اچھی نماز بنانے کے لئے محنت کیسے کی جائے

وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَO 

اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔


يه تو هر شخص جانتا هے كه كوئى بهي مقصد حاصل كرنے كيلئے محنت كرنا لازم وملزوم هے پهر يه بهي بات واضح هے كہ كامياب وهي هوتا هے جو محنت صحيح طريقه سے كررها هو اگر كوئى محنت تو كررها هے ليكن اسكا طريقه صحيح نهيں هے تو وه چاهے كتني هي محنت كرتا رهے وه كهبي بهي منزل پر نهيں پہنچ پائے گا إسكي مثال إسی طرح هے كه إيك شخص نے جانا تو إسلام آباد هے ليكن سفر وه كراچي كي طرف كررها هے وه چاهے كتني هي رفتار سے سفر كرتا رهے ليكن وه إسلام آباد كهبي بهي نهيں پہنچ سكے گا كيونكه اس کا رخ صحيح جانب نهيں هے

إسي طرح دين كے كسي بهي جز كي محنت كا فائده تب هوگا اگر وه صحيح نهج پر هوگي اور صحيح نهج وهي هوسكتي هے جو هميں رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  اور صحابه كرام رضوان اللہ علیھم سے محنت كا طريقه ملا اگر هم اپني مرضي كے طريقه پر محنت كريں گے تو كهبي بهي كامياب نه هونگے ليكن اگر وهي محنت رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كے طريقه پر هوگي تو إن شاء الله هم دونوں جهانوں ميں كامياب هوجائيں گے
جہاں تک نماز كي محنت کا تعلق ھے تو نماز كے فضائل اور فوائد حاصل كرنے كيلئے محنت ضروري چيز هے اور يه محنت رسول كريم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كے طريقه پر هونا ضروري هے علمائے کرام نے شریعت کے مطابق ھمیں محنت کے مندرجہ ذیل تين طريقے بتائے ھیں :- 
دعوت دينا۔ مشق كرنا - دعا كرنا

نماز كي دعوت دینا 
نماز کی حقيقت كو پانے كے لئے نمازي كي پہلی محنت نماز كي دعوت دوسرے لوگوں كو دينا هے جتني زياده وه نماز كي دعوت دوسرے لوگوں کو دے گا اتنا هي جلد اور زياده نماز كي حقيقت كو پائے گا يه تو هر كوئى جانتا هے اور إس ميں كوئى شك بهي نهيں كه أمت ميں أعمال كا رواج كسي نه كسي درجه ميں موجود هے ليكن يه بهي إيك حقيقت هے كه أعمال تو هيں ليكن يه أعمال حقيقت سے خالي هيں صرف شكل هے اب هوتا يه هے كه دعوت دينے والا نماز كي دعوت جب بے نمازي كو ديتا هے اور پهر جب دل هي دل مين اپنا موازنه اس سے كرتا هے تو اپنے آپ كو بهتر سمجهتا هے تو چونكه وه بے نمازي كو سامنے ركهـ كر دعوت ديتا هے إس لئے لامحاله اپني نماز ميں وه كوئى كمي محسوس نهيں كرتا إس لئے اس پر محنت كرنا بهي ضروري نهيں سمجهتا ۔ بلاشبهه بے نمازي كو بهي نماز پڑهنے كي دعوت ديني هے ليكن بے نمازي كو سامنے ركهـ كر نهيں بلكه اپني نماز كي حقيقت كو سامنے ركهـ كر جس كو دعوت ديني هے اس سے كهيں زياده دعوت دينے والا نماز كي حقيقت كو پانے كا محتاج هے پهر يه بهي إيك واضح حقيقت هے كه بے نمازي سے بهي كهيں زياده نمازي كو دعوت دينے كي ضرورت هے نماز كي دعوت كا مقصد يهي هے كه همارے اندر نماز كي حقيقت آ جائے- غور كرنے سے يه فرق خود هي عياں هوجاتا هے حديث مباركه ميں هے كه نماز يا تو روشن اور چمكدار هوكر نمازي كے لئے دعا كرتي جاتي هے يا سياه رنگ ميں نمازي كے لئے بددعا كرتي جاتي هے كه إے الله جس طرح إس نمازي نے ميرے حق كو ادا نه كركے مجهے برباد كيا إسي طرح تو اسے بهي برباد كردے پهر يه نماز پرانے كپڑے كي طرح لپيٹ كر نمازي كے منه پر مار دي جاتي هے إسي طرح حديث مباركه ميں يه بهي آتا هے كه قبر ميں نماز نمازي كے سر كي طرف موجود هوگي اور قيامت والے دن جب نمازي الله تعالى كے سامنے كهڑا هوگا تو يه نماز ميزان پر اپنا وزن كروا رهي هوگي رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  معراج شريف سے جهاں نماز ساتهـ لے كر تشريف لائے تو وهاں نماز كي حقيقت بهي ساتهـ لائے تهے إس لئے دعوت دينے والے كے لئے ضروري هے كه جب وه دعوت دے تو بے نمازي كو سامنے ركهـ كر دعوت نه دے بلكه نماز كي حقيقت كو سامنے ركهـ كر دعوت دے نماز كے خشوع وخضوع كو سامنے ركهـ كر دعوت دے نماز كي صفت إحسان كو سامنے ركهـ كر دعوت دے كه الله تعالى اسے ديكهـ رهے هيں يا كم ازكم يه كه وه الله تعالى كو ديكهـ رها هے
چونكه دعوت دينے والے كا مقصد خود اپنے اندر نماز كي حقيقت كو بيدا كرنا هے إس لئے وه نماز كي حقيقت كي دعوت دے رها هے اگر هم بے نمازيوں كو سامنے ركهـ كر نماز كي دعوت ديں گے تو نماز كي حقيقت كو كهبي بهي نه پا سكيں گے نه هي همارى نماز ميں كوئى ترقي هوگي إس لئے نماز كي حقيقت كو سامنے ركهـ كر دعوت ديني هے إس حقيقت كو خوب كهول كهول كر بيان كيا جائے نماز كے فوائد جو دنيا اور آخرت ميں هميں مليں گے أنهيں خوب خوب سمجهايا جائے - حضور أكرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   كي نماز كے بارے ميں آچهي طرح بتايا جائے اور صحابه كرام رضوان الله عليهم كے واقعات بيان كيے جائيں كه أنهوں نے نماز پر كس طرح محنت كي اور نماز كے ذريعه سے هي الله تعالى سے اپنے مسائل حل كروائے تو لوگوں كا ذهن بنايا جائے كه جس طرح صحابه كرام رضوان الله عليهم نے نماز سے اپنا هر هر مسئله حل كروا ليا تو اگر آج هم بهي أسي يقين كيساتهـ نماز پڑهيں گے تو الله تعالى كے وعدے همارے لئے بهي وهي هيں جو صحابه كرام رضوان الله عليهم كے لئے تهے تو نماز كي دعوت ميں خوب خوب سمجهايا جائے جتني زياده آپ دعوت پر محنت كريں گے اتنا هي زياده نماز كا يقين آپ كے دل ميں آئے گا اور نماز كي حقيقت سمجهـ ميں آئے گی ۔ 

نماز كي مشق
نماز کی مشق دو إعتبار سے كرنا ضروري هوتي هے
1-ظاهري مشق 2- باطني مشق

1-ظاهري مشق
ظاهري مشق ميں سب سے پہلے شرائطِ نماز كا إهتمام آتا هے
1- نمازی کے بدن كا پاک هونا:
اس کی دو قسمیں ہیں،
1-حدثِ اکبر یا جنابت یعنی غسل فرض ہونا،
2- حدثِ اصغر یعنی بے وضو ھونا یا بحالتِ مجبوری تیمم ہونا،
2- نمازی کے کپڑوں کا پاک ہونا: ويسے مشق تو يهي هو كه نمازى كے كپڑے هروقت پاك هوں اور جب بهي كوئى ناپاكي كپڑوں كو لگ جائے تو فوراً اسے دهو كر پاك كرليا جائے بهرحال نمازى كا لباس جسے پہن كر وه نماز ادا كرنا چاه رها هے وه پاك هونا نماز كي شرائط ميں شامل هے
3- نمازى کی جگہ کا پاک ہونا: نمازي كو إسبات كا بهي إهتمام كرنا ضرورى هے كه وه پاك جگه پر نماز ادا كرے كيونكه نماز کے صحیح ہونے کے لئے نماز پڑہنے کی جگہ کا پاک ہو نا بهي لازمي شرط ہے
4- نمازی کا ستر كا ڈھانپنا:
ستر کا ڈھانپنا بھی شرائط نماز میں شامل ھے ۔ آزاد بالغ عورت كا بدن اور سر دونوں کا ڈھانپنا ضروری ہے
5- پابندیِ وقت: نماز کی ايك شرط ’’نماز مقررہ اوقات کے اندر ادا کرنا‘‘ ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًاO ’’بے شک نماز مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہےo‘‘ 6- قبلے کی طرف منھ کرنا: نمازى كا قبلہ کی طرف منھ کرنا جبکہ اس پر قادر ہو نماز صحیح ہونے کےلئے شرط ہے،

7- نیت كرنا : خالص اللّٰہ تعالٰی کے واسطے نماز پڑھنے کے ارادہ کو نماز کی نیت کہتے ہیں۔ يه بهي نماز كى شرائط ميں سے إيك شرط هے انیت میں دل کا عمل معتبر ہے اس لئے زبان سے کہنا فرض نہیں بلكه مستحب ہے، نیتِ قلبی کے بغیر زبان کی نیت بے کار ہے -
ظاهري مشق ميں نماز كے فرائض - واجبات اور سنن وغيره كا إهتمام هونا يعني تکبیر تحریمہ ، قيام ، قرأءت ، ركوع ، قومه ، سجود ، جلسه اور قعده وغيره بالكل صحيح طریقہ سے اور اطمینان کا ساتھ کرنا ضروری هے

2- باطني مشق
اللہ تعالی كا يقين و دهيان ، الله تعالى كا خوف اور دل ميں نماز سے الله تعالى كي خزانوں سے ملنے كا كامل يقين هونا ۔ نماز كي باطني مشق سے مراد دوران نماز صرف الله تعالى كي طرف هي دهيان هونا ، الله تعالى كا خوف هونا ،نماز ميں الله تعالى كا كامل يقين هونا اور دل ميں نماز سے الله تعالى كي خزانوں سے ملنے كا كامل يقين هونا اور جب بهي كوئى ضرورت پيش آئے تو توجه كا فوراً نماز كي طرف جانا هے
عجزو انکساری اور ادب کے ساتھ دلی توجہ کا دوسرا نام ”خشوع“،ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ مومنین نماز کو ایک بے رُوح ڈھانچہ نہیں سمجھتے بلکہ ان کی پوری توجہ نماز کی باطنی کیفیت اور حقیقت پر ہوتی ہے، اکثر لوگ ایسے ہیں جو نماز میں از حد کوشش کرتے ہیں کہ عالمِ نماز میں خضوع وخشوع اور الله کی طرف دلی توجہ کریں، مگر وہ ایسا نہیں کرپاتے، نماز اور دیگر عبادات کے دوران خضوع، خشوع اور حضور قلب کے لئے مندرجہ ذیل امور میں پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے:
1۔ معلومات کواس حد تک پہنچانے کہ انسان کی نگاہ میں دنیا کی ذلت وپستی اور الله کی رفعت وبلندی اور عظمت وبزرگی واضح ہوجائے تاکہ کوئی بھی دنیاوی امر بارگاہ میں حاضری کے وقت اپنی طرف متوجہ نہ کرسکے ۔
2۔ پریشان خیالی اور ذہنی انتشار جو اس کو ایک طرف مرکوز رکھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، لہٰذا انسان جتنا ان کو کم کرے، دلی توجہ اور یکسوئی میں ممدو معاون ثابت ہوگا ۔
3۔ نماز اور دیگر عبادات کے لئے مقام کا محلّ وقوع بھی خاصہ موٴثر ہے، اسی بناء پر اپنی جگہوں پر نماز ادا کرنا مکروہ ہے، جو انسان کی توجہ کو ہٹانے کا سبب ہوں، مثلاً آئینے کے سامنے نمازپڑھنا، کھلے دروازوں کے سامنے جہاں سے لوگوں کی آمد ورفت ہوتی ہو، نماز پڑھنا اور کسی تصویر یا پُرکشش منظر کے سامنے نماز ادا کرنا وغیرہ اسی وجہ سے مساجد غير ضرورى زیب وزینت اور آرائش سے خالی ہونی چاہئیں تاکہ نمازي كى توجه الله تعالى کی طرف ہی رہے ۔
4۔ گناہ سے پرہیز کرنا، کیونکہ گناہ کے ارتکاب سے انسان الله سے دُور ہوجاتا ہے اور نماز میں حضور قلبی سے محروم رہتا ہے ۔
5۔ نماز میں جو کچھ پڑھا جاتا ہے اس کے معنی اور اس کے افعال واذکار سے واقفیت حاصل کرنا اور نماز کے مخصوص آداب اور مستحبات کو ادا کرنا چاہے ان کا تعلق مقدمات نماز سے ہو یا خود اصل نماز سے ۔
6- مذکورہ بالا تمام امور سے قطع نظر نماز ميں دهيان اور توجه يعني خضوع وخشوع کے حصول کے لئے مسلسل اور پیہم مشق اور پوری توجہ کی ضرورت ہے، کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان شروع شروع میں تھوڑی دیر کے لئے دلی یکسوئی پیدا کرلیتا ہے اور اگر وہ اس کی مسلسل مشق کرے اور ہر نماز میں برابر اس کے اضافے کی کوشش کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ایسا ملکہ پیدا نہ کرے کہ ہمیشہ حالتِ نماز میں وہ غیر الله سے بالکل بے نیاز ہوجائے ۔
7-ایمان کی تجدید اور نافرمانی سے بچنا بهي نماز ميں توجه حاصل كرنے كے لئے ضروري هے چونکہ ایمان کے بعد نافرمانی غفلت سے ہوتی ہے اور نماز غفلت زائل کرنے کا اہم ذریعہ ہے، اسی سے اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس پر ایمان کا جذبہ تازہ ہوتا ہے۔
8- هر وقت دل ميں اللہ کی محبت وخشیت بهي نماز ميں خشوع وخضوع پيدا كرنے كا إيك سبب هے چونکہ نماز کے دوران اللہ تعالیٰ کی عبادت میں جسم کے تمام اعضاء حصہ لیتے ہیں اس سے محبت الٰہی کا جذبہ پورے جسم میں سرایت کرتا ہے اور پھر طبیعت اتباع شریعت پر آمادہ ہوتی ہے، گویا نماز ظاہری و باطنی طور پر یاد الہی ہے۔ اسی طرح عام زندگی کی تمام حالتیں (کھڑا ہونا، بیٹھنا، جھکنا، لیٹنا، حرکت کرنا، پرسکون ہونا) نماز میں جمع ہیں۔ جب ان تمام حالتوں میں اللہ تعالیٰ کی یاد رہتی ہے تو باہر کی زندگی میں ان تمام حالتوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہونے کی مشق ہو جاتی ہے۔
9- نماز چونکہ سراسر اللہ تعالیٰ کی یاد ہے، جب یہ یاد کامل طور پر پائی جائیگی تو کبھی بھی اس کے ساتھ گناہ جمع نہیں ہو سکے گا یعنی اس سے اللہ تعالیٰ کی خشیت پیدا ہوگی اور وہ گناہوں سے بچانے کا سبب بنے گی۔ اسی طرح”مالک یوم الدین“ کا تذکرہ آخرت کی بھی یاد دہانی کا باعث بنتا ہے الغرض نماز خود بهي محبت اور خشیت الہی کے جذبات پیدا کرتی ہے إس لئے نمازى كے لئے الله تعالى كي محبت اور خشيت كي مشق هونا بهت ضروري أمور ميں سے هے اور نمازي کے يه لطيف جذبات اتباع شریعت کا اہم جزهيں خلاصہ کلام يه کہ نماز ہی سے اسلامی زندگی کی نشوونما ہوتی ہے بشرطيكه نماز صحيح معنوں ميں نماز هو۔
يقين والي نماز كے لئے الله تعالى سے رو رو کر دُعا كرنا
سب کچھ کرنے كے بعد كاميابي دينے والي ذات صرف اور صرف الله تعالى كي هے إس لئے دعوت اور مشق كا عمل كرنے كے بعد تيسرا اور آخرى كام الله تعالى سے رو رو كر اور گڑگڑا كر دعا مانگني بهت ضرورى هے.
اللہ تعالی کو یہ بات بہت پسند ہے کہ اس سے مانگا جائے، ہر چیز کے لئے امید اسی سے لگائی جائے، بلکہ جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ تعالی اس پر غضبناک ہوتا ہے، اسی لیے اپنے بندوں کو مانگنے کے لئے ترغیب بھی دلاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ[غافر]
ترجمہ: اور تمہارے رب نے کہہ دیا ہے کہ: مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کرونگا۔

اللہ سے دعا مانگنے کا دین میں بہت بلند مقام ہے، حتی کہ رسول کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے یہاں تک فرما دیا: (دعا ہی عبادت ہے) ترمذی - ابو داود - ابن ماجہ






Share:

جسے اللہ ہدایت دے، اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا

مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهٗ 

جسے اللہ ہدایت دے، اسے گمراہ کرنے والا کوئی نہ ہو گا


حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا شمار السابقون الاولون میں ہوتا ہے۔ حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ طبابت کے ساتھ جھاڑ پھونک بھی کرتے تھے۔  حضرت عبداللہ ابن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا تعلق ازدشنوہ قبیلہ سے تھا، یہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ آئے، وہاں انھوں نے ایک مجلس میں روساء قریش سے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی شخصیت اوران کی دعوت کا تذکرہ سنا، امیہ بن خلف نے آپ پر (نعوذ باللہ) دیوانہ ہونے کا اتہام لگا دیا ، حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے نیک نیتی کے ساتھ کہا میں پاگل پن، دیوانگی اورجنات کے اثرات کا جھاڑ پھونک کے ذریعے علاج کرتا ہوں، یہ شخص اب کہا ں ہے؟ شاید اللہ تعالیٰ اس کو میرے ہاتھوں سے شفاء عطاء فرمادے ، دوسرے دن حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو مقام ابراہیم پر نماز پڑھتے ہوئے پایا، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نماز سے فارغ ہوئے تو  حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا : اے ابن عبدالمطلب ! آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی قوم آپ کے بارے میں گمان کررہی ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  جنون میں مبتلا ہوگئے ہیں۔  آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ان کے دیوتاؤں  میں عیب نکالتے ہیں، انھیں بے وقوف گردانتے ہیں، اگر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  مناسب  سمجھیں تو میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا علاج کرسکتا ہوں، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  اپنی بیماری کو گراں نہ سمجھیں کیونکہ میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  سے بھی زیادہ شدید بیمار وں کا علاج کرچکا ہوں، یہ سن کر حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے خطبہ مسنونہ کے ابتدائی کلمات تلاوت فرمائے،

رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا” 

اِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَسْتَعِيْنُه وَنَسْتَغْفِرُه وَنَعُوْذُ باللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهٗ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِىَ لَه، وَاَشْهَدُ اَنْ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَرَسُوْلُه،

بلاشبہ، تمام تعریفیں اللہ ھی  کے لیے ہیں، ہم اسی سے مدد چاہتے ہیں اور اسی سے مغفرت کے طلب گار ہیں۔ہم اپنے نفسوں کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے، اسے گمراہ کرنے والا کوئی نہ ہو گا اور جسے وہ گمراہ کردے ،کوئی اسے ہدایت نہیں دے سکتا۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ اکیلے کے سوا کوئی معبود نہیں، کوئی اس کا شریک کار نہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔“

  حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کہنے لگے میں نے تو ایسا کلام پہلے کبھی نہیں سنا، اس میں تو سمندر سے زیادہ گہرائی ہے، از راہ کرم اسے دوبارہ ارشاد فرمائیے ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے یہ کلمات مبارکہ دو ہرا دیے۔ حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے استفسار کیا، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا ، ایک اللہ پر ایمان لے آؤ جس کا کوئی شریک نہیں، اورخود کو بتوں کی غلامی سے آزاد کرلو اوراس بات کی گواہی دو کہ میں اللہ کا رسول ہوں، حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے کہا: اگر میں ایسا کر لوں تو مجھے کیا ملے گا، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  فرمایا : جنت ! حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا : اپنا دست اقدس بڑھائیے۔ میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے اسلام پر بیعت کرتا ہوں۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے انھیں بیعت کرلیا ،اور پھر ارشاد فرمایا  یہ بیعت تمہاری قوم کے لیے بھی ہے،  حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا : بہت اچھا میری قوم کے لیے بھی۔

ایک عرصے بعد مسلمانوں کے ایک لشکر کا گزر ان کی قوم پر سے ہوا، لشکر کے امیر نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا : کہیں تم نے اس قوم کی کوئی چیز تو نہیں لے لی، ایک لشکر ی نے کہا میں نے ان کا ایک لوٹا اٹھا لیا ہے، امیر نے کہا : اسے فوراً واپس لوٹا دو، کیونکہ یہ  حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی قوم ہے، دوسری روایت میں کہ حضرت علی  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کی قیادت میں ایک لشکر کا بھی وہاں سے گزر ھوا ، لشکریوں کو وہاں بیس اونٹ الگ تھلک ملے تو انھوں نے  ساتھ لے لیے ، حضرت علی  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو خبر ہوئی کہ یہ تو حضرت ضماد بن ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی قوم کے ہیں تو انھوں نے  وہ اونٹ واپس فرمادئیے ۔ 

( مسلم ، بیہقی ، نسائی، ابونعیم)

Share:

سال گزر گیا مگر ایک دفعہ بھی قرآن پاک کھول کر نہیں دیکھا اور الزام امام مسجد پر


 افریقہ کے ایک شہر میں، ایک شخص حافظِ قُرآن و عالِمِ شریعت تھا۔ ۔ اسی سبب رمضان المبارک میں لوگ اُسے افطاری کے لئے  اپنے گھر بلاتے تھے ۔ ایک مقتدی نے رمضان المبارک میں ان کو افطار میں اپنے گھر بلایا ۔ عالِم جی نے دعوت قبول کی، اور افطار کے وقت اس مقتدی کے گھر پہنچے،

وہاں ان کا بہت شاندار استقبال کیا گیا، ۔افطار کے بعد عالِمِ دِین نے میزبان کے حق میں دُعا کی اور واپس چلے گئے، مقتدی کی زوجہ نے عالم کے جانے کے بعد, مہمان خانہ کی صفائی ستھرائی کی، تو اسے یاد آیا کہ، اس نے کچھ رقم مہمان خانہ میں رکھی تھی،  لیکن بہت تلاش کے باوجود وہ رقم اس عورت کو نہیں ملی، اور اس نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ،  کیا تم نے وہ رقم لی ہے؟  شوہر نے جواب دیا: نہیں، 

 اور پھر اس نے یہ بات شوہر کو بتائی کہ مہمان کے علاوہ کوئی دوسرا فرد ہمارے گھر نہیں آیا  اور ہمارا بچہ دوسرے کمرے میں تھا، اور جھولے میں رہنے والا اتنا چھوٹا سا بچہ ویسے بھی چوری نہیں کرسکتا۔ بالآخر دونوں میاں بیوی اس نتیجہ پر پہنچے کہ رقم مہمان یعنی امام مسجد نے ھی چوری کی ہے

یہ سوچتے ہوئے میزبان کے غم و غصہ کی انتہا نہ رہی، کہ یہ کیسا عالم ھے کہ ہم نے حافظ صاحب کو اتنے عزت و احترام کے ساتھ اپنے گهر بلایا، اور انہوں نے چوری جیسے جرم کا ارتکاب کیا، حالانکہ اس شخص کو تو قوم کے لئے نمونۂ عمل ہونا چاہیئے تھا، نہ کہ چور ڈکیٹ،

غم و غصہ کے باوجود اس شخص نے شرم کے مارے اس بات کو چهپا لیا،  لیکن درعین حال عالِمِ دِین سے دور دور رہنے لگا  تاکہ سلام دُعا نہ کرنی پڑے، اسی طرح مکمل سال گذر گیا اور پھر رمضان المبارک آگیا، 

اور لوگ پھر اسی خاص محبت اور جوش و خروش کے ساتھ عالم دین کو اپنے گھروں میں دعوت کے لیے بلانے لگے ۔ اس شخص نے اپنی زوجہ سے کہا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیئے ۔ مولانا صاحب کو گهر بلائیں یا نہیں؟ زوجہ نے کہا: ھمیں مولانا صاحب کو ضرور بلانا چاہیئے کیونکہ ممکن ہے مجبوری کے عالم میں انہوں نے وہ رقم اٹھائی ہو،۔ ہم انہیں معاف کر دیتے ہیں تاکہ الله کریم بھی ہمارے گناہ معاف کردے،اور پھر اس شخص نے مولانا صاحب کو اسی عزت و احترام کے ساتھ اپنے گھر افطار پر بلایا۔ 

جب افطار وغیرہ سے فارغ ہو گئے تو میزبان نے معزز مہمان سے کہا جناب آپ متوجہ تو ھوئے ہونگے کہ سال بھر سے آپ کے ساتھ  میرا رویہ کچھ تبدیل ھو گیا ہے؟ عالم نے جواب دیا:  ہاں,  لیکن زیادہ مصروفیت کی وجہ سے میں تم سے اس کی وجہ معلوم نہ کرسکا، 

میزبان نے کہا 

قبلہ! میرا ایک سوال ہے اور مجھے امید ہے آپ اس کا واضح جواب دیں گے، پچھلے سال رمضان المبارک میں میری زوجہ نے مہمان خانہ میں کچھ رقم رکھی تھی، اور پهر وہ رقم اٹھانا بھول گئی تھی ، اور آپ کے جانے کے بعد ڈھونڈنے کے باوجود وہ رقم ہمیں نہیں ملی، کیا وہ رقم آپ نے اُٹھا لی تهی؟

عالم دین نے کہا:

 ۔ جی ھاں وہ رقم میں نے ھی اُٹھائی تهی  میزبان یہ سن کر اور بھی زیادہ حیران پریشان ہو گیا، اور عالِمِ صاحب نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ گذشتہ سال رمضان  المبارک کے مہینے میں جب میں مہمان خانہ سے جانے لگا تو میں نے دیکها کہ، کاونٹر پر کچھ پیسے رکھے ہوئے ہیں، چونکہ تیز ہوا چل رہی تھی، اور نوٹ ہوا سے ادھر ادھر اڑ رہے تھے، لہذا میں نے وہ نوٹ اٗٹھا کر جمع کئے، اور سوچنے لگا انہیں کہاں رکھوں اور میں وہ رقم فرش کے نیچے یا کہیں اور نہیں رکھ سکا کہ، ایسا نہ ہو تم وہ رقم نہ ڈھونڈ سکو، اور پریشان ہو جاؤ ۔ اس کے بعد عالم نے زور سے اپنا سر ہلایا، اور اُونچی آواز میں  زارو قطار رونا شروع کر دیا، میزبان بہت حیران و ہریشان تھا کہ یہ ماجرہ کیا ھے ؟ اور پھر مولانا صاحب نے میزبان کو مخاطب کرکے کہا: میں اس لئے نہیں رو رہا کہ،تم نے مجھ پہ چوری کا الزام لگایا، اگرچہ یہ بھی بہت  ھی دردناک ہے  لیکن! میں اس لئے  رو رہا ہوں کہ، 365 دن گذر گئے، اور تم میں سے کسی نے بھی قرآنِ کریم کا ایک صفحہ بهی نہیں پڑها،اور اگر تم قرآن پاک کو ایک بار بھی کھول کر دیکھ لیتے تو تمہیں رقم قرآن پاک  میں رکھی ھوئی مل جاتی، کیونکہ میں نے اسی  خیال سے وہ رقم قرآن پاک میں رکھ دی تھی کہ قرآن پاک تو آپ نے ہڑھنا ھی ھو گا اور جب آپ قرآن پاک کھولیں گے تو رقم آپ کو مل جائے گی 

یہ سن کر میزبان بہت تیزی سے اٹھ کر قرآن مجید پر پڑی ھوئی گرد و غبار کو صاف کرتا ھوا اسے اٹها کر لے آیا ، اور عالم صاحب کے سامنے جلدی سے قرآن پاک کو کھولا، تو حیران ھوا کیونکہ اس کی مکمل رقم قرآن مجید میں رکھی ھوئی اُسے مل گئی تھی  ۔ 

مقامِ آفسوس ھے کہ یہ حال ہے آج ہم مسلمانوں کا کہ ، سال بھر میں ایک مرتبہ بھی قرآن پاک نہیں کهولتے، اور پھر بھی اپنے آپ  کو حقیقی اور سچا مسلمان سمجھتے ہیں۔۔۔

Share:

بیٹا یا بیٹی صرف اللہ پاک دیتے ھیں

 


لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-یَخْلُقُ مَا یَشَآءُؕ-یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ الذُّكُوْرَ(49)اَوْ یُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَّ اِنَاثًاۚ-وَ یَجْعَلُ مَنْ یَّشَآءُ عَقِیْمًاؕ-اِنَّهٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ(50)

اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت ۔ پیدا کرتا ہے جو چاہے ۔ جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں ملا کر دے بیٹے اور بیٹیاں اور جسے چاہے بانجھ کردے۔  بےشک وہ علم و قدرت والا ہے (سورہ الشوری)

 ان آیات مبارکہ میں یہ بتایا جا رھا ھے کہ ھر قسم کے اختیارات صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔ انسان اللہ تعالی کی مرضی کے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکتا یہاں تک انسان اپنی اولاد کی پیدائش کے بارے میں بھی بالکل کوئی اختیار نہیں رکھتا کہ وہ اپنی مرضی سے بیٹا پیدا کر لے یا بیٹی پیدا کر لے ۔ اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمانوں کا مالک اور بادشاہ ہے۔ اس کے اختیارات کا عالم یہ ہے کہ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے صرف بیٹیاں ہی عنایت کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے اسے صرف بیٹے عطا کرتا ہے۔ کسی کو بیٹے اور بیٹیاں دیتا ہے اور کسی کو زندگی بھر کچھ بھی نہیں دیتا ۔ وہ ہر چیز کا کامل اور اکمل علم رکھنے کے ساتھ ہر کسی پر قدرت رکھنے والا ہے۔ مذکورہ بالا آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے حوالے سے انسان کو یہ حقیقت سمجھائی ہے کہ اے انسان! جس رب کے ساتھ تو کفر و شرک کرتا ہے اس کے اختیارات کا عالم یہ ہے کہ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ وہ جسے چاہے بیٹے عطا فرمائے اور جس کو چاہے بیٹیاں دے اور جسے چاہے بیٹے، بیٹیاں دے اور جسے چاہے اسے بے اولاد  رکھے ۔ 

دنیا میں کوئی ایسا ایک بھی جوڑا نہیں جو اپنی مرضی سے بیٹے یا بیٹی کو جنم دے سکے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ایسی ذات ہے جو کسی کو بیٹے یا بیٹیاں دے سکے اور جسے اللہ تعالی اولاد نہ دینا چاھیے کوئی طاقت ایسی نہیں ھے جو اسے اولاد دے سکتا ہو ۔ سوچنے کی بات ھے کہ جب انسان اپنے رب کے سامنے اتنا بے بس اور بے اختیار ہے تو اسے دل کی رغبت کے ساتھ اپنے رب کا حکم ماننا چاہیے تاکہ دنیا میں اس کا بھلا ہو اور آخرت میں وہ سرخرو ہوسکے۔ اس کے باوجود یہ بیوقوف انسان  کسی کو مشکل کشا ،  کسی کو داتا اور کسی کو اپنا دستگیر بنائے ہوئے ہے۔ حالانکہ جس شخصیت کو یہ داتا  یا پھر داتا گنج بخش کہتا  ہے اس کی بے بسی اور مجبوری کا عالم یہ ھے کہ وہ بیچارہ خود بے اولاد ھی اس دنیا سے رخصت ھوا ۔ 


بیٹیوں کی پیدائش کا سبب بیویاں نہیں ھیں 

 بد قسمتی سے ھمارے معاشرے میں بیٹی کو ناپسند کرنے کی روش پروان چڑھتی جا رہی ہے ۔ بہت سے گھرانوں میں بیٹی پیدا ہونے کی وجہ سے بیوی پر جسمانی اور ذہنی تشدد , طرح طرح کی باتیں , طلاق کی دھمکیاں , گھر سے نکالنا , کوستے رہنا اور اس کی زندگی کو جہنم بنا دینا ایک معمول بن چکا ہے ۔ جن لوگوں کا تقدیر پر ایمان ہے انہیں لڑکیوں کی پیدائش پر رنجیدہ خاطر ہونے کی بجائے خوش ہونا چائیے ۔ ایمان کی کمزوری کے سبب جن بدعقیدہ لوگوں کا یہ تصور بن چکا ہے کہ لڑکیوں کی پیدائش کا سبب ان کی بیویاں ہیں،  یہ سراسر غلط ہے ۔ “گو میڈیکل کے اعتبار سے کسی جوڑے کے ھاں صرف لڑکیوں کا پیدا ھونا بیوی کی وجہ سے نہیں بلکہ شوھر کی اپنی کمزوری کی وجہ سے ھوتا ھے ۔ میڈیکل میں شوھر کی اس کمزوری کا علاج بھی کیا جاتا ھے اور شرعاً علاج  کروانے میں کوئی حرج بھی نہیں ھے ۔”  تاھم اسلام کا نقطۂ نظر یہ ھے کہ اس میں بیویوں کا یا خود شوھر کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ میاں بیوی تو صرف ایک سبب ہیں ،  پیدا کرنے والی ہستی تو صرف اللہ وحدہ لاشریک لہ کی ہے ۔ وہی جس کو چاہتا ہے لڑکا دیتا ہے جس کو چاہتا ہے لڑکی دیتا ہے جس کو چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملا کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے۔


بیٹیوں سے بُرا سلوک غیر انسانی فعل ھے 

یہ بات مشاھدہ کی ھے کہ لڑکی پیدا ہونے کی صورت میں کئی مائیں بچی کی طرف توجہ نہیں دیتیں بلکہ بعض مائیں تو دودھ ہی نہیں پلاتیں اور یوں بیٹی کے قتل کا ارتکاب کرتی ہیں ۔ بیٹی کی پیدائش پر اسے ہسپتال ہی چھوڑ آنا یا گاڑی کے اندر ہی چھوڑ جانا یا گلا دبا کر کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دینا وغیرہ معمول کی خبریں بن چکی ہیں ۔  بیٹیوں سے ایسا سلوک بالکل غیر انسانی فعل ھے یہ بیٹیاں تو رب تعالی کی رحمت ہوتی ہیں ۔ یہ بیٹیاں باپ  کےسرکاتاج ہوتی ہیں ۔ یہ بیٹیاں باپ  کاسہارا ہوتی ہیں ۔ باپ اور بھائیوں کےفیصلےکےسامنےاپنی خواہشات کودفن کردیتی ہیں یہ بیٹیاں ماں باپ کےدکھ درد میں ہروقت شریک رہتی ہیں

اے انسان ! ذرا سوچ  تو سہی کہ وہ عورت جو تیری ماں کے روپ میں ہے وہ بھی کسی کی بیٹی ہے ۔ ایک ہی پیٹ سے نکلی تیری بہنیں تیری ماں کی بیٹیاں ہیں , تو نے بھی کسی کی بیٹی سے ہی نکاح کیا ھوا ہے , اگر آج اللہ نے تیرے ہی گھر میں بھی رحمت نازل کی  ہے تو وہ تجھے اب کیوں زحمت لگنے لگی ہے۔ بیٹی کا قتل کبیرہ گناہ ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ [التكوير : 8]

اور جب زندہ دفن کی گئی (لڑکی) سے پوچھا جائے گا۔


بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ [التكوير : 9]

کہ وہ کس گناہ کے بدلے قتل کی گئی؟


دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے

وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا [الإسراء : 31]

اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی انھیں رزق دیتے ہیں اور تمھیں بھی۔ بے شک ان کا قتل ہمیشہ سے بہت بڑا گناہ ہے۔

یہاں اللہ تعالیٰ نے اولاد کے قتل کا سبب موجودہ یا آئندہ فقر کا خوف بیان فرمایا ہے ۔ آج بیٹیوں کے قتل کے پیچھے لوگوں کے ذہنوں میں یہی خوف کارفرما ہے کہ بیٹی بڑی ہو کر بوجھ بنے گی ۔ اسے جہیز دینا پڑے گا ۔ کما کر کھلانا پڑے گا وغیرہ وغیرہ 

حضرت  عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا  کہ میں نے نبی کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  سے پوچھا کہ کون سا گناہ اللہ کے یہاں سب سے بڑا ہے؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  فرمایا یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ میں نے کہا یہ تو بہت بڑا گناہ ہے۔ میں نے عرض کیا: پھر کون سا؟آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  فرمایا یہ کہ تم اپنے بچے کو اس خطرہ کی وجہ سے قتل کر دو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گا۔ میں نے عرض کیا کہ پھر کون؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو


بیٹی کی پیدائش پر منہ چڑھانا کفار کا طریقہ ہے

بیٹی کی پیدائش پر پریشان و غمگین ھونا ھمیشہ سے  کفار کا طریقہ رھا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کی حالت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا

وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمَنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ [الزخرف : 17]

حالانکہ جب ان میں سے کسی کو اس چیز کی خوش خبری دی جائے جس کی اس نے رحمان کے لیے مثال بیان کی ہے تو اس کا منہ سارا دن سیاہ رہتا ہے اور وہ غم سے بھر ا ہوتا ہے۔

دوسرے مقام پر ارشاد ھے

وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ [النحل : 58]

اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اس کا منہ دن بھر کالا رہتا ہے اور وہ غم سے بھرا ہوتا ہے۔


يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ [النحل : 59]

وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے، اس خوش خبری کی برائی کی وجہ سے جو اسے دی گئی۔ آیا اسے ذلت کے باوجود رکھ لے، یا اسے مٹی میں دبا دے۔ سن لو! برا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں۔


کظیم دے مراد غم سے بھرا ہوا ہے، یعنی لڑکی کی پیدائش کی خبر سن کر سارا دن غم کی وجہ سے اس کا منہ کالا رہتا ہے، مگر وہ غم سے بھرا ہونے کے باوجود اظہار نہیں کرتا۔ ، اس لیے اس خوش خبری کو وہ اتنا برا سمجھتا ہے کہ لوگوں کو بتانے سے بھی گریز کرتا ہے اور اسے سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کرے۔ 

 یہ اللہ پاک کی مرضی ہے بیٹی عطا کرے یا بیٹا یا دونوں یا کوئی بھی نہیں ۔ بیٹی جنم دینے میں بیوی بے قصور ہے بلکہ میاں اور بیوی دونوں ہی بے قصور ہیں کیونکہ یہ فیصلہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے ۔  اس آیت میں یہ حقیقت واشگاف الفاظ میں بیان کر دی گئی ہے کہ زمین و آسمان کی بادشاہی دنیا کے نام نہاد بادشاہوں، جباروں اور سرداروں کے حوالے نہیں کر دی گئی اور نہ ہی اس میں کسی نبی یا ولی، داتا، دستگیر یا دیوی دیوتا کا کوئی حصہ ہے، اس کا مالک اکیلا اللہ تعالیٰ ہے۔ کتنے جابر بادشاہ اور سپہ سالار، کتنے انبیاء و اولیاء اور کتنے ماہر ڈاکٹر اور حکیم اولاد سے محروم رہے، کتنے لڑکے کو ترستے رہے اور کتنے لڑکی کی خواہش دل میں لیے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے دیتا ہے اور جو چاہے دیتا ہے، چنانچہ وہ جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے، یا لڑکے لڑکیاں دونوں عطا کر دیتا ہے اور جسے چاہے مرد ہو یا عورت عقیم (بانجھ) بنا دیتا ہے، کسی کو اس پر اعتراض یا شکوے کا کوئی حق نہیں۔  اگر مشرکین اس حقیقت کو سمجھ لیں تو کبھی شرک کی حماقت نہ کریں۔


بیٹی اللہ تعالیٰ کا تحفہ ہے

 ’’ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ اِنَاثًا ‘‘ میں لڑکیوں کو اللہ تعالیٰ کا عطیہ قرار دیا گیا ہے۔ جو لوگ لڑکیوں کو نحوست یا عار کا باعث سمجھتے ہیں انھیں ان الفاظ پر غور کرنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ وہ کسی عام ذات نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ تحفہ پر منہ چڑھانے کی وجہ سے کہیں اس کے غضب کا شکار نہ بن جائیں اور کسی ایسے جوڑے کے احساسات معلوم کرنے چاہییں جنھیں لڑکی بھی عطا نہیں ہوئی۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے پہلے بیٹیوں کا ذکر فرمایا، پھر بیٹوں کے عطا فرمانے کا ذکر کیا۔

بیٹیاں ہی دکھ درد میں والدین کی زیادہ خدمت کرتی ہیں عورت فطری طور پر محبت کی مٹی میں گوندھی ہوتی ہے مامتا اس کا بنیادی وصف ہے وہ بہن کے روپ میں بھی مامتا سے مالا مال ہوتی ہے چھوٹے بہن بھائیوں سے اس کا طرز عمل ماں جیسا ہوتا ہے ۔ ایسے واقعات بہت ہیں کہ بہن مالدار ہوتو بھائیوں کا ضرور خیال رکھتی ہے لیکن ایسا بہت کم ہے کہ بھائی مالدار ہوں اور بہن کا خیال رکھتے ہوں


بیٹیاں دوزخ کی آگ کے سامنے پردہ بن کر حائل ہوجائیں گی

اسلام نے بیٹیوں کے حقوق کما حقہ ادا کرنے والوں کو اس قدر خوشخبریاں دی ہیں کہ اتنی خوشخبریاں دس بیٹے رکھنے والوں کو بھی نہیں دی گئی

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا میں نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو فرماتے ہوئے سنا:

’’مَنْ کَانَ لَہُ ثَلَاثُ بَنَاتٍ، فَصَبَرَ عَلَیْہِنَّ، وَأَطْعَمَھُنَّ، وَسَقَاہُنَّ، وَکَسَاھُنَّ مِنْ جِدَتِہِ کُنَّ لَہُ حِجَابًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔‘

أحمد والبخاري والألباني:صحيح

[جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں، اور وہ ان پر صبر کرے، انہیں اپنی استطاعت کے مطابق کھلائے، پلائے اور پہنائے، تو وہ اس کے لئے روزِ قیامت پردہ ہوں گی (یعنی دوزخ کی آگ کے درمیان پردہ بن کر حائل ہوجائیں گی۔)]

 امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان فرمایا: ’’میرے پاس ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کے ہمراہ آئی۔ اس نے مجھ سے سوال کیا، لیکن اس نے میرے پاس سوائے ایک کھجور کے اور کچھ نہ پایا۔ میں نے اس کو وہی دے دی۔ اس نے اس کو لے کر ان دونوں میں تقسیم کردیا اور خود اس میں سے کچھ نہ کھایا۔ پھر وہ اٹھی اور اپنی دونوں بیٹیوں کے ہمراہ چلی گئی۔  نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ    میرے ہاں تشریف لائے، تو میں نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو یہ واقعہ سنایا۔ نبی کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا:

’’مَنْ ابْتُلِيَ مِنَ الْبَنَاتِ بِشَيْئٍ، فأَحْسَنَ إِلَیْھِنَّ، کُنَّ لَہُ سِتْرًا مِنَ النَّارِ۔[جس شخص کو ان بیٹیوں میں سے کسی چیز کے ساتھ آزمائش میں ڈالا گیا اور اس نے ان کے ساتھ احسان کیا، تو وہ اس کے لیے [جہنم کی] آگ کے مقابلے میں رکاوٹ ہوں گی۔‘‘]

(متفق علیہ) 


بیٹیاں جنت میں لے جائیں گی

 حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: جس شخص کی دوبیٹیاں جوان ہوجائیں اور وہ ان سے اس وقت تک اچھا سلوک کرتا رہے جب تک وہ اس کے ساتھ رہیں،یا جب تک وہ ان کے ساتھ رہے ، وہ اسے جنت میں ضرور داخل کردیں گی۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا: رسول اللہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا:[’’جس شخص نے دو بیٹیوں کی، بلوغت کو پہنچنے تک، پرورش اور تربیت کی، وہ قیامت کے دن [اس طرح] آئے گاکہ میں اور وہ۔‘‘اور آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ    نے اپنی انگلیوں کو [ایک دوسری سے] ملا دیا۔]

صحیح مسلم، 


’’انبیاء کرام علیہم السلام بیٹیوں کے باپ تھے۔‘‘

امام احمدکے صاحبزادے صالح بیان کرتے ہیں، کہ جب ان کے ہاں بیٹی کی ولادت ہوتی ، تو وہ فرماتے:’’ 

[’’انبیاء علیہم السلام  بیٹیوں کے باپ تھے۔‘‘]


نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  چار بیٹیوں کے باپ تھے

بیٹی کی پرورش کے حوالے سے یہی بات بہت بڑی ہے کہ ہمارے نبی کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  بھی چار بیٹیوں کے باپ تھے نبی کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  اپنی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے جایا کرتے۔ عموماً سفر سے واپسی پر ازواج مطہرات کے حجروں میں جانے سے پہلے انہی کے گھر جاتے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  اپنی صاحبزادی کے استقبال کے لیے اٹھ کر آگے بڑھتے انہیں خوش آمدید کہتے۔ انہیں بوسہ دیتے۔ ان کا ہاتھ تھام لیتے اور مجلس میں اپنی دائیں یا بائیں جانب بٹھاتے۔ بیٹی کے استقبال میں ان سب باتوں کا اہتمام آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کا عام معمول تھا۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے اپنی بیٹی کو اپنا جگر گوشہ قرار دیتے ہوئے بیٹی کی تکلیف کو اپنی تکلیف قرار دیا   نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے بیٹی کو تھکاوٹ کی پریشانی کا تریاق بتاتے ہوئے نماز کے بعد اور بستر پر آنے کے بعد پڑھنے والے کلمات بھی سکھلائے۔


نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  بیٹیوں پر خصوصی توجہ فرماتے تھے 

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  اپنی صاحبزادیوں کی عائلی زندگی کے معاملات کی طرف خصوصی توجہ فرماتے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے ان کی شادیوں کا خود اہتمام فرمایا، رخصتی کے وقت بیٹی کو تحائف دئیے، بیٹی کی عائلی زندگی میں ہونے والے نزاع کی اصلاح فرمائی۔   بیٹی کی وفات پر شدتِ غم کی بنا پر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہے، لیکن زبان سے صبر کے منافی ایک لفظ بھی نہ نکالا۔ صاحبزادیوں کی وفات پر شدتِ الم و رنج کے باوجود آنحضرت   صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ان کی تجہیز، تکفین اور تدفین کا بندوبست ذاتی نگرانی میں کرواتے۔


اگر بیٹا نعمت ہے تو بیٹی رحمت ہے

 بیٹے نعمتیں ہیں اور بیٹیاں انسان کی نیکیاں ہیں اللہ تعالی نعمتوں کا حساب لے گا اور نیکیوں پر ثواب عطا کرے گا


   اے اللہ ! مجھے ساتویں بیٹی عطا فرما 

ایک شخص کے ہاں صرف بیٹیاں ھی پیدا ھوتی تھیں ہر مرتبہ اس کو امید ہوتی کہ اب تو بیٹا پیدا ہوگا مگر ہر بار بیٹی ہی پیدا ہوتی اس طرح اس کے ہاں یکے بعد دیگرے چھ بیٹیاں پیدا ہوگئیں اس کی بیوی کے ہاں پھر ولادت متوقع تھی وہ ڈر رہا تھا کہ کہیں پھر لڑکی پیدا نہ ہو جائے ۔ شیطان لعین نے اس کو بہکایا چنانچہ اس نے ارداہ کرلیا کہ اگر اس بار بھی لڑکی پیدا ہوئی تو وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے گا۔ اس کی کج فہمی پر غور کریں بھلا اس میں بیوی کا کیا قصور ؟

رات کو سویا تو اس نے ایک عجیب وغریب خواب دیکھا۔  اس نے دیکھا کہ قیامت برپا ہو چکی ہے ۔ اس کے گناہ بہت زیادہ ہیں جن کے سبب اس پر جہنم واجب ہوچکی ہے۔ لہٰذا فرشتوں نے اس کو پکڑا اور جہنم کی طرف لےگئے ۔ پہلے دروازے پر گئے۔ تو دیکھا کہ اس کی ایک بیٹی وہاں کھڑی تھی جس نے اسے جہنم میں جانے سے روک دیا۔ فرشتے اسے لے کر دوسرے دروازے پر چلے گئے وہاں اس کی دوسری بیٹی کھڑی تھی جو اس کے لئے آڑ بن گئی۔ اب وہ تیسرے دروازے پر اسے لے گئے وہاں تیسری لڑکی کھڑی تھی جو رکاو ٹ بن گئی۔ اس طرح فرشتے جس دروازے پر اس کو لے کر جاتے وہاں اس کی ایک بیٹی کھڑی ہوتی جو اس کا دفاع کرتی اور جہنم میں جانے سے روک دیتی۔ غرض یہ کہ فرشتے اسے جہنم کے چھ دروازوں پر لے کر گئے مگر ہر دروازے پر اس کی کوئی نہ کوئی بیٹی رکاوٹ بنتی چلی گئی۔ اب ساتواں دروازہ باقی تھا تو فرشتے اس کو لے کر اس دروازے کی طرف چل دیئے۔ اب اس پر بہت زیادہ گھبراہٹ طاری ہوئی کہ میری تو چھ ھی بیٹیاں تھیں جو رکاوٹ بنتی رھیں اب ساتویں دروازے پر میرے لئے رکاوٹ کون بنے گا کیونکہ ساتویں بیٹی تو ھے نہیں ۔ سو اسے اب معلوم ہوگیا کہ جو نیت اس نے کی تھی وہ بہت ھی غلط تھی وہ شیطان کے بہکاوے میں آگیا تھا۔ انتہائی پریشانی اور خوف ودہشت کے عالم میں اس کی آنکھ کھل گئی اور اس نے رب العزت کے حضور اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور دعا کی۔

اللھم ارزقنا السابعۃ : اے اللہ مجھے ساتویں بیٹی عطا فرما۔

بیٹیوں کی پیدائش پر رنجیدہ نہیں ھونا چاھیے بلکہ خوشی کا آظہار کرنا چاھیے البتہ اُن کے آچھے نصیب کے لئے دعا ضرور کرنی چاھیے۔ اللہ رب العزت تمام بیٹیوں کے نصیب اچھے کرے

 آمین یارب العالمین


Share:

چالیس سال کی عمر اور پڑھنے کے لئے قرآنی دعا

چالیس سال یا اس سے زیادہ عمر والے متوجہ ھوں 


وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً.

’’اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کاحکم فرمایا۔ اس کی ماں نے اس کو تکلیف سے (پیٹ میں) اٹھائے رکھا اور اسے تکلیف کے ساتھ جنا، اور اس کا (پیٹ میں) اٹھانا اور اس کا دودھ چھڑانا (یعنی زمانۂ حمل و رضاعت) تیس ماہ (پر مشتمل) ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جاتا ہے اور (پھر) چالیس سال (کی پختہ عمر) کو پہنچتا ہے۔‘‘

الأحقاف، 46: 15

قرآنِ مجید نے 40 سال کی عمر کو پختگی کی عمر قرار دیا ہے۔ عام فہم بات ہے کہ انسان کی بلوغت کے بعد اس کے شباب کا آغاز ہو جاتا ہے، 40 سال کی عمر میں شباب یعنی جوانی سے بڑھاپے کی طرف سفر شروع ھو جاتا  ہے۔ یعنی بلوغت سے لیکر 40 سال تک کی عمر جوانی کی عمر ہی کہلاتی ہے۔ 

امام فخرالدین رازی رحمة اللہ علیہ نے مذکورہ آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھا ہے:

اخْتَلَفَ الْمُفَسِّرُونَ فِي تَفْسِيرِ الْأَشُدِّ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فِي رِوَايَةِ عَطَاءٍ يُرِيدُ ثَمَانِيَ عَشْرَةَ سَنَةً وَالْأَكْثَرُونَ مِنَ الْمُفَسِّرِينَ عَلَى أَنَّهُ ثَلَاثَةٌ وَثَلَاثُونَ سَنَةً، وَاحْتَجَّ الْفَرَّاءُ عَلَيْهِ بِأَنْ قَالَ إِنَّ الْأَرْبَعِينَ أَقْرَبُ فِي النَّسَقِ إِلَى ثَلَاثٍ وَثَلَاثِينَ مِنْهَا إِلَى ثَمَانِيَةَ عَشَرَ. وَقَالَ الزَّجَّاجُ الْأَوْلَى حَمْلُهُ عَلَى ثَلَاثٍ وَثَلَاثِينَ سَنَةً لِأَنَّ هَذَا الْوَقْتَ الَّذِي يَكْمُلُ فِيهِ بَدَنُ الْإِنْسَانِ.

’’اس آیت میں اشد (پوری قوت کو پہنچا) کی تفسیر میں اختلاف ہے، حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُھما نے فرمایا کہ اس سے مراد اٹھارہ سال اور اکثر مفسرین نے کہا کہ اس سے مراد تینتیس(33) سال ہے۔ فراء نے اس پر یہ دلیل قائم کی ہے اٹھارہ کی بہ نسبت تینتیس (33) سال، چالیس سال سے زیادہ قریب ہے۔ اور زجاج نے کہا کہ تینتیس (33) سال، اس لیے راجح ہیں کہ اس عمر میں انسان کے بدن کی قوت اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے۔‘‘

(الرازي، التفسير الكبير)


مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ اٹھارہ سال سے چالیس سال تک کی عمر کو جوانی کی عمر کہا جاسکتا ہے۔ انسان کی عمر مختلف مراحل پر مشتمل ہوتی ہے۔ پیدائش سے بلوغت تک کا عرصہ بچپن کہلاتا ہے، پھر بلوغت سے اٹھارہ سال کی عمر کو نوجوانی اور اٹھارہ سال سے چالیس سال تک کی عمر کو جوانی کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد بڑھاپے کے آثار  شروع ہو جاتے ھیں ۔جسے ھمارے ھاں اُترتی جوانی بھی کہا جاتا ھے 

رسول اللہ ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) فرماتے ہیں: جب مسلمان بندہ چالیس سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ تین طرح کی بلائیں دور کردیتا ہے، جنون ،کوڑھ اور برص ۔  سن چالیس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وہ عمر ہے جسے قرآن پاک  نے ایک خاص دعا سے بھی نوازا ہے ، اس لئے چالیس سال کی عمر پہنچنے پر یا پہنچنے کے بعد اس دعا کا ضرور اھتمام کرنا چاھیے


چالیس سال کی عمر ہونے کے بعد پڑھنے کی دعا

رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ اَنْ اَشْکُرَنِعْمَتَكَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ، اِنِّـیْ تُبْتُ اِلَیْكَ وَ اِ نِّـیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ۝

اے میرے ربّ، مجھے توفیق دے کہ جو احسان تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیا ہے اس کا شکر ادا کرتا رہوں اور ایسے نیک عمل کرتا رہوں جن کو تو پسند کرے اور میری خاطر میری اولاد کی اصلاح فرما، میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمین میں سے ہوں۔   (الاحقاف ) 

یہ ایک معنی خیز دعا ہے جس میں ماضی کے لیے شکر اور آنے والے دنوں کے لیے دعا شامل ہے۔

سن چالیس میں انسان خود کو ایک  بڑے پہاڑ کی چوٹی پر محسوس کرتا ہے، وہ ڈھلانوں  پر نظر ڈالے تو اسے اپنے بچپن ، لڑکپن ،نوجوانی اور گزری ھوئی جوانی کی جھلکیاں نظر آتی ہیں اور ان کی خوشبو اب بھی اس کے دل میں محسوس ہوتی ہے۔ اور جب وہ دوسری طرف دیکھتا ہے تو اسے اپنی زندگی کے باقی مراحل قریب قریب محسوس ہوتے ہیں۔ یہ انسان کی عمر کا وہ حصہ ھوتا  ہے جب انسان میں ھر عمر کے لوگوں کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا ھو جاتی  ہے۔ وہ جوانوں کی طرح سوچ سکتا ہے، بوڑھوں کے جذبات کو سمجھ سکتا ہے، اور بچوں کی طرح خوشیاں محسوس کر سکتا ہے۔

عموماً چالیس کی دہائی میں انسان اپنے بالوں میں سفید لکیریں دیکھنے لگتا ہے، اور بعض لوگوں کی آنکھوں کی روشنی بھی کم ہونے لگتی ہے، جس کی وجہ سے عینک  بھی ایک ضرورت بن جاتی ہے۔ چالیس کی عمر کے بعد شاید  پہلی بار بازار یا عوامی جگہوں پر لوگ آپ کو "چاچا" یا "خالہ “کہہ کر بلانے لگتے ہیں، جو اکثر اوقات حیرت کا باعث بنتا ہے۔ جبکہ ساٹھ  یا ستر سالہ افراد آپ کو جوان کہتے ہیں، تو آپ مزید حیران ہو جاتے ہیں۔

چالیس کی دھائی میں "زندگی کی درمیانی عمر کا بحران" شروع ہوتا ہے، جس میں آپ کے اندر سخت سوالات سر اٹھاتے ہیں ۔ یہ سوالات آپ خود سے پوچھ رھے ھوتے ھیں ۔ مثلاً  آپ نے اپنے کام میں کیا حاصل کیا؟  اپنی فیملی کے لیے کیا کیا؟  اپنی ماضی کی زندگی میں کیا حاصل کیا؟ اپنے رب کے ساتھ کتنا تعلق بنایا یعنی معرفت الہی کا سفر کہاں تک طے کیا اور معرفت اور  تعلق میں کیا حاصل کیا؟ اگر ابھی  تک بھی آپ نے اپنے رب کی طرف رجوع نہیں کیا پھر کب کریں گے؟ اس عمر میں جاکر یہ سوالات دل کو جھنجھوڑ دیتے ہیں ۔ کیونکہ وقت کی رفتار بہت تیز ہے، اور بچپن میں ہم جیسے چالیس سال کی عمر والے افراد کی دنیاوی خواہشات پوری طرح سمجھتے تھے، آج ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ابھی تک کرنے کو بہت کچھ باقی ہے۔

چالیس کی دہائی میں ہمیں اپنے ارد گرد موجود بہترین چیزوں کی حقیقی قدر سمجھ میں آنے لگتی ہے۔جب ھم اپنے بچوں کی پرورش اور تربیت کر رھے ھوتے ھیں تو ھمیں شدت سے اہنے والدین کا احساس ھونا شروع ھو جاتا ھے  ہم اپنے والدین کو دیکھتے ہیں، (اگر وہ زندہ ہوں، )تو ہمیں ان کی قدر و منزلت کا احساس ہوتا ہے اور یہ کہ ہمیں ان کی خدمت کرنی چاہیے۔ اس عمر میں ھمیں والدین کو کھونے کا دھڑکا سا بھی  لگا رھتا ھے اپنے بچوں کو دیکھتے ہیں، جو اب بچپن سے لڑکپن اور نوجوانی میں داخل ھو رھے ھوتے ھیں  اور ہم ان کے ساتھ وقت گزارنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے بھائیوں اور دوستوں کی قدر کرتے ہیں اور ان کی موجودگی میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔

چالیس کی دہائی میں انسان کا وہ وقت آتا ہے کہ وہ اپنی ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو پہچانے اور ایک متوازن اور دانا شخصیت بنے۔ یہ عمر دراصل فصل کاٹنے کا وقت ہے، جس میں ہم اپنے ماضی کے اعمال کے نتائج دیکھنا شروع کرتے ہیں، لیکن ابھی بھی تبدیلی ممکن ہے۔

چالیس کی دھائی کے بارے میں بعض اکابرین کےبارے میں کتابوں میں لکھا ھے کہ وہ اس عمر میں بستر لپیٹ کر رکھ دیتے تھے کہ اب سونے کا زمانہ ختم ھو گیا ۔ چالیس سال کی عمر کو پہنچ کر انسان کو پختہ دل سے اللہ کی طرف توبہ کرنی چاہیئے اور نئے سرے سے اللہ کی طرف رجوع و رغبت کر کے اس پر جم جانا چاہیئے ۔

چالیس سال کا سفر طے کرنے والوں کو دل کی گہرائیوں سے سلام  ۔  اللہ تعالی  آپ  سب جو چالیس سال کی عمر کو پہنچنے والے ھیں یا پہنچ گئے ھیں کے دلوں کو  اپنی معرفت ، قرآن و سنت کے علم  ، صراطِ مستقیم  اور دین سے روشن کرے اور آپ کے سینے کو بھرپور ایمانی قوت ، ہدایتِ کامل  اور یقینِ محکم  سے بھر دے۔

آمین یا رب العالمین


Share:

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) كا مقصد



 مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) كا مقصد

كلمه طيبه " لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ" (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) كا مقصد يه هے كه همارے دل كا يقين درست هو جائے اور كلمه كے پہلے حصه (لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ) كا مقصد یقینوں کی تبدیلی ھے يعني يه بات دل ميں راسخ هوجائے كه جو كچهـ هوتا هے الله سے هوتا هے اور الله كے غير سے الله تعالى كي مرضي كے بغيركچهـ بهي نهيں هوتا اور مخلوق كے چاهنے سے كچهـ نهيں هوتا بلكه جو الله كي مرضي هو وهي هوكر رهتا هے ۔
كلمه كے دوسرے حصه مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ) كا مقصد طریقوں کی تبدیلی ھے یعنی حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كے نوراني طريقوں ميں 100% كاميابي اور غيروں كے طريقوں ميں سراسر ناكامي كا يقين همارے دلوں ميں آجائے۔  همارے دلوں كا يه يقين بن جائے كه همارى إس دنيا كي كاميابي - عالم برزخ كي كاميابي اور عالم آخرت كي كاميابي صرف اور صرف رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كے نوراني طريقوں كے مطابق زندگى گزارنے ميں هے اور غيروں كے طريقے خواه وه آمريكا سے آئے هوں ، روس سے آئے هوں ، چين سے أئے هوں يا كهيں سے بهي آئے هوں ان ميں يقيني ناكامي هے رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ كے إيك إيك طريقه (سنت) ميں الله تعالى نے زبردست كاميابي ركهي هوئى هے جو بهي إن نوراني سنتوں كو اپنائے گا اسے دنيا ميں چين و سكون كي زندگي ملے گي اور مرنے كے بعد قبر - حشر اور ديگر مراحل سے بهي آساني كے ساتهـ گزر جائے گا اگر ہماری زندگی میں "مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ "صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے طریقے موجود ہوں دنیا کی کوئی چیز بھی موجود نہ ہو تو بھی ہم دونوں جہاں میں کامیاب ہوجائیں گے. اور اگر ہماری زندگی میں " مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ " صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے طریقے موجود نہ ہوں لیکن دنیا جہاں کی ہر چیز موجود ہو تو بھی ہم دنیا و آخرت میں ناكام ہوجائیں گے. صحابه كرام رضوان الله عليهم كي مقدس جماعت رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ كي إيك إيك سنت پر جان قربان كردينے كے لئے هر وقت مستعد رهتي تهي أن كے نزديك رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ كي إيك إيك سنت ان كے جان - مال - اولاد اور هر چيز سے زياده قيمتي تهي۔ مرنے کے بعد قبر کے سوالوں میں تیسرا سوال اسی کے متعلق ھو گا

سوال : مَن نَّبِیُّکَ -  تیرا نبی کون ہے؟

جواب: حضرت محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) هو نبيی . 

حضرت محمد  (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ)  میرے نبی ھیں

                یا

سوال : مَا ھٰذَا الرَّجُلُ الَّذِیْ بُعِثَ فِیْکُم؟ 

یہ کون مَرد ہیں جو تم میں بھیجے گئے؟ 



(جواب : ھُوَ رَسُوْلُ اللہ ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ 

وہ تو رَسُوْلُ اللہ ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   ) ہیں۔


تو معلوم ھونا چاھیے کہ قبر کے تیسرے سوال کا جواب بھی ایمان ویقین کے متعلق ھی ھے  جس نے اس دنیا میں حضرت محمد  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كے نوراني طريقوں ميں سو فیصد  كاميابي اور غيروں كے طريقوں ميں سراسر ناكامي كا يقين اپنے  دل  ميں جمایا ھو گا  اور انہی طریقوں کو پسند کیا ھو گا اور انہی  طریقوں کے مطابق زندگی گزاری ھو گی تو وہ اس سوال کا صحیح جواب دے سکے گا  اور جس نے اس سے ھٹ کر یقین رکھا ھو گا  اور غیروں کے طریقوں کو پسند کیا ھو گا اور زندگی غیروں کے طریقوں پر گزاری ھو گی وہ اس سوال کا جواب دینے پر قادر نہ ھو سکےگا  تو ھمیں یہ  مشق بھی اسی زندگی میں کرنی ھوگی کہ همارے دلوں كا يه يقين بن جائے كه همارى إس دنيا كي كاميابي - عالم برزخ كي كاميابي اور عالم آخرت كي كاميابي صرف اور صرف رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كے نوراني طريقوں كے مطابق زندگى گزارنے ميں هے اور غيروں كے طريقے خواه وه  كهيں سے بهي آئے هوں ان ميں يقيني ناكامي هے  اور جس نے  ان نورانی طریقوں کو اپنا کر زندگی گزاری ھوگی تو  وہ آسانی سے اس سوال کا جواب دے پائے گا  ھمارے لئے یہ جاننا بہت ضروری ھے کہ رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كے إيك إيك طريقه (سنت) ميں الله تعالى نے زبردست كاميابي ركهي هوئى هے جو بهي إن نوراني سنتوں كو اپنائے گا اسے دنيا ميں چين و سكون كي زندگي ملے گي اور مرنے كے بعد قبر - حشر اور ديگر مراحل سے بهي آساني كے ساتهـ گزر جائے گا اگر ہماری زندگی میں "مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ " صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے طریقے موجود ہوں اور بالفرض  دنیا کی کوئی چیز بھی موجود نہ ہو تو بھی ہم دونوں جہانوں  میں کامیاب ہوجائیں گے. اور اگر  خدانخواستہ ہماری زندگی میں " مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ "  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے طریقے موجود نہ ہوں لیکن دنیا جہاں کی ہر چیز موجود ہو تو بھی ہم دنیا و آخرت میں ناكام ہوجائیں گے.
صحابه كرام رضوان الله عليهم كي مقدس جماعت رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كي إيك إيك سنت پر جان قربان كردينے كے لئے هر وقت مستعد رهتي تهي أن كے نزديك رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كي إيك إيك سنت ان كے جان - مال - اولاد اور هر چيز سے زياده قيمتي تهي المختصر یہ کہ ھمیں  رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کے طریقوں میں پوری پوری کامیابی  اور غیروں کے  طریقوں میں پوری پوری ناکامی کے اپنے دل کے یقین کو محنت کرکے بنانا ھوگا اور ان طریقوں کے مطابق ھی زندگی گزارنے کی کوشش کرنی ھو گی یہی اُخروی زندگی کی کامیابی کی کنجی ھے ۔ اللہ پاک ھمیں عمل کی توفیق عنایت فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین ۔

Share:

لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ كا مقصد

كلمه  طیبہ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ
(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ)  كے حواله سے هماری یہ  بھی ذمه داری هے كه هم يه بات سيكهنے اور سمجهنے كي كوشش كريں كه ھمیں جو یہ عظیم کلمہ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ) عطا فرمایا گیا ھے تو إس عظيم كلمه لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) كا مقصد كيا هے ؟ تاكه يه كلمه یعنی لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ( هماري زندگيوں ميں آ سكے۔ تو يه كلمه  لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ  (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ) دو حصوں پر مشتمل هے

پهلا حصه    :  لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ
دوسرا حصه :  مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ)


لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ كا مقصد
 جیسا کہ إس كلمه كے ألفاظ سے صاف ظاهر هے كه إس كلمه كا تعلق دل كے إيمان ويقين سے هے - يه كلمه تمام مخلوق كي نفي كركے إيك الله كي دعوت ديتا هے يعي الله تعالى سے سب كچھ هونے اور الله تعالى كے غير سے الله تعالى كي مشيت كے بغير كچھ بهي نه هونے كا يقين همارے دلوں ميں آجائے يعني يه كه همارے دل كا يقين درست هوجائے حديث مباركه كا مفهوم هے كه تمهارے بدن ميں گوشت كا إيک لوتهڑا هے اگر وه صحيح رها تو تمام بدن صحيح رهے گا اور اگر وه خراب هوگيا تو تمام بدن خراب هو جائے گا گوشت كا وه لوتهڑا دل هے ۔ تو اگر دل كا يقين درست هو جائے تو پهر بدن كے أعمال بهي درست هوجائيں گے اور اگر دل كا يقين درست نه هوا تو پهرأعمال كا درست هونا بهي ناممكن هوگا
تو همارا دل كا يقين درست هوجائے يعني ھمارے دل میں يه پکا يقين هو جائے كه اگر تمام مخلوقات مل كر بھی هميں كوئى نفع دينا چاهے ليكن اگر الله تعالى نه چاهے تو وه إيسا كرنے كي قدرت نهيں ركهتي - إسي طرح اگر تمام مخلوقات هميں نقصان پهنچانے پر آكٹهي هوجائيں اور الله تعالى نه چاهے  تو وه نقصان نهيں پہنچا سكتيں تو یہی إس كلمه كا مقصد بھی هے كه هرقسم كي مخلوق كي نفي كركے صرف الله تعالى کی ذات پر يقين آجائے كه وهي همارا خالق هے ، وهي همارا مالك هے ، وهي همارا رازق هے ، وه سب كچھ كے بغير سب كچھ كرنے پر قادر هے اور مخلوق اس كي مرضي كے بغير كچھ بهي نهيں كرسكتي ۔ زندگي اور موت كا مالك وه تنها الله هے ۔ عزت اور ذلت صرف وهي ديتا هے ۔ نفع و نقصان اس كے هاتھ ميں هے ۔ وه جب چاهے عزت كے نقشوں ميں ذليل كردے اور ذلالت كے نقشوں ميں عزت دے دے ۔ وه چاهے تو نمرود كو تخت پر بٹها كر جوتے مروا دے اور وه چاهے تو حضرت إبراهيم عَلَیْہِ السَّلَام كے لئے آگ كو گلزار بنا دے
وه جب چاهے تو دريا ميں سے حضرت موسى عَلَیْہِ السَّلَام  اور ان كي قوم كو راسته بنا دے اور وه جب چاهے تو اسي دريا ميں فرعون اوراس كي فوج كو غرق كر دے ۔ وه جب چاهے لاٹهي كو سانپ بنا دے اور جب چاهے سانپ كو لاٹهي بنا دے ۔ يه سب كچهـ الله كے هاتهـ ميں هے ۔ مختصراً يه كه الله تعالى جو چاهے جب چاهے جيسے چاهے كرنے پر قدرت ركهتا هے ۔ كوئى بهي دوسرا اس كي قدرت ميں شريك نهيں وہ * كن* كهتا هے تو *فيكون* هوجاتا هے كائنات كا سارا نظام صرف إيك الله كے هاتهـ ميں هے
الله تعالى صمد هے ۔ صمد أس ذات كو كهتے هيں جو كسي بهي كام كے لئے كسي كا محتاج نه هو اور باقي تمام هر كام ميں اس كے محتاج هوں ۔ مخلوق كا مطلب يه هے كه وه هر كام ميں اپنے خالق و مالك ( يعني الله تعالى ) كي محتاج هے۔ المختصر يه كه يه كلمه هميں دل كے يقين كو درست كرنے كي دعوت ديتا هے اور مخلوق كے آستانوں سے هٹا كر إيك خالق كے سامنے سجده ريز هونے كي تعليم ديتا هے ۔ تو إس كلمه كا مقصد يه هے كه همارے دلوں كا يقين درست هو جائے اور يه بات دل ميں پكي هوجائے كه جو كچھ هوتا هے الله سے هوتا هے اور الله كے غير سے الله كي مرضي كے بغير كچھ بهي نهيں هوتا ۔ مخلوق كے چاهنے سے كچھ نهيں هوتا بلكه جو الله كي مرضي هو وهي هر صورت هوكر رهتا هے ذرا غور كريں كه
حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام جنت ميں رهنا چاهتے تهے ليكن الله تعالى ان كو زمين پر بيجهنا چاهتے تهے ۔ آخر وهي هوا جو الله تعالى چاهتے تهے -
حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام  چاهتے تهے كه أن كا بيٹا مسلمان هوجائے ليكن چونكه الله تعالى كي مرضي يه نهيں تهي ۔ إس لئےالله نے جو چاها وهي هوا .
حضرت إبراهيم عَلَیْہِ السَّلَام كي خواهش تهي كه ان كے والد إيمان والے بن جائيں ۔ الله تعالى كي مشيت كچھ اور تهي اور پهر وهي هوا جو الله تعالى چاهتے تهے .
حضرت موسى عَلَیْہِ السَّلَام نے قبطي كو مُکہ مارا تها ليكن وه يه نهيں چاهتے تهے كه اس مُکہ سے قبطي مرجائے ۔ چونكه الله تعالى كي مشيت قبطي كي موت هي تهي إس لئے وهي هوا جو الله تعالى چاهتے تهے .
رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كي شديد خواهش تهي كه ان كے چچا ابوطالب مسلمان هوجائيں۔  ليكن الله تعالى يه نهيں چاهتے تهے سو وهي هوا جو الله تعالى چاهتے تهے۔ 
خلاصہ يه كه مخلوق جو مرضي چاهت ركهے وه پورى هونا ضروري نهيں اور الله تعالى جو چاهيں وه هر صورت ميں پورا هوگا ۔ إسي طرح يه جو تمام چيزوں ميں صلاحيت موجود هے وه بهي الله تعالى كے حكم اور چاهت سے هے ۔ الله تعالى جب چاهيں وه صلاحيت ان سے واپس لے ليں ۔ انهيں كوئى روكنے والا نهيں مثلاً : الله تعالى نے آگ كو پيدا فرمايا اور آگ كو جلانے كي صلاحيت عطا فرمائى  اور آگ اللہ تعالی کی دی ھوئی صلاحیت سے ھی جلانے پر قادر ھے ۔ اللہ تعالی جب  چاھیں آگ سے یہ صلاحیت واپس لے سکتے ھیں ۔ ھمارے سامنے حضرت ابراھیم عَلَیْہِ السَّلَام کی مثال موجود ھے کہ نمرود نے بهت بڑى آگ جلا كر حضرت إبراهيم  عَلَیْہِ السَّلَام  كو أس ميں ڈالا تھا ليكن الله تبارک تعالى نے أس وقت اس آگ سے جلانے كي خاصيت ختم فرما دی تھی اور گلزار هونے كى صلاحيت عطا فرمادي تھی ۔  إسي طرح چُھری كا كام كاٹ دينا هے اور یہ صلاحیت اسے اللہ پاک نے عطا فرمائی ھوئی ھے ليكن حضرت إبراهيم  عَلَیْہِ السَّلَام حضرت إسماعيل عَلَیْہِ السَّلَام كي گردن بر چُھری چلا رهے تھے لیکن چھری کاٹ نہیں رھی تھی  کیونکہ  الله تعالى نے اس وقت چُھری سے وه صلاحيت هي ختم فرمادي تھی اور چُھری حضرت إسماعيل عَلَیْہِ السَّلَام  كو ذرا بهي نقصان نه پہنچا سكي ۔ حضرت اسمائیل عَلَیْہِ السَّلَام کو خراش تک بھی نہ آئی تھی ۔ الغرض جتني بهي آشياء دنيا میں هيں اور  ان ميں جو صلاحيتيں موجود هيں وه اسي وقت كام آئيں گى جب الله تعالى چاهيں گے۔ 
آج كے دور ميں إيٹم بم كو إيك بهت هي تباه كن هتهيار مانا جاتا هے ليكن مسلمان كا يه يقين هونا ضرورى هے كه يه هتهيار بهي اسي وقت تباهي لا سكتا هے جب الله تعالى كي مشيت هو ۔ ورنه تمام دنيا ميں موجود تمام هتهيار بشمول إیٹم بمز بهي اگر چلا ديے جائيں اور الله تعالى كسي كو تباه نه كرنا چاهيں تو يه تمام هتهيار بشمول إیٹم بمز بهي كچهـ نهيں كرسكتے .
زمانه قديم سے حضرت إنسان جادو كے نقصانات سے خوفزده هے ۔ باوجود إس كے كه جادو إيك حقيقت هے ليكن يه جادو بهي كسي كو أس وقت تک نقصان نهيں پہنچا سكتا جب تك الله تعالى نه چاهيں۔  جيسا كه قرآن مجيد ميں بهت واضح الفاظ ميں إسكو بيان فرما ديا گيا 


وَمَا هُـمْ بِضَآرِّيْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّـٰهِ
 اور حالانکہ وہ اس سے کسی کو اللہ کے حکم کے سوا کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے،


اسی  طرح هر هر إنسان كے جسم ميں بهي الله تعالی كا حكم موجود هے جسے روح كهتے هيں ۔ جب تك يه روح (حكم ربي) إنسان ميں موجود رهتا هے يه إنسان حركت كرتا رهتا هے ۔ ليكن جب الله تعالى كا حكم یعنی روح کو  إنسان ميں سے نكال ليا جاتا هے تو باوجود تمام جسم كے موجود هونے كے يه ذرا بهي حركت كرنے پر قدرت نهيں ركهتا ۔ إسي طرح إنسان كے ھر ھر أعضاء ميں ھر وقت الله تعالى كا حكم رهتا هے ۔ الله تعالى جب تك چاهتے هيں انسان کے وه أعضاء صحيح كام كرتے رھتے هيں ۔  ليكن جب الله پاک نهيں چاهتے تو وه كام كرنے سے عاجز هو جاتے هيں ۔ مثلاً كسي كو فالج هوگيا اب بازو كام نهيں كررها يا ٹانگ يا جسم كا كوئى متاثره حصه کام کرنے سے قاصر ھے ۔ تو يه درآصل الله تعالى كا حكم جو اس عضو کے حركت كرنے كا تها وه ختم هوگيا ۔ إسي طرح يه جو هم سانس ليتے هيں يه بهي الله تعالى كے حكم سے هے الله تعالى جب چاهيں اپنے إس حكم كو نكال ليں - إسي طرح يه كائنات كا سارا نظام صرف اور صرف الله تعالى كي چاهت سے چل رها هے- آسمان - زمين - سورج - چاند - ستارے اور كائنات كا ذرا ذرا اپنے چلنے ميں الله تعالى كا محتاج هے۔ 
صحابه كرام رضوان الله عليهم نے اپنا يقين بهت مضبوط بنايا تها يهي وجه هے دنيا كي كوئى بهي چيز ان كے راسته كي ركاوٹ نه بن سكي اگر دريا سے راسته چاها تو راستہ مل گيا ۔ اگر جنگل سے خونخوار جانوروں كو نكالنا چاها تو صرف إيك إعلان كرنے سے جنگل خالى هوگيا ۔ الله تعالى كا غيبي نظام  صحابہ کرام  كے ساتھ تها كيونكه وه الله تعالى پر كامل يقين ركهتے تهے۔  آج كا مسلمان بهي اگر اپنے دل میں یہ يقين پیدا كرلے تو الله تعالى كي وعدے آج بهي وهي هيں۔  آج بهي الله تعالى كا غيبي نظام مسلمان كي مدد كرسكتا هے اس کے کئے شرط  وھی ھے کہ مسلمان الله كا بن كر رهے اور الله تعالى کی قدرتوں اور وعدوں اور وعيدوں پر يقين ركهنے والا بن جائے ۔
إيك هي بات بار بار دهرائی جاتی هے كه هم اپنے دلوں كا يقين درست كرليں ۔ مخلوق سے يقين هٹا كر الله تعالى پر مكمل يقين كرليں تو هم دنيا وآخرت ميں كامياب هوجائيں گے ۔ إس كے برعكس اگر يقيں غير الله پر ھی رها تو دنيا ميں بهي ذليل خوار هوں گے اور آخرت ميں بهي ناكامي كا سامنا كرنا پڑے گا ۔ 
بقول شاعر:
نه خدا هي ملا - نه راه صنم
نه إدهر كے رهے نه أدهر كے

آخرت كي منزلوں ميں پہلی منزل قبر هے ۔ قبر كے بارے ميں ارشادِ نبوي  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   هے كه قبر يا تو جنت كا إيك ٹكڑا هے يا جهنم كا إيك گڑها - يه بهي حقيقت هے جو قبر كے إمتحان ميں كامياب هوگيا وه إن شاء الله باقي منزلوں ميں بهي كامياب هوتا چلا جائے گا . قبر ميں منكر ونكير كے سوالات كا سامنا هر شخص كو كرنا هے ۔ منکر و نکیر كے سوالات ميں پہلا سوال إسي يقين كے بارے ميں هوگا۔ 
سوال: من ربك - تيرا رب كون هے؟ 
جواب: ربي الله - ميرا رب الله هے
تو جس شخص نے اپنے دل میں إيك الله كا يقين إس دنيا ميں جمايا هوگا تو وه فوراً جواب دے گا " ربي الله " يعني ميرا رب إيك الله هے ۔ جس شخص كا يقين الله كي بجائے دكان پر هوگا يا كاروبار پر هوگا يا ملازمت يا زمينداري پر هوگا يا سياست پر هوگا يا وزارت پر هوگا يا صدارت پر هوگا تو يه شخص "من ربك" كا جواب "ربي الله " دينے پر قادر نهيں هوگا ۔ وهاں پر تو صرف اسي بات كو هي قبول كيا جائے گا جس كا يقين وه لے كر آيا هے ۔ تو إس كلمه كا صحيح يقين لے كر إس دنيا سے جانا هميشه هميشه كي كاميابي كي دليل هے جيسا كه قرآن مجيد ميں الله تعالى كا فرمان هے

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ O
نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآَخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ *
نُزُلاً مِنْ غَفُورٍ رَحِيمٍ O
بیشک جن لوگوں نے یہ کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اسی پر جمے رہے ان پر ملائکہ یہ پیغام لے کر نازل ہوتے ہیں کہ ڈرو نہیں اور رنجیدہ بھی نہ ہو اور اس جنّت سے مسرور ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے
ہم دنيا كي زندگانی میں بھی تمہارے ساتھی تھے اور آخرت میں بھی تمہارے ساتھی ہیں یہاں جنّت میں تمہارے لئے وہ تمام چیزیں فراہم ہیں جن کے لئے تمہارا دل چاہتا ہے اور جنہیں تم طلب کرو گے
یہ بہت زیادہ بخشنے والے مہربان پروردگار کی طرف سے تمہاری ضیافت کا سامان ہے

ايك دوسرے مقام پر ارشاد خداوندي هے
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ 0
بیشک جن لوگوں نے یہ کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اسی پر جمے رہے تو انهيں (قيامت كے دن) نه كوئي خوف هوگا اور نه هي وه غمگين هوں گے

عالمِ برزخ  اور عالم آخرت میں کامیاب ھونے کے لئے ھمارے لئے یہ بہت ضروری ھے کہ ھم ایک اللہ کا یقین لے کر اس دنیا سے جائیں کہ
“ جو کچھ ھوتا ھے اللہ سے ھوتا ھے اور اللہ کے غیر سے اللہ کی مشیّت کے بغیر کچھ نہیں ھوتا “ 

Share: