین کے ہاتھوں میں تھے، اور دنیا کا کوئی بھی معاشرہ جن اجزاء اور لوازمات سے قائم ہوتا ہے مکّہ مکرمہ  کے مسلمانوں کے ہاس وہ اجزاء سرے سے تھے ہی نہیں کہ انکی بنیاد پر کسی نئے اسلامی معاشرے کی تشکیل کر سکیں۔ اسلئے مکیّ سورتوں میں صرف اسلامی مبادیات کی تفصیل بیان کی گئی ہے اور صرف ایسے احکامات نازل کئے گئے ہیں جن پر ہر آدمی تنہا عمل کر سکتا ہے۔ اسکے علاوہ نیکی ، بھلائی اور مکارم اخلاق کی ترغیب دی گئی ہے اور رذیل اور ذلیل کاموں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔

اسکے برعکس مدینہ منورہ میں مسلمانوں کی زمام کار پہلے ہی دن سے خود انکے اپنے ہاتھ میں تھی۔ ان پر کسی دوسرے کا تسلّط نہ تھا اس لئے اب وقت آگیا تھا کہ مسلمان تہذیب و عمرانیات، معاشیات و اقتصادیات، سیاست و حکومت اور صلح اور جنگ کے مسائل کا سامنا کریں اور وقت آگیا تھا کہ مسلمان ایک نیا معاشرہ یعنی اسلامی معاشرے کی  تشکیل کریں جو زندگی کے تمام مراحل میں جاہلی معاشرے سے مختلف اور عالم انسانی کے اندر موجود کسی بھی دوسرے معاشرے سے ممتاز ہو، اور اس دعوت اسلامی کا نمائندہ ہو جسکی راہ میں مسلمانوں نے تیرہ سال تک طرح طرح کی مصیبتیں اور مشقتیں برداشت کی تھیں۔ظاہر ہے اس طرح کے کسی معاشرے کی تشکیل ایک دن ایک مہینہ یا ایک سال میں نہیں ہو سکتی بلکہ اسکے لئے ایک طویل مدّت درکار ہوتی ہے تاکہ اس میں  آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ احکام صادر کئے جائیں، اور قانون سازی کاکام مشق و تربیت اور عملی نفاذ کے ساتھ مکمل کیا جائے۔اب جہاں تک احکام کے نفاذ اور مسلمانوں کی تربیت و رہنمائی کا معاملہ ہے تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  من جانب اللہ مامور تھے۔چنانچہ ارشادِ ربّانی ہے

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الأُمِّيِّينَ رَسُولا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَان كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُّبِينٍ O

وہی ہے جس نے امیوں میں خود ان ہی کے اندر سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اللہ کی آیات تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک و صاف کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکم سکھاتا ہے اور یہ لوگ یقینا" پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔

(سورۃ المجادلہ)

ادھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم  کا یہ حال تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا جو حکم صادر ہوتا اس سے اپنے آپ کو آراستہ کرکے خوشی محسوس کرتے جیسا کہ ارشاد ہے:

وَ اِذَا تُلِیت عَلَیھِم اٰ یٰتُہ زَادَتھُم اِیمَاناً۔

جب ان پر اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو انکے ایمان کو بڑھا دیتی ہیں۔

(سورۃ الانفال)

بہر حال یہی سب سے بڑا مسئلہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو مسلمانوں کے تعلق سے درپیش تھا اور بڑے پیمانے پر یہی دعوت اسلامیہ اور رسالت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کامقصود بھی تھا۔لیکن یہ کوئی ہنگامی مسئلہ نہ تھا بلکہ مستقل اور دائمی تھا۔ البتہ اسکے علاوہ کچھ دوسرے مسائل بھی تھے جو فوری توجہ کے طالب تھے۔

(ب)

مشرکینِ مدینہ - جو ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے

دوسری گروہ جو مشرکین کا تھا یہ لوگ  مدینے کے اصل باشندے تھے تاھم  انہیں مسلمانوں پر کوئی بالا دستی حاصل نہیں تھی ان مشرکین کے بھی دو گروہ تھے ، ایک گروہ کے لوگ یعنی  مشرکین کھلم کھلا اپنے مذیب پر قائم تھے اور اسلام کے بارے شک و  شبہ میں مبتلا تھے اور اپنے آبائی دین کو چھوڑنے میں تردّد محسوس کر رہے تھے، لیکن اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے دل میں کوئی عداوت  نہیں رکھ رہے تھے۔اس طرح کے لوگ تھوڑے ہی عرصے بعد مسلمان ہو گئے تھے اور خالص پکے مسلمان ہوئے۔

(ج)

منافقین  ۔ جو بظاھر مسلمان ھوگئے تھے

 مشرکین کے  اس دوسرے گروہ کے لوگ ایسے تھے جو اپنے سینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اور مسلمانوں کے خلاف سخت کینہ و عداوت چھپائے ہوئے تھے لیکن انہیں مدّ مقابل آنے کی جراءت نہیں تھی بلکہ حالات کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے محبت و خلوص کے اظہار پر مجبور تھے۔ ان میں سر فہرست عبداللہ بن ابی ابن سلول کا نام آتا ھے ۔ یہ وہ شخص تھا جس کو جنگ بعاث کے بعد اپنا سربراہ بنانے پر اوس و خزرج نے اتفاق کر لیا تھا حالانکہ اس سے پہلے دونوں فریق کسی کی سربراہی پر متفق نہیں ہوئے تھے، لیکن اب اس کے لئے مونگوں کا تاج تیار کیا جا رہا تھا تاکہ اس کے سر پر تاج شاہی رکھ کر اسکی باقاعدہ بادشاہت کا اعلان کیا جائے۔ یعنی یہ شخص مدینہ کا بادشاہ بننے  والا تھا لیکن اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی آمد آمد ہو گئی اور لوگوں کا رخ اس کی بجائے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی طرف ہو گیا۔ اسلئے اس کے دل میں  یہ احساس تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ہی نے اسکی بادشاہت چھینی ہے، لہذا وہ اپنے  دل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے خلاف سخت عداوت چھپائے ہوئے تھا۔اس کے باوجود جب اس نے جنگ بدر کے بعد دیکھا کہ حالات اس کے موافق نہیں ہیں اور وہ شرک پر قائم رہ کر اب دنیاوی فوائد سے بھی محروم ہو جائے گا تو اس نے بطاہر اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا: لیکن در پردہ اب بھی وہ کافر ہی تھا اسی لئے جب بھی اسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اور مسلمانوں کے خلاف کسی شرارت کا موقع ملتا وہ ہرگز نہ چوکتا۔اسکے ساتھی عموما" وہ رؤساء تھے جو اسکی بادشاہت کے زیر سایہ بڑے بڑے مناصب کے حصول کی توقع باندھے بیٹھے تھے مگر اب انہیں اس سے محروم ہوجانا پڑا تھا۔ یہ لوگ اس شخص کے شریک کار تھے اور اس کے منصوبوں کی تکمیل میں اس کی مدد کرتے تھے اور اس مقصد کے لئے بسا اوقات نوجوان اور سادہ لوح مسلمانوں کو بھی اپنی چابکدستی سے اپنا آلہ کار بنا لیتے تھے۔

(ج) 

یہودِ مدینہ - جو مسلمان نہیں ھوئے تھے

چوتھا گروہ  قوم یہود کا تھا ۔ ان کے آباؤ و آجداد اشوری اور رومی ظلم و جبر سے بھاگ کر حجاز میں پناہ گزین ہوئےتھے، یہ در حقیقت عبرانی تھے لیکن حجاز میں پناہ گزین ہونے کے بعد انکی وضع قطع، زبان اور تہذیب وغیرہ بالکل عربی رنگ میں رنگ گئی تھی۔ یہاں تک کہ انکے قبیلوں اور افراد کے نام بھی عربی ہو گئے تھےاور انکے اور عربوں کے آپس میں شادی بیاہ کے رشتے بھی قائم ہو گئے تھے۔ لیکن ان سب کے باوجود انکی نسلی عصبیت برقرار تھی اور وہ عربوں میں مدغم نہ ہوئے تھے بلکہ اپنی اسرائیلی، یہودی قومیت پر فخر کرتے تھے اور عربوں کو انتہائی حقیر سمجھتے تھے۔حتّٰی کے انہیں امّی کہتے تھے جس کا مطلب انکے نزدیک یہ تھا: بدھو، وحشی، رذیل، پسماندہ اور اچھوت۔ انکا عقیدہ تھا کہ عربوں کا مال انکے لئے مباح ہے جیسے چاہیں  کھائیں۔ چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

قَالُو لَیسَ عَلَینَا فِی الاُمِینَ سَبِیلُُ:

 انہوں نے کہا ہم پر امیوں کے معاملے میں کوئی راہ نہیں۔

(75:2)

یعنی امیوں کا مال کھانے میں ہماری کوئی پکڑ نہیں۔ ان یہودیوں میں اپنے دین کی تبلیغ و اشاعت کے لئے کوئی سرگرمی نہیں پائی جاتی تھی کیونکہ حقیقت میں اُن کے پاس وہ دین ھے ھی نہیں تھا جس کے وہ دعویدار تھے ، لے دے کر انکے پاس دین کی جو پونجی باقی رہ گئی تھی وہ تھی فال گیری، جادو اور جھاڑ پھونک وغیرہ۔ انہیں چیزوں کی بدولت وہ اپنے آپ کو صاحب علم و فضل اور روحانی قائد و پیشوا سمجھتے تھے۔

یھودی ایک شاطر قوم تھی ۔ یہودیوں کو دولت کمانے کے فنون میں بڑی مہارت حاصل تھی۔ غلّے، کھجور، شراب اور کپڑے کی تجارت انہی کے ہاتھ میں تھی۔ یہ لوگ غلّہ کپڑے اور شراب در آمد کرتے تھے اور کھجور برآمد کرتے تھے۔اسکے علاوہ بھی انکے اور مختلف کام تھے جن میں یہ سرگرم رہتے تھے۔وہ اپنے اموال تجارت میں عربوں سے دگنا تگنا منافع لیتے تھےاور اسی پر بس نہیں کرتے تھے بلکہ سود خور بھی تھے۔ اسلئے وہ عرب شیوخ اور سرداروں کو سودی قرض کے طور پر بڑی بڑی رقمیں دیتے تھے جنہیں یہ سردار حصول شہرت کیلئے اپنی مدح سرائی کرنے والے شعراء وغیرہ پر بالکل فضول اور بے دریغ خرچ کر دیتے تھے۔ادھر یہود ان رقموں کے عوض ان سرداروں سے انکی زمینیں، کھیتیاں اور باغات وغیرہ گروی رکھوا لیتے تھے اور چند سال گزرتے گزرتے انکے مالک بن بیٹھتے تھے۔یہ لوگ سیسہ کاریوں، سازشوں اور جنگ و فساد کی آگ بھڑکانے میں بھی بڑے ماہر تھے، ایسی باریکی سے ہمسایہ قبائل میں دشمنی کے بیج بوتے اور ایک کو دوسرے کے خلاف بھڑکاتے کہ ان قبائل کو احساس تک نہ ہوتااسکے بعد ان قبائل میں پیہم جنگ برپا رہتی اور اگر جنگ کی یہ آگ سرد پڑتی دکھائی دیتی تو یہود کی خفیہ انگلیاں پھر حرکت میں آجاتیں اور جنگ پھر بھڑک اٹھتی۔ کمال یہ تھا کہ یہ لوگ قبائل کو لڑا بھڑا کر چپ چاپ کنارے بیٹھ رہتے اور عربوں کی تباہی کا تماشہ دیکھتے، البتہ بھاری بھرکم سودی قرض دیتے رہتے تاکہ سرمائے کی کمی کے باعث جنگ نہ بند ہونے پائے اور اسطرح وہ دہرا منافع کماتے رہتے۔ ایک طرف اپنی یہودی جمعیت کو محفوظ رکھتے اور دوسری طرف سود کا بازار ٹھنڈا نہ پڑنے دیتے بلکہ سود در سود کے ذریعے بڑی دولت کماتے۔ یثرب میں ان یہود کے تین مشہور قبیلے تھے۔

1- بنو قینقاع-  یہ خزرج کے حلیف تھے اور انکی آبادی مدینہ منورہ  کے اندر ہی تھی۔

2-  بنو نضیر - یہ  اوس کے حلیف تھے اور ان  کی آبادی مدینے کے اطراف میں تھی۔

3- بنو قریظہ- یہ بھی  اوس کے حلیف تھے اور ان  کی آبادی مدینے کے اطراف میں تھی۔

ایک مدت سے مذکورہ بالا یہی قبائل اوس اور خزرج کے درمیان جنگ کے شعلے بھڑکا رہے تھے اور جنگ بعاث میں اپنے اپنے حلیفوں کے ساتھ خود بھی شریک ہوئے تھے۔ یہ فطری بات تھی کہ ان یہود سے اسکے سوا کوئی اور توقع  کی ھی نہیں جا سکتی تھی کہ یہ اسلام کو بغض اور عداوت کی نظر سے دیکھیں کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم انکی نسل میں  سے نہیں تھے کہ انکی نسلی عصبیت کو، جو انکی نفسیات اور ذہنیت کا جزو لا اینفک بنی ہوئی تھی سکون ملتا۔ پھر اسلام کی دعوت ایک صالح دعوت تھی جوٹوٹے دلوں کو جوڑتی تھی، بغض اور عداوت کی آگ کو بجھاتی تھی، تمام معاملات میں ایمانداری برتنے اور پاکیزہ اور حلال مال کھانے کی پابند بناتی تھی، اسکا مطلب یہ تھا کہ اب یثرب کے قبائل آپس میں جڑ جائیں گے اور ایسی صورت میں وہ لازما" یہود کے پنجوں سے آزاد ہو جائیں گے لہذا انکی تاجرانہ سرگرمی ماند پڑ جائے گی اور وہ اس سودی دولت سے محروم ہو جائیں گے جس پر انکی مالداری کی چکّی گردش کر رہی تھی، بلکہ یہ بھی اندیشہ تھا کہ کہیں یہ قبائل باشعور ہو کر اپنے حساب میں وہ سودی اموال بھی نہ داخل کر لیں جنہیں یہود نے ان سے بلا عوض حاصل کیا تھا اور اس طرح  وہ ان زمینوں اور باغات کو واپس نہ لے لیں جنہیں سود کے ضمن میں یہودیوں نے زبردستی ہتھیا لیا تھا۔

جب سے یہود کو معلوم ہوا تھا کہ اسلامی دعوت یثرب میں اپنی جگہ بنانا چاہتی ہے تب ہی سے انہوں نے ان ساری باتوں کو اپنے حساب میں داخل کر رکھا تھا اس لئے یثرب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی آمد کے وقت ہی سے یہود کو اسلام اور مسلمانوں سے سخت عداوت ہو گئی تھی، اگرچہ وہ اسکے مظاہرے کی جسارت خاصی مدت بعد کر سکے۔ اس کیفیت کا بہت صاف صاف پتہ ابن اسحٰق کے بیان کئے ہوئے ایک واقعے سے لگتا ہے:

انکا ارشاد ہے کہ مجھے ام المؤمنین حضرت صفیہ بنت حّی بن اخطب رضی اللہ عنہا سے یہ روایت ملی ہے کہ انہوں نے فرمایا: " میں اپنے والد ور چچا ابو یاسر کی نگاہ میں اپنے والد کی سب سے چہیتی اولاد تھی۔ میں چچا اور والد سے جب کبھی انکی کسی بھی اولاد سے ملتی تو وہ اسکے بجائے مجھے ہی اٹھاتے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم تشریف لائے اور قباء میں بنو عمرو بن عوف کے یہاں نزول فرما ہوئے تو میرے والد حّی بن اخطب اور میرے چچا ابو یاسر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی خدمت میں صبح  سویرے حاضر ہوئے اور غروب آفتاب کے وقت وہاں سے واپس آئے، بالکل تھکے ماندے، گرتے پڑتے لڑکھڑاتی چال چلتے ہوئے۔ میں نے حسب معمول چہک کر انکی طرف دوڑ لگائی، لیکن انہیں اس قدر غم تھا کہ دونوں میں سے کسی نے بھی میری طرف التفات نہیں کیا اور میں نے اپنے چچا کو سنا وہ میرے والد حّی بن اخطب سے کہ رہے تھے:

کیا یہ وہی ہے؟

انہوں نے کہا ہاں خدا کی قسم۔

چچا نے کہا: آپ انہیں ٹھیک ٹھیک پہچان رہے ہیں؟

والد نے کہا ہاں!

چچا نے کہا: تو اب آپ کے دل میں انکے متعلق کیا ارادے ہیں؟

والد نے کہا : عداوت۔۔اللہ کی قسم جب تک زندہ رہوں گا، عداوت ھی کرتا رھوں گا

اسی کی شہادت صحیح بخاری کی اس روایت سے بھی ملتی ہے جس میں حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کا واقعہ بیان کیا گیا ھے 


 جب  بھی ہجرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا ذکر ھوگا تو اس بات کا بھی جائزہ لینا ضروری ھو گا  کہ اس ہجرت سے پہلے اسلام اور اہلِ اسلام کی صورتِ حال کیا تھی اور اس ہجرت کے بعد کیا کچھ تغیرات وتبدیلیاں واقع ہوئیں۔ ہجرتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے آگے پیچھے کی تاریخ کا تقابل کرکے شاید زیادہ بہتر طور سے اس عظیم الشان واقعہ کی معنویت وافادیت سے آشنائی ھو سکتی ھے ۔اس تقابلی جائزہ کا آغاز اس بات سے کیا جائے کہ ہجرت سے پہلے اسلام کی دعوت وانتشار میں کس درجہ صعوبتیں و مشکلات درپیش تھیں اور گروہِ مومنین کو کس درجہ کوشش وکاوش کرنا پڑتی تھی کہ اسلام کی دعوت لوگوں کے قلوب واذہان میں داخلہ پا جائے۔ ایک خوف ودہشت کا ماحول تھا جو مشرکینِ قریشِ مکہ نے برپا کیا ہوا تھا، جہاں ہر طرف مظالم، تعذیب اور قتل وخونریزی کا بازار گرم تھا۔ لیکن ہجرتِ مدینہ منورہ کے بعد اسلام اس تیزی سے پھیلا جیسے سورج کی شعائیں تاریکی کا سینہ چیرتی ہوئی پھیل جاتی ہیں۔ اب اسلام کا غلغلہ تھا اور اہلِ اسلام آزاد تھے کہ بلا کسی خوف وہراس کے خود بھی اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں اور دنیائے انسانیت تک بھی انھیں پہنچائیں ۔ 

 ہجرت سے پہلے کا اسلام عبارت ہے ایسے اصول ومبادی اور احکام وتعلیمات سے جو اپنے نفاذ کے منتظر تھے۔ اس وقت کوئی ایسا معاشرہ  تشکیل نہیں پاسکا تھا جو ان تعلیمات واحکام کو عملی وتطبیقی شکل دے۔ مکہ کے مشرکینِ قریش سماج پر جابرانہ و بت  پرستانہ نظام غالب تھا جس میں کسی فردِ واحد کو اذن نہ تھا کہ وہ خود ساختہ رسوم ورواج سے انحراف کرسکے یا مروجہ احکام وفرامین کے علاوہ کسی اور تعلیم یاقانون پر عمل پیرا ہوسکے۔ اس وقت یہ حالت تھی کہ اسلام کو اپنے اہلِ خانہ، والدین، اور بھائی بہنوں تک سے چھپانا پڑتا تھا۔ اسلامی اجتماعیت بالکل مفقود تھی اور مسلمانوں کو کمزور اور تیسرے درجے کے افرادِ معاشرہ کی حیثیت سے زندگی گزارنا پڑتی تھی۔ یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اپنے دینی شعائر وعبادات کو علی الاعلان قائم کر سکیں یا اپنے دین کو سیکھنے کے لیے کہیں اکٹھا ہوسکیں۔ بیشتر مسلمانوں کو اپنی نمازوں کی ادائیگی کے لیے مکہ کی تاریک گھاٹیوں کا رخ کرنا پڑتا تھا۔ اس سماجی جبر واستبداد کے باوجود ان کے دل ایمان کے نور سے معمور تھے اور انہیں دل کی گہرائیوں سے یقین تھا کہ جلد ہی اللہ رب العزت ان کی نصرت وتائید کا سامان فرمائے گا۔ 

 اب ہجرت کے بعد کی صورتِ حال کو دیکھئے تو زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ اب ایک مسلمان نہ صرف اپنے اسلام کا اعلان کرتا ہے بلکہ اسلام ایک مایۂ فخر وناز چیز بن جاتا ہے۔ اب مسلمانوں کی جماعت ایک بڑے کنبہ کی طرح ہے جو اسلامی زندگی پرعمل پیرا ہے۔ اب معاشرے میں اللہ کے گھر مساجد ہیں جہاں پنچ وقتہ باجماعت کھلے طور سے اللہ کی کبریائی کا اعتراف کیا جاتا  ہے۔ اب کسی کو دینی شعائر وعبادات کی ادائیگی سے روکا نہیں جاتا اور ہر انسان کامل آزادی اورامن واطمینان کے ساتھ اپنے رب کے احکام کی تعمیل کرتا ھے۔ اب اہلِ اسلام کے لیے نصرت وتائیدِ خداوندی نازل ہوچکی ہے۔ 

 ہجرت سے پہلے اسلام کو مکہ کی چار دیواری میں محصور کردیا گیا تھا اور کوشش کی جاتی تھی کہ اسلام کا نور کسی طور سے بھی دیگر علاقوں میں نہ پھیلنے پائے، بلکہ عملی صورتِ حال تو یہی تھی کہ اسلام مکہ میں بھی چند گھروں کے اندر محصور تھا۔ لیکن ہجرت کے بعد آفتابِ اسلام پوری تابانی کے ساتھ جلوہ افروز ہوا اور روئے زمین کا ہر حصہ بقدرِ ظرف واستطاعت اس کی روشنی سے منور ہوگیا۔ اب اسلام کا آفاقی پیغام شہروں ملکوں کی علاقائی حدود اور مشرق ومغرب کی جغرافیائی تقسیم سے بلند ہوکر ساری دنیا کے لیے مشعلِ راہ بن گیاتھا۔ 

 ہجرتِ رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کوایک حتمی ضرورت بنانے اور جلد واقع کرنے میں اُس زمیں دوز سازش کا ہاتھ بھی ہے جو قریشی طاغوتوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو قتل کرنے کے لیے رچائی تھی۔  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا مدینہ منورہ ہجرت کرنا اہلِ ایمان کے لیے فتح مندی وکامرانی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ یہ اسلامی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز تھا۔اسلامی  تاریخ میں پہلا اہم ترین واقعہ تو اس وقت پیش آیا تھا جب حضرت محمد ؐبن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  پر پہلی بار قرآنِ کریم کی آیات کا نزول ہوا، اور دوسرا اہم ترین واقعہ بلا کسی اختلاف کے ہجرتِ مبارکہ کو ھی قرار دیا جاتا ھے۔

 مدینہ منورہ کی ہجرت کے بعد ہی یہ ممکن ہو سکا کہ اسلام اپنے غلبہ ونفاذ کے دور میں داخل ہو جائے اور اہلِ ایمان امن واستقرار کے ماحول میں ایک اسلامی حکومت کی تشکیل کے خواب کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ یہ ہجرتِ مبارکہ کا فیضان تھا کہ اب دینِ فطرت نظریاتی وفکری دائروں سے نکل کر واقعیت وتطبیق کے دائرے میں داخل ہوگیا تھا۔ اب ایک اسلامی معاشرہ وجود پذیر ہوگیا جہاں اسلامی نظامِ حیات اپنی تمام تر باریکیوں، سعادتوں اور برکتوں کے ساتھ جلوہ گر ہوسکا۔ ہجرت کی وجہ سے اسلام ایک روحانی سرچشمۂ قوت، ایک نظامِ حکومت، ایک نافذ شدہ قانون وعملی منشور اور ایک مجسم دستورِ اخلاق بن گیا۔ 

 ہجرتِ مبارکہ ایک طور سے اسلام اور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے لیے اللہ کی طرف سے عطا ہونے والی فتحِ عظیم اور بڑی کامیابی تھی۔ یہ آنے والی متعدد عظیم فتوحات کا حرفِ آغاز بھی تھی جن کو مجاہدینِ اسلام نے بدر، مکہ اور حنین وغیرہ کے کارزاروں میں رقم کیا۔ اگر ہجرت کا وجود اسلامی تاریخ سے ہٹا دیا جائے تو تاریخ نگاری کے لیے مسلمانوں کے پاس کچھ زیادہ نہیں بچتا۔ 

بعثت ِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے پہلے کی عرب دنیا کا رواج تھا کہ بڑے بڑے حوادث وواقعات سے تاریخ کو مربوط کیا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر قبیلۂ قریش کی تاریخ نگاری میں جنگ ِ فجار، حلف الفضول، یومِ تحکیم، حادثۂ فیل، وفاتِ ہشام بن مغیرہ اور ملوکِ حمیرکے ساتھ قبیلہ بنو یربوع کی غداری جیسے چند تاریخی واقعات شاہراہِ تاریخ کے سنگ ہائے میل کی حیثیت رکھتے تھے۔ 

 بعثت ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے بعد متعدد عظیم الشان واقعات رونما ہوئے لیکن مشرکینِ قریش نے انہیں لائقِ التفات نہ سمجھا اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہ واقعات اسلامی تھے۔ مثال کے طور پر قرآنِ کریم کا نزول، اسراء ومعراجِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ، سفرِ طائف اور ابوطالب وحضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا  کا سانحۂ وفات وغیرہ ایسے نمایاں واقعات تھے  جن کو تاریخ میں خاص جگہ دی جانی چاھیے تھی ، مگر بغض  و عناد کی وجہ سے نہیں دی گئی کیونکہ یہ واقعات اپنے آپ میں اسلامی حیثیت کے حامل  تھے۔ ہجرت کے بعد بھی عام مسلمانوں نے تاریخی ترتیب کے لیے زیادہ تر  ایسے واقعات کا سہارا لیا جو ہجرت کے بعد پیش آئے تھے۔ اس طرح مابعدِ ہجرت سالوں میں سے ہرسال کا کوئی مخصوص نام بھی تجویز کر لیا گیا تھا

 مثلاً 

ہجرت کے پہلے سال کو “سنۃ الاذن “یعنی ہجرت کی اجازت کا سال مانا گیا۔

 دوسرے سال کو “سنۃ الامر” یعنی حکمِ قتال کا سال موسوم کیاگیا، کیونکہ اسی سال غزوۂ بدر پیش آیا، تحویلِ قبلہ ہوئی اور اہلِ ایمان پر روزے فرض کیے گئے۔ 

تیسرے سال کو “سنۃ التمحیص “ یعنی چھان پھٹک کا سال قرار دیا گیا کیونکہ اس سال میں غزوۂ احد پیش آیا تھا جس میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مخلص وصادق اہلِ ایمان کا تزکیہ وتطہیر فرمائی تھی۔ 

چوتھے سال کو “سنۃ الترفئۃ” یعنی اصلاحِ حال کا سال مانا گیا کہ اس میں شراب نوشی کی حرمت نازل ہوئی  اور یہودی قبیلہ بنو نضیر کو مکمل طور پر  جلا وطن کیا گیا۔ 

پانچویں سال کا نام “سنۃ الزلزال “ یعنی زلزلہ والا سال رکھا گیا کہ اس میں غزوۂ دومۃ الجندل، غزوۂ احزاب اورغزوۂ بنی قریظہ پیش آئے تھے، نیز اسی سال میں واقعۂ افک بھی پیش آیا جس میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ پر تہمت باندھی گئی تھی جس کو اللہ تعالی نے بذریعہ قرآنی وحی مسترد کر دیا۔ 

ھجرت کے چھٹے سال کو “سنۃ الاستئناس” یعنی قریب کرنے اور انس پیدا کرنے کا سال مانا گیا کیونکہ اسی سال میں صلحِ حدیبیہ اور بیعتِ رضوان وقوع  پذیر ہوئے اور اسی سال میں آتش پرست ایرانیوں پر عیسائی رومیوں کے غلبہ پانے کااللہ کا وعدہ پورا ہوا۔ 

ساتویں سال کا نام “سنۃ الاستغلاب “یعنی غلبہ حاصل کرنے کا سال مانا جاتا ہے کیونکہ اسی سال میں غزوۂ خیبر پیش آیا تھا اور اسی سال میں اللہ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے اسلام کی دعوت کو دنیا کے تمام ملوک وسلاطین تک پہنچانے کے لیے مختلف نمائندوں کو اپنے خطوط کے ساتھ بھیجا تھا۔ اسی سال کی بات ہے کہ سلام بن مشکم یہودی کی بیوی زینب بنت الحارث نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو کھانے پر مدعو کرکے زہریلا گوشت پیش کیا تھا ، لیکن گوشت کے ٹکڑے نے بروقت آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو خبردار کر دیا۔ 

 آٹھویں سال کانام “سنۃ الفتح “ یعنی غلبہ وفتح کا سال رکھا گیا کہ اسی میں فتحِ مکہ وغزوۂ حنین پیش آئے تھے اور اسی سال سے اسلام کے حقیقی سیاسی غلبے کا آغاز ہوتا ہے۔ 

نویں سال کو “سنۃ البراءت “ یعنی برأت وعلیحدگی کا سال کہا گیا ھے کہ اسی سال سورہ توبہ وبراءت نازل ہوئی تھی جس میں کفار ومشرکین سے صاف صاف اظہارِ براءت کیا گیا تھا اور سابقہ تمام معاہدوں کی تکمیل کے بعد انہیں جزیرۃ العرب سے انخلاء یا قبولِ اسلام کا الٹی میٹم سنا دیا گیا تھا۔ اس سال کو “عام الوفود” یعنی نمائندہ وفدوں کا سال بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس سال میں جزیرۃ العرب کی ہر جہت سے عربی قبائل کے وفود نے کثرت کے ساتھ آکر اپنے اسلام کا اعلان کیا تھا۔ غزوۂ تبوک کے بارے میں مؤرخین متفق ہیں کہ وہ بھی اسی سال میں پیش آیاتھا۔

 دسویں سال کو “سنۃ الوداع” کہا جاتا ہے کیونکہ اس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کیا تھا اور عرفہ کے دن اپنا مشہور الوداعی خطبہ دیا تھا۔ 

 سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے اس دنیا سے پردہ کر لینے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ  نے امتِ اسلامیہ کی زمامِ خلافت سنبھالی۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے عہد ِ خلافت کا آغاز حضرت اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ کے لشکر کو بھیج کرکیا۔ پھر آپ کے دور میں مرتدین سے جنگیں ہوئی اوراُن کی سرزنش کی گئی، نیز قرآنِ کریم کو بھی آپ رضی اللہ تعالی عنہ ہی کے عہد میں جمع کرلیا گیا۔ حضرت ابوبکر صدیق کے تقریباً ڈھائی سالہ دورِ خلافت کے بعد حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ خلیفۃ المسلمین منتخب ہوئے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے عہد ِ خلافت میں مختلف دیوانوں اورمحکموں کو قائم کیا اور اسلامی افواج کو مستقل طور پر تیار کیا۔ آپ کے زریں عہد میں شام، عراق، مصر اور فارس کے ممالک میں حیران کن اسلامی فتوحات کا سلسلہ وقوع پذیر ہوا جو خلافتِ اسلامیہ کے اگلے ادوار میں بھی جاری رھا 

جاری ھے ۔۔۔۔


Share: