رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے نکاحوں کی حکمت اور ایک ایمان افروز سچا واقعہ


لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘(توبہ:۱۲۸)

(بیشک تمہارے پاس تم میں  سے وہ عظیم رسول ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ) تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں  پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ) تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں  پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں 

اللہ تعالیٰ جل جلالہ احکم الحاکمین اور اصدق القائلین اپنے معجز کلام قرآن کریم میں مہبط قرآن حضرت خاتم النبیین وسید المرسلین جناب محمد رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو یوں مخاطب ہوتے ہیں :

وَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ

اور ہم نے تمہیں (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ )  تمام جہانوں  کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ھے ۔

رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  بلا شبہہ تمام جہانوں کے لئے رحمت ھیں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی نہ صرف ذات مبارک بلکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا ھر ھر فعل و عمل بھی اُمت کے لئے رحمت ھی رحمت ھے اکثر دوسرے مذاھب کے لوگ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے مبارک نکاحوں پر اپنی اسلام دُشمنی کی وجہ سے بیجا تنقید کرتے ھیں حالانکہ اگر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ھوتا ھے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے مبارک نکاح بھی اُمت کے لئے کس قدر باعثِ رحمت و برکت ثابت ھوئے ھیں 

ایک پروفیسر صاحب اپنا واقعہ تحریر فرماتے  ہیں کہ میں لیاقت میڈیکل کالج جامشورو میں ملازمت کررہا تھا تو وہاں لڑکوں نے سیرت النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کانفرنس منعقد کرائی اور تمام  اساتذہ کرام کو بھی مدعو کیا۔ چنانچہ میں نے ڈاکٹر عنایت اللہ جوکھیو (جو ہڈی جوڑ کے ماہر تھے) کے ہمراہ اس کانفرنس میں شرکت کی۔ اس نشست میں اسلامیات کے ایک لیکچرار نے حضور اقدس  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی نجی زندگی پر مفصل بیان کیا اور رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی ایک ایک شادی کی تفصیل بتائی اور یہ بھی بتایا کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے یہ شادی کیوں کی؟ اور اس سے امت مسلمہ کو کیا فائدہ ہوا۔ یہ بیان اتنا موثر اور مدلل تھا کہ حاضرین مجلس نے اس کو بہت سراہا۔ کانفرنس کے اختتام پر ہم دونوں جب جامشورو سے حیدر آباد بذریعہ کار واپس آرہے تھے تو ڈاکٹر عنایت اللہ جوکھیو نے ایک عجیب بات کی۔ انہوں نے کہا کہ آج رات میں دوبارہ مسلمان ہوا ہوں میں نے وجہ پوچھی تو ‏انہوں نے بتایا کہ آٹھ سال قبل جب وہ سپیلائزیشن  کے لیے انگلستان گئےتھے تو جاتے ھوئے ہوائی جہاز میں سفر کے دوران ایک ائیر ہوسٹس میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئی۔ اس لڑکی نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارا مذہب کیا ہے؟  میں نے کہا میرا مذھب اسلام ھے۔ اُس نے ہمارے رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا نام مبارک پوچھا تو میں نے حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  بتایا، پھر اس لڑکی نے سوال کیا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے گیارہ شادیاں کی تھیں؟ میں نے لاعلمی کا اظہار کیا کیونکہ مجھے اس کا واقعی علم نہیں تھا  تو اس لڑکی نے کہا یہ بات بالکل حق اور سچ ہے کہ آپ کے نبی اور رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے گیارہ شادیاں کی تھیں اس کے بعد اس لڑکی نے حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے  بارے میں (معاذاللہ) نفسانی خواہشات کے غلبے کے علاوہ دو تین اور الزامات بھی لگائے، جس کے سننے کے بعد میرے دل میں (نعوذ بااللہ) حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے  بارے میں نفرت پیدا ہوگئی اور میں جب لندن کے ہوائی اڈے پر اترا تو اُس وقت میں مسلمان نہیں تھا۔

‏آٹھ سال انگلستان میں قیام کے دوران میں وھاں کسی مسلمان کو کھبی نہیں ملا، نہ کھبی نماز پڑھی حتیٰ کہ عید کی نماز تک میں نے ترک کر دی تھی ۔ اتوار کو میں گرجوں میں جاتا اور عیسائیوں کے طریقہ پر اُن کے ساتھ مل کر عبادت کرتا تھا اور لندن کے مسلمان لوگ مجھے عیسائی ھی سمجھتے تھے اور فی الحقیقت میں اُس وقت تھا بھی عیسائی ۔ جب میں آٹھ سال بعد پاکستان واپس آیا تو ہڈیوں کا ماہر ڈاکٹر بن کر لیاقت میڈیکل کالج میں کام شروع کردیا۔یہاں بھی میری وہی عادت رہی۔ مسلمانوں کی کسی بھی عبادت میں شرکت نہیں کرتا تھا ۔ آج رات اللہ تعالی نے مجھ پر اپنا کرم فرمایا اور اس لیکچرار کا بیان سن کر رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے حوالے سے میرا دل بالکل صاف ہو گیا اور میں الحمدُ للہ پھر سے کلمہ طیبہ پڑھ کر اسلام میں داخل ھو گیا ھوں ۔ 

غور کیجئے ایک عورت کے چند کلمات نے میرے جیسے ایک پڑھے لکھے مسلمان کو کتنا گمراہ کیا اور اگر آج ڈاکٹر عنایت اللہ صاحب  کا یہ بیان نہ سنتا تو پتہ نہیں میرا کیا بنتا؟ اس کی سب سے بڑی وجہ ہم مسلمانوں کی کم علمی  اور دین سے عدم دلچسپی ہے۔میں نے برطانیہ میں دیکھا کہ ھماری اسی نالائقی کی وجہ سے ‏عیسائی لوگ خاص کرخواتین آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی شادیوں پر بیجا اعتراض کرتی رھتی تھیں اور دین سے ناواقف اور بے بہرہ نام نہاد  لبرل مسلمانوں کو گمراہ کرتی رھتی تھیں ۔ 

آیئے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے بارے میں ان حقائق پر روشنی ڈالیں جو دوسرے مذاہب کے لوگوں کے اعتراضات کا باعث بنتے ہیں۔وہ مندرجہ ذیل ہیں۔ میرے پیارے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے عالم شباب میں (25 سال کی عمر میں) ایک سن رسیدہ بیوہ خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی۔اس وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر 40 برس تھی، جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا زندہ رہیں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے دوسری شادی نہیں کی۔ 50 سال کی عمر تک آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ایک بیوی پر ھی قناعت کی۔ (اگر بالفرض کسی شخص میں نفسانی خواہشات کا غلبہ ہو تو وہ عالم ِ شباب کے 25 سال ایک بیوہ خاتون کے ساتھ زندگی گزارنے پر کیسے اکتفا کرسکتا ہے۔

‏حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد مختلف وجوہات کی بناء پر رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے نکاح   کئے۔پھر اسی مجمع سے ڈاکٹر صاحب نے سوال پوچھا کہ یہاں بہت سے نوجوان بیٹھے ہیں  آپ میں سے کون نوجوان ہے جو 40 سال کی بیوہ سے شادی کرے گا ؟ سب خاموش رہے۔  ڈاکٹر صاحب نے ان کو بتایا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے  پچیس سال کی عمر میں چالیس سال کی بیوہ سے نکاح کیا ہے، پھر ڈاکٹر صاحب نے سب کو بتایا کہ جو گیارہ شادیاں رسول کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے کی ہیں۔ سوائے ایک کے، باقی سب بیوہ/ مطلقہ عورتوں سے ھی کی  تھیں۔ یہ سن کر سب حیران ہوگئے۔ پھر ڈاکٹر صاحب نے مجمع کو بتایا کہ جنگ اْحد میں 70 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے۔ نصف سے زیادہ گھرانے بے آسرا ہوگئے، بیوگان اور یتیموں کا کوئی سہارا نہ رہا۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بیوگان سے شادی کرنے کی ترغیب دی ، رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے خود بھی حضرت سودہ رضی اللہ عنہا۔ ‏حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اورحضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا جو سب بیوہ تھیں سے مختلف اوقات میں نکاح کئے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو دیکھا دیکھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیوگان سے شادیاں کیں، جس کی وجہ سے بے آسرا خواتین کے گھر آباد ہوگئے۔اس زمانے میں عربوں میں کثرت ازواج کا رواج عام تھا۔ مزید شادی کے ذریعے دوسرے قبائل کو قریب لانا اور اسلام کے فروغ کا مقصد آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے پیش نظر تھا۔ عربوں میں دستور تھا کہ جو شخص ان کا داماد بن جاتا، اس کے خلاف جنگ کرنا اپنی عزت کے خلاف سمجھتے تھے۔ ابوسفیان ؓ  ایمان لانے سے پہلے حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے شدید ترین مخالف تھے۔ ‏مگر جب ان کی بیٹی اُم حبیبہ  رضی اللہ عنہاسے حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا نکاح ہوا تو یہ دشمنی، رشتے میں بدل گئی۔واقعہ یہ ہوا یہ کہ  ام حبیبہ  رضی اللہ عنہاپہلے مسلمان ہو کر اپنے مسلمان شوہر کے ساتھ حبشہ ہجرت کر گئی تھیں، وہاں ان کا خاوند نصرانی ہو گیا۔ حضرت ام حبیبہ  رضی اللہ عنہا نے اس سے علیحدگی اختیار کرلی اور بہت مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے گھر مکہ مکرمہ پہنچیں۔ حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ    نے ان کی دل جوئی فرمائی اور بادشاہ حبشہ کے ذریعے ان سے نکاح کیا۔ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کا والد قبیلہ مصطلق کا سردار تھا۔ حضور ؐاکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اس قبیلہ سے جہاد کیا، ان کا سردار مارا گیا. ‏حضرت جویریہ  رضی اللہ عنہا  قید ہوکر ایک صحابی ؓ کے حصہ میں آئیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مشورہ کر کے سردار کی بیٹی کا نکاح حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   سے کر دیا اور اس نکاح کی برکت سے اس قبیلہ کے سو گھرانے مسلمان ہو گئے۔ قلعہ خیبر کی لڑائی میں یہودی سردار کی بیٹی حضرت صفیہ  رضی اللہ عنہا قید ہو کر ایک صحابی ؓ کے حصہ میں آئیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ا ن کا نکاح بھی حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  سے کرا دیا۔ اسی طر ح میمونہ  رضی اللہ عنہاسے نکاح کی وجہ سے نجد کے علاقے میں اسلام پھیلا۔ ان شادیوں کا مقصد بھی یہی تھا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے  اخلاقِ کا مشاہدہ کر یں تاکہ انہیں راہ ہدایت نصیب ہو۔ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا  پہلے عیسائی تھیں اور ان کا تعلق ایک شاہی خاندان سے تھا۔ ان کو بازنطینی بادشاہ شاہ مقوقس نے بطور ہدیہ کے آپ ؐصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی خدمت اقدس میں بھیجا تھا۔

‏حضرت زینب رضی اللہ عنہا  بنت جحش  سے نکاح متبنی کی رسم توڑنے کے لیے کیا گیا۔ حضرت زید ؓ  حضور اکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے منہ بولے بیٹے تھے، ان کا نکاح حضرت زینب  رضی اللہ عنہابنت جحش سے ہوا تھا ۔ مناسبت نہ ہونے پر حضرت زیدؓ  نے انہیں طلاق دے دی تو حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے ان سے نکاح کر لیا اور ثابت کردیا کہ منہ بولا بیٹا ہرگز حقیقی بیٹے کے ذیل میں نہیں آتا۔ ڈاکٹر صاحب نے مزید بتایا کہ علوم اسلامیہ کا سرچشمہ قرآنِ پاک اور رسول کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی سیرت مبارکہ ہے۔

‏آپ ؐکی سیرت پاک کا ہر ایک پہلو محفوظ کرنے کے لیے مردوں میں خاص کر اصحاب ِ صفہؓ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ عورتوں میں اس کام کے لیے ایک جماعت کی ضرورت تھی۔ صرف ایک صحابیہ کے لیے یہ کام  مشکل تھا۔ اس کام کی تکمیل کے لیے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے متعدد نکاح کیے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے حکما ً ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کو ارشاد فرمایا تھا کہ ہر ایک اس بات کو نوٹ کرے،جو گو رات کے اندھیرے میں دیکھیں۔ حضرت عائشہ ؓ جو بہت ذہین، زیرک اور فہیم تھیں، حضورآکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے نسوانی احکام و مسائل کے متعلق آپ رضی اللہ عنہا کو خاص طور پر تعلیم دی۔ حضور اقدس ؐصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی ظاہری وفات کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 48 سال تک زندہ رہیں اور 2210 احادیث آپ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں۔

‏صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمعین فرماتے ہیں کہ جب کسی مسئلے پر ہمیں شک ہوتا ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کا علم ہوتا۔اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایات کی تعداد 368 ہے۔ ان حالا ت سے ظاہر ہوا کہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے گھر، عورتوں کے لیے دینی درسگاہیں تھیں کیونکہ یہ تعلیم قیامت تک کے لیے تھی اور سار ی دنیا کے لیے تھیں اور ذرائع ابلاغ محدود تھے، اس لیے کتنا جانفشانی سے یہ کام کیا گیا ہو گا، اس کا اندازہ آج نہیں لگایا جاسکتا۔ آخر میں ڈاکٹر صاحب نے کہا اگر پڑھے لکھے مسلمان ان نکات کو یاد کرلیں تو کوئی بدبخت حضور ؐآکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی ذات پر حملہ کرنے کی حماقت نہیں کرسکتااور اگر کوئی یہ حماقت کرتا بھی ہے تو ہم سب اس کا شافی و کافی دفاع کرسکتے ہیں۔

خلاصئہ کلام یہ کہ رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے بہ امر خداوندی جتنے نکاح کیے ہیں، سب میں زبردست مصلحتیں اور حکمتیں مخفی ہیں۔ کھلے ذہن کے ساتھ غور وفکر سے واضح ہوتا ہے کہ اہم تعلیمی ودینی مفادات ومصالح ان متعدد نکاحوں سے وابستہ ہیں۔ ان میں سے بعض تو مشترکہ عمومی مفادات ہیں جو ساری ازواج سے متعلق ہیں اور بعض عمومی مفادات ومنافع وہ ہیں جو کسی خاص زوجہ سے متعلق ہیں اور اسی نوعیت کے بعض خاص مفادات ہیں۔ گویا نبوی تعددازواج کے بے شمارسماجی فوائد و اثرات ہیں جسے نمونہ بنا کر دینا بہترین عالمگیر سماج پیدا کر سکتی ہے اور اگر پوری دنیا کی گھریلو زندگیاں نبوی عائلی زندگی کو ماڈل بنا لیں تو عالمی اطمینان و امن کا قیام ممکن ہو سکتا ہے

Share: