بری موت کے اسباب اور اس سے بچاؤ


(دنیامیں سب سے قیمتی اثاثہ انسان کی عمر ہے۔اگر انسان نے اس کو آخرت کی بھلائی کےلیے استعمال کیا ،تویہ تجارت اس کے لیے نہایت ہی مفید ہے۔اور اگر اسے فسق وفجور میں ضائع کردیا اور اسی حال میں دنیا سے چلا گیا تو یہ بہت بڑا نقصان ہے وہ شخص دانش مند ہے جو اللہ تعالیٰ کے  حساب لینے سے پہلے پہلے اپنے آپ کا محاسبہ کرلے اور اپنے گناہوں سے ڈر جائے قبل اس کہ کے وہ گناہ ہی اسے ہلاک اور  تباہ وبرباد کردیں کیونکہ اعمال کادارومدارخاتمہ پر ہے اور انسان جس حالت میں زندگی بسر کرتا ہے اسی حالت میں اس کی موت واقع ہوتی ہے۔ اور جس حالت میں انسان کی موت واقع ہوگی اسی حالت میں وہ قیامت کے دن قبر سے اٹھایا جائے گا۔حضرت  رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"مَنْ مَاتَ عَلَى شَيْءٍ بَعَثَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ" (رواہ الحاکم)

"جس حالت میں آدمی فوت ہوگا،اسی پر اسے قیامت کے دن اٹھایا جائے گا"

ہم اللہ تعالیٰ سے اچھے خاتمہ کا سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمارے تمام کام سنوار دے اور ہمارے اعمال کی اصلاح فرمائے،بے شک وہ سننے والا ،قبول کرنے والا اور بہت قریب ہے(مولف)))

برے خاتمہ سے یہ مراد ہے ک اس کا خاتمہ ایسےاعمال   پر ہو جو اسے ہمیشہ کے لئے جہنم کا سزا وار بنادیں۔

جب اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو علم عطا فرمایا اور اس پر عمل کرنے کا حکم دیا توانہوں نے کہا:عنقریب کرلیں گے۔اور اس عنقریب نے ان کے اعمال کی عمریں کم کردی ہیں۔وہ متنبہ ہوکردن رات جاگتے  رہے اور اپنے بڑے بڑے بھیانک ارادوں کو عملی صورت دے دی،جب انہوں نے جی بھر کے گناہ کرلیے اور کوئی کسر نہ چھوڑی تو ان کے انجام سے ڈرنے لگے۔

اور یہ بات حدیث میں  رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم   سے ثابت ہے کہ(لوگوں کے) دل اللہ  تعالیٰ کی انگلیوں کے درمیان ہیں۔اللہ  تعالیٰ جیسے چاہتاہے انہیں پھیر دیتاہے اور ہم نے کتنے لوگوں کے متعلق سنا کہ وہ ایمان لانے کے کے بعد مرتدہوگئے اور کتنے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ استقامت اختیار کرنے کے بعد منحرف ہوگئے۔اسی لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم   یہ دعا کثرت سے پڑھتے تھے: 

"يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ"

"اے دلوں کو پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنے دین پرثابت رکھ"

رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم   کے زمانے میں بعض لوگ ایمان لانے کے بعدمرتد ہوگئے اور نوراسلام سے نکل کر کفر کےگھٹا ٹوپ اندھیروں میں چلے گئے۔ان مرتد ہونے والوں میں سے عبیداللہ بن جحش بھی تھا۔اس نے حبشہ کی طرف ہجرت بھی کی تھی اور پھر وہ اسلام سے مرتد ہوکر عیسائیت میں داخل ہوگیا۔حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم   کی وفات کے بعد کتنے لوگ فتنہ ارتداد کا شکار ہوگئے جن کے خلاف حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے جہاد کیا۔اسی طرح عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے زمانہ خلافت میں کئی لوگ دائرہ اسلام سے نکل کر کفر میں داخل ہوگئے۔ان  میں ایک ربیعہ بن اُمیہ بن خلف بھی تھا جو صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے ساتھ ایک لشکر میں شامل تھا اور شراب پیتا تھا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اس پر شراب کی حد نافذ کرکے خیبر کی طرف اسے جلا وطن کردیا تو وہ ہرقل شاہ روم کے پاس چلاگیا اورجا کر عیسائیت میں داخل ہوگیا۔نعوذ باللہ من ذلک(الاصابہ) ۔۔۔امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

"جب ہدایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ،استقامت کادارومدار اس کی مرضی پر ہے اور انجام کا کسی کو علم نہیں ہے اور انسان کا ارادہ مغلوب ہے تو اپنے ایمان ،نماز،روزے اور دیگر عبادات پر فخر مت کرو،اگرچہ یہ تمہارا عمل ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہی تم یہ کام کرنے پر قادر ہوئے اور جب تم اس پر فخر کروگے تو یہ ایسے ہے جیسے تم غیر کے مال پر فخر کرو کیونکہ وہ کسی وقت بھی تم سے چھینا جاسکتاہے اور تمہارا دل بھلائی سے خالی ہوجائےگا۔جیسے اونٹ کا  پیٹ خالی ہوجاتاہے کیونکہ کتنے ہی ایسے باغ ہیں کہ شام کو ان کے پھل وپھول  تروتازہ ہوتے ہیں لیکن رات کو ان پر سخت آندھی چلتی ہے تو صبح کو وہی پھل و پھول مرجھا جاتے ہیں۔انسان کا دل شام کو اللہ کی اطاعت سے منور اور صحیح سالم ہوتاہے لیکن صبح ہوتی ہے تو اس کے دل پر اندھیرا چھاجاتا ہے اور وہ بیمار ہوجاتاہے کیونکہ یہ اللہ عزیز وحکیم کا کام ہے۔اس لئے اللہ والے اس بات سے ڈرتے تھے کہ کہیں ہمارا انجام برانہ ہوجائے۔جواللہ سےدھوکہ کرنا چاہتاہے اللہ بھی اس کے مکروفریب کا جواب دیتے ہیں۔"

حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ:

"اللہ والوں کا خوف کرنا برحق ہے۔وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں اللہ تعالیٰ انہیں گناہوں کے بدلے رسوانہ کرے اور وہ بدبخت نہ ہوجائیں وہ اپنے گناہوں سے ڈرتے بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید بھی رکھتے ہیں۔اللہ  تعالیٰ فرماتے ہیں:

" أَفَأَمِنُواْ مَكْرَ اللّهِ  "(الاعراف:99)

"کیا وہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر سے بےخوف ہوچکے ہیں"

یہ آیت فاسقوں اور کافروں کے بارے میں ہے اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کا بندہ اپنے اللہ کی نافرمانی بھی نہیں کرتا اور اس کی پکڑ سے بے خوف بھی نہیں ہوتا۔کیونکہ ممکن ہے کہ اسے گناہوں کی سزابعد میں دی جائے اور اس میں دھوکہ پیدا ہوچکا ہو۔ان کے دل گناہوں سے مانوس ہوجاتے ہیں ۔اور ان پر اچانک عذاب آجاتے ہیں۔دوسری بات یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کےذکر سے غافل ہوجائیں اور اسے بھول جائیں تو اللہ تعالیٰ بھی انہیں اپنے ذکر سے غافل کردے۔ان کی طرف آزمائشیں جلدی آتی ہیں اور ان کا انجام یہ ہوتاہے کہ وہ اس کی رحمت سے دور ہوجاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ سب کے گناہوں کو جانتاہے جو یہ نہیں جانتے انہیں اللہ تعالیٰ کی تدبیریں گھیرلیتی ہیں اور انہیں پتہ بھی نہیں چلتا۔اور یہ بات بھی ہے کہ اللہ تعالی ان کو آزمائشوں اور امتحان میں ڈال دیتا ہے اور وہ صبر نہیں کرسکتے جو خود آزمائش کی ایک صورت ہوتی ہے۔"

اسلاف کرام کا برے خاتمہ سے ڈرنا:۔

حافظ ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ اسلاف پر برےخاتمہ(انجام موت) کا خوف طاری رہتاتھا۔ان میں ایسے بھی تھے جو اپنے اعمال پر قلق محسوس کرتے تھے اور کہاجاتاہے کہ نیکوکاروں کے دل خاتمہ کے بارے میں ہر وقت فکرمند رہتے ہیں کہ ہم نےآگے کما کر کیا بھیجا ہے؟

سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں کہ انہوں ن بعض سلف صالحین سے پوچھا کہ کیا آپ کو اس بات نے کبھی رُلایاہے کہ اللہ تعالیٰ کا آپ کے متعلق فیصلہ کیا ہے۔تو انہوں نے جواب دیا  کہ اللہ  تعالیٰ نے جو مجھے مہلت دی ہے،میں اس پر کبھی مطمئن نہیں رہتا۔امام سفیان بھی اپنے اعمال اور خاتمہ کی وجہ سے قلق محسوس کیا کرتے تھے  اور رو کر کہتے تھے کہ"کاش!میں اُم الکتاب میں بدبخت نہ لکھا جاؤں،میں ڈرتا ہوں کہ موت کے وقت میرا ایمان کہیں مجھ سے چھین نہ لیاجائے۔"

مالک بن دینار رات کو بہت طویل قیام کرتے اور اپنی داڑھی پکڑ کرکہتے کہ:

"اے اللہ! تو جانتا ہے کہ جنت میں کون ہے اور جہنم میں کون ہے ،اے اللہ! میری جگہ تو نے کہاں بنائی ہے :جنت میں یاجہنم میں!"

موت کے وقت سلف کے چند اقوال:۔

اب ہم آپ کے سامنے نصیحت اور عبرت کےلئے سلف صالحین کے چند واقعات بیان  کرتے ہیں کہ وہ قرب مرگ کیاکہتے تھے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جب فوت ہونے کے قریب ہوئےتو رونے لگے۔جب آپ سے رونے کیوجہ دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ"میں اس لئے رورہا ہوں کہ سفر بہت لمباہے اور زادراہ بہت تھوڑا ہے۔اور یقین کمزورہے اوراترنے کی گھاٹی بہت مشکل ہے یاتو جنت کی طرف اور یا پھر جہنم کی طرف!"

حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جب فوت ہونے کے قریب ہوئے تو فرمانے لگے کہ:

"مجھے اٹھا کر بٹھا دو چنانچہ آپ کو بٹھا دیاگیا تو آپ اللہ کا ذکر اور تسبیح وتقدیس کرنے لگے اور اپنے آپ کو مخاطب کرکے فرمانے لگے کہ اے معاویہ!تو اپنے آپ کو گرتا ہوادیکھ کر اب اپنے رب کا ذکر کرنے لگا۔جب جوانی کی ٹہنیاں تروتازہ تھیں،اس وقت تونے کیوں نہ سوچا اور پھر  رونے لگے حتیٰ کہ رونے کی آواز بلند ہونے لگی اورپھر  فرمانے لگے:

"هو الموت لا منجى من الموت والذي, اُحاذر بعد الموت أدهى وأفظع"

"موت  سے کسی کو نجات نہیں جس موت سے میں ڈرتا ہوں وہ نہایت سخت اور ہولناک ہے"

پھر کہنے لگے:اے اللہ! سیاہ کار اور سخت دل بوڑھے پر رحم وکرم فرما،اے اللہ! زادراہ تھوڑا ہے میری خطاؤں کو معاف  فرما اور اسے بخش دے جس کا تیرے سواکوئی سہارا اور جائے پناہ نہیں"

حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ک متعلق مروی ہے کہ جب وہ فوت ہونے کے قریب ہوئے تو اپنے محافظوں اور خادموں کو اپنے قریب بلا کر فرمانے لگے کہ کیا تم اللہ سے میرے متعلق کچھ کفایت کرسکتے ہو؟انہوں نے کہا:ہرگز نہیں،تو فرمانے لگے:تم یہاں سے چلے جاؤ اور مجھ سے دور ہوجاؤ پھر انہوں نے پانی منگوا کر وضو کیا اور کہنے لگے کہ مجھےمسجد کی طرف لے چلو۔آپ کومسجد میں لایا گیا تو آپ فرمانے لگے:


"اے اللہ! تو نے مجھے حکم دیا اور میں تیری نافرمانیاں کرتارہا تو نے مجھے امانت سونپی اور میں خیانت کرتا رہا،تو نے میرے لئے حدود متعین کیں اور میں انہیں توڑتارہا۔اے اللہ! میرے پاس کوئی عذر نہیں ہے جسے میں آج تیرے سامنے پیش کرسکوں اور نہ کوئی طاقتور میری مدد کرسکتاہے ۔بلکہ میں تو گناہگار ہوں اور میری بخشش کاطلب گار ہوں اورمجھے اپنے گناہوں پر اصرار بھی نہیں اورنہ ہی میں تکبر کرنے والا ہوں۔"


(اغتنام الأوقات في الباقيات الصالحات ،ص 144 از شیخ عبدالعزیز سلمان)


جب سلیمان  تمیمی فوت ہونے کے قریب ہوئے تو ان سے کہا گیا کہ آپ کو مبارک ہو،آپ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے تھے ،وہ فرمانے لگے:تم مجھےایسے نہ کہو،کیونکہ میں نہیں جانتا کہ میرے لیے وہاں کیا ظاہر ہوگا۔اللہ فرماتے ہیں:


وَبَدَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مَا لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ  (الزمر:47)


"اور ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ کچھ ظاہر ہوگا،جس کا انہیں وہم وگمان بھی نہیں تھا"


بعض اہل علم یوں کہہ کر فکر مندی کا اظہار کرتے کہ"وہ نیکیاں سمجھ کر اعمال کرتے رہے لیکن در اصل وہ برائیاں تھیں جو میدان حشر  میں ان کے سامنے ظاہر کردی جائیں  گی"


عامر بن قیس بھی فوت ہونے کے وقت رونے لگے جب ان سے رونے کی وجہ دریافت کی گئی توانہوں نے فرمایا:میں اللہ کے اس فرمان کی وجہ سے رورہا ہوں:


"إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِين"(المائدۃ:27)


"بے شک اللہ تعالیٰ تو متقین کے اعمال قبول کرتاہے"


بعض کایہ عمل تھا کہ وہ اپنے آپ کو ڈانٹتے اور نصیحت کرتے کہ اےنفیس!وقت گزرنے سے پہلے جلدی کرلے اور زندگی کے دن اور راتوں کی پہرہ داری کر(یعنی دن اور رات اللہ کی عبادت کرتارہ!)


جب سلف صالحین کایہ حال ہے تو ہمیں ان سے زیادہ ڈرنا چاہیے۔ہمارے دل سخت ہیں اور ہم اپنی لاعلمی کی وجہ سے بے پرواہ ہیں۔اس لئے بھی کہ صاف دل معمولی مخالفت سے بھی ڈرتے ہیں جبکہ سخت دلوں پر وعظ ونصیحت بھی اثر نہیں کرتے۔ہم اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے دل،رونے والی آنکھ اور ذکر کرنے والی زبان کاسوال کرتے ہیں،بے شک وہی یہ چیزیں عطا فرمانے پر قدرت رکھتاہے!


بُرے خاتمہ کے اسباب:۔


اللہ ہمیں برے انجام سےبچائے۔یاد رہے کہ برا خاتمہ ایسے شخص کے لئے نہیں ہے جو اپنے ظاہر کو درست کرتا اوراپنے باطن کی اصلاح کرتاہے۔برائی کے ساتھ اس کا ذکر سناگیا اور نہ جانا  گیا ہے،تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔براانجام تو ایسے شخص کے لیے ہے جس کے دل ودماغ میں فتور ہے اوروہ کبائر پر اصرارکرنے والا اوراللہ کی حدودکو پامال کرنے والا ہے۔بسا اوقات اس پر اس چیز  کا غلبہ اس قدر ہوجاتا ہے کہ اسےتوبہ سے پہلے ہی موت آجاتی ہے۔شیطان اسے صدمہ کے وقت گمراہ کردیتا اوردہشت کے وقت اسے اچک لیتاہے یاوہ در ست ہوجاتاہے  یعنی استقامت اختیا کرتاہے یا پھراپنی حالت بدل کر کسی ایسے طریقے یا راستے پر چل پڑتا ہے جواس کےبرُے خاتمہ اور عاقبت کی بردباری کاسبب بن جاتاہے۔۔بُرے خاتمہ کے دو درجے ہیں:


اول:یہ کہ فوت ہوتے وقت دل پر شکوک وشبہات اورانکار کا غلبہ ہو اوریہ معاملہ بڑاخطرناک ہے جوہمیشہ ہمیشہ کےلئے پکا جہنمی بناسکتاہے۔


دوم:یہ کہ انسان اعلیٰ اقدار کو پامال کرےیا احکام الٰہی پر اعتراض کرے یا وصیت میں ظلم وزیادتی کرے یا گناہوں پر اصرار کرتے ہوئے فوت ہوجائے،یہ پہلے معاملے سے قدرے مختلف ہے۔


بُرے خاتمہ کے تمام اسباب کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنا تو ممکن نہیں ہے لیکن ہم ان تمام اسباب کی طرف اختصار کے ساتھ صرف اشارہ کردیتے ہیں:


1۔بدعات میں پڑنے کی وجہ سے شکوک اور انکار کاشکار ہوجانا:۔


اس کامطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات اور اسماء وافعال میں دیکھا دیکھی یا غلط رائے کی بنیاد پر باطل عقیدہ رکھا جائے۔اورجب موت کا وقت قریب آئے تو آنکھیں کھلیں کہ میں جس نظریے اورعقیدے کو اپنائے پھرتا رہا،وہ تو باطل اور بے بنیاد عقیدہ تھا۔ بے شمار لوگ اس حال میں مر گئے کہ انہوں نے اللہ کے دین میں بدعات کو جاری وساری کیاتھا اور صراط مستقیم سے کج روی اور انحراف کرتے رہے اوراللہ تعالیٰ سے پہلی ملاقات میں ان پر حقیقت حال واضح ہوگئی۔


اب فارض عمر بن علی حموی(متوفی 632ھ) نامی شخص اللہ تعالیٰ کے متعلق اتحاد اور طویل کا فاسد عقیدہ رکھتاتھا اورکہتاتھا کہ بندہ رب ہے اور رب بندہ ہے۔جبکہ جن با اعتماد لوگوں نے اس کی موت کا وقت دیکھا ہے ،بتاتے ہیں کہ جان کنی کے عالم میں اپنی بدبختی اور ہلاکت کاماتم اس نے ان اشعار کے ذریعے کیا:(ابن فارض فی سیر اعلام النبلاء وفیات الاعیان)


إنْ كانَ منزلتي في الحبِّ عندكمْ,


ما قد رأيتُ، فقد ضَيّعْتُ أيّامي.


أمنيَّة ٌ ظفرتْ روحي بها زمناً,


واليومَ أحسَبُها أضغاثَ أحْلامِ.


"اگر تمہارے ہاں میری محبت ومودت کا یہی صلہ ہے جو مجھے مل رہاہے تو میں نے اپنے دن ضائع کردیئے ۔ایک عرصہ تک میرا نفس میری آرزو پر کامیاب اور فتح یاب رہا اورآج میں اس کامیابی کوپریشان کن خواب سمجھتا ہوں۔"


یہ بات اس نے اس وقت کہی جب اس پراللہ کاغضب نازل ہوچکا تھا اور اس کی کرتوتوں کی حقیقت کھل کر سامنے آچکی تھی۔بہت کم ایسا ہوا کہ بدعتی کاخاتمہ ایمان کی حالت میں ہو۔


2۔توبہ کرنے میں کوتاہی اورغفلت کرنا:؛


ہرمکلف انسان پر ہر لمحہ اپنے گناہوں سےتوبہ کرنا ضروری ہے۔اللہ فرماتے ہیں:


وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.(النور:31)


"اے مومنو!تم سب اللہ کی طرف  توبہ کرو،تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ"


اور  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   جن کے تمام اگلے پچھلے گناہ اللہ نے معاف  فرمادیئے تھے،فرماتے ہیں:


قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ تُوبُوا إِلَى اللَّهِ فَإِنِّي أَتُوبُ فِي الْيَوْمِ إِلَيْهِ مِائَةَ مَرَّةٍ .(رواہ مسلم)


"اے لوگو! اللہ کی طرف توبہ کرو میں روزانہ سو مرتبہ اللہ کے سامنے توبہ کرتا ہوں"


شیطان کے ہتھیاروں میں سے ایک بہت بڑاہتھیار جس کے ساتھ وہ  لوگوں پر حملہ آور ہوتاہے یہ ہے کہ وہ خیال دل میں ڈالتاہے کہ کوئی بات نہیں،گناہ کرلو پھر توبہ کرلینا،ابھی بڑی لمبی عمر باقی ہے۔اس طرح وہ نافرمان لوگوں کے دلوں میں توبہ سے غفلت ڈال دیتا ہے اورکہتاہے کہ اگر تو نے اب توبہ کرلی اور  پھر کوئی گناہ کا ارتکاب کیا تو تیری توبہ ہرگز قبول نہ ہوگی اور تو جہنمی بن جائےگا۔دل  میں مزیدوسوسہ ڈال دے گا کہ جب تیری عمر پچاس یا ساٹھ سال ہوجائےگی تو پھر توبہ کرکے مسجد میں بیٹھ جانا اور کثرت سے عبادت کرنا ۔ابھی توجوانی کی عمر ہے اوراسی عمر میں دنیا کی رنگینیاں اور بہاریں دیکھی جاتی ہیں۔اپنے نفس کو خوب من مانی کرنے دے اور عبادت  وریاضت  کرکے ابھی سے اس پر سختی نہ کر۔انسان کو توبہ سے محروم رکھنے کے لئے اس طرح کے کئی اور بھی شیطانی مکروفریب ہوتے ہیں۔اسی لئے سلف صالحین میں سے کسی نے کہا کہ:


"میں تمھیں شیطان کے بہت بڑے لشکر سے ڈراتا ہوں۔عقلمند مومن وہ ہے جو ہر وقت اپنے گناہوں سے اللہ کے سامنے توبہ کرتا ہے اور بُرے خاتمے سے ڈرتا رہتاہے اور اللہ سے اس کی محبت کا سوال کرتا ہے اور ظالم شخص تو وہ ہے جوتوبہ کوموخر کرتا رہتاہے اس کی مثال اسی قافلہ سی ہے جس نے دوران سفر ایک وادی میں قیام کیا اور ان میں سے ایک سمجھدار آدمی بازار گیا اور جاکر ضروریات سفر خریدلایا اور قافلے کے چلنے کا انتظار کرنے لگا۔جبکہ اپنے آپ کو بڑا چالاک سمجھنے والا آرام سے بیٹھا رہتاہے۔کہ کوئی بات نہیں ،ابھی تیاری کرلوں گا۔یہاں تک کہ میر کارواں چلنے کاحکم دے دیتاہے اور اس کے پاس زاد  راہ بھی نہیں ہوتا۔یہ دنیا میں لوگوں کے لئے مثال ہے۔سچے مومن کو جب موت آتی ہے تو وہ پشیمان نہیں ہوتا جبکہ نافرمان(توبہ میں تاخیر کرنے والا) کہتاہے کہ اے میرے رب!مجھے اب  دنیا میں بھیج دے،میں جاکر نیک اعمال کروں گا"


3۔لمبی امیدیں:


اکثر لوگوں کی بد بختی کا سبب یہ ہو تا ہے کہ وہ شیطان کے فریب میں آجاتے ہیں اور وہ انہیں یہ یقین دلاتا رہتا ہے کہ ان کی عمربڑی لمبی ہے بہت سال آنے والے ہیں ۔انسان ان میں لمبی امیدیں بنا لیتا ہے اور آنے والے سالوں میں اپنی ہمت لڑاتا ہے۔ جب کبھی اسے موت نظر آتی ہے تو اس کی پرواہ نہیں کرتا ۔کیونکہ اس کے خیال میں موت اس کی آرزؤں کو گدلا دیتی ہے ۔


حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  لمبی امیدوں اور خواہشات نفس کی پیروی سے بڑا ڈراکرتے تھے اور فرمایا کرتے کہ لمبی امیدیں آخرت کو بھلادیتی ہیں ۔اور خواہشات نفس کی پیروی حق کی اتباع سے روک دیتی ہے ۔یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ خبردار دنیا پیچھے کی جانب پھرنے والی ہے اور آخرت جلدی سے آنے والی ہے اور دونوں میں سے ہر ایک کے بیٹے ہیں تمہیں چاہیے کہ تم آخرت کے بیٹے بنو دنیا کے بیٹے نہ بنو۔"آج حساب و کتاب نہیں بلکہ عمل کرنے کا موقع ہے اورکل روز قیامت حساب وکتاب ہو گا اور عمل کی مہلت نہیں ملے گی۔ اور جب انسان دنیا سے محبت کرنے لگے اور اسے آخرت پر ترجیح دینے لگے تو وہ اس دنیا کی زیب و زینت عیش  وعشرت  اور لذتوں میں پڑکر آخرت میں اپنا گھر ایسے لوگوں کے ساتھ جوار رحمت میں بنانے سے محروم رہتا ہے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء صدیقین شہداءاور صالحین کے ساتھ ۔اعمال صالحہ میں سبقت اختیار کرنا جھوٹی امید سے متاثر نہ ہونے کی علامت ہے کیونکہ ایسے شخص کو گنتی کے چند سانس زندگی کے چند دن اور عمر کے اوقات کو غنیمت سمجھنا آسان ہوتا ہے۔۔۔اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ جو وقت گزرجائے وہ پھر لوٹ کر نہیں آتا!!


حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   نے میرے کندھے سے پکڑ کر فرمایا :"دنیا میں ایسے راہوجیسے تم پر دیسی یا مسافرہو۔"اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے تھے کہ جب تو شام کرے تو صبح کا انتظار نہ کر اور جب صبح کرے تو شام کا انتظار نہ کر۔اور بیماری سے پہلے صحت کو اور موت سے پہلے زندگی کو غنیمت سمجھ"


نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   نے مؤمنوں کی ایسی چیزوں کی طرف رہنمائی فرمائی ہے جو انہیں لمبی امیدوں سے بچا کر فانی دنیا کی حقیقت سمجھانے والی ہیں ۔چنانچہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے حکم دیا ہے کہ۔


"موت کو یاد کرو قبروں کی زیارت کرو اور فوت ہونے والوں کی تجہیز وتکفین کر کے ان کا جنازہ پڑھو ۔بیماروں کی تیمارداری کرو نیک لوگوں  کی ملاقات و زیارت کرو"


دراصل یہ چیزیں مردہ دلوں کو بیدار کرنے والی ہیں موت کے بعد اپنے ساتھ پیش آنے ولا منظر دکھانے والی اور اعمال صالحہ پر آمادہ کرنے والی ہیں۔


4۔برائی سے محبت کرنا اور اسے عادت بنالینا:۔


جب انسان برائیوں میں مبتلا ہوجاتا ہے اور توبہ نہیں کرتا تو شیطان اس کی سوچ پر حادی ہوجاتا ہے حتی کہ جب وہ آدمی قریب المرگ ہوتا ہے تو اس کے عزیز و اقارب اسے کلمہ پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں تاکہ دنیا سے جاتے وقت اسے کلمہ پڑھنا نصیب ہوجائے لیکن اس کی برائیاں اس پر غلبہ پالیتی ہیں اور وہ ایسے کام کرتا ہے جو اس کے برے خاتمہ کا سبب بن جاتے ہیں کیا نماز کو ترک کرنے والے اس بات سے نہیں ڈرتے کہ وہ نماز کو ضائع کر رہے ہیں اور انہیں نصیحت بھی کی جاتی ہے لیکن وہ نصیحت قبول نہیں کرتے ۔کیا نہیں اپنے برے انجام سے ڈر نہیں آتا۔سودی کاروبار کرنے والے جو اپنے اس حرام فعل سے توبہ نھی نہیں کرتے کیا نہیں ڈرنہیں آتا کہ اس جرم عظیم اور گناہ کبیرہ کی حالت میں انہیں موت آجائے ۔اور جب بندہ سچی توبہ کر لیتا ہے تو اس کے لیے اللہ کی طرف سے خیرو برکت لوٹ آتی ہے اسی لئے بعض اہل علم نے کہا ہے کہ:


"عاصی کا عجز وانکسار ،نیک آدمی کے اپنے اچھے اعمال پر فخر کرنے سے زیادہ اچھا ہے"جو عمل تجھے  عاجزی کی دولت عطا کرے وہ ایسی نیکی سے بہتر ہے  جو تیرے اندر تکبر پیدا کردے "


اللہ کے نیک بندے ابان بن ابی عیاش کے متعلق مروی ہے کہ انھوں نے کہا کہ:"ایک دفعہ میں قیام بصرہ کے دوران حضرت انس بن مالک رحمۃ اللہ علیہ  سے ملاقات کے لیے نکلا میں نے دیکھا کہ ایک جنازے کوصرف چار آدمی اٹھا کر لا رہے تھے میں نے بطور تعجب کہا سبحان اللہ !ایک مسلمان فوت ہوگیا ہے بصرہ شہر سے اس کا جنازہ گزررہا ہے اور جنازے کے ساتھ ان چار آدمیوں کے سوا کوئی بھی نہیں ابان بن ابی عیاش کہتے ہیں کہ میں ان کے ساتھ مل گیا اور جنازہ کو اٹھایا پھر جب اس آدمی کو قبر میں دفن کر دیا گیا تو میں نے ان چار آدمیوں سے کہا: کیا وجہ ہے؟ انھوں نے کہا کہ ہمیں ایک عورت نے اسے دفن کرنے کے لیے کہا تھا وہ کہتے ہیں کہ میں اس عورت کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ اے اللہ کی بندی !تیرااس فوت ہونے والے بندے سے کیا رشتہ تھا ۔وہ کہنے لگی کہ وہ میرا بیٹا تھا اور بعض اوقات وہ اپنے آپ پر زیادتی کرنے والا تھا اس نے مجھے کہا تھا کہ امی جان !جب میں فوت ہونے لگوں تو مجھے کلمہ شہادت پڑھنے کی تلقین کرنا تیرےتلقین کرتے کرتے میں اپنی زندگی پوری کر جاؤں گا تو اپنے قدم میرے گالوں پر رکھ دینا اور ساتھ یہ کہنا کہ یہ بدلہ ہے ایسے شخص کا جس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ میرے فوت ہونے کی کسی کو اطلاع نہ دینا کیونکہ لوگ میری کرتوتوں کو جانتے ہیں وہ ہر گز میرا جنازہ نہیں پڑھیں گے۔پھر جب تو مجھے دفن کردے تو اپنے ہاتھوں کو اللہ کی بارگاہ میں اٹھا کر یہ کہنا کہ :


"اے اللہ !میں اپنے بیٹے سے راضی ہوتو بھی اس سے راضی ہو جا!"


جب ابان بن ابی عیاش اس عورت سے سوال کررہے تھے تو وہ مسکرارہی تھی ابان نے اس سے کہا: کہ اللہ کی بندی !مسکرانے کی کیا وجہ ہے؟وہ عورت کہنے لگی ۔جب میں نے اپنے بیٹےکے دفن ہونے کے بعد اللہ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھا کر کہا کہ" یاللہ !میں اپنے بیٹے سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا جو اس نے مجھے وصیت کی تھی میں نے پوری کر دی " تب میں نے اپنے بیٹے کی آواز سنی کہ وہ مجھے کہہ رہا تھا کہ " میں اپنے رب کریم کے پاس پیش ہوا ہوں ۔میرا رب نہ مجھ پر ناراض ہوا ہے اور نہ غضبناک ۔۔۔اگر آدمی کے نفس میں عاجزی وانکساری موجود ہوتو وہ فوت ہوتے ہوتے وقت ظاہر ہوجاتی ہے اور اگر معاملہ اسکے برعکس ہوتوہم اللہ سے اس کی پناہ مانگتے ہیں"(میزان الاعتدال للذہبی وتہذیب التہذیب لابن حجر ،ترجمہ ابان بن ابی  عیاش)


5۔خود کشی:۔


مسلمان کو جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے اور وہ اپنے اللہ سے اجروثواب کی اُمید رکھتے ہوئے صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اجروثواب سے نوازتے ہیں اور اگر وہ جزع فزع کرے اور زندگی سے تنگ آجائے اور بیماریوں،مصائب وآلام سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئےخود کشی کی راہ اختیار کرے تو ایسے آدمی نے یقیناً اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور اللہ کےغضب کو پکارا اوربلاوجہ اپنے آپ کو قتل کردیا۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہےکہ حضرت  رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا کہ:


"جو کوئی اپنے آپ کو پھانسی دے  گا،اسےجہنم میں پھانسی دی جائے گی اورجو اپنے آپ کو نیزہ  مارکرختم کرے گا،اسے جہنم میں نیزے مارے جائیں گے"


سہل بن سعد  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ ایک دفعہ کفار کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   سے مڈ بھیڑ ہوگئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   اپنے لشکر سے جاملے،کفار بھی اپنا لشکر لے آئے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کے ساتھیوں میں ایک آدمی تھا جوبڑی دلیری سے ہرمسلح ،غیرمسلح کاپیچھاکرتا اور اپنی تلوار سے اس پر حملہ آور ہوجاتا ۔بعض لوگوں نے کہا کہ ہم میں سے کوئی بھی اس دلیر آدمی کے اجر کو نہیں پہنچ سکتا۔رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا کہ:"وہ جہنمی ہے۔"وہیں ایک آدمی نے اس کے بارے میں بتایاکہ"میں اس کے ساتھ نکلا۔جہاں وہ ٹھہرتا،میں بھی ٹھر جاتا جب وہ چلتا تو میں بھی اسکے ساتھ چل پڑتا۔حتیٰ کہ وہ آدمی شدید زخمی ہوگیا اور اپنی تکلیف پر صبر نہ کرسکا۔اس نے اپنی تلوار زمین میں گاڑدی اور اس کی نوک پر اپنا  پیٹ رکھ کر جھول گیا اور خود کشی کرلی۔یہ سب کچھ دیکھنے والا وہ شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کے پاس آیا اور آکرکہنے لگا کہ میں گواہی دیتاہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نےفرمایا:کس وجہ سے تو گواہی دیتاہے تو اس نے کہا کہ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم   جس آدمی کے متعلق کہہ رہے تھے کہ وہ جہنمی ہے تو لوگوں کو یہ بات سمجھ نہ  آئی۔میں نے انہیں کہا کہ چلو میں تمہارے ساتھ اس کے پاس چلتا ہوں پھر لوگوں کو پوری بات سنائی۔اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایاکہ 


"ایک آدمی لوگوں کی نظروں میں جنتیوں والے اعمال کرتا ہے اور وہ جہنمیوں میں ہوتا ہے اور ایک آدمی لوگوں کی نظروں میں جہنمیوں والے اعمال کرتاہے جبکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔(متفق علیہ)


6۔منافقت /نفاق:۔


ظاہر باطن سے مختلف ہو اور قول وفعل میں تضاد ہو۔جس انسان میں دو رخا پن یا اس کے ظاہر وباطن میں اختلاف پایا جائے وہ منافق ہوتاہے۔ جو انسان ریا کار اور دھوکے باز ہو وہ بھی منافق ہے۔عنقریب مرگ کے بعد اسے بھی رب کے سامنے کھڑا ہونا ہے اور موت کی سختی کی وجہ سے اس پر موت کی ہچکیاں طاری ہوں گی۔دنیا میں آنے کے بعد سے انسان پر سب سےبڑی تکلیف کا وقت یہی ہوگا۔سلف میں سے کسی نے کہا کہ:


"جب انسان کا ظاہر وباطن ایک جیسا برابر ہوتو یہ انصاف اور عدل ہے اور جب باطن ظاہر سے بہتر ہوتویہ بہت بڑی فضیلت ہے۔اور جب ظاہر باطن سے مختلف ہوتو یہ بہت بڑا ظلم ہے۔"


صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور سلف صالحین اپنے آپ کے نفاق میں مبتلا ہوجانے سے بہت ڈرتے تھے اور اس سے ان کی تکلیف اورپریشانی شدت اختیار کرجاتی تھی۔ایک دفعہ عمر فاروق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فتنوں اور منافقین کے متعلق رازدان رسول حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے  سوال کیا کہ"کیانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے میرا منافقین میں تو نہیں شامل کیا۔"حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا کہ"نہیں لیکن میں آپ کے بعد کسی کی تصدیق نہیں کروں گا"


مسند بزار میں بسند صحیح مروی ہے کہ حضرت عبدالرحمان بن عوف  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ،ام المومنین حضرت ام سلمہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے پاس  گئے اور کہنے لگے کہ"میں قریش میں زیادہ مال ودولت والا ہوں اور مجھے ڈر محسوس ہوتا ہے کہ کہیں میرا یہ مال مجھے ہلاک ہی نہ کردے۔"حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے فرمایا کہ تم صدقہ وخیرات کرو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   سے سنا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا کہ"بے شک میرے بعض صحابی ایسے بھی ہیں جو مجھ سے اس جدائی کے بعد دوبارہ نہیں ملیں گے"حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وہاں سے نکلے اور ان کا دل خوف سے پارہ پارہ ہورہا تھا کہ ان کی ملاقات حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوئی ہے۔توانہوں نے عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو اس کےبارے میں بتایا۔وہ بھی گھبراگئے اورام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے پاس جاکرعرض کرنے لگے کہ میں اللہ کے واسطے تم سے پوچھتا ہوں،کیا میں ان میں سے تو نہیں؟۔ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے جواب دیاکہ:


"آپ ان میں شامل نہیں ہیں اور آپ کے بعد میں کسی کی براءت نہیں کرتی"


مسلمان بھائیو! یہ برے خاتمہ کے چند موٹے موٹے اسباب ہیں اور میں اپنے آپ کو اورآ پ سب کو اس بارے  میں توجہ دلاتا ہوں۔ کہ یہ اسباب کہیں ہم میں نہ ہوں۔ہر ایک کو اس چیز کی تیاری کرنی چاہیے جو اس کے لئے بہتر ہے اور "عنقریب کروں گا" کہنے سے بچنے کی ضرورت ہے عمر تھوڑی ہے ،تیرا ہر سانس تجھے تیرے خاتمہ کی طرف بلارہا ہے ممکن ہے کہ تیری روح اسی حالت میں قبض کرلی جائے کہ تجھے اپنی زندگی سنوارنے کاموقع نہ ملے۔یاد  رہے کہ جس حالت میں انسان مرے گا اسی پر اٹھایاجائے گا اور انجام کا وقت آنے والاہے۔بعض لوگوں کے برے انجام کو یاد کرکے عبرت پکڑنی چاہیے شاید کہ گزرے واقعات سے سبق حاصل ہوجائے کیونکہ ان میں کان لگاکر اللہ کی باتیں سننے اور دل والے کے لئے عبرت اور نصیحت ہے۔


بُرے انجام کی چندمثالیں:۔


برے انجام کاپتہ دینے والی علامتیں تو بہت زیادہ ہیں جن  میں بعض بیماری یاتکلیف کے دوران ظاہر ہوجاتی ہیں اور آدمی اللہ کی تقدیر پرناراض ہوتا یا اعتراض کرنے لگتاہے۔بعض اوقات آدمی قریب المرگ ہوکر ایسی گفتگو کرتاہے جواللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بن جاتی ہے یا اسے کلمہ شہادت پڑھنے میں مشکل  پیش آتی ہے۔بعض دفعہ میت کوغسل دیتے وقت اس پر برے خاتمے کی علامت ظاہر ہوتی ہے۔رنگت وغیرہ تبدیل ہوجاتی ہے ۔بعض دفعہ قبر  میں اتارتے وقت اور بعض دفعہ دفن کرنے کے بعد انسان پر برے خاتمہ کی علامتیں نظر آجاتی ہیں۔ہم نصیحت اور عبرت کے لیے چند ایسے واقعت کا ذکر کریں گے جن میں برے خاتمہ کی کوئی علامت  پائی جاتی ہو:


حافظ ابن رجب حنبلی بیان کرتے ہیں کہ عبدالعزیز بن رواد نے کہا کہ میں ایک قریب المرگ آدمی کے پاس گیاکہ اسے کلمہ شہادت پڑھنے کی تلقین کروں۔اس قریب المرگ آدمی نے کہا کہ جوکچھ تو کہہ رہاہے میں اس کا انکار کرتا ہوں اور اسی حالت میں وہ مرگیا۔عبدالعزیز بن روادکہتے ہیں کہ میں نے اس کے متعلق لوگوں سے سوال کیا تو مجھے بتایاگیاکہ یہ آدمی شراب پیتا تھا۔عبدالعزیز کہا کرتے تھے کہ گناہوں سے بچو۔کیونکہ  گناہوں کے سبب ہی اس آدمی نے کلمہ شہادت  پڑھنے سے انکار کیا ۔


کئی سال پہلے سعودی عرب کے صوبہ قصیم میں ایک واقعہ  پیش آیا تھا۔جس کی باز گشت اخبارات میں بھی سنی گئی ۔اس خبر کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک آدمی نے قریب المرگ حالت میں ا پنے اللہ تعالیٰ پر اپنی بیماری کی وجہ سے اعتراض کیا۔ اسکے ساتھ مسجد میں نماز پڑھنے والے اس کے بعض دوست آئے انہوں نے اس سے کہا:یہ وہ قرآن ہے جسے تو پڑھتا تھا،اپنے اللہ سے ڈر اور اسے کلمہ شہادت پڑھنے کی تلقین کرنے لگے۔وہ قریب المرگ آدمی کہنے لگا میں قرآن کو مانتا ہوں اور نہ کلمہ شہادت کو جانتا ہوں اور وہ اسی حالت میں فوت ہوگیا۔ہم اللہ سے اس ذلت ورسوائی کی پناہ مانگتے ہیں۔


ابن ابی الدنیا کہتے ہیں کہ مجھے ابو الحسن بن احمد فقیہ نے بیان کیا کہ ہمارے پاس ایک آدمی تھا جب اسے موت آنے لگی تو اس سے کہا گیا کہ تم اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو۔وہ کہنے لگا مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔پھر اس سے کہا گیا  کہ تم لاالٰہ الااللہ پڑھ لو،وہ کہنے لگا کہ مجھے اس کی بھی ضرورت نہیں ہے۔میں نے لوگوں سے سنا کہ وہ آدمی بہت بڑا عبادت گزار اور روزے رکھنے والا تھا۔اس پر بڑی تکلیف آئی اور وہ فتنے میں مبتلا ہوگیا۔میں نے اس سے سنا :وہ کہہ رہا تھا کہ مجھے جن آزمائشوں میں مبتلا کیاگیا  ہے،ان کے بدلے اگر اللہ مجھے جنت دےدے تو ان کا بدلہ وہ جنت بھی نہیں ہے اور پھر وہ کہنے لگا اس تکلیف سے بڑی تکلیف اور کیا ہوسکتی ہے اور اگر یہ عذاب نہیں تو پھر عذاب سے کیامراد ہے؟۔۔۔یہ واقعہ بھی برے خاتمہ پر دلالت کرتاہے۔


اسی طرح میت کو غسل دیتے وقت ظاہر ہونے والی بری علامات بھی بے شمار ہیں جن میں سے ایک کو شیخ قحطانی نے اپنے خطاب میں بیان کیا کہ میں فوت شدگان کو غسل دیا کرتا تھا۔ان میں سے بعض افراد کارنگ نہایت سیاہ ہوجاتا ہے۔اور بعض کادایاں ہاتھ قبض ہوجاتاہے اور بعض کا ہاتھ اس کی دبر میں داخل ہوجاتا اور بعض کی دبر سے گندی بدبوآنے لگتی اور بعض سےایسی آواز سنائی دیتی کہ گویا اس کی دبر میں گویا آگ کے انگارے داخل کیے جارہے ہیں۔شیخ قحطانی کہتے ہیں  کہ ایک دفعہ کاذکر ہے کہ ایک میت کو ہمارے پاس غسل دینے کے لئے لایا گیا۔جب ہم اسے غسل دینے لگے تو اس کارنگ نہایت سیاہ ہوگیا حالانکہ پہلے اس کارنگ نہایت سفید تھا۔میں غسل دینے والی جگہ سے باہرنکلا اور مجھے خوف محسوس ہورہاتھا میں نے باہر کھڑے ایک آدمی کو دیکھا اور اس سے دریافت کیا کہ یہ مت تمہاری ہے؟اس نے کہا:جی ہاں،میں اس کاوالد ہوں۔میں نے کہا:یہ آدمی کیاکرتا تھا؟اس نے کہا:یہ نماز نہیں پڑھتاتھا،تو میں نے کہا،اپنی اس میت کولے جاؤ اور خودغسل دے لو۔(تذکرۃ الاخوان بخاتمۃ الانسان)


قبر  میں اتارتے وقت پیش آنے والا ایک واقعہ یوں ہے ۔شیخ قحطانی بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں نماز عصر کے بعدقبرستان کی طرف گیا اور ایک فوت ہونے والے آدمی کی قبر بنائی۔میرے ہاتھوں پر مٹی لگی تھی اور میں اپنے ہاتھوں کو دھونے کا ارادہ کررہاتھا کہ ایک جنازہ آگیا اور تقریباً پچاس آدمی اس جنازے کے ساتھ تھے ان میں سے ایک آدمی نے مجھے آواز دی کہ خدا کے لئے ہمارے ساتھ قبر بنانے میں ہماری مدد کرو کیونکہ ہم اچھی قبر نہیں بناسکتے۔بہرحال میں نے ان کے ساتھ قبر بنانا شروع کردی۔قبر بنا کر ہم اس میت کو دفن کرنے لگے وہ میت کافی فربہ تھی۔دو آدمیوں نے میرے ساتھ اسے قبر میں اتار دیا۔میں نے اس میت کےسر کے نیچےرکھنے کے لیے اینٹ طلب کی اور میں نے بند کھول دیئے تو اس میت کاسر قبلہ سے پھر گیا۔شیخ قحطانی کہتے ہیں کہ میں نے دوبارہ اسکے سر کو پھیر کرقبلہ کی طرف کردیا۔اور میں میت کے دوسری طرف ہوگیا اور دوسری اینٹ پکڑی۔اس وقت میں نے دیکھاکہ اس کہ اس کی آنکھیں کھلی ہیں اور اس کے منہ اور ناک سے نہایت سیاہ خون بہہ رہاتھا۔یہ دیکھ کر مجھ پر اس قدر ڈر اور خوف طاری ہوگیا کہ میر ی ٹانگوں نے مجھے اٹھانے سے جواب دے دیا۔


میرے ساتھ دو تین اورآدمیوں نے بھی عجیب وغریب منظر دیکھا۔پھر انہوں نے مجھے تیسری اینٹ دی اور میں نے دیکھا کہ تیسری مرتبہ بھی اس کا سر قبلہ سے پھر گیا۔چنانچہ میں نے اسے چھوڑ دیا اور  فوراً اس قبر کے پاس سے بھاگ گیا جو لوگ میرے ساتھ تھے انہوں نے بھی ڈر کی وجہ سے دفن کر نے کاکام ویسے ہی چھوڑ دیا اور لحد کو بند کئے بغیر ہی اس پرمٹی ڈال دی۔اس کے بعد میں نے اس میت کے ساتھ پیش آنے والا منظر سات /آٹھ مرتبہ خواب کی حالت میں دیکھا۔چنانچہ  جب میں عمرہ کرنے کے لئے مکہ مکرمہ میں گیا اور پندرہ دن وہاں قیام کیا تو اللہ نے میرے دل کو سکون عطا  فرمایا۔(تذکرۃ الاخوان بخاتمۃ الانسان)


امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ  بیان کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھی ابو عبداللہ محمد بن احمد قصیری نے مجھے خبردی کہ قسطنطنیہ کے حکمرانوں میں کوئی آدمی فوت ہوگیا۔چنانچہ اس کے لئے قبر بنائی گئی اور جب لوگوں نے اس میت کو دفن کرنے کاارادہ کیا تواچانک ایک بہت بڑا سیاہ رنگ کا سانپ آکر اس قبر میں بیٹھ گیا۔لوگ اس میت کو اس قبر میں دفنانے سے ڈرگئے اور انہوں نے ایک اورجگہ قبربنائی۔وہ سانپ جا کر اس قبر میں بیٹھ گیا۔قصہ مختصر تیس قبریں بنائی گئیں۔اور وہ سانپ ہر اس قبر میں بیٹھ جاتا جس میں اس میت کو دفن کرنے لگتے۔جب لوگ قبریں بنا بناکر تھک ہارگئے تو انھوں نے اہل علم سےسوال کیا کہ اب ہم کیاکریں تو انہیں جواب دیاگیا کہ اس میت کو اسی سانپ کے ساتھ ہی دفن کردو۔


تدفین کے بعد برے خاتمہ کی علامت ظاہر ہونے والا ایک واقعہ یوں ہے جسے حافظ ابن  قیم  رحمۃ اللہ علیہ  نے الروح نامی اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ہمارے ساتھی ابو عبداللہ محمد بنالرز الحرانی نے مجھے خبردی کہ میں ایک دن نماز عصر کے بعد قبرستان کی طرف گیا۔جب سورج غروب ہونے کے قریب تھاتو میں قبرستان پہنچ گیا۔وہاں میں نے دیکھا کہ ان قبروں میں سے ایک قبر ایسی تھی جس سے آگ بلند ہورہی تھی(جیسے چراغ سےآگ نکلتی ہے)اس قبر میں ایک میت بھی تھی۔میں اسے دیکھ کر اپنی آنکھوں کوملنے لگا اور دل میں خیال کرنے لگا کہ میں نیند کی حالت میں ہوں یاجاگ رہا ہوں۔پھرمیں شہر کی طرف واپس آگیا اور میں نے کہا:اللہ کی قسم میں تو جاگ رہاہوں،چنانچہ میں اپنے گھر گیا اور میں مدہوش تھا میرے گھر والوں نے میرے سامنے کھانا لاکررکھ دیا لیکن مجھ میں کھانا تناول کرنے کی ہمت ہی نہیں تھی۔چنانچہ میں شہر کی طرف گیا اورجاکر اس قبروالے آدمی کے متعلق لوگوں سے دریافت کرنے لگا کہ وہ آدمی کیا تھاتو مجھے بتایا گیاکہ وہ آدمی جعلی کرنسی کاکاروبار کرتاتھا۔


ہم برے خاتمہ سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں اور اللہ سے سوال کرتےہیں کہ وہ ہمارے دلوں کو ہدایت دینے کے بعد ٹیڑھا نہ کرےاور ہمیں اپنی خاص رحمت عطا فرمائے،بے شک وہی دینے والاہے۔


اپنے رشتہ داروں سے سلوک اور صلہ رحمی بھی اچھے خاتمہ کا سبب ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:


مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُمِدَّ اللَّهُ لَهُ فِي عُمُرِهِ وَيُوَسِّعَ لَهُ فِي رِزْقِهِ وَيَدْفَعَ عَنْهُ مَيْتَةَ السُّوءِ فَلْيَتَّقِ اللَّهَ وَلْيَصِلْ رَحِمَهُ


" کہ جو  چاہتا ہے کہ اس کی عمر اور رزق  میں اضافہ ہوجائے اور بری موت سے محفوظ ومامون رہے تو اسے اللہ سے ڈرنا چاہیے اور رشتہ داروں سے  صلہ رحمی کرنی چاہیے۔(مسند احمد عن علی)


قریب المر گ آدمی کی پیشانی پر اگر پسینہ آجائے تو یہ بھی اس کے اچھے خاتمہ کا سبب ہے۔ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   بیان  فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کے انتقال کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر جو موت کی شدت دیکھی تھی۔اس کے بعد مجھے کسی پر رشک نہیں آتا کہ اس کی موت آسانی سے آئے۔حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  خراسان میں اپنے بھائی سے ملنے اوراس کی تیمارداری کے لئے گئے۔جب حضرت بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اپنے بھائی کے پاس پہنچے تو دیکھتے ہیں کہ ان کا بھائی قریب المر گ ہے اور موت کی شدت کی وجہ سے اس کی پیشانی پر پسینہ اتر آیا ہے۔حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اسے اس حالت میں دیکھ کر فرمانے لگے:


" اللَّهُ أَكْبَرُ....... سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَوْتُ الْمُؤْمِنِ بِعَرَقِ الْجَبِينِ"


"اللہ بہت بڑا ہے،میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ مومن اپنی   پیشانی کے پسینہ کے ساتھ فوت ہوتا ہے(یعنی مومن کی موت کے وقت پیشانی پر پسینہ آجاتا ہے)


اچھے خاتمہ کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ جمعۃ المبارک کے دن یا جمعہ والی رات موت آجائے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نےفرمایا:


ما من مسلم يموت يوم الجمعة أو ليلة الجمعة إلا وقاه الله فتنة القبر"،


"کہ" جس مومن کو جمعہ کے دن یاجمعہ کی رات موت آجائے،اللہ تعالیٰ اسے عذاب قبر سے محفوظ رکھیں گے"اور یہ بھی ممکن ہے کہ کافر اور مشرک کو جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات موت آجائے،لیکن وہ کافر یا مشرک عذاب قبر سے ہر گز نہیں بچ سکے گا کیونکہ مندرجہ بالاحدیث کی رو سے مومن ہونا شرط ہے ۔


قریب المرگ حالت میں اللہ تعالیٰ سے رحمت کی امید رکھنا اور اس کے عذاب سے ڈرنا بھی اچھے خاتمہ کا سبب ہے۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ایک نوجوان آدمی قریب المرگ تھا۔حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم   اس کے پاس تشریف لے گئے اور اس نوجوان سے دریافت فرمایا:" كيف تجدك؟"کہ"تیرے دل میں کیا ہے؟"تو وہ نوجوان کہنےلگا:


قال: والله يا رسول الله: إني أرجو الله وأخاف ذنوبي.


"کہ اللہ کی قسم مجھے اللہ سے ر حمت کی اُمید بھی ہے اور اپنے گناہوں کا ڈر بھی ہے۔"حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا:


 لَا يَجْتَمِعَانِ فِي قَلْبِ عَبْدٍ فِي مِثْلِ هَذَا المَوْطِنِ إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ مَا يَرْجُو وَآمَنَهُ مِمَّا يَخَافُ


کہ"قریب المرگ حالت میں جس مومن کے دل میں یہ دو چیزیں جمع ہوجائیں گی،اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز عطا فرمائیں گے جس کی وہ امید رکھتا ہے اور جس سے ڈر اور خوف محسوس کرتا ہے ،اس سے اللہ تعالیٰ اس کو بچا لیں گے"


قریب المرگ آدمی کے پاس بیٹھ کر اس کے لیے نیک دعا کرنا بھی اس ک اچھے خاتمہ کا سبب  ہے کیونکہ  اس وقت جو بات بھی کہی جائے اس پر فرشتے آمین کہتے ہیں۔حدیث میں ہے:


فقولوا خيرا فإن الملائكة يؤمنون على ما تقولون


(صحیح مسلم عن ام سلمہ)


"کہ قریب المرگ کے پاس بھلائی کی بات کرو کیونکہ جو کچھ تم اس وقت کہتے ہو فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔


خاتمہ:۔


آخر میں حسن خاتمہ کے اسباب کا ذکر کرتا ہوں کہ انسان کا انجام بالخیر کیسے ہوسکتا ہے:


الف۔ظاہر وباطن اور ہر حالت میں تقویٰ کو لازمی اختیار کرنا چاہیے اور کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھامنا چاہیے۔یہ نجات کا واحد راستہ ہے۔اور آدمی کو گناہوں سے بہت زیادہ ڈرنا چاہیے۔یقیناً کبیرہ گناہ آدمی کو ہلاک کردیتے ہیں اور صغیرہ گناہوں کی وجہ سے دلوں پر زنگ لگ جاتا ہے۔


رسول مقبول  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا کہ اپنے آپ کو چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بھی بچاؤ۔اس قوم کی طرح جو ایک وادی میں اترے۔کوئی ادھر سے ایک لکڑی لے آیا کوئی ادھر سے ایک لکڑی لے آیا۔یہاں تک کہ انہوں نے اپنا کھانا تیار کرلیا اور چھوٹے چھوٹے گناہ پتہ نہیں کب آدمی کو ہلاک کردیں۔


ب۔ہمیشہ اللہ  تعالیٰ کا ذکر اور شکر کرنا چاہیے اور جو کوئی ہمیشہ اللہ کا ذکر کرتا رہتاہے اس کے تمام اعمال کا خاتمہ اسی پر ہوتاہے اور دنیا سے جاتے وقت اسے کلمہ شہادت  پڑھنے کی وجہ سے جنت کی بشارت مل جاتی ہے کیونکہ حضرت  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا کہ:


"جس کی آخری کلام لاالٰہ الا اللہ ہوگی وہ جنت میں جائے گا"


اس کے ساتھ ساتھ ہر مسلمان کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا ختم ہونے والا گھر ہے اور یہ ہمیشہ نہیں رہے  گی جب آدمی اس بات کو سمجھ لیتا ہے تو پھر وہ دنیا کو اپنے دل میں نہیں بلکہ ہاتھ پر رکھتا ہے یعنی اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتا اورکثرت سے یہ دعا کرتا ہے:


"يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ"


"اے دلوں کو پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ"


رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   بھی اس دعا کو کثرت سے پڑھا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم   سے کہاگیا کہ اے اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  !ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم   پر ایمان لائے اور اس چیز پر بھی جو آپ اللہ کی طرف سے لے کر آئے۔کیاپھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم   ہمارے متعلق ڈرتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:"ہاں! کیونکہ دل اللہ کی دو انگلیوں کےدرمیان ہے،اللہ جیسے چاہتاہے ،اسے پھیر دیتا ہے"


الٰہی!ہم آپ کے اسماءحسنیٰ اور صفات وعلیا کے ساتھ سوال کرتے ہیں کہ ہمیں اس حالت میں فوت کرنا کہ تو ہم سے راضی ہو۔الٰہی ہمارے آخری اعمال کو بہترین بنادے اور اپنی ملاقات کے وقت تو ہم سے خوش اور راضی ہوجا۔الٰہی!دنیا و آخرت میں ہمیں سچی بات پر ثابت اور قائم ر کھنا اور ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کرنا اور ہمیں اپنی رحمت عطا فرما۔بے شک تو ہی سب کچھ دینے والا ہے۔الٰہی! ہمارے پوشیدہ کو ظاہر سے بہتر بنا اورظاہر کو بھی درست فرمادے،بے شک تو قدرت کاملہ رکھنے والاہے۔

Share:


علم كے معنى ومفهوم:
لغت کے اعتبار سے علم کے معنی "جاننے" كے هيں يعني کسی بھی چیز کے متعلق آپ نے معلومات حاصل کرلی ہوں تو گویا اس چیز کا علم آپ کو حاصل ہو گیا۔ لیکن شرعي اصطلاح میں علم ان امور کے جاننے کوکہا جاتا ہے جن کے ذریعے سے اللہ رب العزت کی معرفت حاصل ہواور اپنی زندگی کو الله تعالى کے مرضیات کے مطابق ڈھالا جا سکے جس کا حاصل کرنا حدیث کی رو سے ہر مسلمان مرد اور عورت پر لازم ہے۔ علم جہالت کی ضد ہے، اور اس سے مراد کسی چیز کی اصل حقیقت کو مکمل طور پر پا لینا ہے۔اصطلاح میں بعض علما کے نزدیک 'علم سے مراد وہ معرفت ہے جو جہالت کی ضد ہے۔ جبکہ دیگر اہل علم کا کہنا ہے کہ 'علم' اس بات سے بالاتر هے کہ اس کی تعریف کی جائے۔ مطلب یہ کہ لفظ 'علم' خود اتنا واضح ہے کہ اس کی تعریف کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ۔

علم کی قسمیں:
عموميت كے إعتبار سے علم کی دو قسمیں بنتی ہیں
(۱) ديني علم (۲) دنیاوی علم

علم دين :
علم دین سے مراد قرآن كريم اور آحاديث مباركه كا علم ہے جس ميں إس كے تمام شعبے(قرآن - فقه -تفسير - تجويد اور حديث وغيره ) شامل هوتے هيں مختصر الفاظ ميں علم دين سے مراد وه علم هے جس سے اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کے احکام کے پیروی اور نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کا طریقہ معلوم ہوجائے۔علم دین کے ذریعے انسان اللہ تعالیٰ کی معرفت کو پا سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتا ہے۔علم دین حاصل کرنے والوں پر الله تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں اور دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ ان کو عزت و مرتبہ عطا فرماتا ہے اور آخرت ميں بهي الله تعالى كا أنعام وإكرام كا وعده هے جس علم كو حاصل کرنے والوں کی فضیلت آحادیث مبارکہ مين بار بار بيان هوئى ہے وه علم درآصل علم دین ھي هے باقي دنياوى علوم محض فنون كے درجه ميں هيں- خلاصه كلام يه كه علم دين سے مراد وہ شرعی علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے روشن دلائل اور واضح ہدایت کی صورت میں اپنے حبيب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآله وسلم پرنازل فرمایا ہے۔ لہٰذا وہ علم جو قابل ستائش و تعریف ہے، وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل کردہ 'وحی کا علم' ہے اوراللہ کے نبی صلی اللہ علی وآله وسلم کے ارشادات عاليه هيں:
چنانچه ارشاد نبوي صلى الله عليه وآله وسلم هے
مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ
'' جس شخص سے اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے، اسے دین میں سمجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے۔'
بے شک انبیاء علیہم السلام نے کسی کو درہم و دینار کا وارث نہیں بنایا، بلکہ اُنہوں نے تو علم (نبوت) کی وراثت چھوڑی ہے، تو جس شخص نے بھی اس (علم نبوت) کو لیا تو اُس نے گویا (دنیا و آخرت کا) وافر حصہ پالیا۔'':
ايك اور مقام پر ارشاد نبوي صلى الله عليه وآله وسلم هے
وَإِنَّ الأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا، إِنَّمَا وَرَّثُوا العِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ» [رواه أبو داود ...
بے شک انبیاء علیہم السلام نے کسی کو درہم و دینار کا وارث نہیں بنایا، بلکہ اُنہوں نے تو علم (نبوت) کی وراثت چھوڑی ہے، تو جس شخص نے بھی اس (علم نبوت) کو لیا تو اُس نے گویا (دنیا و آخرت کا) وافر حصہ پالیا۔''
علماء آنبياء كے وارث هيں چنانچه ارشاد نبوي صلى الله عليه وآله وسلم هے
«إِنَّ العُلَمَاءَ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ
بے شك علماء هي آنبياء كے وارث هيں
اور یہ بات طے شدہ ہے کہ حضرات انبیاء علیہم السلام نے دوسروں کو اللہ عزوجل کی شریعت ِمطهرہ کے علم کا ہی وارث بنایا ہے نہ کہ کسی اور کا۔ انبیاء علیہم السلام نے لوگوں کو صنعت اور اس سے متعلقہ دیگر فنون کے علم کا ہرگز وارث نہیں ٹھہرایا، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ہجرت کے موقع پر جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ نزولِ فرمایا، تو وہاں کے لوگوں کو کھجوروں کی پیوندکاری کرتے ہوئے پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے اہل مدینہ سے، اُن کو مشقت میں دیکھتے ہوئے، اس بارے میں بات کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی گفتگو کا ماحصل یہ تھا کہ ایسا کركے مشقت ميں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ تو اُن لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے کہنے پر ایسا ہی کیا اور تلقیح کرنے سے رُک گئے، مگر کھجوروں پر پھل نسبتاً کم آیا۔ لوگوں كے عرض كرنے پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا:
أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ
''تم اپنی دنیا کے معاملات کو بہتر جانتے ہو۔''
لہٰذا اگر دنیوی معاملات کے بارے میں جاننا، تعریف و توصیف کے لائق ہوتا تو اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآله وسلم ان معاملات کو تمام لوگوں سے بڑھ کر جاننے والے ہوتے۔ اس لئے کہ اس دنیا میں علم و عمل کی بابت سب سے زیادہ قابل تعریف اور ثنا کے لائق ہستی اللہ کے رسول حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہی ہیں

Share:

نفلي نمازوں کی فضائل

پانچ وقت کی نمازیں تو ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہیں، ان کے علاوہ نفلی نمازیں ہیں، مکروہ اوقات کے علاوہ وہ جتنی چاہے پڑھے، بعض خاص نمازوں کے فضائل بھی رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے بیان فرمائے هيں، مثلاً: تہجد کی نماز، اِشراق، چاشت، اوّابین، نمازِ توبہ ، نمازِ تسبیح وغیرہ وغیرہ۔  نفلي نمازين مسجد كي بجائے اپنے گھر ميں ادا كرني ذياده أفضل هيں تاهم اگر گھر ميں إيسا ماجول ميسر نه هو تو مسجد ميں بهي ادا كرنے ميں كوئى حرج نهيں ۔ جو شخص جتني زیادہ نفل نمازوں كا إهتمام كرے گا اس كي فرض نمازوں ميں أتنا هي خشوع اور خضوع ذياده هوگا اور يه ظاهر سي بات هے جو شخص نفلي نمازوں كا إهتمام كرتا رهے گا أس كي فرض نمازوں كي حفاظت الله كريم كي طرف سے هوتي رهے گي اور نفلي نمازوں كا يه ذخيره اسے قيامت والے دن فائده دے گا چنانچه إيك جديث كا مفهوم هے كه قيامت والے دن اگر كسي كي فرض نمازوں ميں كمي هوگئى تو الله تعالى كے حكم سے نوافل ميں سے پورا كرليا جائے گا إس لئے هر مسلمان كو نفل نمازوں كا ذخيره بهي اپنے پاس ركهنا چاهيے جس طرح فرض نمازوں كے فضائل آحاديث كي كتابوں ميں موجود هيں إسي طرح نفل نمازوں كے فضائل بهي آحاديث كي كتابوں ميں كافي زياده وارد هوئے هيں - نوافل مكروه أوقات كے علاوه جب جي چاهے اور جتنے چاهے ادا كيے جاسكتے هيں ليكن كچهـ نفلي نمازوں كے بهي أوقات مقرر هيں اور انكے فضائل بهي آحاديث مباركه ميں موجود هيں:

1. نمازِ تہجد كي فضيلت:
یہ نماز تنہائی میں اللہ تعاليٰ سے مناجات اورملاقات کا دروازہ ہے اور انوار و تجلیات کا خاص وقت ہے۔ احادیثِ نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  میں اس کی بہت زیادہ فضیلت بیان ہوئی ہے فرائض كي بعد يه نماز سب سے أفضل هے
اس کی کم از کم دو (2) رکعتیں ہیں۔ اور زياده سے زياده بارہ (12) رکعات کا مشائخ كا معمول ہے۔ بعد نمازِ عشاء سو کر جس وقت بھی اٹھ جائیں پڑھ سکتے ہیں۔بہتر أوقات نصف شب یا آخر شب هيں
حضرت عبداﷲ بن عمرو رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: ’’اﷲ تعاليٰ کو تمام (نفل) نمازوں میں سب سے زیادہ محبوب صلاۃ داؤد علیہ السلام ہے، وہ آدھی رات سوتے، (پھر اٹھ کر) ایک تہائی رات عبادت کرتے اور پھر چھٹے حصے میں سو جاتے۔‘‘ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: ’’فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نمازِ تہجد ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، سنن ترمذی، صحیح ابن حبان، مسند احمد)

2. نمازِ اشراق كي فضيلت:
اس کا وقت طلوعِ آفتاب سے 20 منٹ بعد شروع ہوتا ہے۔ أفضل يه هے كه اسے نمازِ فجر اور صبح کے وظائف پڑھ کر اُٹھنے سے پہلے اسی مقام پر ادا کریں۔
اس کی رکعات کم از کم دو (2) اور زیادہ سے زیادہ چھ (6) ہیں۔
اس نماز سے باطن کو نور ملتا ہے اور قلب کو سکون و اطمینان کی دولت نصیب ہوتی ہے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: ’’جو شخص نمازِ فجر باجماعت ادا کرنے کے بعد طلوع آفتاب تک ذکرِ الٰہی میں مشغول رہا پھر دو رکعت نماز ادا کی تو اسے پورے حج اور عمرے کا ثواب ملے گا۔‘‘(ترمذی)
حضرت ابوذر اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہما (حدیث قدسی) روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: ’’اللہ تعاليٰ ارشاد فرماتا ہے: اے ابن آدم! تو میرے لیے شروع دن میں چار رکعتیں پڑھ میں اس دن کے اختتام تک تیری کفایت فرماؤں گا۔‘‘ (ترمذی اور ابوداؤد)

3. نمازِ چاشت(ضحى) كي فضيلت:
اس نماز کا وقت آفتاب کے خوب طلوع ہو جانے پر ہوتا ہے . جب طلوعِ آفتاب اورآغازِ ظہر کے درمیان کل وقت کا آدھا حصہ گزر جائے تو یہ چاشت کے لیے افضل وقت ہے۔
اس کی کم از کم چار (4) اور زیادہ سے زیادہ بارہ (12) رکعات ہیں۔ کم از کم دو (2) اور زیادہ سے زیادہ آٹھ (8) رکعات بھی بیان کی گئی ہیں۔
احادیث نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  میں اس نماز کے بہت فضائل بیان ہوئے ہیں:
حضرت انس رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت کیا ہے حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: ’’جس نے چاشت کی بارہ رکعتیں پڑھیں اللہ تعاليٰ اس کے لیے جنت میں سونے کا محل بنائے گا۔‘‘ (ترمذی اور ابن ماجہ )
حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت کیا ہے حضور نبی اکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: ’’جس نے چاشت کی دو رکعتیں پڑھیں وہ غافلین میں نہیں لکھا جائے گا، اور جو چار پڑھے عابدین میں لکھا جائے گا، اور جو چھ پڑھے اس دن اس کی کفایت کی جائے گی اور جو آٹھ پڑھے اللہ تعاليٰ اسے قانتین میں لکھے گا اور جو بارہ پڑھے اللہ تعاليٰ اس کے لئے جنت میں ایک محل بنائے گا۔‘‘(طبرانی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: ’’جو چاشت کی دو رکعتوں کی پابندی کرے اس کے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘ ( مسند احمد و سننِ ترمذی اورسننِ ابن ماجہ )

4. نمازِ اوّابین كي فضيلت:
یہ مغرب اور عشاء کے درمیان کی نماز ہے جو کم از کم دو(2) طویل رکعات یا چھ (6) مختصر رکعات ہے۔
یہ نماز اجر میں بارہ سال کی عبادت کے برابر بیان کی گئی ہے۔ اس کی فضیلت اور انوار و برکات بھی نمازِ تہجد جیسی ہیں۔
اس کا معمول پختگی سے اپنایا جائے خواہ کم سے کم رکعات ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ خاص قبولیت، قرب، تجلیات اور انعامات کا وقت ہے۔ اس کے اسرار بے شمار ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فر مایا: ’’جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعات نفل اس طرح (مسلسل) پڑھے کہ ان کے درمیان کوئی بری بات نہ کرے تو اس کے لیے یہ نوافل بارہ برس کی عبادت کے برابر شمار ہوں گے۔‘‘ (ترمذی اورابن ماجہ )
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: ’’جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘ (طبرانی)

5. نمازِ توبہ كي فضيلت:
مکروہ اوقات کے علاوہ کسی بھی وقت دو رکعت نفل نمازِ توبہ ادا کی جاسکتی ہے۔ خصوصاً گناہ سرزد ہونے کے بعد اس نماز کے پڑھنے سے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔
امام ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ اور ابن حِبان نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت کی ہے کہ حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: ’’جب کسی سے گناہ سرزد ہوجائے تو وہ وضو کر کے نماز پڑھے، پھر استغفار کرے تو اللہ تعاليٰ اس کے گناہ بخش دیتا ہے۔ پھر یہ آیتِ مبارکہ تلاوت فرمائی:
وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ ذَکَرُوا اﷲَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ قف وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اﷲُ ص وَلَمْ يُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَهُمْ يَعْلَمُوْنَo (آل عمران)
’’اور (یہ) ایسے لوگ ہیں کہ جب کوئی برائی کر بیٹھتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کا ذکر کرتے ہیں، پھر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، اور اللہ کے سوا گناہوں کی بخشش کون کرتا ہے اور پھر جو گناہ وہ کر بیٹھے تھے ان پر جان بوجھ کر اِصرار بھی نہیں کرتےo ‘‘

6. نمازِ تسبیح (صلاة التسبيح ) كي فضيلت:
اس نماز کی چار رکعات ہیں، مکروہ اوقات کے علاوہ ان کو جب چاہیں ادا کیا جا سکتا ہے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ تکبیرِ تحریمہ کے بعد ثنا پڑھیں۔
سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ، وَتَعَالٰی جَدُّکَ، وَلَا اِلٰهَ غَيْرُکَ.
’’اے اﷲ! ہم تیری پاکی بیان کرتے ہیں، تیری تعریف کرتے ہیں، تیرا نام بہت برکت والا ہے، تیری شان بہت بلند ہے اور تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔‘‘
ثنا کے بعد پندرہ (15) بار درج ذیل تسبیح پڑھیں:
سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْدُِﷲِ وَلَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَر.
پھر تعوذ، تسمیہ، سورۃ الفاتحہ اور کوئی سورت پڑھ کر دس (10) بار یہی تسبیح پڑھیں،
پھر رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْمُ. کے بعد دس (10) بار،
پھر رکوع سے اٹھ کر سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ کے بعد دس (10) بار،
پھر سجدے میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْاَعْلٰی کے بعد دس (10) بار،
پھر سجدے سے اٹھ کر جلسہ میں دس (10) بار،
پھر دوسرے سجدے میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْاَعْلٰی کے بعددس (10) بار پڑھیں۔
پھر دوسری رکعت میں کھڑے ہو جائیں اور تسمیہ یعنی بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِo سے پہلے پندرہ (15) بار اسی تسبیح کو پڑھیں اور بعد ازاں سورت فاتحہ، پھر اسی طریقے سے چاروں رکعات مکمل کریں۔ ہر رکعت میں پچھتر (75) بار اور چاروں رکعات میں کل ملا کر تین سو (300) بار یہ تسبیح پڑھی جائے گی.
امام ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ اور بیہقی سمیت اہل علم کی ایک جماعت نے اپنی اپنی کتب میں بیان کیا ہے حضور نبی اکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’اے چچا جان! کیا میں آپ سے صلہ رحمی نہ کروں؟ کیا میں آپ کو عطیہ نہ دوں؟ کیا میں آپ کو نفع نہ پہنچاؤں؟ کیا آپ کو دس خصلتوں والا نہ بنا دوں؟ کہ جب تک آپ ان پر عمل پیرا رہیں تو اللہ تعاليٰ آپ کے اگلے پچھلے، پرانے، نئے، غلطی سے یا جان بوجھ کر، چھوٹے، بڑے، پوشیدہ اور ظاہر ہونے والے تمام گناہ معاف فرما دے گا۔‘‘ (اس کے بعد حضورنبی اکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے انہیں نمازِ تسبیح کا طریقہ سکھایا۔) پھر فرمایا:’’ اگر روزانہ ایک مرتبہ پڑھ سکو تو پڑھو، اگر یہ نہ ہو سکے توہر جمعہ کو، اگر اس طرح بھی نہ کر سکو تو مہینہ میں ایک بار، اگر ہر مہینے نہ پڑھ سکو تو سال میں ایک بار اور اگرایسا بھی نہ ہو سکے تو عمر بھر میں ایک بار پڑھ لو۔‘‘
Share:

نماز کے فضائل

 

نماز کی فضیلت كے بارے ميں قرآن پاک میں اللہ پاک کے فرمان اور رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے بے شمار إرشادات آحاديث كي كتابوں ميں ذكر كيے گئے هيں ۔ ظاهر هے إن فضائل كو إس مختصر سے صفحه پر بيان كرنا ناممكن هے ليكن بطور تبرك چند فضائل كا ذكر كيا جائے گا تاكه معلوم هو كه نماز كتني قيمتي چيز هے اور هماري أخروي زندگي كي كاميابي كا دارومدار بهي همارى نماز پر هے
نماز بے حیائی اور برے کاموں سے بچاتی ہے چنانچه ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ 0 (سورۃ العنکبوت)
ترجمہ: "(اے نبي صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) جو کتاب تمہارے پاس وحی کے ذریعے بھیجی گئی ہے، اس کی تلاوت کرو، اور نماز قائم کرو۔ بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے، اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُس سب کو جانتا ہے"
رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے إرشادات:
نماز دین کا ستون هے - نماز مومن کی معراج هے- نمازایمان کی نشانی ھے ۔ نماز مؤمن کی معراج ھے۔ نماز دین کا ستون هے-
نماز شکر گزاری کا بھترین ذریعہ هے- نماز میزان عمل هے- ہر عمل نماز کے تابع هے- يوم قیامت پہلا سوال نماز کے بارے میں هوگا - نمازی کے ساتھ ہر چیز خدا کی عبادت گزارهے- نمازی کا گھر آسمان والوں کے لئے نور هے- نماز گناہوں سے دوری کا ذریعہ هے- نماز گناہوں کی نابودی کا سبب هے - نماز شیطان کو دفع کرنے کا وسیلہ هے - نماز بلاؤں سے دوری كا سبب هے- نماز عذاب قبر سے بچنے كا ذريعه هے- نماز عبادت الہی کا مقررہ طریقہ ہے۔ نماز اسلام کی تعلیمات کے اہم ترین اجزا میں سے ہے۔ نمازی شهنشاہ کے محل کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور جو کھٹکھٹاتا ہے، اُس کے لیے دروازہ کھول هي دیا جائے گا۔
رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا کہ اگر تمہارے گھر کے سامنے کوئی نہر بہتی ہو تو تم میں سے کوئی ہر روز پانچ بار اس میں غسل کرے تو کیا اس کے بدن پر کوئی میل کچیل باقی بچے گا‘‘؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: نہیں! اس کے بدن پر کوئی میل نہیں ہو گی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: ’’یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے گناہوں کو مٹا دیتا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری:)۔
رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: ’’جو نمازوں کی حفاظت کرے تو پانچوں نمازیں اور جمعہ کے بعد دوسرا جمعہ پڑھنا گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، بشرطیکہ کبیرہ گناہ نہ کئے جائیں‘‘ (صحیح مسلم:)
رسول اللہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے فرمایا: ’’جو شخص دو ٹھنڈی نمازیں پڑھے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائیں گے (یعنی فجر اور عصر)۔ (صحیح بخاری:)۔
رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: ’’جب تک تم اپنے مصلے پر ہواس وقت تک فرشتے رحمت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں جب تک وہ نمازی بے وضو نہ ہو جائے‘‘۔
(صحیح مسلم:)۔
پیارے نبي کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  فرمایا: ’’فجر کی دو رکعات (سنتیں) دنیا و ما فیہا سے بہتر ہیں‘‘۔ (صحیح مسلم:)۔
پیارے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: ’’جب کوئی شخص مسجد میں نماز پڑھتا ہے تو اس کو گھر کیلئے نماز کا حصہ رکھنا چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے گھر کی نماز کے حصے میں بڑی خیر رکھی ہے (صحیح مسلم:)
یعنی گھر میں نوافل پڑھنے سے گھر والے بھی نمازی بن جائیں گے اس سے بڑھ کر اور کیا خیروبرکت ہو گی۔
فرمانِ رسولِ مقبول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ہے کہ جو شخص ہر روز بارہ رکعات (یعنی مؤكده سنتیں) پڑھے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنائے گا‘‘۔ (صحیح مسلم:)۔
رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ کے لئے ایک سجدہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کے لئے ایک نیکی لکھ دیتا ہے، ایک گناہ مٹا دیتا ہے اور ایک درجہ بلند فرماتا ہے۔ سو تم کثرت سے سجدے کرو‘‘۔ (ترغیب:)۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالى عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  سے پوچھا: کون سا عمل افضل (اجر و ثواب میں زیادہ) ہے؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: "نماز پڑھنا اپنے وقت پر" میں نے کہا پھر کون سا؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: "ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا" میں نے پوچھا کہ پھر کون سا؟ تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: "اللہ کی راہ میں جہاد کرنا"۔ ( مسلم)
فرمان نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ہے:
"پانچ نمازیں، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک، اگر بڑے گناہوں سے اجتناب کیا جائے تو (یہ تینوں) درمیانی عرصہ کے گناہوں کو ختم کردیتے ہیں"۔ (صحیح مسلم)
اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے فرمایا: "تم سجدے بہت کیا کرو اس لیے کہ ہر سجدے پر اللہ تعالیٰ تیرا ایک درجہ بلند کرے گا اور ایک گناہ معاف کرے گا"۔ (صحیح مسلم)
حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: میں رات کو رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے پاس رہا کرتا اور آپ کے پاس وضو اور حاجت کا پانی لایا کرتا۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: "مانگ کیا مانگتا ہے؟" میں نے عرض کیا کہ جنت میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی رفاقت چاہتا ہوں۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا "کچھ اور" میں نے عرض کیا بس یہی۔ تو آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا "اچھا تم کثرتِ سجود سے میری مدد کرو"۔ (صحیح مسلم)
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   سے سنا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  فرماتے تھے "جو شخص اچھی طرح وضو کرے پھر نماز پڑھے تو اس کے وہ گناہ بخش دیئے جائیں گے جو اس نماز سے لے کر دوسری نماز تک ہوں گے"۔ (صحیح مسلم)
عمرو بن سعید بن عاص رضي الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا، انہوں نے وضو کا پانی منگوایا۔ پھر کہا "میں نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  سے سنا آپ نے فرمایا "جو کوئی مسلمان فرض نماز کا وقت پائے پھر اچھی طرح وضو کرے اور دل لگا کر نماز پڑھے، اور اچھی طرح رکوع اور سجدہ کرے تو یہ نماز اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گی جب تک کبیرہ گناہ نہ کرے اور ہمیشہ ایسا ہی ہوا کرے گا۔" (صحیح مسلم)
ارشادِ نبوی  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ہے: "پانچ نمازوں کی مثال اس میٹھی اور گہری نہر کی سی ہے جو تم میں سے کسی ایک کے دروازے (کے پاس سے گزر رہی ہو) وہ اس میں روزانہ پانچ مرتبہ نہاتا ہو۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ اس کے جسم پر کوئی میل باقی رہے گی؟" صحابۂ کرام رضی عنہم اجمعین نے کہا "نہیں" آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: "پانچ نمازیں بھی گناہوں کو ختم کردیتی ہیں جیسا کہ پانی میل کو ختم کردیتا ہے" (صحیح مسلم)
رسول كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہی کا فرمانِ مبارک ہے: "جس مسلمان کے پاس کسی فرض نماز کا وقت آپہنچتا ہے، وہ اس کیلئے اچھے وضو اور خشوع و ركوع کا اہتمام کرتا ہے تو وہ نماز اس کے پہلے گناہوں کیلئے کفارہ بن جائے گی، جب تک کہ بڑا گناہ نہ کیا جائے اور یہ قانون ساری زندگی جاری رہتا ہے" (صحیح مسلم)
رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا ارشادِ مبارک ہے: "پانچ نمازیں اللہ نے بندوں پر لکھ دی ہیں، جو ان کی پابندی کرتا ہے اور بے قدری کرکے انہیں ضائع نہیں کرتا، اللہ کا اس کیلئے وعدہ ہے کہ وہ اسے بہشت میں داخل کرے گا اور جو پابندی نہیں کرتا، اس کیلئے اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی وعدہ نہیں ہے، چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو بخش دے" (رواہ احمد وغیرہُ )
إيك حديث كا مفهوم هے كه جو شخص پانچ وقت كي نماز كا إهتمام كرے گا الله تعالى أسے مندرجه زيل پانچ طرح سے أنعام وأكرام سے نوازيں گے :
(1) أس كے رزق كي تنگي دور كردي جائے گي
(2) أسے عذاب قبر سے محفوظ كرديا جائے گا
(3) أسے حشر كے ميداں ميں نامه أعمال داهنے هاتهـ ميں ديا جائے گا
(4) أسے پل صراط پر سے بجلي كي كڑك كي طرح گزار ديا جائے گا
(5) أسے بغير حساب كتاب جنت ميں داخل كرديا جائے گا
فائده: پانچ وقت كي نماز كا إهتمام كرنے كا مطلب يه هے كه وضو بهي آچهي طرح سے كرے اور وقت كي پابندي بهي كرے اور نماز بهي دهيان اور خشوع وخضوع سے ادا كرے- رزق كي تنگي دور هونے كا مطلب رزق ميں بركت اور دل كو إطمينان هونا هے- حشر كے ميداں ميں نامه أعمال داهنے هاتهـ ميں ديا جانا كاميابي كي نشاني هوگي يعني يه شخص كامياب هوجائے گا- پل صراط دوزخ كے اوپر إيك پل هوگا جس كي اونچائى - درمياني راسته اور أتروائى بهت زياده مسافت هوگي بجلي كي كڑك كا مطلب كه جس طرح آسماني بجلي چند سيكنڈ ميں كڑكتي هے إسي طرح يه شخص إس پل سے بهت تيزى سے پار هوجائے گا- آخري أنعام جنت ميں داخله هوگا جو كسي حساب وكتاب كي مشفت كے بغير عمل ميں آجائے گا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا بتلاؤ اگر کسی کے دروازے پر ایک نہر ہو اور اس میں وہ ہرروز پانچ بارغسل کیا کرے تو کیا اس کا کچھ میل کچیل باقی رہ سکتا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ کچھ بھی میل نہ رہیگا، تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: پانچوں وقت نمازوں کی یہی حالت ہے اللہ تعالیٰ ان کے سب گناہوں کو مٹادیتا ہے۔ ’ (مسلم، )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: پانچوں نمازیں؛ جمعہ کی نماز پچھلے جمعہ تک اور رمضان کے روزے پچھلے رمضان تک درمیانی اوقات کے تمام گناہوں کے لیے کفارہ ہیں؛ جبکہ ان اعمال کو کرنے والا کبیرہ گناہوں سے بچے۔ (مسلم)
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالى عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  سردی کے موسم میں باہرتشریف لائے اور پتے درختوں پر سے گررہے تھے، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے ایک درخت کی ٹہنی ہاتھ میں لی اس کے پتے اور بھی گرنے لگے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: ‘‘اے ابوذر! مسلمان بندہ جب اخلاص سے اللہ کے لیے نماز پڑھتا ہے تو اس سے اس کے گناہ ایسے ہی گرتے ہیں جیسے یہ پتے درخت سے گررہے ہیں’’۔ (مسنداحمد)
حضرت ابومسلم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوامامہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی خدمت میں حاضر ہوا وہ مسجد میں تشریف فرما تھے میں نے عرض کیا کہ مجھ سے ایک صاحب نے آپ کی طرف سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ آپ نے نبی کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  سے یہ ارشاد سنا ہے کہ جو شخص اچھی طرح وضوکرے اور پھر فرض نماز پڑھے تو حق تعالیٰ شانہ اس دن وہ گناہ جو چلنے سے ہوئے ہوں اور وہ گناہ جن کو اس کے ہاتھوں نے کیا ہو اور وہ گناہ جو اس کے کانوں سے صادر ہوئے ہوں اور وہ گناہ جن کو اس نے آنکھوں سے کیا ہو اور وہ گناہ جو اس کے دل میں پیدا ہوئے ہوں سب کو معاف فرمادیتے ہیں، حضرت ابوامامہ رضي الله تعالى عنه نے فرمایا میں نے یہ مضمون نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  سے کئی دفعہ سنا ہے۔ ( مسنداحمد)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: جو شخص ان پانچ فرض نمازوں کو پابندی سے پڑھتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غافل رہنے والوں میں شمار نہیں ہوتا۔ (’ صحیح ابن خزیم)
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے نماز کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جو شخص نماز کا اہتمام کرتا ہے تو نماز اس کے لیے قیامت کے دن نور ہوگی اس (کے پورے ایماندار ہونے) کی دلیل ہوگی اور قیامت کے دن عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہوگی، جو شخص نماز کا اہتمام نہیں کرتا اس کے لیے قیامت کے دن نہ نور ہوگا نہ (اس کے پورے ایمان دار ہونے کی) کوئی دلیل ہوگی نہ عذاب سے بچنے کا کوئی ذریعہ ہوگا اور وہ قیامت کے دن فرعون، ہامان اور ابی ابن خلف کے ساتھ ہوگا۔ (صحیح ابن حبان) ًِ
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: جومسلمان فرض نماز کا وقت آنے پر اس کے لیے اچھی طرح وضو کرے؛ پھرپورے خشوع اور اچھی طرح رکوع وسجود کے ساتھ نماز ادا کرے تو وہ نماز اس کے واسطے پچھلے گناہوں کا کفارہ بن جائیگی جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہوا ہو اور نماز کی یہ برکت اس کو ہمیشہ ہمیش حاصل ہوتی رہے گی۔ (مسلم)
"اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز کی یہ تاثیر اور برکت ہے کہ وہ سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے اور پچھلے گناہوں کی گندگی کو دھوڈالتی ہے مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ آدمی کبیرہ گناہوں سے آلودہ نہ ہو؛ کیونکہ ان گناہوں کی نحوست اتنی غلیظ اور اس کے ناپاک اثرات اتنے گہرے ہوتے ہیں جن کا ازالہ صرف توبہ ہی سے ہوسکتا ہے، ہاں اللہ تعالیٰ چاہے تو یونہی معاف فرمادے اس کا کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہیں"
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالى عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: جو مسلمان بندہ اچھی طرح وضو کرے پھر اللہ تعالیٰ کے حضور میں کھڑے ہوکر پوری قلبی توجہ اور یکسوئی کے ساتھ دورکعت نماز پڑھے تو جنت اس کے لیے ضرور واجب ہوجائے گی۔ (مسلم، مسنداحمد)
مذکورہ بالا احادیث مباركه کے علاوہ بےشمار احادیث مباركه ہیں جو نماز کی فضیلت کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں؛ جن كا إحاطه كرنا بهت مشكل هے چونکہ عمل کے لیے اتنی آحاديث مباركه بهي کافی ہیں، اس لیے اسی پر اکتفا کیا گیا ہے۔
نماز کے بارے میں رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے ان تربیتی اور ترغیبی ارشادات کے باوجود امت کی إيك بڑی تعداد آج نماز سے غافل اور بے پرواہ ہے اور اپنے کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے الطاف وعنایات سے محروم اور اپنی دنیا وآخرت کو برباد کررہی ہے چنانچه قرآن كريم ميں ارشاد هے 
‘‘وَمَا ظَلَمَھُمُ اللہ وَلٰکِنْ اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ’’۔ ( آل عمران) ‘
ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ خود ہی اپنے آپ کو ضرر پہنچا رہے تھے

"مغرب کی نماز بیج کے بمنزلہ ہے۔ عشا کی نماز جڑ کی مانند ہے جو تاریکی اور اندھیرے میں نشوونما پاتی ہے۔ صبح کی نماز زندگی کی کونپل کی طرح ہے جو زمین سے سر نکالتا ہے۔ ظہر کی نماز پتّوں اور شاخوں جیسی ہے۔ عصر کی نماز شجرِ عبادت کے ثمر کی مانند ہے۔ اور فرمایا ہے کہ جس کسی نے عصر کی نماز ضائع کی، اُس نے اپنے اہل و عیال اور مال پر ستم کیا۔"
نماز کے قائم کرنے میں اعضاء و جوارح کے اعمال اور زبان و قلب کے اذکار شامل ہیں،
إن اعمال و اذکار میں سے ہر ایک اپنی ظاہری صورت کے علاوہ معنویت اور روحانیت کا حامل ہے، جو نمازی کے معراج اور اُس کے بلند حیاتی مدارج اور ٰالله تعالى کے تقرّب کا سبب بنتا ہے، اور اگر ظاہری حالت معنی کے معارف سے خالی ہو تو زبانی ذکر ایک بےمعنی لفظ، ایک بےمغز خول اور ایک بےجان جسم ہے، جس کی کوئی حقیقی قدر و قیمت نہیں"
اللہ پاک عمل کی توفیق عنایت فرمائے
آمین یا رب العالمین
Share:

نماز كے معنى ومفهوم اور شرعی حُکم



إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا (سورۃ النساء

بیشک  نماز  مسلمانوں  پر فرض  ہے  اپنے مقرر وقتوں پر۔  ( معارف القرآن)


إيمان كے بعد سب سے پہلی چيز جو هر مسلمان كے لئے لازمي هے وه نماز هے - پنجگانہ نماز ھر مسلمان پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض ھے ۔ نماز كے حواله سے سب سے پهلى همارى ذمه دارى يه هے كه هم نماز كے معنى ومفهوم كو سمجهيں تاكه نماز كي إهميت كا هميں إحساس هو جائے-
لغوی معنی:
"صلوٰۃ" (نماز) کے لغوی معنی "دعا" کے ہیں۔ نماز كي هر ركعت ميں سورة فاتحه كي تلاوت كي جاتي هے جو مكمل دعا هے - صلوٰۃ" کے إيك معنی بہترین ذکر کے بهي ہیں جيسا كه قرآن مجيد ميں نماز كو ذكر فرمايا گيا هے
"صلوٰۃ" کے معنی رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی فرشتوں کے درمیان تعریف کے بهي ہیں، جب کہ ملائکہ کی جانب سے "صلوٰۃ" کے معنی دعا کے ہیں"۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے ٓفرمایا: "صلوٰۃ پڑھتے ہیں، یعنی برکت کی دعا دیتے ہیں" یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے صلوٰۃ کے معنی رحمت کے ہیں جبکہ ملائکہ کی جانب سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں۔ "صلوٰۃ" اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے ثناء کے معنی میں ہے جبکہ مخلوق یعنی ملائکہ، انس اور جنات کی جانب سے یہ قیام، رکوع، سجود اور دعاء کے معنی میں ہے۔ پرندوں اور دیگر حیوانوں کی "صلوٰۃ" کے معنی "تسبیح" کے ہیں۔
شرعی معنی:
شریعتِ مطہرہ میں "صلوٰۃ" (نماز) کے معنی بعض مخصوص اور معلوم افعال اور اقوال کے ذریعے سے اللہ کی عبادت کرنا هے جس کی ابتدا تکبیر تحریمہ  سے ہوتی ہے جبکہ اختتام سلام پھیرنے پر ہوتا ہے۔ اور اسے "صلوٰۃ" بمعنی دعا کا نام اس لیے دیا گیا کہ اس میں دعا بھی شامل ہے"

-
نماز ميں دعا کی اقسام:
1- دعائے مسئلہ:
اس کے معنی ہیں ایسی چیز مانگنا جو سائل کے لئے مفید ہو مثلاً دنیوی و اخروی نفع طلب کرنا اور شرور و ضرر کے دور ہونے کی دعا مانگنا، بذریعۂ نماز اللہ تبارک و تعالیٰ سے اپنی حاجت برآری طلب کرنا۔
2- دعائے عبادت:
اس کے معنی اعمال صالحہ یعنی قیام، قعود، رکوع اور سجود کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب طلب کرنے کے ہیں۔ پس جس نے یہ سب عبادات انجام دیں گویا اس نے زبانِ حال سے اپنے رب سے اپنی مغفرت کی دعا کی۔

نماز کا مفہوم 
الله تعالى كے خزانوں سے براه راست حاصل كرنے كا ذريعه نماز ھے ۔ اپني حاجتيں الله تعالى سے مانگنے كے لئے نماز إيك بهترين راسته  هے

شریعت میں نماز کا حکم:
قرآن مجید، احادیثِ نبویہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  اور اجماعِ امت سے پنجگانه نماز ہر مسلمان، عاقل و بالغ مرد اور عورت پر فرض ہے۔ کلامِ مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ (سورۃ البقرۃ)
ترجمہ: "تمام نمازوں کا پورا پورا خیال رکھو، اور (خاص طور پر) بیچ کی نماز کا۔ اور اللہ کے سامنے با ادب فرماں بردار بن کر کھڑے ہوا کرو"۔

ایک اور مقام پر فرمانِ الہٰی ہے:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ (سورۃ البینہ)
ترجمہ: اور انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت اس طرح کریں کہ بندگی کو بالکل یکسو ہوکر صرف اُسی کیلئے خالص رکھیں، اور نماز قائم کریں، اور زکوٰۃ ادا کریں، اور یہی سیدھی (سچی امت ) کا دین ہے۔"

اور ارشادِ نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   ہے:
"اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کا اقرار کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) اللہ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا"۔

ایک اور موقع پر رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے ارشاد فرمایا: "پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے اوپر لکھ دی ہیں (فرض کردی ہیں)" ۔۔
"امت مسلمہ کا دن اور رات میں پانچ نمازوں کے وجوب پر اجماع ہے"

Share:

نماز كے مقاصد


وَاَقِمِ الصَّلٰـوۃَ لِذِکْرِیْ (طٰہٰ:۱۴) 

’’اورنماز کو قائم کرو میری یاد کے لئے


نماز كے مقاصد  سے مراد يه هے كه نماز سے كيا چاها جارها هے يعني إتني عظيم عبادت الله تعالى كي طرف سے جو ھمیں عنايت هوئی ھے یہ کیوں عنایت کی گئی ھے ؟ یعنی اس كے مقاصد كيا هیں ؟ ۔ تو نماز كا بنیادی مقصد يه هے كه همارى نماز كے باهر كي زندگي بھی صفتِ صلاة پر آجائے يعني جس طرح هم نماز ميں الله تعالى كے آحكام اور رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كے طريقوں بر عمل كرتے هيں إسي طرح همارى (24) گهنٹه كي زندگي ميں بهي اللہ تبارک تعالی کے آحکام اور رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے طریقوں پر عمل کرنا همارا معمول بن جائے- يه إيك مسلسل مشق هے تاكه هم اپني تمام زندگي ميں الله تعالى كے آحكام كو رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كے طريقوں پر پورا كرنے والے بن جائيں -

عبادتِ ربّ اور اطاعت ِخالق و مالک میں سب سے بڑی رکاوٹ جو انسان کو درپیش ہوتی ہے ‘وہ غفلت‘ نسیان اور بھول ہے. انسان کا اپنے دنیاوی معمولات میں حد درجہ الجھ جانا اور منہمک ہو جانا‘ اور ان میں کولہو کے بیل کی طرح مصروف رہنا دراصل ایک ایسا گھناونا چکر ہے جو انسان کو صرف اپنے اندر گم کر لیتا ہے. بقول علامہ اقبال :-

کافر کی یہ پہچان ھے کہ آفاق میں گم ہے
مؤمن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق

تو انسان کی کیفیت عام طور پر یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماحول میں‘ اپنی ضروریات کی فراہمی میں اور اپنی پریشانیوں میں گم ہو کر رہ جاتا ہے. کاروبار کی فکر‘ ملازمت کی فکر‘ کام کی فکر‘ اہل و عیال کی فکر‘ بچوں کے دکھ اور بیماری کی فکر‘ بچوں کی تعلیم و تربیت اور اُن کی شادی بیاہ کی فکر اور نہ جانے کتنے تفکرات کے روگ ہیں جو انسان کو لاحق رہتے ہیں اور جن میں وہ گم ہو کر رہ جاتا ہے. اس گمشدگی کی حالت سے انسان کو نکالنے کے لیے نمازِ پنجگانہ کا نظام  قائم کیا گیا ہے. نماز انسان کو دن میں پانچ مرتبہ ان تمام مصروفیات سے کھینچ کر باہر نکالتی ہے تاکہ وہ اللہ کے ذکر سے غافل نہ ھو جائے  
ایک نماز ہے جو ساری عبادتوں کا مرکز، مشکلات اور سختیوں میں انسان کے تعادل و توازن کی محافظ، مومن کی معراج، انسان کو برائیوں اور منکرات سے روکنے والی نیک ہدایت دینے والی جھوٹ فریب سے بچانے والی اور دوسرے بہترین عموال میں قبولیت کی ضامن ہے ۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ “
وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي 
میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔

اس آیت کی روشنی میں نماز کا سب سے اہم فلسفہ یادِ خدا ہے اور یادِ خدا ہی ہے جو مشکلات اور سخت حالات میں انسان کے دل روح  اور ضمیرکو آرام اور اطمینان عطا کرتی ھے چنانچہ ارشادِ ربانی ہے ۔
أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ
آگاہ ہو جاؤ کہ یادِ خدا سے دل کو آرام اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔

تو نماز کا فلسفہ یہ ھے کہ دن میں پانچ وقت اللہ کے حضور کھڑے ہو اور ہر رکعت میں اپنے اس عہد و میثاق کو تازہ کرو کہ ؛- 
اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾ 
ہم صرف تیری ہی بندگی کرتے ہیں (اور کریں گے)‘ اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں (اور مانگیں گے).‘‘ 
ہر رکعت میں اپنے اس قول و قرار کی ازسرنو تجدید کر کے اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کر لو‘ اپنے بندہ ہونے کی حیثیت کو اپنے شعور میں اجاگر کر لو اور اس ہستی کو یاد رکھو جس سے تم نے یہ عہدِوفاداری استوار کیا ہے. نماز کا اصل مقصد ہی یادِ الٰہی ہے اور اسی یادِ الٰہی سے ان حقائق کی تذکیر ہوتی ہے جن کا نام ایمان ہے. پس نماز وہ فریضہ ہے جو انسان کو اس گمشدگی کی حالت سے دن میں پانچ بار اللہ کے ذکر کے لئے نکالتی ہے اور اسے یہ حقیقت یاد دلاتی ہے کہ وہ مادر پدر آزاد نہیں ھے بلکہ وہ کسی عظیم ھستی ( اللہ تعالی ) کا غلام و بندہ ہے‘ کسی سے اس نے عہدِ اطاعت اور عہدِ وفا استوار کر رکھا ہے اور اسے اپنے تمام معمولات میں اس عہد و میثاق اور قول و قرار کی ھر صورت پابندی کرنی ہے. نماز سبب بنتی ہے کہ انسان ہمیشہ خدا کی یاد میں رہے اور اسے بھولے نہیں، نافرمانی اور سرکشی نہ کرے۔ خشوع و خضوع اور رغبت و شوق کے ساتھ اپنے دنیاوی اور اخروی حصہ میں اضافہ کا طلب گار ہو۔ اس کے علاوہ انسان نماز کے ذریعہ ہمیشہ اور ہر وقت خدا کی بارگاہ میں حاضر رہے اور اس کی یاد سے سرشار رہے۔ نماز گناہوں سے روکتی اور مختلف برائیوں سے منع کرتی ہے سجدہ کا فلسفہ غرور و تکبر، خودخواہی اور سرکشی کو خود سے دور کرنا اور خدائے وحدہ لا شریک کی یاد میں رہنا اور گناہوں سے دور رہنا ہے۔

Share:

اچھی نماز بنانے کے لئے محنت کیسے کی جائے

وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَO 

اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔


يه تو هر شخص جانتا هے كه كوئى بهي مقصد حاصل كرنے كيلئے محنت كرنا لازم وملزوم هے پهر يه بهي بات واضح هے كہ كامياب وهي هوتا هے جو محنت صحيح طريقه سے كررها هو اگر كوئى محنت تو كررها هے ليكن اسكا طريقه صحيح نهيں هے تو وه چاهے كتني هي محنت كرتا رهے وه كهبي بهي منزل پر نهيں پہنچ پائے گا إسكي مثال إسی طرح هے كه إيك شخص نے جانا تو إسلام آباد هے ليكن سفر وه كراچي كي طرف كررها هے وه چاهے كتني هي رفتار سے سفر كرتا رهے ليكن وه إسلام آباد كهبي بهي نهيں پہنچ سكے گا كيونكه اس کا رخ صحيح جانب نهيں هے

إسي طرح دين كے كسي بهي جز كي محنت كا فائده تب هوگا اگر وه صحيح نهج پر هوگي اور صحيح نهج وهي هوسكتي هے جو هميں رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  اور صحابه كرام رضوان اللہ علیھم سے محنت كا طريقه ملا اگر هم اپني مرضي كے طريقه پر محنت كريں گے تو كهبي بهي كامياب نه هونگے ليكن اگر وهي محنت رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كے طريقه پر هوگي تو إن شاء الله هم دونوں جهانوں ميں كامياب هوجائيں گے
جہاں تک نماز كي محنت کا تعلق ھے تو نماز كے فضائل اور فوائد حاصل كرنے كيلئے محنت ضروري چيز هے اور يه محنت رسول كريم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  كے طريقه پر هونا ضروري هے علمائے کرام نے شریعت کے مطابق ھمیں محنت کے مندرجہ ذیل تين طريقے بتائے ھیں :- 
دعوت دينا۔ مشق كرنا - دعا كرنا

نماز كي دعوت دینا 
نماز کی حقيقت كو پانے كے لئے نمازي كي پہلی محنت نماز كي دعوت دوسرے لوگوں كو دينا هے جتني زياده وه نماز كي دعوت دوسرے لوگوں کو دے گا اتنا هي جلد اور زياده نماز كي حقيقت كو پائے گا يه تو هر كوئى جانتا هے اور إس ميں كوئى شك بهي نهيں كه أمت ميں أعمال كا رواج كسي نه كسي درجه ميں موجود هے ليكن يه بهي إيك حقيقت هے كه أعمال تو هيں ليكن يه أعمال حقيقت سے خالي هيں صرف شكل هے اب هوتا يه هے كه دعوت دينے والا نماز كي دعوت جب بے نمازي كو ديتا هے اور پهر جب دل هي دل مين اپنا موازنه اس سے كرتا هے تو اپنے آپ كو بهتر سمجهتا هے تو چونكه وه بے نمازي كو سامنے ركهـ كر دعوت ديتا هے إس لئے لامحاله اپني نماز ميں وه كوئى كمي محسوس نهيں كرتا إس لئے اس پر محنت كرنا بهي ضروري نهيں سمجهتا ۔ بلاشبهه بے نمازي كو بهي نماز پڑهنے كي دعوت ديني هے ليكن بے نمازي كو سامنے ركهـ كر نهيں بلكه اپني نماز كي حقيقت كو سامنے ركهـ كر جس كو دعوت ديني هے اس سے كهيں زياده دعوت دينے والا نماز كي حقيقت كو پانے كا محتاج هے پهر يه بهي إيك واضح حقيقت هے كه بے نمازي سے بهي كهيں زياده نمازي كو دعوت دينے كي ضرورت هے نماز كي دعوت كا مقصد يهي هے كه همارے اندر نماز كي حقيقت آ جائے- غور كرنے سے يه فرق خود هي عياں هوجاتا هے حديث مباركه ميں هے كه نماز يا تو روشن اور چمكدار هوكر نمازي كے لئے دعا كرتي جاتي هے يا سياه رنگ ميں نمازي كے لئے بددعا كرتي جاتي هے كه إے الله جس طرح إس نمازي نے ميرے حق كو ادا نه كركے مجهے برباد كيا إسي طرح تو اسے بهي برباد كردے پهر يه نماز پرانے كپڑے كي طرح لپيٹ كر نمازي كے منه پر مار دي جاتي هے إسي طرح حديث مباركه ميں يه بهي آتا هے كه قبر ميں نماز نمازي كے سر كي طرف موجود هوگي اور قيامت والے دن جب نمازي الله تعالى كے سامنے كهڑا هوگا تو يه نماز ميزان پر اپنا وزن كروا رهي هوگي رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  معراج شريف سے جهاں نماز ساتهـ لے كر تشريف لائے تو وهاں نماز كي حقيقت بهي ساتهـ لائے تهے إس لئے دعوت دينے والے كے لئے ضروري هے كه جب وه دعوت دے تو بے نمازي كو سامنے ركهـ كر دعوت نه دے بلكه نماز كي حقيقت كو سامنے ركهـ كر دعوت دے نماز كے خشوع وخضوع كو سامنے ركهـ كر دعوت دے نماز كي صفت إحسان كو سامنے ركهـ كر دعوت دے كه الله تعالى اسے ديكهـ رهے هيں يا كم ازكم يه كه وه الله تعالى كو ديكهـ رها هے
چونكه دعوت دينے والے كا مقصد خود اپنے اندر نماز كي حقيقت كو بيدا كرنا هے إس لئے وه نماز كي حقيقت كي دعوت دے رها هے اگر هم بے نمازيوں كو سامنے ركهـ كر نماز كي دعوت ديں گے تو نماز كي حقيقت كو كهبي بهي نه پا سكيں گے نه هي همارى نماز ميں كوئى ترقي هوگي إس لئے نماز كي حقيقت كو سامنے ركهـ كر دعوت ديني هے إس حقيقت كو خوب كهول كهول كر بيان كيا جائے نماز كے فوائد جو دنيا اور آخرت ميں هميں مليں گے أنهيں خوب خوب سمجهايا جائے - حضور أكرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   كي نماز كے بارے ميں آچهي طرح بتايا جائے اور صحابه كرام رضوان الله عليهم كے واقعات بيان كيے جائيں كه أنهوں نے نماز پر كس طرح محنت كي اور نماز كے ذريعه سے هي الله تعالى سے اپنے مسائل حل كروائے تو لوگوں كا ذهن بنايا جائے كه جس طرح صحابه كرام رضوان الله عليهم نے نماز سے اپنا هر هر مسئله حل كروا ليا تو اگر آج هم بهي أسي يقين كيساتهـ نماز پڑهيں گے تو الله تعالى كے وعدے همارے لئے بهي وهي هيں جو صحابه كرام رضوان الله عليهم كے لئے تهے تو نماز كي دعوت ميں خوب خوب سمجهايا جائے جتني زياده آپ دعوت پر محنت كريں گے اتنا هي زياده نماز كا يقين آپ كے دل ميں آئے گا اور نماز كي حقيقت سمجهـ ميں آئے گی ۔ 

نماز كي مشق
نماز کی مشق دو إعتبار سے كرنا ضروري هوتي هے
1-ظاهري مشق 2- باطني مشق

1-ظاهري مشق
ظاهري مشق ميں سب سے پہلے شرائطِ نماز كا إهتمام آتا هے
1- نمازی کے بدن كا پاک هونا:
اس کی دو قسمیں ہیں،
1-حدثِ اکبر یا جنابت یعنی غسل فرض ہونا،
2- حدثِ اصغر یعنی بے وضو ھونا یا بحالتِ مجبوری تیمم ہونا،
2- نمازی کے کپڑوں کا پاک ہونا: ويسے مشق تو يهي هو كه نمازى كے كپڑے هروقت پاك هوں اور جب بهي كوئى ناپاكي كپڑوں كو لگ جائے تو فوراً اسے دهو كر پاك كرليا جائے بهرحال نمازى كا لباس جسے پہن كر وه نماز ادا كرنا چاه رها هے وه پاك هونا نماز كي شرائط ميں شامل هے
3- نمازى کی جگہ کا پاک ہونا: نمازي كو إسبات كا بهي إهتمام كرنا ضرورى هے كه وه پاك جگه پر نماز ادا كرے كيونكه نماز کے صحیح ہونے کے لئے نماز پڑہنے کی جگہ کا پاک ہو نا بهي لازمي شرط ہے
4- نمازی کا ستر كا ڈھانپنا:
ستر کا ڈھانپنا بھی شرائط نماز میں شامل ھے ۔ آزاد بالغ عورت كا بدن اور سر دونوں کا ڈھانپنا ضروری ہے
5- پابندیِ وقت: نماز کی ايك شرط ’’نماز مقررہ اوقات کے اندر ادا کرنا‘‘ ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًاO ’’بے شک نماز مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہےo‘‘ 6- قبلے کی طرف منھ کرنا: نمازى كا قبلہ کی طرف منھ کرنا جبکہ اس پر قادر ہو نماز صحیح ہونے کےلئے شرط ہے،

7- نیت كرنا : خالص اللّٰہ تعالٰی کے واسطے نماز پڑھنے کے ارادہ کو نماز کی نیت کہتے ہیں۔ يه بهي نماز كى شرائط ميں سے إيك شرط هے انیت میں دل کا عمل معتبر ہے اس لئے زبان سے کہنا فرض نہیں بلكه مستحب ہے، نیتِ قلبی کے بغیر زبان کی نیت بے کار ہے -
ظاهري مشق ميں نماز كے فرائض - واجبات اور سنن وغيره كا إهتمام هونا يعني تکبیر تحریمہ ، قيام ، قرأءت ، ركوع ، قومه ، سجود ، جلسه اور قعده وغيره بالكل صحيح طریقہ سے اور اطمینان کا ساتھ کرنا ضروری هے

2- باطني مشق
اللہ تعالی كا يقين و دهيان ، الله تعالى كا خوف اور دل ميں نماز سے الله تعالى كي خزانوں سے ملنے كا كامل يقين هونا ۔ نماز كي باطني مشق سے مراد دوران نماز صرف الله تعالى كي طرف هي دهيان هونا ، الله تعالى كا خوف هونا ،نماز ميں الله تعالى كا كامل يقين هونا اور دل ميں نماز سے الله تعالى كي خزانوں سے ملنے كا كامل يقين هونا اور جب بهي كوئى ضرورت پيش آئے تو توجه كا فوراً نماز كي طرف جانا هے
عجزو انکساری اور ادب کے ساتھ دلی توجہ کا دوسرا نام ”خشوع“،ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ مومنین نماز کو ایک بے رُوح ڈھانچہ نہیں سمجھتے بلکہ ان کی پوری توجہ نماز کی باطنی کیفیت اور حقیقت پر ہوتی ہے، اکثر لوگ ایسے ہیں جو نماز میں از حد کوشش کرتے ہیں کہ عالمِ نماز میں خضوع وخشوع اور الله کی طرف دلی توجہ کریں، مگر وہ ایسا نہیں کرپاتے، نماز اور دیگر عبادات کے دوران خضوع، خشوع اور حضور قلب کے لئے مندرجہ ذیل امور میں پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے:
1۔ معلومات کواس حد تک پہنچانے کہ انسان کی نگاہ میں دنیا کی ذلت وپستی اور الله کی رفعت وبلندی اور عظمت وبزرگی واضح ہوجائے تاکہ کوئی بھی دنیاوی امر بارگاہ میں حاضری کے وقت اپنی طرف متوجہ نہ کرسکے ۔
2۔ پریشان خیالی اور ذہنی انتشار جو اس کو ایک طرف مرکوز رکھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، لہٰذا انسان جتنا ان کو کم کرے، دلی توجہ اور یکسوئی میں ممدو معاون ثابت ہوگا ۔
3۔ نماز اور دیگر عبادات کے لئے مقام کا محلّ وقوع بھی خاصہ موٴثر ہے، اسی بناء پر اپنی جگہوں پر نماز ادا کرنا مکروہ ہے، جو انسان کی توجہ کو ہٹانے کا سبب ہوں، مثلاً آئینے کے سامنے نمازپڑھنا، کھلے دروازوں کے سامنے جہاں سے لوگوں کی آمد ورفت ہوتی ہو، نماز پڑھنا اور کسی تصویر یا پُرکشش منظر کے سامنے نماز ادا کرنا وغیرہ اسی وجہ سے مساجد غير ضرورى زیب وزینت اور آرائش سے خالی ہونی چاہئیں تاکہ نمازي كى توجه الله تعالى کی طرف ہی رہے ۔
4۔ گناہ سے پرہیز کرنا، کیونکہ گناہ کے ارتکاب سے انسان الله سے دُور ہوجاتا ہے اور نماز میں حضور قلبی سے محروم رہتا ہے ۔
5۔ نماز میں جو کچھ پڑھا جاتا ہے اس کے معنی اور اس کے افعال واذکار سے واقفیت حاصل کرنا اور نماز کے مخصوص آداب اور مستحبات کو ادا کرنا چاہے ان کا تعلق مقدمات نماز سے ہو یا خود اصل نماز سے ۔
6- مذکورہ بالا تمام امور سے قطع نظر نماز ميں دهيان اور توجه يعني خضوع وخشوع کے حصول کے لئے مسلسل اور پیہم مشق اور پوری توجہ کی ضرورت ہے، کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان شروع شروع میں تھوڑی دیر کے لئے دلی یکسوئی پیدا کرلیتا ہے اور اگر وہ اس کی مسلسل مشق کرے اور ہر نماز میں برابر اس کے اضافے کی کوشش کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ایسا ملکہ پیدا نہ کرے کہ ہمیشہ حالتِ نماز میں وہ غیر الله سے بالکل بے نیاز ہوجائے ۔
7-ایمان کی تجدید اور نافرمانی سے بچنا بهي نماز ميں توجه حاصل كرنے كے لئے ضروري هے چونکہ ایمان کے بعد نافرمانی غفلت سے ہوتی ہے اور نماز غفلت زائل کرنے کا اہم ذریعہ ہے، اسی سے اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس پر ایمان کا جذبہ تازہ ہوتا ہے۔
8- هر وقت دل ميں اللہ کی محبت وخشیت بهي نماز ميں خشوع وخضوع پيدا كرنے كا إيك سبب هے چونکہ نماز کے دوران اللہ تعالیٰ کی عبادت میں جسم کے تمام اعضاء حصہ لیتے ہیں اس سے محبت الٰہی کا جذبہ پورے جسم میں سرایت کرتا ہے اور پھر طبیعت اتباع شریعت پر آمادہ ہوتی ہے، گویا نماز ظاہری و باطنی طور پر یاد الہی ہے۔ اسی طرح عام زندگی کی تمام حالتیں (کھڑا ہونا، بیٹھنا، جھکنا، لیٹنا، حرکت کرنا، پرسکون ہونا) نماز میں جمع ہیں۔ جب ان تمام حالتوں میں اللہ تعالیٰ کی یاد رہتی ہے تو باہر کی زندگی میں ان تمام حالتوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہونے کی مشق ہو جاتی ہے۔
9- نماز چونکہ سراسر اللہ تعالیٰ کی یاد ہے، جب یہ یاد کامل طور پر پائی جائیگی تو کبھی بھی اس کے ساتھ گناہ جمع نہیں ہو سکے گا یعنی اس سے اللہ تعالیٰ کی خشیت پیدا ہوگی اور وہ گناہوں سے بچانے کا سبب بنے گی۔ اسی طرح”مالک یوم الدین“ کا تذکرہ آخرت کی بھی یاد دہانی کا باعث بنتا ہے الغرض نماز خود بهي محبت اور خشیت الہی کے جذبات پیدا کرتی ہے إس لئے نمازى كے لئے الله تعالى كي محبت اور خشيت كي مشق هونا بهت ضروري أمور ميں سے هے اور نمازي کے يه لطيف جذبات اتباع شریعت کا اہم جزهيں خلاصہ کلام يه کہ نماز ہی سے اسلامی زندگی کی نشوونما ہوتی ہے بشرطيكه نماز صحيح معنوں ميں نماز هو۔
يقين والي نماز كے لئے الله تعالى سے رو رو کر دُعا كرنا
سب کچھ کرنے كے بعد كاميابي دينے والي ذات صرف اور صرف الله تعالى كي هے إس لئے دعوت اور مشق كا عمل كرنے كے بعد تيسرا اور آخرى كام الله تعالى سے رو رو كر اور گڑگڑا كر دعا مانگني بهت ضرورى هے.
اللہ تعالی کو یہ بات بہت پسند ہے کہ اس سے مانگا جائے، ہر چیز کے لئے امید اسی سے لگائی جائے، بلکہ جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ تعالی اس پر غضبناک ہوتا ہے، اسی لیے اپنے بندوں کو مانگنے کے لئے ترغیب بھی دلاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ[غافر]
ترجمہ: اور تمہارے رب نے کہہ دیا ہے کہ: مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کرونگا۔

اللہ سے دعا مانگنے کا دین میں بہت بلند مقام ہے، حتی کہ رسول کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے یہاں تک فرما دیا: (دعا ہی عبادت ہے) ترمذی - ابو داود - ابن ماجہ






Share: