وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ
اور ہم نے آپ (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے۔
لفظ “عید” کی تعریف
لفظی اعتبارسے ہر اس دن کو عید کہتے ہیں جس میں کسی بڑے آدمی یا کسی بڑے واقعہ کی یاد منائی جائے۔ بعض نے کہا کہ عید کو عید اس لیے کہتے ہیں کہ وہ ہر سال لوٹ کر آتی ہے۔ (المنجد ، معجم الوسیط)
عید کو عید کہنا ایک طرح کی نیک فالی اور اس تمنّا کا اظہار ہے کہ یہ روزِ مسرّت بار بار آئے۔(قاموس الفقہ)۔
ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحیح تاریخ
تمام موٴرخین اور اصحابِ سیر کا اس پر تو اتفاق ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی ولادتِ با سعادت پیر کے دن ہوئی؛البتہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی ولادتِ مبارکہ کی تاریخ میں شدید اختلاف پایا جاتا ھے ۔ حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی ولادت کے بارے میں جو مشہور ہے کہ یہ بارہ ربیع الاول کا ھی دن تھا یقینی طور پر درست نہیں ہے علامہ نووی رحمہ اللہ نے چار اقوال اس کے بارے میں نقل کیے ہیں اور ترجیح کسی ایک کو بھی نہیں دی
پہلا قول یہ ہے کہ دو ربیع الاول کا دن تھا
دوسرا قول یہ ہے کہ آٹھ ربیع الاول کا دن تھا
تیسرا قول یہ کہ دس ربیع الاول کا دن تھا ۔
چوتھا قول یہ ہے کہ بارہ ربیع الاول کا دن تھا۔
علامہ حلبی رحمہ اللہ کا رجحان سیرت حلبیہ میں ربیع الاول کی (9 ) تاریخ کی طرف ہے۔
بریلوی امام مولانا احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب میں تاریخ ولادت ۸ ربیع الاول تحریر کی ھوئی ھے
افسوس ان حضرات پر ہے جو بدعات و رسوم کی حقیقت سے آگاہی کے باوجود محض دنیوی اغراض اور عاجلانہ مقاصد کے حصول اور سیم وزر کی لالچ میں بدعتوں وجاہلانہ روایتوں کو سنت کا نام دے کر عوام کو تاریکی کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں؛ بلکہ ان بدعتوں و خرافات کو سنت ثابت کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں۔
آج کل بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں بدعات و خرافات کا رواج عام ہے، باطل نظریات اور غلط عقائد وافکار کی حکمرانی ہے، اہل باطل ان بدعتوں پر دین کا لیبل چسپاں کرکے عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں اور عوام اس پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں، رفتہ رفتہ وہ بدعتیں پھیل جاتی ہیں اور معاشرے میں اس کی جڑیں مضبوط ہوجاتی ہیں۔ ان بدعتوں میں سرفہرست ”عید میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ “ ہے، جسے معاشرے کے اکثر افراد دین تصور کرتے ہیں اور عبادت سمجھ کر منائی جاتی ہے، جلوس نکالے جاتے ہیں، جلسوں کا اہتمام کیاجاتا ہے، محفل میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ منعقد کی جاتی ہے۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا مقام انتہائی اونچا ہے، کوئی دوسرا وہاں تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا اللہ تعالی کے بعد سب سے بلند مقام آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا ھی ھے ۔ کسی شاعر نے بہت ھی خوبصورت انداز میں اس حقیقت کو بیان کیا ھے
یا صاحب الجمال یا سید البشر
من وجه المنیر لقد نور القمر
لا یمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصۂ مختصر
ترجمہ
اے صاحب الجما لﷺ اور اے انسانوں کے سردار ﷺ
آپ ﷺ کے رخِ انور سے چاند چمک اٹھا
آپ ﷺ کی ثنا کا حق ادا کرنا ممکن ہی نہیں
قصۂ مختصر یہ کہ خدا کے بعد آپ ﷺ ہی بزرگ ہیں
(اس نعتیہ قطعے کی پہلے تین مصرعے عربی اور آخری مصرعہ فارسی زبان میں ہے)
رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے حالات سے مسلمانوں کو آگاہ کرنا اسلام کا اہم ترین فریضہ ہے اوراس میں مسلمانوں کی کامیابی کا راز مضمر ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی ولادت با سعادت امتِ مسلمہ کے لئے بہت زیادہ خوشی کا باعث ہے۔ مسلمانوں کے دلوں میں حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی پیدائش کی خوشی ہونا فطری اور طبعی بات ہے؛ لیکن اس کا یہ مطلب بھی ھرگز نہیں ہے کہ حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی ولادت کی خوشی میں بدعات وخرافات کا سلسلہ شروع کردیا جائے جیساکہ آج کل ھمارے معاشرے میں کیا جاتا ہے۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے صاف ارشاد فرمایا: تم پر میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرنا لازم ہے، ان کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور نئی نئی باتوں سے دور رہو؛ اِس لیے کہ دین میں ہر نئی بات (جس کا حکم نہ دیاگیا ہو) بدعت ہے۔ (مستدرک حاکم )
یہ مروّجہ میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کیا ھے اور اس کا پس منظر کیا ھے ؟ تو حقیقت یہ ھے کہ مذھبِ اسلام میں اس کا کہیں بھی کوئی ثبوت نہیں ہے؛ بلکہ یہ مروّجہ میلاد رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے تقریباً چھ سو سال کے بعد کی یعنی ساتویں صدی ہجری کی پیداوار ہے۔ پوری چھ صدیوں تک اِس بدعت کا مسلمانوں میں کہیں رواج نہ تھا؛ نہ کسی صحابی رضى الله تعالى عنه نے، نہ تابعی رحمة الله عليه نے، نہ تبع تابعین رحمة الله عليه نے نہ کسی محدث نے، نہ مفسر نے، نہ فقیہ نےعید میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ منائی،؛ بلکہ سب سے پہلے عید میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ منانے والی شخصیت موصل کے علاقے اربل کا ظالم، ستم شعار اور فضول خرچ بادشاہ ملک مظفرالدین تھا ۔ 604ھ میں سب سے پہلے اس ظالم کے حکم سے محفل میلاد منائی گئی۔
امام احمد بن محمد مصری اپنی کتاب ”القول المعتمد“ میں لکھتے ہیں۔ اس ظالم اورمسرف بادشاہ (ملک مظفرالدین) نے اپنے زمانے کے علماء کو حکم دیاکہ وہ اپنے اجتہاد پر عمل کریں اور اس میں کسی غیر کے مذہب کا اتباع نہ کریں تو اس وقت کے وہ علماءِ سوء جو اپنے دنیوی اغراض ومقاصد کی سرتوڑ کوششیں کررہے تھے اُن کی طرف مائل ہوئے، جب اُنھیں موقع ملا تو ربیع الاوّل کے مہینے میں عید میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ منانا شروع کیا تو گویا مسلمانوں میں سب سے پہلے عید میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ منانے والا شخص ملک مظفرالدین ہے جو موصل کے علاقے اربل کا بادشاہ تھا۔
علامہ انور شاہ کشمیری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: یہ شخص ہر سال میلاد پر لاکھوں روپیہ خرچ کرتا تھا اس طرح اُس نے رعایا کے دلوں کو اپنی طرف مائل کرنا شروع کیا اوراس کے لیے ملک وقوم کی رقم کو محفل میلاد پر خرچ کرنا شروع کیا اوراس بہانے اپنی بادشاہت مضبوط کرتا رہا اور ملک وقوم کی رقم بے سود صرف کرتا رہا۔ (فیض الباری )
علامہ ذہبی رحمة الله عليه رقم طراز ہیں: اس کی فضول خرچی اور اسراف کی حالت یہ تھی کہ وہ ہر سال میلادالنبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر تقریباً تین لاکھ روپے خرچ کیا کرتا تھا۔ (دول الاسلام )
ذرا اُس باطل پرست اور کج فکر کی حالت بھی سن لیجئے جس نے محفل میلاد کے جواز پر دلائل اکٹھے کیے اور بادشاہ کو اس محفل کے انعقاد کے جواز کا راستہ بتایا اس کا نام ابوالخطاب عمرو بن دحیہ تھا۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة الله عليه اُس شخص کے بارے میں فرماتے ہیں: وہ شخص ائمہ کی شان میں گستاخی کیا کرتا تھا، زبان دراز، بے وقوف اور متکبر تھا اور دینی امور میں سست اور بے پرواہ تھا۔ (لسان المیزان)
یہ تو میلاد کی ابتدائی تاریخ اور اُس کے موجد پر بحث تھی اب آئیے! علمائے متقدمین ومتأخرین اس محفل میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں۔
علامہ عبدالرحمن مغربی رحمة الله عليه لکھتے ہیں: میلاد منانا بدعت ہے؛ اِس لیے کہ اِس کو نہ تو حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے کیا ہے نہ ھی امت کو اِس کے کرنے کا حکم دیا ہے۔ نہ ھی خلفائے کرام نے میلاد منائی ہے اورنہ ھی ائمہ کرام نے۔ (الشریعة الالٰہیہ بحوالہ حقیقت میلاد)
علامہ سیوطی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں: اس میلاد کے بارے میں کوئی نص وارد نہیں ہوئی ہے؛ لیکن اس میں قیاس آرائی پر عمل کیا جاتا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ حرّانی دمشقی رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب ”اقتضاء الصراط المستقیم“ میں تحریر فرماتے ہیں: نصاری میلاد عیسیٰ علیہ الصلاة والسلام مناتے تھے، جب مسلمانوں کی اس طرف نظر ہوئی تو دیکھا دیکھی مسلمانوں نے یہ رسم اختیار کی؛ حالآںکہ سلف صالحین سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اگر یہ جائز ہوتی اوراس کے منانے میں خیر ہوتی، تو پہلے کے لوگ جو رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے زیادہ محبت رکھتے تھے اوراچھے کام کرنے کے زیادہ حریص تھے؛ وہ مناتے؛ لیکن سلف صالحین کا میلاد نہ منانا یہ اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ میلاد مروّجہ طریقے پر منانا درست نہیں ہے۔
اس میں لوگوں کا یہ اعتقاد ہوتا ہے کہ یہ بڑی عبادت ہے حالآںکہ یہ بدعت ہے اوراس میں محرمات کا ارتکاب ہوتا ہے اور دیگر لوگوں کو اس کی طرف دعوت دی جاتی ہے۔ اگرمیلاد منائی جائے اور اس میں محرمات کا ارتکاب نہ ہو اور وہ تمام مفاسد نہ ہوں جو اس کے منانے میں ہوتے ہیں، تب بھی میلاد منانا بحرحال بدعت ہے؛ کیوںکہ یہ دین میں زیادتی ہے اوراسلاف کا عمل اس پر نہیں ہے۔ اگر یہ کارِ خیر اور کارِ ثواب ہوتا تو سب سے پہلے سلف صالحین مناتے؛ لیکن اُن کا میلاد نہ منانا اس کا ثبوت ہے کہ یہ صحیح نہیں ہے۔ (مدخل )
مجدّد الف ثانی رحمة اللہ علیہ اپنے مکتوبات میں لکھتے ہیں: بالفرض اگر رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اس دنیا میں زندہ ہوتے اور یہ مجلس منعقد ہوتی تو آیا وہ اس پر راضی ہوتے اوراس اجتماع کو پسند فرماتے تو اس سلسلے میں بندے کا یقین یہ ہے کہ وہ ہرگز اسے قبول نہ فرماتے۔
(دفتر اوّل مکتوب ۱۷۳)
علامہ نصیرالدین الاودی الشافعی علیہ الرحمہ سے کسی نے سوال کیا کہ میلاد منانا کیسا ہے؟ تو انھوں نے جواب میں فرمایا: محفل میلاد نہ منائی جائے؛ کیوں کہ سلف صالحین نے اسے اختیار نہیں کیا ہم اسے کیسے اختیار کرلیں۔ (القول المعتمد)
علامہ شرف الدین رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: بعض امیر لوگ ہر سال محفل میلاد مناتے ہیں، اس میں بہت سے ناجائز تکلّفات پائے جاتے ہیں اور یہ محفل نفس پرستوں کی ایجاد کی ہوئی ہے جن کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے کس چیز کا حکم دیا اور کس چیز سے منع کیا؟ اِس لیے یہ بدعت ہے۔ (القول المعتمد)
حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: مروّجہ میلاد اور اس میں مروّجہ قیام محدثہ، ممنوعہ ہیں، جو ناجائز اور بدعت ہیں۔ (عزیزالفتاوی:۹۹)
قطب ارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ محفل چونکہ زمانہٴ فخردوعالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ میں اور زمانہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور زمانہٴ تابعین وتبع تابعین اور زمانہٴ مجتہدین میں نہیں ہوئی، اِس محفل کا موجد چھ سو سال بعد کا ایک بادشاہ ہے جس کو اکثر اہل تاریخ فاسق لکھتے ہیں؛ لہٰذا یہ مجلس بدعت اور گمراہی ہے۔ عدم جواز کے واسطے یہ دلیل کافی ہے کہ قرونِ خیر میں اس کو کسی نے نہیں کیا۔ (فتاویٰ رشیدیہ،ص:۴۰۹)
حضرت مفتی محمد شفیع رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: موجودہ مروّجہ میلاد ہمارے نزدیک ناجائز اور بدعت ہے۔ (امداد المفتیین)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ رقم طرازہیں: ذکر ولادتِ نبوی شریف صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ مثل دیگر اذکارِ خیر کے ثواب اور افضل ہے اگر بدعات وقبائح سے خالی ہو۔ اس سے بہتر کیا ہے کما قال الشاعر
وذکرک للمشتاق خیر شراب * وکل شراب دونہ کسراب
البتہ جیسا ہمارے زمانے میں قیودات اورشنائع کے ساتھ مروّج ہے اس طرح بے شک بدعت ہے۔ امداد الفتاویٰ
سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: میلاد منانا کسی کے لیے بھی جائز نہیں؛ اِس لیے کہ یہ بدعت ہے اور رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ، صحابہ اور تابعین سے ثابت نہیں۔
(فتاویٰ عبداللہ بن باز )
ایک اور جگہ شیخ رحمة الله عليه رقم طراز ہیں: عید منانا خواہ حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی پیدائش پر ہو یا کسی اور کی پیدائش پر ناجائز ہے؛ کیوں کہ حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اِس طریقے پر عید نہیں منائی اورنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ عید منائی ہے، سلف امت کا بھی یہی فیصلہ رہا ہے اور خیراُن کی اتباع میں مضمر ہے۔
مولانا بدرعالم میرٹھی رحمة اللہ علیہ رقم طراز ہیں: مروّجہ میلاد حرام ہے؛ اِس لیے کہ یہ میلاد معاصی ظاہرہ وباطنہ پر مشتمل ہوتا ہے اور اس میں محرمات کا ارتکاب ہوتاہے موضوع روایات پڑھی جاتی ہیں، جن کی کوئی اصل نہیں ہوتی ہے اور سب سے بڑی غلطی یہ کہ آں حضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو عالم الغیب مانا جاتا ہے اور یہ عقیدہ رکھا جاتا ہے کہ آںحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اس محفل میلاد میں تشریف لاتے ہیں ان تمام امور کی وجہ سے اس محفل کا انعقاد حرام ہے۔
تمام علما، ائمہ، محدثین، مفسرین اور مفتیان کا اس پر اتفاق ہے کہ عید میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ منانا ناجائز اور بدعت ہے۔
عید میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے منانے والوں پر اگر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تواکثر ایسے افراد ملیں گے جو دین سے ناواقف اور احکام شریعت سے نا آشنا ہوتے ہیں؛ لیکن جوں جوں ربیع الاوّل کا مہینہ قریب آتا ہے ان افراد میں جوش وخروش پیداہوتا جاتا ہے اور یہ عیدمیلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ منانے کی تیاری زور و شور سے شروع کردیتے ہیں۔ اس کو اپنے تمام گناہوں کا کفارہ گردانتے ہیں۔ ان مجالس میں جن منکرات کاارتکاب ہوتا ہے اس سے اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائیں۔
تو سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ جب اس تاریخِ ولادت یعنی بارہ ربیع الاول میں ہی اختلاف ہے اور کوئی وجہ ترجیح بھی نہیں ھے تو بارہ ربیع الاول کو متعین کرنا کیسے درست ھو سکتا ہے خلاصۂ کلام یہ کہ آج کل جو بارہ ربیع الاول کو عید میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ منائی جاتی ھے وہ شرعاً جائز نہیں ہے اس سلسلے میں صرف ۱۲/ربیع الاول کو ترجیح دینے کے لئے کوئی ٹھوس دلیل موجود نہیں ھے ۔
یومِ ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
یومِ ولادت ِ نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ یعنی اس عظیم الشان شخصیت کا یومِ پیدائش جسے تمام عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔وہ دن واقعی بڑی ہی عظمت و برکت کا حامل تھا؛اس لیے کہ اس مبارک دن میں رحمةللعالمین حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اس عالمِ میں تشریف لائے۔اگرچہ شریعت نے سالانہ آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے یومِ ولادت کو”منانے“ کا حکم نہیں دیا نہ اسے عید ہی قرار دیا، نہ ہی اس کے لیے کسی قسم کے مراسم مقرّر کیے؛لیکن جس سال ماہِ ربیع الاول میں یہ دن آیا تھا ،وہ نہایت ہی متبرک اور پیارا دن تھا۔آج جو لوگ اس دن کو ”عید“ کے نام سے یاد کرتے ہیں وہ اصلاً رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی نافرمانی کرتے ہیں،اس لیے کہ خود ارشادِ نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ہے :
اللہ تعالیٰ نے دیگر قوموں کے مقابلے میں مسلمانوں کے لیے عید کے دو دن مقرّر کیے ہیں:
(۱)عید الفطر
(۲) عید الاضحی۔
یہ ارشاد اس وقت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا تھا جب کہ آپ نے اہلِ مدینہ کو دوسرے دنوں میں زمانہٴ جاہلیت کے طرز پر عید و خوشی مناتے دیکھا۔(ابوداؤد و نسائی)
اس سے یہ مسئلہ بالکل واضح ہو گیا کہ اللہ اور رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اپنے ماننے والوں کے لیے سالانہ صرف دو دنوں کو عید کے طورپر مقرر فرمایا،ان کے علاوہ بعض روایتوں میں جمعہ کے دن کو بھی عید کہا گیا ہے، اس کے علاوہ کسی دن کے متعلق عید کا لفظ وارد نہیں ہوا۔اب اگر کوئی اس پر زیادتی کرکے اپنی طرف سے مزید ایک دن بڑھاتا ھے اور اس میں عید جیسی خوشیاں مناتا ہے،تو وہ گویا رحمة للعالمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے اس ارشادِ عالی پر عدم رضامندی کا اظہار کرتا ہے،اور جو اسے دین کا حصہ سمجھتا ہے،وہ اپنی طرف سے نیا دین تراشتا ہے اور یہ دونوں ہی طریقہٴ عمل نہایت خطرناک ہیں۔
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ابتداء
فقیہ اللامت حضرت مفتی محمود حسن رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ مروجہ مجلسِ میلاد نہ تو قرآن ِکریم سے ثابت ہے نہ ھی حدیث شریف سے، نہ خلفاءِ راشدین و دیگر صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ثابت ہے نہ تابعین و ائمہ مجتھدین و محدثین سے اورنہ اولیاءِ کاملین سے۔ چھ صدیاں اس امت پر اس طرح گزر گئیں کہ اس مجلس کاکہیں وجود نہیں تھا۔سب سے پہلے بادشاہ اربل نے شاہانہ انتظام سے اس کو منعقد کیا اور اس پر بہت مال خرچ کیا،پھر اس کی حرص و اتباع میں وزراء وامراء نے اپنے اپنے انتظام سے مجالس منعقد کیں،اس کی تفصیل ”تاریخ ابن خلکان “ میں بھی موجود ہے۔
مروّجہ میلاد النبی صلى الله عليه وآله وسلم کیا ھے اور اس کا پس منظر کیا ھے تو حقیقت یہ ھے کہ مذھبِ اسلام میں اس کا کہیں بھی کوئی ثبوت نہیں ہے؛ بلکہ یہ مروّجہ میلاد رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے تقریباً چھ سو سال کے بعد کی یعنی ساتویں صدی ہجری کی پیداوار ہے۔ پوری چھ صدیوں تک اِس بدعت کا مسلمانوں میں کہیں رواج نہ تھا؛ نہ کسی صحابی رضى الله تعالى عنه نے، نہ تابعی رحمة الله عليه نے، نہ تبع تابعین رحمة الله عليه نے نہ کسی محدث نے، نہ مفسر نے، نہ فقیہ نےعید میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ منائی،؛ بلکہ سب سے پہلے عید میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ منانے والی شخصیت موصل کے علاقے اربل کا ظالم، ستم شعار اور فضول خرچ بادشاہ ملک مظفرالدین تھا ۔ 604ھ میں سب سے پہلے اس ظالم کے حکم سے محفل میلاد منائی گئی۔
( امام احمد بن محمد مصری اپنی کتاب ”القول المعتمد“ میں لکھتے ہیں
اس ظالم اورمسرف بادشاہ (ملک مظفرالدین) نے اپنے زمانے کے علماء کو حکم دیاکہ وہ اپنے اجتہاد پر عمل کریں اور اس میں کسی غیر کے مذہب کا اتباع نہ کریں تو اس وقت کے وہ علماءِ سوء جو اپنے دنیوی اغراض ومقاصد کی سرتوڑ کوششیں کررہے تھے اُن کی طرف مائل ہوئے، جب اُنھیں موقع ملا تو ربیع الاوّل کے مہینے میں عید میلاد النبی صلى الله عليه وآله وسلم منانا شروع کیا تو گویا مسلمانوں میں سب سے پہلے عید میلاد النبی صلى الله عليه وآله وسلم منانے والا شخص ملک مظفرالدین ہے جوموصل کے علاقے اربل کا بادشاہ تھا۔
علامہ انور شاہ کشمیری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: یہ شخص ہر سال میلاد پر لاکھوں روپیہ خرچ کرتا تھا اس طرح اُس نے رعایا کے دلوں کو اپنی طرف مائل کرنا شروع کیا اوراس کے لیے ملک وقوم کی رقم کو محفل میلاد پر خرچ کرنا شروع کیا اوراس بہانے اپنی بادشاہت مضبوط کرتا رہا اور ملک وقوم کی رقم بے سود صرف کرتا رہا۔
(فیض الباری )
علامہ ذہبی رحمة الله عليه رقم طراز ہیں: اس کی فضول خرچی اور اسراف کی حالت یہ تھی کہ وہ ہر سال میلادالنبی صلى الله عليه وآله وسلم پر تقریباً تین لاکھ روپے خرچ کیا کرتا تھا۔
(دول الاسلام )
اسی وقت سے علماءِ حق نے اس کی تردید بھی لکھی ہے؛چنانچہ ”کتاب المدخل“میں علامہ ابن الحجاج نے بتیس صفحات میں اس کے قبائح و مفاسد دلائلِ شرعیہ کی روشنی میں لکھے ہیں۔ پھر جہاں یہ مجلس پہنچتی گئی ،وہاں کے علماء تردید فرماتے رہے؛چنانچہ عربی،فارسی اور اردو یعنی ہر زبان میں اس کی تردید موجود ہے اور آج تک تردید کی جا رہی ہے۔(فتاوی محمودیہ جدید)
بریلوی عالم کا اعتراف
بریلوی حضرات کے ایک مشہور عالم قاضی فضل احمد رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:”یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ اس مخصوص شکل سے یہ عملِ 604 ھ سے جاری ہے“۔(مروجہ محفلِ میلاد:۵۲ ملخصاً)
عیدِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم
بعض لوگوں خیال کرتے ہیں کہ ھمیں عید میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ منانے سے منع کرکے گویا ذکر نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے منع کیا جا رھا ھے نعوذ باللہ ! ثم نعوذ باللہ! نفسِ ذکر میلاد فخرعالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو کوئی منع نہیں کرتا؛بلکہ ذکرِ ولادت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا مثل ذکر دیگر سیر و حالات کے مندوب ہے۔(البراہین القاطعة) لیکن اس زمانہ میں مجالسِ میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ بہت سے منکرات وممنوعات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے شرعاً ممنوع ہے۔(فتاویٰ محمودیہ)
بالفاظِ دیگر میلاد مروجہ وقیام مروج جو امور ِ محدثہ ، ممنوعہ کو مشتمل ہے ، ناجائز اور بدعت ہے۔(عزیز الفتاویٰ ، دیوبند)
یومِ ولادتِ نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ یقینا باعث ِ خوشی اور اظہارِ مسرت کا سبب ہے؛لیکن اس تاریخ میں ہر سال اگر یہ دن ”منانے“ کا ہوتا، تو اس کے متعلق احکامات و ہدایات شریعتِ مطہرہ میں کثرت سے وارد ہوتیں۔یہ خیال رکھنے کی بات ہے کہ یہ دن حضورآکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اور صحابہ کرام رضون اللہ تعالی عنھم کے سامنے بھی تھا ،تو جب خود حضورآکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اور صحابہ کرام نے اس خوشی کا اظہار مروجہ طریقہ پر نہیں کیااور” عید ِمیلاد“نہیں منایا،تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ شریعت میں اظہارِ خوشی کا یہ طریقہ درست نہیں،ورنہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے صحابہ کرام اس پر عمل کرکے اس کا جواز ضرور بتلاتے۔یہی ایک دلیل مروجہ میلاد کے غیر درست ہونے کے لیے کافی ہے۔
ارشادِ ربّانی ہے:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾۔(سورة المائدة)
آج میں نے تمھارے لیے دین کو کامل و مکمل کر دیا(اب اس میں کسی طرح کمی بیشی کی گنجائش نہ رہی)اور تم پر اپنا انعام مکمل کر دیااور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر راضی ہو گیا۔
نیز ارشادِ رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ہے:جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کرے ،جو دین میں سے نہیں ہے،وہ مردود ہے۔(بخاری، مسلم)
ایک دوسری روایت میں رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
تم میری سنّت کو لازم پکڑو اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفاءِ راشدین کی سنّت کو لازم پکڑو،اسے ڈاڑھوں سے مضبوط پکڑے رہو اور دین میں نئی باتیں ایجاد کرنے سے بچو؛کیوں کہ دین میں پیدا کی گئی ہر نئی بات بدعت ہے،اور ہر بدعت گمراہی ہے۔(ابو داود، ترمذی ، ابن ماجہ)
کیا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا بس یہی حق امت پر ہے کہ سارے سال میں صرف ایک دن اور وہ بھی صرف تماشہ کے طور پر ،آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا ذکرِ مبارک جھوٹے سچے رسالوں سے پڑھ دیا اور پھر سال بھر کے لیے فارغ ہو کر آئندہ بارہ وفات اور عیدِمیلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے منتظر ہوکر بیٹھ گئے۔افسوس !مسلمانوں کا فرض تو یہ ہے کہ کوئی دن آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ذکرِ مبارک سے خالی نہ جائے؛البتہ یہ ضروری نہیں کہ فقط ولادت کا ہی ذکر ہو؛بلکہ کبھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی نماز کا،کبھی آپ کے روزے کا،کبھی جہاد کا،اور کبھی آپ کے اخلاق و اعمال کا،جو کہ سب سے زیادہ اہم ہیں۔کبھی ولادتِ با سعادت کا بھی ہو کہ یہ بھی باعثِ خیر و برکت ہے۔(جواہر الفقہ)
محبت کی علامت بھی یہی ہے کہ محبوب کی ہر بات کا ذکر ہو، ولادتِ شریفہ کا بھی،سخاوت اور عبادت کا بھی۔اس میں کسی مہینہ اور تاریخ اور مقام کی کوئی تخصیص نہیں؛بلکہ دوسرے وظیفوں کی طرح روزمرہ اس کا وظیفہ ہونا چاہیے۔یہ نہیں کہ سال بھر میں مقررہ تاریخ پر یومِ میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ منا لیا جائے اور اس کے بعد کچھ نہیں؛حالانکہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا ذکرِ مبارک تو غذا ہے، ہر وقت ہونا چاہیے،اس میں وقت کی تخصیص کی کیا ضرورت؟(الفضائل والاحکام ، امداد الفتاویٰ))
اس پوری تفصیل سے واضح ہو گیا کہ محفلِ میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ میں کوئی تاریخ معین اور ضروری نہ سمجھی جائے، شیرینی کو ضروری نہ سمجھا جائے، ضرورت سے زیادہ روشنی نہ کی جائے، غلط روایات نہ پڑھی جائیں،نظم پڑھنے والے بے ریش نہ ہوں،اور گانے کی طرح نہ پڑھیں،اسی طرح دوسری بدعات سے خالی ہو، تو مضائقہ نہیں۔(امداد الفتاویٰ و نظام الفتاویٰ) ،
غرض یہ کہ ر سول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا ذکرِ مبارک جب کہ ان رسوم و بدعات سے خالی ہو تو ثواب اور افضل ہے،اوراگر مروجہ طریقہ پررسوم وبدعات سے بھرا ہو تو نیکی برباد گناہ لازم ہے۔ یہ ایسے ھی ھے جیسے کوئی بیت الخلاء میں جاکر قرآن ِکریم کی تلاوت کرنے لگ جائے۔(جامع الفتاویٰ)
المختصر ! ہم مسلمان ہیں اور ہمیں اپنی خوشی اور غمی ، ہر حالت میں شریعت کی اتباع کرنا واجب و ضروری ہے اور شریعت میں امرِ مندوب پر اصرار کرنا اور واجب کی طرح اس کا التزام کرنا اتباعِ شیطان ہے۔(عزیزالفتاویٰ)۔
’ اہل ِ حدیث علماء کا موقف
جناب مولانا مفتی ابو محمد عبد الستار صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ِمروجہ رسوم کے ساتھ مجلس ِ میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا انعقاد ازروئے قرآن و سنت قطعاً حرام اور بدعت؛ بلکہ داخل فی الشرک ہے؛کیوں کہ اس کا ثبوت نہ تو خود رسو اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے ثابت ہے،نہ کسی صحابی سے،نہ کسی تابعی سے۔غرض قرونِ ثلاثہ میں اس کا وجود بالکل مفقود ہے،نہ ازمنہٴ ائمہ اربعہ میں اس کا پتہ لگتا ہے؛بلکہ ساتویں صدی میں یہ بدعت بجانب خود ایجاد کی گئی ہے۔(فتاویٰ ستاریہ)۔
مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:کہ ہم مجلسِ میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو کارِ ثواب نہیں جانتے؛اس لیے کہ زمانہٴ رسالت و خلافت میں اس کا ثبوت نہیں ملتا۔آگے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:مولود کی مجلس ایک مذہبی کام ہے،جس پر ثواب کی امید ہوتی ہے۔یہ ظاہر ہے کہ کسی کام پر ثواب کا بتلانا شرع شریف کا کام ہے؛اس لیے کسی کام پر ثواب کی امید رکھنا،جس پر شرع شریف نے ثواب نہ بتلایا ہو،اس کام کو بدعت بنا دیتا ہے۔مولود کی مجلس بھی اسی قسم سے ہے؛کیوں کہ شریعتِ مطہرہ نے اس پر ثواب کا وعدہ نہیں کیا؛اس لیے ثواب سمجھ کرنا تو یقیناًبدعت ہے، رہا محض محبت کی صورت، یہ بھی بدعت ہے؛کیوں کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے محبت کرنا بھی ایک مذہبی حکم ہے،جس پر ثواب کی امید ہے۔پس جس طریق سے شرع شریف نے محبت سکھائی ہے،اس طریق سے ہوگی تو سنّت،ورنہ بدعت۔(فتاویٰ ثنائیہ)۔
مفتیِ اعظم سعودی عریبیہ کا فتویٰ
شیخ عبدالعزیز بن عبد اللہ بن باز رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے بارہ ربیع الاول کی رات یا کسی اور رات میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی محفل منعقد کرنا جائز نہیں ہے؛بلکہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے علاوہ کسی اور کی ولادت کی محفل منعقد کرنا بھی جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی محفلوں کا تعلق ان بدعات سے ہے،جو دین میں نئی پیدا کر لی گئی ہیں۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اپنی حیات ِ پاک میں کبھی اپنی محفلِ میلاد کا انعقاد نہیں فرمایا تھا؛حالانکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ دین کے تمام احکام کو بلا کم وکاست ،من وعن پہنچانے والے تھے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے مسائلِ شریعت کو بیان فرمانے والے تھے۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے محفلِ میلاد النبی نہ خود منائی اور نہ کسی کو اس کا حکم دیا۔یہی ہے وجہ ھے کہ خلفاءِ راشدین ،حضراتِ صحابہ کرام اور تابعین میں سے کسی نے کبھی اس کا اہتمام نہیں کیا تھا،الخ۔(مقالات وفتاویٰ)۔
اللّٰھم ارنا الحق حقا ًوارزقنا اتباعہ، وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ․
رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا یومِ وفات
بارہ ربیع الاوّل رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی وفات کا دن ھے، جس پر تمام امت متفق ھے ۔ اُس دن صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی جدائی سے سخت غمگین اور افسردہ تھے لیکن کافروں اور مشرکوں نے اس دن بہت خوشیاں منائی تھیں۔
اللہ پاک ھمیں صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین یا رب العالمین