صحت و عافیت کے لیے دعائیں

 

 

 1. عمومی صحت کے لیے دعا:

 • “اللهمّ اشفني شفاءً لا يغادر سقماً.”

 • ترجمہ: “اے اللہ! مجھے ایسی شفا عطا فرما جو کسی بیماری کو باقی نہ رہنے دے۔”


 2. بیماری کے دوران دعا:

 • “اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ، أَذْهِبِ البَاسَ، اشْفِ أَنتَ الشَّافِي، لا شِفَاءَ إِلاَّ شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لا يُغَادِرُ سَقَمًا.”

 • ترجمہ: “اے اللہ، لوگوں کے رب، تکلیف کو دور فرما، شفا عطا فرما، تو ہی شفا دینے والا ہے۔ تیری شفا کے سوا کوئی شفا نہیں، ایسی شفا عطا فرما جو کسی بیماری کو باقی نہ چھوڑے۔”


 3. صحت و عافیت کی دعا:

 • “اللهمّ إنّي أسألك العفو والعافية في الدنيا والآخرة.”

 • ترجمہ: “اے اللہ! میں تجھ سے دنیا و آخرت میں معافی اور عافیت کا سوال کرتا ہوں۔”


 4. قرآنی دعا:

 • “وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ” (سورہ الشعراء: 80)

 • ترجمہ: “اور جب میں بیمار ہوتا ہوں، تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔”


یہ دعائیں خلوص دل  سے مانگیں 


شفاء کے لیے مزید دعائیں 


 1. نبی کریم ﷺ کی سکھائی ہوئی دعا:

 • “اللهمّ إنّي أعوذُ بِكَ مِنَ البَرَصِ، والجُنُونِ، والجُذَامِ، وسَيِّئِ الأسْقَامِ.”

 • ترجمہ: “اے اللہ! میں تجھ سے برص، پاگل پن، کوڑھ اور تمام بری بیماریوں سے پناہ مانگتا ہوں۔”


 2. دعا برائے حسد و نظرِ بد:

 • “بِسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ، مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيكَ، مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَيْنٍ حَاسِدٍ، اللَّهُ يَشْفِيكَ، بِسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ.”

 • ترجمہ: “اللہ کے نام سے میں تمہیں جھاڑ پھونک کرتا ہوں، ہر اس چیز سے جو تمہیں نقصان دے، ہر نفس کے شر سے یا ہر حاسد کی نظر کے شر سے۔ اللہ تمہیں شفا دے۔ اللہ کے نام سے میں تمہیں جھاڑ پھونک کرتا ہوں۔”


 3. مشکل اور بیماری کی حالت میں دعا:

 • “حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ.”

 • ترجمہ: “میرے لیے اللہ کافی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہی عرش عظیم کا رب ہے۔”


 4.  نظرِ بد کے لئے قرانی دعا:

 • “قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ، مِن شَرِّ مَا خَلَقَ.” (سورہ الفلق: 1-2)

 • ترجمہ: “کہو، میں فلق کے رب کی پناہ میں آتا ہوں، ہر اُس چیز کے شر سے جو اُس نے پیدا کی۔”


 5. شفایابی کے لئے مسنون دعا:

 • “أسْألُ اللهَ العَظِيمَ، رَبَّ العَرْشِ العَظِيمِ، أنْ يَشْفِيَكَ.” (سات مرتبہ)

 • ترجمہ: “میں اللہ سے سوال کرتا ہوں، جو عظیم ہے، عرش عظیم کا رب ہے، کہ وہ تمہیں شفا عطا فرمائے۔”


 6. دعا برائے آسانی:

 • “رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي، وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي.” (سورہ طہ: 25-26)

 • ترجمہ: “اے میرے رب! میرا سینہ کھول دے اور میرے کام کو آسان کر دے۔”


 7. صبح و شام کی دعا:

 • “اللّهُمَّ عَافِنِي فِي بَدَنِي، اللّهُمَّ عَافِنِي فِي سَمْعِي، اللّهُمَّ عَافِنِي فِي بَصَرِي، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ.”

 • ترجمہ: “اے اللہ! میرے جسم کو عافیت عطا فرما، میرے کانوں کو عافیت دے، میری آنکھوں کو عافیت دے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔”


ان دعاؤں کو توجہ، یقین اور اخلاص کے ساتھ پڑھیں۔   ان شاء اللہ اللہ پاک تمام بیماریوں سے شفاءِ کاملہ عطا فرمائیں گے ۔ 


Share:

میرا غفلت میں ڈوبا دل بدل دے

 میرا غفلت میں ڈوبا دل بدل دے

ہوا و حرص والا دل بدل دے


خدایا ! فضل فرما دل بدل دے

بدل دے دل کی دنیا دل بدل دے


گناہ گاری میں کب تک عمر کاٹوں

بدل دے میرا رستہ دل بدل دے


سنوں میں نام تیرا دھڑکنوں میں

مزا آ جائے مولا دل بدل دے


ہٹا لوں آنکھ اپنی ماسوا سے

جیوں میں تیری خاطر دل بدل دے


کروں قربان اپنی ساری خوشیاں

تو اپنا غم عطا کر دل بدل دے


سہل فرما مسلسل یاد اپنی

خدایا رحم فرما دل بدل دے


پڑا ہوں تیرے در پہ دل شکستہ

رہوں کیوں دل شکستہ دل بدل دے


تیرا ہو جاؤں اتنی آرزو ہے

بس اتنی ہے تمنا دل بدل دے


میری فریاد سن لے میرے مولا

بنا لے اپنا بندہ دل بدل دے


میرا غفلت میں ڈوبا دل بدل دے

دلِ مغموم کو مسرور کر دے


دل بے نور کو پر نور کر دے

میرا ظاہر سنور جائے الٰہی


میرے باطن کی ظلمت دور کر دے

مئے وحدت پلا مخمور کر دے


محبت کے نشے میں چور کر دے

میرا غفلت میں ڈوبا دل بدل دے


( حضرت مولانا پیر حافظ  ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی )

Share:

حضرت امّ معبد خزاعیہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا

رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی عمر مبارک جب 53 سال ھوئی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اللہ تعالی کے حکم سے مدینہ منورہ کی جانب ھجرت فرمائی ۔ ہجرت کے اس سفر میں کئی دلچسپ اور سبق آموز واقعات پیش آئے جن میں ایک معجزانہ اور حیرت انگیز وہ واقعہ بھی ہے جس کا تذکرہ احادیث و سیرت کی کتابوں میں ہجرت کے بیان میں اہتمام سے کیا گیا ہے۔ یہ ناقابل فراموش واقعہ دوران سفر صحراء قُدید سے گزرتے ہوئے  ام معبدخزاعیہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کے خیمہ میں پیش آیا

جس زمانے میں آفتاب اسلام فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہو رہاتھا مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ جانے والے راستے پر قدید نام کی ایک چھوٹی سی بستی صحرا کے متصل واقع تھی۔ یہ  تقریباً وہی جگہ ہے جہاں ام معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کا خیمہ تھا اور مدینہ منورہ  ہجرت کے وقت سوکھی بکری والا معجزہ یہاں پر ظاہر ہوا تھا اور ام معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا نے نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا حلیہ مبارک جن عظیم الفاظ میں بیان کیا اہل علم آج بھی ان پر انگشت بدنداں ہیں- 

اس خیمہ میں ایک مختصر سا غریب خاندان اپنی زندگی کے دن بڑی عجیب انداز میں گزار رہا تھا۔ اس گھرانے کی ساری متاع لے دے کے ایک خیمے، بکریوں کے ایک ریوڑ، گنتی کے چند برتنوں اور مشکیزوں پر مشتمل تھی۔ خاندان کا سربراہ ایک جفاکش بدوی تمیم بن عبدالعزّیٰ خزاعی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ تھا۔ اس کا بیشتر وقت بکریاں چرانے میں گزرتا تھا۔ تمیم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی اہلیہ اسکی بنتِ عم عاتکہ بنت خالد(بن خلیف بن منقذ بن ربیعہ بن احرم بن خبیس بن حرام بن حبیثہ بن سلول بن کعب بن عمرو) رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا تھی۔ دونوں کا تعلق بنو خزاعہ کی شاخ بنی کعب سے تھا۔ عاتکہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا  ایک پاک دامن، باوقار اور بلند حوصلہ خاتون تھی۔ اور اپنی کنیت ’’امّ معبد‘‘ سے مشہور تھی۔ وہ عربوں کی روایتی مہمانداری سے خاص طور پر متّصف تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں ایثار اور خدمت خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا۔ افلاس اور تنگدستی کے باوجود وہ قدید سے گزرنے والے مسافروں کی نہایت خوشدلی سے میزبانی کیا کرتی تھی۔ اور ان کی خدمت اور تواضع میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتی تھی۔ پانی، دودھ، کھجوریں، گوشت جو کچھ میسر ہوتا مہمانوں کی خدمت میں پیش کر دیتی تھیں۔ جب کوئی مسافر اسکے خیمے میں سستا کر آگے روانہ ہوتا تو اسکی زبان پر امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کیلئے تعریف و تحسین اور دعائیں ہی ہوتی تھی، اس طرح امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کا نام مسافروں کی بے لوث خبر گیری اور خدمت و تواضع کی بدولت دور دور تک مشہور ہو گیا تھا اور لوگ اسکی عالی حوصلگی اور شرافت کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔

بعثت نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے تیرہویں سال تک امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کو خلقِ خدا کی خدمت کرتے سالہا سال گزر چکے تھے اور وہ جوانی کی منزلوں سے گزر کر پختہ عمر کو پہنچ چکی تھی۔ اس وقت رحمت عالم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  عرب کے صحرا نشینوں میں ’’صاحب قریش صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ‘‘ کے لقب سے مشہور تھے۔ تمیم اور امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُھما کے کانوں میں بھی ’’صاحب قریش صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ‘‘ اور آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی دعوت کی بھنک پڑ چکی تھی، تاہم وہ زندگی کی ڈگر پر اپنے معمول کے مطابق چلتے رہے۔ ان غریب اور سادہ مزاج بدویوں کیلیے یہ بڑا کٹھن کام تھا کہ ایسی باتوں کی تحقیقی کیلئے دور دراز کی خاک چھانتے پھریں لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ ایک دن انکی صحرائی قیام گاہ صاحب قریش صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی طلعت اقدس سے جگمگا اٹھے گی اور کائنات ارضی اور سماوی کا ذرہ ذرہ اس کے مکینوں کی خوش بختی پر رشک کرے گا۔

ربیع الاوّل سنہ 13 بعثت نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ میں رحمت عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارضِ مکہ کو الوداع کہا اور تین راتیں غار ثور میں گزار کر عازم مدینہ ہوئے۔ اس وقت حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اور حضرت عامر بن فہیرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ آپ کے ہم رکاب تھے۔ حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ایک اونٹنی پر سوار تھے اور وہ دونوں دوسری اونٹنی پر۔ اس مقدس قافلے کے آگے آگے عبداللہ بن اریقط لیثی پیدل چل رہا تھا۔ وہ غیر مسلم ہونے کے باوجود ایک قابل اعتماد شخص تھا اور مکہ سے مدینے جانے والے تمام راستوں سے واقف تھا۔ اسلیے حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے راستہ بتانے کیلیے اسے اجرت پر اپنے ساتھ لے لیا تھا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ سانڈنی پر سرور عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اور حضرت صدیق اکبر  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سوار تھے اور دوسری پر حضرت عامر بن فہیرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اور عبداللہ بن قریقط۔ یہ مختصر قافلہ قدید کے مقام پر پہنچا تو حضرت اسماء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ (ذات النطاقین) بنت صدیق اکبر نے غار سے روانگی کے وقت جو کھانا ساتھ کیا تھا وہ ختم ہو چکا تھا اور سرور عالم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اور آپ کے ساتھیوں کو بھوک اور پیاس محسوس ہو رہی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے حضرت امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کی شہرت سن رکھی تھی اور انہیں یقین تھا کہ اسکی قیام گاہ پر کھانے پینے کا کچھ انتظام ہو جائیگا۔ چنانچہ یہ مقدس اور متبرک قافلہ امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کے خیمے پر جا کر رکا۔

ام معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا اس وقت اپنے خیمے کے آگے صحن میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان دنوں خشک سالی نے سارے علاقے پر قیامت ڈھا رکھی تھی اس وجہ سے امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا  کے گھرانے پر پیغمبری  وقت آن پڑا تھا۔ بڑی تنگی ترشی سے گزر بسر ہو رہی تھی۔ حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ص نے امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا: ’’دودھ، گوشت، کھجوریں، کھانے کی کوئی چیز تمہارے پاس ہو تو ہمیں دو، ہم تمہیں اسکی قیمت ادا کرینگے۔‘‘ امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا نے بصد حسرت جواب دیا۔: خدا کی قسم اس وقت کوئی چیز ہمارے گھر میں آپ کو پیش کرنے کیلئے موجود نہیں ہے۔ اگر ہوتی تو فوراً حاضر کر دیتی۔‘‘

اتنے میں حضور اکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی نظر ایک مریل سی بکری پر پڑی جو خیمے میں ایک طرف کھڑی تھی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: ’’معبد کی ماں اگر اجازت ہو تو ھم اس بکری کا دودھ دوہ لیں۔‘‘ امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا نے کہا۔:’’ آپ بڑے شوق سے دودھ دوہ لیں مگر مجھے امید نہیں کہ یہ دودھ کا ایک قطرہ بھی دے۔‘‘

اب وہ بکری حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے سامنے لائی گئی۔ آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اسکے پاؤں باندھے اور اسکی پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر دعا کی۔: ’’الٰہی اس عورت کی بکریوں میں برکت دے۔‘‘ اسکے بعد چشم فلک نے ایک تحیّر خیز نظارہ دیکھا۔ سید المرسلین فخر موجودات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر جونہی بکری کے تھنوں کو چھوا، تھن فی الفور دودھ سے بھر گئے اور بکری ٹانگیں پھیلا کر کھڑی ہو گئی۔ حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ایک بڑا برتن منگا کر دودھ دوہنا شروع کردیا، جلد ہی یہ برتن لبالب بھر گیا۔ آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے پہلے یہ دودھ امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو پلایا، اس نے خوب سیر ہو کر پیا، پھر آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اپنے ساتھیوں کو پلایا، جب وہ بھی سیر ہو گئے تو آخر میں آپ نے خود نوش فرمایا  : اس کے بعد حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے دوبارہ دودھ دوہنا شروع کیا یہاں تک کے برتن پھر لبالب بھر گیا۔ یہ دودھ رحمت عالم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کے لیے چھوڑ دیا اور آگے روانہ ہوئے۔

امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کا بیان ہے کہ جس بکری کا دودھ حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے دوہا تھا وہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کے دور خلافت تک ہمارے پاس رہی، ہم صبح و شام اسکا دودھ دوہتے تھے اور اپنی ضرورتیں بخوبی پوری کرتے تھے۔

طبقات ابن سعد کی ایک روایت میں ہے کہ اس موقع پر امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا  نے ایک بکری ذبح کرکے حضور اکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  اور آپ کے ساتھیوں کو کھانا کھلایا اور ناشتہ بھی ساتھ کر دیا۔ لیکن دوسرے اہل سیئر نے بکری ذبح کرنے کا ذکر نہیں کیا۔ 

رحمت عالم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے تشریف لے جانے کے تھوڑی دیر بعد امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کا شوہر اپنے ریوڑ کو لے کر جنگل سے واپس آیا۔ خیمے میں دودھ سے بھرا برتن دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اہلیہ سے پوچھا: ’’معبد کی ماں رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  یہ دودھ کہاں سے آیا؟‘‘

امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا نے جواب دیا: ’’خدا کی قسم ایک بابرکت مہمان عزیز کا یہاں ورود ہوا۔ انہوں نے بکری کو دوہا۔ خود بھی اپنے ساتھیوں سمیت سیر ہو کر پیا یہ دودھ ہمارے لیے بھی چھوڑ گئے۔‘‘

پھر اس نے تفصیل کے ساتھ سارا واقعہ بیان کیا۔ ابومعبد تمیم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا: ’’ذرا اسکا حلیہ تو بیان کرو۔‘‘ امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا  نے بے ساختہ سید البشر  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا جو حلیہ مبارک بیان کیا ، تاریخ نے اسے اپنے صفحات میں ھمیشہ کے لئے محفوظ کرلیا ہے۔ ام معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا نے کہا:

قالت أُمِّ مَعْبَدٍ فی وصف النبیﷺ

رَأَيْتُ رَجُلًا ظَاهِرَ الوَضَأَةِ ، أَبْلَجَ الوَجْهِ ، حَسَنَ الخَلْقِ ، لَمْ تَعِبْهُ ثُجْلَةٌ ، وَلَمْ تُزْرِيهِ صُعْلَةٌ ، وَسِيمٌ قَسِيمٌ ، فِي عَيْنَيْهِ دَعَجٌ ، وَفِي أَشْفَارِهِ وَطَفٌ ، وَفِي صَوْتِهِ صَهَلٌ ، وَفِي عُنُقِهِ سَطَعٌ ، وَفِي لحْيَتِهِ كَثَاثَةٌ ، أَزَجُّ، أَقْرَنُ ، إِنْ صَمَتَ فَعَلَيْهِ الوَقَارُ ، وَإِنْ تَكَلَّمَ سَمَاهُ وَعَلَاهُ البَهَاءُ ، أَجْمَلُ النَّاسِ ، وَأَبْهَاهُ مِنْ بَعِيدٍ ، وَأَحْسَنُهُ وَأَجْمَلُهُ مِنْ قَرِيبٍ ، حُلْوُ المَنْطِقِ ، فَصْلًا لَا نَزْرَ وَلَا هَذَرَ ، كَأَنَّ مَنْطِقَهُ خَرَزَاتُ نَظْمٍ يَتَحَدَّرْنَ ، رَبْعَةٌ لَا تَشْنَؤُهُ مِنْ طُولٍ ، وَلَا تَقْتَحِمُهُ عَيْنٌ مِنْ قِصَرٍ ، غُصْنٌ بَيْنَ غُصْنَيْنِ ، فَهُوَ أَنْضَرُ الثَّلَاثَةِ مَنْظَرًا ، وَأَحْسَنُهُمْ قَدْرًا ، لَهُ رُفَقَاءُ يَحُفُّونَ بِهِ ، إِنْ قَالَ سَمِعُوا لِقَوْلهِ ، وَإِنْ أَمَرَ تَبَادَرُوا إِلَى أَمْرِهِ ، مَحْفُودٌ مَحْشُودٌ ، لَا عَابِسَ، وَلَا مُفَنِّدَ

اردو ترجمہ

  ام معبد نبی پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کے بارے میں بتاتی ہیں  

میں نے ایک شخص کو دیکھا ، جس کی نظافت نمایاں ، جس کا چہرہ تاباں ، اور جس کی ساخت میں تناسب تھا ، پاکیزہ اور پسندیدہ خو ، نہ فربہی کا عیب نہ لاغری کا نقص ، نہ پیٹ نکلا ہوا ، نہ سر کے بال گرے ہوئے ، چہرہ وجیہہ ، جسم تنومند اور قد موزوں تھا ، آنکھیں سر مگیں  ، فراخ اور سیاہ تھیں ، پتلیاں کالی اور آنکھوں کی سفیدی بہت سفید تھی ، پلکیں لمبی اور گھنی تھیں ، ابرو ہلالی ، باریک اور پیوستہ ، گردن لمبی اور صراحی دار ، داڑھی گھنی اور گنجان ، سر کے بال سیاہ اور گھنگھریالے  ، آواز میں کھنک کے ساتھ لطافت ، بات کریں تو رخ اور ہاتھ بلند فرمائیں  ، کلام شیریں اور واضح  ، نہ کم سخن اور نہ بسیار گو ، گفتگو اس انداز کی جیسے پروئے ہوئے موتی ، دور سے سنو تو بلند آہنگ ، قریب سے سنو تو دلفریب ، کلام نہ طویل نہ بے مقصد بلکہ شیریں ، جامع اور مختصر، خاموشی اختیار کرے ، تو پر وقار اور تمکین نظر آئے ، قد نہ درازی سے بد نما ، اور نہ اتنا پستہ کہ نگاہ بلند تر پر اٹھے ، لوگوں میں بیٹھے تو سب سے جاذب  ، دور سے نظریں ڈالیں تو بہت با رعب ، دو نرم و نازک شاخوں کے درمیان  ، ایک شاخِ تازہ جو دیکھنے میں خوش منظر ، چاند کے گرد ہالے کی طرح رفیق گرد و پیش ، جب کچھ کہے تو سراپا گوش ، حکم دے تو تعمیل میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں ، سب کا مخدوم  ، سب کا مطاع  ، مزاج میں اعتدال ، تندی اور سختی سے دور

 ابو معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ یہ صفات سن کر بول اٹھے کہ خدا کی قسم یہ تو وہی صاحب قریش صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ تھے جن کا ذکر ہم سنتے رہتے ہیں، میں ان سے جا کر ضرور ملوں گا۔

حضرت امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا  کے قبول اسلام کی دو مختلف روایات ملتی ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ ان کے کانوں میں ’’صاحب قریش صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ‘‘ کی بھنک پہلے سے پڑ چکی تھی۔ چنانچہ جب پہلے پہل ان کی نظر حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے رخ انور پر پڑی تو ان کے دل نے گواہی دی کہ یہ وہی صاحب قریش صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ہیں جو توحید کے داعی اور نیکی و ہدایت کا سرچشمہ ہیں۔ بکری کا واقعہ دیکھا تو انہیں قطعی یقین ہو گیا کہ مہمان عزیز اللہ کے سچے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ہیں چنانچہ وہ اسی وقت سچے دل سے مسلمان ہو گئیں اور حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے ان کیلیے دعائے خیر و برکت فرمائی۔

دوسری روایت یہ ہے کہ حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے مدینہ منورہ تشریف لیجانے کے بعد ابو معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اور امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا  دونوں میاں بیوی ہجرت کرکے مدینہ پہنچے اور رحمت عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی خدمت میں حاضر ہو کر سعادت ایمانی سے بہرہ مند ہوئے۔

حضرت امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کی زندگی کے مزید حالات تاریخوں میں نہیں ملتے تاہم ان کی زندگی کے ایک واقعے نے جو اوپر بیان ہوا ہے انہیں شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں اتنا بلند مقام عطا کردیا کہ ملت اسلامیہ کے تمام افراد ابد الآباد تک اس پر رشک کرتے رہیں گے۔

 یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ حج کے زمانہ میں ازواج مطہرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُن سے ام معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کی ملاقات بھی ہوئی، اور حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے زمانۂ خلافت کے اخیر میں یا حضرت عثمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کے عہد خلافت میں ام معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کاا نتقال ہوا۔

Share:

پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو

آج بد قسمتی سے ہمارے معاشرہ میں سب سے سستی اور بے قیمت چیز اگر ہے تو وہ وقت ہے، اس کی قدر وقیمت کا ہمیں قطعاً احساس نہیں، یہی وجہ ہے کہ وقت کے لمحات کی قدر نہ کرنے سے منٹوں کا، منٹوں کی قدر نہ کر نے سے گھنٹوں کا ،گھنٹوں کی قدر نہ کرنے سے ہفتوں کا ، ہفتوں کی قدر نہ کر نے سے مہینوں کا ،اور مہینوں کی قدر نہ کر نے سے سالوں اور عمروں کا ضائع کر نا ہمارے لیے ایک عام سی بات بن گیا ھے ۔ 

                ہم لو گ بیٹھکوں، چوپالوں ، ہو ٹلوں ،   اجتمائی اور نجی مجالس میں وقت گزاری کر تے ہیں اور ہمارا کتنا ہی قیمتی وقت نکتہ چینی، غیبت، بہتان اور بے تحاشا سونے میں ضائع ہو جاتا ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا  چنانچہ سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفی  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِرَجُلٍ وَهُوَ يَعِظُهُ: اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: شَبَابَكَ قَبْلَ هِرَمِكَ ، وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ ، وَغِنَاءَكَ قَبْلَ فَقْرِكَ ، وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ ، وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ ” (الحاكم و صحيح الجامع الصغير )

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، مالداری کو محتاجی سے پہلے، فراغت کو مشغولیت سے پہلے، اور زندگی کو موت سے پہلے

درج بالا حدیثِ مبارکہ رسول کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی امت کے لئے ایک جامع وصیت ہے جس میں رسول کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اُمت کو  اللہ تعالی کی وہ نعمتیں یاد دلائی ہیں جن سے ہم محظوظ ہورہے ہیں، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ہمیں ان نعمتوں کی قدرکرنے اورغنیمت سمجھنے کی تاکید کی ہے نیزان نعمتوں کے ختم ہوجانے سے پہلےیاکوئی عارضہ لاحق ہونے سے پہلے نیک اعمال کی بجاآوری میں مبادرت وپہل کرنے کی ترغیب دی ہے ، چنانچہ سب سے پہلے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اس آدمی کو اور اس کے ذریعہ اپنی پوری امت کو یہ نصیحت اور وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ ا پنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے غنیمت جانو کیوں کہ جوانی میں انسان کے اندرطاقت وقوت زیادہ ہوتی ہے ،جوش وجذبہ زیادہ ہوتا ہے،عزم جواں اور ہمت بلند ہوتی ہے، حرکت وسرگرمی زیادہ پائی جاتی ہے، اس کے برعکس بڑھاپے میں انسان ضعف واضمحلال کا شکار ہوتا ہے ، اپنے اندرعاجزی وبے بسی محسوس کرتا ہے، دست وپا جواب دینے لگتے ہیں، اس لئے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا اپنی جوانی کو اپنے بوڑھاپے سے پہلے غنیمت جانو ، اللہ نے جوانی دی ہے اپنی جوانی کو اللہ کی عبادت اور اسکی معرفت حاصل کرنے میں صرف کیجئے، توحید اور شرک کے فرق کو جانئے اور سمجھئے،  علم حاصل کیجئے، شرعی احکام کو سمجھئے پھر پوری بصیرت کے ساتھ اللہ تعالی کی عبادت وبندگی کیجئے، اللہ کے فرائض و واجبات کا اہتمام کیجئے ، محرمات ومنکرات سے بچئیے ، لوگوں کو بھلائی کاحکم دیجئے اور برائیوں سے روکئے ، خیروبھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجئے کیوں کہ آج جوانی ہے  کل  بڑھاپا  اور شیخوخت طاری ہوجائے گی۔

دوسری وصیت ونصیحت رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے یہ فرمائی کہ اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلےغنیمت جانو، آج صحت وتندرستی ہے ممکن ہے کل آدمی بیمار ہوجائے اور ممکن ہے یہ بیماری جو اسے لاحق ہوئی ہے وقتی اور عارضی ہو یا یہ بیماری طول پکڑجائے یا آدمی دائم المریض ہوجائے، شفایابی ممکن نہ ہو، یا یہ کہ بیماری انسان کو قبر میں پہنچادے ،اس لئے اپنی صحت وعافیت کو غنیمت سمجھئے اور نیک اعمال کی بجاآوری میں مسارعت وپہل کیجئے ، کیوں کہ صحت وتندرستی انسان کے ساتھ ہمیشہ نہیں رہتی، ہر صحت کے بعد بیماری مقدر ہے ، فرمان الہی ہے 

اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ضعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ضعْفًا وَّشَيْبَةً ۭ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ۚ وَهُوَ الْعَلِيْمُ الْقَدِيْرُo

وہ اللہ ہے جس نے تم سب کو کمزور پیدا کیا، پھر کمزوری کے بعد قوت دی، پھر قوت کے بعد کمزور اور بوڑھا بنا دیا، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ تو بڑا جاننے والا، بڑی قدرت والا ہے‘‘ ( سورہ روم )

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی وہ تدریجی حالتیں بیان فرمائی ہیں جن میں مجبور محض ہوتا ہے اور اپنے اختیار سے ان حالتوں میں خود کوئی تبدیلی نہیں لاسکتا، پیدا ہوتا ہے تو اس قدر کمزور کہ کسی بھی جاندار کا بچہ اتنا کمزور پیدا نہیں ہوگا۔ ہر جاندار کا بچہ پیدا ہوتے ہیں چلنے پھرنے لگتا ہے مگر انسان کا بچہ چلنا تو درکنار بیٹھ بھی نہیں سکتا اور چلنے کی نوبت تو ڈیڑھ دو سال بعد آتی ہے، پھر اس کے بعد اس پر بلوغت اور جوانی کا دور آتا ہے تو وہ جسمانی طور پر طاقتور اور مضبوط ہوتا ہے۔ اس کے فوائے عقلیہ، اس کا فہم و شعور سب جوبن پر ہوتے ہیں، اس کے بعد اس پر انحطاط وتنزلی کا دور آتا ہے۔ قوتیں جواب دینے لگتی ہیں۔ اعضا مضحمل ہونے لگتے ہیں۔ کئی طرح کے عوارض اور بیماریاں اسے آگھیرتے ہیں حتیٰ کہ اس کی عقل بھی کمزور  ہونا شروع ہوجاتی ہے اور یہ سب ایسے مدارج زندگی ہیں۔ جن میں انسان اپنی طرف سے کوئی تبدیلی نہیں لاسکتا ہے وہ لاکھ چاہے کہ بڑھاپے کے بعد پھر اس پر جوانی کا دور آئے وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ جس تدریج کے ساتھ اللہ اسے ان مراحل سے گزارتا ہے۔ اسے بہرحال گزرنا پڑتا ہے۔  اس لئے اپنی صحت وتندرستی کو غنمت سمجھئے،کیوں کہ جب صحت وتندرستی رخصت ہوجائے گی تو پھر آپ کو ندامت وشرمندگی ہوگی کہ میں نے اپنی صحت وعافیت کو اللہ تعالی کی اطاعت وفرمانبرداری میں نہیں لگایا، جیسے آج بہت سارے لوگ اپنی صحت وعافیت کو حرام اور معصیت کے کاموں میں ضائع وبرباد کرتے ہیں اور جب صحت وعافیت ان سے رخصت ہوجاتی ہے تو نادم اور شرمندہ ہوتے ہیں لیکن اس وقت ندامت کرنے سے ان کوکوئی فائدہ نہیں ہوتا، اس لئےآدمی کو اپنی صحت وعافیت سے دھوکے میں نہیں پڑناچاہئے بلکہ صحت وعافیت کی حالت میں نیک اعمال کا ذخیرہ کرلینا چاہئے  کیوں کہ معلوم نہیں کب آدمی پر بیماری کا حملہ ہو اور وہ بیماری اس کو قبر میں پہنچادے اور وہ بغیر توشہ کے سفر آخرت کرجائے۔

تیسری نصیحت رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے یہ فرمائی کہ اپنی مالداری کو اپنی محتاجی سے پہلے غنیمت جانو کیوں کہ آج مالدراری ہے کل محتاجی آجائے گی اس لئے اگر اللہ تعالی نے آپ کو صاحب مال بنایا ہے، آپ کے پاس مال ودولت کی کثرت وفراونی ہے ،تو اسے خیرو بھلائی کے کاموں میں صرف کرتے رہیئے ، رشتہ داروں ، محتاجوں ، مسکینوں ، یتیموں ، بیواؤں  وغیرہ کے حقوق کو ادا کیجئے کیوں کہ جو مال آپ نے اللہ کی راہ میں خرچ کردیا وہی آپ کا مال ہے وہ آپ کے لئے محفوظ  ہوگیا جس کااجروثواب آپ کو اللہ کے یہاں ضرور ملے گا، کیوں کہ مال ودولت ڈھلتی چھاؤ ہے آج آپ کے پاس ہے کل کسی اور کے پاس ہے، اور نہ یہ مال ہمیشہ آپ کے ساتھ  رہےگا اور نہ آپ مال کے ساتھ ہمیشہ رہیں گے، کتنے لوگ ہیں اگر اس کے پاس مال ودولت کی فراوانی ہوتوبہت زیادہ سرکشی اور اللہ کی نافرمانی کرتےہیں ،حرام کاموں میں اپنا مال لٹاتے ہیں، عیاشیوں میں اپنا مال صرف کرتے ہیں اور مال ودولت کے نشہ میں غریبوں مسکینوں پر ظلم ڈھاتے ہیں اور اللہ کی زمین پرفساد مچاتے ہیں جیساکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے


كَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰٓى (6) 

اَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰى (7)

ہرگز نہیں، بے شک آدمی سرکش بن جاتاہے جب دیکھتا ہے کہ وہ دولت مند ہوگیا‘‘ ( سورة علق) 

ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالی نے فرمایا انسان کے پاس جہاں دو پیسے ہوئے فراوانی ہوئی کہ اس کے دل میں کبر و غرور ، عجب و خود پسندی آجاتی ہے وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ اب وہ کسی کا محتاج نہیں اور رب العالمین کو یکسر بھول جاتا ہے، طغیانی و سرکشی پر آمادہ ہوجاتا ہے جب کہ اسے اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیئے اور خیال رکھنا چاہیئے کہ اسے ایک دن اللہ کی طرف لوٹنا ہے وہاں جہاں اور حساب ہوں گے ۔ مال کی بابت بھی سوال ہو گا کہ مال کیسے اور کہاں سے کمایا تھا اور  خرچ کہاں کیا ؟

اس لئے اپنی مالداری کو اپنی محتاجی سے پہلےغنیمت جانتے ہوئے حقوق العباد کا خیال رکھنا اور اپنے اموال کو خیروبھلائی کے کاموں میں لگاتے رہنا چاھیے، کیا معلوم کل آئندہ آپ کا سارا مال ختم ہوجائے  اور آپ دنیا اور آخرت دونوں جہان میں فقیر ومحتاج ہوجائیں  ورنہ موت نے تو آپ کے اس مال کو آپ سے جدا کر ھی دینا ھے

چوتھی نصیحت رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے یہ فرمائی اپنی فراغت کو اپنی مشغولیت سے پہلے غنیمت جانو، آج فارغ ہیں، کل آپ مشغول ہوجائیں گے، آج تن تنہا ہے، کوئی کام نہیں، کوئی مسئولیت وذمہ داری نہیں، کل ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی، اولاد کے لئے روزی حاصل کرنے میں مشغول  ہوجائیں گے پھر علم حاصل کرنے اور دوسرے نیک اعمال کرنے کا موقع نہیں مل سکے گا ، اس لئے اپنی فرصت کے اوقات و لمحات کو قرآن مجید پڑھنے ، اسے سیکھنے  اور اس پرعمل کرنے اور دوسرے نیک کاموں کو بجالانے میں استعمال کیجئے کیوں کہ جو شخص اپنی فرصت کے اوقات کو نیک کاموں میں لگانے کے بجائے لہو ولعب اور برے کاموں میں ضائع وبرباد کرتا ہے وہ گھاٹا اٹھانے والا اور بدنصیب ہے، فرمان نبوی  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ہے  

نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ”

دونعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے ، صحت اور فراغت ‘‘  ( صحیح بخاری) 

ان دونعمتوں کے حوالہ سے ہم میں سے اکثر لوگ خسارہ اور نقصان میں ہیں، ہم میں سے اکثر لوگ ان دونوں نعمتوں کوبلا فائدہ کاموں میں ضائع کر رہے ہیں، نہ توخود ان نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور نہ ہی اللہ کے کسی بندہ کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ آج ہم ان نعمتوں کی قدر نہیں کرتے، ان نعمتوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے، لیکن جب موت کی گھڑی آپہنچے گی موت ہمارے سر پر کھڑی ہوگی یا قیامت جب قائم ہوجائےگی توپھر ہمیں ان نعمتوں کی قدر سمجھ آئے گی اور اس وقت انسان آرزو کرے گا کہ اے اللہ مجھے تھوڑی سی مہلت دیدے تاکہ میں اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جاکر نیک کام کرکےآجاؤں، یہ بات اللہ تعالی نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر دوہرائی ہے کہ کافرومشرک منافق اور اللہ کے نافرمانبردار لوگ تمنا کریں گے اور اللہ سے دنیا میں جانے کی مہلت طلب کریں گے لیکن کیا انہیں مہلت دیدی جائے گی، ہر گز نہیں چنانچہ ارشاد ربانی ھے: 

حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ * لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ﴾ [المؤمنون)

’’یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے پروردگار! مجھے واپس لوٹا دے کہ اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جاکر نیک اعمال کرلوں‘‘  

اور سورہ منافقون میں اللہ عزوجل نے فرمایا  

 مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُنْ مِنَ الصَّالِحِينَ  (المنافقون)

 تم میں سے کسی کو موت آجائے تو کہنے لگے اے میرے پروردگار مجھے تو تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتا ؟ کہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں ہوجاؤں۔ 

وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴾ (المنافقون)

اور جب کسی کا مقررہ وقت آجاتا ہے پھر اسے اللہ تعالیٰ ہرگز مہلت نہیں دیتا اورجو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ تعالیٰ بخوبی باخبر ہے‘‘

انسان موت کے وقت تمنا کرے گا کہ اسے ایک منٹ کے لئےفرصت و مہلت دیدی جائے ، لیکن اسے کوئی فرصت اور مہلت نہیں دی جائے گی،  اور یہ مت سمجھئے کہ ہمیں ان دو نعمتوں سے محرومی موت آ نے پر ہی ہوگی بلکہ ان نعمتوں سے محرومی موت آنے سے پہلے بھی ہوسکتی ہے، آج ہم مکمل صحتمند ہیں، ممکن ہے کہ کل بیمار ہوجائیں اور پھر ہم اللہ کے فرائض کو اد ا کرنے سےعاجز رہ جائیں ،آج ہم فارغ ہیں ممکن ہے کل اپنے اور اپنے اہل وعیال کی گزر اوقات کے لئے کمانے میں لگ جائیں اور نیکیاں کمانے سے محروم ہوجائیں ، اس لئے انسان کو چاہئے  کہ استطاعت کے مطابق اپنی صحت اور فرصت کے اوقات کو اللہ کی اطاعت میں لگائیں اگر قرآن تلاوت کرسکتا ہو توبکثرت قرآن تلاوت کرے ، اوراگر قرآن کی تلاوت نہیں کرسکتا  توبکثرت اللہ تعالی کا ذکر کرے ، لوگوں کو بھلائی کا حکم کرے اور برائی سے روکے، اصلاح بین الناس کا کام کرے، لوگوں کے ساتھ اچھا معاملہ کرے ان ساری نیکیوں کا فائدہ ان کو ملے گا،  ایک عقلمد انسان جو ہوتا ہے وہ ان نعمتوں سے بھر پور فائدہ اٹھاتا ہے۔ اپنی صحت کے ایام کو اور فرصت کے لمحات کو ضائع اور برباد نہیں کرتا اپنی صحت کے ایام میں اللہ کے فرائض اور اچھے اچھے اعمال انجام دیتا ہے اور اپنے فارغ اوقات کو نافع اورمفید کاموں سے بھر دیتا ہے۔

 پانچویں نصیحت رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے یہ فرمائی کہ اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلےغنیمت جانو ، آج زندگی ہے کل موت آجائے گی، اور زندگی مختصر ہے، عمر تھوڑی ہے اور یہی عمر اور زندگی ہماری اصل پونجی ہے،  اگر ہم نے اپنی عمر لہو ولعب میں  گزاردی تو موت کے وقت نادم وشرمندہ ہوں گے اوراس وقت ندامت وشرمندگی کا کوئی فائدہ نہ ہوگا، اس لئے اللہ کے حقوق وفرائض وغیرہ میں کوتاہی اور سستی کرنے والا اورحد سے تجاوز کرنے والا مت بنیئے کیوں کہ کل قیامت کے دن جب جہنم سامنے لائی جائے گی تو حد سے تجاوز کرنے والا ، اپنی زندگی کو کھیل وتماشہ میں ضائع و برباد کردینے والا جہنم کی ہولناکی وخوفناکی اوراس کےعذاب کو دیکھ کر نصیحت حاصل  کرے گا جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے 

 وَجِايْۗءَ يَوْمَىِٕذٍۢ بِجَهَنَّمَ ڏ يَوْمَىِٕذٍ يَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰى لَهُ الذِّكْرٰى يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِيْ قَدَّمْتُ لِحَيَاتِيْ 

اور اس دن جہنم سامنے لائی جائے گی، اس دن آدمی نصیحت حاصل کرے گا، اور تب نصیحت اسے کیا فائدہ پہنچائے گی وہ کہے گا، اے کاش ! میں نے اپنی اس زندگی کے لئے نیک اعمال پہلے بھیج دیا ہوتا‘‘ (سورت فجر آیت : ۲۳۔۲۴)


اسی طرح ایک اور جگہ اللہ عزوجل نے فرمایا کہ جب جہنمی جہنم میں  داخل کردیئے جائیں گے تووہاں کی عذاب کو دیکھ کر اپنے رب سے درخواست کریں گے کہ وہ انہیں دنیا میں واپس بھیجدے تاکہ نیک اعمال کرلیں،

رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ  

اور کہیں گے کہ اے ہمارے رب ! ہم نے سب کچھ دیکھ اورسن لیا، اس لئے اب ہمیں دنیا میں واپس بھیج دے تاکہ نیک عمل کریں، ہمیں آخرت پر پورا یقین آگیا ہے‘‘( سورة سجدہ )

اس لئے آپ اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلےغنیمت جانئےجب آپ صبح کرلیں تو شام کا انتظار نہ کریں اور جب شام کرلیں تو صبح کا انتظار نہ کریں اور اپنی صحت کو بیماری سے پہلے اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جانیں، اور اپنے آپ کو قبر والوں میں شمار کریں کیوں کہ  آپ نہیں جانتے  کہ کل  آپ کا نام زندوں میں ہوگا یا مردوں میں ،ایام بڑی تیزی سے گزررہے ہیں اورعمر ختم ہوتی جارہی ہے ہرلمحہ اور ہر آن ہم موت سے قریب ہورہے ہیں اور ہم نہیں جانتے۔  موت برحق اور یقینی چیز ہے اس میں کو ئی شک وشبہہ نہیں کیا جاسکتا، ہم سب یہ قرآنی آیات پڑھتے اور سنتے ہیں :

(كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ ۭ وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ  فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ ) ’

 ہر شخص کو موت کا مزا چکھنا ہے اور قیامت کے دن تمہیں تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا۔ پھر جو شخص دوزخ سے بچالیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا ہے تو وہ کامیاب ہوگیا اور یہ دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے‘‘( سورہ آل عمران )

(کُلٰ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ وَیَبْقَیٰ وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ) (الرحمن 

 یعنی اس زمین پر جتنے ہیں سب فانی ہیں صرف رب کا چہرہ باقی ہے جو بزرگی اورانعام والا ہے‘‘

یعنی جن و انس کل کے کل مرنے والے ہیں اسی طرح فرشتے اور حاملان عرش بھی مر جائیں گے اور صرف اللہ وحدہ لا شریک دوام اور بقاء والا باقی رہ جائے گا پہلے بھی وہی تھا اور آخر بھی وہی رہے گا ، جب سب مر جائیں گے مخلوقات کا خاتمہ ہوئے گا اس وقت اللہ تعالیٰ قیامت قائم کرے گا اور مخلوق کو ان کے چھوٹے بڑے ،چھپے کھلے ،صغیرہ کبیرہ، کل اعمال کا بدلہ ملے گا، کسی پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا ۔


(كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ  لَهُ الْحُكْمُ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ )  

اس کے سوا ہر چیز فنا ہوجائے گی ہر چیز پراسی کی حکمرانی ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے‘‘ ( سورہ قصص 

اور موت اچانک آئے گی اور کسی  بھی حالت میں آئے گی، صحت وبیماری کی حالت میں ،مالدرای اورمحتاجی کی حالت میں، سونےاورجاگنے کی حالت میں ، سفر اور حضر میں جیسا کہ مالک کا فرمان ہے،

 (فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُهُمْ لَا يَسْـتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ)

 جب موت کی گھڑی آپہنچتی ہے تو اس میں ایک پل کی بھی تقدیم وتاخیر نہیں ہوسکتی‘‘ (سورہ اعراف 

(وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًاوَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ  اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ) 

اور کوئی آدمی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور نہ کوئی یہ جانتا ہے کہ زمین کے کس خطے میں اس کی موت واقع ہوگی، بے شک اللہ بڑا جاننے والا، بڑا باخبر ہے‘‘ (سورہ لقمان ) 

(وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ كِتٰبًا مُّؤَجَّلًا

کوئی شخص اللہ کے اذن کے بغیر کبھی نہیں مرسکتا۔[ موت کا وقت لکھا ہوا ہے‘‘ (سورہ آل عمران

ساتھیو!  بلا شبہہ یہ دنیا ہمیشہ نہیں رہے گی اور نہ کوئی اس دنیا میں ہمیشہ رہے گا جیسا کہ رب کا فرمان ہے 

(وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ  اَفَا۟ىِٕنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ) 

’اور ہم نے آپ سے پہلے کسی انسان کو ہمیشگی نہیں دی، کیا آپ اگر مرجائیں گے تو وہ لوگ ہمیشہ رہنے والے ہیں ‘‘   (سورہ انبیا )

اس دنیا میں ہم سب مسافر ہیں اورہمارا سفر بڑا طویل ہے یہ سفر ہم سےایسے توشہ کا طلبگارہے جو دنیا میں ہمیں فائدہ دے اور مرتے وقت بھی ہمارے کام آئے اور قبر میں بھی ہمارے لئے مفید ہو اور قیامت  کےدن ، پل صراط  پر اور میزان عمل کے وقت ہمارے لئے نفع بخش ہو یہاں تک کہ ہم جنت میں داخل ہوجائیں ، لیکن آپ جانتے ہیں وہ توشہ سفر کیا ہے وہ توشہ سفر تقوی ہے، ہم میں سے اکثر لوگوں کا یہ حال ہےکہ انہوں نے توشہ سفرمال ودولت کو سمجھا ہوا ہے ، جاہ وحشمت کو توشہ سفر سمجھ رکھا ہوا ہے اوروہ رات ودن مال ودولت کو جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں ، بہت کم لوگ ہے جو توشہ تقوی کا اہتمام کرتے ہیں، جب کہ  اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے 

( وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى) 

اور اپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو، سب سے بہتر توشہ تقوی ہے‘‘ ( سورہ بقرہ )

اللہ  عزوجل سے دعا ہے کہ وہ ھم سب کو ان نعمتوں کی آفتوں کے آنے سے پہلے قدر کرنے اور نیک اعمال کی بجاآوری کی توفیق عنایت فرمائے  اور ہم سب کو حسنِ خاتمہ نصیب فرمائے ،

 آمین یارب العالمین

Share:

مہمان گھر میں بعد میں آتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا رزق پہلے ھی بھیج دیتے ہیں۔


ایک دفعہ کا ذکر ھے کہ ایک گاؤں میں ایک صاحب کی اپنی بیوی کے ساتھ کچھ ان بن ہو گئی۔ ابھی دونوں میں جھگڑا چل ھی رھا تھا کہ اسی اثناء میں ان کے گھر ان کا ایک رشتے دار مہمان آ گیا۔ خاوند نے مہمان کو بیٹھک میں بٹھا دیا اور بیوی سے کہا کہ فلاں رشتہ دار مہمان آیا ہے اس کے لیے کھانا بنا لو ۔ بیوی کا پارہ ابھی تک چڑھا ھوا تھا۔ وہ شدید غصّے میں تھی کہنے لگی میں نہ تمہارے لئے کھانا بناؤں گی اور اور نہ ھی تمہارے مہمان کے لئے۔

خاوند بیچارہ بہت پریشان ہوا کہ لڑائی تو ہماری میاں  بیوی کی ھے  اس میں بیچارے مہمان کا کیا قصور ھے۔ سوچنے لگا کہ اگر  مہمان جو کہ رشتہ دار بھی ھے کو اس بات کا پتہ چل گیا تو خواہ مخواہ کی باتیں ہوں گی اور بےعزتی الگ ھو گی اس لئے بیوی کو حتی الامکان سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ شیرنی تو پورے جوش میں تھی نہ مانی  لہٰذا میاں بیچارہ خاموشی سے آکر مہمان کے پاس بیٹھ گیا۔

اتنے میں اسے خیال آیا کہ چلو بیوی اگر روٹی نہیں پکاتی تو سامنے والے ہمارے ہمسائے بہت اچھے لوگ ہیں، گھر والی بات ہے، میں انہیں ایک مہمان کا کھانا پکانے کے لیے کہہ دیتا ہوں۔چنانچہ وہ ھمسائیوں کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ میری بیوی کی آج طبیعت خراب ہے اور ھمارے گھر ایک مہمان آگیا ھے ۔ آپ براہ مہربانی ہمارے مہمان کے لئے کھانا بنا دیجئے۔انہوں نے کہا بہت اچھا، جتنے آدمیوں کا آپ کہیں کھانا بنا دیتے ہیں۔وہ مطمئں ہو کر مہمان کے پاس آ کر بیٹھ گیا کہ مہمان کو کم از کم کھانا تو مل جائے گا جس سے عزت بھی بچ جائے گی۔

تھوڑی دیر کے بعد مہمان نے کہا مجھے کچھ پیاس لگی ھے لہذا ٹھنڈا پانی لا دیجئے۔ وہ اٹھا کہ گھڑے میں سے ٹھنڈا پانی لاتا ہوں۔اندر گیا تو دیکھا کہ بیوی صاحبہ تو زار و قطار رو رہی ہیں ۔ وہ بڑا حیران ہواکہ یہ شیرنی اور اس کے آنسو۔ کہنے لگا کیا بات ہے؟ اس نے پہلے سے بھی زیادہ رونا شروع کر دیا۔کہنے لگی: بس آپ مجھے معاف کر دیں۔وہ بھی سمجھ گیا کہ کوئی وجہ ضرور بنی ہے۔اس بچارے نے دل میں سوچا ہو گا کہ شاید میرے بھی بخت جاگ گئے ہیں۔ کہنے لگا کہ بتاؤ تو سہی کہ کیوں رو رہی ہو؟ اس نے کہا کہ پہلےآپ  مجھے معاف کر دیں پھر میں آپ کو پوری بات سناؤں گی۔خیر اس نے کہہ دیا کہ جو لڑائی جھگڑا ہوا ہے میں نے وہ دل سے نکال دیا ہے اور آپ کو معاف بھی کردیا ہے۔ بیوی کہنے لگی:کہ جب آپ نے آکر مہمان کا کھانا پکانے کے بارے میں کہا  اور میں نے کہہ دیا کہ نہ تمہارے لئے کچھ پکے گا اور نہ مہمان کے لئے، چلو چھٹی کرو تو آپ خاموشی سے چلے گئے ۔مگر آپ کے جانے کے بعد میں نے اپنے دل میں سوچا کہ واقعی لڑائی تو میری اور آپ کی ہے، اور یہ مہمان ھمارا رشتہ دار بھی ہے،ہمیں اس کے سامنے یہ پول نہیں کھولنا چاہئے۔ چنانچہ میں اُٹھی کہ مہمان کے لئے کھانا بناتی ہوں۔جب میں کچن(باروچی خانہ) میں گئی تو میں نے دیکھا کہ جس بوری میں ہمارا آٹا پڑا ہوتا ہے،ایک سفید ریش آدمی اس بوری میں سے کچھ آٹا نکال رہا ہے۔میں یہ منظر دیکھ کر سہم گئی۔ وہ مجھے کہنے لگا: اے خاتون! پریشان نہ ہو یہ تمہارے اس مہمان کا حصّہ اللہ تعالی کی طرف تمہارے آٹے میں پہلے ھی شامل تھا۔اب چونکہ مہمان کا کھانا ہمسائے کے گھر میں پکنا ہے،اس لئے میں وہی آٹا لینے کے لئے آیا ھوں تاکہ اسے ھمسائے کے آٹے  میں شامل کر سکوں۔

مہمان اللہ کی رحمت ھوتا ھے اسے زحمت نہیں سمجھنا چاھیے بلکہ اپنی بساط کے مطابق مہمان کی خوب خدمت کرنی چاھیے۔ حقیقت یہی ھے کہ مہمان میزبان کا کچھ نہیں کھاتا بلکہ اپنا نصیب کھاتا ھے ۔ یہ نظامِ قدرت ھے کہ  مہمان گھر میں  بعد میں آتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ اس کا رزق پہلے ھی بھیج دیتے ہیں۔

Share:

نماز اور تلاوتِ قرآن مجید میں دل لگانے کا طریقہ

بعض حضرات نیک اعمال خصوصاً نماز میں دل نہ لگنے کا شکوہ کرتے ھیں اور پھر اس کے لئے وظیفوں کی تلاش میں رھتے ھیں حالانکہ اعمال پر ثابت قدمی کے لیے سب سے بنیادی اور اہم چیز انسان کی ہمت اور پختہ عزم  کا ھونا ضروی ھوتا ہے اور اس مقصد کو پانے کے لئے بد دین لوگوں سے کنارہ کش ھو کر  نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنا ایک تریاق کی حیثیت رکھتا ہے ، اس لیے عبادات اور اعمال کی ترقی  کے لیے کسی وظیفے کی ضرورت نہیں ھوتی بلکہ ہمت ، پختہ عزم اور پھر جہدِ مسلسل کی ضرورت ھوتی ہے اور اصلاحی مواعظ سننا اور پڑھنا اس میں ممد ومعاون ہوتا ھے ۔ 

 یہ بات ھمیشہ یاد رکھنی چاھیے کہ نماز پڑھنے میں دل لگے یا نہ لگے ، تلاوت میں لذت محسوس ہو یا نہ ھو ، ہم ھر صورت ان اعمال کے کرنے کے پابند ہیں کیونکہ مسلمان نیک اعمال صرف  رب کریم کی رضا کے لیے ھی کرتاہے، خواہ اسے اس میں لذت آئے یا نہ آئے، دل لگے یا نہ لگے ۔ یہ روحانی دواء ہے ، دواء میں مزہ آئے یا نہ آئے ھر صورت لینا ضروری ھوتا ہے تاکہ صحت خراب نہ ہو ،اسی طرح تمام عبادات ، بالخصوص  نماز اور تلاوتِ قران پاک روحانی غذائیں ھیں ان پر عمل کرنا اور روزانہ تلاوتِ قران پاک کی عادت بنانا بے حد ضروری ہے ورنہ روحانی کمزوری کے خدشہ کے ساتھ ساتھ جنت سے محرومی کا خطرہ بھی ہے ۔

فرض نمازیں مرد مسجد میں جا کر تکبیرہ اولی کے ساتھ جماعت کے ساتھ صفِ اول میں پڑھنے کی کوشش کریں اور عورتیں اول وقت میں گھر پر نماز کا اھتمام کریں ، فرائض، سنن اور نوافل کو تمام آداب کے ساتھ ادا کریں، نماز کے دوران اللہ تعالی کے سامنے کھڑے ہونے کا احساس کریں، دل و دماغ سے نماز میں حاضر رہیں، اپنے جسم کی حرکات و سکنات کو قابو میں رکھیں، قیام کے دوران اپنی نگاہ کو سجدے کی جگہ پراور رکوع میں پیروں کی جانب مرکوز رکھیں ، سجدے کی حالت میں نگاہ ناک  اور قعدے میں اپنی گود کی جانب رکھیں، پہلے سلام کے وقت دائیں کندھے اور دوسرے سلام کے وقت بائیں کندھے کو دیکھیں، اگر اس کے باوجود بھی وسوسے آئیں تو انہیں اہمیت نہ دیں، نمازیں اسی طریقے کے مطابق پڑھتے رہیں ، ان شاء اللہ آھستہ آھستہ وسوسے خود بخود ختم ہوجائیں گے اور نمازوں میں دل لگنا شروع ھو جائے گا۔ 

یہ بات بھی ذھن میں رھنی چاھیے کہ نمازی وہ ھوتا ھے جو پانچ وقت پابندی کے ساتھ نمازوں کی آدائیگی کا اھتمام کرے یعنی پانچ نمازیں لازمی پڑھے ۔ جو شخص روزانہ پانچ سے کم یعنی چار یا اس سے کم  نمازیں ادا کرتا ھے وہ نمازی نہیں ھوتا نہ ھی وہ نمازیوں کی فہرست میں شمار ھوتا ھے۔

ویسے تو ھر ایک نماز اپنی اپنی جگہ پر خصوصیت کی حامل ھے لیکن فجر کی نماز مسلمانوں کے لیے بہت ھی اہمیت کی حامل ہے حدیث مبارکہ میں ہے کہ فجر کی نماز منافقین پر بہت بھاری ہوتی ہے ۔ عام طور سے مسلمان نیند کے غلبے اور سستی سے اس نماز کوچھوڑ دیتے ہیں ۔ فجر کی نماز میں کوتاہی عموما رات کوزیادہ دیر تک جاگنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔اس لیے عشاء کی نماز کے بعد جلدی سونے کی  عادت بنائے ، بلاضرورت عشاء کے بعد زیادہ دیر تک نہ جاگے اس کے علاوہ انسان رات کو سونے سے پہلے دل میں تہجد یا کم از کم فجر کی نماز پڑھنے کا پکا ارادہ کرلے اور اگر ھو سکے تو دو رکعت صلاۃ الحاجۃ پڑھ کر اللہ پاک سے دعا بھی کرے ،نیز صبح جاگنے کے لیے حتی الوسع الارم وغیرہ بھی لگالے تو صدق نیت اور پختہ عزم کے ذریعہ فجر میں اٹھا جاسکتا ہے  اور جب فجر کے وقت آنکھ   کھلےتو  فوراً اٹھ جائے ، مزید نہ سوئے تو فجر کے لیے اٹھنا آسان ہوجائے گا ، جیسے رمضان المبارک میں سحری کے لیے صدق نیت اور پختہ عزم کی وجہ سے  اٹھنا ممکن ہوجاتا ہے۔

اسی طرح قرآنِ کریم کی تلاوت انتہائی  ادب کے ساتھ کرنی چاہیے، علماء نے اس کی تلاوت کے کچھ آداب بیان فرمائے ہیں، آداب میں  سے ایک ادب یہ ہے کہ مسواک اور وضو  کرنے کے بعد کسی جگہ یک سوئی کے ساتھ  نہایت ادب، سکون و تواضع کے ساتھ اگر ممکن ھو تو قبلہ رخ بیٹھے، کوشش کی جائے کہ چارزانو ہو کر اور ٹیک لگا کر نہ بیٹھے، قرآن کی عظمت دل میں  رکھے اور یہ تصور کرے کہ یہ اس ذات کا کلام ہے جو تمام بادشاہوں  کا بادشاہ ہے، پھر نہایت خشو ع و خضوع کے ساتھ تلاوت کر ے ، اگر معنی سمجھتا ہے تو تدبرو تفکر کے ساتھ آیاتِ رحمت و مغفرت پر رحمت اور مغفرت کی دعا مانگے اور عذاب اور وعیدوں  کی آیات پر اللہ  کے عذاب سے پناہ مانگے، اور آیاتِ تقدیس و تنزیہ پر سبحان اللہ  کہے  اور بوقتِ تلاوت رونے کی سعی و کوشش کرے، اگر رونا نہ آئے تو  بہ تکلف روئے اور رونے والوں  جیسی صورت بنائے۔

اللہ تعالی ھم سب کو ان اعمال کے کرنے کی توفیق عننایت فرمائے 

آمین یا رب العالمین 

Share:

حضرت عمر فاروق رضی الله تعالی عنه کی عدالت اور ایک سچے قاتل کا سچا واقعہ ۔


دو نوجوان حضرت عمر فاروق رضی الله تعالی عنه کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں “یا  آمیر المؤمنین ( رضی الله تعالی عنه ) یہ ہے وہ شخص”

 حضرت عمر فاروق رضی الله تعالی عنه ان سے پوچھتے ہیں ” کیا کیا ہے اس شخص نے ؟

“یا امیر المؤمنین (رضی الله تعالی عنه )اس شخص نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے”

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه پوچھتے ہیں “کیا کہہ رہے ہو ۔ اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے ؟”

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں ” کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے ؟”

وہ شخص کہتا ہے “ہاں امیر المؤمنین (رضی الله تعالی عنه) مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ”

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه پوچھتے ہیں ” کس طرح قتل ہوا ہے ؟”

وہ شخص کہتا ہے “یا آمیر المؤمنین (رضی الله تعالی عنه ) انکا باپ اپنے اُونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا ۔ میں نے منع کیا لیکن وہ  باز نہ آیا تو میں نے ایک پتھر اسے  دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا ”

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه اس شخص سے کہتے ہیں ” پھر تو اب اپ کو قصاص دینا پڑے گا ۔ موت ہے اسکی سزا ”

یہ تھا عدلِ فاروقی کہ نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت اور نہ ھی  انتظار  کی اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں ۔ نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے، نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں، معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے ؟ ان سب باتوں سے بھلا حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه کو مطلب ہی کیا تھا ۔ کیونکہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه  پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر  حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه کو روک سکتا ہے۔ حتٰی کہ سامنے عمر کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو ۔ قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔

وہ شخص کہتا ہے ”ا ے امیر المؤمنین ( رضی الله تعالی عنه )اُس کے نام پر جس کے حُکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحرا میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجئے تاکہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے ۔ میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا”

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه اس شخص سے کہتے ہیں ”کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا میں جا کر پھر واپس بھی آ جائے گا؟”

مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اسکا نام تک بھی جانتا ہو۔ اسکے قبیلے ۔ خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے ۔ کون ضمانت دے اسکی ؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے ؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔ اور کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه سے اعتراض کرے یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔

محفل میں موجود صحابہ کرام پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے۔ اس صورتحال سے خود حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه بھی متأثر ہیں۔ کیونکہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں ؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا،

خود حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه بھی سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں اس صورتحال پر، سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں ”معاف کر دو اس شخص کو ”

نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں ”نہیں امیر المؤمنین : رضی الله تعالی عنه جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں ۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا ”

 حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں ”اے لوگو ۔ ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے؟”

حضرت ابو ذر غفاری رضی الله تعالی عنه اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں ”میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی”

 حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه کہتے ہیں “ابوذر (رضی الله تعالی عنه )اس نے قتل کیا ہے”

حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں “چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو

حضرت عمرِ فاروق (رضی الله تعالی عنه):  جانتے ہو اسے ؟”

ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ :  نہیں جانتا ”

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه : تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو ؟”

حضرت ابوذر (رضی اللہ تعالی عنہ) : میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا ۔ انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا ”

حضرت عمرِ فاروق (رضی الله تعالی عنه ) : ابوذر (رضی الله تعالی عنه ) دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا ”

حضرت ابوذر (رضی اللہ تعالی عنہ ) : اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں ” امیر المؤمنین (رضی الله تعالی عنه )پھر اللہ مالک ہے”

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه سے تین  دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے ۔ کچھ ضروری تیاریوں کیلئے ۔ بیوی بچوں کو الوداع کہنے ۔ اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے اور پھر اس کے بعد قصاص کی ادائیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے۔

اور پھر تین دن گزر گئے حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے ۔ انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا۔ عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے ۔ نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے ۔حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر  حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ وہ شخص ابھی تک نہیں پہنچا 

 حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه حضرت ابوزر رضی الله تعالی عنه سے سوال کرتے ہیں ” کدھر ہے وہ آدمی ؟”

ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ مختصر جواب دیتے ہیں “مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین (رضی الله تعالی عنه)

ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ محفل میں ہُو کا عالم ہے ۔ھر شخص پریشان ھے کہ  حضرت ابوزر  رضی الله تعالی عنه  کی جان قصاص میں چلی جائے گی کیونکہ حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه کو تو ھر صورت انصاف کرنا ھے ۔  اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے ؟

یہ سچ ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه کے دل میں بستے ہیں، اگر وہ حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه سے ان کے جسم کا ٹکڑا بھی مانگیں تو حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه اس میں دیر نہ کریں کاٹ کر حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی  عنہ کے حوالے کر دیں ۔ لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے ۔ اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے ۔ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا ۔ نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے ۔ حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن ھر صورت جاتی نظر آ رہی ہے۔

مغرب سے چند لمہات  پہلے دور سے کسی شخص کے آنے کے آثار نظر آتے ھیں۔  نزدیک انے ہر پتہ چلتا ھے کہ یہ وہی شخص  ھے ۔ بے ساختہ حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے۔ ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں ” اے شخص ۔ اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا۔ نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا ”

وہ بولا ” امیر المؤمنین (رضی الله تعالی عنه) اللہ کی قسم ۔ بات آپکی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے ۔ دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں ۔ اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کر ۔ جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان ۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں ۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے”

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه  حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی طرف رخ کر کے پوچھا ” ابوذر رضی الله تعالی عنه تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی ؟”

حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا ” اے آمیر المؤمنین رضی الله تعالی عنه )مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے”

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟

نوجوانوں نے جن کا باپ اس شخص کے ھاتھ سے مرا تھا روتے ہوئے کہا ” اے امیر المؤمنین (رضی الله تعالی عنه) ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں ۔ ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے”

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گرنے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمايا ۔۔۔

” اے نوجوانو ۔ تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے”

” اے ابو ذر (رضی الله تعالی عنه)  اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے”

” اور اے شخص ۔ اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے”

” اور اے امیر المؤمنین  (رضی الله تعالی عنه )اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے”

Share: