رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کیسے رمضان المبارک کا استقبال فرماتے تھے؟

 رمضان المبارک سے دو ماہ پیشتر یعنی رجب کے مہینہ ہی سے  رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے ہاں رمضان المبارک کی تیاری اور اس حوالہ سے مذاکرے شروع ہوجاتے تھے ایک روایت کےمطابق رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   رجب کے مہینہ میں یہ دعا مانگا کرتے تھے :۔

اللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَب، وَشَعْبَانَ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَان

 (شعب الایمان للبیہقی)

یعنی اے اللہ ! ہمیں رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور رمضان نصیب فرما۔


حضور نبی اکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  رمضان المبارک سے اتنی زیادہ محبت فرماتے کہ اکثر اس کے پانے کی دُعا فرماتے تھے اور رمضان المبارک کا اہتمام ماہ شعبان میں ہی روزوں کی کثرت کے ساتھ ہو جاتا تھا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   بڑے شوق و محبت سے ماہ رمضان کا استقبال فرماتے۔

 نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  اس مبارک مہینے کو خوش آمدید کہہ کر اس کا استقبال فرماتے اور صحابہ کرام سے سوالیہ انداز میں تین بار دریافت کرتے :

مَاذَا يَسْتَقْبِلُکُمْ وَتَسْتَقْبِلُوْنَ؟

’’کون تمہارا استقبال کر رہا ہے اور تم کس کا استقبال کر رہے ہو؟‘‘

حضرت عمر بن خطاب  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ! کیا کوئی وحی اترنے والی ہے؟ فرمایا : نہیں۔ عرض کیا : کسی دشمن سے جنگ ہونے والی ہے؟ حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے فرمایا : نہیں۔ عرض کیا : پھر کیا بات ہے؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے فرمایا :

اِنَّ اﷲَ يَغْفِرُ فِی أَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ لِکُلِّ أَهْلِ الْقِبْلَةِ.

(منذری، الترغيب والترهيب)

بے شک اﷲ تعالیٰ ماہ رمضان کی پہلی رات ہی تمام اہلِ قبلہ کو بخش دیتا ہے۔‘‘

رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  شعبان میں کثرت سے روزے رکھتے تھے

عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، لَمْ أَرَکَ تَصُوْمُ شَهْرًا مِنَ الشُّهُوْرِ مَا تَصُوْمُ مِنْ شَعْبَانَ؟ قَالَ : ذَالِکَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيْهِ الأَعْمَالُ إِلَی رَبِّ الْعَالَمِيْنَ فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ. -  نسائي، . أحمد بن حنبل، المسند

حضرت اُسامہ بن زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُما  روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ! جس قدر آپ شعبان میں روزے رکھتے ہیں اس قدر میں نے آپ کو کسی اور مہینے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے فرمایا : یہ ایک ایسا مہینہ ہے جو رجب اور رمضان کے درمیان میں (آتا) ہے اور لوگ اس سے غفلت برتتے ہیں حالانکہ اس مہینے میں (پورے سال کے) عمل اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ میرے عمل روزہ دار ہونے کی حالت میں اُٹھائے جائیں۔

اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا  بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو مسلسل دو ماہ تک روزے رکھتے نہیں دیکھا مگر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   شعبان المعظم کے مبارک ماہ میں مسلسل روزے رکھتے کہ وہ رمضان المبارک کے روزہ سے مل جاتا۔

(نسائي، السنن)

ماہ شعبان ماہ رمضان کے لئے مقدمہ کی مانند ہے لہٰذا اس میں وہی اعمال بجا لانے چاہییں جن کی کثرت رمضان المبارک میں کی جاتی ہے یعنی روزے اور تلاوتِ قرآن حکیم۔ علامہ ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ ’لطائف المعارف (ص : 258)‘ میں لکھتے ہیں :

’’ماہ شعبان میں روزوں اور تلاوتِ قرآن حکیم کی کثرت اِس لیے کی جاتی ہے تاکہ ماہ رمضان کی برکات حاصل کرنے کے لئے مکمل تیاری ہو جائے اور نفس، رحمن کی اِطاعت پر خوش دلی اور خوب اطمینان سے راضی ہو جائے۔‘‘

صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم کے معمول سے اِس حکمت کی تائید بھی ہو جاتی ہے۔ حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ شعبان میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معمول پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں :

کان المسلمون إِذَا دَخَلَ شَعْبَانُ أکبُّوا علی المصاحِفِ فقرؤوها، وأَخْرَجُوْا زَکَاةَ أموالهم تقوِيَةً للضَّعيفِ والمسکينِ علی صيامِ و رمضانَ. (ابن رجب حنبلی، لطائف المعارف) 

’’شعبان کے شروع ہوتے ہی مسلمان قرآن کی طرف جھک پڑتے، اپنے اَموال کی زکوۃ نکالتے تاکہ غریب، مسکین لوگ روزے اور ماہ رمضان بہتر طور پر گزار سکیں۔‘‘

جب رسول کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  شعبان کے مہینہ میں داخل ہوتے تو رمضان المبارک پانے کا اشتیاق مزید بڑھ جاتا ۔ گویا رمضان المبارک کی برکات سے بھر پور طریقہ سے فیضیاب ہونے کی خاطر ریہرسل فرمارہے ہوں ۔ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا بیان کرتی ہیں :۔

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يصوم، حتى نقول: لا يفطر، ويفطر حتى نقول: لا يصوم، فما رايت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم استكمل صيام شهر إلا رمضان، وما رأيته اكثر صياما منه في شعبان

یعنی رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  شعبان کے مہینہ میں اس قدر نفلی روزے رکھتے کہ ہمیں محسوس ہوتا گویا آپ مسلسل روزے رکھتے چلے جائیں گے۔ اور جب روزہ رکھنا چھوڑ دیتے تو ہمیں لگتا کہ آپ مزید روزے نہ رکھیں گے۔ نیز آپ بیان فرماتی ہیں کہ میں نے رمضان المبارک کے علاوہ رسول اللہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو کبھی پورے مہینے کےنفلی روزےرکھتے نہیں دیکھا اور جتنے روزے آپ شعبان میں رکھتے میں نے کسی مہینہ میں اس سے زیادہ روزے رکھتے آپ کو نہیں دیکھا۔ (صحیح بخاری  )

حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا سے روایت ہے کہ :۔

ما رأيت رسول اللّٰه ﷺ يصوم شهرين متتابعين، إلا أنه كان يصل شعبان برمضان

یعنی میں نے آنحضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کو کبھی لگا تار دو مہینے روزے رکھتے نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ آپ شعبان کو رمضان المبارک سے ملا دیتے۔ (سنن ابی داؤد )

پس یہ بھی استقبال رمضان کا ایک طریق تھا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  اس مبارک مہینہ میں داخل ہونے کی تیاری کے پیش نظر کثرت سے نفلی روزے رکھتے چلے جاتے اور روزے رکھتے رکھتے ہی رمضان المبارک کے مبارک ایام میں داخل ہوجاتے ۔ حدیث کے ان الفاظ سے مراد یہ ہے کہ  رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  شعبان میں بکثرت نفلی روزے رکھتے تھے۔

صحیح مسلم کی روایت کے مطابق آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   صحابہ کرام کو بھی شعبان کے مہینہ میں روزہ رکھنے کی ترغیب دلاتے۔

حضرت عمران بن حصین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے۔

اَنَّ رسول اللّٰه ﷺ قال له او لآخر: “ اصمت من سرر شعبان؟ 

قال: لا، قال: فإذا افطرت فصم يومين

رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ان سے فرمایا: ’’تم نے شعبان کے اول میں کچھ روزے رکھے؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: ’’جب تم افطار کے دن تمام کر لو تو دو دن روزے رکھو(صحیح مسلم )

شعبان کے دنوں میں رمضان المبارک کو پالینے کی تڑپ کا اظہار اس حدیث سے بھی ہوتا ہے جس میں آنحضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے رمضان کے انتظار میں شعبان کے دن گن گن کر گزرنے کی تحریک فرمائی ہے ۔ چنانچہ روایت  میں ھے کہ شعبان کے چاند رمضان المبارک کے انتظار میں گن گن کر گزارو۔

(سنن ترمذی ۔کتاب الصیام عن رسول اللہ ﷺ)

رؤیت ہلال کے پہلو کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس حدیث سے یہ بھی مراد ہے کہ رمضان المبارک کی آمد کے پیش نظر شعبان کی تاریخوں کا بھی حساب رکھو۔

حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے۔کہ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے شعبان کی آخر ی تاریخ کو وعظ فرمایا اور رمضان المبارک کی آمد کی خبر دیتے ہوئے آ پ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا:۔

“سنو!  تم پر ایک مہینہ سایہ فگن ہونے والاہے جو بہت بڑا اوربہت مبارک مہینہ ہے۔ اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس کے روزے رکھنافرض فرمایا اور اس کی رات کے قیام کو ثواب ٹھہرایاہے۔ جو شخص اس مہینہ میں کوئی نفلی نیکی بجا لائے گا تو وہ ایسے ہی ہے جیسا کہ عام دنوں میں فرض کا ثواب ہو اور جو شخص اس مہینہ میں کسی فرض کو ادا کرے گا وہ ایسا ہے جیسے غیر رمضان میں ستر فرائض ادا کرے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے، یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے۔ اس مہینہ میں مومن کارزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے اس کے لئے گناہوں کے معاف ہو نے اور آگ سےنجات کا سبب ہو گا اور اسے روزہ دار کے ثواب کے برابر ثواب ہو گا مگر روزہ دار کے ثواب سے کچھ بھی کمی نہیں ہوگی۔

صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی عنہم نے عرض کیا:یا رسول اﷲ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ! ہم میں سے ہر شخص تو اتنی طاقت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے۔ تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا کہ (یہ ثواب پیٹ بھر کرکھلانے پر موقوف نہیں) بلکہ اگر کوئی شخص ایک کھجور سے روزہ افطار کرا دے یا ایک گھونٹ پانی یا ایک گھونٹ دودھ کاپلادے تو اللہ تعالیٰ اس پربھی یہ ثواب مرحمت فرما دےگا۔یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اول حصہ رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ جہنم کی آگ سے آزادی کاہے۔ جو شخص اس مہینہ میں اپنے غلام اور نوکر کے بوجھ کو ہلکا کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادے گا اور آگ سے آزادی عطا فرمائے گا۔ اس مہینہ میں چار چیزوں کی کثرت کیا کرو جن میں سے دو چیزیں اﷲ کی رضا کے لیے ہیں اور دوچیزیں ایسی ہیں جن سے تمہیں چارہ کار نہیں۔ پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور جہنم کی آگ سے پناہ مانگو۔جو شخص کسی روزہ دار کو افطار کراتے ہوئے پانی پلائے گا تو اللہ تعالیٰ میرے حوض سے اس کوایسا پانی پلائے گا جس کے بعد جنت میں داخل ہو نے تک اسے پیاس نہیں لگے گی۔‘‘ (صحیح ابن خزیمۃ)

حضرت ابو جعفر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے رمضان المبارک کا چاند دیکھا تو آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور پھر یہ جامع دعا کی :۔

اَللّٰھم اہلہ علینا بالامن والایمان والسلامة والاسلام والعافیة المجللہ ، ورفع الاسقام والعون علی الصیام والصلٰوة وتلاوة القرآن، اللھم سلمنا لرمضان وسلمہ لنا ، وتسلمہ منا حتی یخرج رمضان وقد غفرت لنا ورحمتنا وعفوتنا۔ (فضائل رمضان لابن ابی دنیا)

یعنی اے اللہ اسے (رمضان کے چاند کو) ہم پر امن، ایمان، سلامتی اسلام، عظیم عافیت کے ساتھ طلوع فرما۔ اور بیماریوں کودور کرنے، روزوں، نماز، تلاوت قرآن کے لئے مددگار کے طور پر (طلوع ہو) اے اللہ! ہمیں رمضان کے لئے سلامت رکھیو اور رمضان کو ہمارے لئےسلامتی کا موجب بنا۔ اور اسے ہم سے اس حالت میں واپس لیجیئو کہ رمضان جائے اور تو ہمیں بخش چکا ہو، ہم پر رحم فرما چکا ہو اور ہم سے درگزر فرماچکا ہو۔

جب حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  رمضان المبارک کا چاند دیکھتے تو دعا کرتے : یہ چاند خیر و برکت کا ہے، یہ چاند خیر و برکت کا ہے، میں اس ذات پر ایمان رکھتا ہوں جس نے تجھے پیدا فرمایا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)


آسمان پر رمضان المبارک کے استقبال کی تیاریوں کا منظر

رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم کے دروازے وسیع ہوجاتے ہیں اور خیر و برکت کے طالب ہر شخص کے لئے نیکیوں کا حصول آسان کر دیا جاتا ہے چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں :۔

قال رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم: ’’إذا كان اول ليلة من شهر رمضان، صفدت الشياطين ومردة الجن، وغلقت ابواب النار فلم يفتح منها باب، وفتحت ابواب الجنة فلم يغلق منها باب، وينادي مناد يا باغي الخير اقبل، ويا باغي الشر اقصر، ولله عتقاء من النار وذلك كل ليلة

یعنی جب ماہ رمضان المبارک کی پہلی رات آتی ہے، تو شیطان اور سرکش جن جکڑ دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھلا نہیں رکھا جاتا۔ اور جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، پکارنے والا پکارتا ہے۔ اے خیر کے طلب گار! آگے بڑھ، اور اے شر کے طلب گار! رک جا اور  اللہ کے بہت سے بندے آگ سے آزاد کئے جاتے ہیں اور ایسا (رمضان کی) ہر رات کو ہوتا ہے۔ (سنن ترمذی )

اسی طرح ایک روایت کے مطابق رمضان المبارک کا چاند دیکھنے پر آنحضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے خیر وبرکت اورسلامتی کی دعا مانگی اور اس کے بعد لوگوں سے مخاطب ہوئے اور فرمایا:۔

ایھا الناس، ان ھذا شہر رمضان، غلت فی الشیاطین و غلقت فیہ ابواب جہنم و فتحت فیہ ابواب الجنان ونادی مناد کل لیلة، ھل من سائل فیعطی، ھل من مستغفر فاغفر لہ  (فضائل رمضان لابن ابی دنیا)

اے لوگو! یہ رمضان کا مہینہ ہے ۔ اس میں شیاطین جکڑ دئے گئے ہیں اورجہنم کے دروازے بند کر دئے گئے ہیں اور اس میں جنتوں کے دروازے کھول دئے گئے ہیں۔ اور ہر رات کو منادی اعلان کرے گا کہ کیا کوئی مانگنے والا ہے تاکہ اسے عطا کیا جائے ، کیا کوئی بخشش کا طلبگار ہے تاکہ میں اسے بخش دوں۔ 

اللّٰهمَّ صلِّ على محمَّد وعلى آل محمَّد، كما صليتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم؛ إنَّك حميدٌ مجيد۔ اللّٰهمَّ بارِك على محمَّد وعلى آل محمَّد، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم؛ إنَّك حميدٌ مجيد۔

Share: