قسط نمبر (101) سیرتِ اِمام الآنبیاء صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم

 جہاد فی سبیل اللہ اور مجاھدین کے فضائل


  جہاد  اور مجاھدین کے فضائل بے شمار ہیں ۔ قرآن پاک کی بہت سی آیات مبارکہ اور بے شمار آحادیث مبارکہ میں جہاد فی سبیل اللہ اور مجاھدین کی فضائل بیان ھوئے ھیں جنہیں مصنفین نے اپنی کتابوں میں تفصیلاً  درج کیا ھے ۔ 

اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت کے لیے مسلمانوں کو دعوت و انذار کےبعد انتہائی حالات میں اللہ کے دشمنوں سے لڑنے کی اجازت دی ہے اور اللہ تعالی  کے راستے میں لڑنےوالے  مجاہدین کے لئے انعام و اکرام اور جنت کا وعدہ کیا ہے اسی طرح اس لڑائی کو جہاد  جیسے مقدس لفظ سے موسوم کیا گیا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب تک مسلمانوں میں جہاد جاری رہا اس وقت تک اسلام کاغلبہ کفار پر پوری آب و تاب سے قائم تھا جونہی مسلمانوں نےاپنی بداعمالیوں اور تعیش پرستی کی وجہ سے جہاد فی سبیل اللہ کو چھوڑ دیا تو ذلت و مسکنت ان کا مقدر بن گئی۔ اور آج عالم اسلام کی حالت زار سے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ وہ کس قدر ذلت و رسوائی کا شکار ہے۔کفار ملت واحد بن کر بھیڑیوں کی طرح  اہل اسلام پر ہر طرف سےجھپٹ رہے ہیں اور اُمتِ مسلمہ دشمن اسلام کے لگائے ہوئے گھاؤ سے گھائل جسم لئے ہوئے سسکیاں لے رہی ہے۔یقیناً جہاد جسےنبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے اسلام کی  چوٹی کہا ہے جب تک اس عَلم کو  تھاما نہیں جاتا ۔مسلمانوں کے ذلت و رسوائی اور مسکنت کے ادوار ختم نہیں ہوسکتے۔

بطور تبرک  ذیل میں اس ضمن میں چند آیات مبارکہ مع ترجمہ درج کی جارھی ھیں 


جہاد فی سبیل اللہ کے فضائل اور  قرآنی آیات 


(۱)

لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً وَكُلا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا O دَرَجَاتٍ مِنْهُ وَمَغْفِرَةً وَرَحْمَةً وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًاO ۔  (النساء)

جو مسلمان (گھروں میں ) بیٹھ رہتے (اور لڑنے سے جی چراتے) ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے وہ اورجو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مال اورجان سے لڑتے ہیں وہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے ۔ مال اورجان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے درجے میں فضیلت بخشی ہے اور (گو) نیک وعدہ سب سے ہے لیکن اجر عظیم کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر کہیں فضیلت بخشی ہیں اور رحمت میں اور اللہ تعالیٰ بڑ ا بخشنے والا اور مہربان ہے ۔


(۲) 

وَمَنْ يُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيُقْتَلْ أَوْ يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًاO   (النساء)

اورجو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ کرے پھر شہید ہوجائے یا غلبہ پائے ہم عنقریب اس کو بڑا ثواب دیں گے۔ 


(۳)

الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُقِيمٌ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ O  (التوبہ )

جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑگئے اوراللہ تعالیٰ کی راہ میں مال اور جان سے جہاد کرتے رہے اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے درجے بہت بڑے ہیں اور وہی مراد کو پہنچنے والے ہیں ان کا پروردگا ران کو اپنی رحمت کی اور خوشنودی کی اور بہشتوں کی خوشخبری دیتا ہے جن میں ان کے لئے نعمت ہائے جاویدانی ہیں (اور وہ )ان میں ابد الآباد رہیں گے ۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑا صلہ(تیار)ہے۔

 

(۴) 

إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالإنْجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُO (التوبہ)

بے شک اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں اوران کے مالوں کو اس قیمت پر کہ ان کے لئے جنت ہے خرید لیا ہے وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے راستے میں لڑتے ہیں پھر قتل کرتے ہیں اورقتل کئے جاتے ہیں(یہ )اللہتعالیٰ کے ذمہ سچا وعدہ ہے تورات اور انجیل اورقرآن میں اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا کون ہے؟ پھر تم خوشیاں مناؤ اس معاملے (خرید وفروخت) پر جو تم نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہے اور یہ بڑی کامیابی ہے۔


(۵) 

 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ O ۔ (محمد

اے اہل ایمان ! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مددکرے گا اور تم کو ثابت قدم رکھے گا۔


(۶)

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ O۔ الحجرات۔

ایمان والے تو وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اللہ تعالیٰ پر اور اسکے رسول پر ]ھر وہ شبہے میں نہیں پڑے اور وہ لڑے اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے مال اوراپنی جان سے یہی لوگ سچے ہیں۔


(۷) 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأنْهَارُ وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ وَأُخْرَى تُحِبُّونَهَا نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ فَآمَنَتْ طَائِفَةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَتْ طَائِفَةٌ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَى عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ O(الصف)

اے ایمان والو! میں تم کو ایسی تجارت نہ بتادوں جو تم کوایک درد ناک عذاب سے بچالے ۔ تم لوگ اللہ تعالیٰ پر اوراس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مال اورجان سے جہاد کرو یہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔ (جب ایسا کرو گے تو) اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف کردے گا اورتم کو جنت کے ایسے باغات میں داخل کردے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اورعمدہ مکانوں میں (داخل کرے گا) جو ہمیشہ رہنے کے باغو ں میں (بنے )ہوں گے یہ بڑی کامیابی ہے اورایک اورچیز (تمہیں دے گا) جس کو تم پسند کرتے ہو یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد اور جلدی فتح یابی اورآپ ایمان والوں کو بشارت دے دیجئے۔ اے ایمان والو ! تم اللہ تعالیٰ کے (دین کے ) مددگار بن جاؤ جیسا کہ عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام ) نے اپنے حواریوں سے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہومیرا (تم میں سے ) کون مدد گار ہے! وہ حواری بولے ہم اللہ تعالیٰ (کے دین )کے مددگار ہیں بنی اسرئیل میں سے کچھ لوگ ایمان لائے اور کچھ لوگ منکر رہے پس ہم نے ایمان والوں کو ان کے دشمنوں کے مقابلے میں قوت دی پس وہ غالب ہوگئے۔


فضائلِ جہاد و چہل  آحادیث مبارکہ 

جہاد کے فضائل  سے متعلق رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کی قولی اور فعلی روایات حدیث اس کثرت سے منقول ہوئی ہیں کہ ان سب کو جمع کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب بن جائے ۔ یہاں پر ان میں سے صرف چالیس آحادیثِ مبارکہ پیش کی جاتی ہیں ۔ اس عدد میں ایک خاص فائدہ یہ بھی ہے کہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا ہے کہ جو شخص میری چالیس حدیثیں یاد کرکے میری امت کو پہنچا دے ، اس کا حشر قیامت کے دن علمائے مقبولین کے ساتھ ہوگا ۔ اس برکت کو لکھ کر تشہیر کرنے  والا بھی حاصل کرسکتا ہے اور اس کو چھاپ کر شائع کرنے والا بھی ۔


حدیث نمبر 1 :۔

عن معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ  فی حدیث طویل قال قال رسول صلی الله علیه وسلم رأس الامر الاسلام وعمودہ الصلوٰۃ وذروۃ سنا مه الجهاد۔ (رواہ احمد والترمذی از مشکوٰۃ )

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ایک طویل حدیث کے ذیل میں روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایاکہ ''اصل کام اسلام ہے اور اسلام کا عمود جس پر اس کی تعمیر قائم ہے ، نماز ہے اور اس کا اعلی مقام جہاد ہے"۔ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ مسلمانوں کی عزّت وقوت جہاد پر موقوف ہے ۔ جب وہ جہاد چھوڑدیں گے ، ذلیل اور کمزور ہوجائیں گے ۔


حدیث نمبر 2:۔

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول صلی اللہ علیہ وسلم مثل المجاھدین فی سبیلاللہ کمثل الصائم القائم القانت بآیات اللہ لا یفتر من صیام ولا صلوٰۃ حتٰی یرجع المجا ھدین فی سبیل اللہ ۔( بخاری ومسلم )

رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا کہ اللہ کے لیے جہاد کرنے والوں  کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص مسلسل روزے رکھتا رہے اور رات بھر تہجد کی نماز اور تلاوتِ قرآن میں مشغول رہے ۔ نہ کسی دن روزہ میں سستی کرے اور نہ کسی رات نماز میں ، اور مجاہد کو یہ فضلیت اس وقت تک برابر حاصل رہے گی جب تک وہ لوٹ کر اپنے گھر نہ آجاوے ۔


حدیث نمبر 3:۔

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال مر رجل من اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم بشعب فیہ عینیۃ من مأ عذبۃ فاعجبتہ فقال لوا عترلت الناس فا قمت فی ھذا الشعب فذکر ذٰلک لر سول صلی اللہ علیہ وسلم فقال لا تفعل فان مقام احدکم فی سبیل اللہ افضل من صلوٰۃ فی بیتہ سبعین عاماً الا تحبون ان یغفر اللہ لکم ویدخلکم الجنۃ اغزو فی سبیل اللہ من قاتل فی سبیل اللہ فواق ناقۃ وجبت لہ الجنۃ ( ترمذی )

 رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کے ایک صحابی ایک پہاڑی درہ میں ایک چشمہ پر پہنچے چشمہ میٹھا اور صاف دیکھ کر ان کو پسند آیا اور دل میں کہا کہ یہ جگہ عبادت کے لیے بہت اچھی ہے۔ میں لوگوں سے الگ ہو کر یہیں قیام کرلوں ۔ جب رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس نے خیال کا ذکر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  سے کیا ۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا ، ''ایسا نہ کرو ! اس لیے کہ ایک شخص کا اللہ کے راستہ ( جہاد میں کھڑاہونا اپنے گھر میں رہ کر ستر سال کی نماز سے بہتر ہے ۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرو ۔ جو شخص اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے تھوڑی دیر بھی ، اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے ۔''

فائدہ :۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس وقت میں جہاد کی ضرورت  پیش آ جائے تو اُس وقت خلوت میں بیٹھ کرعبادت کرنے سے جہاد میں حصہ لینا بدرجہا بہتر ہے۔


حدیث نمبر 4:۔

عن ابی ا مامۃ رضی اللہ عنہ والذی نفس محمد صلی اللہ علیہ وسلم بیدہ لغدٰوۃ اوروحۃ فی سبیل اللہ خیر من الدنیا وما فیھا ولمقام احدکم فی الصف خیر من صلوتہ ستین سنۃ ( رواہ احمد )

رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فر مایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کی جان ہے ، اللہ کے راستہ ( جہاد میں ایک مرتبہ صبح یا شام کو نکلنا ساری دنیا اور اس کی تمام نعمتوں سے بدر جہا بہتر ہے اور ایک شخص کا جہاد صف میں کھڑا ہونا گھر میں بیٹھ کر ساٹھ برس کی نمازوں سے بہتر ہے ۔


حدیث نمبر 5:۔

عن عبداللہ بن عمروان رضی اللہ عنہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال قفلۃ کغزوۃ ( رواہ ابوداؤد)

رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا کہ جہاد سے واپسی کے سفر میں بھی وہی ثواب ملتا ھے جو جہاد کے لیے جانے کے وقت ملتا ہے ۔


حدیث نمبر 6 :۔

وعن ابی موسی رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان ابواب الجنۃ تحت ظلال السیوف ، فقام رجل رث الھئیۃ فقال یا اَبا موسیٰ انت سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول ھذا قال نعم فرجع الیٰ اصحابہ فقال اقرأ علیکم اسلام ثم کسر جفن سیفہ فالقاہ ثم مشیٰ بسیفہ الی العدو فضرب بہ حتیٰ قتل ۔۔۔۔۔(رواہُ مسلم )

ترجمہ :۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ جنت کے دروازے تلواروں کے سایہ میں ہیں ۔ یہ سن کر ایک خستہ حال آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا اے ابو موسٰی ! آپ نے خود رسول اللہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم سے یہ ارشاد سنا ہے ؟ انھوں نے فرمایا  کہ ہاں ! یہ شخص فوراً اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آیا اور ان کو آخری سلام کیا اور اپنی تلوار کی میان توڑ کر پھینک دی۔ننگی تلوار لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑا اور مسلسل لڑتا رہا یہاں تک کہ شہید کردیا گیا۔


حدیث نمبر7 :

وعن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ  ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال عرض علی اول ثلثہ یدخلون الجنۃ شھید وعضیف متعفف وعبد احسن عبادۃ اللہ ونصح لموالیہ (رواہ الترمذی)

 رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا کہ میرے سامنے وہ تین آدمی پیش کئے گئے (غالباً شبِ معراج میں) جو سب سے پہلے جنت میں جائیں گے۔ اول شہید فی سبیل اللہ۔دوسرے وہ متقی پرہیزگار جو کوشش کرکے ہر گناہ سے بچتا ہے۔ تیسرے وہ غلام جس نے اللہ تعالٰی کی عبادت بھی خوب کی اور اپنے آقاؤں کی خدمت وخیرخواہی میں بھی کوتاہی نہیں کی۔


حدیث نمبر 8 :

عن عبد اللہ بن حبشی رضی اللہ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم ای الا عمال افضل قال طو ل القیام قیل فای الصد قتہ افضل قال جھد المقل قیل فا ی الھجر ت ا فضل قال من ھجر ما حرم اللہ علیہ قیل فا ی الجھاد افضل قال من جاھد المشر کین بمالہ و نفسہ قیل فا ی القتل اشرف قال من اھریق دمہ و عقر جوا دہ (رواہ ابو دؤد)

نبی کر یم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  سے سوال کیا گیا کہ عبادت میں سب سے افضل کو ن سا عمل ھے ؟  آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم فرمایا کہ نفل نما ز میں طویل قیا م۔ پھر سوال کیا گیا کہ صدقہ کونسا  افضل ہے؟تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ مفلس آدمی جو اپنی مزدوری میں سے خرچ کرے ۔ پھر سوال کیا گیا کہ ہجرت کونسی افضل ہے ؟ تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا اس شخص کی ہجرت افضل ہے جو ہر اس چیز کو چھوڑدے جس کو اللہ تعالی  نے حرام کیا ہے ۔ پھر سوال کیا گیا کہ جہاد کون سا افضل ہے؟تو  آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم فرمایا جس نے اپنی جان اور مال کے ساتھ مشرکین سے جہاد کیا۔پھر سوال کیا گیا کہ اللہ کی راہ میں قتل ہونا کون سا افضل واشرف ہے؟تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم فرمایا کہ جس شخص کا اپنا بھی خون بہا دیا گیا اور اس کا گھوڑا بھی مار دیا گیا۔


حدیث نمبر9 :

عن کعب بن مرۃ رضی اللہ عنہ فی حدیث مرفوع من بلغ العدو بسھم رفعہ اللہ بہ درجہ قال ابن النجار یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وما الدرجہ؟ قال أما انھالیست بعتبۃ امّک ولکن بین الدرجتین مائۃ عام ( رواہ النسانی)

ترجمہ:۔ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص دشمن کو ایک تیر مارے گا تو اللہ تعالٰی اس کی وجہ سے اس کے درجات میں ایک درجہ کا اضافہ فرمادیں گے ۔ ابن بخار رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم ! درجہ سے کیا مراد ہےآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا ارے ! درجہ کا مطلب تمھاری ماں کی دہلیز ہونے سے تو رہا ، بلکہ  دو درجوں کے درمیان سو سال کی مسافت ہے ۔


حدیث نمبر 10 :

وعن انس رضی اللہ عنہ  قال قال رسولاللہ صلی اللہ علیہ وسلم لغدوۃ فی سبیل اللہ وروحۃ خیر من الدنیا وما فیھا ۔( مسلم)

ترجمہ :۔ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ ایک صبح کو اللہ کی راہ میں نکلنا اور ایک شام کو اللہ کی راہ میں (جہاد) میں نکلنا ساری دنیا اور اسکی تمام دولتوں اور نعمتوں سے بہترہے ۔


حدیث نمبر 11 :۔

عن ابی سعید رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعث بعثانی بنی لحیان من ھذیل فقال لیبعث من کل رجلین احدھما والاجر بینھما ( رواہ مسلم )

ترجمہ :۔ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے مجاھدین کا ایک لشکر قبیلہ ہذیل کی شاخ بنی لحیان کے مقابلے کے لیے بھیجا اور جہاد کے لیے نکلنے والے صحابہ کرام کو یہ حکم دیا کہ ہر دو مردوں میں سے ایک مرد جہاد کے لیےجائے ، ایک گھر کی ضرویات وغیرہ کے لیے یہاں رہ جائے اور اس طرح کرنے سے جہاد کا ثواب دونوں میں  مشترک ہو جائے گا۔'' اس حدیث سے معلو م ہوا کہ جہاد صرف محاذ جنگ پر جا کر لڑ نے ہی کا نام نہیں، جو لو گ اپنے اور دوسر ے مسلمانوں کے گھروں کی حفا ظت کے قصد سے شہر میں رہ جائیں وہ بھی مجاھد ہیں۔ کیونکہ محاذ پر لڑنے والے سپاہیوں کی وہ امداد کر رہے ہیں کہ ان کے اہل و عیال اور گھر بار کی حفاظت کر کے ان کو بے فکر کر دیا ہے۔ہمارے ملک میں شہری دفاع کی خدمت انجام دینے والے جو بھی خدمت انجام دیتے ہیں وہ بھی اللہ کے نزدیک مجاہدین کے حکم میں ہیں۔


حدیث نمبر 12:۔

عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یکلم احد فی سبیل اللہ واللہ یعلم من یکلم فی سبیل اللہ الاجاء یوم القیامۃ و جرحہ یثعب وما اللون لون الدم والریح ریح المسک ( بخاری، مسلم)

ترجمہ: رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کی راہ میں زخمی ہو جائے اور اللہ ہی جانتا ہے کہ کون اس کی راہ میں زخمی ہوا ہے،تو وه قيامت كے روز اس حال میں آئے گا کہ اس کے زخم سے خون بہ رہا ہوگا۔وہ صورت میں تو خون ہوگا مگر اس کی خوشبو مشک جیسی ہوگی۔

فائدہ:اس حدیث میں جو یہ جملہ ارشاد فرمایا کہ اللہ ہی جانتا ہے کہ کون اس کی راہ میں زخمی ہوا۔اس سے اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ جس شخص کی نیت ،نام و نمود اور شہرت کی یا کسی اور دنیوی مفاد کے لیے لڑنے کی ہو اور زخمی ہو جائے،وہ اللہ کی راہ میں زخمی نہیں ہوا۔اس کو یہ فضیلت نہیں ملےگی بلکہ یہ فضیلت خاص اس شخص کا حق ہے جواسلام اور مسلمانوں کی حفاظت اور اسلامی ملک سے دشمنانِ دین کی مدافعت کی نیت سے لڑتا ہے۔


حدیث نمبر13:

عن ابی موسٰی رضی اللہ عنہ قال جاء رجل الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال الرجل یقاتل للمغنم والرجل وقاتل للذکر والرجل یقاتل لیری مکانہ فی سبیل اللہ قال من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ھی العلیاء فھو فی سبیل اللہ۔(بخاری ومسلم)

ترجمہ: ۔رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کی خدمت میں ایک آدمی آیااورعرض کیا(جہاد میں لوگ مختلف نیّتوں سےشریک ہوتےہیں)ایک شخص اس نیت سےجہادمیں شریک ہوتا ھے کہ مالِ غنیمت میں حصہ ملےگا۔ایک شخص اس لیےجہاد کرتا ھے کہ  دنیامیں اسکا چرچا ھو گا اور تاریخ میں یادگارباقی رہےگی۔ایک شخص اس لیےجہاد کرتا ھے کہ دنیاکےلوگ یہ محسوس کرلیں کہ یہ اسلام کابڑاخدمت گزار اور جانثار ھے ۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نےفرمایاکہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ان  میں سےصرف وہ ہےجواس نیت سے جہاد کرے گا کہ  اللہ کاکلمہ بلند ھو اور اُس کےدشمن زیرہوں۔


حدیث نمبر14:۔

وعن سھل بن سعد رضی اللہ عنہ  قال قال رسول صلی اللہ علیہ وسلم رباط یوم خیرمن الدنیاوماعلیھا۔ (بخاری ومسلم)

ترجمہ:۔رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نےفرمایاکہ ایک دن کا رباط  ''یعنی اسلامی سرحدوں کی حفاظت کاکام ساری دنیا اور جو کچھ اس میں ہے،ان سب سےبھتر ہے۔


حدیث نمبر15:۔

عن فضالۃ بن عبید رضی اللہ عنہ عن رسول صلی اللہ علیہ وسلم قال کل میت یختم علیٰ عملہ الاالذی مات مرابطاًفی سبیل اللہ فانہ ینمی لہ عملہ الیٰ یوم القیامۃ ویأمن من فتنۃ القبر(ترمذی،ابوداؤد،دارمی)

ترجمہ:۔رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نےفرمایاکہ ہرمرنے والے کے عمل  پرمہرلگادی جاتی ہے۔مرنےکےبعداس کےعمل میں کوئی زیادتی نہیں ہوسکتی ،بجزاس شخص کےجواللہ کی راہ میں کسی سرحدکی نگرانی کرتےہوئےمرگیاتواس کاعمل قیامت تک اس کے اعمال نامےمیں بڑھایاجاتارہےگااورقبرکےسو ال و جواب سےبھی آزاد رھے گا۔


حدیث نمبر 16 :۔

عن سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول رباط یوم ولیلۃ فی سببیل اللہ خیرمن صیام شہر وقیامہ وان مات اجری علیہ عملہ الذی کان یعلمہ واجری علیہ رزقہ وامن الفتان (مسلم )

ترجمہ :۔ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ ایک دن رات کا رباط یعنی اسلامی سرحدوں کی حفاظت کی خدمت انجام دینا ایک مہینے کے مسلسل روزے اور ساری رات نماز تہجد سے افضل ہے اور جو شخص اس حال میں یعنی کسی اسلامی سرحد کی حفاظت کی حالت میں مرجائے تو قیامت تک اس کے تمام نیک عمل ، جو وہ روزانہ کیا کرتا تھا ، برابر اس کے نامئہ اعمال میں لکھےجاتے رہیں گےاور اس کا رزق للہ کی طرف سے جاری رہے گا اور قبر کے عذاب سے محفوظ رہے گا۔


حدیث نمبر 17 :۔

عن ابی عباس رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عینان لا تمسھا النار عین بکت من خشیۃ اللہ وعین باتت تحرس فی سبیل اللہ ۔

تر جمہ :۔ رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے ارشاد فرمایا  کہ دو آنکھیں ایسی ہیں کہ انھیں آگ نہیں چھوئے گی۔ایک وہ آنکھ جو اللہ کے خوف سے رو ئی ہو ۔دو سری وہ آنکھ جس نے جہا د فی سبیل اللہ میں پہرہ دیتے ہوئے رات گزاری ہو۔ آج کل سرحدوں کی حفاظت کرنے والی پولیس جن کو رینجرز کہتے ہے ، ان میں سے بہت سے آدمی اس کو محض ایک نوکری سمجھ کرانجام دیتےہیں،اگروہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کےاس ارشادکوسامنےرکھیں اوریہ خدمت اس عظیم ثواب کی نیّت سےانجام دیں تو نوکری کےساتھ یہ عظیم الشان دولت بھی ان کوحاصل ہوگی۔ ان کو اپنی اور خانگی ضرورتوں کے لیے ان کو جو تنخواہ ملتی ہےوہ اس ثواب سے ان کو محروم نہ کرے گی ۔ شرط یہی ہے کہ اس خدمت کی انجام دہی میں اصل نیت ''رباط'' یعنی اسلامی سرحد کو دشمنانِ دین سے محفوظ رکھنے کی ہو ۔


حدیث نمبر 18 :۔

عن ابن عباس رضی اللہ عنہ رفعہ لا اخبرکم بخیرالناس منزلا قلنا بلیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال رجل اخذ برأس فرسہ فی سبیل اللہ حتیٰ یعود اویقتل الا اخبرکم باالذی یلیہ قلنا نعم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال رجل معتزل فی شعب من اشعب یقیم اصلوۃ ویؤتی الزکوۃ ویعتزل الناس شرہ او اخبرکم بشرالناس قلنا نعم یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال الذی یسئل با اللہ ولا یعطی بہ(مالک ۔ ترمذی ۔ نسائی)

ترجمہ :۔ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا کہ میں تمھیں بتلاؤں کہ سب انسانوں سے ذیادہ اچھا مقام اللہ کے نزدیک کس کا ہے ؟ وہ شخص جو اپنا گھوڑا لے کر اللہ کی راہ میں کسی اسلامی سرحد کی حفاظت میں لگ گیا اور یہی مقیم رہا یہاں تک کہ مرجائے یا قتل کردیا جائے ۔ پھر فرمایا کہ میں تمھیں بتلاؤں کہ اس شخص کے قریب کس کا درجہ ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا ضرور فرمایئے ۔ فرمایا جو کسی پہاڑ کی گھائی جا کر مقیم ہو گیا اور نماز اور زکوۃٰ ادا کرتا ، لوگوں کو اپنی ایذاؤں سے بچایا ۔ پھر فرمایا تمھیں سب سے بد ترین آدمی کا پتہ دوں؟ صحابہ نے عرض کیا ضرور ! آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا کہ وہ شخص دوسروں سے اللہ کے نام پر مانگتا ہے مگر جب کوئی اس سے اللہ کےنام پر مانگے تو اسےکچھ نہیں دیتا ۔


حدیث نمبر 19 :۔

عن انس رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مامن احد یدخل الجنۃ یحب ان یرجع الی الدنیا ولہ ما فی الارض من شئی الااشہید یتمنٰی ان یرجع الی الدنیا فیقتل عشر مرات لما یری من الکرامۃ ۔(بخاری و مسلم)

ترجمہ :۔ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ کوئی شخص جو جنت میں داخل ہوجائے اور پھر اسکو یہ کہا جائے کہ تو لوٹ کر دنیا میں چلا جا ، ساری دنیا کی حکومت ودولت تجھے دے دی جائے گی تووہ کبھی جنت سے نکل کر دوبارہ دنیا میں آنے پرراضی نہ ہوگا ، بجزشہید کے جو یہ تمنا ظاہر کرے گا کہ مجھے دنیا میں بھیج دیا جائے تاکہ میں پھر جہاد کرکے شہید ہوں ۔ اسی طرح دس مرتبہ زندہ کرکے دنیا میں بھیجا جاؤں ، پھر شہید ھو کر آؤں ۔ کیونکہ اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا بڑے اعزاز و اکرام کا مشاہدہ کرے گا ( جو کسی اور عمل کا نہیں ہے) ۔


حدیث نمبر 20 :۔

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والذی نفسی بیدہ لو ددت ان اقتل فی سبیل اللہ ثم احیی اقتل ثم احیی ثم اقتل ۔ ( بخاری و مسلم)

ترجمہ :۔ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا کہ میری تمنا ہے کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں اور پھر مجھے زندہ کیا جا ئے ، پھر قتل کیا جاؤں ، پھر زندہ کردیا جائے ، پھر قتل کیا جاؤں ، پھر زندہ کر دیا جائے ، پھر قتل کیا جاؤں ۔


حدیث نمبر 21 :۔

عن عقبہ بن عبد السلمی رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم القتلی ثلثہ مؤمن جاھد بنفسہ ومالہ فی سبیل اللہ فاذا لقی الحدو قاتل حتی یقتل قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیہ فذالک الشھید الممتحن فی خیمۃ اللہ تحت عرشہ لا یفضلہ النبیون الا یالنبوۃ ومؤمن خالط عملا صالحاً وآ خر سیئاً جاھد بنفسہ وما لہ فی سبیل اللہ اذالقی العدو قاتل حتی یقتل قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم مصمصۃ محت ذنوبہ وخطایاہ ان السیف محاء للخطایا واد خل الجنۃ من ای باب شاء ومنافق جاھد بنفسہ ومالہ فی سبیل اللہ اذا لقی العدو وقاتل حتی یقتل فذلک فی النار ان السیف لا یمحو النفاق۔( دارمی از مشکوۃٰ)

ترجمہ:۔رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   نے ارشاد فرنایا جہاد میں قتل ہونےوالےتین طرح کےآدمی ہیں۔ایک وہ شخص ہےجوخودمؤمن کامل،صالح ہے۔اس کےساتھ اس نےاللہ کی راہ میں اپنی جان ومال سے جہادکیااورجب دشمن سےاس کامقابلہ ہوا تو ڈٹ کرلڑایہاں تک کہ قتل کردیاگیا۔اس شخص کےبارےمیں رسول اکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  صلی  نےفرمایاکہ یہی وہ اصل شہیداورامتحان میں کامیاب ہےجوقیامت کےدن عرشِ رحمنٰ کےنیچےخیمہ میں ہوگااورانبیاء سےاس کامقام صرف اتناہی کم ہوگاجودرجئہ نبوّت کاتقاضاہے۔ دوسراوہ شخص ہےجومؤمن مسلمان توہےمگرعمل میں کچھ نیک کام کیے،کچھ برُےکیے،پھراس نے اپنی جان ومال سےاللہ کی راہ میں جہادکیااوردشمن کےمقابلےمیں لڑا،یہاں تک کہ قتل کردیاگیا۔اس شخص کے بارے میں رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نےفرمایاکہ اس کاجہادمصمصہ(یعنی سینگ کی طرح چوس کرفاسدمادہ نکالنےوالا)ہےجس نےاس کے سب گناہوں کومٹادیا۔اورتلوارسب خطاؤں کومٹادینےوالی ہے۔یہ شخص جس دروازےسےچاہےجنت میں داخل ہوسکےگا۔تیسرا وہ منا فق ہے جس نے اپنی جان و ما ل سے جہا د کیا اور دشمن سے لڑ کر مقتو ل ہو گیا (مگرنیت خا لص اللہ کےلیے نہیں تھی) یہ جہنم میں جا ئےگا ، کیو نکہ تلوا ر کفر ونفا ق کو نہیں مٹا سکتی۔


حدیث نمبر 22 :۔

عن ابی سھل بن حنیف رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من سأل اللہ الشہادۃ بصدق بلغہ اللہ منازل الشہادۃ وان مات علیٰ فراشہ (رواہ مسلم )

ترجمہ :۔ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   نے فرمایا کہ جو شخص سچے دل سے اللہ تعالٰی سے شہید ہونے کی دعا مانگے تو اس کو اللہ تعالےٰ شہیدوں ہی کے مرتبے پر پہنچادے گا ، اگر چہ وہ اپنے بسترپر مرے۔


حدیث نمبر 23 :۔

عن ابی مالک الاشعری رضی اللہ عنہ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول من فصل فی سبیل اللہ فمات اوقتل او وقصہ فرسہ او لعبیرہ او لد غتہ ھامۃ اومات علیٰ فراشہ بای حتف شاء اللہ فانہ شہیدو ان لہ الجنۃ ۔ (ابوداؤد)

ترجمہ:۔رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   نے فرما یا کہ جو شخص جہاد کے لیے نکلا ، پھر اسکو موت آگئی یا کسی نے قتل کردیا ،یا سواری سے گر کر مر گیا ،یا کسی زہریلےجانور نے کاٹ لیا یا اپنے بستر پر کسی مرض میں مر گیا تووہ بھی شہید ہے اور اس کے لیے جنت ہے۔


حدیث نمبر 24 :۔

عن انس رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال جاھدوا المشرکین باموالکم وانفسکم والسنتکم (رواہ ابو داؤد والنسائی والدارمی )

ترجمہ :۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   نے فرمایا کہ مشرکین کے خلاف جہاد کرو اپنے مالوں سے ، اپنی جانوں سے اپنی زبانوں سے۔ مال کا جہاد تو یہ ہے کہ جہاد کے کاموں میں مال صرف کیا جائے ،اور زبان کا جہاد یہ کپ لوگوں کو جہاد کی ترغیب دے کر اس پر آمادہ کریں اور جہاد کے احکام بتلائیں اور یہ بھی کہ پنی گفتگو اور تقریر سے دشمن کو مرعوب کرے ۔ ایسی نظمیں جن سے مسلمانوں میں جذبہ جہاد قوی ہو ، یا جن سے دشمنوں کی تذلیل ہو ، وہ بھی اس جہاد میں شامل ہیں ۔جیسے حضرت حسان ثابت رضی اللہ عنہ جو شعرائے صحابہ میں سے ہیں ، ان کی نظمیں جو مشرکین مکہ کے مقابلہ پر کہی گئی ہیں ، ان کو جہاد قرار دیا گیا ہے ، اسی طرح  قلم سے لکھنے کو بھی جہاد کہا گیا ۔ اصج کےجدید دور میں قلم کا استعمال نہ ھونے کے برابر ھے لہذا نیٹ کی مدد سے یعنی کمپیوٹر یا موبائل وغیرہ سے  لکھنا بھی زبان سے بولنے کے قائم مقام ہونے کے سبب اسی حکم میں داخل ہے ۔


حدیث نمبر 25 :۔

عن حزیم بن فائتک رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من انفق نفقۃً فی سبیل اللہ کتب لہ بسبع مائۃ ضعف ۔ (الترمذی والنسائی )

ترجمہ :۔ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کی راہ میں (یعنی جہاد میں) کچھ مال خرچ کرتا ہے تو سات سو گنا لکھا جاتا ہے ۔ یعنی ایک روپیہ خرچ کرے تو سات سو روپیہ خرچ کرنے کا ثواب ملتا ہے ۔



حدیث نمبر 26 :۔

وعن ابی الدرداء وابی ھریرہ وابی امامہ وعبد اللہ بن عمر وجابر بن عبد اللہ وعمران بن حصین رضی اللہ عنہ (عنہم) کلھم یحدث عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال من ارسل نفقۃ فی سبیل اللہ واقام فی بیتہ فلہ بکل درھم سبع مائۃ درھم ومن غزا بنفسہ فی سبیل اللہ وانفق فی وجھہ ذٰلک فلہ بکل درھم سبع مائۃ الف درھم(ابن ماجہ)

ترجمہ :۔ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   نے فرمایا کہ جس شخص نے جہاد کے لیے کچھ مال خرچ کیا مگر خود جہاد میں نہیں گیا اس کو ایک درہم پر سات سو درہم کے برابر ثواب ملے گا اور جس نے خود جہاد بھی کیا اور اس میں اپنا مال بھی خرچ کیا تو اس کے ایک درہم کا ثواب سات لاکھ درہم کے برابر ہوگا ۔


حدیث نمبر 27 :۔

عن عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سئل النبی صلی اللہ علیہ وسلم ای الصدقۃ افضل قال اخدام عبد فی سبیل اللہ او اظلال فسطاط فی سبیل اللہ (ترمذی)

ترجمہ:۔ کسی نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   سے سوال کیا کہ سب سے افضل صدقہ کونسا ہے ؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا کہ جہاد کے لیے کوئی غلام دے دینا یا مجاہدین پر سایہ کرنے کے لیے کوئی خیمہ بطورِ عاریت کے دے دے۔


حدیث نمبر28:

عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ  قال وعدنا النبی صلی اللہ علیہ وسلم عزوۃ الھند فان ادرکتھا انفق فیھا نفسی ومالی فان قتلت کنت افضل الشہداء وان رجعت فانا ابوھریرۃ المحرر (نسائی)

ترجمہ: حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے ہم سے ہندوستان کے جہاد کا وعدہ فرمایا ہے ۔ اگر میں نے اپنی زندگی میں اس کو پا لیا تواپنا سارا زور اور اپنی جان اس میں خرچ کرونگا، پھر اگر میں قتل کردیا گیا تو افضل الشہداء ہو جاؤں گا اور اگر زندہ لوٹا تو میں جہنم سے آزاد ابوھریرہ رضی اللہ عنہ (عنہم) ہوں گا۔

فائدہ: حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ  کے بیان سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   نے ہندوستان کے جہاد میں شریک ہونے والوں کے لیے یہ عظیم الشان خوشخبری دی ہے کہ جو شخص اس جہاد میں شریک ہو جائیگا وہ افضل الشہداء ہوگا اور جو زندہ واپس آجائےگا وہ عذاب الہی سےآزاد قراردیا جائےگا۔ ہندوستان کے جہاد کی خاص فضیلت کا بیان جیسے حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں ہے اسی طرح ایک دوسری حدیث حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے منقول ہے جس کا متن یہ ہے:


حدیث نمبر29:

و عن ثوبان رفعہ رضی اللہ عنہ عصابتان من امتی اجارھم اللہ من النار عصابۃ الغزوۃ الہند و عصابۃ تکون مع عیسٰی ابن مریم( اوسط، طبرانی)

ترجمہ: رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا کہ دو جماعتیں میری امت میں ایسی ہیں جن کے لیے اللہ تعالٰی نے جہنّم سے نجات لکھ دی ہے۔ ایک وہ جماعت جو ہندوستان پر جہاد کرےگی۔دوسری وہ جماعت جو آخر زمانہ میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کے نازل ہونے کے بعد ان کے ساتھ ہوگی۔

ان دونوں حدیثوں میں جو فضائل غزوہ ہند کے ارشاد فرمائے گئے ہیں اس میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستان پر جہاد تو پہلی صدی ہجری سے لیکر آج تک محتلف زمانوں میں ہوتے رہیں ہیں، اور سب سے پہلا سندھ کی طرف سے محمد بن قاسم کا جہادہے جس میں بعض صحابہ رضی اللہ عنہم اور اکثر تابعیں کی شرکت نقل کی جاتی ہے۔ تو کیا اس سے مراد پہلا جہاد ہے یا جتنے جہاد ہوچکے ہیں یا آئندہ ہوں گے وہ سب اس میں شامل ہے؟

الفاظ حدیث میں غور کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ حدیث عام ہیں۔ اس کو کسی خاص جہاد کے ساتھ مخصوص و مقیّد کرنے  کی کوئی بظاھر کوئی وجہ نہیں۔ اس لیے جتنے جہاد ہندوستان میں محتلف زمانوں میں ہوتے رہے وہ بھی اور پاکستان کا حالیہ جہاد بھی اور آئندہ جو جہاد ہندوستان کے کفار کے خلاف ہوگا وہ سب اس عظیم الشان بشارت میں شامل ہیں۔


حدیث نمبر 30 :۔

عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ  قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من مات ولم یغزو لم یحدث بہ نفسہ مات علےٰ شعبۃ من النفاق (رواہ مسلم )

ترجمہ :۔رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   نے فرمایا ، جس شخص نے نہ کبھی جہاد کیا اور نہ اپنے دل ہی میں جہاد کا ارادہ کیا وہ ایک قسم کی نفاق پر مرے گا ۔


حدیث نمبر 31 :۔

وعن ابی امامۃ رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من لم یغزو او یجھز غاز یا او یخلف غاز یانی اھلہ بخیر اصابہ اللہ بقارعۃ قبل القیامہ (رواہ ابوداؤد)

ترجمہ:۔ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   نے فرمایا کہ جس شخص نے نہ کبھی جہاد کیا ، نہ کسی مجاہد کو سامانِ جہاد دیا ، اور نہ کبھی کسی مجاہدِ فی سبیل اللہ کی یہ خدمت انجام دی کہ اس کے اہل وعیال کی نگرانی بلا کسی غرضِ دنیوی کے پوری طرح کی تو قیامت سے پہلے پہلے اللہ تعالٰی اس پر عذاب نازل فرمائیں گے ۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ جہاد میں کسی نہ کسی طرح حصہ ضرور لے۔ اگر محاذ پرجا کر لڑنے کی قوت و قدرت نہیں تو مجاہدین کو سامان فراھم کرنے میں حصہ لے ، اور یہ بھی نہ ہوسکے تو مجاہدین کے اہل وعیال کی خدمت خالص اللہ کے لیے دنیوی اغراض سے پاک ہوکر کرے اور جو لوگ جہاد کے کسی کام میں حصہ نہ لیں وہ خدا کے عذاب اور مصائب کو دعوت دیتے ہیں

کچھ عجب نہیں کہ پاکستان کے مسلمانوں کو جو اللہ تعالٰی نے جہاد میں حصہ لینے کایہ موقع عطا فرمایا ہے ،اگر ہم اس کی اہمیت کو محسوس کر کے آگے بھی جہاد کی تیاری کو نہ چھوڑیں تو ہم پر جو آفات ومصائب طوفانوں اور دوسرے صورتوں سے آئے دن مسلط رہتے ہیں اس کی برکت سے اللہ تعالٰی پورے پاکستان کو ان سے نجات عطا فرما دے آمین  ۔


حدیث نمبر 32 :۔

وعن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ  قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من لقی اللہ اثر من جہاد لقی اللہ وفیہ ثلمۃ( رواہ الترمذی وابن ماجہ )

ترجمہ :۔ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   نے فرمایا جو شخص قیامت کے روز اللہ کے سامنے اس طرح  حاضر ہوگا کہ اس کے بدن پر کوئی نشان جہاد کا نہ ہو تو وہ ایک عیب کے ساتھ اللہ سے ملے گا ۔


حدیث نمبر 33 :۔

عن عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ (عنہم) قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وھو علی المنبر یقول واعدّ وا لھم ما استطعتم من قوۃ الاان القوۃ الرمی الا ان القوۃ الرمی الا ان القوۃ الرمی ۔(رواہ مسلم )

ترجمہ:۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   کو برسر منبر یہ فرماتے ہوئے پایا کہ قرآنِ کریم کی آیت میں جو مسلمانوں کو دشمنوں کے مقابلے کے لیے قوت بہم پہنچانے کا حکم ہے ، یہ قوت تیر اندازی ہے ۔ یہ بات آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   نے تین مرتبہ مکرر کرکے فرمائی۔

فائدہ:۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   کے عہد مبارک میں چونکہ جنگ ہی تیر اور تلوارکی تھی اس لیے تیر اندازی اور نشانہ کی مشق واستعداد ہی کو قوت فرمایا ۔ مگر اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ جب جنگ توپوں اور بموں کی ہو توان کے استعمال کے طر یقے ہی جنگی قوت قرار دئیے جائیں گے اور حکم قرآنی کی تعمیل انھی طاقتوں کی فراہمی سے ہوگی۔


حدیث نمبر 34 :۔

عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من احتبس فرساً فی سبیل اللہ ایمانا باللہ وتصدیقا بوعدہ فان شبعہ وریہ وروثہ وبولہ فہ المیزان یومالقیامہ ۔(رواہ البخاری)

ترجمہ :۔ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   نے فرمایا کہ جس شخص نے اللہ کی راہ میں کوئی گھوڑا جہاد کے لیے وقف کردیا اللہ پر ایمان اور اس سے وعدہ کی تصدیق کرتے ہوئے ، تو اس گھوڑے کا کھانا پینا ، لیداور پیشاب کرنا سب کا ثواب قیامت کے دن اس کی میزانِ عمل میں رکھا جائے گا ۔

فائدہ:۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   کے عہد مبارک میں چونکہ جہاد کے لئے گھوڑے استعمال ھوتے تھےاس لیے گھڑوں کا ذکر فرمایا  ۔ مگر اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ جب جنگ  کی لئے جو مشینری استعمال ھوتی ھے تو اس میں کلی طور پر یا جزوی طور پر حصہ لینا جنگی قوت قرار دئیے جائیں گے اور حکم قرآنی کی تعمیل انھی ذرائع کی فراہمی سے ہوگی۔


حدیث نمبر 35 :۔

عن عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ  قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول ان اللہ یدخل بالسھم الواحد ثلث نفرفی الجنۃ صانعہ یحتسب فی صنعتہ الخیر والرامی بہ ومنبلہ فارمواوارکبو او ان ترمو ااحب الی من ان ترکبوا (ترمذی)

ترجمہ :۔ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی ایک تیر کی خاطر تین آدمیوں کو جنت میں داخل کریگا ۔ اول اس کا بہ نیت ثواب وجہاد بنانے والا، دوسرا اس کو جہاد میں استعمال کرنے والا، تیسرا اس کی نوک اور بھال کو درست کرنے والا۔ اس لیے تیر اندازی کیا کرو اور گھوڑے کی سواری کی مشق کرو، اور میرے نزدیک تیر اندازی کی مشق گھوڑے کی سواری کی مشق سے ذیادہ بہتر ہے ۔


حدیث نمبر 36 :۔

عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم للغازی اجرہ وللجاعل اجرہ واجرالغازی۔ (رواہ ابو داؤد)

ترجمہ :۔ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   نے فرمایا کہ غازی کو تو اس کے غزوہ اور جہاد کا ثواب ملتاہےاور جس شخص نے اس کو مال دےکر جہاد کے لیے بھیجا ہے ، اس کو اپنے مال کا ثواب بھی ملے گا اور غازی کے عمل کا بھی ۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جہاد کرنے والے فوجیوں کی تنخواہ یا دوسرے سامان کے لیے مال خرچ کرنے والے بھی ان مجاہدین کے جہاد کا ثواب پاویں گے ۔


حدیث نمبر 37:۔

وعن زید بن رضی اللہ عنہ خالد ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال من جھّز غازیا فی سبیل اللہ فقد غزی ومن خلف غازیا فی اھلہ فقد غزی ۔(بخاری و مسلم )

ترجمہ :۔ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی غازی کو جہاد کا سامان دے دیا اس نے بھی جہاد کیا اور جو شخص کسی غازی کے گھر والوں کی نگرانی اور خبر گیری میں لگا رہا اس نے بھی جہاد کر لیا ۔


حدیث نمبر 38 :۔

وعن ابن مسعود رضی اللہ عنہ  القتل فی سبیل اللہ یکفر الذنوب کلھا الامانۃ والامانۃ فی الصلوۃ والصوم والا مانۃ فی الحدیث واشد ذٰلک الوداع (کبیر طبرانی )

ترجمہ:۔رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں قتل ہونا سب گناہوں کا کفارہ کردیتا ہے مگر امانت میں خیانت معاف نہیں ہوتی ، پھر فرمایا کہ صرف مال ہی میں نہیں بلکہ نماز ، روزے اور کلام میں بھی ہے ۔ البتہ ان سب میں زیادہ سخت وہ امانت ِ اموال ہے جو کسی کے سپرد کی گئی ہو۔


حدیث نمبر 39 :۔

عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال القتل فی سبیل اللہ یکفر کل شی الاالدین ۔

ترجمہ:۔نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں قتل ہونے سے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں مگر جو کسی کا قرض  اس کے ذمہ ہے وہ معاف نہیں ہوتا (اس کو یا خود ادا کرے یا وصیت ادا کرنے کی کسی معتمد کو کردے )۔


حدیث نمبر 40 :۔

عن انس رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من حرس لیلۃ علی ساحل البحر کان افضل من عبادۃ فی اھلہ الف سنۃ (رواہ الموصلی بلین)

ترجمہ:۔رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ایک رات سمندر کے کنارے پر پہرہ دے تو اس کا یہ عمل اپنے گھر میں ایک ہزار سال کی عبادت سے افضل ہے

شاہ ولی اللہ  رحمہ اللہ نے "حجۃ اللہ البالغہ" میں  مشروعیت جہاد کی جو مصلحتیں بیان فرمائی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ: جہاد کی مشروعیت اس وجہ سے ہے تاکہ روئے زمین پر فتنہ وفساد نہ رہے، امن عام ہوجائے، اللہ کا کلمہ بلند ہو، اور کفر کا کلمہ ذلیل ورسوا ہو، نیز جہادِ اسلام کو پھیلانے اور ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے مشروع کیا گیا  ہے جو حق کی دعوت کے راستہ میں داعیوں اور مبلغین کے آڑے آتی  ہیں، اسی طرح ان لوگوں کا ہاتھہ پکڑنے کے لیے  جہاد مشروع کیا ہے جن کا نفس ان داعیان کو تکلیف دینے اور ان پر ظلم کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ (رحمۃ اللہ الواسعۃ)

اب اس حکمت کو مد نظر رکھ کر اور اعلاء  کلمۃ اللہ کی نیت  سے جو بھی جہاد کرے گا  وہ  فضیلت واجر کا مستحق ہوگا۔یہ کہنا کہ صحابہ کرام  پر ظلم ان کی دین داری کی وجہ سے ہوا تھا اور ہم پر ہماری بے دینی کی وجہ سے ،اس سلسلے میں سورۃ البروج  کی یہ آیت غوروفکر کے لیے مدنظر رکھنی چاہیے جس میں ارشاد باری تعالی ہے: 

وَمَا نَقَمُوْا مِنْـهُـمْ اِلَّآ اَنْ يُّؤْمِنُـوْا بِاللّـٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَـمِيْدِ (8) 

اور ان سے اسی کا تو بدلہ لے رہے تھے کہ وہ اللہ زبردست خوبیوں والے پر ایمان لائے تھے۔

 (  البروج )

یعنی مسلمانوں کا قصور اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ کفر کی ظلمت چھوڑ کر اللہ کی ذات پر ایمان لے آئے۔ مختلف  روایات  سے ثابت ہوتا ہےکہ قتال سے قبل کفار کو  دعوت  بھی صرف اجمالی طور پر دی جاتی تھی نہ کہ تفصیلی۔ اور وہ بھی عاجزی اور منت سماجت کے ساتھ نہیں، بلکہ سینہ تان کر اور مجاہدانہ لب و لہجہ میں تلوار لٹکا کر ، مسلح ہو کر۔ اور یہی دعوت اتمامِ حجت ہے جس کا انکار موجبِ عذابِ الہی ہے۔

حاصل کلام یہ کہ  جہاد کا مقصد اعلاء کلمۃ اللہ ہے اوراس کے ثمرات  و نتائج  کے طور پر اللہ پاک  جہاد کرنے والوں کو زمین کی خلافت کا آنعام بھی نصیب فرمادیتے ہیں۔


جاری ھے۔۔۔۔۔



Share: