علم كے معنى ومفهوم:
لغت کے اعتبار سے علم کے معنی "جاننے" كے هيں يعني کسی بھی چیز کے متعلق آپ نے معلومات حاصل کرلی ہوں تو گویا اس چیز کا علم آپ کو حاصل ہو گیا۔ لیکن شرعي اصطلاح میں علم ان امور کے جاننے کوکہا جاتا ہے جن کے ذریعے سے اللہ رب العزت کی معرفت حاصل ہواور اپنی زندگی کو الله تعالى کے مرضیات کے مطابق ڈھالا جا سکے جس کا حاصل کرنا حدیث کی رو سے ہر مسلمان مرد اور عورت پر لازم ہے۔ علم جہالت کی ضد ہے، اور اس سے مراد کسی چیز کی اصل حقیقت کو مکمل طور پر پا لینا ہے۔اصطلاح میں بعض علما کے نزدیک 'علم سے مراد وہ معرفت ہے جو جہالت کی ضد ہے۔ جبکہ دیگر اہل علم کا کہنا ہے کہ 'علم' اس بات سے بالاتر هے کہ اس کی تعریف کی جائے۔ مطلب یہ کہ لفظ 'علم' خود اتنا واضح ہے کہ اس کی تعریف کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ۔
علم کی قسمیں:
عموميت كے إعتبار سے علم کی دو قسمیں بنتی ہیں
(۱) ديني علم (۲) دنیاوی علم
علم دين :
علم دین سے مراد قرآن كريم اور آحاديث مباركه كا علم ہے جس ميں إس كے تمام شعبے(قرآن - فقه -تفسير - تجويد اور حديث وغيره ) شامل هوتے هيں مختصر الفاظ ميں علم دين سے مراد وه علم هے جس سے اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کے احکام کے پیروی اور نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کا طریقہ معلوم ہوجائے۔علم دین کے ذریعے انسان اللہ تعالیٰ کی معرفت کو پا سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتا ہے۔علم دین حاصل کرنے والوں پر الله تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں اور دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ ان کو عزت و مرتبہ عطا فرماتا ہے اور آخرت ميں بهي الله تعالى كا أنعام وإكرام كا وعده هے جس علم كو حاصل کرنے والوں کی فضیلت آحادیث مبارکہ مين بار بار بيان هوئى ہے وه علم درآصل علم دین ھي هے باقي دنياوى علوم محض فنون كے درجه ميں هيں- خلاصه كلام يه كه علم دين سے مراد وہ شرعی علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے روشن دلائل اور واضح ہدایت کی صورت میں اپنے حبيب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآله وسلم پرنازل فرمایا ہے۔ لہٰذا وہ علم جو قابل ستائش و تعریف ہے، وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل کردہ 'وحی کا علم' ہے اوراللہ کے نبی صلی اللہ علی وآله وسلم کے ارشادات عاليه هيں:
چنانچه ارشاد نبوي صلى الله عليه وآله وسلم هے
مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ
'' جس شخص سے اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے، اسے دین میں سمجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے۔'
بے شک انبیاء علیہم السلام نے کسی کو درہم و دینار کا وارث نہیں بنایا، بلکہ اُنہوں نے تو علم (نبوت) کی وراثت چھوڑی ہے، تو جس شخص نے بھی اس (علم نبوت) کو لیا تو اُس نے گویا (دنیا و آخرت کا) وافر حصہ پالیا۔'':
ايك اور مقام پر ارشاد نبوي صلى الله عليه وآله وسلم هے
وَإِنَّ الأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا، إِنَّمَا وَرَّثُوا العِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ» [رواه أبو داود ...
بے شک انبیاء علیہم السلام نے کسی کو درہم و دینار کا وارث نہیں بنایا، بلکہ اُنہوں نے تو علم (نبوت) کی وراثت چھوڑی ہے، تو جس شخص نے بھی اس (علم نبوت) کو لیا تو اُس نے گویا (دنیا و آخرت کا) وافر حصہ پالیا۔''
علماء آنبياء كے وارث هيں چنانچه ارشاد نبوي صلى الله عليه وآله وسلم هے
«إِنَّ العُلَمَاءَ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ
بے شك علماء هي آنبياء كے وارث هيں
اور یہ بات طے شدہ ہے کہ حضرات انبیاء علیہم السلام نے دوسروں کو اللہ عزوجل کی شریعت ِمطهرہ کے علم کا ہی وارث بنایا ہے نہ کہ کسی اور کا۔ انبیاء علیہم السلام نے لوگوں کو صنعت اور اس سے متعلقہ دیگر فنون کے علم کا ہرگز وارث نہیں ٹھہرایا، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ہجرت کے موقع پر جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ نزولِ فرمایا، تو وہاں کے لوگوں کو کھجوروں کی پیوندکاری کرتے ہوئے پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے اہل مدینہ سے، اُن کو مشقت میں دیکھتے ہوئے، اس بارے میں بات کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی گفتگو کا ماحصل یہ تھا کہ ایسا کركے مشقت ميں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ تو اُن لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے کہنے پر ایسا ہی کیا اور تلقیح کرنے سے رُک گئے، مگر کھجوروں پر پھل نسبتاً کم آیا۔ لوگوں كے عرض كرنے پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا:
أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ
''تم اپنی دنیا کے معاملات کو بہتر جانتے ہو۔''
لہٰذا اگر دنیوی معاملات کے بارے میں جاننا، تعریف و توصیف کے لائق ہوتا تو اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآله وسلم ان معاملات کو تمام لوگوں سے بڑھ کر جاننے والے ہوتے۔ اس لئے کہ اس دنیا میں علم و عمل کی بابت سب سے زیادہ قابل تعریف اور ثنا کے لائق ہستی اللہ کے رسول حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہی ہیں