فَیُضِلُّ اللہُ مَنۡ یَّشَآءُ وَیَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَہُوَ الْعَزِیۡزُ الْحَکِیۡمُO
پھر اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اور وہ غالب اور حکمت والا ہے۔(سورہ ابراہیم)
ھدایت کسی کی وراثت نہیں۔ یہ ایک نعمتِ خداوندی ھے ۔ اللہ تعالی جب چاھتا ھے جسے چاھتا ھے عطا فرما دیتا ھے ۔ جب چاھتا ھے تو کافروں اور مشرکوں کو بھی ھدایت دے دیتا ھے اور جب نہیں چاھتا تو بڑے بڑے علماء کرام بلکہ اُن سے بھی بڑھ کر آنبیاء کرام کے گھر والوں کو بھی ھدایت نہیں ملتی ۔اسی سلسلہ میں ذیل میں ایک سورج پرست ھندو سوریا مہاراج کے قبولِ اسلام اور کچھ دن بعد وفات کا ایمان آفروز واقعہ ھے ، اسے پڑھیں اور اللہ تعالی کی اس عظیم قدرت کا مظاھرہ ملاحظہ فرمائیں :-
وہ دارالعلوم دیوبند کے قریب ایک محلے میں ایک امیر ھندو گھرانے میں پیدا ھوا تھا اور ھندؤں کے اس مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتا تھا جو سورج کی پوجا کرتے ھیں !بچپن گزرا تو جوانی شروع ھوئی ! بچپن کی طرح اس کی جوانی بھی نرالی تھی ، وہ ایک ھمدرد اور دیالو نوجوان تھا، ھر دم ھر وقت کسی کی مدد کو تیار ! مذھبی تعصب سے بالاتر،، محلے کی سب خواتین کو ماسی کہتا ،ان کے کام کرتا ! جوانی سے اس کا معمول تھا کہ وہ صبح دارالعلوم دیوبند کے کنوئیں پر سورج طلوع ھونے سے تھوڑا پہلے آتا،، پانی نکال کر اشنان کرتا اور پھر پشت سورج کی طرف کر کے اپنے سائے کی گردن پر نظر جما کر گھنٹوں کھڑا رھتا اور پھر اپنا جاپ ختم کر کے چلا جاتا ! نہ اس نے کبھی دارالعلوم دیوبند کے مہتمم سے کوئی ربط ضبط بڑھانے کی کوشش کی اور نہ ھی کبھی انہوں نے اسے کنوئیں پر نہانے اور دارالعلوم کے ایک کونے میں اپنی عبادت کرنے سے روکا ! وقت گزرتا رھا اور مہہتم دارالعلوم فوت ھو گئے اور اُن کی وفات کے بعد نظم و نسق ان کے فرزند کے ھاتھ آیا ،، ادھر سوریا مہاراج بھی اب عمر کے اخری دور میں داخل ھو چکے تھے مگر معمولات میں کوئی فرق نہیں آیا تھا !
آج بادل بنے ھوئے تھے اور سوریا مہاراج اشنان کر کے سورج کا انتظار کر رھے تھے مگر بادل سورج کو دبوچے بیٹھے تھے، سورج نکلے بغیر سایہ نہیں بنتا اور سایہ بنے بغیر عمل تسخیر نہیں ھوتا ،، یہ مشق مسلمان صوفیاء کے یہاں بھی ھمزاد کو تسخیر کرتے وقت استعمال کی جاتی ھے !
پتہ نہیں تقدیر کو سوریا مہاراج پر ترس آیا یا خود ان کا موڈ مسلمان مولوی کو چھیڑنے کا بن گیا ! وہ مہتمم صاحب کے پاس جا کھڑے ھوئے جو اس وقت کیکر سے مسواک کاٹ رھے تھے ! مہاراج نہ تو آپ کے پرشوں نے ھمیں مسلمان بنانے کی کوئی کوشش کی اور نہ ھی آپ ھمیں جنت میں بھیجنے کی کوشش کرتے ھو ؟ سوریا جی نے مذاق کے انداز میں مہتمم صاحب کو چھیڑا ! مولانا ،، نے پلٹ کر سوریا جی کو دیکھا اور ان کا ھاتھ پکڑے پکڑے اپنے دفتر میں لے آئے !
آپ سنایئے مہاراج ! آج ھمارے نصیب کیسے جاگے؟ ، آپ نے ھمیں وقت کیسے دے دیا ،،آپ جناب تو کسی کو لفٹ ھی نہیں کراتے ؟ مولانا نے مسکراتے ھوئے کہا ! سوریا جی نے برجستہ جواب دیا کہ دیکھو بھئ تم میرے بچوں کے سمان ھو ،مجھے غچہ دینے کی کوشش مت کرو ،سوال پہلے میں نے کیا ھے ،جواب بھی میرا حق بنتا ھے،آخر تم لوگ ساری دنیا کو مسلمان بنانے بستر اٹھائے پھرتے ھو،، بھیا میں تمہارے پڑوس میں عمر پوری کر چلا ھوں مجھے کسی ایک بار جھوٹے منہ بھی نہیں پوچھا کہ میاں تم بھی مسلمان بننا چاھتے ھو یا نہیں؟ میاں سنا ھے پڑوسی کے تو بڑے حق حقوق ھوتے ھیں اسلام میں ،،چلو ھمیں پڑوسی کا حق ھی دے دیتے !
سوریا جی کی بات نے مولانا کو سنجیدہ کر دیا وہ بڑی متانت سے بولے، سوریا جی میرے والد مرحوم کی جان نکلنے سے پہلے وصیت آپ کے لئے ھی تھی،، وہ فرماتے تھے، یہ سوریا جنتی آدمی ھے اس میں ساری عادتیں اللہ کی پسندیدہ ھیں ،، بس تھوڑا کاغذی کام باقی ھے ،،یہ اندر سے مسلمان ھے،اللہ کی رحمت اس پر ٹوٹ پڑنے کو تیار ھے،، بس تم اس لمحے کے لئے تیار رھنا جب سوریا جی میں رب کی جوت جاگے گی،، اس وقت انہیں سنبھالنا تمہاری ذمہ داری ھے ! مولانا کی بات سن کر سوریا جی ھکا بکا رہ گئے ! اچھا جی تو مولانا مرحوم بہت پہنچی ھوئی ھستی تھے،ھمیں خبر بھی نہیں لگنے دی اور ھمیں پڑھتے رھے،، خیر ،،
مولانا نے پوچھا سوریا جی آج آپ جاپ نہیں کر رھے؟ بیٹا تمہیں معلوم ھے سورج نظر نہ آئے تو اپنا جاپ رہ جاتا ھے ! اچھا سوریا جی کبھی آپ آتے ھیں تو سورج دستیاب نہیں ھوتا ،، کبھی سورج ھوتا ھے تو آپ بیمار ھوتے ھیں نہیں آتے،، آج آپ دونوں موجود ھیں مگر ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے،، یہ درمیان میں اڑچن کون ڈال دیتا ھے ؟ بادل ! سوریا جی نے بڑے آھستہ سے کہا ! اچھا سورج ایک ھلکے بھلکے بادل کے آگے مجبور ھو گیا،، یا کسی اور ھستی نے جو سورج سے زیادہ طاقتور ھے ، اپنے حکم سے ایک اڑچن کھڑی کر دی اور سورج مہاراج آگ اگلنے کے باوجود مجبور ھو گئے ؟ سوریا جی خاموش رھے ! اچھا سوریا جی کبھی ایسا ھوا کہ آپ کے ناغے سے ناخوش ھو کر سورج نے بھی غصے سے اگلے دن ناغہ کر دیا ھو اور طلوع ھونے سے انکار کر دیا ھو ؟ ایسا کیسے ھو سکتا ھے ؟ سوریا جی نے پلٹ کر جواب دیا ! ایسا کیوں نہیں ھو سکتا کیا سورج دیوتا کو غصہ نہیں آتا یا اسے آپ کے ناغے کی خبر نہیں ھوتی ،، مولانا نے نرمی سے گفتگو کو جاری رکھا،، غصہ بھی آتا ھے اور اس غصے سے پناہ کے لئے ھی ھم اس کی پوجا کرتے ھیں اور انہیں ھماری پوجا کی خبر بھی ھوتی ھے،مگر،،،،، کیا "مگر "مولانا نے بات کو جاری رکھا ! مگر سورج دیوتا مجبور ھے کہ وہ طلوع ھو ،، وہ اپنی مرضی سے طلوع غروب نہیں ھو سکتا ،، سوریا جی نے ایک سوچتی ھوئی شکل کے ساتھ جواب دیا ! مہاراج اگر دیوتا بھی مجبور ھوتے ھیں تو پھر ھماری مجبوریاں کیسے دور کریں گے؟ ایک مجبور دوسرے مجبور کی کیا مدد کر سکتا ھے ؟؟ کیوں نہ اسے مجبور کرنے والے سے ھی رجوع کر لیا جائے جو اسے طلوع و غروب کرتا ھے،، بادل بھیج کر اس کی دھوپ کو لپیٹ دیتا ھے ؟ سوریا جی چپ رھے ! مولانا نے بات جاری رکھتے ھوئے کہا،، سوریا جی آپ کے پاس چھٹی کرنے کا اختیار اور ارادہ ھے،، سورج کے پاس نہ چھٹی کا ارادہ ھے اور نہ ھی اختیار ھے !
سوریا جی مہاراج آپ کو پتہ ھے کہ اسی ارادے اور اختیار کی بنیاد پر تمام کائنات اور اس کو سنبھالنے والے ان کا نظم و نسق چلانے والے ملائکہ کو کہا گیا تھا کہ " آدم کو سجدہ کرو،، اس کی بڑائی تسلیم کرو ،، کائنات میں خالق نے پہلی صاحبِ ارادہ صاحبِ اختیار مخلوق پیدا کی ھے،، خدا کے بعد ارادے کی مالک ایک ھستی پیدا کی گئ اور کائنات اور اس کو سنبھالنے والے فرشتوں کو اس آدم کے قدموں میں ڈال دیا گیا ،جس آدم کی پشت میں آپ بھی تھے سوریا جی ،،،،،،، اور میں بھی تھا ،، آپ نے آج تک اس ارادے کو استعمال نہیں فرمایا ،،اپنے شرف کو استعمال نہیں کیا، اسے ویسے کا ویسا ھی رب کے پاس لے کر چلے جاؤ گے سوریا جی اور پھر اپنے رب کو کیا منہ دکھاؤ گے؟ اس سجدے کی قیمت تو چکاتے جاؤ جو اس اختیار کے صدقے فرشتوں سے کرایا گیا تھا !!!!!!
سوریا جی " ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم " کی تصویر بنے بیٹھے تھے،، مولوی جی پہ بھی جلال اور جمال کی دونوں صفات کا غلبہ تھا کبھی ایک آرھی تھی تو کبھی دوسری ،، لگتا تھا انہوں نے اپنے پرشوں کی بات پلے باندھ کر خوب تیاری کر رکھی تھی سوریا جی کے استقبال کی !
سوریا جی آپ بہت نیک انسان ھیں،، ھم سب نے آپ کو بچپن سے دیکھا ھوا ھے شاید کہ مسلمانوں میں بھی آپ سا ھمدرد ، سخی اور خداترس انسان پوری بستی میں نہیں ،،مگر سوریا جی پیپر ورک تو کرنا پڑے گا،، دل کے دروازے کا تالا اندر سے کھلتا ھے،، اللہ نے سنت بنا رکھی ھے اس نے نبیوں کے باپ ،بیٹوں اور بیویوں کو بھی ھدایت نہیں دی جب تک کہ انہوں نے دل کا دروازہ نہیں کھولا ،، کسی کے گھر بغیر چاھے جانے سے اللہ نے منع فرمایا ھے،،اس کا حکم ھے اسی گھر میں جاؤ ،جس گھر کا مالک انس محبت سے تمہیں بلائے،،پھر وہ آپ کے اندر بغیر انس کے بغیر آپ کے بلائے کیسے آ جائے گا ؟ اس کی رحمت کا سمندر آپ کی چارپائی کے گرد چکر کاٹتا رھتا ھے سوریا جی، بس ذرا دل کی کھڑکی کھول کے دیکھو وہ کیسے اندر آتا ھے !
سوریا جی مولانا صاحب کی باتیں سن کر اٹھ کر چلے تو ان کیفیت عجیب تھی ۔ لگتا تھا کہ وہ زمین پر نہیں پانی پر چل رھے ھیں،، زمین ان کے پاؤں تلے سے کھسک گئ تھی ! سوریا جی کے لئے وہ رات قیامت کی رات تھی ،، دل میں گداز پیدا ھونا تھا کہ رحمت کی جھڑی شروع ھو گئ ،، سوریا جی ساری رات رو رو کر اللہ تعالی سے معافیاں مانگتے رھے، وہ ڈر رھے تھے کہ وہ صبح سے پہلے کہیں مر ھی نہ جائیں،، کہیں پیپر ورک ادھورا نہ رہ جائے ،، انہوں نے اللہ تعالی سے اپنی ساری نیکیوں کے عوض صبح تک جینے کی مہلت مانگی ، آج انہین زندگی کی قدر آ گئ تھی ،، صبح ابھی دارالعلوم کے کھلنے کا وقت نہیں ھوا تھا کہ سوریا جی مہتمم صاحب کے گھر کے دروازے پر دستک دے رھے تھے !
دروازہ مولانا صاحب نے خود کھولا،،لگتا تھا وہ بھی اسی بات کی توقع رکھے ھوئے تھے،، سوریا جی کی کیفیت سے لگتا تھا کہ جیسے ان کا پورا وجود بول رھا ھے مگر زبان جواب دے گئ ھے،، مولانا نے ان کا ھاتھ پکڑا اور اپنی بیٹھک میں لے گئے ،، سوریا جی کو چارپائی پر بٹھا کر وہ ان کے قدموں میں بیٹھ گئے ،، اور گویّا ھوئے سوریا جی مہاراج ،، اپ کچھ بھی مت بولیئے ،، زبان کو بند رھنے دیجئے،، آج خود اللہ آپ کے وجود کو پڑھ رھا ھے، وہ آپ کی دعوت قبول کر کے آپ کے دل میں آ بیٹھا ھے،،سوریا جی میں اسی کے احترام میں آپ کے قدموں میں بیٹھا ھوں،، زارو قطار روتے سوریا جی کو انہوں نے خوب رونے دیا وہ جانتے تھے ھر مسلمان ھونے والا پیدا ھونے والے بچے کی طرح روتا ھوا مسلمان ھوتا ھے اور یہ صحت کی علامت ھے،جان کی صحت کی بھی اور ایمان کی صحت کی بھی !،،پھر اپنے ساتھ ناشتہ کروایا اور پھر مدرسے کے تمام طلباء کے سامنے اسلام قبول کرایا گیا ،، اسلامی نام عبداللہ منتخب کیا گیا اور اسلام قبول کرنے کے ھفتہ دس دن بعد عبداللہ بھائی بخار میں مبتلا ھوئے اور بس اسی بخار میں ھی اللہ کو پیارے ھو گئے !
عبداللہ بھائی کے جنازے کا منظر بھی دیدنی تھا ۔ یوں لگتا تھا جیسے پورا دیوبند جنازے میں شرکت کے لئے امڈ پڑا ھے، ایک تو وہ خود ایک انسان دوست شخصیت تھے،بلا تفریق مذھب و مسلک ھر ایک کے کام آنے والے،، اوپر سے جو اکرام مسلمانوں نے خاص کر دارالعلوم دیوبند کے طلباء نے ان کا کیا ،اس نے ھندوؤں کے دلوں میں بھی نھرپور گداز بھر دیا،، طلباء ان کی چارپائی کو کندھا دینے کے لئے ٹوٹے پڑتے تھے ،،
جنازہ شروع ھونے سے پہلے اعلان ھوا کہ جنازے میں کچھ تاخیر کی جائے گی کیونکہ کئ ھندو بھی مسلمان ھو کر جنازے میں شرکت چاھتے ھیں،، شیخ الجامعہ نے کہا کہ جو مسلمان ھونا چاھتے ھیں وہ صفوں میں کھڑے ھی ھمارے پیچھے شہادتین دھرا لیں،، باقی کام بعد میں ھوتے رھیں گے،، بہت سارے ھندوؤں نے جب شہادتین کا ورد شروع کیا تو جن کی نیت شاید مسلمان ھونے کی نہ بھی تھی وہ بھی کلمہ طیبہ کا ورد کرنے لگے ۔ اس موقعہ پر سینکڑوں لوگ مسلمان ھوئے ۔ اس طرح ایک عبداللہ کی ھدایت کے سبب سینکڑوں ھندوؤں کو اللہ پاک نے ھدایت سے نواز دیا ۔