علم کی اھمیت اور فضیلت


بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّـذِىْ خَلَقَ 0 خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ 0 اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْـرَمُ 0 اَلَّذِىْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ 0 عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ 0
اپنے رب کے نام سے پڑھیے جس نے سب کو پیدا کیا۔ انسان کو خون بستہ سے پیدا کیا۔ پڑھیے اور آپ (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کا رب سب سے بڑھ کر کرم والا ہے۔ جس نے قلم سے سکھایا۔ انسان کو سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۔
اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا، اور قرآن کریم میں ایک سورة کا نام ہی “سورة القلم”،رکھا جس کے شروع میں اللہ نے قلم کی قسم کھائی جو علم کی اہمیت پر دلالت کرتی ہے

علم کی فضیلت وعظمت، ترغیب و تاکید مذہب اسلام میں جس بلیغ ودلآویز انداز میں پائی جاتی ہے اس کی نظیر اور کہیں نہیں ملتی، تعلیم وتربیت، درس وتدریس تو گویا اس دین برحق کا جزولاینفک ہے، کلام پاک کے تقریباً اٹھتر ہزار الفاظ میں سب سے پہلا لفظ جو پروردگار عالم جل شانہ نے رحمت عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کے قلب مبارک پر نازل فرمایا وہ "اِقْرَأ " ہے، یعنی پڑھ، اور قرآن پاک کی چھ ہزار آیتوں میں سب سے پہلے جو پانچ مذکورہ بالا آیتیں نازل فرمائی گئیں ان سے بھی قلم کی اہمیت اور علم کی عظمت ظاہر ہوتی ہے، 

گویا وحی الٰہی کے آغاز ہی میں جس چیز کی طرف سرکار دوعالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذریعے نوعِ بشر کو توجہ دلائی گئی وہ لکھنا پڑھنا اور تعلیم وتربیت کے جواہر وزیور سے انسانی زندگی کو آراستہ کرنا تھا، یہاں ضمناً اس حقیقت کو واضح کردینا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ جہاں عام انسانوں کیلئے قلم حصول علم کا ایک دنیوی اور مادی ذریعہ ہے وہاں رحمة للعالمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  اور رب العالمین کے درمیان حضرت جبریل امین علیہ السلام ایک نورانی اور ملکوتی واسطہ ھیں ۔یہ وہی ملکوتی واسطہ ہے جس نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو حصول علم کے مادی ذرائع سے بے نیاز کردیا، اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعلیم وتربیت براہ راست خود خالق کائنات نے فرمائی، جس کی تشریح کلام پاک میں موجود ہے:

وَاَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَعَلَّمَکَ مَالم تَکُنْ تَعْلَمُ.

یعنی اور اتاری اللہ نے آپ (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) پر کتاب اور حکمت اور آپ (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ )کو سکھائیں وہ باتیں جو آپ ( صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) جانتے نہ تھے۔

علم وحکمت اور دین و دانائی کا درجہ اور علم والوں کا رتبہ اسلام میں کس قدر بلند ہے اس کا اندازہ کلام پاک کی مندرجہ ذیل آیات سے ہوتا ہے:

یُوٴْتِی الْحِکْمَةَ مَنْ یَّشَآءُ وَمَنْ یُّوٴْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا.

یعنی اللہ جسے چاہتا ہے عقل اور دانائی کی باتیں مرحمت فرماتا ہے، اور جسے اللہ عقل اور دانائی کی باتیں بخشتا ہے اسے بہت بڑی نعمت عطا کرتا ہے۔

کسی بھی فرد ، قوم یا معاشرے کےلئے علم کا حصول اس کی ترقی  و عروج کا ضامن ھوتا ہے اور علم سے دوری  نہ صرف فرد  کی ناکامی بلکہ قوموں اور معاشروں کی تنزلی  اور ان کے زوال کی وجہ بنتی ہے۔ علم ہرانسان کے لیے چاہے وہ امیر ہو یا غریب ،مرد ہو یا عورت ایک بنیادی ضرورت ہے یہ انسان کا حق ہے کوئی بھی اسے چھین نہیں سکتا اور اگر دیکھا جائے  تو انسان اور حیوان میں فرق بھی علم ہی کی بدولت ہے۔ خود حضور پرنور  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے متعدد مواقع پر اور مختلف پیرایوں میں علم وحکمت کی ترغیب دلائی ہے۔ مثال کے طور پر چند احادیث نبویہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے درج کی جاتی ہیں:

(۱) طلب العلم فریضة علی کل مسلم.

یعنی طلب کرنا علم کا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔

(۲) حضرت انس رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے کہ جو شخص علم کی طلب میں نکلا وہ گویا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنے وطن واپس لوٹے۔

(۳) ابوامامہ رضى الله تعالى عنه سے مروی ہے کہ فرمایا رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کہ ایک عالم کی برتری ایک عبادت گذار پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے کسی ادنیٰ شخص پر، اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اوراس کے فرشتے اور زمین وآسمان کی ہر شے حتیٰ کہ بلوں کی چیونٹیاں اور سمندروں کی مچھلیاں بھی علم سیکھنے اور سکھانے والوں کے لئے دعائے خیر کررہی ہیں۔

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ اسلام یا قرآن ہم کو تعلیم حاصل کرنے سے روکتا نہیں، بلکہ تعلیم کو ہمارے لئے فرض قرار دیتا ہے، وہ تعلیم کے ذریعے ہم کو صحیح معنوں میں اشرف المخلوقات کے درجہ پر پہنچانا چاہتا ہے، وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حقیقی علم ثابت کرتا ہے، اور اس کو بنی نوع انسان کی حقیقی صلاح وفلاح اور کامیابی وبہبودی کا ضامن بتاتا ہے، وہ کہتا ہے کہ قرآن حقیقی علم ہے ، اور دوسرے تمام علوم وفنون معلومات کے درجہ میں ہیں، ان تمام معلومات کو اپنی اپنی استعداد کے مطابق حاصل کرسکتے ہیں، کیونکہ ان سب کے اصول حضرت آدم عليه السلام ہی کے خمیر میں ودیعت کردئے گئے ہیں جیسا کہ کلام پاک کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے:

وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْـمَآءَ كُلَّهَا ثُـمَّ عَرَضَهُـمْ عَلَى الْمَلَآئِكَـةِ فَقَالَ اَنْبِئُوْنِىْ بِاَسْـمَآءِ هٰٓؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُـمْ صَادِقِيْنَ (31) 

اور اللہ نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھائے پھر ان سب چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا پھر فرمایا مجھے ان کے نام بتاؤ اگر تم سچے ہو۔

 رسول کریم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے اسے کیسے بلیغ انداز میں فرمادیا ہے:

عن ابي هريرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الكلمة الحكمة ضالة المؤمن , حيثما وجدها , فهو احق بها".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے فرمایا: ”حکمت و دانائی کی بات مومن کا گمشدہ سرمایہ ہے، جہاں بھی اس کو پائے وہی اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے

یہی وجہ ہے کہ تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ علم وحکمت اور صنعت وحرفت کے وہ ذخائر جن کے مالک آج اہل یورپ بنے بیٹھے ہیں ان کے حقیقی وارث تو مسلمان ہیں، لیکن اپنی غفلت وجہالت اور اضمحلال وتعطل کے سبب یہ اپنی خصوصیات کے ساتھ اپنے تمام حقوق بھی کھوبیٹھے۔

باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو              

پھر پسر وارثِ میراث پدر کیوں کر ہو

ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ دینی علوم کے علاوہ دنیاوی وعمرانی علوم کا کوئی شعبہ یا پہلو ایسا نہیں ہے جو اہل اسلام کے ہاتھوں فروغ نہ پایا ہو، علم کیمیا، طب، جراحی، ہندسہ، ریاضیات یا ہیئت وفلکیات، طبیعات وحیوانیات ارضیات وحیاتیات، معاشیات واقتصادیات، تاریخ وجغرافیہ اور خدا جانے کتنے بے شمار علوم وفنون اور بیش بہا ایجادات واختراعات کے ایسے ماہر وموجد مسلمان گذرے ہیں کہ اس دور جدید میں بھی ترقی یافتہ قومیں اپنے جدید سے جدید انکشافات وتحقیقات کے لئے ہمارے آبا واجداد کی تشریحات وتسخیرات کی خوشہ چین اور رہین منت ہیں،جیسا کہ بہت سے شہرۂ آفاق مصنّفین وموٴرخین کی بلند پایہ تصانیف اس کی گواھی دے رھی ھیں ۔ 

اہل اسلام کے اس دور ترقی اور موجودہ تہذیب یورپ کے درمیان جو اصولی اور بنیادی فرق معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان کی ترقی کی بنا خداپرستی اور اطاعات خداوندی پر رکھی گئی تھی اور موجودہ تہذیب وترقیات کی تہ میں مادہ پرستی، شکم پروری، اور اطاعت نفس کارفرما ہے، مسلمانوں کا منتہائے مقصد رضائے الٰہی اور خدمت خلق تھا، وہ دنیاوی طاقتوں کی تسخیر احکام الٰہی اور قوانین قرآن کے ماتحت کیا کرتے تھے، وہ کائنات کے ہر ذرہ میں، اور ہر ذرہ کی کائنات میں آیاتِ الٰہیہ کا سراغ لگاتے تھے، انھوں نے دنیا یا دنیا کی کسی چیز کو مقصود بالذات نہیں بنایا، ان کی حکومت ودولت، ان کا جاہ وجلال، ان کے علوم وفنون اسباب وذرائع تھے معرفت کردگار اور عبادت پرودرگار کے برعکس  مغربی تہذیب وتمدن کی بنیاد چونکہ مادہ پرستی پر رکھی گئی تھی، اس لئے الحاد ودہریت افراد جماعت کے رگ وپے میں سرائت کرگئی ہے، اس قسم کی تہذیب کا لازمی اور قدرتی نتیجہ قوانین فطرت سے جنگ، خالق ومالک سے بغاوت اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔

مسلمان جب تک اسلام کی صاف اور سیدھی راہ پر چلتے رہے یعنی احکام الٰہی اور تعلیمات نبوی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو اپنے لئے مشعل راہ بنائے رکھا اس وقت تک ظاہری ومعنوی ہر طرح کی سربلندیوں اور سرافرازیوں سے خود بھی مالامال ہوتے رہے، اور نوع انسانی بھی ان کے فیوض وبرکات سے مستفیض ہوتی رہی، جب انھوں نے دین کا دامن چھوڑا تو فضل الٰہی نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا ، برکتوں اور عزتوں نے ان سے منہ موڑ لیا ، اور ان کے علوم وفنون، ان کی زبردست طاقتیں، اور فلک بوس عمارتیں، ان کے جاہ وجلال اور ان کے مال ومنال کچھ کام نہ آئے، ان سے یہ سب اعزازات چھین لئے گئے۔

مذکورہ بالا موازنہ سے اہم نتیجہ یہ سامنے آیا ھے کہ مسلمانوں کو دین کے بغیر نہ دولت وثروت سرنگوں ہونے سے بچاسکتی ہے، نہ طاقت وحکومت اور دین کے ہوتے ہوئے نہ تو فقر وفاقہ انھیں سربلند ہونے سے روک سکتے ہیں، نہ بے سروسامانی وبے بسی، نہ ہی اکثریت واقلیت کا مسئلہ ان کی راہ میں حائل ہوسکتا ہے۔ بالفاظ دیگر مسلمانوں کے لئے دارین کی فلاح وبہبود گی، کامیابی وکامرانی کی اگر کوئی چیز حقیقی ضامن اور اصلی ذریعہ بن سکتی ہے تو وہ صرف دینِ اسلام ہے، جو نہ صرف مسلمانوں ہی کیلئے بلکہ ان کے ذریعہ ساری انسانیت کے لئے زندگی کے ہر شعبہ میں بہترین رہبر اور مکمل دستور حیات بننے کی صلاحیت رکھتا ہے جیساکہ ہر ملک ومذہب کے ہر زمان و ہر زبان کے بڑے بڑے نامور اور انصاف پسند مدبروں اور موٴرخوں نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے، اور آئے دن کرتے رہتے ہیں، اقوام عالم کی ممتاز ہستیاں اسلام کی زندہ وجاوید تعلیمات کو فطرت انسانی کے مطابق بتاتی رہیں، اور جس ایمان افروز انداز میں اسلام کے اصولوں کو خراج تحسین ادا کرتی رہی ہیں ان سے کتابوں کی کتابیں بھری پڑی ہیں، مثال کے طور پر ممتاز روسی فیلسوف کاؤنٹ ٹالسٹائی اپنی کتاب ”دی لائٹ آف ریلیجن“ میں ایک جگہ رقمطراز ہے۔

”قرآن مسلمانوں کی ایک مذہبی کتاب ہے، جس کی نسبت ان کا یہ عقیدہ  ہے کہ اس کو اللہ تعالی  نے رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  پر نازل کیا ہے، یہ کتاب عالمِ انسانی کی رہنمائی کے لئے ایک بہترین رہبر کا درجہ رکھتی ہے، اس میں تہذیب ہے ، شائستگی ہے، تمدن ہے، معاشرت ہے، اور اخلاقی اصلاح کے لئے ہدایت ہے،اگر صرف یہی کتاب دنیا کے سامنے ہوتی اور کوئی ریفارمر (مصلح) پیدا نہ ہوتا تو یہ عالم انسانی کی رہنمائی کے لئے کافی تھی، ان فائدوں کے ساتھ ہی جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ یہ کتاب ایسے وقت میں دنیاکے سامنے پیش کی گئی جبکہ ہر طرف آتش فساد کے شرارے بلند تھے، خون ریزی اور قتل وغارتگری کا دور دورہ تھا، اور فحش کاری عام تھی، توہماری حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہتی کہ اس مقدس کتاب نے معجزانہ طور پر ان تمام گمراہیوں کا خاتمہ کردیا۔“ یہ حیرت اس وقت دو چند ہوجاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک نبی امّی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے عرب جیسی جاہل مطلق قوم کو زمین کے تہ خانوں سے نکال کر فلک الافلاک پر پہنچادیا، عرب کے خانہ بدوش چرواہوں کے سرپر دنیا کی بادشاہت کا تاج رکھ دیا، اور یاد رہے کہ یہ عظیم الشان انقلاب کل ۲۳ سال کی مختصر سی مدت میں کردکھایا، اور ان ہی قرآنی تعلیمات کے زیراثر عالم اسلام میں ایسی جلیل القدر شخصیتیں اور الوالعزم ہستیاں رونما ہوئیں کہ دنیا کی کسی قوم نے آج تک ایسی عدیم النظیر مثالیں پیش کی ہیں نہ قیامت تک پیش کرسکتی ہے۔ عرب کے ریگستان سے نکل کر عرب کے شتربان دیکھتے ہی دیکھتے اقصائے عالم میں پھیل گئے،اور جہاں کہیں پہنچے وہاں قرآن کے نور ہدایت اور علم وحکمت سے اس خطہ کو اوراس آبادی کو منور کردیا، علوم وفنون کی بڑی بڑی درسگاہیں قائم کیں، بڑے بڑے متمدن شہر آباد کئے، جن کی ترقی وعروج کی یہ شان تھی کہ آج جس طرح طلبہ ممالک یورپ میں اعلیٰ تعلیم کے لئے جاتے ہیں کسی زمانے میں ممالک یورپ سے بلاد اسلامیہ کی طرف علم وحکمت کے موتیوں سے اپنے دامنِ مراد بھرنے کے لئے آتے تھے۔

 برصغیر  کے ھی ایک مایہٴ ناز اور صلح جو  ھندو مسٹر جے پرکاش نرائن یقین اور درد بھرے انداز میں فرماتے ہیں:

”اگر آج بھی دنیا بھر کے مسلمان غفلت کے پردے چاک کرکے کھلے میدان میں آئیں اور اسلام کے اصولوں پر عمل کریں تو ساری دنیا کا مذہب اسلام ہوسکتا ہے، صحرائے عرب میں جو ہیرا چمکا تھا اس نے نگاہوں کو خیرہ کردیا تھا، آج اس کے چمکتے دمکتے اصولوں پر گرد وغبار جم گیا ہے اگر اس گرد وغبار کو دور کردیا جائے تو وہ اپنی چمک سے سارے عالم کو مسحور کرسکتا ہے، اور ساری دنیا اس کے سامنے اپنی آنکھیں بچھاسکتی ہے۔“

اور وہ حقیقی اسلام جس کی آج ساری دنیا متلاشی اور محتاج ہے وہ اگر کہیں موجود ہے تو قرآن کریم میں، احادیث نبویہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   میں، سرورکائنات صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کی سیرت طیبہ میں، اور اصحاب کرام کی پاک زندگیوں میں، لہٰذا اشد ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان قرآن کریم کو سمجھیں، اور اس پر عمل کریں، احادیث نبویہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا بغور مطالعہ کریں، سیرت طیبہ سے مستفیض ہوں، اور اصحاب کرام کی پاک زندگیوں کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں۔

ظاہر ہے کہ دینی تعلیم کا مناسب انتظام اور اہتمام کئے بغیر دین کا ذوق اور دین کا فہم پیدا ہونا ناممکن ہے، اس لئے ہمارا اولین فرض ہے کہ آنے والی نسل کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے کے لئے کوئی ایسا معقول نظام تعلیم مرتب کریں کہ جس کے ماتحت ہم اپنے بچوں کو مخصوص اوقات میں خالص دینی تعلیم دلاسکیں۔

اسلامی تعلیمات کی تہذیبی قدریں

  یہ بات یقینی  ہے کہ اگر موجودہ حالات کی روشنی میں قوم دینی تعلیم کے اہم ترین تقاضے کو صحیح جذبے کے ساتھ حل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو آئندہ نسل خالق ومخلوق کے حقوق صحیح طور پر ادا کرنے کے قابل ہوجائے گی، اور اس اعتبار سے دیانتدار امن پسند شہری اور ملک وسماج کی مخلص، دردمند اور خیرخواہ بن جائیگی، اسلئے کہ اسلام جو باتیں اسے سکھلائے گا وہ اس نوعیت کی ہوں گی:

(۱) کوئی مسلمان انسانی برادری کے کسی شخص کا دل اس کے مخصوص مذہب یا خیال کی توہین کرکے نہیں دکھاسکتا، اور نہ ضد میں کوئی ایسا کام کرسکتا ہے جو انصاف سے دورہو، کیونکہ کلام پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا كُـوْنُـوْا قَوَّامِيْنَ لِلّـٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَـاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓى اَلَّا تَعْدِلُوْا ۚ اِعْدِلُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى ۖ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ خَبِيْـرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (8) 

اے ایمان والو! اللہ کے واسطے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جاؤ، اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو، انصاف کرو کہ یہی بات تقویٰ کے زیادہ نزدیک ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ اس سے خبردار ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔

(۲) انسانی برادری کا کوئی بھی شخص اگر پڑوس میں رہتا ہوتو پڑوسی ہونے کے اعتبار سے اس کا وہی حق ہے جو کسی مسلمان کا حق ہے۔

(۳) ہر انسان ہمدردی اور رحم کا مستحق ہے، حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے۔ ”تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا“۔

(۴) صدقہ وخیرات میں (زکوٰة کے علاوہ) مسلمانوں کے علاوہ انسانی برادری کا ہر شخص حقدار ہے، بشرطیکہ وہ امداد کا مستحق ہو۔

(۵) عقائد اور عبادات کے بعد اسلام میں اخلاق کی بے حد اہمیت ہے، حضور اکرم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا ارشاد ہے اخیارکم احسنکم اخلاقاً. تم میں سب سے اچھا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔

(۶) ایک اور موقعہ پر فرمایا:

”(قیامت کی) ترازو میں حسن خلق سے زیادہ بھاری کوئی چیز نہ ہوگی کہ حسن اخلاق والا اپنے حسن خلق سے ہمیشہ کے روزہ دار اور نمازی کا درجہ حاصل کرسکتا ہے۔“ (ترمذی)

(۷) ایک مرتبہ  رسول اللہ  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے فرمایا:

”کسی بندہ کا ایمان پورا نہیں ہوگا جب تک وہ جھوٹ کو ہر طرح سے نہ چھوڑ دے، یہاں تک کہ مذاق اور جھگڑے میں، اگرچہ وہ حق ہی پر کیوں نہ ہو۔“

(۸) حضور آکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کا ارشاد ہے: ”جس میں امانت نہیں اس میں ایمان نہیں“

جس سے دیانتداری اور امانت کی جو بے حد اہمیت اسلام میں ہے وہ ظاہر ہوتی ہے، حدیث شریف میں صاف صاف نظر آتا ہے کہ اصلی مسلمان وہی ہے جو اپنے تمام معاملات میں سچا ہو، ایمان دار ہو، امانت دار ہو اور وعدے کا پکا ہو۔

(۹) نبی کریم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا ارشاد ہے:

 ”ہر دین کا ایک خاص خلق ہوتا ہے، اور اسلام کا خاص خلق جہاد ہے۔“

ایک اور موقع پر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ”حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔“

”مسلمان نہ طعنہ دیتا ہے، نہ لعنت بھیجتا ہے، نہ بدزبانی کرتا ہے،اور نہ گالیاں بکتا ہے۔“ (حدیث)

ان کے علاوہ جن برائیوں کو دور کرنے کی ہدایات ہمیں اللہ کی کتاب اور اس کے رسول پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی احادیث میں ملتی ہیں، ان میں سے کچھ بہت اہم برائیاں یہ ہیں:

”جھوٹ، وعدہ خلافی، دغابازی، تہمت لگانا،خوشامد کرنا، کنجوسی، لالچ، بے ایمانی، چوری، ناپ تول میں کمی، رشوت لینا، اور دینا، سود لینا،اور دینا، شراب پینا، غصہ کرنا، کسی کو دیکھ کر جلنا، اترانا، دکھاوے کے لئے کام کرنا، فضول خرچی وغیرہ۔“

مومن کی زندگی ان جیسے تمام عیبوں سے بالکل پاک ہونا چاہئے، مومن دنیا میں نیکی کا مبلغ ہے، نیکی پھیلانا اور برائی مٹانا اس کا کام ہے، اگر خود اس کے دامن میں بداخلاقی کی گندگیاں لگی ہوئی ہوں تو وہ برائی سے جنگ کرنے کے لئے اللہ کا سپاہی کیسے بن سکے گا، اسی طرح زندگی کے ہر ہر شعبہ کے لئے پاکیزہ تعلیمات اسلام میں پائی جاتی ھیں اور یہ سب کچھ مسلمان کو  علمِ دین  کے ذریعے ھی حاصل ھو سکتا ھے ۔ لھذا مسلمان  کے لئے ضروری ھے کہ وہ گود سے گور تک علم کی جستجو کرتا رھے جیسا کہ سلف صالحین میں سے کسی بزرگ کا نہایت حکیمانہ قول ہے اُطلبو العلم من المھد الی الھد  اور اس کے قریب قریب حضرت امام احمد بن  حنبل رحمہ اللہ کا قول بھی ہے کہ :قلم ودوات میرے ساتھ قبر تک رہیں گے ،یعنی طلب علم کا سلسلہ زندگی بھر رہے گا 

خلاصۂ کلام یہ کہ علم والے اور بغیر علم والے دنیا وآخرت میں  کسی صورت بھی برابر نہیں ھو سکتے چنانچہ ارشادِ باری تعالی ھے

قُلْ هَلْ يَسْتَوِی الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ط اِنَّمَا يَتَذَکَّرُ اُولُو الْاَلْبَابِo (الزمر)

فرما دیجیے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (یہ سب ) برابر ہوسکتے ہیں۔ بس نصیحت تو عقلمند لوگ ہی قبول کرتے ہیں۔

جن لوگوں نے علمِ دین حاصل کیا ان لے لئے اللہ پاک نے قرآن پاک میں بلند درجات کا اعلان فرمایا ھے چنانچہ ارشادِ خداوندی ھے

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِذَا قِيْلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوْا فِى الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوْا يَفْسَحِ اللّـٰهُ لَكُمْ ۖ وَاِذَا قِيْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا يَرْفَعِ اللّـٰهُ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا مِنْكُمْۙ وَالَّـذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ۚ وَاللّـٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْـرٌ (11) 

اے ایمان والو! جب تمہیں مجلسوں میں کھل کر بیٹھنے کو کہا جائے تو کھل کر بیٹھو اللہ تمیں فراخی دے گا، اور جب کہا جائے کہ اٹھ جاؤ تو اٹھ جاؤ، تم میں سے اللہ ایمان داروں کے اور ان کے جنہیں علم دیا گیا ہے درجے بلند کرے گا، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خبردار ہے

(سورہ المجادلہ)

Share: