خاتم النبیین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا مفہوم اور تفسیر

 

مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّـٰهِ وَخَاتَـمَ النَّبِيِّيْنَ ۗ وَكَانَ اللّـٰهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْمًا O

محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ) تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور سب نبیوں کے خاتمے پر ہیں، اور اللہ ہر بات جانتا ھے

تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  آخری نبی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ھے کہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے بعد قیامت تک کسی بھی شخص کو (چاھے وہ کتنے ھی اُونچے درجہ کا حامل کیوں نہ ھو ) منصبِ نبوت پر فائز نہیں کیا جائیگا۔


*خاتم النبیین کی نبوی تفسیر

حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا آخری نبی ہونا جس طرح قرآنی آیات میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے اسی طرح احادیث نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ میں تواتر کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے بار بار تاکید کے ساتھ اپنے خاتم النبیین ہونے کا اعلان فرمایا ہے اور مختلف تمثیلات کے ذریعے اس اصطلاح کے معنی کی وضاحت فرمائی ہے جس کے بعد اس لفظ کے معنی میں کسی قسم کی تاویل و تعبیر کی گنجائش نہیں رہتی۔

چند احادیثِ نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ملاحظہ ھوں ۔ 

حضرت ثوبان  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور آکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا کہ '' 

وإنہ سیکون في أمتي کذابون ثلاثون کُلھم یزعم أنہ نبي، و أنا خاتم النبیین، لا نبي بعدي

میری امت میں تیس کذاب  پیدا ہوں گے، ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں خاتم النبیین( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) ہوں، میرے بعد کوئی (کسی قسم کا ) نبی نہیں۔''(ابودائود ، ترمذی )

اس حدیث شریف میں رسولِ کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے لفظ ''خاتم النبیین'' کی تفسیر بیان فرمائی ھے آپ  'صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے صاف صاف ارشاد فرما دیا کہ” لا نبی بعدی'' یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں بن سکتا کیونکہ نبوت کا دروازہ ھمیشہ ھمیشہ کے لئے بند ھو گیا ھے ۔ اسی لئے حافظ ابن کثیررحمة اللہ علیہ اپنی تفسیر میں اس آیت کے تحت چند احادیث نقل کرنے کے بعد آٹھ سطر پر مشتمل ایک نہایت ایمان افروز ارشاد فرماتے ہیں۔ چند جملے ملاحظہ فرمائیں 

'' اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے حدیث متواتر کے ذریعہ خبر دی کہ آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تاکہ لوگوں کو معلوم رہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے بعد جس نے بھی اس مقام (یعنی نبوت) کا دعویٰ کیا وہ بہت کذاب ، بہت بڑا افترا پرداز' بہت بڑا ہی مکار فریبی ، خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہوگا ۔ اگرچہ وہ خوارقِ عادات اور شعبدہ بازی دکھائے اور مختلف قسم کے جادو اور طلسماتی کرشموں کا مظاہرہ کرے۔'' 

(تفسیر ابن کثیر)

سیدنا سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے (بسندِ عامر بن سعد بن ابی وقاص) روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے (سیدنا) علی بن ابی طالب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا سے فرمایا:

أما ترضی أن تکون مني بمنزلۃ ھارون من موسی إلا أنہ لانبوۃ بعدي

کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمہارا میرے ساتھ وہ مقام ہو جو ہارون کا موسیٰ کے ساتھ تھا، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبوت نہیں ہے۔ (صحیح مسلم)


سیدنا جبیر بن مطعم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا :

وآنا العاقب

(اور میں عاقب (آخری نبی) ہوں۔

 (صحیح بخاری - صحیح مسلم


حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی شخص نے گھر تعمیرکیا اور اس کو خوب آراستہ و پیراستہ کیا، لیکن ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ آکر اس مکان کو دیکھنے لگے اورخوش ہونے لگے اور کہنے لگے! یہ اینٹ بھی کیوں نہ رکھ دی گئی (پھر) آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: پس میں وہی آخری اینٹ ہوں اور میں ہی خاتم النبیین ہوں۔‘‘

( بخاری - مسلم - نسائی)


*خاتم النبیین کی تفسیر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم سے*


حضرات صحابہ کرام رَضِوان اللہ تَعَالٰی عَنْہُم کا  مسئلہ ختم نبوت سے متعلق مؤقف کیلئے یہاں پر صرف دو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی آراء مبارکہ درج کی جاتی ہیں۔

حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  اللہ کے رسول اور خاتم النبیین یعنی آخرالنبیین ہیں۔'' (ابن جریر )

حضرت حسن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے آیت خاتم النبیین کے بارہ میں یہ تفسیر نقل کی گئی ہے کہ'' اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   پر ختم کردیا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   ان رسولوں میں سے جو اللہ کی طرف سے مبعوث ہوئے آخری ٹھہرے۔'' (درّ منثور )

کیا اس جیسی صراحتوں کے بعد بھی کسی شک یا تاویل کی گنجائش باقی رھتے ہے؟ اور بروزی یا ظلی کی من گھڑت تاویل چل سکتی ہے؟


*خاتم النبیین اور اجماع امت*

1) حجة الاسلام امام غزالی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:''بے شک امت نے بالاجماع اس لفظ (خاتم النبیین) سے یہ سمجھا ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے بعد نہ کوئی نبی ہوگا اور نہ رسول، اور اس پر اجماع ہے کہ اس لفظ میں کوئی تاویل و تخصیص نہیں اور اس کا منکر یقینااجماع امت کا منکر ہے۔'' (الاقتصاد فی الاعتقاد )

علامہ سید محمود آلوسی تفسیر روح المعانی میں زیر آیت خاتم النبیین لکھتے ہیں:اور آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا خاتم النبیین ہونا ایسی حقیقت ہے جس پر قرآن ناطق ہے، احادیث نبویہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے جس کو واشگاف طور پر بیان فرمایا ہے اور امت نے جس پر اجماع کیا ہے، پس جو شخص اس کے خلاف کا مدعی ہو اس کو کافر قرار دیا جائے گا اور اگر وہ اس پر اصرار کرے تو اس کو قتل کیا جائے گا۔'' 

(روح المعانی )


3) امام حافظ ابن کثیر رحمة اللہ علیہ اس آیت کے ذیل میں اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں ''یہ آیت اس مسئلہ میں نص ہے کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کے بعد کوئی نبی نہیں اور جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے بعد کوئی نبی نہیں تو رسول بدرجہ اولیٰ نہیں ہوسکتا، کیونکہ مقام نبوت مقام رسالت سے عام ہے۔ کیونکہ ہر رسول نبی ہوتا ہے اور ہر نبی رسول نہیں ہوتا او ر اس مسئلہ پر کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں، آنحضرت  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی متواتر احادیث وارد ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی جماعت سے مروی ہے۔ (تفسیر ابن کثیر )

4) امام قرطبی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ''خاتم النبیین کے یہ الفاظ تمام قدیم و جدید علماء کے امت کے نزدیک کامل عموم پر ہیں۔ جو نص قطعی کے ساتھ تقاضا کرتے ہیں کہ آنحضرت  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے بعد کوئی نبی نہیں۔ (تفسیر قرطبی )

پس عقیدۂ ختم نبوت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  جس طرح قرآن کریم کے نصوص قطعیہ سے ثابت ہے اسی طرح آنحضرت  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی احادیث متواترہ سے بھی ثابت ہے اور ہر دور میں امت کا اس پر اجماع و اتفاق چلا آیا ہے۔


*خاتم النبیین اور اصحابِ لغت*

خاتم النبیین ''ت'' کی زبریازیر سے قرآن و حدیث کی تصریحات اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ و تابعین رحمة اللہ علیہ کی تفاسیر اور ائمہ سلف رحمة اللہ علیہ کی شہادتوں سے بھی قطع نظر کرلی جائے اور فیصلہ صرف لغت عرب پر رکھ دیا جائے تب بھی لغت عرب یہ فیصلہ دیتی ہے کہ آیت مذکورہ کی پہلی قرات پر دو معنی ہوسکتے ہیں، آخرالنبیین اور نبیوں کے ختم کرنے والے، اور دوسری قرات پر ایک معنی ہوسکتے ہیں یعنی آخر النبیین۔ لیکن اگر حاصل معنی پر غور کیا جائے تو دونوں کا خلاصہ صرف ایک ہی نکلتا ہے اور بہ لحاظ مراد کہا جاسکتا ہے کہ دونوں قراتوں پر آیت کے معنی لغتاً یہی ہیں کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  سب انبیاء علیہم السلام کے آخر ہیں، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے بعدکوئی نبی پیدا نہیں ہوسکتا۔

آجکل قادیانی اوپر درج شدہ آیت مبارکہ کی من گھرت تفسیر بیان کرکے لوگوں کو گمراہ کرنے کی ناپاک کوشش کر رھے ھیں وہ اس آیت مبارکہ کی اپنی مرضی کی تشریح کرکے ملعون  مرزا قادیانی کی نبوت ثابت کرنا چاھتے ھیں یہ سلسلہ نیا تو نہیں ھے بلکہ جب سے ملعون مرزا قادیانی کا فتنہ شروع ھوا ھے اسی وقت سےیہ کوشش بھی  مختلف اوقات میں مختلف طریقوں سے جاری ھے خود ملعون مرزا قادیانی کی اس آیت مبارکہ کے حوالے تشریح مختلف اوقات میں مختلف رھی ھے ذیل میں اس کی اپنی کتابوں سے کچھ حوالے دیے جا رھے ھیں جن سے اس کذاب کی شاطرانہ اور مکروہ چالوں کا پتہ چلتا ھے


*خاتم النبیین کی قادیانی تفسیر*

 ملعون مرزا قادیانی نے آیت مبارکہ “خاتم النبیین “ کی مختلف ادوار میں تین مختلف تفسیریں کی ہیں۔


١۔ *پہلا دور1901ء سے پہلے*

اس دور میں ملعون مرزا قادیانی ختم نبوت کا قائل تھااور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی بھی مدعی نبوت کو کافر ، کاذب اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا تھا۔ملاحظہ فرمایئے آیت مذکورہ کا ترجمہ مرزا قادیانی کے قلم سے

مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّـٰهِ وَخَاتَـمَ النَّبِيِّيْنَ ۗ وَكَانَ اللّـٰهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْمًا O

" محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں ۔مگر وہ رسول ہے۔اور ختم کرنے والا ہے نبیوں کا"

(ازالہ اوہام صفحہ 614روحانی خزائن جلد 3صفحہ431از مرزا قادیانی)


*دوسرا دور1901ء اور بعد*

1901ء میں مرزا قادیانی نے "ایک غلطی کا ازالہ " کتاب لکھی اور خود نبوت کا دعویٰ کر دیا۔اور آیت خاتم النبیین میں یہ تاویل کی کہ اگرچہ خاتم النبیین کا مطلب تو وہی ہے کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ مگر خودآپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا دوبارہ اس دنیا میں آنا اس کے منافی نہیں۔ملاحظہ فرمایئے

''لیکن اگر کوئی شخص اسی خاتم النبیین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  میں ایسا گم ہو کہ بباعث نہایت اتحاد اور نفی غیریت کے اسی کا نام پا لیا ہواور صاف آئینہ کی طرح محمدیۖ چہرہ اس میں انعکاس ہو گیا ہوتو وہ بغیر مہر توڑنے کے نبی کہلائے گا۔ کیونکہ وہ محمد ھے گو ظلی طور پر پس باوجود اس شخص کے دعوےٰ نبوت کے جس کا نام ظلی طور پر محمدۖ اور احمدۖ رکھا گیا پھر بھی سیدنا محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  خاتم النبیین ہی رہاکیونکہ یہ محمدۖ ثانی(مرزا قادیانی -ناقل) اسی محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کی تصویر اور اسی کا نام ہے''۔ (ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 5روحانی خزائن جلد 18صفحہ209از مرزا قادیانی)

اس جگہ ملعون مرزا قادیانی خاتم النبیین کے معنی تو وہی لیتا ہے جو سب مسلمان سمجھتے ہیں لیکن اپنا نبی ہونا اس کے منافی نہیں جانتا کیونکہ (معاذ اللہ)مرزا قادیانی اپنے آپکو عین محمد و احمد کہتا ہے جو اسکی شکل میں دوبارہ دنیا میں آئے۔


*تیسرا دور قبل از موت*

ملعون مرزا قادیانی نے اپنی عبرت ناک موت سے ایک سال قبل 1907ء میں"حقیقة الوحی"نامی کتاب لکھی اور آیت خاتم النبیین کا ایک اور نیا اور اچھوتا مفہوم بنایا۔

1)"اللہ جل شانہ نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو صاحب خاتم بنایا۔ یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہر گز نہیں دی گئی اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبیین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ٹھرا یعنی  آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشی ہے۔اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے۔" (حقیقة الوحی صفحہ97 روحانی خزائن جلد22صفحہ100از مرزا قادیانی)

یعنی خاتم النبیین کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ نے نبوت کی مہر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو دے دی اور اس مہر سے آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  جسے چاہیں نبی بنا سکتے ہیں۔

2)"اور بجز اسکے کوئی نبی صاحب خاتم نہیں ایک وہی ہے جس کی مہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لئے امتی ہونا لازمی ہے"

(حقیقة الوحی صفحہ 28مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 30از مرزا قادیانی)


 صحابہ کرام رَضِوان اللہ تَعَالٰی عَنْہُم  کے عہدکا جھوٹا مدعی نبوت ملعون مسیلمہ کذاب تھا اور ہمارے عہد کا جھوٹا مدعی نبوت ملعون مرزا قادیانی ہے۔ جتنے خطرناک مسیلمہ کے پیروکار تھے، اس سے کہیں زیادہ خطرناک مرزا قادیانی کے پیروکار ہیں۔مرزا قادیانی اور اس کی شیطانی جماعت کا کفروارتداد مسیلمہ کذاب اور اس کی ابلیسی پارٹی سے زیادہ موذی ہے۔ یہ ابلیسی پارٹی مسلمانوں کے ایمان کی ڈاکو ھے اس لئے مسلمانوں کو ان سے ھوشیار رھنے کی اشد ضرورت ھے 

اللہ پاک تمام امت مسلمہ کو قادیانیوں کی ھر قسم کی مکروہ سازشوں سے محفوظ رکھے

آمین یا رب العالمین

Share:

مرد اور عورت کی برابری کا نظریہ


اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّـٰهُ بَعْضَهُـمْ عَلٰى بَعْضٍ 

مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس لیے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے

جدید دور نظریاتی کشمکش کا دور ھے  اس دور کو اگر نظریاتی جنگ کا دور کہا جائے تو غلط نہ ھو گا ۔ اس دور میں بہت سے باطل نظریات پروان چڑھ رھے ھیں  ان میں ایک نظریہ جو  بہت زیاده عام ہے، وه صنفی مساوات کا نظریہ ھے - اس نظریہ کو دور جدید کی بہت بڑی کامیابی سمجها جاتا ہے- مگر یہ نظریہ ایک غیر فطری نظریہ ہے- فطرت کے قانون کے مطابق، عورت اور مرد کے درمیان فرق پایا جاتا ہے - پیدائشی طور پر عورت  اور مرد ایک دوسرے سے مختلف ھیں ۔ عورت اور مرد کے درمیان یہ فرق ایک گہری حکمت پر مبنی ہے- اس کی وجہ سے یہ ممکن هوتا ہے کہ دونوں اپنے اعتبار سے ایک دوسرے کے مشیر بنیں- حقیقت یہ ہے کہ فطرت کے نظام کے مطابق صنفی حصے داری کا نظریہ زیاده درست نظریہ ہے، نہ کہ صنفی برابری کا نظریہ-

 انسان کی زندگی مسائل کا مجموعہ ہے- یہ مسائل ہمیشہ مختلف نوعیت کے هوتے ہیں- اس لیے بار بار یہ ضرورت هوتی ہے کہ زندگی کے دو ساتهیوں میں دو مختلف صفات هوں تاکہ ہر مسئلہ کو حل کیا جا سکے- ہر ایک اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق مسائل حیات کے حل میں اپنا اپنا حصہ ادا کر سکے- ایک شریک حیات ایک اعتبار سے اپنا حصہ ادا کرے، اور دوسرا شریک حیات دوسرے اعتبار سے-

یہ عام مشاھدے کی بات ھے کہ فطرت کے نظام میں یکسانیت موجود نہیں ھے، اس لیے اگر عورت اور مرد کے تعلق کو یکسانیت کے اصول پر قائم کیا جائے تو ہمیشہ ھی جهگڑا هوتا رہے گا- ہر ایک ذمے داری کو دوسرے فریق کے اوپر ڈالے گا، اور پهر نزاع کبهی ختم نہ هو گا- اس کے برعکس، صنفی حصے داری کے اصول کو اختیار کرنے کی وجہ سے بلا اعلان تقسیم کا طریقہ رائج هو جائے گا- دونوں خود اپنے فطری تقاضے کے تحت اپنے اپنے دائرے میں مصروف کار رہیں گے- ایک دوسرے سے الجهنے کا سلسلہ ختم هو جائے گا- اور ایک دوسرے سے معاونت کا طریقہ رائج هو جائے گا-

مرد اور عورت ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں، اور دونوں مل کر زندگی کے سفر کو جاری رکھتے ہیں۔ اس طرح مرد وعورت میں اصل رشتہ تو مل جل کر زندگی گزارنے کا ہے، تاہم جہاں اجتماعیت ہوتی ہے، خواہ وہ کتنی ہی چھوٹی ہو، وہاں حقوق اور فرائض کی بحث کا چھڑنا ناگزیر ہے۔ مرد اور عورت کے درمیان حقوق وفرائض کی بحث زمانہ قدیم سے موجود رہی ہے۔ البتہ اس دور میں اس بحث کا آہنگ بہت بلند ہوگیا ہے۔

مرد وعورت کے سلسلے میں عام طور سے دو طرح کے رویے پائے جاتے ہیں، ایک مطلق مساوات کا نظریہ ہے، جو مرد اور عورت کے درمیان ہر طرح کے فرق کو مٹا دینے کا قائل ہے، تمام تر زور لگانے کے بعد بھی فرق تو نہیں مٹتا، البتہ زندگی کشمکش اور معرکہ آرائی کا شکار ہوجاتی ہے۔اور دوسرا نظریہ مطلق تفریق اور نابرابری کا ہے، جو مرد کی برتری کو اس قدر بڑھادیتا ہے کہ دونوں کے درمیان تعلق ظلم وجبر کی علامت بن جاتا ہے، اور محسوس ہوتا ہے کہ دونوں شوہر اور بیوی نہیں، بلکہ آقا اور غلام ہیں۔ یہ رویہ بھی قطعی درست نہیں ھے ۔ 

قرآن مجید نے اس کی ایک تیسری صورت بتائی ہے، اور وہ یہ ہے کہ حقوق اور فرائض کے معاملے میں مرد اور عورت یکساں ہیں، البتہ دونوں کے درمیان مطلق مساوات نہیں ہے، بلکہ مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ (صرف ایک درجہ) تفوق حاصل ہے۔  چنانچہ ارشاد باری تعالی ھے 

وَلَـهُـنَّ مِثْلُ الَّـذِىْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ وَاللّـٰهُ عَزِيْزٌ حَكِـيْمٌ (228) 

عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مردوں کے حقوق اُن پر ہیں البتہ مردوں کو اُن پر ایک درجہ حاصل ہے اور سب پر اللہ غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا موجود ہے۔

اس آیت مبارکہ میں مرد اور عورت کے درمیان مساوات کا ذکر بھی کیا گیا  ہے، اور مرد کی فوقیت کا ذکر بھی ھوا ہے۔ البتہ مطلق فوقیت کی بات نہیں کی گئی بلکہ ایک درجہ فوقیت کی بات کی گئی  ہے۔

مساوات اور تفوق کے اس مرکب میں خاندانی نظام کے لیے بڑی برکتیں پوشیدہ ہیں۔ تفوق آمیز مساوات کے اس اصول کو عملی طور پر برتنے کا طریقہ یہ ہے کہ مرد ہمیشہ مساوات کے پہلو پر نظر رکھے، اور گھر کے ہر معاملے میں عورت کو برابر کا مقام دے۔ دوسری طرف عورت مساوات کے پہلو کا ادراک رکھتے ہوئے بھی ہمیشہ اس ایک درجہ فرق پر نگاہ رکھے، اور جہاں تک ہوسکے اس ایک درجے کا لحاظ کرے۔ چونکہ فرق بہت تھوڑا ہے، اس لیے مرد کے لیے اسے نظر انداز کرنا اور برابری کی سطح پر رہ کر ازدواجی زندگی گزارنا کوئی مشکل کام نہیں ہے، خاص طور سے اگر عورت کی طرف سے اس کی ایک درجہ فوقیت کو برتنے کی فکر موجود ہو۔ اسی طرح عورت کے لیے برابری سے آگے بڑھ کر اس ایک تھوڑے سے فرق کی رعایت کرلینا بار خاطر نہیں ہوگا، خاص طور سے اگر مرد کی طرف سے اس سلسلے میں رعایت اور نرمی کا معاملہ ہو۔

جس فیملی میں مرد کی نگاہ فرق پر اور عورت کی نگاہ برابری پر ہوتی ہے، وہاں لازمی طور سے کشمکش ہوتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس اگر مرد برابری پر اور عورت فرق پر توجہ دے، تو زندگی بہت سہل اور رواں ہوجاتی ہے۔مرد وعورت کے تعلقات میں ناہمواری اور کشیدگی اس وقت آتی ہے جب مرد اپنی فوقیت کا بہت زیادہ فرق قائم رکھنا چاہتا ہے، جو بسا اوقات عورت کی طاقت اور آمادگی دونوں سے باہر ہوتا ہے۔ جب کہ عورت مکمل برابری قائم رکھنا چاہتی ہے جو بہت سے مردوں پر شاق گزرتی ہے، اور اس طرح حقوق وواجبات کی کشمکش گھر کو تباہ کرڈالتی ہے۔قرآن مجید کی یہ رہنمائی مرد وعورت کو ایک دوسرے سے بہت قریب کردیتی ہے، اور مل جل کر زندگی گزارنے کا سازگار اور عملی ماحول فراہم کرتی ہے۔

جہاں تک عورتوں کے حقوق کی بات ہے اسلام ان کا سب سے بڑا علمبردار ہے لیکن وہ حقوق کے ساتھ ساتھ مرد اور عورت کے معاملات  اور حقوق میں  توازن اور بیلنس کی بات بھی کرتا ہے۔ اللہ رب العزت نے مرد اور عورت کو الگ الگ صلاحیتیں، نفسیات اور استعدادات عطا فرمائی ہیں۔ اسلام نے حقوق اور فرائض کی تقسیم  دونوں میاں اور بیوی  کے فطری تقاضے، ضروریات، اور دونوں کی فطری صلاحیتوں کو سامنے رکھ کر کی ہے، اور وہی متوازن اور فطری تقسیم ہے جو اسلام کرتا ہے۔

جناب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے عورت کو زندگی کا حق دلوایا، وراثت کا حق دلوایا، رائے کا حق دلوایا، علم کا حق دلوایا، معاشرے میں عزت اور احترام عطا کیا، اور عورت کو بطور ماں کے عزت و احترام، بطور بہن اور بیٹی کے شفقت، بطور بیوی کے محبت کے جذبات کی تلقین فرمائی۔ اور خود بھی اپنے عمل کے ساتھ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اپنے گھر اور  اپنے خاندان میں اس کا عملی نمونہ اُمت کے سامنے پیش کیا۔

دورِ جدید میں عورت کے حقوق اور عورت اور مرد کی مساوات کے نام پر جو آواز اٹھائی جا رہی ہے، اور بالخصوص مذہبی اقدار ،  آسمانی تعلیمات ، خصوصاً اسلامی تعلیمات و احکام کو جو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے یہ غیر فطری بات ہے۔ عورت اور مرد کی مساوات مکمل طور پر ممکن ہی نہیں ہے اور فطرت کے بھی خلاف ہے۔ عورت اور مرد کی جسمانی ساخت الگ الگ ہے، ذمہ داریاں  الگ الگ ہیں، بہت سے معاملات ہیں جو مرد میں ہیں عورت میں نہیں ہیں، جو عورت میں ہیں مرد میں نہیں ہیں، عورت کی جسمانی ساخت مرد سے مختلف ہے، اس کی سائیکالوجی مرد سے مختلف ہے، اس کی قوت کار اور استعداد مرد سے مختلف ہے، لازمی بات ہے کہ فرق تو ہو گا۔ اس فرق کو ملحوظ رکھے بغیر کوئی بھی تقسیم کار یا مساوات  غیر فطری بات ہے جس کی طرف دنیا کو بلایا جا رہا ہے۔ اور اس کا خمیازہ خود مغرب خاندانی نظام کی تباہی کی صورت میں اور بکھرنے کی صورت میں  بھگت رہا ہے۔ اور مغرب کے دانشور خاندانی نظام کی بحالی کے لیے چیخ و پکار کر رہے ہیں، لیکن وہ آسمانی تعلیمات کی طرف واپس آئے بغیر ممکن نہیں ہے۔

آج بھی جناب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی سنت مبارکہ، خلفائے راشدینؓ اور اسلامی تعلیمات کو سامنے رکھ کر عورت کے حقوق کی بات کی جائے تو مسلمان اس کے سب سے زیادہ علمبردار ہیں، لیکن عورت اور مرد کی مساوات ،اور عورت اور مرد کے حقوق کے نام پر جو غیر فطری اور غیر متوازن معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس پر نظر رکھنی چاہیے۔ اور بالخصوص پاکستان میں کہ پاکستان کی بنیاد اسلام پر ہے، اور پاکستان کا دستور اسلامی تعلیمات اور اسلامی معاشرے کی ضمانت دیتا ہے، اس لیے پاکستان میں ایسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے جو اسلامی تہذیب ، اسلامی تمدن ،مسلمانوں کی ثقافتی اقدار اور دستور کے تحفظات کو، دستور کی گارنٹیز اور ضمانتوں کو متاثر کرتا ہو۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دُنیا میں عورت کی مظلومیت کی بہت سی صورتیں موجود ہیں جو پاکستان میں بھی رائج ہیں، لیکن ان ساری صورتوں کو نظرانداز کر کے ایک دو باتوں پر فوکس کر کے جو اوپن سوسائٹی اور فری سوسائٹی قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے یہ  اسلامی معاشرے کے لئے قابل قبول نہیں ہے، اور عورتیں اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کر سکتی ہیں، عورتوں کے حقوق کے لیے مردوں کو بھی جدوجہد کرنی چاہیے اور عورتوں کو بھی کرنی چاہیے۔ دستور ، جمہوریت ،  قانون ، تہذیبی اقدار ، ثقافتی روایات ، اور اسلامی تعلیمات کے دائرے میں ہر ایسی کوشش کی حمایت کی جانی چاہیے۔ اور ہر اس کوشش کی جو ان دائروں کو متاثر کرتی ہو، اس کی کھلم کھلا مخالفت کرنا بہت ضروری ہے۔ اور پاکستان کی سالمیت ،  اس کی نظریاتی شناخت ، تہذیب و ثقافت جس کی بنیاد پر مسلمانوں اور ہندؤوں کو الگ الگ قوم شمار کیا گیا تھا، اور قائد اعظم مرحوم تک سب مسلم تہذیب کے تحفظ کے نام پر دو قومی نظریے کی بات کرتے آ رہے ہیں اور جس کی بنیاد پر پاکستان تشکیل پایا ہے، اس کی نفی کرنا یہ پاکستان کے مقصد ، نظریے ، دستور اور پاکستانیوں کے جذبات و روایات کے بھی خلاف ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو صحیح رخ پر ملک و قوم کی اور قوم کے تمام طبقات کے حقوق کی حمایت اور حفاظت کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین یا رب العالمین

Share:

دجّال کہاں ھے؟ اور کب ظاھر ھو گا؟

 

سیدنا حضرت تمیم داری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی دجال سے ملاقات!

حضرت فاطمہ بنت قیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے منادی کو سنا وہ اعلان کررہا تھا ...الصلاةُ جامعة.. میں نماز کے لئے نکلی اور رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے ساتھ (مردوں کے پیچھے عورتوں کی صف میں) نماز ادا کی رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نماز سے فارغ ہوکر منبر پر بیٹھے ....آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے چہرہ پر اس وقت مسکراہٹ تھی ۔ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے ارشاد فرمایا ہر شخص اپنی اپنی جگہ پر بیٹھا رہے.. اس کے بعد آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا جانتے ہو میں نے تم کو کیوں جمع کیا ہے انھوں نے عرض کیا ”اللہ و رسولہ اعلم“ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا واللہ!  میں نے تم کو نہ تو مال وغیرہ کی تقسیم کیلئے جمع کیا ہے نہ کسی جہاد کی تیاری کے لئے ۔  بس صرف اس بات کے لئے جمع کیا ہے کہ تمیم داری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ جو پہلے نصرانی تھے اور اب مسلمان ہوگئے ھیں اور انہوں نے مجھ سے ایک قصہ بیان کیا (میں اس سے خوش ہوا میں چاہتا ہوں کہ تم سے بیان کروں) جس سے تم کو میرے اس بیان کی تصدیق ہوجائے گی جو میں نے کبھی دجال کے متعلق تمہارے سامنے ذکر کیا تھا. وہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ھیں کہ میں ایک بڑی کشتی میں سوار ہوا جس پر سمندروں میں سفر کیا جاتا ہے میرے ساتھ قبیلہ لخم اور جذام کے تیس آدمی اور بھی تھے سمندر کا طوفان ایک ماہ تک انکا تماشا کرتا رہا..آخر مغربی جانب ان کو ایک جزیرہ نظر آیا جس کو دیکھ کر وہ بہت مسرور ہوئے اور چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر اس جزیرہ پر اتر گئے ۔ سامنے سے ان کو جانور کی شکل کی ایک چیز نظر آئی... جس کے سارے جسم پر بال ہی بال تھے کہ ان میں اس کے اعضائے مستورہ تک کچھ نظر نہ آتے تھے۔ لوگوں نے اس سے کہا کمبخت تو کیا بلا ہے؟ وہ بولی میں دجال کی جاسوس ہوں۔  چلو اس گرجے میں وہاں ایک شخص ہے جو تمہاری خبروں کا شوقین ہے.  یہ کہتے ہیں کہ جب اس نے ایک آدمی کا ذکر کیا تو اب ہم ڈر گئے کہ کہیں وہ کوئی جن نہ ہو...۔ ہم لپک کر گرجے میں پہنچے تو ہم نے ایک بڑا قوی ہیکل شخص دیکھا کہ اس سے قبل ہم نے ویسا کوئی شخص نہیں دیکھا تھا اس کے ہاتھ گردن سے مِلا کر اور اس کے پیر گھٹنوں سے لے کر ٹخنوں تک لوہے کی زنجیروں سے نہایت مضبوطی سے جکڑے ہوئے تھے۔ ہم نے اُسے کہا تیرا ناس ہو تو کون ہے؟ وہ بولا تم کو میرا پتہ کچھ نہ کچھ لگ ہی گیا ھے ۔ اب تم بتاؤ تم کون لوگ ہو؟ انھوں نے کہا ہم عرب کے باشندے ہیں۔  ہم ایک بڑی کشتی میں سفر کررہے تھے سمندر میں طوفان آیا اور وہ طوفان ایک ماہ تک رہا۔ اس کے بعد ہم اس جزیرہ میں آئے تو یہاں ہمیں ایک جانور نظر پڑا جس کے تمام جسم پر بال ہی بال تھے۔  اس نے کہا میں (جساسہ) جاسوس ہوں چلو اس شخص کی طرف جو اس گرجے میں ہے ۔ اسلئے ہم جلدی جلدی تیرے پاس آگئے، اس نے کہا مجھے یہ بتاؤ کہ بیسان (شام میں ایک بستی کا نام ہے) کی کھجوروں میں پھل آتا ہے یا نہیں ہم نے کہا ہاں آتا ہے۔ اس نے کہا وہ وقت قریب ہے جب اس میں پھل نہ آئے۔ پھر اس نے پوچھا اچھا بُحیرئہ طبریہ کے متعلق بتاؤ اس میں پانی ہے یا نہیں؟ ہم نے کہا اس میں بہت پانی ہے ۔ اس نے کہا وہ زمانہ قریب ہے جبکہ اس میں پانی نہ رہے گا ۔ پھر اس نے پوچھا زُغَر (شام میں ایک بستی کا نام ہے) کے چشمہ کے متعلق بتاؤ اس میں پانی ہے یا نہیں اور اُس بستی والے اپنے کھیتوں کو اس کا پانی دیتے ہیں یا نہیں؟ ہم نے کہا اس میں بھی پانی بہت ہے اور بستی والے اسی کے پانی سے اپنے کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں۔ پھر اس نے کہا اچھا “نبی الامین “ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا کچھ حال سناؤ ہم نے کہا وہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے آئے ہیں۔ اس نے پوچھا کیا عرب کے لوگوں نے ان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے ساتھ جنگ کی ہے؟ ہم نے کہا ہاں۔ اس نے پوچھا اچھا پھر کیا نتیجہ رہا؟ ہم نے بتایا کہ وہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  اپنے گرد و نواح پر تو غالب آچکے ہیں اور لوگ ان کی اطاعت قبول کرچکے ہیں۔ اس نے کہا سن لو: ان کے حق میں یہی بہتر تھا کہ ان کی اطاعت کرلیں ۔ 

نبی آخر الزماں صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی بعثت کی خبر سن کر اس نے مارے خوشی کے چھلانگ لگائی اور کہا اب میں تم کو اپنے متعلق بتاتا ہوں، میں “مسیح الدجال “ہوں اور اب وہ وقت قریب ہے جب مجھ کو یہاں سے باہر نکلنے کی اجازت مل جائے گی ۔ میں یہاں سے باہر نکل کر تمام زمین میں گھوم جاؤں گا اور چالیس دن کے اندر اندر کوئی بستی ایسی نہ رہ جائے گی جس میں داخل نہ ہوں بجز مکہ مکرمہ  اور  طیبہ کے کہ ان دونوں مقامات میں میرا داخلہ ممنوع ہے، جب ان دونوں میں سے کسی بستی میں داخل ہونے کا ارادہ کروں گا اس وقت ایک فرشتہ ہاتھ میں ننگی تلوار لئے سامنے آکر مجھے داخل ہونے سے روک دے گا اور ان مقامات کے جتنے راستے ہیں ان سب پر فرشتے ہوں گے جو ان کی حفاظت کررہے ہوں گے۔

فاطمہ بنت قیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اپنی لکڑی منبر پر مار کر فرمایا کہ وہ طیبہ یہی مدینہ ہے یہ جملہ تین بار فرمایا ۔ دیکھو کیا یہی بات میں نے تم سے بیان نہیں کی تھی لوگوں نے کہا جی ہاں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے بیان فرمائی تھی۔

اس کے بعد نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا دیکھو وہ بحرِ شام یا بحر یمن بلکہ مشرق کی جانب ہے اور اسی طرف ہاتھ سے اشارہ فرمایا۔ (مسلم شریف) 

دجال پیدا ہوچکا ہے ۔ اُسے ایک جزیرہ میں قید کرکے رکھا گیا ہے، وہ قیامت کے قریب ظاہر ہوگا، جیسا کہ صحیح مسلم میں فاطمہ بنت قیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کی روایت میں مذکور ہے اور حضرت تمیم داری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے اسلام لانے کا سبب بھی یہی واقعہ ہوا کہ انھوں نے ایک جزیرہ میں دجال سے بات چیت کی اور پھر مدینہ منورہ  آکر اسلام قبول کیا۔

دجال کہاں قید ہے؟ اس کو آحادیثِ مبارکہ  میں مبہم رکھا گیا ہے ۔ مسلم شریف کی حدیث کے آخر میں رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کا یہ قول درج ہے: 

أَلَا إِنَّہُ فِی بَحْرِ الشَّأْمِ، أَوْ بَحْرِ الْیَمَنِ، لَا بَلْ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا ہُوَ، مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا ہُوَ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ، مَا ہُوَ وَأَوْمَأَ بِیَدِہِ إِلَی الْمَشْرِقِ (مسلم شریف)

دجال کا ظہور کہاں سے ہوگا ؟ اس بارے میں مسلم شریف اور بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ ”یأتي من قبل المشرق“ اس سے اتنا معلوم ہوا کہ دجال جانب مشرق سے ظاہر ہوگا اور مسلم شریف میں حضرت سمعان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کی روایت میں مزید یہ ہے کہ وہ ”حلہ“ نامی جگہ جو شام اور عراق کے درمیان ہے وہاں سے ظاہر ہوگا۔ (مسلم شریف )  اور ترمذی شریف کی ایک روایت میں ہے:

 عَنْ أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   قَالَ: الدَّجَّالُ یَخْرُجُ مِنْ أَرْضٍ بِالمَشْرِقِ یُقَالُ لَہَا: خُرَاسان، 

یعنی دجال خراسان جو مشرق کی جانب  واقع ہے وہاں سے ظاہر ہوگا۔

رہا یہ سوال کہ دجال کب پیدا ہوا تھا ؟ تو آحادیثِ مبارکہ میں اس کی صراحت موجود نہیں ھے ۔ تو جب احادیثِ مبارکہ میں اس امر کو بیان نہیں کیا گیا تو ہھر ھمیں  بھی اس کی کھوج میں لگنے کی کوئی ضرورت نہیں  ھے ۔ تاھم قُربِ قِیامت کی دس بڑی علامات میں سے ایک علامت “ دَجّال کا ظاہر ہونا “ بھی ہے ، دجّال کا فتنہ تاریخِ انسانی کی ابتدا سے لے کر انتہا تک کے تمام فتنوں سے بڑا اور خطرناک فتنہ ہے ، جس کی بڑائی اور شدّت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ “ ہر ایک نبی  علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام   نے اپنی اپنی اُمّت کو دجّال کے فتنہ سے ڈرایا تھا۔ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے بھی اپنی اُمت کو اس فتنہ سے ڈرایا ھے ۔ چنانچہ حدیثِ مبارکہ ھے

عن أبي هريرة رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ قال: قال رسول الله صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ : « ألا أخبركم عن ‌الدجال حديثا ما حدثه نبي قومه، إنه أعور، وإنه يجيء معه مثل ‌الجنة والنار، فالتي يقول إنها ‌الجنة هي النار، وإني أنذرتكم به كما أنذر به نوح قومه". (صحيح مسلم)

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا سے روایت ہے  رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا:  کیا میں تمہیں دجال کے بارے میں وہ باتیں نہ بتاؤں جو کسی نبی نے اپنی قوم  کو نہیں  بتائیں ، وہ کانا ہوگا، اس کے ساتھ جنت اور  جہنم کی طرح  کی چیز ساتھ ہوگی،  جو جہنم کہی جائے گی وہ (درحقیقت ) جنت ہوگی، میں تمھیں اس ( فتنہ دجال ) سے اس طرح ڈراتا ہوں جس طرح نوح نے اپنی قوم کو ڈرایا۔

Share:

(13) قسم کے دل (13) قسم کے لوگ


فَمَن يُرِدِ اللّهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلاَمِ ۔

پس اللہ جس کی ھدایت کا ارادہ کرتا ھے تو اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ھے ۔( الانعام ) 

  قلب کا مرکز انسان کا سینہ ھے اور اسکا ذکر کلام الٰٰہی میں  کئی مقامات پر کیا گیا ھے ۔حضرت موسی  علیہ السلام نے اللہ تعالی سے دعامانگی۔ رب اشرح لی صدری ''اے رب میرا سینہ کھول دے ( طہ )رسول  للہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے بارے میں بیان کیا گیا۔الم نشرح لک صدرک ۔(النشرح) کیا ھم نے تمھارا سینہ کھول نہیں دیا؟''۔  

قلب کا تعلق روح کے ساتھ ھے اور روح امرِ ربی ھے۔جب مرکز یعنی قلب کی معرفت اللہ تعالی کے ساتھ مضبوط  ھو جاتی ھے توپھر یہ مرکز  یعنی دل نورانی بن جاتا ھے ۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں انسانوں کے دلوں کی مختلف اقسام بیان فرمائی ھیں جن میں سے تیراں  قسم کے دلوں کا ذکر ذیل میں کیا جائے گا ۔ یہ تیراں  قسم کے دل  درآصل تیراں  قسم کے لوگ ہیں۔ بے شک ہر علم اللہ تعالی  کی ذات سے ھی پھوٹتا ہے اور علم کی ہر شاخ انسانی دماغ کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہے ۔  ھمیں اُس علیم اور خبیر  ذات کا شکر ادا کرنا چاھیے جس نے ہمیں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے نوازا ھے ۔  اللہ تعالی کی طرف سے تیرہ  قسم کے دلوں (لوگوں) کی تقسیم ملاحظہ ھو


*1. قلبِ سلیم

اللہ تعالیٰ کی نظر میں انتہائی پسندیدہ  دل “قلب سلیم” ہے ' یہ وہ دل (لوگ) ہیں جو کفر' نفاق اور گندگی سے پاک ہوتے ہیں' قلب سلیم کے مالک لوگ ذہنی اور جسمانی گندگی بھی نہیں پھیلاتے اور یہ خود بھی نفاق اور کفر سے پاک رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی ان سے بچا کر رکھنے کی کوشش کرتے رھتے ہیں' اللہ تعالیٰ کو یہ دل بہت اچھے لگتے ہیں۔ گویا “قلبِ سلیم” ﻭﻩ ﺧﺎﻟﺺ ﺩﻝ ﮨے ﺟﻮ ﻛﻔﺮ، ﻧﻔﺎﻕ ﺍﻭﺭ ﮔﻨﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﭘﺎﮎ ﮨﻮﺗﺎ ھے ۔ ارشادِ باری تعالی ﮨﮯ 

اِلَّا مَنْ اَتَى اللّـٰهَ بِقَلْبٍ سَلِيْـمٍ

مگر جو اللہ کے پاس پاک دل لے کر آیا۔ ﺳﻮﺭۂ ﺍﻟﺸﻌﺮﺍﺀ - 89) 


*2. قلبِ منیب

ﯾﮧ دوسرا دل “قلب منیب “ ہوتا ہے 'یہ وہ دل (لوگ) ہیں جو اللہ سے توبہ کرتے رہتے ہیں اور اس کی اطاعت میں مصروف رہتے ھیں ۔ یہ ھر وقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں گم رہتے ہیں' ان لوگوں کی سب سے بڑی نشانی توبہ ہوتی ہے' یہ اللہ سے ہر وقت معافی اور توبہ کے خواستگار رہتے ہیں' اللہ تعالیٰ منیب لوگوں کو بھی پسند کرتا ہے۔ یعنی “قلبِ منیب “ﻭﻩ ﺩﻝ ﮨﮯ ﺟﻮ ﷲ ﺳﮯ ﺗﻮبہ ﻛﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﻃﺎﻋﺖ ﻣﻴﮟ ﻟﮕﺎ رھتا ھے اور اللہ پاک کو بہت پسند ھے ۔ چنانچہ ارشادِ ربانی ھے

مَّنْ خَشِىَ الرَّحْـمٰنَ بِالْغَيْبِ وَجَآءَ بِقَلْبٍ مُّنِيْبٍ (33) 

جو کوئی اللہ سے بن دیکھے ڈرا اور رجوع کرنے والا دل لے کر آیا۔

(ﺳﻮﺭۂ ق)


*3. قلبِ مخبت

 ﯾﮧ تیسرا دل “قلب مخبت “ہے ' یہ وہ دل (لوگ) ہیں جو جھکے ہوئے' مطمئن اور پرسکون ہوتے ہیں' یہ عاجز لوگ زندگی میں ھمیشہ مطمئن اور پرسکون رھتے ھیں  گویا زندگی میں  اگر سکون اور اطمینان چاہیے تو عاجزی اختیار کر لی جائے  ۔ عاجزی وہ واحد عبادت ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا تھا''جو کوئی بھی اللہ کے لیے جھکتا ہے (عاجزی اختیار کرتا ہے) اللہ اس کو بلند کر دیتا ہے ''چنانچہ اللہ تعالیٰ کو مخبت دل بھی پسند ہیں یعنی یہ ﻭﻩ ﺩﻝ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺟﻬﻜﺎ ﮨﻮﺍ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﺍﻭﺭ ﺳﻜﻮﻥ ﻭﺍﻻ  ھوتا ھے۔  ارشادِ باری تعالی ﮨﮯ 

وَلِيَعْلَمَ الَّـذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَيُؤْمِنُـوْا بِهٖ فَتُخْبِتَ لَـهٝ قُلُوْبُـهُـمْ ۗ وَاِنَّ اللّـٰهَ لَـهَادِ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْـمٍ (54) 

اور تاکہ علم والے اسے تیرے رب کی طرف سے حق سمجھ کر ایمان لے آئیں پھر ان کے دل اس کے لیے جھک جائیں، اور بے شک اللہ ایمان داروں کو سیدھے راستہ کی طرف ہدایت کرنے والا ہے۔ (ﺳﻮﺭۂ ﺍﻟﺤﺞ - 54) 


*4. قلبِ وجل

 ﯾﮧ چوتھا دل “قلب وجل “ہے' یہ وہ دل (لوگ) ہیں جو نیکی کے بعد بھی یہ سوچ کر ڈرتے رہتے ہیں کہ معلوم نہیں اللہ تعالیٰ ہماری یہ نیکی قبول کرے یا نہ کرے' یہ لوگ ہر لمحہ اللہ کے عذاب سے بھی ڈرتے رہتے ہیں' یہ بنیادی طور پر تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں' یہ جانتے ہیں اللہ نے اپنے مقرب بندوں  کو بھی غلطیوں کی سزا دی تھی' ہم کس کھیت کی مولی ہیں چنانچہ یہ اپنی بڑی سے بڑی نیکی کو بھی حقیر سمجھتے ہیں' اللہ کو یہ دل بھی پسند ھیں ۔ اللہ تعالی کا فرمان ھے 

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ یَبۡتَغُوۡنَ اِلٰی رَبِّہِمُ الۡوَسِیۡلَۃَ اَیُّہُمۡ اَقۡرَبُ وَ یَرۡجُوۡنَ رَحۡمَتَہٗ وَ یَخَافُوۡنَ عَذَابَہٗ ؕ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحۡذُوۡرًا ﴿۵۷﴾

جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وہ اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون زیادہ نزدیک ہو جائے وہ خود اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے خوف زدہ رہتے ہیں ، ( بات بھی یہی ہے ) کہ تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہی ہے ۔ (سورہ بنی اسرائیل)

 

*5. قلبِ تقی

پانچواں دل “قلب تقی “ ہے' یہ وہ دل (لوگ) ہیں جو اللہ تعالیٰ کے شعائر کی تعظیم کرتے ہیں' ہم میں سے بے شمار ایسے لوگ ہیں جو شعائر خداوندی پر مکمل عمل نہیں کر پاتے تاہم یہ ان شعائر کی عبادت کی طرح تعظیم کرتے ہیں' یہ لوگ اگر کسی مجبوری سے عبادت نہ کر سکیں تو بھی ان شعائر کا پورا پورا احترام کرتے ھیں  مثلاً اگر کسی شرعی عذر کی بنا پر روزہ نہ رکھ سکیں تو بھی یہ روزہ داروں کے سامنے کھاتے پیتے نہیں ہیں اور یہ نماز اور اذان کے وقت خاموشی اختیار کرتے ہیں' اللہ تعالیٰ کو یہ لوگ بھی پسند ہیں ۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالی ھے

 ذٰلِكَ وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّـٰهِ فَاِنَّـهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ (32) 

بات یہی ہے اور جو شخص اللہ کی نامزد چیزوں کی تعظیم کرتا ہے سو یہ دل کی پرہیزگاری ہے   (ﺳﻮﺭۂ ﺍﻟﺤﺞ - 32) 


*6. قلبِ مھدی

چھٹا دل “قلب مہدی”  ہے'یہ وہ دل (لوگ) ہیں جو اللہ کے فیصلوں پر بھی راضی رہتے ہیں اور یہ اللہ کے احکامات کو بھی بخوشی قبول کر لیتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ھیں جو ہر ازمائشی واقعے کے بعد کہتے ہیں جو اللہ کی مرضی' جو اللہ چاہے' اللہ تعالیٰ کو یہ لوگ بھی پسند ہیں' زندگی میں یہ لوگ کبھی خسارے میں نہیں رھتے ' اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان کے لیے برائی کے اندر سے اچھائی نکالتا ہے' لوگ ان کے لیے شر کرتے ہیں لیکن اللہ اس شر سے خیر نکال دیتا ہے۔ فرمانِ الہی ھے

مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّـٰهِ ۗ وَمَنْ يُّؤْمِنْ بِاللّـٰهِ يَـهْدِ قَلْبَهٝ ۚ وَاللّـٰهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِـيْمٌ (11) *

اللہ کے حکم کے بغیر کوئی مصیبت بھی نہیں آتی، اور جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے، اور اللہ ہر چیز جاننے والا ہے۔ ﻭﻩ ﺩﻝ ﮨﮯ ﺟو ﷲ ﻛﮯ ﻓﻴﺼﻠﻮﮞ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺭﺍﺿﯽ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﻛﮯ ﺍﺣﮑﺎﻣﺎﺕ ﻛﻮ ﺑﻬﯽ ﺑﺨﻮﺷﯽ ﻗﺒﻮﻝ ﻛﺮ ﻟﻴﺘﺎ ﮨﮯ(سورۂ تغابن - 11) 


*7. قلبِ مطمئنہ

ساتواں دل “قلبِ مطمئنہ” ہے' یہ وہ دل (لوگ) ہوتے ہیں جن کو توحید ، رسالت اور اللہ کے ذکر سے سکون ملتا ہے۔ قلبِ مطمئنہ بنیادی طور پر صرف اور صرف اللہ تعالی پر یقین رکھتا ہے' یہ دن رات اللہ تعالی  کا ذکر (تسبیحات) بھی کرتا رہتا ہے ۔ ذکر اللہ کی تسبیحات کرنے والے بے شمار لوگوں کا مشاھدہ کیا گیا ھے کہ یہ لوگ اپنی زندگی میں واقعی مطمئن اور خوش و خرم رہتے ہیں ۔ ملال اور حزن سے بچنے کے لئے استغفار ، درود شریف اور تیسرا کلمے کی تسبیحات اور روزانہ تلاوتِ قران پاک  کا اھتمام اکثیر کا درجہ رکھتے ہیں ۔  اللہ تعالی کو یہ لوگ بھی پسند ہیں ، جیسا کہ قران پاک میں ارشادِ خداوندی ھے 

اَلَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُـهُـمْ بِذِكْرِ اللّـٰهِ ۗ اَلَا بِذِكْرِ اللّـٰهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ (28) 

وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے تسکین ہوتی ہے، خبردار! اللہ کی یاد ہی سے دل تسکین پاتے ہیں۔ 

(سورہ الرعد)

بہرحال  قلبِ مطمئنہ ﻭﻩ ﺩﻝ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻛﻮ ﷲ پاک پسند فرماتے ھیں 


*8. قلبِ حي

آٹھواں دل “قلبِ حی” ہے ' یہ وہ دل (لوگ) ہیں جو اللہ تعالی کی نافرمان قوموں کا انجام سن کر ان سے عبرت اور نصیحت حاصل کرتے ہیں' جو لوگ کم تولنے' جھوٹ بولنے' شر پھیلانے' شرک' کفر اور تکبر کرنے' برائی کی ترویج کرنے اور بچوں' عورتوں اور جانوروں پر ظلم کرنے والوں کا انجام سن اور دیکھ کر توبہ کر لیتے ہیں اور اپنی زندگیوں کو  ان گناہوں سے پاک کر لیتے ہیں اللہ تعالی  کی نظر میں وہ لوگ “قلب حی “ والے ہوتے ہیں اور اللہ انھیں بھی پسند کرتا ہے۔چبانچہ ارشادِ ربانی ھے

 اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَـذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَـهٝ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيْدٌ (37) 

بے شک اس میں اس شخص کے لیے بڑی عبرت ہے جس کے پاس (فہیم) دل ہو یا وہ متوجہ ہو کر (بات کی طرف) کان ہی لگا دیتا ہو۔ ﺳﻮﺭۂ ﻕ - 37) 


*9. قلبِ مریض

نواں دل “قلبِ مریض”  ہے یہ وہ دل (لوگ) ہیں جو شک' نفاق' بداخلاقی' ہوس ، بددیانتی اور لالچ کا شکار ہوتے ہیں' یہ لوگ لالچ' ہوس' بداخلاقی' بددیانتی ، نفاق اور شک کو اپنی عادتیں بنا لیتے ہیں اس طرح  یہ اپنے آپ کو بہت بڑی روحانی اور دماغی  بیماریاں چمٹا لیتے ہیں اور بدقسمتی سے جو لوگ ان بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں وہ بہت اذیت ناک زندگی گزارتے ہیں ۔ یہ لوگ اگر اربوں بلکہ کھربوں کے بھی مالک بن جائیں تب بھی دلی سکون کی دولت سے محروم ھی رھتے ھیں ۔ اللہ تعالی کے نزدیک یہ لوگ روحانی طور پر ھدایت کی روشنی سے محروم  اور دلوں کے مریض ھوتے ھیں  ۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ھے کہ جو لوگ اپنی زندگی میں شک و نفاق وغیرہ کا مرض پال لیتے ھیں وہ کھبی بھی اپنی زندگی کو خوشگوار نہیں بنا سکتے ۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالی ھے 

مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لَا يُبْصِرُونَ

ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے (شب تاریک میں) آگ جلائی، جب آگ نے اس کے اردگرد کی چیزیں روشن کیں تو خدا نے ان لوگوں کی روشنی زائل کر دی اور ان کو اندھیروں میں چھوڑ دیا (سورہ البقرہ)

بہرحال “ قلبِ مریض “ ﻭﮦ ﺩﻝ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺷﮏ، ﻧﻔﺎﻕ، ﺑﺪﺍﺧﻼﻗﯽ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺱ ﻭ ﻻﻟﭻ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﻣﺮﺍﺽ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ رھتا ھے اور خود اپنی زندگی تو اذیت سے گزارتا  ھی ھے اور  یہ دوسروں کے لئے بلکہ بعض اوقات اپنے ھی اھلِ خانہ کے لئے بھی اذیت کا باعث بنا رھتا ھے 


*10. قلبِ اعمی

دسواں دل “قلب الاعمی “ ہے' یہ وہ دل (لوگ) ہیں جو نہ دیکھتے ہیں اور نہ سنتے ہیں'  ان لوگوں میں انتہا درجہ کی بے حسی پائی جاتی ھے ۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ  اندھے اور بہرے لوگ ھیں  اسی لئے مومنوں کو حکم یہ ھے کہ تم ان سے بحث نہ کیا کرو بلکہ بس انھیں سلام کرو اور آگے نکل جاؤ ۔ تو “قلبِ الاعمی” ﻭﮦ ﺩﻝ ﮨﮯ ﺟﻮ نہ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﻧﮧ ﺳﻨﺘﺎ ﮨﮯ بلکہ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﺳﮯ بالکل ﻋﺎﺭﯼ ﮨﮯ، ﺣﺘٰﯽ ﮐﮧ روحانی طور پر ﺍﻧﺪﮬﺎ ﮨﮯ۔ قران پاک نے اس کا نقشہ کچھ یوں کھینچا ھے 

اَفَلَمْ يَسِيْـرُوْا فِى الْاَرْضِ فَتَكُـوْنَ لَـهُـمْ قُلُوْبٌ يَّعْقِلُوْنَ بِهَآ اَوْ اٰذَانٌ يَّسْـمَعُوْنَ بِـهَا ۖ فَاِنَّـهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِىْ فِى الصُّدُوْرِ (46) 

کیا انہوں نے زمین میں سیر نہیں کی پھر ان کے اَیسے دل ہوجاتے جن سے سمجھتے یا ایسے کان ہو جاتے جن سے سنتے، پس تحقیق بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل جو سینوں میں ہیں اندھے ہو جاتے ھیں ۔ ( سورہ الحج ) 


*11. قلبِ ﺍﻟﻼﻫﻰ

گیارہواں دل “قلب اللاھی “ ہے' یہ وہ دل ہے جو ھر وقت قرآن پاک  سے غافل رھتا ھے اور بس دنیا کو ھی سب کچھ سمجھتا ھے دین کی باتیں  یا قران پاک سیکھنے اور سمجھنے کے لئے اس کے پاس وقت ھی نہیں ھے کیونکہ دین کی اس کے نزدیک (نعوذ باللہ) کوئی حیثیت نہیں ھے اور یہ بس دن رات دنیا کے پیچھے بھاگتا رھتا ھے اور دنیا کی رنگینیوں ھی میں مگن رھتا ہے ۔ اللہ تعالی اس طرح کے غافل لوگوں کو بھی پسند نہیں فرماتے  اور یہ بھی بالآخر عبرت کا نشان بن جاتے ہیں ۔ ارشادِ باری تعالی ھے 

لَاهِيَةً قُلُوْبُـهُـمْ ۗ وَاَسَرُّوا النَّجْوَى الَّـذِيْنَ ظَلَمُوْا هَلْ هٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ۖ اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَاَنْتُـمْ تُبْصِرُوْنَ (3) 

ان کے دل کھیل میں لگے ہوئے ہیں، اور ظالم پوشیدہ سرگوشیاں کرتے ہیں کہ یہ تمہاری طرح ایک انسان ہی تو ہے، پھر کیا تم دیدہ دانستہ جادو کی باتیں سنتے جاتے ہو۔

(ﺳﻮﺭۂ ﺍﻻﻧﺒﯿﺎﺀ - 3) 


*12. قلبِ ﺍﻵﺛﻢ

بارہواں دل “قلب ا لآثم “ہے یہ وہ (دل) لوگ ہیں جو حق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ھیں  اور گواہی کو جان بوجھ کر چھپاتے ہیں۔ اگر ھم تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ھوتا ھے کہ ماضی میں گواہی چھپانے اور حق پر پردہ ڈالنے والے معاشرے اور لوگ  تباہ و برباد ھو گئے ۔ اللہ کو یہ لوگ بھی پسند نہیں ھیں ۔ چنانچہ ارشاد ربانی ھے 

  ۗ وَلَا تَكْـتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَنْ يَّكْـتُمْهَا فَاِنَّهٝٓ اٰثِـمٌ قَـلْبُهٝ ۗ وَاللّـٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِـيْمٌ (283)

 اور گواہی کو نہ چھپاؤ، اور جو شخص اسے چھپائے گا تو بے شک اس کا دل گناہگار ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ خوب جانتا ہے۔ (سورہ البقرہ)

 سو “ قلب الآثم “ ﻭﮦ  مبغوض ﺩﻝ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺣﻖ ﭘﺮ ﭘﺮﺩﮦ ﮈﺍﻝ کر ﺍﺱ ﮐﯽ ﮔﻮﺍﮨﯽ کو ﭼﮭﭙﺎﺗﺎ ﮨﮯ


*13. قلبِ متکبر

 ﯾﮧ تیرہواں دل “ قلبِ متکبر”  ہے' اس دل کے لوگ غرور و تکبر اور سرکشی میں مبتلا رھتے ہیں یہاں تک کہ یہ اپنی ظاھری دین داری کو بھی گھمنڈ بنا لیتے ہیں یوں یہ ظلم اور جارحیت کا شکار ہو جاتے ہیں' کبر اللہ تعالی کا وصف ہے' اللہ یہ وصف کسی انسان کے لئے برداشت نہیں کرتا چنانچہ معاشرہ ہو' ملک ہو یا پھر لوگ ہوں تاریخ گواہ ہے یہ فرعون اور نمرود کی طرح عبرت کا نشان بن جاتے ہیں ۔ دنیا میں آج تک کسی مغرور شخص کو کھبی عزت نصیب نہیں ہوئی' وہ آخرکار رسوائی اور ذلت تک پہنچ کر ھی رہا' اللہ کو یہ دل بالکل  پسند نہیں۔ یہﻭﮦ ﺩﻝ ﮨﮯ جو ﻇﻠﻢ ﻭ ﺟﺎﺭﺣﯿﺖ ﮐﺎ ﮔﮭﺮ ﮨﻮﮐﺮ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﺎ ھے۔ ارشاِ باری تعالی ھے 

اَلَّـذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ فِىٓ اٰيَاتِ اللّـٰهِ بِغَيْـرِ سُلْطَانٍ اَتَاهُـمْ ۖ كَبُـرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّـٰهِ وَعِنْدَ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا ۚ كَذٰلِكَ يَطْبَعُ اللّـٰهُ عَلٰى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَـبِّـرٍ جَبَّارٍ (35) 

جو لوگ اللہ کی آیتوں میں کسی دلیل کے سوا جو ان کے پاس پہنچی ہو جھگڑتے ہیں، اللہ اور ایمان والوں کے نزدیک (یہ) بڑی نازیبا بات ہے، اللہ ہر ایک متکبر سرکش کے دل پر اسی طرح مہر کر دیا کرتا ہے (ﺳﻮﺭۂ ﺍﻟﻤﺆﻣﻦ - 35)

 ھمیں ان  تیرہ دلوں کو سامنے رکھ کر اپنے سینے کو ٹٹول کر دیکھنا چاھیے کہ ھمارا اپنا دل کس کٹیگری میں ھے تو صورت حال خود بخود کھل کر سامنے آجائے گی ۔ اگر خدانخواستہ ھمارا  دل اُن کٹیگریز میں ہے جنہیں اللہ پاک ناپسند فرماتے ھیں تو یہ بہت تشویش والی بات ھے کیونکہ موت کا کوئی بھروسہ نہیں کب آ جائے لہذا ھمیں فوری طور پر اللہ تعالی کے سامنے گڑگڑا کر سچی توبہ کرنی چاھیے اور اپنی اصلاح کرکے اچھے دل کی طرف لوٹ جانا چاھیے ان شاء اللہ  سچی توبہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ اپنے کرم اور فضل کے دروازے کھول دے گا' یہ یقینی بات ھے  کہ  اللہ تعالی کے برابر تمام کائنات میں کوئی طاقت نہیں۔ یہ طاقت اگر ھمارے ساتھ ہے تو پھر ھمارا  کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور اگر خدانخواستہ اس عظیم طاقت کاساتھ ھمیں نصیب نہیں ھے تو پھر ھمیں کوئی بھی نہیں بچا سکتا' ۔ 

اللہ پاک ھمیں صراطِ مستقیم پر چلنے اور رب چاھی زندگی  اختیار کرنے کی توفیق عنایت فرمائے

آمین یا رب العالمین


Share:

دُنیاوی زندگی کی حقیقت


وَمَا هٰذِهِ الْحَيَاةُ الـدُّنْيَآ اِلَّا لَـهْوٌ وَّلَعِبٌ ۚ وَاِنَّ الـدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَـهِىَ الْحَيَوَانُ ۚ لَوْ كَانُـوْا يَعْلَمُوْنَ (64) 

اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے، اور اصل زندگی عالم آخرت کی ہے کاش وہ سمجھتے۔(العنکبوت)

دنیا کی زندگی اصل زندگی نہیں بلکہ اصل زندگی کے لئے ٹرائلز کا مرحلہ ھے ،، جو اس میں کامیاب ھوا وہ اصل زندگی سے نوازا جائے گا چنانچہ ارشاد باری تعالی ھے

اِعْلَمُوٓا اَنَّمَا الْحَيَاةُ الـدُّنْيَا لَعِبٌ وَّلَـهْوٌ وَّزِيْنَةٌ وَّّتَفَاخُـرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُـرٌ فِى الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ ۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٝ ثُـمَّ يَهِيْجُ فَتَـرَاهُ مُصْفَرًّا ثُـمَّ يَكُـوْنُ حُطَامًا ۖ وَفِى الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيْدٌۙ وَّمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّـٰهِ وَرِضْوَانٌ ۚ وَمَا الْحَيَاةُ الـدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ (20) 

جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زیبائش اور ایک دوسرے پر آپس میں فخر کرنا اور ایک دوسرے پر مال اور اولاد میں زیادتی چاہنا ہے، جیسے بارش کی حالت کہ اس کی سبزی نے کسانوں کو خوش کر دیا پھر وہ خشک ہو جاتی ہے تو تو اسے زرد شدہ دیکھتا ہے پھر وہ چورا چورا ہو جاتی ہے، اور آخرت میں سخت عذاب ہے، اور اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ہے، اور دنیا کی زندگی سوائے دھوکے کے اسباب کے اور کیا ہے۔  (سورہ الحدید)


ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی کا ارشاد ھے 

يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّـٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الـدُّنْيَا ۖ وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللّـٰهِ الْغَرُوْرُ (5) 

اے لوگو بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے پھر تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے، اور تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ باز دھوکا نہ دے (سورہ فاطر)


نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا ارشاد ھے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال ایسے ہے جیسے تم سے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈبوئے تو پھر دیکھو کہ وہ کتنا پانی اپنے ساتھ لا تی ہے ۔”” صحیح مسلم 

دنیا کی زندگی امتحان ھی امتحان ھے ،، یہ امتحان اس بات کا ھے کہ عمل سے ثابت کیا جائے کہ حقیقی زندگی کا حقدار کون ھے ؟ گویا کہ انسان اس دنیا کے ھر مرحلے میں ازمائش میں ھی رھتا ھے جیسا کہ سورہ البقرہ میں ارشاد باری تعالی ھے

وَلَنَـبْلُوَنَّكُمْ بِشَىْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِـرِيْنَ (155) 

اور ہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے ضرور آزمائیں گے، اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔

اَلَّـذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُـمْ مُّصِيْبَةٌ قَالُوْآ اِنَّا لِلّـٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ (156) 

وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ہم تو اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔

اُولٰٓئِكَ عَلَيْـهِـمْ صَلَوَاتٌ مِّنْ رَّبِّهِـمْ وَرَحْـمَةٌ ۖ وَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْمُهْتَدُوْنَ (157) 

یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے مہربانیاں ہیں اور رحمت، اور یہی ہدایت پانے والے ہیں۔

(سورہ البقرہ)


قرآن پاک میں ایک دوسرے مقام  پر اللہ پاک لوگوں کو متنبہ کرتے ھوئے فرماتے ھیں 

أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (2) وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ (3) العنکبوت

کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ھے کہ انہیں چھوڑ دیا جائے گا صرف یہ کہہ دینے پر کہ ھم ایمان لائے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا ؟ بےشک ھم نے ان سے پہلوں کو بھی آزمایا ھے ،پس اللہ ضرور معلوم کرے گا ان لوگوں کو جو سچے ھیں اور ضرور معلوم کرے گا ان کو جو جھوٹے ھیں ( دعوئ ایمان میں )

دنیا کا مال و متاع اور اس کی تقسیم کا تعلق کبھی بھی مومن اور کافر ، نیک اور بد ، متقی اور فاسق کی بنیاد پر نہیں ھوتا ،، نہ اللہ پاک نے اس قسم کا کوئی وعدہ فرمایا ھے ! دنیا کی تقسیم ، مال و اولاد کی فراوانی کبھی تو دنیا کا نظام چلانے کے سلسلے میں ھوتی ھے ، کبھی امتحان کے طور پہ ھوتی ھے ، غریب کا بھی امتحان اور امیر کا بھی امتحان ،، چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ھے 

وَلَوْ بَسَطَ اللّـٰهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهٖ لَبَغَوْا فِى الْاَرْضِ وَلٰكِنْ يُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَآءُ ۚ اِنَّهٝ بِعِبَادِهٖ خَبِيْـرٌ بَصِيْـرٌ (27) 

اور اگر اللہ اپنے بندوں کی روزی کشادہ کر دے تو وہ زمین پر سرکشی کرنے لگیں لیکن وہ ایک اندازے سے اتارتا ہے جتنی چاہتا ہے، بے شک وہ اپنے بندوں سے خوب خبردار دیکھنے والا ہے۔  (سورہ الشوری)

یعنی اگر اللہ تعالی کی طرف سے ھر ایک کی روزی کشادہ ھو جائے تو دنیا میں انارکی پھیل جائے ،، یعنی کوئی کسی کا حکم نہ مانے ، نہ کوئی کسی کے جوتے گانٹھے ، نہ کپڑے دھوئے ، نہ کوئی کپڑے سیئے ، نہ کوئی تندور پہ روٹیاں پکائے اور نہ مستری مزدور دستیاب ھو ، میں بھی رانی تو بھی رانی کون بھرے گا پانی والی کیفیت ھو جائے!

دنیا میں مال و دولت اور کثرتِ اولاد کا ھونا کسی کی کامیابی کی دلیل نہیں ، بلکہ یہ بھی ایمان والوں کا امتحان ھے کہ وہ آخرت کی موعودہ زندگی پر یقین رکھتے ھوئے اس فانی دنیا کو آخرت کے مقابلے میں حقیر سمجھتے ھیں  یا پھر دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ھیں  اور کیا انہیں اللہ سے گِلے شکوے ھوتے ھیں یا نہیں ؟؟ مال عموماً فسق و فجور کی طرف مائل کرتا اور برائی کی طرف راغب کرتا ھے ، شیطان بھی اس پر زیادہ محنت کرتا ھے۔ اللہ پاک فرماتے ھیں کہ اگر مجھے یہ خدشہ نہ ھوتا کہ تمام لوگ ھی کافر ھو جائینگے تو میں کافروں کی چھتیں ،سیڑھیاں دروازے اور بیڈ سونے چاندی کے بنا دیتا تاکہ وہ خوب خوب گناہ کر لیں اور اس دولت میں گم ھو کر رب سے غافل ھو جائیں ۔  اگر یہ سب کچھ کافروں کو دے بھی دیا جائے تو بھی یہ اسی چند روزہ زندگی کا سامان ھے ؟ عاقبت کی کامیابی تو پھر بھی تقوی اختیار کرنے والوں کے لئے ھی ھے !

اللہ تعالی کے نزدیک اس دنیا کی قیمت مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ھے اگر اللہ تعالی کے نزدیک اس دنیا کی کوئی قیمت ھوتی تو اللہ پاک کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ دیتے چنانچہ ارشاد باری تعالی ھے 

وَلَوْلَآ اَنْ يَّكُـوْنَ النَّاسُ اُمَّةً وَّّاحِدَةً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ يَّكْـفُرُ بِالرَّحْـمٰنِ لِبُيُوْتِـهِـمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّةٍ وَّّمَعَارِجَ عَلَيْـهَا يَظْهَرُوْنَ (33) 

اور اگر یہ (خدشہ) نہ ہوتا کہ سب لوگ ایک طریقہ کے ہوجائیں گے (یعنی کافر) تو جو اللہ کے منکر ہیں ھم ان کے گھروں کی چھتیں  اور ان پر چڑھنے کی سیڑھیاں چاندی کی بنا دیتے۔

وَلِبُيُوْتِـهِـمْ اَبْوَابًا وَّسُرُرًا عَلَيْـهَا يَتَّكِئُوْنَ (34) 

اور ان کے گھروں کے دروازے اور تخت بھی چاندی کے کر دیتے جن پر وہ تکیہ لگا کر بیٹھتے 

وَزُخْرُفًا ۚ وَاِنْ كُلُّ ذٰلِكَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الـدُّنْيَا ۚ وَالْاٰخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِيْنَ (35) 

اور سونے کے بھی، اور یہ سب کچھ دنیا کی زندگی کا سامان ہے، اور آخرت آپ کے رب کے ہاں پرہیزگاروں کے لیے ھی ھے ۔ 

(سورہ الزخرف)

مومن پر دُنیا میں مصیبتیں سب سے زیادہ آتی ھیں کیونکہ وہ کمرۂ امتحان میں ھوتا ھے ، تو ظاھر ھے کمرۂ امتحان میں بیٹھے اور باھر گلی میں کھڑے کے درمیان فرق تو ھو گا ، اندر والا متفکر ھو گا ،، غور و فکر میں مشغول ھو گا ،، سورہ الانبیاء میں اللہ پاک نے تمام نبیوں کے مصائب بیان فرمائے ھیں پھر ان کی دعائیں ذکر کی ھیں پھر ان کی مدد کے بارے میں بیان فرمایا ھے ،،

ایک شخص نے جب عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  میں آپ سے بہت محبت کرتا ھوں ! تو رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم یہ ھے کہ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ھو تو پھر لنگوٹ کس لو ،کیونکہ جو ھم سے محبت کرتے ھیں مصائب ان کی طرف یوں لپکتے ھیں جیسے سیلاب کا پانی اونچی زمین سے نیچی زمین کی طرف لپکتا ھے !!

گویا اگر امتحان کے اصول کو ذھن میں رکھا جائے تو دنیا کے بارے میں کبھی بھی غلط فہمی پیدا نہیں ھوتی ،، دنیا کی زندگی ایک سیمپل ھے اور سیمپل کی کوئی قیمت نہیں ھوتی بلکہ یہ ھمیشہ فری میں ھی دے دیا جاتا ھے ،مگر جب آپ اس سیمپل کو پسند فرما لیتے ھیں تو پھر قیمت وصول کرکے آرڈر سپلائی کیا جاتا ھے ،، اھل و عیال کی محبت کو فری میں چکھ لیا ھے اب اگر تم یہ چاھتے ھو کہ تمہیں یہ ھمیشہ ھمیشہ کے لئے مل جائیں تو اس کے لئے تمہیں بھرپور محنت کرنی ھو گی کچھ اللہ تعالی کا فضل شاملِ حال ھو گا اور بیڑہ پار ھو جائے گا ! اسی دنیا کی زندگی اسے آخرت کی زندگی کمانی ھے ،، اگر یہ تمہارے ھاتھ میں رھی تو ختم ھو جائے گی کیونکہ تم بھی فانی اور تمہارے ھاتھ کی ھر چیز بھی فانی ،، ما عندکم ینفد ،، وما عنداللہ باق ،، اور جو اللہ کے پاس منتقل کر دو گے وہ بچ جائے گا ،، جب اس اصول کے تحت انفاق فی سبیل اللہ کرو گے تو اللہ کے ھاں اس کا بے شمار آجر پاؤ گے ورنہ یہ سب کچھ یہیں پڑا رہ جائے گا ،،

مولانا روم رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا کہ دنیا کی حقیقت کیا ہے؟ تو مولانا روم رحمہ اللہ  نے فرمایا دنیا کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص جنگل میں جا رھا ہے  آچانک اس نے دیکھا کے اس کے پیچھے ایک شیر آرہا ہے ۔ وہ شیر کے خوف سے بھاگتا ھے  مگر شیر بھی اس کے پیچھے پیچھے بھاگتا ھے جب یہ تھک جاتا ھے تو دیکھتا ھے کے سامنے ایک  گڑھا ہے اس نے چاہا کہ گڑھے میں چھلانگ لگاکر جان بچائے لیکن گڑھے میں اسے ایک خوف ناک سانپ نظر آیا ۔ اب آگے سانپ اور پیچھے شیر  کا خوف ھے ۔ اتنے میں اسے ایک درخت کی شاخ نظر آئی وہ درخت پر چڑھ گیا مگر نیچے کیا دیکھتا ھے کہ درخت کی جڑ کو ایک کالا  اور ایک سفید چوہا کاٹ رہے  ہیں وہ ڈر گیا  کہ تھوڑی دیر بعد  درخت کی جڑ کٹے گی پھر  میں گر پڑوں گا  اور شیر کا لقمہ بننے میں دیر نہیں لگے گی ۔ اتفاق سے اسے اوپر ایک شہد کا چھتہ نظر آیا جو اس کی دسترس میں تھا اس نے اس چھتہ سے شھد پینا شروع کر دیا وہ اس شہد شیریں کو پینے میں اتنا مشغول ہوا کہ وہ  سانپ اور  شیر  کو  اور چوھوں  کے درخت کی جڑ کاٹنے کے عمل کو فراموش کر بیٹھا ۔ آخرکار درخت کی جڑ کٹ گئ  اور وہ درخت  کے ساتھ  نیچے گر پڑا ۔ شیر نے اسے چیر پھاڑ کر گڑھے میں گرادیا  جہاں  وہ سانپ کی خوراک بن گیا 

اس مثال میں جنگل سے مراد یہ فانی دنیا ھے اور شیر سے مراد انسان کی موت ھے جو انسان کے ھر وقت پیچھے لگی رہتی ہے ۔ گڑھے سے مراد قبر ہے اور جو آگے اژدھا ھے وہ انسان کے بداعمال ھیں جو قبر میں ڈالے جائیں گے اور کالے اور سفید چوھے دن اور رات ھیں اور درخت انسان کی عمر ہے اور شہد دنیائے فانی سے غافل کر دینے والی لذت ہے 

یہ حضرت انسان اس عارضی زندگی میں دنیا کی لذت میں  اسقدر مشغول و مصروف ھو جاتا ھے کہ موت اور آخرت وغیرہ کو یکسر بھول جاتا ہے اور پھر اچانک اپنے مقررہ وقت پر موت آجاتی ہے اور یہ قبر کی کوٹھری میں پہنچ جاتا ھے جہاں کی وحشت سے صرف اور صرف نیک آعمال ھی انسان کو خلاصی دلا سکتے ھیں

Share:

بُری موت کے اسباب

 بری موت کے اسباب اور اس سے بچاؤ


(دنیامیں سب سے قیمتی اثاثہ انسان کی عمر ہے۔اگر انسان نے اس کو آخرت کی بھلائی کےلیے استعمال کیا ،تویہ تجارت اس کے لیے نہایت ہی مفید ہے۔اور اگر اسے فسق وفجور میں ضائع کردیا اور اسی حال میں دنیا سے چلا گیا تو یہ بہت بڑا نقصان ہے وہ شخص دانش مند ہے جو اللہ تعالیٰ کے  حساب لینے سے پہلے پہلے اپنے آپ کا محاسبہ کرلے اور اپنے گناہوں سے ڈر جائے قبل اس کہ کے وہ گناہ ہی اسے ہلاک اور  تباہ وبرباد کردیں کیونکہ اعمال کادارومدارخاتمہ پر ہے اور انسان جس حالت میں زندگی بسر کرتا ہے اسی حالت میں اس کی موت واقع ہوتی ہے۔ اور جس حالت میں انسان کی موت واقع ہوگی اسی حالت میں وہ قیامت کے دن قبر سے اٹھایا جائے گا۔حضرت  رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"مَنْ مَاتَ عَلَى شَيْءٍ بَعَثَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ" (رواہ الحاکم)

"جس حالت میں آدمی فوت ہوگا،اسی پر اسے قیامت کے دن اٹھایا جائے گا"

ہم اللہ تعالیٰ سے اچھے خاتمہ کا سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمارے تمام کام سنوار دے اور ہمارے اعمال کی اصلاح فرمائے،بے شک وہ سننے والا ،قبول کرنے والا اور بہت قریب ہے(مولف)))

برے خاتمہ سے یہ مراد ہے ک اس کا خاتمہ ایسےاعمال   پر ہو جو اسے ہمیشہ کے لئے جہنم کا سزا وار بنادیں۔

جب اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو علم عطا فرمایا اور اس پر عمل کرنے کا حکم دیا توانہوں نے کہا:عنقریب کرلیں گے۔اور اس عنقریب نے ان کے اعمال کی عمریں کم کردی ہیں۔وہ متنبہ ہوکردن رات جاگتے  رہے اور اپنے بڑے بڑے بھیانک ارادوں کو عملی صورت دے دی،جب انہوں نے جی بھر کے گناہ کرلیے اور کوئی کسر نہ چھوڑی تو ان کے انجام سے ڈرنے لگے۔

اور یہ بات حدیث میں  رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم   سے ثابت ہے کہ(لوگوں کے) دل اللہ  تعالیٰ کی انگلیوں کے درمیان ہیں۔اللہ  تعالیٰ جیسے چاہتاہے انہیں پھیر دیتاہے اور ہم نے کتنے لوگوں کے متعلق سنا کہ وہ ایمان لانے کے کے بعد مرتدہوگئے اور کتنے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ استقامت اختیار کرنے کے بعد منحرف ہوگئے۔اسی لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم   یہ دعا کثرت سے پڑھتے تھے: 

"يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ"

"اے دلوں کو پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنے دین پرثابت رکھ"

رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم   کے زمانے میں بعض لوگ ایمان لانے کے بعدمرتد ہوگئے اور نوراسلام سے نکل کر کفر کےگھٹا ٹوپ اندھیروں میں چلے گئے۔ان مرتد ہونے والوں میں سے عبیداللہ بن جحش بھی تھا۔اس نے حبشہ کی طرف ہجرت بھی کی تھی اور پھر وہ اسلام سے مرتد ہوکر عیسائیت میں داخل ہوگیا۔حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم   کی وفات کے بعد کتنے لوگ فتنہ ارتداد کا شکار ہوگئے جن کے خلاف حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے جہاد کیا۔اسی طرح عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے زمانہ خلافت میں کئی لوگ دائرہ اسلام سے نکل کر کفر میں داخل ہوگئے۔ان  میں ایک ربیعہ بن اُمیہ بن خلف بھی تھا جو صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے ساتھ ایک لشکر میں شامل تھا اور شراب پیتا تھا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اس پر شراب کی حد نافذ کرکے خیبر کی طرف اسے جلا وطن کردیا تو وہ ہرقل شاہ روم کے پاس چلاگیا اورجا کر عیسائیت میں داخل ہوگیا۔نعوذ باللہ من ذلک(الاصابہ) ۔۔۔امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

"جب ہدایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ،استقامت کادارومدار اس کی مرضی پر ہے اور انجام کا کسی کو علم نہیں ہے اور انسان کا ارادہ مغلوب ہے تو اپنے ایمان ،نماز،روزے اور دیگر عبادات پر فخر مت کرو،اگرچہ یہ تمہارا عمل ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہی تم یہ کام کرنے پر قادر ہوئے اور جب تم اس پر فخر کروگے تو یہ ایسے ہے جیسے تم غیر کے مال پر فخر کرو کیونکہ وہ کسی وقت بھی تم سے چھینا جاسکتاہے اور تمہارا دل بھلائی سے خالی ہوجائےگا۔جیسے اونٹ کا  پیٹ خالی ہوجاتاہے کیونکہ کتنے ہی ایسے باغ ہیں کہ شام کو ان کے پھل وپھول  تروتازہ ہوتے ہیں لیکن رات کو ان پر سخت آندھی چلتی ہے تو صبح کو وہی پھل و پھول مرجھا جاتے ہیں۔انسان کا دل شام کو اللہ کی اطاعت سے منور اور صحیح سالم ہوتاہے لیکن صبح ہوتی ہے تو اس کے دل پر اندھیرا چھاجاتا ہے اور وہ بیمار ہوجاتاہے کیونکہ یہ اللہ عزیز وحکیم کا کام ہے۔اس لئے اللہ والے اس بات سے ڈرتے تھے کہ کہیں ہمارا انجام برانہ ہوجائے۔جواللہ سےدھوکہ کرنا چاہتاہے اللہ بھی اس کے مکروفریب کا جواب دیتے ہیں۔"

حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ:

"اللہ والوں کا خوف کرنا برحق ہے۔وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں اللہ تعالیٰ انہیں گناہوں کے بدلے رسوانہ کرے اور وہ بدبخت نہ ہوجائیں وہ اپنے گناہوں سے ڈرتے بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید بھی رکھتے ہیں۔اللہ  تعالیٰ فرماتے ہیں:

" أَفَأَمِنُواْ مَكْرَ اللّهِ  "(الاعراف:99)

"کیا وہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر سے بےخوف ہوچکے ہیں"

یہ آیت فاسقوں اور کافروں کے بارے میں ہے اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کا بندہ اپنے اللہ کی نافرمانی بھی نہیں کرتا اور اس کی پکڑ سے بے خوف بھی نہیں ہوتا۔کیونکہ ممکن ہے کہ اسے گناہوں کی سزابعد میں دی جائے اور اس میں دھوکہ پیدا ہوچکا ہو۔ان کے دل گناہوں سے مانوس ہوجاتے ہیں ۔اور ان پر اچانک عذاب آجاتے ہیں۔دوسری بات یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کےذکر سے غافل ہوجائیں اور اسے بھول جائیں تو اللہ تعالیٰ بھی انہیں اپنے ذکر سے غافل کردے۔ان کی طرف آزمائشیں جلدی آتی ہیں اور ان کا انجام یہ ہوتاہے کہ وہ اس کی رحمت سے دور ہوجاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ سب کے گناہوں کو جانتاہے جو یہ نہیں جانتے انہیں اللہ تعالیٰ کی تدبیریں گھیرلیتی ہیں اور انہیں پتہ بھی نہیں چلتا۔اور یہ بات بھی ہے کہ اللہ تعالی ان کو آزمائشوں اور امتحان میں ڈال دیتا ہے اور وہ صبر نہیں کرسکتے جو خود آزمائش کی ایک صورت ہوتی ہے۔"

اسلاف کرام کا برے خاتمہ سے ڈرنا:۔

حافظ ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ اسلاف پر برےخاتمہ(انجام موت) کا خوف طاری رہتاتھا۔ان میں ایسے بھی تھے جو اپنے اعمال پر قلق محسوس کرتے تھے اور کہاجاتاہے کہ نیکوکاروں کے دل خاتمہ کے بارے میں ہر وقت فکرمند رہتے ہیں کہ ہم نےآگے کما کر کیا بھیجا ہے؟

سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں کہ انہوں ن بعض سلف صالحین سے پوچھا کہ کیا آپ کو اس بات نے کبھی رُلایاہے کہ اللہ تعالیٰ کا آپ کے متعلق فیصلہ کیا ہے۔تو انہوں نے جواب دیا  کہ اللہ  تعالیٰ نے جو مجھے مہلت دی ہے،میں اس پر کبھی مطمئن نہیں رہتا۔امام سفیان بھی اپنے اعمال اور خاتمہ کی وجہ سے قلق محسوس کیا کرتے تھے  اور رو کر کہتے تھے کہ"کاش!میں اُم الکتاب میں بدبخت نہ لکھا جاؤں،میں ڈرتا ہوں کہ موت کے وقت میرا ایمان کہیں مجھ سے چھین نہ لیاجائے۔"

مالک بن دینار رات کو بہت طویل قیام کرتے اور اپنی داڑھی پکڑ کرکہتے کہ:

"اے اللہ! تو جانتا ہے کہ جنت میں کون ہے اور جہنم میں کون ہے ،اے اللہ! میری جگہ تو نے کہاں بنائی ہے :جنت میں یاجہنم میں!"

موت کے وقت سلف کے چند اقوال:۔

اب ہم آپ کے سامنے نصیحت اور عبرت کےلئے سلف صالحین کے چند واقعات بیان  کرتے ہیں کہ وہ قرب مرگ کیاکہتے تھے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جب فوت ہونے کے قریب ہوئےتو رونے لگے۔جب آپ سے رونے کیوجہ دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ"میں اس لئے رورہا ہوں کہ سفر بہت لمباہے اور زادراہ بہت تھوڑا ہے۔اور یقین کمزورہے اوراترنے کی گھاٹی بہت مشکل ہے یاتو جنت کی طرف اور یا پھر جہنم کی طرف!"

حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جب فوت ہونے کے قریب ہوئے تو فرمانے لگے کہ:

"مجھے اٹھا کر بٹھا دو چنانچہ آپ کو بٹھا دیاگیا تو آپ اللہ کا ذکر اور تسبیح وتقدیس کرنے لگے اور اپنے آپ کو مخاطب کرکے فرمانے لگے کہ اے معاویہ!تو اپنے آپ کو گرتا ہوادیکھ کر اب اپنے رب کا ذکر کرنے لگا۔جب جوانی کی ٹہنیاں تروتازہ تھیں،اس وقت تونے کیوں نہ سوچا اور پھر  رونے لگے حتیٰ کہ رونے کی آواز بلند ہونے لگی اورپھر  فرمانے لگے:

"هو الموت لا منجى من الموت والذي, اُحاذر بعد الموت أدهى وأفظع"

"موت  سے کسی کو نجات نہیں جس موت سے میں ڈرتا ہوں وہ نہایت سخت اور ہولناک ہے"

پھر کہنے لگے:اے اللہ! سیاہ کار اور سخت دل بوڑھے پر رحم وکرم فرما،اے اللہ! زادراہ تھوڑا ہے میری خطاؤں کو معاف  فرما اور اسے بخش دے جس کا تیرے سواکوئی سہارا اور جائے پناہ نہیں"

حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ک متعلق مروی ہے کہ جب وہ فوت ہونے کے قریب ہوئے تو اپنے محافظوں اور خادموں کو اپنے قریب بلا کر فرمانے لگے کہ کیا تم اللہ سے میرے متعلق کچھ کفایت کرسکتے ہو؟انہوں نے کہا:ہرگز نہیں،تو فرمانے لگے:تم یہاں سے چلے جاؤ اور مجھ سے دور ہوجاؤ پھر انہوں نے پانی منگوا کر وضو کیا اور کہنے لگے کہ مجھےمسجد کی طرف لے چلو۔آپ کومسجد میں لایا گیا تو آپ فرمانے لگے:


"اے اللہ! تو نے مجھے حکم دیا اور میں تیری نافرمانیاں کرتارہا تو نے مجھے امانت سونپی اور میں خیانت کرتا رہا،تو نے میرے لئے حدود متعین کیں اور میں انہیں توڑتارہا۔اے اللہ! میرے پاس کوئی عذر نہیں ہے جسے میں آج تیرے سامنے پیش کرسکوں اور نہ کوئی طاقتور میری مدد کرسکتاہے ۔بلکہ میں تو گناہگار ہوں اور میری بخشش کاطلب گار ہوں اورمجھے اپنے گناہوں پر اصرار بھی نہیں اورنہ ہی میں تکبر کرنے والا ہوں۔"


(اغتنام الأوقات في الباقيات الصالحات ،ص 144 از شیخ عبدالعزیز سلمان)


جب سلیمان  تمیمی فوت ہونے کے قریب ہوئے تو ان سے کہا گیا کہ آپ کو مبارک ہو،آپ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے تھے ،وہ فرمانے لگے:تم مجھےایسے نہ کہو،کیونکہ میں نہیں جانتا کہ میرے لیے وہاں کیا ظاہر ہوگا۔اللہ فرماتے ہیں:


وَبَدَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مَا لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ  (الزمر:47)


"اور ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ کچھ ظاہر ہوگا،جس کا انہیں وہم وگمان بھی نہیں تھا"


بعض اہل علم یوں کہہ کر فکر مندی کا اظہار کرتے کہ"وہ نیکیاں سمجھ کر اعمال کرتے رہے لیکن در اصل وہ برائیاں تھیں جو میدان حشر  میں ان کے سامنے ظاہر کردی جائیں  گی"


عامر بن قیس بھی فوت ہونے کے وقت رونے لگے جب ان سے رونے کی وجہ دریافت کی گئی توانہوں نے فرمایا:میں اللہ کے اس فرمان کی وجہ سے رورہا ہوں:


"إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِين"(المائدۃ:27)


"بے شک اللہ تعالیٰ تو متقین کے اعمال قبول کرتاہے"


بعض کایہ عمل تھا کہ وہ اپنے آپ کو ڈانٹتے اور نصیحت کرتے کہ اےنفیس!وقت گزرنے سے پہلے جلدی کرلے اور زندگی کے دن اور راتوں کی پہرہ داری کر(یعنی دن اور رات اللہ کی عبادت کرتارہ!)


جب سلف صالحین کایہ حال ہے تو ہمیں ان سے زیادہ ڈرنا چاہیے۔ہمارے دل سخت ہیں اور ہم اپنی لاعلمی کی وجہ سے بے پرواہ ہیں۔اس لئے بھی کہ صاف دل معمولی مخالفت سے بھی ڈرتے ہیں جبکہ سخت دلوں پر وعظ ونصیحت بھی اثر نہیں کرتے۔ہم اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے دل،رونے والی آنکھ اور ذکر کرنے والی زبان کاسوال کرتے ہیں،بے شک وہی یہ چیزیں عطا فرمانے پر قدرت رکھتاہے!


بُرے خاتمہ کے اسباب:۔


اللہ ہمیں برے انجام سےبچائے۔یاد رہے کہ برا خاتمہ ایسے شخص کے لئے نہیں ہے جو اپنے ظاہر کو درست کرتا اوراپنے باطن کی اصلاح کرتاہے۔برائی کے ساتھ اس کا ذکر سناگیا اور نہ جانا  گیا ہے،تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔براانجام تو ایسے شخص کے لیے ہے جس کے دل ودماغ میں فتور ہے اوروہ کبائر پر اصرارکرنے والا اوراللہ کی حدودکو پامال کرنے والا ہے۔بسا اوقات اس پر اس چیز  کا غلبہ اس قدر ہوجاتا ہے کہ اسےتوبہ سے پہلے ہی موت آجاتی ہے۔شیطان اسے صدمہ کے وقت گمراہ کردیتا اوردہشت کے وقت اسے اچک لیتاہے یاوہ در ست ہوجاتاہے  یعنی استقامت اختیا کرتاہے یا پھراپنی حالت بدل کر کسی ایسے طریقے یا راستے پر چل پڑتا ہے جواس کےبرُے خاتمہ اور عاقبت کی بردباری کاسبب بن جاتاہے۔۔بُرے خاتمہ کے دو درجے ہیں:


اول:یہ کہ فوت ہوتے وقت دل پر شکوک وشبہات اورانکار کا غلبہ ہو اوریہ معاملہ بڑاخطرناک ہے جوہمیشہ ہمیشہ کےلئے پکا جہنمی بناسکتاہے۔


دوم:یہ کہ انسان اعلیٰ اقدار کو پامال کرےیا احکام الٰہی پر اعتراض کرے یا وصیت میں ظلم وزیادتی کرے یا گناہوں پر اصرار کرتے ہوئے فوت ہوجائے،یہ پہلے معاملے سے قدرے مختلف ہے۔


بُرے خاتمہ کے تمام اسباب کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنا تو ممکن نہیں ہے لیکن ہم ان تمام اسباب کی طرف اختصار کے ساتھ صرف اشارہ کردیتے ہیں:


1۔بدعات میں پڑنے کی وجہ سے شکوک اور انکار کاشکار ہوجانا:۔


اس کامطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات اور اسماء وافعال میں دیکھا دیکھی یا غلط رائے کی بنیاد پر باطل عقیدہ رکھا جائے۔اورجب موت کا وقت قریب آئے تو آنکھیں کھلیں کہ میں جس نظریے اورعقیدے کو اپنائے پھرتا رہا،وہ تو باطل اور بے بنیاد عقیدہ تھا۔ بے شمار لوگ اس حال میں مر گئے کہ انہوں نے اللہ کے دین میں بدعات کو جاری وساری کیاتھا اور صراط مستقیم سے کج روی اور انحراف کرتے رہے اوراللہ تعالیٰ سے پہلی ملاقات میں ان پر حقیقت حال واضح ہوگئی۔


اب فارض عمر بن علی حموی(متوفی 632ھ) نامی شخص اللہ تعالیٰ کے متعلق اتحاد اور طویل کا فاسد عقیدہ رکھتاتھا اورکہتاتھا کہ بندہ رب ہے اور رب بندہ ہے۔جبکہ جن با اعتماد لوگوں نے اس کی موت کا وقت دیکھا ہے ،بتاتے ہیں کہ جان کنی کے عالم میں اپنی بدبختی اور ہلاکت کاماتم اس نے ان اشعار کے ذریعے کیا:(ابن فارض فی سیر اعلام النبلاء وفیات الاعیان)


إنْ كانَ منزلتي في الحبِّ عندكمْ,


ما قد رأيتُ، فقد ضَيّعْتُ أيّامي.


أمنيَّة ٌ ظفرتْ روحي بها زمناً,


واليومَ أحسَبُها أضغاثَ أحْلامِ.


"اگر تمہارے ہاں میری محبت ومودت کا یہی صلہ ہے جو مجھے مل رہاہے تو میں نے اپنے دن ضائع کردیئے ۔ایک عرصہ تک میرا نفس میری آرزو پر کامیاب اور فتح یاب رہا اورآج میں اس کامیابی کوپریشان کن خواب سمجھتا ہوں۔"


یہ بات اس نے اس وقت کہی جب اس پراللہ کاغضب نازل ہوچکا تھا اور اس کی کرتوتوں کی حقیقت کھل کر سامنے آچکی تھی۔بہت کم ایسا ہوا کہ بدعتی کاخاتمہ ایمان کی حالت میں ہو۔


2۔توبہ کرنے میں کوتاہی اورغفلت کرنا:؛


ہرمکلف انسان پر ہر لمحہ اپنے گناہوں سےتوبہ کرنا ضروری ہے۔اللہ فرماتے ہیں:


وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.(النور:31)


"اے مومنو!تم سب اللہ کی طرف  توبہ کرو،تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ"


اور  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   جن کے تمام اگلے پچھلے گناہ اللہ نے معاف  فرمادیئے تھے،فرماتے ہیں:


قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ تُوبُوا إِلَى اللَّهِ فَإِنِّي أَتُوبُ فِي الْيَوْمِ إِلَيْهِ مِائَةَ مَرَّةٍ .(رواہ مسلم)


"اے لوگو! اللہ کی طرف توبہ کرو میں روزانہ سو مرتبہ اللہ کے سامنے توبہ کرتا ہوں"


شیطان کے ہتھیاروں میں سے ایک بہت بڑاہتھیار جس کے ساتھ وہ  لوگوں پر حملہ آور ہوتاہے یہ ہے کہ وہ خیال دل میں ڈالتاہے کہ کوئی بات نہیں،گناہ کرلو پھر توبہ کرلینا،ابھی بڑی لمبی عمر باقی ہے۔اس طرح وہ نافرمان لوگوں کے دلوں میں توبہ سے غفلت ڈال دیتا ہے اورکہتاہے کہ اگر تو نے اب توبہ کرلی اور  پھر کوئی گناہ کا ارتکاب کیا تو تیری توبہ ہرگز قبول نہ ہوگی اور تو جہنمی بن جائےگا۔دل  میں مزیدوسوسہ ڈال دے گا کہ جب تیری عمر پچاس یا ساٹھ سال ہوجائےگی تو پھر توبہ کرکے مسجد میں بیٹھ جانا اور کثرت سے عبادت کرنا ۔ابھی توجوانی کی عمر ہے اوراسی عمر میں دنیا کی رنگینیاں اور بہاریں دیکھی جاتی ہیں۔اپنے نفس کو خوب من مانی کرنے دے اور عبادت  وریاضت  کرکے ابھی سے اس پر سختی نہ کر۔انسان کو توبہ سے محروم رکھنے کے لئے اس طرح کے کئی اور بھی شیطانی مکروفریب ہوتے ہیں۔اسی لئے سلف صالحین میں سے کسی نے کہا کہ:


"میں تمھیں شیطان کے بہت بڑے لشکر سے ڈراتا ہوں۔عقلمند مومن وہ ہے جو ہر وقت اپنے گناہوں سے اللہ کے سامنے توبہ کرتا ہے اور بُرے خاتمے سے ڈرتا رہتاہے اور اللہ سے اس کی محبت کا سوال کرتا ہے اور ظالم شخص تو وہ ہے جوتوبہ کوموخر کرتا رہتاہے اس کی مثال اسی قافلہ سی ہے جس نے دوران سفر ایک وادی میں قیام کیا اور ان میں سے ایک سمجھدار آدمی بازار گیا اور جاکر ضروریات سفر خریدلایا اور قافلے کے چلنے کا انتظار کرنے لگا۔جبکہ اپنے آپ کو بڑا چالاک سمجھنے والا آرام سے بیٹھا رہتاہے۔کہ کوئی بات نہیں ،ابھی تیاری کرلوں گا۔یہاں تک کہ میر کارواں چلنے کاحکم دے دیتاہے اور اس کے پاس زاد  راہ بھی نہیں ہوتا۔یہ دنیا میں لوگوں کے لئے مثال ہے۔سچے مومن کو جب موت آتی ہے تو وہ پشیمان نہیں ہوتا جبکہ نافرمان(توبہ میں تاخیر کرنے والا) کہتاہے کہ اے میرے رب!مجھے اب  دنیا میں بھیج دے،میں جاکر نیک اعمال کروں گا"


3۔لمبی امیدیں:


اکثر لوگوں کی بد بختی کا سبب یہ ہو تا ہے کہ وہ شیطان کے فریب میں آجاتے ہیں اور وہ انہیں یہ یقین دلاتا رہتا ہے کہ ان کی عمربڑی لمبی ہے بہت سال آنے والے ہیں ۔انسان ان میں لمبی امیدیں بنا لیتا ہے اور آنے والے سالوں میں اپنی ہمت لڑاتا ہے۔ جب کبھی اسے موت نظر آتی ہے تو اس کی پرواہ نہیں کرتا ۔کیونکہ اس کے خیال میں موت اس کی آرزؤں کو گدلا دیتی ہے ۔


حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  لمبی امیدوں اور خواہشات نفس کی پیروی سے بڑا ڈراکرتے تھے اور فرمایا کرتے کہ لمبی امیدیں آخرت کو بھلادیتی ہیں ۔اور خواہشات نفس کی پیروی حق کی اتباع سے روک دیتی ہے ۔یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ خبردار دنیا پیچھے کی جانب پھرنے والی ہے اور آخرت جلدی سے آنے والی ہے اور دونوں میں سے ہر ایک کے بیٹے ہیں تمہیں چاہیے کہ تم آخرت کے بیٹے بنو دنیا کے بیٹے نہ بنو۔"آج حساب و کتاب نہیں بلکہ عمل کرنے کا موقع ہے اورکل روز قیامت حساب وکتاب ہو گا اور عمل کی مہلت نہیں ملے گی۔ اور جب انسان دنیا سے محبت کرنے لگے اور اسے آخرت پر ترجیح دینے لگے تو وہ اس دنیا کی زیب و زینت عیش  وعشرت  اور لذتوں میں پڑکر آخرت میں اپنا گھر ایسے لوگوں کے ساتھ جوار رحمت میں بنانے سے محروم رہتا ہے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء صدیقین شہداءاور صالحین کے ساتھ ۔اعمال صالحہ میں سبقت اختیار کرنا جھوٹی امید سے متاثر نہ ہونے کی علامت ہے کیونکہ ایسے شخص کو گنتی کے چند سانس زندگی کے چند دن اور عمر کے اوقات کو غنیمت سمجھنا آسان ہوتا ہے۔۔۔اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ جو وقت گزرجائے وہ پھر لوٹ کر نہیں آتا!!


حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   نے میرے کندھے سے پکڑ کر فرمایا :"دنیا میں ایسے راہوجیسے تم پر دیسی یا مسافرہو۔"اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے تھے کہ جب تو شام کرے تو صبح کا انتظار نہ کر اور جب صبح کرے تو شام کا انتظار نہ کر۔اور بیماری سے پہلے صحت کو اور موت سے پہلے زندگی کو غنیمت سمجھ"


نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   نے مؤمنوں کی ایسی چیزوں کی طرف رہنمائی فرمائی ہے جو انہیں لمبی امیدوں سے بچا کر فانی دنیا کی حقیقت سمجھانے والی ہیں ۔چنانچہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے حکم دیا ہے کہ۔


"موت کو یاد کرو قبروں کی زیارت کرو اور فوت ہونے والوں کی تجہیز وتکفین کر کے ان کا جنازہ پڑھو ۔بیماروں کی تیمارداری کرو نیک لوگوں  کی ملاقات و زیارت کرو"


دراصل یہ چیزیں مردہ دلوں کو بیدار کرنے والی ہیں موت کے بعد اپنے ساتھ پیش آنے ولا منظر دکھانے والی اور اعمال صالحہ پر آمادہ کرنے والی ہیں۔


4۔برائی سے محبت کرنا اور اسے عادت بنالینا:۔


جب انسان برائیوں میں مبتلا ہوجاتا ہے اور توبہ نہیں کرتا تو شیطان اس کی سوچ پر حادی ہوجاتا ہے حتی کہ جب وہ آدمی قریب المرگ ہوتا ہے تو اس کے عزیز و اقارب اسے کلمہ پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں تاکہ دنیا سے جاتے وقت اسے کلمہ پڑھنا نصیب ہوجائے لیکن اس کی برائیاں اس پر غلبہ پالیتی ہیں اور وہ ایسے کام کرتا ہے جو اس کے برے خاتمہ کا سبب بن جاتے ہیں کیا نماز کو ترک کرنے والے اس بات سے نہیں ڈرتے کہ وہ نماز کو ضائع کر رہے ہیں اور انہیں نصیحت بھی کی جاتی ہے لیکن وہ نصیحت قبول نہیں کرتے ۔کیا نہیں اپنے برے انجام سے ڈر نہیں آتا۔سودی کاروبار کرنے والے جو اپنے اس حرام فعل سے توبہ نھی نہیں کرتے کیا نہیں ڈرنہیں آتا کہ اس جرم عظیم اور گناہ کبیرہ کی حالت میں انہیں موت آجائے ۔اور جب بندہ سچی توبہ کر لیتا ہے تو اس کے لیے اللہ کی طرف سے خیرو برکت لوٹ آتی ہے اسی لئے بعض اہل علم نے کہا ہے کہ:


"عاصی کا عجز وانکسار ،نیک آدمی کے اپنے اچھے اعمال پر فخر کرنے سے زیادہ اچھا ہے"جو عمل تجھے  عاجزی کی دولت عطا کرے وہ ایسی نیکی سے بہتر ہے  جو تیرے اندر تکبر پیدا کردے "


اللہ کے نیک بندے ابان بن ابی عیاش کے متعلق مروی ہے کہ انھوں نے کہا کہ:"ایک دفعہ میں قیام بصرہ کے دوران حضرت انس بن مالک رحمۃ اللہ علیہ  سے ملاقات کے لیے نکلا میں نے دیکھا کہ ایک جنازے کوصرف چار آدمی اٹھا کر لا رہے تھے میں نے بطور تعجب کہا سبحان اللہ !ایک مسلمان فوت ہوگیا ہے بصرہ شہر سے اس کا جنازہ گزررہا ہے اور جنازے کے ساتھ ان چار آدمیوں کے سوا کوئی بھی نہیں ابان بن ابی عیاش کہتے ہیں کہ میں ان کے ساتھ مل گیا اور جنازہ کو اٹھایا پھر جب اس آدمی کو قبر میں دفن کر دیا گیا تو میں نے ان چار آدمیوں سے کہا: کیا وجہ ہے؟ انھوں نے کہا کہ ہمیں ایک عورت نے اسے دفن کرنے کے لیے کہا تھا وہ کہتے ہیں کہ میں اس عورت کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ اے اللہ کی بندی !تیرااس فوت ہونے والے بندے سے کیا رشتہ تھا ۔وہ کہنے لگی کہ وہ میرا بیٹا تھا اور بعض اوقات وہ اپنے آپ پر زیادتی کرنے والا تھا اس نے مجھے کہا تھا کہ امی جان !جب میں فوت ہونے لگوں تو مجھے کلمہ شہادت پڑھنے کی تلقین کرنا تیرےتلقین کرتے کرتے میں اپنی زندگی پوری کر جاؤں گا تو اپنے قدم میرے گالوں پر رکھ دینا اور ساتھ یہ کہنا کہ یہ بدلہ ہے ایسے شخص کا جس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ میرے فوت ہونے کی کسی کو اطلاع نہ دینا کیونکہ لوگ میری کرتوتوں کو جانتے ہیں وہ ہر گز میرا جنازہ نہیں پڑھیں گے۔پھر جب تو مجھے دفن کردے تو اپنے ہاتھوں کو اللہ کی بارگاہ میں اٹھا کر یہ کہنا کہ :


"اے اللہ !میں اپنے بیٹے سے راضی ہوتو بھی اس سے راضی ہو جا!"


جب ابان بن ابی عیاش اس عورت سے سوال کررہے تھے تو وہ مسکرارہی تھی ابان نے اس سے کہا: کہ اللہ کی بندی !مسکرانے کی کیا وجہ ہے؟وہ عورت کہنے لگی ۔جب میں نے اپنے بیٹےکے دفن ہونے کے بعد اللہ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھا کر کہا کہ" یاللہ !میں اپنے بیٹے سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا جو اس نے مجھے وصیت کی تھی میں نے پوری کر دی " تب میں نے اپنے بیٹے کی آواز سنی کہ وہ مجھے کہہ رہا تھا کہ " میں اپنے رب کریم کے پاس پیش ہوا ہوں ۔میرا رب نہ مجھ پر ناراض ہوا ہے اور نہ غضبناک ۔۔۔اگر آدمی کے نفس میں عاجزی وانکساری موجود ہوتو وہ فوت ہوتے ہوتے وقت ظاہر ہوجاتی ہے اور اگر معاملہ اسکے برعکس ہوتوہم اللہ سے اس کی پناہ مانگتے ہیں"(میزان الاعتدال للذہبی وتہذیب التہذیب لابن حجر ،ترجمہ ابان بن ابی  عیاش)


5۔خود کشی:۔


مسلمان کو جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے اور وہ اپنے اللہ سے اجروثواب کی اُمید رکھتے ہوئے صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اجروثواب سے نوازتے ہیں اور اگر وہ جزع فزع کرے اور زندگی سے تنگ آجائے اور بیماریوں،مصائب وآلام سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئےخود کشی کی راہ اختیار کرے تو ایسے آدمی نے یقیناً اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور اللہ کےغضب کو پکارا اوربلاوجہ اپنے آپ کو قتل کردیا۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہےکہ حضرت  رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا کہ:


"جو کوئی اپنے آپ کو پھانسی دے  گا،اسےجہنم میں پھانسی دی جائے گی اورجو اپنے آپ کو نیزہ  مارکرختم کرے گا،اسے جہنم میں نیزے مارے جائیں گے"


سہل بن سعد  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ ایک دفعہ کفار کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   سے مڈ بھیڑ ہوگئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   اپنے لشکر سے جاملے،کفار بھی اپنا لشکر لے آئے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کے ساتھیوں میں ایک آدمی تھا جوبڑی دلیری سے ہرمسلح ،غیرمسلح کاپیچھاکرتا اور اپنی تلوار سے اس پر حملہ آور ہوجاتا ۔بعض لوگوں نے کہا کہ ہم میں سے کوئی بھی اس دلیر آدمی کے اجر کو نہیں پہنچ سکتا۔رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا کہ:"وہ جہنمی ہے۔"وہیں ایک آدمی نے اس کے بارے میں بتایاکہ"میں اس کے ساتھ نکلا۔جہاں وہ ٹھہرتا،میں بھی ٹھر جاتا جب وہ چلتا تو میں بھی اسکے ساتھ چل پڑتا۔حتیٰ کہ وہ آدمی شدید زخمی ہوگیا اور اپنی تکلیف پر صبر نہ کرسکا۔اس نے اپنی تلوار زمین میں گاڑدی اور اس کی نوک پر اپنا  پیٹ رکھ کر جھول گیا اور خود کشی کرلی۔یہ سب کچھ دیکھنے والا وہ شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کے پاس آیا اور آکرکہنے لگا کہ میں گواہی دیتاہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نےفرمایا:کس وجہ سے تو گواہی دیتاہے تو اس نے کہا کہ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم   جس آدمی کے متعلق کہہ رہے تھے کہ وہ جہنمی ہے تو لوگوں کو یہ بات سمجھ نہ  آئی۔میں نے انہیں کہا کہ چلو میں تمہارے ساتھ اس کے پاس چلتا ہوں پھر لوگوں کو پوری بات سنائی۔اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایاکہ 


"ایک آدمی لوگوں کی نظروں میں جنتیوں والے اعمال کرتا ہے اور وہ جہنمیوں میں ہوتا ہے اور ایک آدمی لوگوں کی نظروں میں جہنمیوں والے اعمال کرتاہے جبکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔(متفق علیہ)


6۔منافقت /نفاق:۔


ظاہر باطن سے مختلف ہو اور قول وفعل میں تضاد ہو۔جس انسان میں دو رخا پن یا اس کے ظاہر وباطن میں اختلاف پایا جائے وہ منافق ہوتاہے۔ جو انسان ریا کار اور دھوکے باز ہو وہ بھی منافق ہے۔عنقریب مرگ کے بعد اسے بھی رب کے سامنے کھڑا ہونا ہے اور موت کی سختی کی وجہ سے اس پر موت کی ہچکیاں طاری ہوں گی۔دنیا میں آنے کے بعد سے انسان پر سب سےبڑی تکلیف کا وقت یہی ہوگا۔سلف میں سے کسی نے کہا کہ:


"جب انسان کا ظاہر وباطن ایک جیسا برابر ہوتو یہ انصاف اور عدل ہے اور جب باطن ظاہر سے بہتر ہوتویہ بہت بڑی فضیلت ہے۔اور جب ظاہر باطن سے مختلف ہوتو یہ بہت بڑا ظلم ہے۔"


صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور سلف صالحین اپنے آپ کے نفاق میں مبتلا ہوجانے سے بہت ڈرتے تھے اور اس سے ان کی تکلیف اورپریشانی شدت اختیار کرجاتی تھی۔ایک دفعہ عمر فاروق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فتنوں اور منافقین کے متعلق رازدان رسول حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے  سوال کیا کہ"کیانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے میرا منافقین میں تو نہیں شامل کیا۔"حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا کہ"نہیں لیکن میں آپ کے بعد کسی کی تصدیق نہیں کروں گا"


مسند بزار میں بسند صحیح مروی ہے کہ حضرت عبدالرحمان بن عوف  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ،ام المومنین حضرت ام سلمہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے پاس  گئے اور کہنے لگے کہ"میں قریش میں زیادہ مال ودولت والا ہوں اور مجھے ڈر محسوس ہوتا ہے کہ کہیں میرا یہ مال مجھے ہلاک ہی نہ کردے۔"حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے فرمایا کہ تم صدقہ وخیرات کرو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   سے سنا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا کہ"بے شک میرے بعض صحابی ایسے بھی ہیں جو مجھ سے اس جدائی کے بعد دوبارہ نہیں ملیں گے"حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وہاں سے نکلے اور ان کا دل خوف سے پارہ پارہ ہورہا تھا کہ ان کی ملاقات حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوئی ہے۔توانہوں نے عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو اس کےبارے میں بتایا۔وہ بھی گھبراگئے اورام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے پاس جاکرعرض کرنے لگے کہ میں اللہ کے واسطے تم سے پوچھتا ہوں،کیا میں ان میں سے تو نہیں؟۔ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے جواب دیاکہ:


"آپ ان میں شامل نہیں ہیں اور آپ کے بعد میں کسی کی براءت نہیں کرتی"


مسلمان بھائیو! یہ برے خاتمہ کے چند موٹے موٹے اسباب ہیں اور میں اپنے آپ کو اورآ پ سب کو اس بارے  میں توجہ دلاتا ہوں۔ کہ یہ اسباب کہیں ہم میں نہ ہوں۔ہر ایک کو اس چیز کی تیاری کرنی چاہیے جو اس کے لئے بہتر ہے اور "عنقریب کروں گا" کہنے سے بچنے کی ضرورت ہے عمر تھوڑی ہے ،تیرا ہر سانس تجھے تیرے خاتمہ کی طرف بلارہا ہے ممکن ہے کہ تیری روح اسی حالت میں قبض کرلی جائے کہ تجھے اپنی زندگی سنوارنے کاموقع نہ ملے۔یاد  رہے کہ جس حالت میں انسان مرے گا اسی پر اٹھایاجائے گا اور انجام کا وقت آنے والاہے۔بعض لوگوں کے برے انجام کو یاد کرکے عبرت پکڑنی چاہیے شاید کہ گزرے واقعات سے سبق حاصل ہوجائے کیونکہ ان میں کان لگاکر اللہ کی باتیں سننے اور دل والے کے لئے عبرت اور نصیحت ہے۔


بُرے انجام کی چندمثالیں:۔


برے انجام کاپتہ دینے والی علامتیں تو بہت زیادہ ہیں جن  میں بعض بیماری یاتکلیف کے دوران ظاہر ہوجاتی ہیں اور آدمی اللہ کی تقدیر پرناراض ہوتا یا اعتراض کرنے لگتاہے۔بعض اوقات آدمی قریب المرگ ہوکر ایسی گفتگو کرتاہے جواللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بن جاتی ہے یا اسے کلمہ شہادت پڑھنے میں مشکل  پیش آتی ہے۔بعض دفعہ میت کوغسل دیتے وقت اس پر برے خاتمے کی علامت ظاہر ہوتی ہے۔رنگت وغیرہ تبدیل ہوجاتی ہے ۔بعض دفعہ قبر  میں اتارتے وقت اور بعض دفعہ دفن کرنے کے بعد انسان پر برے خاتمہ کی علامتیں نظر آجاتی ہیں۔ہم نصیحت اور عبرت کے لیے چند ایسے واقعت کا ذکر کریں گے جن میں برے خاتمہ کی کوئی علامت  پائی جاتی ہو:


حافظ ابن رجب حنبلی بیان کرتے ہیں کہ عبدالعزیز بن رواد نے کہا کہ میں ایک قریب المرگ آدمی کے پاس گیاکہ اسے کلمہ شہادت پڑھنے کی تلقین کروں۔اس قریب المرگ آدمی نے کہا کہ جوکچھ تو کہہ رہاہے میں اس کا انکار کرتا ہوں اور اسی حالت میں وہ مرگیا۔عبدالعزیز بن روادکہتے ہیں کہ میں نے اس کے متعلق لوگوں سے سوال کیا تو مجھے بتایاگیاکہ یہ آدمی شراب پیتا تھا۔عبدالعزیز کہا کرتے تھے کہ گناہوں سے بچو۔کیونکہ  گناہوں کے سبب ہی اس آدمی نے کلمہ شہادت  پڑھنے سے انکار کیا ۔


کئی سال پہلے سعودی عرب کے صوبہ قصیم میں ایک واقعہ  پیش آیا تھا۔جس کی باز گشت اخبارات میں بھی سنی گئی ۔اس خبر کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک آدمی نے قریب المرگ حالت میں ا پنے اللہ تعالیٰ پر اپنی بیماری کی وجہ سے اعتراض کیا۔ اسکے ساتھ مسجد میں نماز پڑھنے والے اس کے بعض دوست آئے انہوں نے اس سے کہا:یہ وہ قرآن ہے جسے تو پڑھتا تھا،اپنے اللہ سے ڈر اور اسے کلمہ شہادت پڑھنے کی تلقین کرنے لگے۔وہ قریب المرگ آدمی کہنے لگا میں قرآن کو مانتا ہوں اور نہ کلمہ شہادت کو جانتا ہوں اور وہ اسی حالت میں فوت ہوگیا۔ہم اللہ سے اس ذلت ورسوائی کی پناہ مانگتے ہیں۔


ابن ابی الدنیا کہتے ہیں کہ مجھے ابو الحسن بن احمد فقیہ نے بیان کیا کہ ہمارے پاس ایک آدمی تھا جب اسے موت آنے لگی تو اس سے کہا گیا کہ تم اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو۔وہ کہنے لگا مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔پھر اس سے کہا گیا  کہ تم لاالٰہ الااللہ پڑھ لو،وہ کہنے لگا کہ مجھے اس کی بھی ضرورت نہیں ہے۔میں نے لوگوں سے سنا کہ وہ آدمی بہت بڑا عبادت گزار اور روزے رکھنے والا تھا۔اس پر بڑی تکلیف آئی اور وہ فتنے میں مبتلا ہوگیا۔میں نے اس سے سنا :وہ کہہ رہا تھا کہ مجھے جن آزمائشوں میں مبتلا کیاگیا  ہے،ان کے بدلے اگر اللہ مجھے جنت دےدے تو ان کا بدلہ وہ جنت بھی نہیں ہے اور پھر وہ کہنے لگا اس تکلیف سے بڑی تکلیف اور کیا ہوسکتی ہے اور اگر یہ عذاب نہیں تو پھر عذاب سے کیامراد ہے؟۔۔۔یہ واقعہ بھی برے خاتمہ پر دلالت کرتاہے۔


اسی طرح میت کو غسل دیتے وقت ظاہر ہونے والی بری علامات بھی بے شمار ہیں جن میں سے ایک کو شیخ قحطانی نے اپنے خطاب میں بیان کیا کہ میں فوت شدگان کو غسل دیا کرتا تھا۔ان میں سے بعض افراد کارنگ نہایت سیاہ ہوجاتا ہے۔اور بعض کادایاں ہاتھ قبض ہوجاتاہے اور بعض کا ہاتھ اس کی دبر میں داخل ہوجاتا اور بعض کی دبر سے گندی بدبوآنے لگتی اور بعض سےایسی آواز سنائی دیتی کہ گویا اس کی دبر میں گویا آگ کے انگارے داخل کیے جارہے ہیں۔شیخ قحطانی کہتے ہیں  کہ ایک دفعہ کاذکر ہے کہ ایک میت کو ہمارے پاس غسل دینے کے لئے لایا گیا۔جب ہم اسے غسل دینے لگے تو اس کارنگ نہایت سیاہ ہوگیا حالانکہ پہلے اس کارنگ نہایت سفید تھا۔میں غسل دینے والی جگہ سے باہرنکلا اور مجھے خوف محسوس ہورہاتھا میں نے باہر کھڑے ایک آدمی کو دیکھا اور اس سے دریافت کیا کہ یہ مت تمہاری ہے؟اس نے کہا:جی ہاں،میں اس کاوالد ہوں۔میں نے کہا:یہ آدمی کیاکرتا تھا؟اس نے کہا:یہ نماز نہیں پڑھتاتھا،تو میں نے کہا،اپنی اس میت کولے جاؤ اور خودغسل دے لو۔(تذکرۃ الاخوان بخاتمۃ الانسان)


قبر  میں اتارتے وقت پیش آنے والا ایک واقعہ یوں ہے ۔شیخ قحطانی بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں نماز عصر کے بعدقبرستان کی طرف گیا اور ایک فوت ہونے والے آدمی کی قبر بنائی۔میرے ہاتھوں پر مٹی لگی تھی اور میں اپنے ہاتھوں کو دھونے کا ارادہ کررہاتھا کہ ایک جنازہ آگیا اور تقریباً پچاس آدمی اس جنازے کے ساتھ تھے ان میں سے ایک آدمی نے مجھے آواز دی کہ خدا کے لئے ہمارے ساتھ قبر بنانے میں ہماری مدد کرو کیونکہ ہم اچھی قبر نہیں بناسکتے۔بہرحال میں نے ان کے ساتھ قبر بنانا شروع کردی۔قبر بنا کر ہم اس میت کو دفن کرنے لگے وہ میت کافی فربہ تھی۔دو آدمیوں نے میرے ساتھ اسے قبر میں اتار دیا۔میں نے اس میت کےسر کے نیچےرکھنے کے لیے اینٹ طلب کی اور میں نے بند کھول دیئے تو اس میت کاسر قبلہ سے پھر گیا۔شیخ قحطانی کہتے ہیں کہ میں نے دوبارہ اسکے سر کو پھیر کرقبلہ کی طرف کردیا۔اور میں میت کے دوسری طرف ہوگیا اور دوسری اینٹ پکڑی۔اس وقت میں نے دیکھاکہ اس کہ اس کی آنکھیں کھلی ہیں اور اس کے منہ اور ناک سے نہایت سیاہ خون بہہ رہاتھا۔یہ دیکھ کر مجھ پر اس قدر ڈر اور خوف طاری ہوگیا کہ میر ی ٹانگوں نے مجھے اٹھانے سے جواب دے دیا۔


میرے ساتھ دو تین اورآدمیوں نے بھی عجیب وغریب منظر دیکھا۔پھر انہوں نے مجھے تیسری اینٹ دی اور میں نے دیکھا کہ تیسری مرتبہ بھی اس کا سر قبلہ سے پھر گیا۔چنانچہ میں نے اسے چھوڑ دیا اور  فوراً اس قبر کے پاس سے بھاگ گیا جو لوگ میرے ساتھ تھے انہوں نے بھی ڈر کی وجہ سے دفن کر نے کاکام ویسے ہی چھوڑ دیا اور لحد کو بند کئے بغیر ہی اس پرمٹی ڈال دی۔اس کے بعد میں نے اس میت کے ساتھ پیش آنے والا منظر سات /آٹھ مرتبہ خواب کی حالت میں دیکھا۔چنانچہ  جب میں عمرہ کرنے کے لئے مکہ مکرمہ میں گیا اور پندرہ دن وہاں قیام کیا تو اللہ نے میرے دل کو سکون عطا  فرمایا۔(تذکرۃ الاخوان بخاتمۃ الانسان)


امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ  بیان کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھی ابو عبداللہ محمد بن احمد قصیری نے مجھے خبردی کہ قسطنطنیہ کے حکمرانوں میں کوئی آدمی فوت ہوگیا۔چنانچہ اس کے لئے قبر بنائی گئی اور جب لوگوں نے اس میت کو دفن کرنے کاارادہ کیا تواچانک ایک بہت بڑا سیاہ رنگ کا سانپ آکر اس قبر میں بیٹھ گیا۔لوگ اس میت کو اس قبر میں دفنانے سے ڈرگئے اور انہوں نے ایک اورجگہ قبربنائی۔وہ سانپ جا کر اس قبر میں بیٹھ گیا۔قصہ مختصر تیس قبریں بنائی گئیں۔اور وہ سانپ ہر اس قبر میں بیٹھ جاتا جس میں اس میت کو دفن کرنے لگتے۔جب لوگ قبریں بنا بناکر تھک ہارگئے تو انھوں نے اہل علم سےسوال کیا کہ اب ہم کیاکریں تو انہیں جواب دیاگیا کہ اس میت کو اسی سانپ کے ساتھ ہی دفن کردو۔


تدفین کے بعد برے خاتمہ کی علامت ظاہر ہونے والا ایک واقعہ یوں ہے جسے حافظ ابن  قیم  رحمۃ اللہ علیہ  نے الروح نامی اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ہمارے ساتھی ابو عبداللہ محمد بنالرز الحرانی نے مجھے خبردی کہ میں ایک دن نماز عصر کے بعد قبرستان کی طرف گیا۔جب سورج غروب ہونے کے قریب تھاتو میں قبرستان پہنچ گیا۔وہاں میں نے دیکھا کہ ان قبروں میں سے ایک قبر ایسی تھی جس سے آگ بلند ہورہی تھی(جیسے چراغ سےآگ نکلتی ہے)اس قبر میں ایک میت بھی تھی۔میں اسے دیکھ کر اپنی آنکھوں کوملنے لگا اور دل میں خیال کرنے لگا کہ میں نیند کی حالت میں ہوں یاجاگ رہا ہوں۔پھرمیں شہر کی طرف واپس آگیا اور میں نے کہا:اللہ کی قسم میں تو جاگ رہاہوں،چنانچہ میں اپنے گھر گیا اور میں مدہوش تھا میرے گھر والوں نے میرے سامنے کھانا لاکررکھ دیا لیکن مجھ میں کھانا تناول کرنے کی ہمت ہی نہیں تھی۔چنانچہ میں شہر کی طرف گیا اورجاکر اس قبروالے آدمی کے متعلق لوگوں سے دریافت کرنے لگا کہ وہ آدمی کیا تھاتو مجھے بتایا گیاکہ وہ آدمی جعلی کرنسی کاکاروبار کرتاتھا۔


ہم برے خاتمہ سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں اور اللہ سے سوال کرتےہیں کہ وہ ہمارے دلوں کو ہدایت دینے کے بعد ٹیڑھا نہ کرےاور ہمیں اپنی خاص رحمت عطا فرمائے،بے شک وہی دینے والاہے۔


اپنے رشتہ داروں سے سلوک اور صلہ رحمی بھی اچھے خاتمہ کا سبب ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:


مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُمِدَّ اللَّهُ لَهُ فِي عُمُرِهِ وَيُوَسِّعَ لَهُ فِي رِزْقِهِ وَيَدْفَعَ عَنْهُ مَيْتَةَ السُّوءِ فَلْيَتَّقِ اللَّهَ وَلْيَصِلْ رَحِمَهُ


" کہ جو  چاہتا ہے کہ اس کی عمر اور رزق  میں اضافہ ہوجائے اور بری موت سے محفوظ ومامون رہے تو اسے اللہ سے ڈرنا چاہیے اور رشتہ داروں سے  صلہ رحمی کرنی چاہیے۔(مسند احمد عن علی)


قریب المر گ آدمی کی پیشانی پر اگر پسینہ آجائے تو یہ بھی اس کے اچھے خاتمہ کا سبب ہے۔ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   بیان  فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کے انتقال کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر جو موت کی شدت دیکھی تھی۔اس کے بعد مجھے کسی پر رشک نہیں آتا کہ اس کی موت آسانی سے آئے۔حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  خراسان میں اپنے بھائی سے ملنے اوراس کی تیمارداری کے لئے گئے۔جب حضرت بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اپنے بھائی کے پاس پہنچے تو دیکھتے ہیں کہ ان کا بھائی قریب المر گ ہے اور موت کی شدت کی وجہ سے اس کی پیشانی پر پسینہ اتر آیا ہے۔حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اسے اس حالت میں دیکھ کر فرمانے لگے:


" اللَّهُ أَكْبَرُ....... سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَوْتُ الْمُؤْمِنِ بِعَرَقِ الْجَبِينِ"


"اللہ بہت بڑا ہے،میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ مومن اپنی   پیشانی کے پسینہ کے ساتھ فوت ہوتا ہے(یعنی مومن کی موت کے وقت پیشانی پر پسینہ آجاتا ہے)


اچھے خاتمہ کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ جمعۃ المبارک کے دن یا جمعہ والی رات موت آجائے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نےفرمایا:


ما من مسلم يموت يوم الجمعة أو ليلة الجمعة إلا وقاه الله فتنة القبر"،


"کہ" جس مومن کو جمعہ کے دن یاجمعہ کی رات موت آجائے،اللہ تعالیٰ اسے عذاب قبر سے محفوظ رکھیں گے"اور یہ بھی ممکن ہے کہ کافر اور مشرک کو جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات موت آجائے،لیکن وہ کافر یا مشرک عذاب قبر سے ہر گز نہیں بچ سکے گا کیونکہ مندرجہ بالاحدیث کی رو سے مومن ہونا شرط ہے ۔


قریب المرگ حالت میں اللہ تعالیٰ سے رحمت کی امید رکھنا اور اس کے عذاب سے ڈرنا بھی اچھے خاتمہ کا سبب ہے۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ایک نوجوان آدمی قریب المرگ تھا۔حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم   اس کے پاس تشریف لے گئے اور اس نوجوان سے دریافت فرمایا:" كيف تجدك؟"کہ"تیرے دل میں کیا ہے؟"تو وہ نوجوان کہنےلگا:


قال: والله يا رسول الله: إني أرجو الله وأخاف ذنوبي.


"کہ اللہ کی قسم مجھے اللہ سے ر حمت کی اُمید بھی ہے اور اپنے گناہوں کا ڈر بھی ہے۔"حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا:


 لَا يَجْتَمِعَانِ فِي قَلْبِ عَبْدٍ فِي مِثْلِ هَذَا المَوْطِنِ إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ مَا يَرْجُو وَآمَنَهُ مِمَّا يَخَافُ


کہ"قریب المرگ حالت میں جس مومن کے دل میں یہ دو چیزیں جمع ہوجائیں گی،اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز عطا فرمائیں گے جس کی وہ امید رکھتا ہے اور جس سے ڈر اور خوف محسوس کرتا ہے ،اس سے اللہ تعالیٰ اس کو بچا لیں گے"


قریب المرگ آدمی کے پاس بیٹھ کر اس کے لیے نیک دعا کرنا بھی اس ک اچھے خاتمہ کا سبب  ہے کیونکہ  اس وقت جو بات بھی کہی جائے اس پر فرشتے آمین کہتے ہیں۔حدیث میں ہے:


فقولوا خيرا فإن الملائكة يؤمنون على ما تقولون


(صحیح مسلم عن ام سلمہ)


"کہ قریب المرگ کے پاس بھلائی کی بات کرو کیونکہ جو کچھ تم اس وقت کہتے ہو فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔


خاتمہ:۔


آخر میں حسن خاتمہ کے اسباب کا ذکر کرتا ہوں کہ انسان کا انجام بالخیر کیسے ہوسکتا ہے:


الف۔ظاہر وباطن اور ہر حالت میں تقویٰ کو لازمی اختیار کرنا چاہیے اور کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھامنا چاہیے۔یہ نجات کا واحد راستہ ہے۔اور آدمی کو گناہوں سے بہت زیادہ ڈرنا چاہیے۔یقیناً کبیرہ گناہ آدمی کو ہلاک کردیتے ہیں اور صغیرہ گناہوں کی وجہ سے دلوں پر زنگ لگ جاتا ہے۔


رسول مقبول  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا کہ اپنے آپ کو چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بھی بچاؤ۔اس قوم کی طرح جو ایک وادی میں اترے۔کوئی ادھر سے ایک لکڑی لے آیا کوئی ادھر سے ایک لکڑی لے آیا۔یہاں تک کہ انہوں نے اپنا کھانا تیار کرلیا اور چھوٹے چھوٹے گناہ پتہ نہیں کب آدمی کو ہلاک کردیں۔


ب۔ہمیشہ اللہ  تعالیٰ کا ذکر اور شکر کرنا چاہیے اور جو کوئی ہمیشہ اللہ کا ذکر کرتا رہتاہے اس کے تمام اعمال کا خاتمہ اسی پر ہوتاہے اور دنیا سے جاتے وقت اسے کلمہ شہادت  پڑھنے کی وجہ سے جنت کی بشارت مل جاتی ہے کیونکہ حضرت  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا کہ:


"جس کی آخری کلام لاالٰہ الا اللہ ہوگی وہ جنت میں جائے گا"


اس کے ساتھ ساتھ ہر مسلمان کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا ختم ہونے والا گھر ہے اور یہ ہمیشہ نہیں رہے  گی جب آدمی اس بات کو سمجھ لیتا ہے تو پھر وہ دنیا کو اپنے دل میں نہیں بلکہ ہاتھ پر رکھتا ہے یعنی اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتا اورکثرت سے یہ دعا کرتا ہے:


"يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ"


"اے دلوں کو پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ"


رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   بھی اس دعا کو کثرت سے پڑھا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم   سے کہاگیا کہ اے اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  !ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم   پر ایمان لائے اور اس چیز پر بھی جو آپ اللہ کی طرف سے لے کر آئے۔کیاپھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم   ہمارے متعلق ڈرتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:"ہاں! کیونکہ دل اللہ کی دو انگلیوں کےدرمیان ہے،اللہ جیسے چاہتاہے ،اسے پھیر دیتا ہے"


الٰہی!ہم آپ کے اسماءحسنیٰ اور صفات وعلیا کے ساتھ سوال کرتے ہیں کہ ہمیں اس حالت میں فوت کرنا کہ تو ہم سے راضی ہو۔الٰہی ہمارے آخری اعمال کو بہترین بنادے اور اپنی ملاقات کے وقت تو ہم سے خوش اور راضی ہوجا۔الٰہی!دنیا و آخرت میں ہمیں سچی بات پر ثابت اور قائم ر کھنا اور ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کرنا اور ہمیں اپنی رحمت عطا فرما۔بے شک تو ہی سب کچھ دینے والا ہے۔الٰہی! ہمارے پوشیدہ کو ظاہر سے بہتر بنا اورظاہر کو بھی درست فرمادے،بے شک تو قدرت کاملہ رکھنے والاہے۔

Share: