*امامِ آعظم حضرت ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کے والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ امام صاحب رحمة اللہ علیہ سنت کے مطابق تین دن تک تعزیت کے لیے آنیوالوں کےلیے اپنے گھر میں ٹھرے رہے ۔ تین دن گزرنے کے بعد آپ رحمة اللہ علیہ گھر سے باہر نکل کر باھر آگئے ۔
ایک شخص آپ رحمة اللہ علیہ کا سخت مخالف تھا وہ آپ رحمة اللہ علیہ سے بہت زیادہ حسد کیا کرتا تھا اور آپ رحمة اللہ علیہ کو پریشان کرنے کا کوئی موقعہ ھاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا اور یہ بات تمام اھل علاقہ بھی جانتے تھے جب آپ رحمة اللہ علیہ گھر سے باہر نکلے تو چوک میں بہت سارے لوگ جمع ھو گئےتھے، وہ مکار شخص بھی سامنے سے تیزی کے ساتھ آیا اور “السلام علیکم “ کہنے کے بعد بولا ابو حنیفہ (رحمة اللہ علیہ)! سنا ہے آپ کے والد صاحب انتقال کر گئے ہیں؟" امام صاحب رحمة اللہ علیہ نے فرمایا " ہاں" ۔کہنے لگا پھر آپ اپنی ماں کا نکاح میرے ساتھ کر دو”الله اکبر” ایسا سخت جملہ کہ وہ انسان کے دل میں سوراخ کر دے ، انسان اس تکلیف سے سو بھی نہیں پاتا. لیکن امام صاحب رحمة اللہ علیہ صبر و تحمل کے ساتھ کھڑے رہے، جملہ یقیناً بہت سخت تھا لیکن چونکہ بات تو بہرحال شرعی تھی، غیر شرعی تو نہیں تھی۔ آس وقت امام صاحب رحمة اللہ علیہ کے ساتھ جو شاگرد اور عقیدت مند تھے وہ سخت غصے میں تھے بعض نے تو اپنی تلواریں بھی نیام سے نکال لی تھیں ۔
*امام صاحب رحمة اللہ علیہ نے فرمایا " رک جاؤ، میرے ساتھ میرا اللہ ہے، میں کوئی لاوارث تو نہیں ہوں۔
*حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ساری ہمت سمیٹی، آنکھوں میں آنسو جو چمکے تھے ان کو بھی صبر و تحمل سے اپنے دامن میں سمیٹ لیا، اور پوری ھمت جمع کر کے اُس شخص کو کہنے لگے
"*میاں تم نے کہا ہے "میں اپنی ماں کا نکاح تیرے ساتھ کر دوں تو سنو میری ماں عاقلہ بالغہ ھے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ھے تو عدت گزر لینے دے میں تیرا نام لے کے اپنی ماں سے بات کروں گا اگر وہ تیرے ساتھ نکاح کرنے کے لئے راضی ھو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ھوگا ۔ یہ کہہ کے امام صاحب رحمة اللہ علیہ اپنے عقیدتمندوں کے بازو تھامے اگے تشریف لے گئے۔ آپ رحمة اللہ علیہ کے وھاں سے جانے کے بعد وہ بندہ آچانک دھڑام سے زمین پہ گرا اور فوراً اُس کی روح پرواز کر گئی ۔
لوگوں نے آکر امام صاحب رحمة اللہ علیہ کو بتایا اور پوچھا "حضور! اسے کیا ہوا ھے امام صاحب رحمة اللہ علیہ فرمانے لگے "اس نے سمجھا تھا کہ میں لاوارث ہوں، اسے اور کچھ نہیں ہوا، درآصل ابو حنیفہ کے صبر نے اس کی جان لے لی ہے۔ کئی دفعہ لوگ دوسروں کو بہت سخت جملے کہہ دیتے ہے جن سے مخاطب شخص کو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ حسد بہت بری چیز ہے، اس کے شر سے اللہ تعالی ہم سب کو محفوظ فرمائے، آمین
*بحوالہ، کتاب : "امام اعظم ابو حنیفہؒ کی سیرت و تاریخ"۔ صفحہ نمبر ۱۲۵۔۔۔*
اگر امام ابوحنیفہ رحمة اللّٰہ علیہ کا صبر ان کے دشمن کی جان لے سکتا ہے تو ان شاء اللہ میرے فلسطین کے بھائیوں اور بہنوں کا صبر بھی ایک نہ ایک دن ضرور اسرائیل کے ناپاک وجود کو صفحۂ ہستی سے مٹا دے گا ۔
آمین یا رب العالمین