یومِ حشر اور حشر کے پانچ سوال

وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذَا هُمْ مِنَ الْأَجْدَاثِ إِلَى رَبِّهِمْ يَنْسِلُون

(سورہ یٰس )

”اور صور میں  پھونکا جائے گا تو اچانک وہ قبروں سے اپنے رب کی طرف تیزی سے دوڑ رہے ہوں گے۔ “


حشر اور میدانِ حشر

 مخلوقات کے جسم سڑ گل جانے کے بعد اسی طرح تیار ہوں گے جس طرح پودا اگتا ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی آسمان سے بارش برسائے گا جس سے لوگ اسی طرح جی اٹھیں گے جس طرح دانے بوئے جانے کے بعد اگتے ہیں۔ انسان کے جسم کا ہر حصہ سڑ جائے گا سوائے ایک ہڈی کے۔ اور وہ ہے پیٹھ کے نچلے حصے کی ہڈی۔ اسی سے قیامت کے دن مخلوق کو دوبارہ بنایا جائے گا“۔ (بخاری و مسلم)۔

اللہ تعالی بندوں کے جسم، بال اور چمڑے کو دوبارہ اسی طرح پیدا کرے گا جس طرح سب کچھ اس دنیا میں تھا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

يَوْمَ نَطْوِى السَّمَآءَ كَطَىِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ ۚ كَمَا بَدَاْنَـآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُهٝ ۚ وَعْدًا عَلَيْنَا ۚ اِنَّا كُنَّا فَاعِلِيْنَ (104) 

جس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹیں گے جیسے خطوں کا طومار لپیٹا جاتا ہے، جس طرح ہم نے پہلی بار پیدا کیا تھا دوبارہ بھی پیدا کریں گے، یہ ہمارے ذمہ وعدہ ہے، بے شک ہم پورا کرنے والے ہیں۔ (سورہ الآنبیاء)

تمام تعریفیں اس مالک کائنات کے لیے ہیں جس نے ہمیں انسان اور مسلمان پیدا فرمایا اور ہمیں اپنے دین کی سمجھ کے لیے کچھ وقت نکالنے کی توفیق دی۔ حضور آکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ اللہ رب العزت جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں اسے اپنے دین کی سمجھ عطا فرماتے ہیں۔ اللہ رب العزت کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنے دین کی سمجھ کے لیے منتخب فرمایا۔ 

مسلمان کے لیے جن عقائد پر ایمان لانا ضروری ہے ان میں سے ایک اہم عقیدہ ـــ’’یوم حشر  کا وقوع ‘‘ہے جسے یوم آخرة اور یوم القیمة وغیرہ ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ھے علامہ طحاویؒ عقائد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

ہم مرنے کے بعد اٹھائے جانے پر ، اعمال کے بدلے پر ، قیامت کے واقع ہونے پر ، حساب کتاب کے پیش کیے جانے پر ، ثواب و عقاب پر اور میزان پر ایمان لاتے ہیں۔ (عقیدۃ الطحاویہ:26)

ہر مسلمان کے لیے اس بات پر ایمان لانا ضروری ہے کہ قیامت قائم ہوگی اور سب دوبارہ زندہ کرکے میدان حشر میں جمع کیے جائیں گے جہاں میزان عدل قائم ہوگا اور سب کا حساب وکتاب ہوگا اور اسی کی بنیاد پر سزا و جزا کا فیصلہ ہوگا ۔ 

قیامت کا وقوع سلسلۂ فنا کا آخری مرحلہ ہے جو اجتماعی طور پر واقع ہوگااور سب کچھ ایک ہی جھٹکے میں ختم ہوجائے گا۔ جس دن یہ عمل سرانجام پائے گا اسے یوم قیامة کہتے ہیں۔ قیامت کا وقوع قطعی و یقینی ہے

 * عن ابن مسعود، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " لا تزول قدما ابن آدم يوم القيامة من عند ربه حتى يسال عن خمس: عن عمره فيم افناه، وعن شبابه فيم ابلاه، وماله من اين اكتسبه، وفيم انفقه، وماذا عمل فيما علم ",

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم نے فرمایا: ”آدمی کا پاؤں قیامت کے دن اس کے رب کے پاس سے نہیں ہٹے گا یہاں تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے پوچھ لیا جائے: 

اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کہاں صرف کیا، 

اس کی جوانی کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا، 

اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا

 اور کس چیز میں خرچ کیا

 اور اس کے علم کے سلسلے میں کہ اس پر کہاں تک عمل کیا


حشر کا پہلا سوال 

 اپنی عمر کو کن کاموں میں صرف کیا؟ 

حدیث مبارکہ کے مطابق حشر میں جن چیزوں سے متعلق استفسار ہو گا ان میں سب سے پہلے اس دنیاوی زندگی کے بارے میں سوال ہو گا جس کا ایک ایک لمحہ بہت قیمتی ہے، اس لیے اسے حیات مستعار سمجھتے ہوئے اللہ کی اطاعت و فرماں برداری میں گزارنا چاہیئے، کیونکہ اس  کے ایک ایک لمحہ کا حساب قیامت والے دن دینا ہے،

فضول، بے مقصد اور لا یعنی زندگی گزارنا  ایک مسلمان  کی شان کے خلاف ھے اور قیامت کے اس سوال کے لئے بہت ھی نقصان کا سبب ھے لیکن بدقسمتی سے یہ آج کے دور کا ایک فیشن بن گیا ہے کہ زندگی کے قیمتی لمہات فضولیات میں گزر رھے ھیں اور  طرفہ تماشہ یہ کہ ان ہی حضرات سے جو وقت کو فضول، بے مقصد اور لا یعنی کاموں میں ضائع کرتے رہتے ہیں ان ہی سے دین و ملت اور سماج و سوسائٹی کی خدمت اور دین کے تقاضوں کے لئے اگر کچھ وقت مانگا جائے  تو  صاف کہتے ہیں کہ صاحب ! بہت مصروفیت چل رھی ہے  بھلا میرے پاس فرصت کہاں ہے  میں  کہاں فارغ ھوں لیکن یہ بات جاننی چاھیے کہ جلد ھی وہ وقت  بھی آنے والا ھے جب اس دنیا  سے ھی آپ کو بالکل  فارغ کر دیا جائے گا پھر قبر کے  سوالات کے بعد مذکورہ بالا سوالات کا سامنا  بھی کرنا پڑے گا تو احساس ھو گا کہ ھم نے اپنی عمر کے قیمتی اوقات کو فضول  اور لا یعنی کاموں میں ضائع کرکے کتنا بڑا نقصان کر لیا ھے لیکن اس وقت اس احساس کا کوئی فائدہ نہیں ھو گا بلکہ یہ پچھتاوے کا سبب بنے گا

آج زندگی میں ھمارے پاس موقعہ ھے  ھم اسے غنیمت سمجھتے ھوئے   اپنی زندگی کے اوقات کو دعوت الی اللہ اور عبادت  وغیرہ میں لگا کر قیمتی بنا سکتے ھیں اور  قیامت والے دن سرخرو ھو سکتے ھیں اسی طرح اپنے اوقات صرف دنیاوی مشغولیت میں ھی لگا دینا اور یہ کہنا کہ روزی کمانا بھی تو فرض ھے کوئی آچھی روش نہیں ھے اس سلسلہ میں ھمیں صحابہ کرام کی زندگی کو مثال بنانا چاھیے کہ ان کے اوقات دنیا کی مصروفیات میں کتنے لگتے تھے اور دینی مصروفیات میں کتنے؟ 

اللہ پاک ھمیں عمل کی توفیق عنایت فرمائے

آمین یا رب العالمین


حشر کا دوسرا سوال 

جوانی کی توانیاں کہاں کھپائیں؟ 

حدیث مبارکہ کے مطابق حشر میں جن چیزوں سے متعلق استفسار ہو گا ان میں سب سے پہلے زندگی کے بارے میں سوال ہو گا  دوسرا سوال جوانی کا ھو گا گو زندگی میں جوانی بھی آ جاتی ھے  لیکن کیونکہ جوانی میں ھر انسان کی توانائیاں عروج پر ھوتی ھیں  اس لئے جس طرف بھی محنت ھوگی اسکے بھرپور نتائج سامنے آئیں گے  سو جوانی کا سوال الگ سے ھو گا  جوانی کی عبادت اللہ پاک کو بہت پسند ھے عبادت کا مختصر مفہوم یہ ھے کہ جن کاموں کے کرنے کا حکم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیا ھے انہیں بجا لائے اور جن کاموں سے منع  کیا ھے ان  سے رک جائے اگر جوانی کا زمانہ  اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و فرماں برداری میں گزار لیا تو اس سوال پر قیامت والے دن شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا  

اگر جوانی کا زمانہ خدانخواستہ فضول، بے مقصد اور لا یعنی کاموں میں گزرا ھو گا تو پھر    قیامت کے اس سوال کے لئے بہت ھی نقصان کا سبب ھے لیکن بدقسمتی سے آج کے نوجوانوں کی اکثریت  دن اور رات کے زیادہ تر حصے میں گیم یا موبائل پر واٹسیپ،فیس بک،یو ٹوب اور ٹویٹیر وغیرہ پر کمنٹس میں فیاضی کے ساتھ قیمتی لمحات و اوقات کو برباد اور ضائع کرتے رہتے ہیں ۔

عام مشاہدہ یہی ہے کہ اچھے خاصے باصلاحیت ،کریم اور قیمتی و جنیس نوجوان  ملٹی میڈیا موبائل پر اپنی بے پناہ صلاحیتوں اور قیمتی لمحات و اوقات کو ضائع کرتے نظر آتے ہیں ۔  یہ نوجوان جو موبائل پر تبصرہ اور کمینٹس پر اپنی قیمتی صلاحیتوں کو ضائع اور برباد کر رہے ہیں اگر وہ کسی بڑے کی نگرانی اور سرپرستی میں علمی دینی سماجی اور ملی کام کرنا شروع کردیں اور ہمارے بڑے بھی دین و ملت اور سماج و معاشرہ کی خدمت کے لئے سیکنڈ لائن علماء اور خادمینِ دین کی ٹیم کی تیاری کی فکر کرلیں تو یہ ھمارا قیمتی سرمایہ ضائع ہونے سے بچ جائے اور قوم و ملت کو دین کی خدمت کرنے والے مناسب اور معیاری و جنیس افراد بآسانی مل جائیں ۔

لیکن افسوس کہ کوتاہی دونوں طرف سے ہو رہی ہے نئ پود اور نسل کو گائڈ لائن دینے والے اور ان کی سرپرستی کرنے والے اول تو نطر ھی نہیں آرہے اگر ھیں تو بہت ھی محدود ھیں جو اس اھم تقاضے کو پورا کرنے کے لئے ناکافی ھیں تو دوسری طرف نئے فارغین اور نوجوان وہ بھی بڑوں سے دوری اور فاصلے بنائے ہوئے ہیں ۔ ممکن ہے اس بات  سے بہت سے لوگ اتفاق نہ کریں ۔ لیکن یہ حقیقت ھے کہ اچھے اچھے باصلاحیت ذی استعداد اور قابل نوجوان ضائع اور بے کار ہو رہے ہیں اور انہیں احساس ہی نہیں ہو پارہا ہے کہ ان کے قیمتی ایام اور اوقات کن کاموں میں ضائع اور برباد ہو رہے ہیں،؟ کاش ان کے یہ اوقات   دین کے لئے صرف ھو جائیں تو نہ صرف یہ کہ اس سوال پر قیامت والے دن شرمندگی نہیں ھوگی بلکہ  ان شاء اللہ اُخروی زندگی میں اونچے درجات  بھی مل جائیں گے

 

اللہ پاک عمل کی توفیق عنایت فرمائے

آمین یا رب العالمین


حشر کا تیسرا سوال 

مال کہاں سے کمایا ؟ 

حدیث مبارکہ کے مطابق حشر میں جن چیزوں سے متعلق استفسار ہو گا ان میں زندگی میں کمائے ھوئے مال کا سوال بھی شامل ھے مال کے بارے میں دو سوال ھوں گے ایک یہ کہ مال کہاں سے کمایا تھا؟ یعنی مال کمانے کے ذرائع کیا تھے ؟ جائز ذرائع سے کمایا تھا یا پھر ناجائز ذرائع  یعنی سود، رشوت ،دھوکہ دھی ، وراثت میں خرد برد وغیرہ سے اور  دوسرا یہ کہ کمائے ھوئے مال کو کہاں خرچ کیا تھا؟  

دین اسلام چونکہ ایک کامل ومکمل نظامِ حیات ہے اس لئے اس دین میں حصول رزق کے بارے میں بھی انسانیت کے لئے مکمل رہنمائی موجود ہے ۔دینِ اسلام کے دئیے ہوئے اصول وضوابط کی روشنی میں جو رزق حاصل ہوگا وہ حلال شمار ہوگا ۔اسلام نے اپنے پیروکاروں  کو رزق حلال کمانے کی ترغیب دی ہے اور حرام رزق سے بچنے کی ترغیب بھی دی ھے اور حلال کمائی کے فوائد اور فضائل بھی بتائے ھیںں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے :

    ’’اللہ تعالیٰ خود طیب ہے اور وہ اسی چیز کو پسند کرتا ہے جو طیب ہو۔‘‘( مسلم)۔

     بخاری میں حضرت مقدام بن سعد یکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

    ’’اُس کھانے سے بہترکوئی کھانا نہیں جس کو کسی نے اپنے ہاتھوں سے کام کرکے حاصل کیا اور بے شک اللہ کے نبی داؤد (علیہ الصلوٰۃ والسلام) اپنی دستکاری سے کھاتے تھے۔ ‘‘

    اُم المومنین سیدہ طیبہ اماں عائشہ الصدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا   روایت فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

     ’’جو تم کھاتے ہو اُن میں سب زیادہ پاکیزہ وہ ہے جو تمہارے کسب سے حاصل ہوااور تمہاری اولاد بھی منجملہ کسب کے ہےـ‘‘(ترمذی،ابن ماجہ)۔

    یعنی اولاد کی کمائی بھی انسان کے لئے مالِ حلال میں شمار ہوگی ۔

    ایک اور حدیث مبارکہ میں نبی  کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

     ’’اللہ تعالیٰ کے فرائض کے بعد اہم فریضہ کسب حلال ہے ‘‘ (کنزالعمال)۔

    یعنی نماز،زکوٰۃ ،روزہ ،حج کے بعد مسلمان پر اہم فرض رزق حلال کماناہے ۔اس کے یہ معنی بھی ہوئے کہ مسلمان جب روزی کمانے کی سعی کرتا ہے اور روزی کمانے میں سرگرداں رہتا ہے تو دین اسلام روزی کمانے سے اُسے منع نہیں کرتا بلکہ روزی کمانے کے لئے کچھ حدود وقیود مقرر کرتا ہے تاکہ اُن حدود وقیود کی پابندی کرتے ہوئے وہ اپنے لئے اور اپنے اہل خانہ کیلئے رزق حلال کمائے ـ حلال رزق میں برکت ہوتی ہے اور رزق حرام دیکھنے میں زیادہ، لیکن حقیقت میں اُس میں برکت نہیں ہوتی ۔مثال کے طور پر رزقِ حلال سے تیار کیا گیا 3 افراد کا کھانا5 افراد کھائیں تو کھانا پھر بھی بچ جاتا ہے جبکہ حرام کی کمائی سے تیار شدہ3 افراد کا کھانا3 افراد کی کفایت بھی نہیں کرتا ،جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

    ’’ جو بندہ مال حرام حاصل کرتا ہے اگر اس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اس کے واسطے اس میں برکت نہیں اوراپنے بعد چھوڑ مرے تو جہنم جانے کا سامان ہے…الخ۔‘‘(مسند احمد بن حنبل )

    حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

     ’’جنت میں وہ گوشت داخل نہیں ہوگا جو حرام کھانے سے بڑھا ہواور ہر وہ گوشت جو حرام خوری سے بڑھا ہو دوزخ کے زیادہ لائق ہے ‘‘۔(مسند احمد بن حنبل ،بیہقی)

     ہم مسلمان جانتے ہیں کہ ایک لاکھ جوبیس ھزار انبیاء ورسل کو اللہ تعالیٰ نے’’حبیب اللہ ‘‘نہیں فرمایا ،لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’حبیب اللہ ‘‘ فرمایا اور ہمارے آقا  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: الکاسب حبیب اللہ  ’’ رزق حلال کمانے والا اللہ کا دوست ہے ۔‘‘

    کتنی فضیلت والی بات ہے اُن حضرات کے لئے جو رزق حلال کماتے ہیں کہ لسان نبوتؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اللہ کا دوست ہونے کی بشارت دی ہے ،یہ کوئی عام فضلیت وعنایت نہیں ۔

    اسی طرح اولیائے کرام رحمہم اللہ کا معمول رہا کہ وہ رزق حلال کیلئے تگ ودو کرتے تھے۔وقت کے بادشاہ ان کے پاس نذرانے بھیجتے لیکن یہ حضرات انہیں قبول نہ فرماتے بلکہ واپس بھیج دیتے تھے۔ چند واقعات حضرات اولیائے کرام رحمہم اللہ کے پیش خدمت ہیں جن  کی دینی کاوشوں سے اسلام چہار جوانب پھیلا۔

      حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ ایک بہت بڑے محدث اور فقیہ گزرے ہیں ۔اُن کی وفات کے بعد کسی نے انہیں خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ حضرت کیا معاملہ پیش آیا تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بخش دیا ہے لیکن میرے گھر کے سامنے جو لوہار تھا اُسے مجھ سے بلند مرتبہ ملا ہے ۔وہ شخص حیران ہوا صبح اُس لوہار کی بیوی سے جا کر ملا اور پوچھا کہ تیرا شوہر ایساکیا عمل کرتا تھا کہ اسے جنت میں عبداللہ بن مبارک سے بھی اونچا رتبہ ملا ہے۔اُس کی بیوی نے کہا اور تو خاص نہیں۔ ایک تو جب آخر شب عبداللہ بن مبارک نمازِ تہجد کیلئے بیدار ہوتے تو یہ کہتا تھا کہ اے اللہ !کاش میرے رزق میں فراخی ہوتی تو میں بھی رات کے اس پہر تیرے سامنے سر بسجود ہوتا۔دوسرا اس کا عمل یہ تھا کہ جب یہ دوکان پر ہتھوڑا مارنے کیلئے اوپر اٹھاتا اور اذان ہوجاتی تو فوراً ہتھوڑا پیچھے کی جانب گرا دیتا تھا کہ اللہ نے پکارا ہے ۔بس یہ دو عمل تھے۔ اس کے اور تو کچھ خاص نہیں۔

    اس حکایت سے معلوم ہوا کہ رزق حلال کمانے کی برکت اور کسب حلال کے ساتھ اللہ کے فرائض کی پابندی ایسا عظیم الشان عمل ہے جس سے انسان بڑے بڑے زاہدوں سے بھی روزِ محشر بڑھ سکتا ہے ۔

     اِس زمانے میں لوگ لقمۂ حلال کی بالکل پرواہ  نہیں کرتے ،جو چیز نظر آتی ہے  حلال ھو یا حرام آنکھیں بند کرکے کھاجاتے ہیں اور پھر تاویلیں  کرتے ہیں کہ یہ یوں ہے اور یوں نہیں ۔لیکن جب  حشر میں مال کا سوال ھوگا تو پھر کوئی تاویل  نہیں چلے گی 

شریعت ہمارے لئے کیا چیز حلال کرتی ہے اور  کیا حرام  یہ جاننا اشد ضروری ھے اور ہم مسلمانوں کا کیا حال ہوگیا ہے ،نہ حلال کی پرواہ کرتے ہیں نہ حرام کی ، اور حرام کو مباح بنا کر کھاجاتے ہیں ۔اکثر یہ ہوتا ہے کہ حلال اور حرام کے متعلق صریحی اورقطعی نصوص کو ترک کردیا جاتاہے اور بعض ظنی اوربعید از قیاس آیات واحادیث سے استدلال کرکے حرام کو حلال بنا دیا جاتاہے۔

     مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ جب ٹرین پر سفر کرتے تھے تو سامان کا وزن خود کراتے تھے ۔جتنا سامان زیادہ ہوتا اُس اضافی سامان کی رقم جمع کراتے ۔ایک بار ایک ٹکٹ کلکٹر نے کہا کہ حضرت آپ رقم جمع نہ کرائیں ،فلاں اسٹیشن تک میں خود ہوں اُس کے بعد جو ٹکٹ کلکٹر آئے گا میں اُسے کہہ دوں گا ،وہ آپ کو تنگ نہ کرے گا ۔حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بھائی وہ کہا ں تک جاتا ہے ،اس ٹکٹ کلکٹر نے کہا حضرت جہاں تک ٹرین جائے گی ،تو حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا کہ بھائی مجھے تو اس سے بھی آگے جانا ہے ،اور میری منزل روزِ محشر ہے۔ اگر وہاں تک تمہاری رسائی ہے تو بتلاؤ۔وہ خاموش ہوگیا اور حضرت تھانوی رحمہ اللہ ؒ نے اضافی سامان کی اضافی رقم جمع کرادی ۔ یہ تھے ھمارے آکابرین جو مال کے بارے میں حد درجہ احتیاط برتتے تھے

قیامت والے دن مال حرام کی وجہ سے شدید پریشانی ھوگی جن جن کا مال حرام طریقہ سے لیا ھو گا وہ نیکیوں کی شکل میں دینا ھوگا اور نیکیاں بھی ختم ھو گئیں تو انکے گناھوں کا بوجھ اپنے سر لینا ھوگا چبانچہ ایک حدیث مبارکہ میں وارد ھوا ھے 

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «أتدرون من المفلس؟» قالوا: المُفْلِس فينا من لا دِرهَمَ له ولا مَتَاع، فقال: «إن المفلس من أمتي من يأتي يوم القيامة بصلاة وصيام وزكاة، ويأتي وقد شَتَمَ هذا، وقذف هذا، وأكل مال هذا، وسَفَكَ دم هذا، وضرب هذا، فيعطى هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنيت حسناته قبل أن يُقْضَى ما عليه، أخذ من خطاياهم فَطُرِحتْ عليه، ثم طُرِحَ في النار». (رواہ المسلم)

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم جانتے ہو مفلس کون ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا: ہم میں سے مفلس وہ ہے جس کے پاس نہ درہم ہوں اور نہ کچھ سامان۔ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں سے مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوۃ (کی صورت میں اعمال) لے کر آئے گا لیکن اس نے دنیا میں کسی شخص کو گالی دی ہوگی، کسی پر بدکاری کی تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال نا حق کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا۔ ان لوگوں کو (یعنی جن کو اس نے دنیا میں ستایا ہوگا) اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں اس پر آنے والے ہرجانہ کی ادائیگی سے پہلے ختم ہوگئیں تو ان لوگوں کے گناہ لے کر اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے اور پھر اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔

حشر کے اس سوال  کی سنگینی سے بچنے کے لئے  یہ ضروری ھے کہ ھم صرف مال حلال پر قناعت کریں اور حرام  مال سے کلیةً اجتناب  برتیں اگر  بالفرض کسی کے پاس کسی بھی طریقے سے حرام مال آگیا ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر اس کا مالک معلوم ہو اور وہ بلاعوض حاصل کیا گیا ہو، جیسے: سود، چوری، رشوت  دھوکہ دھی وغیرہ تو اس کے مالک کو واپس کرنا ضروری ہے، یعنی  وہ جہاں سے آیا ہے وہیں اسے واپس دے دیا جائے، مالک وفات پاچکا ہو تو اس کے ورثاء کو لوٹا دیا جائے۔ اور اگر یہ ممکن نہ ہوتو  ثواب کی نیت کے بغیر  اسے مستحقِ زکاۃ کو صدقہ کرنا ضروری ہے۔  اور اگر وہ بالعوض حاصل کیا گیا ہو، جیسے حرام ملازمت وغیرہ کے ذریعے تو اسے مالک کو واپس کرنا درست نہیں ہے، بلکہ اس کا یہی ایک مصرف ہے کہ اسے ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردیا جائے۔

اس نیت سے حرام مال کمانا کہ اس کو خود استعمال نہیں کریں گے، بلکہ غریبوں پر صدقہ کریں گے، شرعاً جائز نہیں ہے،  ایسے لوگ  حرام  کا ارتکاب کرکے خود تو گناہ گارہوتے ہیں اورغریبوں کادنیوی  فائدہ کرتے ہیں، یہ بڑی نادانی ہے کہ انسان اپنا دینی نقصان کرکے دوسروں کابھلاکرے اور دوسروں کے دنیوی فائدے کے لیے اپنی آخرت بربادکرے۔ حرام  رقم غلطی سے ملکیت میں آگئی ہوتو اسے صدقہ کرنا لازم ہے، مگر اس کایہ مطلب نہیں کہ صدقہ کی نیت سے انسان حرام کماتا رہے،مشرکینِ مکہ سخت  قحط کے زمانے میں جواکھیلتے تھے اورجیتی ہوئی اشیاءخود استعمال میں نہیں لاتے تھے، بلکہ فقیروں پر صدقہ کردیا کرتے تھے، مگر اس کے باوجود ان کاعمل ناجائز اورحرام ہونے کی وجہ سے اس کی مذمت کی گئی۔ خلاصہ یہ ہے کہ صدقہ اور لوگوں کی فلاح وبہبود کی نیت سےحرام مال کمانے کی اجازت نہیں،  جیساکہ توبہ کی نیت سے گناہ کی اجازت نہیں  ہے اوراس وجہ سے بدپرہیزی کرنا معقول نہیں کہ دواموجود ہے؛

اگر کوئی شخص نادانی میں حرام ملازمت وغیرہ سے کماکر سرمایہ جمع کرے اور پھر تجارت کرکے مال بڑھادے، اور اس کے بعد اسے توبہ کی توفیق ہو تو فقہاءِ کرام فرماتے ہیں کہ اگر وہ اصل حرام رقم کے بقدر رقم صدقہ کردے تو اس کے بعد اس کے لیے منافع کا استعمال حلال ہوگا، واللہ عالم

اللہ پاک ھمیں عمل کی توفیق عنایت فرمائے

آمین یا رب العالمین


حشر کا چوتھا سوال 

مال کہاں خرچ کیا ؟ 

حدیث مبارکہ کے مطابق حشر میں جن چیزوں سے متعلق استفسار ہونا ھے  ان میں مال کا سوال بھی شامل ھے مال کے بارے میں دو سوال ھوں گے ایک یہ کہ مال کہاں سے کمایا تھا اور  دوسرا یہ کہ کہاں خرچ کیا تھا  یعنی جس طرح مال کمانے میں شرعی ضوابط کا خیال رکھنا ضروری ھے اسی طرح خرچ کرنے میں بھی شرعی آصولوں کو مدنظر رکھنا ضروری ھے مال اللہ تعالی کی ایک دی ھوئی آمانت ھے اسے اس کے حکموں کے مطابق ھی خرچ کرنا ضروری ھے یہ نہیں جہاں جی چاھا اُڑا دیا یا پھر جہاں خرچ کرنا چاھیے تھا وھاں خرچ نہ کیا ، خرچ کرنے کے اعتبار سے پھر دو حکم ھیں اول یہ کہ فضول خرچی نہ کی جائے اور دوم یہ کہ کنجوسی نہ کی جائے  بلکہ میانہ روی اختیار کی جائے لہذا حشر کے اس سوال  کی مشکل سے بچنے کے لئے ضروری ھے کہ ھم فضول خرچی اور کنجوسی ، دونوں سے پرھیز کرکے میانہ روی اختیار کریں  اللہ رب العا لمین نے اس دنیا میں زند گی گزارنے کیلئے جوا سباب ووسائل عطا کئے ہیں ، ان کے تعلق سے یہ ہدایت  بھی دی ہے کہ ان کے استعمال میں افراط وتفریط سے پر ہیز کیا جائے۔ اسی افراط کو فضو ل خرچی یا اسراف وتبذیر کہا جا تا ہے اور تفریط کو بخل یا تقتیر کا نام دہا جا تا ہے۔

دین اسلام ہر شعبہ زندگی میں سادگی، اعتدال اور میانہ روی کی تلقین کرتا ہے۔ فضول خرچی، عیش و عشرت اور نمود و نمائش سے نہ صرف منع کرتا ہے بلکہ اس کی شدید مذمت بھی کرتا ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید کے اندر متعدد آیات میں فضول خرچی اور کنجوسی سے منع کیا ہے    اور اس کی مذمت  فرمائی  ہے  چنانچہ اللہ پاک  کا ارشاد ھے


وَلاَ تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلاَ تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا O

ترجمہ: اپنا ہاتھ گردن سے باندھ کر نہ رکھو (کنجوسی نہ کرو) اور نہ ہی اسے بالکل کھول دو (بے تحاشا خرچ کرنے لگ جاؤ۔ اگر ایسا کرو گے) تو تم ملامت کا نشانہ بنو گے اور افسوس سے ہاتھ ملتے رہ جاؤ گے


وکُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ O

ترجمہ: اور کھاؤ اور پیؤ اوراسراف(ضرورت سے زائدخرچ) نہ کرو، بے شک اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔


وَالَّذِیْنَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ یُسْرِفُوا وَلَمْ یَقْتُرُوا وَکَانَ بَیْْنَ ذَلِکَ قَوَاماً O

ترجمہ: اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچی نہیں کرتے اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان کا خرچ ان دونوں کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے۔

وَآتِ ذَا الْقُرْبَی حَقَّہُ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِیْراً ِ؛انَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُواْ إِخْوَانَ الشَّیَاطِیْنِ وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِرَبِّہِ کَفُوراًO

ترجمہ: اور رشتہ دار اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق دے دو اور مال کو بے جا خرچ نہ کرو۔بے شک بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا ناشکرگزار ہے۔ 

إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌO

ترجمہ: بے شک خداوند  اسرافکار جھوٹھے کو ہدایت نہیں کرتا۔

جب ہم اپنے معاشرے میں رہنے والے افراد کی زندگی  کا بغور مشاہدہ کرتے ہیں تو مال خرچ کرنے  کے حوالے سے  عموماً تین قسم کے لوگ  نظر آتے ہیں یعنی تین مختلف   انسانی رویوں کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔


پہلی قسم : مال سمیٹ کر رکھنے والے لوگ 

 یعنی جہاں پر مال خرچ کرنا ضروری ہو وہاں  بھی بخل  کا مظاہرہ  کرتے ہیں ایسے لوگوں کو بخیل کہا جاتا ہے۔ یہ ایسے لوگ ھوتے ھیں کہ اللہ تعالی کی دی ھوئی نعمت یعنی مال نہ تو اپنے اوپر خرچ کرتے ھیں نہ ہی دوسروں کو ان کی دولت کا کوئی فائدہ پہنچتا ھے بلکہ یہ لوگ زبدگی بھر اہنے مال کو جوڑ جوڑ کر رکھتے رھتے ھیں اور اسی طرح یہ بدقسمت لوگ دولت کو بغیر فائدہ اُٹھائے اسی دنیا میں چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ھو جاتے ھیں جہاں قیامت والے دن اُنہیں اس کا حساب بھی دینا ھو گا ۔


دوسری قسم : وہ لوگ جو عیش و عشرت کے لئے  مال  کو بے دریغ خرچ  کرتے ہیں  

 یہ رویہ اسراف یا فضول خرچی کہلاتا جے اور قرآن پاک میں ایسے لوگوں کو شیطان کا بھائی کہا گیا ھے ۔چنانچہ ارشادِ ربانی ھے ۔

إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا O

فضول خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ھے 

اس کے علاوہ اور بھی بہت سی وعیدیں قرآن و حدیث میں وارد ھوئی ھیں


تیسری قسم : میانہ روی یعنی ضرورت کے مطابق خرچ کرنے والے لوگ 

 کہ جو اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اعتدال کا اسلوب اختیار کرتے ہیں یعنی  چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کے طریقے پر عمل کرتے ہیں یعنی نہ تو کنجوسی کرتے ھیں اور نہ ھی فضول خرچی کرتے ھیں بلکہ میانہ روی آختیار کرتے ھیں 

پس ان سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ ان تینوں قسم کے لوگوں میں سے تیسرے  یعنی اعتدال کے رویے کے حامل لوگ ہی اللہ  تعالی کے پسندیدہ ہیں کیونکہ وہ خدا کے عطا کردہ  رزق کو اسی کے فرمان کے مطابق خرچ کرتے ہیں۔ اگر ہم اپنی روز مرہ زندگی کا جائزہ لیں تو انکشاف ہوتا ہے کہ خرچ کرنے کے معاملے میں  ھم اعتدال کی راہ سے ہٹ چکے ہیں۔جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بے شمار معاشی، سماجی اور نفسیاتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ شہروں میں ہوٹلز، ریسٹورنٹس، شاپنگ مالز اور مہنگے سنیما گھروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ہماری سوسائٹی کے لوگوں میں کماؤ، کھاؤ پیو، خرچ کرو، اور عیش کرو کا نظریہ رواج پانے لگا ہے۔ ہمارے معاشرے میں امارت اور غربت کے درمیان فاصلہ بتدریج زیادہ ہوتا جارہا ہے۔ غریب ضروریاتِ زندگی کے پیچھے بھاگ بھاگ کر ادھ موا ہو رہا ہے جبکہ امراء آسائشوں اور عیاشیوں پر بے دریغ پیسہ خرچ کر رہے ہیں۔

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسراف کی اصل کیا ہے ؟ تو اس  نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ  اسراف  لوگوں کی شان و مقام، سلامتی و بیماری، جوانی و پیری اور ثروت و ناداری کے لحاظ سے  فرق  رکھتا ہے۔ ممکن ایک غذا یا لباس ایک شخص کے لئے اسراف ہو اور وہی غذا اور لباس  ایک  دوسرے شخص  کے لئے اسراف نہ ہو۔ فر ما نِ الہٰی ہے : 

وَالَّـذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَقْتُـرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا (67) 

اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچی نہیں کرتے اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان کا خرچ ان دونوں کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے۔  (سورہ الفرقان)

در حقیقت فضول خرچی ،اللہ کی ناشکری اور نعمت کی ناقدری ہے ،کیوں کہ اپنے مال واسباب کو اِدھر ادھر بے دردی کے ساتھ اڑانے والا انسان ، اللہ کی مرضی کو فراموش کر کے اپنے نفس امارہ کا غلام بنا ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ھے :

إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا O

فضول خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ھے 

بہت سے لوگ مال کمانے میں تو اس بات کا خیال رکھتے ھیں کہ ذریعۂ آمدن حلال ھو لیکن یہی لوگ خرچ کرنے میں خصوصاً بیاہ شادی کی تقریبات میں رسم ورواج پورے کرنے میں حد درجہ فضول خرچی کرتے ھیں پیسے پاس نہ بھی ھوں تو اپنے شوق پورا  کرنے کے لئے اُدھار لینا بھی گوارہ کر لیتےھیں کیونکہ آخر ناک بھی تو رکھنی ھوتی ھے یہ ھمارے معاشرے کا ایک سلگتا  ھوا مسئلہ ھے جس پر بہت کام  کرنےکی ضرورت ھے

فضول خرچی کی مختلف شکلیں اور مظاہر موجود  ہیں۔ایک غیر محتاط انسان مختلف طریقوں اور مختلف موقعوں پر اس بری عادت اور مذموم عمل کو دہراتا رہتا ہے ، جن میں خاص طورسے کھانے پینے ،پہننے اوڑھنے ، خوشی منانے اور مختلف مذہبی وسماجی تقریبات شامل ہیں۔اکل وشرب کے تعلق سے قرآنی آیت بڑے واضح اور صریح الفاظ میں اہلِ ایمان کو مخاطب کر تی ہے :

وَكُلُواْ وَٱشْرَبُواْ وَلَا تُسْرِفُوٓاْ ۚ إِنَّهُۥ لَا يُحِبُّ ٱلْمُسْرِفِينَO

اور کھاﺅ پیو اور حدسے تجاوز نہ کرو ، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

دیکھئے کس قدر مختصر اور دوٹوک انداز میں اسراف کی ممانعت کو اکل و شرب سے جوڑاگیا ہے۔ 

حضرت مقدام بن معدی کر بروایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناہے کہ ٓادمی پیٹ سے زیادہ برے کسی برتن کو نہیں بھرتا۔ انسان کے لئے چند لقمہ ہی کافی ہیں جو اس کی پیٹھ سیدھی رکھ سکیں۔البتہ آدمی اگر بضد ہے تو ایک تہائی حصے میں کھانا کھائے ،ایک تہائی حصے میں پانی پئے ،اور ایک تہائی حصہ سانس لینے کے لئے باقی رکھے۔ (احمد ،ترمذی،ابن ماجہ) 

کھانے پہنے میں اسراف اور بے احتیاطی کے جودینی اور روحانی نقصانات ہیں وہ اپنی جگہ پر ، ساتھ ہی اس کے متعدد جسمانی اور طبی نقصانات بھی ہیں۔ پھر جو سماجی برائیاں اس سے جنم لیتی ہیں وہ الگ ہیں۔ اکل وشرب میں اسراف جو کہ  سماجی فیشن بن چکا ہے ،جو گھن کی طرح معاشرے کو چاٹ رہا ہے۔ پانچ آدمی کو کھانے یا کھلانے کے لئے پچاس آدمیوں   کا کھانا بنایا یا خریدا جا تا ہے اور انواع واقسام اتنے کہ سب میں سے اگر صرف ایک ایک لقمہ بھی لیا جائے تو معدہ اس کی تاب نہ لا سکے۔ اس کےبعد بچا ہوا کھانا کو ڑے دان کی نذر ہوجاتا  ہے۔

بہرحال یہ مال ھمارے پاس اللہ کی ایک آمانت ھے جس کے خرچ کے بارے لازمی پوجھا جائے گا لہذا ھمارا فرض ھے کہ مال کو اللہ پاک احکام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق خرچ  کریں تاکہ قیامت والے دن اس کے سخت مطالبے سے بچ جائیں

اللہ پاک عمل کی توفیق عنایت فرمائے

آمین یا رب العالمین


حشر کا  پانچواں سوال 

 اپنے علم پر کتنا عمل کیا ؟ 

حشر کے پانچ سوالوں میں پانچواں سوال علم کے متعلق ھوگا کہ جو علم حاصل کیا تھا اس پر کتنا عمل کیا یہاں یہ بات جاننی ضروری ھے کہ علم سے مراد یہاں دینی علم یعنی قرآن وسنت کا علم  ھے دنیاوی علوم و فنون اس  سوال میں داخل نہیں ھیں دوسرا اس سوال کا یہ مطلب بھی ھرگز نہیں کہ اس سوال سے بچنے کے لئے  دین کا علم ھی نہ سیکھا جائے  کہ نہ علم ھو گا نہ سوال ھو گا  ایک مرتبہ ایک مولانا صاحب  اپنے بیان میں بتا رھے تھے کہ قیامت والے دن اس سلسلہ میں عالم سے تو ایک سوال ھو گا  کہ علم پر کتنا عمل کیا لیکن جاھل سے دو سوال ھوں گے کہ علم کیوں حاصل نہ کیا اور عمل کیوں نہ کیا ( واللہ عالم) 

یہ لازمی جاننا چاھیے کہ دینی علم کا کچھ حصہ ایسا ھے جسے سیکھنا ھر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ھے  چنانچہ ابن عساکر  نے حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ  سے روایت کی کہ ان سے حضور صلی الله  علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے قیامت میں سوال ہوگا کہ تم عالم تھے یا نرے جاہل،اگر تم نے کہا کہ میں عالم تھا تو حکم ہوگا کہ اپنے علم پر عمل کیا کیا؟ اور اگر تم نے کہا کہ جاہل تھا تو فرمایا جاوے گا کہ تم جاہل کیوں رہے ؟ تمہیں کیا عذر تھا۔ علم سے مراد علم دین ھی  ہے سو اگر کوئی شخص  دنیاوی علوم میں بہت بڑی بڑی ڈگریاں رکھتا ھو لیکن دین کا فرض علم بھی اس نے نہ سیکھا ھو تو دینی اعتبار سے وہ جاھل ھی تصور  کیا جائے گا  جیسا کہ آج کل کا عام مشاھدہ ھے  کہ پڑھے لکھے جہلاء کی بہتات ھے وزیروں تک کی حالت یہ ھے کہ سورہ اخلاص تک نہیں پڑھ سکتے لہذا ایک مسلمان  کو چاہیے کہ علم دین سیکھنے کا اھتمام کرتا رھے  اور نیک عمل کرتا رھے۔

علماء فرماتے ھیں کہ پانچ طرح کے علوم حاصل کرنا ہر عاقل بالغ مسلمان پرفرض ہے:


(1)اسلامی عقائد کا علم

یعنی ان عقیدوں کو جاننا کہ جن کے ذریعے آدمی سچا پکا مسلمان بنتا ھے  اور ان کا انکار کرنے سے بندہ اسلام سے نکل جاتا ھے  یا گمراہ ہو جاتا ھے


(2)ضرورت کےمسئلے جاننا : 

یعنی عبادات (مثلاً نماز، روزہ،حج و زکوۃ وغیرہ) و معاملات (مثلاً ملازمت و کاروبار وغیرہ جس کام سے اس شخص کا تعلق ہے اس کے ضروری مسائل


(3) حلال و حرام کا جاننا:  

مثلاً کھانا کھانے ،لباس پہننے، زینت کرنے،ناخن و بال کاٹنے، نام رکھنے،عارضی استعمال کے لیے چیزیں لینے، قرض و امانت و تحفہ لینے دینے، قسم کھانے، وصیّت و تقسیمِ جائیداد وغیرہ کے مسائل ظاہری گناہ کی ضروری معلومات بھی اس میں شامل ہے


(4)ہلاک کرنے والے اعمال

ہلاک کر دینے والے اعمال کی ضروری معلومات اور ان سے بچنے کے طریقوں کا سیکھنا بھی ضروری ھے ۔


(5)نجات دلانے والے اعمال: 

عذاب  سے نجات  دلانے والے اعمال کی ضروری معلومات اور انہیں حاصل کرنے کے طریقے معلوم کرنا بھی ھر مسلمان کے لئے ضروری ھیں 


رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ 

علم حاصل کرناہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘(ابن ماجہ

اس حدیثِ پاک سے اسکول کالج کی مُرَوَّجہ دُنیوی تعلیم نہیں بلکہ ضَروری دینی علم مُرادہے۔لہٰذا سب سے پہلے اسلامی عقائد کا سیکھنا فرض ہے،اس کے بعدنَماز کے فرائض و شرائط ومُفسِدات(یعنی نَماز کس طرح دُرُست ہوتی ہے اور کس طرح ٹوٹ جاتی ہے )پھر رَمَضانُ المُبارَک کی تشریف آوَری ہوتوجس پر روزے فرض ہوں اُس کیلئے روزوں کے ضَروری مسائل،جس پر زکوٰۃ فرض ہو اُس کے لئے زکوٰۃ کے ضَروری مسائل،اسی طرح حج فرض ہونے کی صورت میں حج کے،نکاح کرنا چاہے تو اس کے،تاجر کو تجارت کے،خریدار کو خریدنے کے،نوکری کرنے والے اورنوکر رکھنے والے کو اِجارے کے،وَعلٰی ھٰذا الْقِیاس(یعنی اوراسی پر قِیاس کرتے ہوئے )ہر مسلمان عاقِل و بالِغ مردو عورت پر اُس کی موجودہ حالت کے مطابِق مسئلے سیکھنا فرضِ عَین ہے۔اِسی طرح ہر ایک کیلئے حلال و حرام کے ضروری مسائل بھی سیکھنا فرض ہیں۔نیز مسائلِ قلب(باطِنی علم)یعنی فرائضِ قَلْبِیہ(باطِنی فرائض)مَثَلاً عاجِزی و اِخلاص اور توکُّل وغیرہا اوران کو حاصِل کرنے کا طریقہ اور باطِنی گناہ مَثَلاً تکبُّر،رِیاکاری،حَسَد،بدگمانی،بغض و کینہ،شُماتَت وغیرہ کا جاننا بھی ضروری ھے

 اللہ تعالی کی  صفات میں سے ایک صفت “اعلم “ ہے، اللہ کی ذات ازلی تو اس کی صفت بھی ازلی، اس کا کچھ حصہ اللہ نے مخلوق کو عطا کیا، اور اس میں انسان کو برتر رکھا، بلکہ بعض حضرات کی تحقیق کے بموجب صفت علم انسان کا خاصہ اور امتیاز ہے لہٰذا علم کو انسان کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا، اور علم سے انسان کو متصف کرنے کی غرض عمدہ صفات، حسن اخلاق ،اور سیرت اور کردار میں خوبی، اور بہتری پیدا کرنا ہے ، اللہ رب العزت کی ذات،تمام صفات حمیدہ کو جامع ہے ، اس لیے کہ اس کا علم ”علم محیط“ ہے، اللہ نے اپنی اس صفت کا پرتو انسان میں اسی لیے رکھا تاکہ تخلقوا بأخلاق اللّٰہ والی حدیث پر عمل در آمد ہو سکے، اور بندہ اپنے اندر بھی کمال پیدا کرے ،حضرت آدم علیہ السلام کو جو برتری اورخصوصیت دی گئی اس کی وجہ بھی تو علم ہے لہٰذا علم کا تقاضہ یہ ہے کہ جتنا علم ہو انسان اتناہی بااخلاق ہو، حضرت انبیاء کرام علیہم الصلوة والسلام کو اللہ نے” علم وحی“ سے نوازا تو ساری انسانیت کے لئے نمونہ ثابت ہوئے۔

حضرات صحابہ بھی جب علم الٰہی اور علم نبوی سے سرشار ہوئے تو انکی زندگیوں میں عجیب انقلاب بر پا ہوگیا، اور وہ بھی رہتی دنیا تک انسانوں کے لیے أسوہ بن گئے،معلوم ہوا علم دین اپنے اندر انقلابی تاثیر رکھتاہے

علم حاصل کرنے کےبعد اس پر عمل کرنا بھی اشد ضروری ھے ورنہ یہی علم انسان کے لئے وبال بن جائے گا یہی وہ عمل ھے جس کے متعلق قیامت والے دن سوال ھوگا  قرآن وحدیث  میں اس کی بہت تاکید آئی ھے

چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ھے

يٰٓـاَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَo کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اﷲِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَO  (الصف)

اے ایمان والو! تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہوo اللہ کے نزدیک بہت سخت ناپسندیدہ بات یہ ہے کہ تم وہ بات کہو جو خود نہیں کرتے۔


مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِّلُوْا التَّوْرٰةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا ط بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ کَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ اﷲِ ط وَاﷲُ لَا يَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَo

(الجمعة،)

اُن لوگوں کا حال جن پر تورات (کے احکام و تعلیمات) کا بوجھ ڈالا گیا پھر انہوں نے اسے نہ اٹھایا (یعنی اس میں اِس رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا ذکر موجود تھا مگر وہ اِن پر ایمان نہ لائے) گدھے کی مِثل ہے جو پیٹھ پر بڑی بڑی کتابیں لادے ہوئے ہو، اُن لوگوں کی مثال کیا ہی بُری ہے جنہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا ہے، اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔

بہت سی آحادیث مبارکہ میں بھی علم پر عمل کرنے کی تراغیب اور عمل نہ کرنے پر  شدید وعیدیں وارد ھوئی ھیں

عَنْ أُسَامَةَ رضی الله عنه قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: يُجَاءَ بِالرَّجُلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُلْقَی فِي النَّارِ فَتَنْدَلِقُ أَقْتَابُهُ فِي النَّارِ. فَيَدُوْرُ کَمَا يَدُوْرُ الْحِمَارُ بِرَحَاهُ. فَيَجْتَمِعُ أَهْلُ النَّارِ عَلَيْهِ فَيَقُوْلُوْنَ: أَي فُلاَنُ، مَا شَأْنُکَ؟ أَلَيْسَ کُنْتَ تَأْمُرُنَا بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَانَا عَنِ الْمُنْکَرِ؟ قَالَ: کُنْتُ آمُرُکُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا آتِيْهِ وَأَنْهَاکُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَآتِيْهِ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یوں فرماتے ہوئے سنا: روزِ قیامت ایک شخص کو لا کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ (شدتِ عذاب کی وجہ سے) اس کے پیٹ کی آنتیں باہر گر پڑیں گی۔ پھر وہ اس طرح گردش کرے گا جس طرح گدھا چکی کے گرد چکر لگاتا ہے۔ اہلِ دوزخ اس کے گرد جمع ہو کر پوچھیں گے: اے فلاں شخص! تمہاری یہ حالت کیوں کر ہے؟ کیا تم ہمیں نیکی کا حکم نہیں دیتے تھے اور برائی سے منع نہیں کرتے تھے؟ وہ شخص جواب دے گا: ہاں میں تمہیں تو نیکی کا حکم دیتا تھا لیکن خود نیکی نہیں کرتا تھا اور میں تمہیں تو برائی سے روکتا تھا لیکن خود برے کام کرتا تھا۔ ( متفق علیہ)

ایک دوسری روایت میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے: اے اللہ! میں اس علم سے جو نفع نہ دے، اس دل سے جو تجھ سے ڈرتا نہ ہو، اس نفس سے جو سیر نہ ہوتا ہو اور اس دعا سے جو قبول نہ ہو تیری پناہ مانگتا ہوں۔

(مسلم، احمد، نسائی اور ابن ماجہ )

ایک اور روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: معراج کی رات میں ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ فرشتوں نے جواب دیا: یہ دنیا دار (پیشہ ور) خطباء ہیں جو لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے تھے اور اپنے آپ کو بھول جاتے تھے حالانکہ وہ کتابِ (الہٰی) کی تلاوت کرتے تھے۔ کیا وہ عقل نہیں رکھتے؟

اسے امام احمد اور ابویعلی نے روایت کیا ھے

خلاصۂ کلام یہ کہ ھر مسلمان کو حتی الوسع علم حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاھیے خواہ وہ عمر کے کسی بھی حصے میں ھو

علم عمل کرنے کی نیت سے ھی حاصل کرنا چاھیے اور زندگی میں اس پر عمل کرتے ھی رھنا چاھیے تاکہ  عالم آخرت میں علم کے بہترین فضائل حاصل ھو سکیں جو جنت میں اونچے درجات کے حصول کا سبب بن سکیں اور   قیامت والے دن عمل نہ کرنے کے سوال کی سختی سے بچ سکیں 


میدانِ حشر میں عدلِ الہی کا ظہور

آخرت میں اللہ سبحانہ و تعالی کے عدل کا ایک مظہر یہ ہو گا کہ وہ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے بدلہ  دلوائے گا۔ پس جس کا حق دنیا میں کسی بھی طریقہ سے سلب کر لیا ھو گا کسی بھی طرح کا اس پر ظلم کیا ہو گا اس سے قیامت کے میدان میں متعلقہ شخص سے بدلہ دلوائے گا۔ آپ ﷺنے فرمایا: ”تمھیں روز قیامت حق والوں کے حق ضرور ادا  کرنے ہوں گے حتی کہ بغیر سینگ والی بکری کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلوایا جائے گا۔ “ (مسلم)۔

 حشر کے دن وہ آدمی ناکام و نامراد  ہو گا جس کی نیکیاں دوسروں کے لیے لے لی جائیں گی، حالانکہ وہ خود ان کا حد درجہ محتاج ہو گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے اپنے بھائی کی عزت یا کسی اور شے میں حق تلفی کر رکھی ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ آج ہی اس سے بری الذمہ ہو جائے، اس سے پہلے کہ (وہ دن آئے) جب نہ دینار ہوں اور نہ درہم ۔ اگر اس کی کچھ نیکیاں ہوں گی تو جتنی اس نے حق تلفی کی ہو گی، اس قدر اس کی نیکیاں لے لی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں نہیں ہوں گی، تو اس کے بھائی کی برائیوں کو لے کر اس کے کھاتے میں ڈال دیا جائے گا “۔ (بخاری)۔

اللہ پاک ھم سب کو کہنے سننے سے زیادہ عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے

آمین یا رب العالمین

Share: