پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو

آج بد قسمتی سے ہمارے معاشرہ میں سب سے سستی اور بے قیمت چیز اگر ہے تو وہ وقت ہے، اس کی قدر وقیمت کا ہمیں قطعاً احساس نہیں، یہی وجہ ہے کہ وقت کے لمحات کی قدر نہ کرنے سے منٹوں کا، منٹوں کی قدر نہ کر نے سے گھنٹوں کا ،گھنٹوں کی قدر نہ کرنے سے ہفتوں کا ، ہفتوں کی قدر نہ کر نے سے مہینوں کا ،اور مہینوں کی قدر نہ کر نے سے سالوں اور عمروں کا ضائع کر نا ہمارے لیے ایک عام سی بات بن گیا ھے ۔ 

                ہم لو گ بیٹھکوں، چوپالوں ، ہو ٹلوں ،   اجتمائی اور نجی مجالس میں وقت گزاری کر تے ہیں اور ہمارا کتنا ہی قیمتی وقت نکتہ چینی، غیبت، بہتان اور بے تحاشا سونے میں ضائع ہو جاتا ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا  چنانچہ سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفی  صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِرَجُلٍ وَهُوَ يَعِظُهُ: اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: شَبَابَكَ قَبْلَ هِرَمِكَ ، وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ ، وَغِنَاءَكَ قَبْلَ فَقْرِكَ ، وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ ، وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ ” (الحاكم و صحيح الجامع الصغير )

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، مالداری کو محتاجی سے پہلے، فراغت کو مشغولیت سے پہلے، اور زندگی کو موت سے پہلے

درج بالا حدیثِ مبارکہ رسول کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی امت کے لئے ایک جامع وصیت ہے جس میں رسول کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اُمت کو  اللہ تعالی کی وہ نعمتیں یاد دلائی ہیں جن سے ہم محظوظ ہورہے ہیں، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ہمیں ان نعمتوں کی قدرکرنے اورغنیمت سمجھنے کی تاکید کی ہے نیزان نعمتوں کے ختم ہوجانے سے پہلےیاکوئی عارضہ لاحق ہونے سے پہلے نیک اعمال کی بجاآوری میں مبادرت وپہل کرنے کی ترغیب دی ہے ، چنانچہ سب سے پہلے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اس آدمی کو اور اس کے ذریعہ اپنی پوری امت کو یہ نصیحت اور وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ ا پنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے غنیمت جانو کیوں کہ جوانی میں انسان کے اندرطاقت وقوت زیادہ ہوتی ہے ،جوش وجذبہ زیادہ ہوتا ہے،عزم جواں اور ہمت بلند ہوتی ہے، حرکت وسرگرمی زیادہ پائی جاتی ہے، اس کے برعکس بڑھاپے میں انسان ضعف واضمحلال کا شکار ہوتا ہے ، اپنے اندرعاجزی وبے بسی محسوس کرتا ہے، دست وپا جواب دینے لگتے ہیں، اس لئے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا اپنی جوانی کو اپنے بوڑھاپے سے پہلے غنیمت جانو ، اللہ نے جوانی دی ہے اپنی جوانی کو اللہ کی عبادت اور اسکی معرفت حاصل کرنے میں صرف کیجئے، توحید اور شرک کے فرق کو جانئے اور سمجھئے،  علم حاصل کیجئے، شرعی احکام کو سمجھئے پھر پوری بصیرت کے ساتھ اللہ تعالی کی عبادت وبندگی کیجئے، اللہ کے فرائض و واجبات کا اہتمام کیجئے ، محرمات ومنکرات سے بچئیے ، لوگوں کو بھلائی کاحکم دیجئے اور برائیوں سے روکئے ، خیروبھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجئے کیوں کہ آج جوانی ہے  کل  بڑھاپا  اور شیخوخت طاری ہوجائے گی۔

دوسری وصیت ونصیحت رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے یہ فرمائی کہ اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلےغنیمت جانو، آج صحت وتندرستی ہے ممکن ہے کل آدمی بیمار ہوجائے اور ممکن ہے یہ بیماری جو اسے لاحق ہوئی ہے وقتی اور عارضی ہو یا یہ بیماری طول پکڑجائے یا آدمی دائم المریض ہوجائے، شفایابی ممکن نہ ہو، یا یہ کہ بیماری انسان کو قبر میں پہنچادے ،اس لئے اپنی صحت وعافیت کو غنیمت سمجھئے اور نیک اعمال کی بجاآوری میں مسارعت وپہل کیجئے ، کیوں کہ صحت وتندرستی انسان کے ساتھ ہمیشہ نہیں رہتی، ہر صحت کے بعد بیماری مقدر ہے ، فرمان الہی ہے 

اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ضعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ضعْفًا وَّشَيْبَةً ۭ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ۚ وَهُوَ الْعَلِيْمُ الْقَدِيْرُo

وہ اللہ ہے جس نے تم سب کو کمزور پیدا کیا، پھر کمزوری کے بعد قوت دی، پھر قوت کے بعد کمزور اور بوڑھا بنا دیا، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ تو بڑا جاننے والا، بڑی قدرت والا ہے‘‘ ( سورہ روم )

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی وہ تدریجی حالتیں بیان فرمائی ہیں جن میں مجبور محض ہوتا ہے اور اپنے اختیار سے ان حالتوں میں خود کوئی تبدیلی نہیں لاسکتا، پیدا ہوتا ہے تو اس قدر کمزور کہ کسی بھی جاندار کا بچہ اتنا کمزور پیدا نہیں ہوگا۔ ہر جاندار کا بچہ پیدا ہوتے ہیں چلنے پھرنے لگتا ہے مگر انسان کا بچہ چلنا تو درکنار بیٹھ بھی نہیں سکتا اور چلنے کی نوبت تو ڈیڑھ دو سال بعد آتی ہے، پھر اس کے بعد اس پر بلوغت اور جوانی کا دور آتا ہے تو وہ جسمانی طور پر طاقتور اور مضبوط ہوتا ہے۔ اس کے فوائے عقلیہ، اس کا فہم و شعور سب جوبن پر ہوتے ہیں، اس کے بعد اس پر انحطاط وتنزلی کا دور آتا ہے۔ قوتیں جواب دینے لگتی ہیں۔ اعضا مضحمل ہونے لگتے ہیں۔ کئی طرح کے عوارض اور بیماریاں اسے آگھیرتے ہیں حتیٰ کہ اس کی عقل بھی کمزور  ہونا شروع ہوجاتی ہے اور یہ سب ایسے مدارج زندگی ہیں۔ جن میں انسان اپنی طرف سے کوئی تبدیلی نہیں لاسکتا ہے وہ لاکھ چاہے کہ بڑھاپے کے بعد پھر اس پر جوانی کا دور آئے وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ جس تدریج کے ساتھ اللہ اسے ان مراحل سے گزارتا ہے۔ اسے بہرحال گزرنا پڑتا ہے۔  اس لئے اپنی صحت وتندرستی کو غنمت سمجھئے،کیوں کہ جب صحت وتندرستی رخصت ہوجائے گی تو پھر آپ کو ندامت وشرمندگی ہوگی کہ میں نے اپنی صحت وعافیت کو اللہ تعالی کی اطاعت وفرمانبرداری میں نہیں لگایا، جیسے آج بہت سارے لوگ اپنی صحت وعافیت کو حرام اور معصیت کے کاموں میں ضائع وبرباد کرتے ہیں اور جب صحت وعافیت ان سے رخصت ہوجاتی ہے تو نادم اور شرمندہ ہوتے ہیں لیکن اس وقت ندامت کرنے سے ان کوکوئی فائدہ نہیں ہوتا، اس لئےآدمی کو اپنی صحت وعافیت سے دھوکے میں نہیں پڑناچاہئے بلکہ صحت وعافیت کی حالت میں نیک اعمال کا ذخیرہ کرلینا چاہئے  کیوں کہ معلوم نہیں کب آدمی پر بیماری کا حملہ ہو اور وہ بیماری اس کو قبر میں پہنچادے اور وہ بغیر توشہ کے سفر آخرت کرجائے۔

تیسری نصیحت رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے یہ فرمائی کہ اپنی مالداری کو اپنی محتاجی سے پہلے غنیمت جانو کیوں کہ آج مالدراری ہے کل محتاجی آجائے گی اس لئے اگر اللہ تعالی نے آپ کو صاحب مال بنایا ہے، آپ کے پاس مال ودولت کی کثرت وفراونی ہے ،تو اسے خیرو بھلائی کے کاموں میں صرف کرتے رہیئے ، رشتہ داروں ، محتاجوں ، مسکینوں ، یتیموں ، بیواؤں  وغیرہ کے حقوق کو ادا کیجئے کیوں کہ جو مال آپ نے اللہ کی راہ میں خرچ کردیا وہی آپ کا مال ہے وہ آپ کے لئے محفوظ  ہوگیا جس کااجروثواب آپ کو اللہ کے یہاں ضرور ملے گا، کیوں کہ مال ودولت ڈھلتی چھاؤ ہے آج آپ کے پاس ہے کل کسی اور کے پاس ہے، اور نہ یہ مال ہمیشہ آپ کے ساتھ  رہےگا اور نہ آپ مال کے ساتھ ہمیشہ رہیں گے، کتنے لوگ ہیں اگر اس کے پاس مال ودولت کی فراوانی ہوتوبہت زیادہ سرکشی اور اللہ کی نافرمانی کرتےہیں ،حرام کاموں میں اپنا مال لٹاتے ہیں، عیاشیوں میں اپنا مال صرف کرتے ہیں اور مال ودولت کے نشہ میں غریبوں مسکینوں پر ظلم ڈھاتے ہیں اور اللہ کی زمین پرفساد مچاتے ہیں جیساکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے


كَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰٓى (6) 

اَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰى (7)

ہرگز نہیں، بے شک آدمی سرکش بن جاتاہے جب دیکھتا ہے کہ وہ دولت مند ہوگیا‘‘ ( سورة علق) 

ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالی نے فرمایا انسان کے پاس جہاں دو پیسے ہوئے فراوانی ہوئی کہ اس کے دل میں کبر و غرور ، عجب و خود پسندی آجاتی ہے وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ اب وہ کسی کا محتاج نہیں اور رب العالمین کو یکسر بھول جاتا ہے، طغیانی و سرکشی پر آمادہ ہوجاتا ہے جب کہ اسے اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیئے اور خیال رکھنا چاہیئے کہ اسے ایک دن اللہ کی طرف لوٹنا ہے وہاں جہاں اور حساب ہوں گے ۔ مال کی بابت بھی سوال ہو گا کہ مال کیسے اور کہاں سے کمایا تھا اور  خرچ کہاں کیا ؟

اس لئے اپنی مالداری کو اپنی محتاجی سے پہلےغنیمت جانتے ہوئے حقوق العباد کا خیال رکھنا اور اپنے اموال کو خیروبھلائی کے کاموں میں لگاتے رہنا چاھیے، کیا معلوم کل آئندہ آپ کا سارا مال ختم ہوجائے  اور آپ دنیا اور آخرت دونوں جہان میں فقیر ومحتاج ہوجائیں  ورنہ موت نے تو آپ کے اس مال کو آپ سے جدا کر ھی دینا ھے

چوتھی نصیحت رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے یہ فرمائی اپنی فراغت کو اپنی مشغولیت سے پہلے غنیمت جانو، آج فارغ ہیں، کل آپ مشغول ہوجائیں گے، آج تن تنہا ہے، کوئی کام نہیں، کوئی مسئولیت وذمہ داری نہیں، کل ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی، اولاد کے لئے روزی حاصل کرنے میں مشغول  ہوجائیں گے پھر علم حاصل کرنے اور دوسرے نیک اعمال کرنے کا موقع نہیں مل سکے گا ، اس لئے اپنی فرصت کے اوقات و لمحات کو قرآن مجید پڑھنے ، اسے سیکھنے  اور اس پرعمل کرنے اور دوسرے نیک کاموں کو بجالانے میں استعمال کیجئے کیوں کہ جو شخص اپنی فرصت کے اوقات کو نیک کاموں میں لگانے کے بجائے لہو ولعب اور برے کاموں میں ضائع وبرباد کرتا ہے وہ گھاٹا اٹھانے والا اور بدنصیب ہے، فرمان نبوی  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ہے  

نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ”

دونعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے ، صحت اور فراغت ‘‘  ( صحیح بخاری) 

ان دونعمتوں کے حوالہ سے ہم میں سے اکثر لوگ خسارہ اور نقصان میں ہیں، ہم میں سے اکثر لوگ ان دونوں نعمتوں کوبلا فائدہ کاموں میں ضائع کر رہے ہیں، نہ توخود ان نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور نہ ہی اللہ کے کسی بندہ کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ آج ہم ان نعمتوں کی قدر نہیں کرتے، ان نعمتوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے، لیکن جب موت کی گھڑی آپہنچے گی موت ہمارے سر پر کھڑی ہوگی یا قیامت جب قائم ہوجائےگی توپھر ہمیں ان نعمتوں کی قدر سمجھ آئے گی اور اس وقت انسان آرزو کرے گا کہ اے اللہ مجھے تھوڑی سی مہلت دیدے تاکہ میں اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جاکر نیک کام کرکےآجاؤں، یہ بات اللہ تعالی نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر دوہرائی ہے کہ کافرومشرک منافق اور اللہ کے نافرمانبردار لوگ تمنا کریں گے اور اللہ سے دنیا میں جانے کی مہلت طلب کریں گے لیکن کیا انہیں مہلت دیدی جائے گی، ہر گز نہیں چنانچہ ارشاد ربانی ھے: 

حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ * لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ﴾ [المؤمنون)

’’یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے پروردگار! مجھے واپس لوٹا دے کہ اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جاکر نیک اعمال کرلوں‘‘  

اور سورہ منافقون میں اللہ عزوجل نے فرمایا  

 مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُنْ مِنَ الصَّالِحِينَ  (المنافقون)

 تم میں سے کسی کو موت آجائے تو کہنے لگے اے میرے پروردگار مجھے تو تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتا ؟ کہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں ہوجاؤں۔ 

وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴾ (المنافقون)

اور جب کسی کا مقررہ وقت آجاتا ہے پھر اسے اللہ تعالیٰ ہرگز مہلت نہیں دیتا اورجو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ تعالیٰ بخوبی باخبر ہے‘‘

انسان موت کے وقت تمنا کرے گا کہ اسے ایک منٹ کے لئےفرصت و مہلت دیدی جائے ، لیکن اسے کوئی فرصت اور مہلت نہیں دی جائے گی،  اور یہ مت سمجھئے کہ ہمیں ان دو نعمتوں سے محرومی موت آ نے پر ہی ہوگی بلکہ ان نعمتوں سے محرومی موت آنے سے پہلے بھی ہوسکتی ہے، آج ہم مکمل صحتمند ہیں، ممکن ہے کہ کل بیمار ہوجائیں اور پھر ہم اللہ کے فرائض کو اد ا کرنے سےعاجز رہ جائیں ،آج ہم فارغ ہیں ممکن ہے کل اپنے اور اپنے اہل وعیال کی گزر اوقات کے لئے کمانے میں لگ جائیں اور نیکیاں کمانے سے محروم ہوجائیں ، اس لئے انسان کو چاہئے  کہ استطاعت کے مطابق اپنی صحت اور فرصت کے اوقات کو اللہ کی اطاعت میں لگائیں اگر قرآن تلاوت کرسکتا ہو توبکثرت قرآن تلاوت کرے ، اوراگر قرآن کی تلاوت نہیں کرسکتا  توبکثرت اللہ تعالی کا ذکر کرے ، لوگوں کو بھلائی کا حکم کرے اور برائی سے روکے، اصلاح بین الناس کا کام کرے، لوگوں کے ساتھ اچھا معاملہ کرے ان ساری نیکیوں کا فائدہ ان کو ملے گا،  ایک عقلمد انسان جو ہوتا ہے وہ ان نعمتوں سے بھر پور فائدہ اٹھاتا ہے۔ اپنی صحت کے ایام کو اور فرصت کے لمحات کو ضائع اور برباد نہیں کرتا اپنی صحت کے ایام میں اللہ کے فرائض اور اچھے اچھے اعمال انجام دیتا ہے اور اپنے فارغ اوقات کو نافع اورمفید کاموں سے بھر دیتا ہے۔

 پانچویں نصیحت رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے یہ فرمائی کہ اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلےغنیمت جانو ، آج زندگی ہے کل موت آجائے گی، اور زندگی مختصر ہے، عمر تھوڑی ہے اور یہی عمر اور زندگی ہماری اصل پونجی ہے،  اگر ہم نے اپنی عمر لہو ولعب میں  گزاردی تو موت کے وقت نادم وشرمندہ ہوں گے اوراس وقت ندامت وشرمندگی کا کوئی فائدہ نہ ہوگا، اس لئے اللہ کے حقوق وفرائض وغیرہ میں کوتاہی اور سستی کرنے والا اورحد سے تجاوز کرنے والا مت بنیئے کیوں کہ کل قیامت کے دن جب جہنم سامنے لائی جائے گی تو حد سے تجاوز کرنے والا ، اپنی زندگی کو کھیل وتماشہ میں ضائع و برباد کردینے والا جہنم کی ہولناکی وخوفناکی اوراس کےعذاب کو دیکھ کر نصیحت حاصل  کرے گا جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے 

 وَجِايْۗءَ يَوْمَىِٕذٍۢ بِجَهَنَّمَ ڏ يَوْمَىِٕذٍ يَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰى لَهُ الذِّكْرٰى يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِيْ قَدَّمْتُ لِحَيَاتِيْ 

اور اس دن جہنم سامنے لائی جائے گی، اس دن آدمی نصیحت حاصل کرے گا، اور تب نصیحت اسے کیا فائدہ پہنچائے گی وہ کہے گا، اے کاش ! میں نے اپنی اس زندگی کے لئے نیک اعمال پہلے بھیج دیا ہوتا‘‘ (سورت فجر آیت : ۲۳۔۲۴)


اسی طرح ایک اور جگہ اللہ عزوجل نے فرمایا کہ جب جہنمی جہنم میں  داخل کردیئے جائیں گے تووہاں کی عذاب کو دیکھ کر اپنے رب سے درخواست کریں گے کہ وہ انہیں دنیا میں واپس بھیجدے تاکہ نیک اعمال کرلیں،

رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ  

اور کہیں گے کہ اے ہمارے رب ! ہم نے سب کچھ دیکھ اورسن لیا، اس لئے اب ہمیں دنیا میں واپس بھیج دے تاکہ نیک عمل کریں، ہمیں آخرت پر پورا یقین آگیا ہے‘‘( سورة سجدہ )

اس لئے آپ اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلےغنیمت جانئےجب آپ صبح کرلیں تو شام کا انتظار نہ کریں اور جب شام کرلیں تو صبح کا انتظار نہ کریں اور اپنی صحت کو بیماری سے پہلے اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جانیں، اور اپنے آپ کو قبر والوں میں شمار کریں کیوں کہ  آپ نہیں جانتے  کہ کل  آپ کا نام زندوں میں ہوگا یا مردوں میں ،ایام بڑی تیزی سے گزررہے ہیں اورعمر ختم ہوتی جارہی ہے ہرلمحہ اور ہر آن ہم موت سے قریب ہورہے ہیں اور ہم نہیں جانتے۔  موت برحق اور یقینی چیز ہے اس میں کو ئی شک وشبہہ نہیں کیا جاسکتا، ہم سب یہ قرآنی آیات پڑھتے اور سنتے ہیں :

(كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ ۭ وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ  فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ ) ’

 ہر شخص کو موت کا مزا چکھنا ہے اور قیامت کے دن تمہیں تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا۔ پھر جو شخص دوزخ سے بچالیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا ہے تو وہ کامیاب ہوگیا اور یہ دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے‘‘( سورہ آل عمران )

(کُلٰ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ وَیَبْقَیٰ وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ) (الرحمن 

 یعنی اس زمین پر جتنے ہیں سب فانی ہیں صرف رب کا چہرہ باقی ہے جو بزرگی اورانعام والا ہے‘‘

یعنی جن و انس کل کے کل مرنے والے ہیں اسی طرح فرشتے اور حاملان عرش بھی مر جائیں گے اور صرف اللہ وحدہ لا شریک دوام اور بقاء والا باقی رہ جائے گا پہلے بھی وہی تھا اور آخر بھی وہی رہے گا ، جب سب مر جائیں گے مخلوقات کا خاتمہ ہوئے گا اس وقت اللہ تعالیٰ قیامت قائم کرے گا اور مخلوق کو ان کے چھوٹے بڑے ،چھپے کھلے ،صغیرہ کبیرہ، کل اعمال کا بدلہ ملے گا، کسی پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا ۔


(كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ  لَهُ الْحُكْمُ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ )  

اس کے سوا ہر چیز فنا ہوجائے گی ہر چیز پراسی کی حکمرانی ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے‘‘ ( سورہ قصص 

اور موت اچانک آئے گی اور کسی  بھی حالت میں آئے گی، صحت وبیماری کی حالت میں ،مالدرای اورمحتاجی کی حالت میں، سونےاورجاگنے کی حالت میں ، سفر اور حضر میں جیسا کہ مالک کا فرمان ہے،

 (فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُهُمْ لَا يَسْـتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ)

 جب موت کی گھڑی آپہنچتی ہے تو اس میں ایک پل کی بھی تقدیم وتاخیر نہیں ہوسکتی‘‘ (سورہ اعراف 

(وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًاوَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ  اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ) 

اور کوئی آدمی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور نہ کوئی یہ جانتا ہے کہ زمین کے کس خطے میں اس کی موت واقع ہوگی، بے شک اللہ بڑا جاننے والا، بڑا باخبر ہے‘‘ (سورہ لقمان ) 

(وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ كِتٰبًا مُّؤَجَّلًا

کوئی شخص اللہ کے اذن کے بغیر کبھی نہیں مرسکتا۔[ موت کا وقت لکھا ہوا ہے‘‘ (سورہ آل عمران

ساتھیو!  بلا شبہہ یہ دنیا ہمیشہ نہیں رہے گی اور نہ کوئی اس دنیا میں ہمیشہ رہے گا جیسا کہ رب کا فرمان ہے 

(وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ  اَفَا۟ىِٕنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ) 

’اور ہم نے آپ سے پہلے کسی انسان کو ہمیشگی نہیں دی، کیا آپ اگر مرجائیں گے تو وہ لوگ ہمیشہ رہنے والے ہیں ‘‘   (سورہ انبیا )

اس دنیا میں ہم سب مسافر ہیں اورہمارا سفر بڑا طویل ہے یہ سفر ہم سےایسے توشہ کا طلبگارہے جو دنیا میں ہمیں فائدہ دے اور مرتے وقت بھی ہمارے کام آئے اور قبر میں بھی ہمارے لئے مفید ہو اور قیامت  کےدن ، پل صراط  پر اور میزان عمل کے وقت ہمارے لئے نفع بخش ہو یہاں تک کہ ہم جنت میں داخل ہوجائیں ، لیکن آپ جانتے ہیں وہ توشہ سفر کیا ہے وہ توشہ سفر تقوی ہے، ہم میں سے اکثر لوگوں کا یہ حال ہےکہ انہوں نے توشہ سفرمال ودولت کو سمجھا ہوا ہے ، جاہ وحشمت کو توشہ سفر سمجھ رکھا ہوا ہے اوروہ رات ودن مال ودولت کو جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں ، بہت کم لوگ ہے جو توشہ تقوی کا اہتمام کرتے ہیں، جب کہ  اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے 

( وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى) 

اور اپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو، سب سے بہتر توشہ تقوی ہے‘‘ ( سورہ بقرہ )

اللہ  عزوجل سے دعا ہے کہ وہ ھم سب کو ان نعمتوں کی آفتوں کے آنے سے پہلے قدر کرنے اور نیک اعمال کی بجاآوری کی توفیق عنایت فرمائے  اور ہم سب کو حسنِ خاتمہ نصیب فرمائے ،

 آمین یارب العالمین

Share:

مہمان گھر میں بعد میں آتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا رزق پہلے ھی بھیج دیتے ہیں۔


ایک دفعہ کا ذکر ھے کہ ایک گاؤں میں ایک صاحب کی اپنی بیوی کے ساتھ کچھ ان بن ہو گئی۔ ابھی دونوں میں جھگڑا چل ھی رھا تھا کہ اسی اثناء میں ان کے گھر ان کا ایک رشتے دار مہمان آ گیا۔ خاوند نے مہمان کو بیٹھک میں بٹھا دیا اور بیوی سے کہا کہ فلاں رشتہ دار مہمان آیا ہے اس کے لیے کھانا بنا لو ۔ بیوی کا پارہ ابھی تک چڑھا ھوا تھا۔ وہ شدید غصّے میں تھی کہنے لگی میں نہ تمہارے لئے کھانا بناؤں گی اور اور نہ ھی تمہارے مہمان کے لئے۔

خاوند بیچارہ بہت پریشان ہوا کہ لڑائی تو ہماری میاں  بیوی کی ھے  اس میں بیچارے مہمان کا کیا قصور ھے۔ سوچنے لگا کہ اگر  مہمان جو کہ رشتہ دار بھی ھے کو اس بات کا پتہ چل گیا تو خواہ مخواہ کی باتیں ہوں گی اور بےعزتی الگ ھو گی اس لئے بیوی کو حتی الامکان سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ شیرنی تو پورے جوش میں تھی نہ مانی  لہٰذا میاں بیچارہ خاموشی سے آکر مہمان کے پاس بیٹھ گیا۔

اتنے میں اسے خیال آیا کہ چلو بیوی اگر روٹی نہیں پکاتی تو سامنے والے ہمارے ہمسائے بہت اچھے لوگ ہیں، گھر والی بات ہے، میں انہیں ایک مہمان کا کھانا پکانے کے لیے کہہ دیتا ہوں۔چنانچہ وہ ھمسائیوں کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ میری بیوی کی آج طبیعت خراب ہے اور ھمارے گھر ایک مہمان آگیا ھے ۔ آپ براہ مہربانی ہمارے مہمان کے لئے کھانا بنا دیجئے۔انہوں نے کہا بہت اچھا، جتنے آدمیوں کا آپ کہیں کھانا بنا دیتے ہیں۔وہ مطمئں ہو کر مہمان کے پاس آ کر بیٹھ گیا کہ مہمان کو کم از کم کھانا تو مل جائے گا جس سے عزت بھی بچ جائے گی۔

تھوڑی دیر کے بعد مہمان نے کہا مجھے کچھ پیاس لگی ھے لہذا ٹھنڈا پانی لا دیجئے۔ وہ اٹھا کہ گھڑے میں سے ٹھنڈا پانی لاتا ہوں۔اندر گیا تو دیکھا کہ بیوی صاحبہ تو زار و قطار رو رہی ہیں ۔ وہ بڑا حیران ہواکہ یہ شیرنی اور اس کے آنسو۔ کہنے لگا کیا بات ہے؟ اس نے پہلے سے بھی زیادہ رونا شروع کر دیا۔کہنے لگی: بس آپ مجھے معاف کر دیں۔وہ بھی سمجھ گیا کہ کوئی وجہ ضرور بنی ہے۔اس بچارے نے دل میں سوچا ہو گا کہ شاید میرے بھی بخت جاگ گئے ہیں۔ کہنے لگا کہ بتاؤ تو سہی کہ کیوں رو رہی ہو؟ اس نے کہا کہ پہلےآپ  مجھے معاف کر دیں پھر میں آپ کو پوری بات سناؤں گی۔خیر اس نے کہہ دیا کہ جو لڑائی جھگڑا ہوا ہے میں نے وہ دل سے نکال دیا ہے اور آپ کو معاف بھی کردیا ہے۔ بیوی کہنے لگی:کہ جب آپ نے آکر مہمان کا کھانا پکانے کے بارے میں کہا  اور میں نے کہہ دیا کہ نہ تمہارے لئے کچھ پکے گا اور نہ مہمان کے لئے، چلو چھٹی کرو تو آپ خاموشی سے چلے گئے ۔مگر آپ کے جانے کے بعد میں نے اپنے دل میں سوچا کہ واقعی لڑائی تو میری اور آپ کی ہے، اور یہ مہمان ھمارا رشتہ دار بھی ہے،ہمیں اس کے سامنے یہ پول نہیں کھولنا چاہئے۔ چنانچہ میں اُٹھی کہ مہمان کے لئے کھانا بناتی ہوں۔جب میں کچن(باروچی خانہ) میں گئی تو میں نے دیکھا کہ جس بوری میں ہمارا آٹا پڑا ہوتا ہے،ایک سفید ریش آدمی اس بوری میں سے کچھ آٹا نکال رہا ہے۔میں یہ منظر دیکھ کر سہم گئی۔ وہ مجھے کہنے لگا: اے خاتون! پریشان نہ ہو یہ تمہارے اس مہمان کا حصّہ اللہ تعالی کی طرف تمہارے آٹے میں پہلے ھی شامل تھا۔اب چونکہ مہمان کا کھانا ہمسائے کے گھر میں پکنا ہے،اس لئے میں وہی آٹا لینے کے لئے آیا ھوں تاکہ اسے ھمسائے کے آٹے  میں شامل کر سکوں۔

مہمان اللہ کی رحمت ھوتا ھے اسے زحمت نہیں سمجھنا چاھیے بلکہ اپنی بساط کے مطابق مہمان کی خوب خدمت کرنی چاھیے۔ حقیقت یہی ھے کہ مہمان میزبان کا کچھ نہیں کھاتا بلکہ اپنا نصیب کھاتا ھے ۔ یہ نظامِ قدرت ھے کہ  مہمان گھر میں  بعد میں آتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ اس کا رزق پہلے ھی بھیج دیتے ہیں۔

Share:

نماز اور تلاوتِ قرآن مجید میں دل لگانے کا طریقہ

بعض حضرات نیک اعمال خصوصاً نماز میں دل نہ لگنے کا شکوہ کرتے ھیں اور پھر اس کے لئے وظیفوں کی تلاش میں رھتے ھیں حالانکہ اعمال پر ثابت قدمی کے لیے سب سے بنیادی اور اہم چیز انسان کی ہمت اور پختہ عزم  کا ھونا ضروی ھوتا ہے اور اس مقصد کو پانے کے لئے بد دین لوگوں سے کنارہ کش ھو کر  نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنا ایک تریاق کی حیثیت رکھتا ہے ، اس لیے عبادات اور اعمال کی ترقی  کے لیے کسی وظیفے کی ضرورت نہیں ھوتی بلکہ ہمت ، پختہ عزم اور پھر جہدِ مسلسل کی ضرورت ھوتی ہے اور اصلاحی مواعظ سننا اور پڑھنا اس میں ممد ومعاون ہوتا ھے ۔ 

 یہ بات ھمیشہ یاد رکھنی چاھیے کہ نماز پڑھنے میں دل لگے یا نہ لگے ، تلاوت میں لذت محسوس ہو یا نہ ھو ، ہم ھر صورت ان اعمال کے کرنے کے پابند ہیں کیونکہ مسلمان نیک اعمال صرف  رب کریم کی رضا کے لیے ھی کرتاہے، خواہ اسے اس میں لذت آئے یا نہ آئے، دل لگے یا نہ لگے ۔ یہ روحانی دواء ہے ، دواء میں مزہ آئے یا نہ آئے ھر صورت لینا ضروری ھوتا ہے تاکہ صحت خراب نہ ہو ،اسی طرح تمام عبادات ، بالخصوص  نماز اور تلاوتِ قران پاک روحانی غذائیں ھیں ان پر عمل کرنا اور روزانہ تلاوتِ قران پاک کی عادت بنانا بے حد ضروری ہے ورنہ روحانی کمزوری کے خدشہ کے ساتھ ساتھ جنت سے محرومی کا خطرہ بھی ہے ۔

فرض نمازیں مرد مسجد میں جا کر تکبیرہ اولی کے ساتھ جماعت کے ساتھ صفِ اول میں پڑھنے کی کوشش کریں اور عورتیں اول وقت میں گھر پر نماز کا اھتمام کریں ، فرائض، سنن اور نوافل کو تمام آداب کے ساتھ ادا کریں، نماز کے دوران اللہ تعالی کے سامنے کھڑے ہونے کا احساس کریں، دل و دماغ سے نماز میں حاضر رہیں، اپنے جسم کی حرکات و سکنات کو قابو میں رکھیں، قیام کے دوران اپنی نگاہ کو سجدے کی جگہ پراور رکوع میں پیروں کی جانب مرکوز رکھیں ، سجدے کی حالت میں نگاہ ناک  اور قعدے میں اپنی گود کی جانب رکھیں، پہلے سلام کے وقت دائیں کندھے اور دوسرے سلام کے وقت بائیں کندھے کو دیکھیں، اگر اس کے باوجود بھی وسوسے آئیں تو انہیں اہمیت نہ دیں، نمازیں اسی طریقے کے مطابق پڑھتے رہیں ، ان شاء اللہ آھستہ آھستہ وسوسے خود بخود ختم ہوجائیں گے اور نمازوں میں دل لگنا شروع ھو جائے گا۔ 

یہ بات بھی ذھن میں رھنی چاھیے کہ نمازی وہ ھوتا ھے جو پانچ وقت پابندی کے ساتھ نمازوں کی آدائیگی کا اھتمام کرے یعنی پانچ نمازیں لازمی پڑھے ۔ جو شخص روزانہ پانچ سے کم یعنی چار یا اس سے کم  نمازیں ادا کرتا ھے وہ نمازی نہیں ھوتا نہ ھی وہ نمازیوں کی فہرست میں شمار ھوتا ھے۔

ویسے تو ھر ایک نماز اپنی اپنی جگہ پر خصوصیت کی حامل ھے لیکن فجر کی نماز مسلمانوں کے لیے بہت ھی اہمیت کی حامل ہے حدیث مبارکہ میں ہے کہ فجر کی نماز منافقین پر بہت بھاری ہوتی ہے ۔ عام طور سے مسلمان نیند کے غلبے اور سستی سے اس نماز کوچھوڑ دیتے ہیں ۔ فجر کی نماز میں کوتاہی عموما رات کوزیادہ دیر تک جاگنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔اس لیے عشاء کی نماز کے بعد جلدی سونے کی  عادت بنائے ، بلاضرورت عشاء کے بعد زیادہ دیر تک نہ جاگے اس کے علاوہ انسان رات کو سونے سے پہلے دل میں تہجد یا کم از کم فجر کی نماز پڑھنے کا پکا ارادہ کرلے اور اگر ھو سکے تو دو رکعت صلاۃ الحاجۃ پڑھ کر اللہ پاک سے دعا بھی کرے ،نیز صبح جاگنے کے لیے حتی الوسع الارم وغیرہ بھی لگالے تو صدق نیت اور پختہ عزم کے ذریعہ فجر میں اٹھا جاسکتا ہے  اور جب فجر کے وقت آنکھ   کھلےتو  فوراً اٹھ جائے ، مزید نہ سوئے تو فجر کے لیے اٹھنا آسان ہوجائے گا ، جیسے رمضان المبارک میں سحری کے لیے صدق نیت اور پختہ عزم کی وجہ سے  اٹھنا ممکن ہوجاتا ہے۔

اسی طرح قرآنِ کریم کی تلاوت انتہائی  ادب کے ساتھ کرنی چاہیے، علماء نے اس کی تلاوت کے کچھ آداب بیان فرمائے ہیں، آداب میں  سے ایک ادب یہ ہے کہ مسواک اور وضو  کرنے کے بعد کسی جگہ یک سوئی کے ساتھ  نہایت ادب، سکون و تواضع کے ساتھ اگر ممکن ھو تو قبلہ رخ بیٹھے، کوشش کی جائے کہ چارزانو ہو کر اور ٹیک لگا کر نہ بیٹھے، قرآن کی عظمت دل میں  رکھے اور یہ تصور کرے کہ یہ اس ذات کا کلام ہے جو تمام بادشاہوں  کا بادشاہ ہے، پھر نہایت خشو ع و خضوع کے ساتھ تلاوت کر ے ، اگر معنی سمجھتا ہے تو تدبرو تفکر کے ساتھ آیاتِ رحمت و مغفرت پر رحمت اور مغفرت کی دعا مانگے اور عذاب اور وعیدوں  کی آیات پر اللہ  کے عذاب سے پناہ مانگے، اور آیاتِ تقدیس و تنزیہ پر سبحان اللہ  کہے  اور بوقتِ تلاوت رونے کی سعی و کوشش کرے، اگر رونا نہ آئے تو  بہ تکلف روئے اور رونے والوں  جیسی صورت بنائے۔

اللہ تعالی ھم سب کو ان اعمال کے کرنے کی توفیق عننایت فرمائے 

آمین یا رب العالمین 

Share:

حضرت عمر فاروق رضی الله تعالی عنه کی عدالت اور ایک سچے قاتل کا سچا واقعہ ۔


دو نوجوان حضرت عمر فاروق رضی الله تعالی عنه کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں “یا  آمیر المؤمنین ( رضی الله تعالی عنه ) یہ ہے وہ شخص”

 حضرت عمر فاروق رضی الله تعالی عنه ان سے پوچھتے ہیں ” کیا کیا ہے اس شخص نے ؟

“یا امیر المؤمنین (رضی الله تعالی عنه )اس شخص نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے”

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه پوچھتے ہیں “کیا کہہ رہے ہو ۔ اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے ؟”

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں ” کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے ؟”

وہ شخص کہتا ہے “ہاں امیر المؤمنین (رضی الله تعالی عنه) مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ”

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه پوچھتے ہیں ” کس طرح قتل ہوا ہے ؟”

وہ شخص کہتا ہے “یا آمیر المؤمنین (رضی الله تعالی عنه ) انکا باپ اپنے اُونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا ۔ میں نے منع کیا لیکن وہ  باز نہ آیا تو میں نے ایک پتھر اسے  دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا ”

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه اس شخص سے کہتے ہیں ” پھر تو اب اپ کو قصاص دینا پڑے گا ۔ موت ہے اسکی سزا ”

یہ تھا عدلِ فاروقی کہ نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت اور نہ ھی  انتظار  کی اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں ۔ نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے، نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں، معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے ؟ ان سب باتوں سے بھلا حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه کو مطلب ہی کیا تھا ۔ کیونکہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه  پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر  حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه کو روک سکتا ہے۔ حتٰی کہ سامنے عمر کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو ۔ قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔

وہ شخص کہتا ہے ”ا ے امیر المؤمنین ( رضی الله تعالی عنه )اُس کے نام پر جس کے حُکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحرا میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجئے تاکہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے ۔ میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا”

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه اس شخص سے کہتے ہیں ”کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا میں جا کر پھر واپس بھی آ جائے گا؟”

مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اسکا نام تک بھی جانتا ہو۔ اسکے قبیلے ۔ خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے ۔ کون ضمانت دے اسکی ؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے ؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔ اور کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه سے اعتراض کرے یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔

محفل میں موجود صحابہ کرام پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے۔ اس صورتحال سے خود حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه بھی متأثر ہیں۔ کیونکہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں ؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا،

خود حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه بھی سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں اس صورتحال پر، سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں ”معاف کر دو اس شخص کو ”

نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں ”نہیں امیر المؤمنین : رضی الله تعالی عنه جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں ۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا ”

 حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں ”اے لوگو ۔ ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے؟”

حضرت ابو ذر غفاری رضی الله تعالی عنه اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں ”میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی”

 حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه کہتے ہیں “ابوذر (رضی الله تعالی عنه )اس نے قتل کیا ہے”

حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں “چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو

حضرت عمرِ فاروق (رضی الله تعالی عنه):  جانتے ہو اسے ؟”

ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ :  نہیں جانتا ”

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه : تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو ؟”

حضرت ابوذر (رضی اللہ تعالی عنہ) : میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا ۔ انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا ”

حضرت عمرِ فاروق (رضی الله تعالی عنه ) : ابوذر (رضی الله تعالی عنه ) دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا ”

حضرت ابوذر (رضی اللہ تعالی عنہ ) : اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں ” امیر المؤمنین (رضی الله تعالی عنه )پھر اللہ مالک ہے”

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه سے تین  دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے ۔ کچھ ضروری تیاریوں کیلئے ۔ بیوی بچوں کو الوداع کہنے ۔ اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے اور پھر اس کے بعد قصاص کی ادائیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے۔

اور پھر تین دن گزر گئے حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے ۔ انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا۔ عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے ۔ نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے ۔حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر  حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ وہ شخص ابھی تک نہیں پہنچا 

 حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه حضرت ابوزر رضی الله تعالی عنه سے سوال کرتے ہیں ” کدھر ہے وہ آدمی ؟”

ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ مختصر جواب دیتے ہیں “مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین (رضی الله تعالی عنه)

ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ محفل میں ہُو کا عالم ہے ۔ھر شخص پریشان ھے کہ  حضرت ابوزر  رضی الله تعالی عنه  کی جان قصاص میں چلی جائے گی کیونکہ حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه کو تو ھر صورت انصاف کرنا ھے ۔  اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے ؟

یہ سچ ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه کے دل میں بستے ہیں، اگر وہ حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه سے ان کے جسم کا ٹکڑا بھی مانگیں تو حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه اس میں دیر نہ کریں کاٹ کر حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی  عنہ کے حوالے کر دیں ۔ لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے ۔ اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے ۔ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا ۔ نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے ۔ حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن ھر صورت جاتی نظر آ رہی ہے۔

مغرب سے چند لمہات  پہلے دور سے کسی شخص کے آنے کے آثار نظر آتے ھیں۔  نزدیک انے ہر پتہ چلتا ھے کہ یہ وہی شخص  ھے ۔ بے ساختہ حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے۔ ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں ” اے شخص ۔ اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا۔ نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا ”

وہ بولا ” امیر المؤمنین (رضی الله تعالی عنه) اللہ کی قسم ۔ بات آپکی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے ۔ دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں ۔ اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کر ۔ جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان ۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں ۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے”

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه  حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی طرف رخ کر کے پوچھا ” ابوذر رضی الله تعالی عنه تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی ؟”

حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا ” اے آمیر المؤمنین رضی الله تعالی عنه )مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے”

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟

نوجوانوں نے جن کا باپ اس شخص کے ھاتھ سے مرا تھا روتے ہوئے کہا ” اے امیر المؤمنین (رضی الله تعالی عنه) ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں ۔ ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے”

حضرت عمرِ فاروق رضی الله تعالی عنه اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گرنے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمايا ۔۔۔

” اے نوجوانو ۔ تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے”

” اے ابو ذر (رضی الله تعالی عنه)  اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے”

” اور اے شخص ۔ اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے”

” اور اے امیر المؤمنین  (رضی الله تعالی عنه )اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے”

Share:

کبھی ہمارے حکمران ایسے بھی ہوا کرتے تھے


حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ اپنے زمانے کے ممتاز صوفی بزرگ اور عالم باعمل تھے جب اُن کی وفات ہوئی تو پورے شہر میں کہرام مچ گیا۔ جنازہ تیار ہوا تو ایک بڑے میدان میں جنازہ پڑھنے کے لئے لایا گیا. مخلوق بڑی تعداد میں جنازہ پڑھنے کے لیے نکل پڑی تھی۔ انسانوں کا ایک سمندر تھا جو حدِ نگاہ تک نظر آتا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ ایک بِپھرے ہوئے دریا کی مانند یہ مجمع ہے۔ جب جنازہ پڑھانے کا وقت آیا ایک آدمی آگے بڑھا. اور مجمعے سے مخاطب ھو کر کہنے لگا کہ میں حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ کا وصی ہوں. مجھے حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ نے اپنے جنازہ کے متعلق وصیت کی تھی ۔ میں اس مجمع تک اُن کی وہ وصیت پہنچانا چاہتا ہوں، مجمع خاموش ہوگیا۔ وصیت کیا تھی؟ حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ  نے یہ اپنی   زندگی میں یہ وصیت فرمائی تھی کہ میرے مرنے کے بعد میرا جنازہ وہ شخص پڑھائے جس کے اندر چار خوبیاں موجود ہوں۔

(1)  پہلی خوبی یہ ہے کہ زندگی میں اس کی کھبی بھی تکبیر اولیٰ قضا نہ ہوئی ہو 

(2) دوسری خوبی یہ کہ اس کی تہجد کی نماز کبھی بھی قضا نہ ہوئی ہو

(3) تیسری خوبی  یہ ہے کہ اس نے غیر محرم پر کبھی بھی بری نظر نہ ڈالی ہو، 

(4) چوتھی خوبی  یہ ہے کہ اتنا عبادت گزار ہو حتیٰ کہ اس نے عصر کی سنتیں بھی کبھی نہ چھوڑی ہوں. 

جس شخص میں یہ چار خوبیاں ہوں صرف وہ میرا جنازہ پڑھائے،

 جب یہ بات مجمع کے سامنے کی گئی تو مجمع کو تو گویا سانپ سونگھ گیا۔ اتنے بڑے مجمعے میں سناٹا چھا گیا ۔ لوگوں کے سر جھک گئے۔ کون ہے جو قدم آگے بڑھائے، لوگ پریشان تھے اور چہ میگوئیاں کر رھے تھے کہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ کا جنازہ آخر کون پڑھائے گا ؟ کافی وقت گزر گیا لیکن کوئی شخص بھی جنازہ پڑھانے کے لئے اگے نہ بڑھا ۔ آخرکار ایک شخص روتا ہوا آگے بڑھا۔ وہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ کے جنازے کے قریب آیا. جنازے سے چادر ہٹائی اور کہا حضرت :  آپ خود تو چلے گئے لیکن مجھے رُسوا کردیا اور میرا راز کھول دیا 

اس کے بعد بھرے مجمع کے سامنے اَللّٰه تعالی کو حاضر و ناظر جان کر قسم اٹھائی کہ میرے اندر الحمدُ للہ یہ چاروں خوبیاں موجود ہیں لوگوں نے دیکھا یہ وقت کا بادشاہ " سلطان شمس الدین التمش  رحمة اللہ علیہ "  تھا ۔ 

کبھی ہمارے مسلمان حکمران ایسے بھی ہوا کرتے تھے اور اگر آج کے مسلمان حکمرانوں کے کردار کا بھی ذرا جائزہ لیں تو سر شرم سے جھک جاتے ھیں اور ان کی دین سے رغبت کا حال یہ ھے کہ ھمارے یہ لیڈر سورہ اخلاص تک بھی نہیں پڑھ سکتے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر لفظ “خاتم النبیین “ تک ادا نہیں کر سکتے یہ  نہایت افسوس کا مقام  ھے ۔ اس سے بھی زیادہ آفسوس اُن لوگوں پر ھے جن کی اکثریت دیندار اُمیدواروں کو چھوڑ کر ان چوروں اور لٹیروں کو اپنے ووٹ سے نہ صرف منتخب کرتی ھے بلکہ انہیں ھر طرح سے سپورٹ بھی فراھم کرتی ھے ۔ 

Share:

مانسہرہ کا اجتماع اور مولانا طارق جمیل حفظہ اللہ کا بیان

 اپنی ایک اور دنیا

گذشتہ دنوں مانسہرہ اجتماع میں مولانا طارق جمیل صاحب  حفظہ اللہ کے حوالے سے جو ناخوشگوار واقعہ پیش آیا  اس سے دعوت و تبلیغ سے محبت کرنے والے ھر شخص کو بہت تکلیف پہنچی ھے ۔ حضرت مولانا طارق جمیل صاحب  حفظہ اللہ ایک بلند مرتبہ عالم دین ھیں اور ھمارے سروں کے تاج ھیں ۔ واقعہ کچھ یوں ھوا کہ حضرت مولانا طارق جمیل صاحب دامت برکاتم اجتماع میں بیان کرنا چاھتے تھے لیکن ذمہ دار حضرات نے اس کی  آجازت نہیں دی ۔ جس کے بعد ھونا تو یہ چاھیے تھا کہ مولانا صاحب  خاموشی سے واپس آجاتے اور رائیونڈ جا کر اپنی شکایات اکابرین کے سامنے رکھتے لیکن اس کے برعکس مولانا طارق جمیل حفظہ اللہ نے سوشل میڈیا پر آکر دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اکابرین تبلیغ کے بارے ایسے الفاظ ادا کیےجو یقیناً اُن کی شان کی سراسر خلاف تھے اور مولانا صاحب کو اس طرح کے الفاظ ھرگز زیب نہیں دیتے تھے پھر سوشل میڈیا کے لونڈے  لپاڑوں نے بھی اسے مرچ مسالا لگا کر خوب خوب آچھالا

سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ آخر مولانا موصوف اجتماع میں بیان کیوں کرنا چاھتے تھے؟  اور ذمہ دار حضرات نے ایسا کیوں نہ کرنے دیا ؟  ۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ھے کہ ھمیشہ سے طریقہ کار یہ رھا ھے کہ جماعت کی طرف سے طے شدہ آصولوں کے مطابق اجتماع میں بیان کے لئے شوری حضرات کا مشورہ ھوتا ھے اس مشورہ میں بیان کرنے والوں کے نام طے کر لیے جاتے ھیں اور پھر طے ھونے والے بزرگ ھی بیان کرتے ھیں لیکن  باھر کے کسی بھی عالم یا واعظ کو بیان نہیں دیا جاتا۔ یہ جماعت کا طے شدہ آصول ھے اور مولانا صآحب  اس سے بخوبی واقف ھیں ۔ مولانا صآحب چونکہ جماعت کے آصول و ضوابط  کی خلاف ورزی (مثلاً میڈیا کا استعمال ، سیاست میں دلچسپی وغیرہ وغیرہ ) کی بنا پر اب جماعت کی شوری کے رکن نہیں ھیں اس لئے ان کی طرف سے اجتماع میں بیان کرنے کے لئے اصرار کرنا ھی سراسر غلط تھا  ۔ دعوت و تبلیغ کا کام خالصتاً اللہ تعالی کی رضا کے لئے کیا جاتا ھے اس لئے اس کام میں شخصیتیں اھم نہیں ھوتیں بلکہ آصولوں پر عمل پیرا ھو کر دعوت و تبلیغ کے کام میں محنت کرنا اھم ھوتا ھے ۔ کچھ لوگوں کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ مولانا صاحب کی وجہ سے تبلیغ کا کام سات براعظموں میں متعارف ھوا ھے  جبکہ حقیقت یہ ھے کہ لاکھوں اللہ کے بندے اس محنت کو کر رھے ھیں اور دعوت و تبلیغ کا کام مولانا  کی وجہ سے نہیں بلکہ مولانا صاحب تبلیغ کے کام کی برکت سے دنیا بھر میں متعارف  ھوئےھیں  ورنہ اُن کے بھائی بھی تو ھیں انہیں کوئی جانتا بھی نہیں 

مولانا طارق جمیل صاحب حفظہ اللہ ایک بلند پایہ عالمِ دین ، صاحبِ طرز واعظ  ، عالمی مبلغِ اسلام اور باعمل  داعیٔ دین ہیں۔ یقیناً ان کےسیاسی اور فکری ناقدین بھی ہوں گے،مگر ان کو پسند کرنے والوں کا بھی ایک بہت بڑا حلقہ ہے۔ تبلیغی بزرگوں کی ہدایات اور تحفظات کو بار بار وہ یہ کہہ کر نظر انداز کرتے رھے کہ “میری ایک اور دنیا بھی ہے"  ظاھر ھے یہ دنیا میڈیا کی دنیا ہے، شوبز اور سپورٹس وغیرہ کی دنیا ہے۔ مقتدر لوگوں کی دنیا ھے  ان کو متاثر کرنے پر قدرت رکھنےکا مولانا کوبڑا زعم اور اس پر ناز بھی ہے ۔ یقیناً “ البیان لسحر" کی خوبی بدرجۂ اتم اُن میں موجود بھی ھے لہذا اس طرح کے  لوگوں کے لئے  ان کابیان جادو اثر ہوسکتا ھے ۔

 یہاں سوال تو یہ ھے  کہ اگر حضرت والا کو جماعت کے آصول و ضوابط کی خلاف ورزی کی بنا پر اجتماع  میں بیان کاموقع نہیں دیا جارہا تو اس میں   حرج کی کیا بات  ہے؟ ۔ مولانا صاحب اپنی اس دوسری دنیا کوٹائم دیں۔دعوت و تبلیغ کے کام کو الحمدُ للہ مخلص بندوں کی کوئی کمی نہیں یہاں تو بہت اللہ کے بندے موجود ہیں جو ان کی جگہ کام کرنےکےلئے تیار ھیں بلکہ کر بھی رھے ھیں ۔ مستقبل میں بھی انشاء اللہ کبھی بھی کوئی افرادی کمی محسوس نہیں ہوگی۔ جبکہ اس دوسری دنیا میں تو چند گنے چنے افراد ھی موجود ھیں وہ بھی شاید مولانا صاحب کے مقابلےکی ھمت نہ رکھتے ھوں  ، مولانا صاحب عالمی  مبلغ اسلام ھیں لہذا وہیں اپنے مزاج کے مطابق بلا روک ٹوک کھل کر دعوتِ دین کا کام کریں، لوگوں میں محبت بانٹ کر ان کی اصلاح کریں۔ اور کافی حدتک وہ کر بھی رھے ھیں ۔مولانا صاحب کومیڈیا کی ضرورت واہمیت کابہت احساس وادراک ہے

اور مولانا طارق جمیل صاحب کے فالورز بھی 6 ملین (60 لاکھ) تک ہیں تو تبلیغی جماعت سمیت کسی بھی ادارے کی مولانا صاحب کو شاید اب ضرورت نہیں ھے ۔ مولانا صاحب سے چار  گنا زیادہ یعنی 24 ملین فالورز رکھنے والے ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب بھی تو اپنا کام شخصی بنیادوں پر ھی کررہے ہیں ۔اس طرح اور کئی مشہور مبلغین کااپنا اپنا حلقہ ہے اور اپنا  اپنا مشن ۔ مولانا صاحب کو بڑے خاندان اور دولت کی فراوانی پر بھی فخر ہے جس کا اظہار وہ وقتاً فوقتاً کرتے بھی رھتے ھیں ۔  یقیناً مولانا صاحب کو الحمدُ للہ وسائل کی کوئی کمی نہیں، ان کے پاس افرادی قوت  بھی ھے پھر وہ دعوتِ دین   میں اپنی  متاثر کن شخصیت کی بنا پر ذاکر نائیک کی طرح اپنی صلاحیتوں کا لوھا منوا سکتے ھیں ۔ 

اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں کہ مولانا صاحب  حفظہ اللہ کا ایک بڑا مقام ھے دعوت و تبلیغ کے اعتبار سے بھی اور علمی قابلیت کے اعتبار سے بھی،  لیکن یہ بھی ایک کھلی ھوئی حقیقت ھے کہ اس وقت تبلیغی جماعت کا کوئی نعم البدل دنیا میں موجود نہیں ھے  لہذاحقیقت یہی ھے کہ دعوت و تبلیغ  کے کام  کو بندوں کی نہیں بلکہ بندوں کو خود دعوت و تبلیغ کے کام کی ضرورت ھے لہذا جو علماء کرام دعوت و تبلیغ کا یہ خصوصی پلیٹ فارم استعمال کرنا چاھیں گے یا کر رھے ھیں تو انہیں آصول و ضوابط کی بہرحال لازمی پابندی کرنا ھو گی بصورت دیگر عام لوگوں کی طرح تبلیغ کا کام کرنے پر تو مولانا سمیت کسی کے لئے بھی کوئی روک ٹوک نہیں ، بےشک ساری زندگی کرتے رھیں اور اس صورت میں تبلیغ سے باھر ان کی  زاتی زندگی میں کوئی پابندیاں بھی نہیں ھوں گی ۔ 

مولانا صاحب اگر دوبارہ اپنے ماضی کی طرف لوٹنا چاھتے ھیں   تو اُن کے لئے واپسی کا راستہ آج بھی کھلا ھے کہ مولانا صاحب اپنی کوتاھیوں غلطیوں اور آصول و ضوابط  کی خلاف ورزیوں پر کھلے دل  سے اکابرینِ تبلیغ  سے معذرت کر لیں اور ائندہ شکایت کا موقعہ نہ دینے کی اُنہیں یقین دھانی کروائیں  اور میڈیا اور سیاست وغیرہ کے آلائشوں سے اپنے اپ کو پاک کرکے دوبارہ شوری میں واپس آجائیں اور  ائندہ شوری کے آصول و ضوابط کی پابندی کریں اور باقی ماندہ  زندگی اسی کام میں وھیں گزار دیں ۔ ان شاء اللہ اکابرینِ تبلیغ مولانا کا خیر مقدم کریں گے یہی مولانا صاحب کے لئے سب سے بہتر راستہ ھے اور اگر بالفرض  وہ ایسا نہیں کرنا چاھتے تو پھر انہیں چاھیے کہ وہ تبلیغی مراکز کے کاموں میں  مداخلت نہ کریں اور مراکز یا اجتماعات میں بیان کرنے  کی اپنی خواھش کو خوش اسلوبی سے رضاکارانہ طور پر ترک کر دیں اور کوئی حرفِ شکایت زبان پر نہ لائیں اور تبلیغ کے اکابرین پر تنقید نہ کریں نہ ھی تبلیغ  کے کام میں کوئی رکاوٹ ڈالنے کی کوئی کوشش کریں بلکہ وہ اس میدان میں اپنی توانائیاں صرف کریں جس سے ان کو زیادہ دلچسپی بھی ہے اور اس کی وہ اچھی خاصی سمجھ بوجھ بھی رکھتے ھیں ۔ 

 عام لوگوں کی علمائے کرام پر تنقید کی اوقات  نہیں  لیکن  عوام الناس  جو مولانا طارق جمیل صاحب کی حمایت کر رہی ہیں وہ تبلیغی بزرگوں پر تنقید کر رہے ہیں اور جو تبلیغی بزرگوں کی حمایت کر رہے ہیں وہ مولانا طارق جمیل صاحب پر تنقید کر رہے ہیں۔ یہ بھی بالکل غلط رویہ ھے ۔  مولانا طارق جمیل صاحب ایک با عمل اور بڑے عالم دین ہیں ہمارے دل میں ان کے لیے عزت ہے اور ہمیشہ رہے گی ان کے ذریعے ہمارے جیسے بہت سے گناہگاروں کو ہدایت ملی ہے  لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تبلیغی جماعت والے  کسی سیاسی جماعت یا کسی سیاسی رہنما کی نہ تو سپورٹ کرتے ہیں اور نہ ہی مخالفت۔ وہ جب بھی بات کرتے ہیں نظام کی بات کرتے ہیں اور کسی کو براہ راست سپورٹ یا براہ راست نشانہ نہیں بناتے لیکن چونکہ  مولانا صاحب نے کھل کر سیاسی شخصیات اور ان کی پارٹی کو سپورٹ کیا ہے اور جس پر مذہبی طبقے میں اسے شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا اور یہی وجہ ہے کہ  یہ شوری  کا فیصلہ تھا اور تبلیغی جماعت کو کسی  سیاسی پارٹی کا حمایتی  بننے کے الزام سے بچانے کے لیے مولانا کو شوری سے  دور رکھا گیا اور یہ سلسلہ گزشتہ کئی سالوں سے چل رہا ہے ۔  یہ بھی ماننا پڑے گا کہ مولانا صاحب نے جو گلے شکوے کیے ہیں ان کا  طریقہ کار بھی درست نہیں تھا  جب آپ  اللہ کی رضا کے لیے تبلیغ کر رہے ہیں تو اللہ کی رضا سمجھ کر جو سہولت مل رھی ھے اسی پر اکتفا کریں اور دین کی خدمت جاری رکھیں اللہ تعالیٰ مولانا طارق جمیل صاحب کو استقامت آپس میں محبت اور صحت و عافیت والی زندگی عطا فرمائے 

آمین ثم آمین۔


حضرت مولانا طارق جمیل صاحب حفظہ اللہ سے دردمندانہ آپیل  ھے کہ وہ  ان  جھمیلوں اور باہمی تنازعات سے اپنے آپ کو الگ کر لیں اور اور اپنے آصل مشن کے لئے تبلیغی جماعت کی طرف واپس لوٹ جائیں  اور حسبِ سابق جماعت کی ترتیب پر دعوت و تبلیغ کے کام میں لگ جائیں ۔ 

وفقک اللہ لمایحب ویرضی۔

Share:

فحاشی اور بے حیائی پھیلانے والوں کا بھیانک آنجام

 فحاشی، عریانی، جنسی اشتعال انگیزی جیسے جرائم کا ارتکاب کرنا نہ صرف کھلی ھوئی برائی ہے بلکہ بہت ساری برائیوں اور بیماریوں کا سبب بھی ھے جس سے اللہ تعالیٰ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ فحاشی کو فروغ دینے والوں کو اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب کی وعید سنائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت اُمت مسلمہ اور بالخصوص مسلمانان پاکستان جس طرح کے مسائل سے دوچار ہیں وہ پوری دنیا جانتی ہے۔ وطن عزیز میں قتل و غارت گری، لوٹ مار، کرپشن، مہنگائی، سیلاب، طوفان، بے پردگی، بے حیائی جیسی  بہت سی  پریشانیاں موجود ھیں ۔  حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ھے کہ اگر کوئی قوم بے حیائی میں مبتلا ہو کر کھلم کھلا اس کا ارتکاب کرنے لگے تو اس قوم میں طاعون اور وہ بیماریاں پھیل جاتی ہیں جن کا نام ماضی میں نہ سُنا گیا ہو‘‘ (سنن ابن ماجہ)۔

اللہ تعالی نے قرآن پاک میں  فحاشی و عریانی پھیلانے والے لوگوں کے لئے دردناک عذاب کی جو وعید سنائی ھے یہ دردناک عذاب ان لوگوں کو  دنیا میں بھی مختلف طریقوں سے ملتا رھے  گا اور آخرت  کا عذاب تو بہرکیف بہت ھی سخت ھو گا لہذا ارشادِ باری تعالی ھے 

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(19)

جولوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزومندرہتے ہیں ان کے لیے دنیا اورآخرت میں دردناک عذاب ہیں ۔اللہ سب کچھ جانتا ہے اورتم کچھ بھی نہیں جانتے(سورة النور 19)

مسلم معاشرے میں ہمیشہ نیک عادات کا چلن ہوناچاہیے تاکہ معاشرہ پاکیزہ رجحانات کا حامل بن سکے ،جھوٹی خبر کی اشاعت، بے حیائی کی طرف دعوت اور معاشرے میں بُرے رجحانات کی تبلیغ اس قدر مذموم حرکات ھیں  کہ اللہ رب العالمین نے ایسے لوگوں کو دنیا  اورآخرت میں دردناک عذاب کی دھمکی دی ہے۔ ظاہر ہے کہ معاشرے میں جب برے رجحانات عام ہوں گے تو معاشرہ انارکی کا شکارہوگا ، برائیاں سر چڑھ کر بولیں گی ، بے حیائی اور بدکاری کا دور دورہ ہوگا اور اس طرح پورا معاشرہ ھی بُری طرح ہلاکت کا شکار ہوجائے گا ۔

آیت مبارکہ کے ظاہری الفاظ فحاشی پھیلانے کی تمام صورتوں پر محیط ہیں ۔ جو لوگ پاک دامن مردوں اور عورتوں کی عفت داغدارکرنے کے لیے ان پر تہمت لگاتے ہیں ، جولوگ جنسی انارکی کو ہوا دینے کے لیے بدکاریوں اور گانے بجانے کے اڈے قائم کرتے ہیں ، جولوگ شہوات کو بھڑکانے والے قصے ،کہانیوں ، گانوں اور کھیل تماشوں پر مشتمل پروگرام تیار کرتے ،اس قبیل کے رسالے اور لٹریچر شائع کرتے ہیں

جولوگ کلبوں اورہوٹلوں میں رقص وسرود کی محفلیں سجاتے ھیں اور مخلوط تفریحات کا انتظام کرتے ہیں جولوگ اخبارات ، ریڈیو، ٹی وی اورفلمی ڈراموں وغیرہ کے ذریعہ بے حیائی پھیلارہے ہیں اورگھر گھر اسے پہنچارہے ہیں جو لوگ اپنے گھروں میں آلاتِ موسیقی اور  ٹی وی وغیرہ لاکر رکھے ہوئے ہیں اور ان کے اہل خانہ اس سے بے حیائی کی تعلیم حاصل کررہے ہیں جو لوگ اپنی دکانوں میں فحش لٹریچر، فحاشی کا سبب بننے والے آلات  مثلاً  ٹی وی یا اس قبیل کی دوسری چیزیں  ، مخرب اخلاق رسالے ،سی ڈیز ،ویڈیوز ، اورنشہ آوراشیاء  وغیرہ فروخت  کرتے ہیں ۔

قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق یہ سارے لوگ بہت بڑے مجرم ہیں اوریہ سب اس جرم میں برابر کے شریک ہیں جن کو آخرت میں ہی نہیں دنیا میں بھی سزا ملتی ھے کہ ان کی بے حیائی خود ان تک محدودنہیں بلکہ یہ مسلم معاشرے میں بھی بدکاری اوربداخلاقی کوفروغ دینے کا موجب بن رہی ہے۔

پھر اس طرح کی حرکات کے اثرات معاشرے میں کہاں کہاں پہنچتے ہیں ، انفرادی اوراجتماعی زندگی میں کتنے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں ،کتنے گھروں میں بداخلاقی کا چلن ہوتا ہے ،کتنے گھر بربادہوتے ہیں اس کا صحیح اندازہ کرنا تو مشکل ھے کیونکہ اس کا علم صرف اللہ تعالٰی ہی کو ہے ۔ اس لیے ھماری ذمہ داری ھے کہ ھم اللہ تعالٰی کے احکام پر یقین کریں اور جن برائیوں کی وہ نشاندہی کر رھے ھیں ان سے خود بھی  بچیں اور مسلم معاشرے کو بچانے کی بھی  پوری کوشش کریں۔  یہ ظاہر میں تو معمولی برائی لگتی ہے لیکن اس کے اثرات دنیا و آخرت میں  انتہائی خطرناک ہیں ۔

اللہ تبارک  تعالٰی ہماری کمی کوتاہیوں اور لغرزشوں کو معاف فرمائے۔   ( آمین) ۔ کتاب اللہ (قران مجید ) کی مذکورہ بالا آیت کریمہ اپنے اندر جس قدر وسیع مضمون رکھتی ھے اگر اس آیت پہ تدبر کیا جائے تو آج بدقسمتی سے ہمارے معاشرے اور طبقے کا شاید ہی کوئی ایسا شخص ھو جو کسی نہ کسی درجے میں بالواسطہ یا بلاواسطہ اس آیت مبارکہ کی زد میں نہ آتا ھو۔ لہذا اولاً تو ہم سب کو اپنا اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اور ایسی تمام باتوں اور حرکات و سکنات سے خود کو بچانا چاہیے کہ جو فواحش کے پھیلانے کے زمرے میں آتی ھیں اور پھر اسکی روک تھام کے لئے اپنی اپنی جگہ ہر ہر فرد  کو اپنا اپنا مثبت کردار اور ذمہ داری  بھی بھرپور اور احسن انداز سے ادا کرتے رہنا چاہیے

Share: