پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو

آج بد قسمتی سے ہمارے معاشرہ میں سب سے سستی اور بے قیمت چیز اگر ہے تو وہ وقت ہے، اس کی قدر وقیمت کا ہمیں قطعاً احساس نہیں، یہی وجہ ہے کہ وقت کے لمحات کی قدر نہ کرنے سے منٹوں کا، منٹوں کی قدر نہ کر نے سے گھنٹوں کا ،گھنٹوں کی قدر نہ کرنے سے ہفتوں کا ، ہفتوں کی قدر نہ کر نے سے مہینوں کا ،اور مہینوں کی قدر نہ کر نے سے سالوں اور عمروں کا ضائع کر نا ہمارے لیے ایک عام سی بات بن گیا ھے ۔ 

                ہم لو گ بیٹھکوں، چوپالوں ، ہو ٹلوں ،   اجتمائی اور نجی مجالس میں وقت گزاری کر تے ہیں اور ہمارا کتنا ہی قیمتی وقت نکتہ چینی، غیبت، بہتان اور بے تحاشا سونے میں ضائع ہو جاتا ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا  چنانچہ سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفی  صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِرَجُلٍ وَهُوَ يَعِظُهُ: اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: شَبَابَكَ قَبْلَ هِرَمِكَ ، وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ ، وَغِنَاءَكَ قَبْلَ فَقْرِكَ ، وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ ، وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ ” (الحاكم و صحيح الجامع الصغير )

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، مالداری کو محتاجی سے پہلے، فراغت کو مشغولیت سے پہلے، اور زندگی کو موت سے پہلے

درج بالا حدیثِ مبارکہ رسول کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی امت کے لئے ایک جامع وصیت ہے جس میں رسول کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اُمت کو  اللہ تعالی کی وہ نعمتیں یاد دلائی ہیں جن سے ہم محظوظ ہورہے ہیں، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ہمیں ان نعمتوں کی قدرکرنے اورغنیمت سمجھنے کی تاکید کی ہے نیزان نعمتوں کے ختم ہوجانے سے پہلےیاکوئی عارضہ لاحق ہونے سے پہلے نیک اعمال کی بجاآوری میں مبادرت وپہل کرنے کی ترغیب دی ہے ، چنانچہ سب سے پہلے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اس آدمی کو اور اس کے ذریعہ اپنی پوری امت کو یہ نصیحت اور وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ ا پنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے غنیمت جانو کیوں کہ جوانی میں انسان کے اندرطاقت وقوت زیادہ ہوتی ہے ،جوش وجذبہ زیادہ ہوتا ہے،عزم جواں اور ہمت بلند ہوتی ہے، حرکت وسرگرمی زیادہ پائی جاتی ہے، اس کے برعکس بڑھاپے میں انسان ضعف واضمحلال کا شکار ہوتا ہے ، اپنے اندرعاجزی وبے بسی محسوس کرتا ہے، دست وپا جواب دینے لگتے ہیں، اس لئے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا اپنی جوانی کو اپنے بوڑھاپے سے پہلے غنیمت جانو ، اللہ نے جوانی دی ہے اپنی جوانی کو اللہ کی عبادت اور اسکی معرفت حاصل کرنے میں صرف کیجئے، توحید اور شرک کے فرق کو جانئے اور سمجھئے،  علم حاصل کیجئے، شرعی احکام کو سمجھئے پھر پوری بصیرت کے ساتھ اللہ تعالی کی عبادت وبندگی کیجئے، اللہ کے فرائض و واجبات کا اہتمام کیجئے ، محرمات ومنکرات سے بچئیے ، لوگوں کو بھلائی کاحکم دیجئے اور برائیوں سے روکئے ، خیروبھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجئے کیوں کہ آج جوانی ہے  کل  بڑھاپا  اور شیخوخت طاری ہوجائے گی۔

دوسری وصیت ونصیحت رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے یہ فرمائی کہ اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلےغنیمت جانو، آج صحت وتندرستی ہے ممکن ہے کل آدمی بیمار ہوجائے اور ممکن ہے یہ بیماری جو اسے لاحق ہوئی ہے وقتی اور عارضی ہو یا یہ بیماری طول پکڑجائے یا آدمی دائم المریض ہوجائے، شفایابی ممکن نہ ہو، یا یہ کہ بیماری انسان کو قبر میں پہنچادے ،اس لئے اپنی صحت وعافیت کو غنیمت سمجھئے اور نیک اعمال کی بجاآوری میں مسارعت وپہل کیجئے ، کیوں کہ صحت وتندرستی انسان کے ساتھ ہمیشہ نہیں رہتی، ہر صحت کے بعد بیماری مقدر ہے ، فرمان الہی ہے 

اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ضعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ضعْفًا وَّشَيْبَةً ۭ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ۚ وَهُوَ الْعَلِيْمُ الْقَدِيْرُo

وہ اللہ ہے جس نے تم سب کو کمزور پیدا کیا، پھر کمزوری کے بعد قوت دی، پھر قوت کے بعد کمزور اور بوڑھا بنا دیا، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ تو بڑا جاننے والا، بڑی قدرت والا ہے‘‘ ( سورہ روم )

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی وہ تدریجی حالتیں بیان فرمائی ہیں جن میں مجبور محض ہوتا ہے اور اپنے اختیار سے ان حالتوں میں خود کوئی تبدیلی نہیں لاسکتا، پیدا ہوتا ہے تو اس قدر کمزور کہ کسی بھی جاندار کا بچہ اتنا کمزور پیدا نہیں ہوگا۔ ہر جاندار کا بچہ پیدا ہوتے ہیں چلنے پھرنے لگتا ہے مگر انسان کا بچہ چلنا تو درکنار بیٹھ بھی نہیں سکتا اور چلنے کی نوبت تو ڈیڑھ دو سال بعد آتی ہے، پھر اس کے بعد اس پر بلوغت اور جوانی کا دور آتا ہے تو وہ جسمانی طور پر طاقتور اور مضبوط ہوتا ہے۔ اس کے فوائے عقلیہ، اس کا فہم و شعور سب جوبن پر ہوتے ہیں، اس کے بعد اس پر انحطاط وتنزلی کا دور آتا ہے۔ قوتیں جواب دینے لگتی ہیں۔ اعضا مضحمل ہونے لگتے ہیں۔ کئی طرح کے عوارض اور بیماریاں اسے آگھیرتے ہیں حتیٰ کہ اس کی عقل بھی کمزور  ہونا شروع ہوجاتی ہے اور یہ سب ایسے مدارج زندگی ہیں۔ جن میں انسان اپنی طرف سے کوئی تبدیلی نہیں لاسکتا ہے وہ لاکھ چاہے کہ بڑھاپے کے بعد پھر اس پر جوانی کا دور آئے وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ جس تدریج کے ساتھ اللہ اسے ان مراحل سے گزارتا ہے۔ اسے بہرحال گزرنا پڑتا ہے۔  اس لئے اپنی صحت وتندرستی کو غنمت سمجھئے،کیوں کہ جب صحت وتندرستی رخصت ہوجائے گی تو پھر آپ کو ندامت وشرمندگی ہوگی کہ میں نے اپنی صحت وعافیت کو اللہ تعالی کی اطاعت وفرمانبرداری میں نہیں لگایا، جیسے آج بہت سارے لوگ اپنی صحت وعافیت کو حرام اور معصیت کے کاموں میں ضائع وبرباد کرتے ہیں اور جب صحت وعافیت ان سے رخصت ہوجاتی ہے تو نادم اور شرمندہ ہوتے ہیں لیکن اس وقت ندامت کرنے سے ان کوکوئی فائدہ نہیں ہوتا، اس لئےآدمی کو اپنی صحت وعافیت سے دھوکے میں نہیں پڑناچاہئے بلکہ صحت وعافیت کی حالت میں نیک اعمال کا ذخیرہ کرلینا چاہئے  کیوں کہ معلوم نہیں کب آدمی پر بیماری کا حملہ ہو اور وہ بیماری اس کو قبر میں پہنچادے اور وہ بغیر توشہ کے سفر آخرت کرجائے۔

تیسری نصیحت رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے یہ فرمائی کہ اپنی مالداری کو اپنی محتاجی سے پہلے غنیمت جانو کیوں کہ آج مالدراری ہے کل محتاجی آجائے گی اس لئے اگر اللہ تعالی نے آپ کو صاحب مال بنایا ہے، آپ کے پاس مال ودولت کی کثرت وفراونی ہے ،تو اسے خیرو بھلائی کے کاموں میں صرف کرتے رہیئے ، رشتہ داروں ، محتاجوں ، مسکینوں ، یتیموں ، بیواؤں  وغیرہ کے حقوق کو ادا کیجئے کیوں کہ جو مال آپ نے اللہ کی راہ میں خرچ کردیا وہی آپ کا مال ہے وہ آپ کے لئے محفوظ  ہوگیا جس کااجروثواب آپ کو اللہ کے یہاں ضرور ملے گا، کیوں کہ مال ودولت ڈھلتی چھاؤ ہے آج آپ کے پاس ہے کل کسی اور کے پاس ہے، اور نہ یہ مال ہمیشہ آپ کے ساتھ  رہےگا اور نہ آپ مال کے ساتھ ہمیشہ رہیں گے، کتنے لوگ ہیں اگر اس کے پاس مال ودولت کی فراوانی ہوتوبہت زیادہ سرکشی اور اللہ کی نافرمانی کرتےہیں ،حرام کاموں میں اپنا مال لٹاتے ہیں، عیاشیوں میں اپنا مال صرف کرتے ہیں اور مال ودولت کے نشہ میں غریبوں مسکینوں پر ظلم ڈھاتے ہیں اور اللہ کی زمین پرفساد مچاتے ہیں جیساکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے


كَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰٓى (6) 

اَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰى (7)

ہرگز نہیں، بے شک آدمی سرکش بن جاتاہے جب دیکھتا ہے کہ وہ دولت مند ہوگیا‘‘ ( سورة علق) 

ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالی نے فرمایا انسان کے پاس جہاں دو پیسے ہوئے فراوانی ہوئی کہ اس کے دل میں کبر و غرور ، عجب و خود پسندی آجاتی ہے وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ اب وہ کسی کا محتاج نہیں اور رب العالمین کو یکسر بھول جاتا ہے، طغیانی و سرکشی پر آمادہ ہوجاتا ہے جب کہ اسے اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیئے اور خیال رکھنا چاہیئے کہ اسے ایک دن اللہ کی طرف لوٹنا ہے وہاں جہاں اور حساب ہوں گے ۔ مال کی بابت بھی سوال ہو گا کہ مال کیسے اور کہاں سے کمایا تھا اور  خرچ کہاں کیا ؟

اس لئے اپنی مالداری کو اپنی محتاجی سے پہلےغنیمت جانتے ہوئے حقوق العباد کا خیال رکھنا اور اپنے اموال کو خیروبھلائی کے کاموں میں لگاتے رہنا چاھیے، کیا معلوم کل آئندہ آپ کا سارا مال ختم ہوجائے  اور آپ دنیا اور آخرت دونوں جہان میں فقیر ومحتاج ہوجائیں  ورنہ موت نے تو آپ کے اس مال کو آپ سے جدا کر ھی دینا ھے

چوتھی نصیحت رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے یہ فرمائی اپنی فراغت کو اپنی مشغولیت سے پہلے غنیمت جانو، آج فارغ ہیں، کل آپ مشغول ہوجائیں گے، آج تن تنہا ہے، کوئی کام نہیں، کوئی مسئولیت وذمہ داری نہیں، کل ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی، اولاد کے لئے روزی حاصل کرنے میں مشغول  ہوجائیں گے پھر علم حاصل کرنے اور دوسرے نیک اعمال کرنے کا موقع نہیں مل سکے گا ، اس لئے اپنی فرصت کے اوقات و لمحات کو قرآن مجید پڑھنے ، اسے سیکھنے  اور اس پرعمل کرنے اور دوسرے نیک کاموں کو بجالانے میں استعمال کیجئے کیوں کہ جو شخص اپنی فرصت کے اوقات کو نیک کاموں میں لگانے کے بجائے لہو ولعب اور برے کاموں میں ضائع وبرباد کرتا ہے وہ گھاٹا اٹھانے والا اور بدنصیب ہے، فرمان نبوی  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ہے  

نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ”

دونعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے ، صحت اور فراغت ‘‘  ( صحیح بخاری) 

ان دونعمتوں کے حوالہ سے ہم میں سے اکثر لوگ خسارہ اور نقصان میں ہیں، ہم میں سے اکثر لوگ ان دونوں نعمتوں کوبلا فائدہ کاموں میں ضائع کر رہے ہیں، نہ توخود ان نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور نہ ہی اللہ کے کسی بندہ کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ آج ہم ان نعمتوں کی قدر نہیں کرتے، ان نعمتوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے، لیکن جب موت کی گھڑی آپہنچے گی موت ہمارے سر پر کھڑی ہوگی یا قیامت جب قائم ہوجائےگی توپھر ہمیں ان نعمتوں کی قدر سمجھ آئے گی اور اس وقت انسان آرزو کرے گا کہ اے اللہ مجھے تھوڑی سی مہلت دیدے تاکہ میں اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جاکر نیک کام کرکےآجاؤں، یہ بات اللہ تعالی نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر دوہرائی ہے کہ کافرومشرک منافق اور اللہ کے نافرمانبردار لوگ تمنا کریں گے اور اللہ سے دنیا میں جانے کی مہلت طلب کریں گے لیکن کیا انہیں مہلت دیدی جائے گی، ہر گز نہیں چنانچہ ارشاد ربانی ھے: 

حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ * لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ﴾ [المؤمنون)

’’یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے پروردگار! مجھے واپس لوٹا دے کہ اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جاکر نیک اعمال کرلوں‘‘  

اور سورہ منافقون میں اللہ عزوجل نے فرمایا  

 مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُنْ مِنَ الصَّالِحِينَ  (المنافقون)

 تم میں سے کسی کو موت آجائے تو کہنے لگے اے میرے پروردگار مجھے تو تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتا ؟ کہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں ہوجاؤں۔ 

وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴾ (المنافقون)

اور جب کسی کا مقررہ وقت آجاتا ہے پھر اسے اللہ تعالیٰ ہرگز مہلت نہیں دیتا اورجو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ تعالیٰ بخوبی باخبر ہے‘‘

انسان موت کے وقت تمنا کرے گا کہ اسے ایک منٹ کے لئےفرصت و مہلت دیدی جائے ، لیکن اسے کوئی فرصت اور مہلت نہیں دی جائے گی،  اور یہ مت سمجھئے کہ ہمیں ان دو نعمتوں سے محرومی موت آ نے پر ہی ہوگی بلکہ ان نعمتوں سے محرومی موت آنے سے پہلے بھی ہوسکتی ہے، آج ہم مکمل صحتمند ہیں، ممکن ہے کہ کل بیمار ہوجائیں اور پھر ہم اللہ کے فرائض کو اد ا کرنے سےعاجز رہ جائیں ،آج ہم فارغ ہیں ممکن ہے کل اپنے اور اپنے اہل وعیال کی گزر اوقات کے لئے کمانے میں لگ جائیں اور نیکیاں کمانے سے محروم ہوجائیں ، اس لئے انسان کو چاہئے  کہ استطاعت کے مطابق اپنی صحت اور فرصت کے اوقات کو اللہ کی اطاعت میں لگائیں اگر قرآن تلاوت کرسکتا ہو توبکثرت قرآن تلاوت کرے ، اوراگر قرآن کی تلاوت نہیں کرسکتا  توبکثرت اللہ تعالی کا ذکر کرے ، لوگوں کو بھلائی کا حکم کرے اور برائی سے روکے، اصلاح بین الناس کا کام کرے، لوگوں کے ساتھ اچھا معاملہ کرے ان ساری نیکیوں کا فائدہ ان کو ملے گا،  ایک عقلمد انسان جو ہوتا ہے وہ ان نعمتوں سے بھر پور فائدہ اٹھاتا ہے۔ اپنی صحت کے ایام کو اور فرصت کے لمحات کو ضائع اور برباد نہیں کرتا اپنی صحت کے ایام میں اللہ کے فرائض اور اچھے اچھے اعمال انجام دیتا ہے اور اپنے فارغ اوقات کو نافع اورمفید کاموں سے بھر دیتا ہے۔

 پانچویں نصیحت رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے یہ فرمائی کہ اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلےغنیمت جانو ، آج زندگی ہے کل موت آجائے گی، اور زندگی مختصر ہے، عمر تھوڑی ہے اور یہی عمر اور زندگی ہماری اصل پونجی ہے،  اگر ہم نے اپنی عمر لہو ولعب میں  گزاردی تو موت کے وقت نادم وشرمندہ ہوں گے اوراس وقت ندامت وشرمندگی کا کوئی فائدہ نہ ہوگا، اس لئے اللہ کے حقوق وفرائض وغیرہ میں کوتاہی اور سستی کرنے والا اورحد سے تجاوز کرنے والا مت بنیئے کیوں کہ کل قیامت کے دن جب جہنم سامنے لائی جائے گی تو حد سے تجاوز کرنے والا ، اپنی زندگی کو کھیل وتماشہ میں ضائع و برباد کردینے والا جہنم کی ہولناکی وخوفناکی اوراس کےعذاب کو دیکھ کر نصیحت حاصل  کرے گا جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے 

 وَجِايْۗءَ يَوْمَىِٕذٍۢ بِجَهَنَّمَ ڏ يَوْمَىِٕذٍ يَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰى لَهُ الذِّكْرٰى يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِيْ قَدَّمْتُ لِحَيَاتِيْ 

اور اس دن جہنم سامنے لائی جائے گی، اس دن آدمی نصیحت حاصل کرے گا، اور تب نصیحت اسے کیا فائدہ پہنچائے گی وہ کہے گا، اے کاش ! میں نے اپنی اس زندگی کے لئے نیک اعمال پہلے بھیج دیا ہوتا‘‘ (سورت فجر آیت : ۲۳۔۲۴)


اسی طرح ایک اور جگہ اللہ عزوجل نے فرمایا کہ جب جہنمی جہنم میں  داخل کردیئے جائیں گے تووہاں کی عذاب کو دیکھ کر اپنے رب سے درخواست کریں گے کہ وہ انہیں دنیا میں واپس بھیجدے تاکہ نیک اعمال کرلیں،

رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ  

اور کہیں گے کہ اے ہمارے رب ! ہم نے سب کچھ دیکھ اورسن لیا، اس لئے اب ہمیں دنیا میں واپس بھیج دے تاکہ نیک عمل کریں، ہمیں آخرت پر پورا یقین آگیا ہے‘‘( سورة سجدہ )

اس لئے آپ اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلےغنیمت جانئےجب آپ صبح کرلیں تو شام کا انتظار نہ کریں اور جب شام کرلیں تو صبح کا انتظار نہ کریں اور اپنی صحت کو بیماری سے پہلے اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جانیں، اور اپنے آپ کو قبر والوں میں شمار کریں کیوں کہ  آپ نہیں جانتے  کہ کل  آپ کا نام زندوں میں ہوگا یا مردوں میں ،ایام بڑی تیزی سے گزررہے ہیں اورعمر ختم ہوتی جارہی ہے ہرلمحہ اور ہر آن ہم موت سے قریب ہورہے ہیں اور ہم نہیں جانتے۔  موت برحق اور یقینی چیز ہے اس میں کو ئی شک وشبہہ نہیں کیا جاسکتا، ہم سب یہ قرآنی آیات پڑھتے اور سنتے ہیں :

(كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ ۭ وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ  فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ ) ’

 ہر شخص کو موت کا مزا چکھنا ہے اور قیامت کے دن تمہیں تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا۔ پھر جو شخص دوزخ سے بچالیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا ہے تو وہ کامیاب ہوگیا اور یہ دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے‘‘( سورہ آل عمران )

(کُلٰ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ وَیَبْقَیٰ وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ) (الرحمن 

 یعنی اس زمین پر جتنے ہیں سب فانی ہیں صرف رب کا چہرہ باقی ہے جو بزرگی اورانعام والا ہے‘‘

یعنی جن و انس کل کے کل مرنے والے ہیں اسی طرح فرشتے اور حاملان عرش بھی مر جائیں گے اور صرف اللہ وحدہ لا شریک دوام اور بقاء والا باقی رہ جائے گا پہلے بھی وہی تھا اور آخر بھی وہی رہے گا ، جب سب مر جائیں گے مخلوقات کا خاتمہ ہوئے گا اس وقت اللہ تعالیٰ قیامت قائم کرے گا اور مخلوق کو ان کے چھوٹے بڑے ،چھپے کھلے ،صغیرہ کبیرہ، کل اعمال کا بدلہ ملے گا، کسی پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا ۔


(كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ  لَهُ الْحُكْمُ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ )  

اس کے سوا ہر چیز فنا ہوجائے گی ہر چیز پراسی کی حکمرانی ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے‘‘ ( سورہ قصص 

اور موت اچانک آئے گی اور کسی  بھی حالت میں آئے گی، صحت وبیماری کی حالت میں ،مالدرای اورمحتاجی کی حالت میں، سونےاورجاگنے کی حالت میں ، سفر اور حضر میں جیسا کہ مالک کا فرمان ہے،

 (فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُهُمْ لَا يَسْـتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ)

 جب موت کی گھڑی آپہنچتی ہے تو اس میں ایک پل کی بھی تقدیم وتاخیر نہیں ہوسکتی‘‘ (سورہ اعراف 

(وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًاوَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ  اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ) 

اور کوئی آدمی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور نہ کوئی یہ جانتا ہے کہ زمین کے کس خطے میں اس کی موت واقع ہوگی، بے شک اللہ بڑا جاننے والا، بڑا باخبر ہے‘‘ (سورہ لقمان ) 

(وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ كِتٰبًا مُّؤَجَّلًا

کوئی شخص اللہ کے اذن کے بغیر کبھی نہیں مرسکتا۔[ موت کا وقت لکھا ہوا ہے‘‘ (سورہ آل عمران

ساتھیو!  بلا شبہہ یہ دنیا ہمیشہ نہیں رہے گی اور نہ کوئی اس دنیا میں ہمیشہ رہے گا جیسا کہ رب کا فرمان ہے 

(وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ  اَفَا۟ىِٕنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ) 

’اور ہم نے آپ سے پہلے کسی انسان کو ہمیشگی نہیں دی، کیا آپ اگر مرجائیں گے تو وہ لوگ ہمیشہ رہنے والے ہیں ‘‘   (سورہ انبیا )

اس دنیا میں ہم سب مسافر ہیں اورہمارا سفر بڑا طویل ہے یہ سفر ہم سےایسے توشہ کا طلبگارہے جو دنیا میں ہمیں فائدہ دے اور مرتے وقت بھی ہمارے کام آئے اور قبر میں بھی ہمارے لئے مفید ہو اور قیامت  کےدن ، پل صراط  پر اور میزان عمل کے وقت ہمارے لئے نفع بخش ہو یہاں تک کہ ہم جنت میں داخل ہوجائیں ، لیکن آپ جانتے ہیں وہ توشہ سفر کیا ہے وہ توشہ سفر تقوی ہے، ہم میں سے اکثر لوگوں کا یہ حال ہےکہ انہوں نے توشہ سفرمال ودولت کو سمجھا ہوا ہے ، جاہ وحشمت کو توشہ سفر سمجھ رکھا ہوا ہے اوروہ رات ودن مال ودولت کو جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں ، بہت کم لوگ ہے جو توشہ تقوی کا اہتمام کرتے ہیں، جب کہ  اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے 

( وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى) 

اور اپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو، سب سے بہتر توشہ تقوی ہے‘‘ ( سورہ بقرہ )

اللہ  عزوجل سے دعا ہے کہ وہ ھم سب کو ان نعمتوں کی آفتوں کے آنے سے پہلے قدر کرنے اور نیک اعمال کی بجاآوری کی توفیق عنایت فرمائے  اور ہم سب کو حسنِ خاتمہ نصیب فرمائے ،

 آمین یارب العالمین

Share: