حضرت امّ معبد خزاعیہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا

رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی عمر مبارک جب 53 سال ھوئی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اللہ تعالی کے حکم سے مدینہ منورہ کی جانب ھجرت فرمائی ۔ ہجرت کے اس سفر میں کئی دلچسپ اور سبق آموز واقعات پیش آئے جن میں ایک معجزانہ اور حیرت انگیز وہ واقعہ بھی ہے جس کا تذکرہ احادیث و سیرت کی کتابوں میں ہجرت کے بیان میں اہتمام سے کیا گیا ہے۔ یہ ناقابل فراموش واقعہ دوران سفر صحراء قُدید سے گزرتے ہوئے  ام معبدخزاعیہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کے خیمہ میں پیش آیا

جس زمانے میں آفتاب اسلام فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہو رہاتھا مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ جانے والے راستے پر قدید نام کی ایک چھوٹی سی بستی صحرا کے متصل واقع تھی۔ یہ  تقریباً وہی جگہ ہے جہاں ام معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کا خیمہ تھا اور مدینہ منورہ  ہجرت کے وقت سوکھی بکری والا معجزہ یہاں پر ظاہر ہوا تھا اور ام معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا نے نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا حلیہ مبارک جن عظیم الفاظ میں بیان کیا اہل علم آج بھی ان پر انگشت بدنداں ہیں- 

اس خیمہ میں ایک مختصر سا غریب خاندان اپنی زندگی کے دن بڑی عجیب انداز میں گزار رہا تھا۔ اس گھرانے کی ساری متاع لے دے کے ایک خیمے، بکریوں کے ایک ریوڑ، گنتی کے چند برتنوں اور مشکیزوں پر مشتمل تھی۔ خاندان کا سربراہ ایک جفاکش بدوی تمیم بن عبدالعزّیٰ خزاعی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ تھا۔ اس کا بیشتر وقت بکریاں چرانے میں گزرتا تھا۔ تمیم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی اہلیہ اسکی بنتِ عم عاتکہ بنت خالد(بن خلیف بن منقذ بن ربیعہ بن احرم بن خبیس بن حرام بن حبیثہ بن سلول بن کعب بن عمرو) رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا تھی۔ دونوں کا تعلق بنو خزاعہ کی شاخ بنی کعب سے تھا۔ عاتکہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا  ایک پاک دامن، باوقار اور بلند حوصلہ خاتون تھی۔ اور اپنی کنیت ’’امّ معبد‘‘ سے مشہور تھی۔ وہ عربوں کی روایتی مہمانداری سے خاص طور پر متّصف تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں ایثار اور خدمت خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا۔ افلاس اور تنگدستی کے باوجود وہ قدید سے گزرنے والے مسافروں کی نہایت خوشدلی سے میزبانی کیا کرتی تھی۔ اور ان کی خدمت اور تواضع میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتی تھی۔ پانی، دودھ، کھجوریں، گوشت جو کچھ میسر ہوتا مہمانوں کی خدمت میں پیش کر دیتی تھیں۔ جب کوئی مسافر اسکے خیمے میں سستا کر آگے روانہ ہوتا تو اسکی زبان پر امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کیلئے تعریف و تحسین اور دعائیں ہی ہوتی تھی، اس طرح امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کا نام مسافروں کی بے لوث خبر گیری اور خدمت و تواضع کی بدولت دور دور تک مشہور ہو گیا تھا اور لوگ اسکی عالی حوصلگی اور شرافت کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔

بعثت نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے تیرہویں سال تک امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کو خلقِ خدا کی خدمت کرتے سالہا سال گزر چکے تھے اور وہ جوانی کی منزلوں سے گزر کر پختہ عمر کو پہنچ چکی تھی۔ اس وقت رحمت عالم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  عرب کے صحرا نشینوں میں ’’صاحب قریش صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ‘‘ کے لقب سے مشہور تھے۔ تمیم اور امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُھما کے کانوں میں بھی ’’صاحب قریش صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ‘‘ اور آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی دعوت کی بھنک پڑ چکی تھی، تاہم وہ زندگی کی ڈگر پر اپنے معمول کے مطابق چلتے رہے۔ ان غریب اور سادہ مزاج بدویوں کیلیے یہ بڑا کٹھن کام تھا کہ ایسی باتوں کی تحقیقی کیلئے دور دراز کی خاک چھانتے پھریں لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ ایک دن انکی صحرائی قیام گاہ صاحب قریش صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی طلعت اقدس سے جگمگا اٹھے گی اور کائنات ارضی اور سماوی کا ذرہ ذرہ اس کے مکینوں کی خوش بختی پر رشک کرے گا۔

ربیع الاوّل سنہ 13 بعثت نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ میں رحمت عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارضِ مکہ کو الوداع کہا اور تین راتیں غار ثور میں گزار کر عازم مدینہ ہوئے۔ اس وقت حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اور حضرت عامر بن فہیرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ آپ کے ہم رکاب تھے۔ حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ایک اونٹنی پر سوار تھے اور وہ دونوں دوسری اونٹنی پر۔ اس مقدس قافلے کے آگے آگے عبداللہ بن اریقط لیثی پیدل چل رہا تھا۔ وہ غیر مسلم ہونے کے باوجود ایک قابل اعتماد شخص تھا اور مکہ سے مدینے جانے والے تمام راستوں سے واقف تھا۔ اسلیے حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے راستہ بتانے کیلیے اسے اجرت پر اپنے ساتھ لے لیا تھا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ سانڈنی پر سرور عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اور حضرت صدیق اکبر  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سوار تھے اور دوسری پر حضرت عامر بن فہیرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اور عبداللہ بن قریقط۔ یہ مختصر قافلہ قدید کے مقام پر پہنچا تو حضرت اسماء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ (ذات النطاقین) بنت صدیق اکبر نے غار سے روانگی کے وقت جو کھانا ساتھ کیا تھا وہ ختم ہو چکا تھا اور سرور عالم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اور آپ کے ساتھیوں کو بھوک اور پیاس محسوس ہو رہی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے حضرت امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کی شہرت سن رکھی تھی اور انہیں یقین تھا کہ اسکی قیام گاہ پر کھانے پینے کا کچھ انتظام ہو جائیگا۔ چنانچہ یہ مقدس اور متبرک قافلہ امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کے خیمے پر جا کر رکا۔

ام معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا اس وقت اپنے خیمے کے آگے صحن میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان دنوں خشک سالی نے سارے علاقے پر قیامت ڈھا رکھی تھی اس وجہ سے امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا  کے گھرانے پر پیغمبری  وقت آن پڑا تھا۔ بڑی تنگی ترشی سے گزر بسر ہو رہی تھی۔ حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ص نے امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا: ’’دودھ، گوشت، کھجوریں، کھانے کی کوئی چیز تمہارے پاس ہو تو ہمیں دو، ہم تمہیں اسکی قیمت ادا کرینگے۔‘‘ امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا نے بصد حسرت جواب دیا۔: خدا کی قسم اس وقت کوئی چیز ہمارے گھر میں آپ کو پیش کرنے کیلئے موجود نہیں ہے۔ اگر ہوتی تو فوراً حاضر کر دیتی۔‘‘

اتنے میں حضور اکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی نظر ایک مریل سی بکری پر پڑی جو خیمے میں ایک طرف کھڑی تھی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: ’’معبد کی ماں اگر اجازت ہو تو ھم اس بکری کا دودھ دوہ لیں۔‘‘ امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا نے کہا۔:’’ آپ بڑے شوق سے دودھ دوہ لیں مگر مجھے امید نہیں کہ یہ دودھ کا ایک قطرہ بھی دے۔‘‘

اب وہ بکری حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے سامنے لائی گئی۔ آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اسکے پاؤں باندھے اور اسکی پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر دعا کی۔: ’’الٰہی اس عورت کی بکریوں میں برکت دے۔‘‘ اسکے بعد چشم فلک نے ایک تحیّر خیز نظارہ دیکھا۔ سید المرسلین فخر موجودات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر جونہی بکری کے تھنوں کو چھوا، تھن فی الفور دودھ سے بھر گئے اور بکری ٹانگیں پھیلا کر کھڑی ہو گئی۔ حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ایک بڑا برتن منگا کر دودھ دوہنا شروع کردیا، جلد ہی یہ برتن لبالب بھر گیا۔ آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے پہلے یہ دودھ امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو پلایا، اس نے خوب سیر ہو کر پیا، پھر آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اپنے ساتھیوں کو پلایا، جب وہ بھی سیر ہو گئے تو آخر میں آپ نے خود نوش فرمایا  : اس کے بعد حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے دوبارہ دودھ دوہنا شروع کیا یہاں تک کے برتن پھر لبالب بھر گیا۔ یہ دودھ رحمت عالم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کے لیے چھوڑ دیا اور آگے روانہ ہوئے۔

امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کا بیان ہے کہ جس بکری کا دودھ حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے دوہا تھا وہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کے دور خلافت تک ہمارے پاس رہی، ہم صبح و شام اسکا دودھ دوہتے تھے اور اپنی ضرورتیں بخوبی پوری کرتے تھے۔

طبقات ابن سعد کی ایک روایت میں ہے کہ اس موقع پر امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا  نے ایک بکری ذبح کرکے حضور اکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  اور آپ کے ساتھیوں کو کھانا کھلایا اور ناشتہ بھی ساتھ کر دیا۔ لیکن دوسرے اہل سیئر نے بکری ذبح کرنے کا ذکر نہیں کیا۔ 

رحمت عالم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے تشریف لے جانے کے تھوڑی دیر بعد امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کا شوہر اپنے ریوڑ کو لے کر جنگل سے واپس آیا۔ خیمے میں دودھ سے بھرا برتن دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اہلیہ سے پوچھا: ’’معبد کی ماں رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  یہ دودھ کہاں سے آیا؟‘‘

امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا نے جواب دیا: ’’خدا کی قسم ایک بابرکت مہمان عزیز کا یہاں ورود ہوا۔ انہوں نے بکری کو دوہا۔ خود بھی اپنے ساتھیوں سمیت سیر ہو کر پیا یہ دودھ ہمارے لیے بھی چھوڑ گئے۔‘‘

پھر اس نے تفصیل کے ساتھ سارا واقعہ بیان کیا۔ ابومعبد تمیم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا: ’’ذرا اسکا حلیہ تو بیان کرو۔‘‘ امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا  نے بے ساختہ سید البشر  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا جو حلیہ مبارک بیان کیا ، تاریخ نے اسے اپنے صفحات میں ھمیشہ کے لئے محفوظ کرلیا ہے۔ ام معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا نے کہا:

قالت أُمِّ مَعْبَدٍ فی وصف النبیﷺ

رَأَيْتُ رَجُلًا ظَاهِرَ الوَضَأَةِ ، أَبْلَجَ الوَجْهِ ، حَسَنَ الخَلْقِ ، لَمْ تَعِبْهُ ثُجْلَةٌ ، وَلَمْ تُزْرِيهِ صُعْلَةٌ ، وَسِيمٌ قَسِيمٌ ، فِي عَيْنَيْهِ دَعَجٌ ، وَفِي أَشْفَارِهِ وَطَفٌ ، وَفِي صَوْتِهِ صَهَلٌ ، وَفِي عُنُقِهِ سَطَعٌ ، وَفِي لحْيَتِهِ كَثَاثَةٌ ، أَزَجُّ، أَقْرَنُ ، إِنْ صَمَتَ فَعَلَيْهِ الوَقَارُ ، وَإِنْ تَكَلَّمَ سَمَاهُ وَعَلَاهُ البَهَاءُ ، أَجْمَلُ النَّاسِ ، وَأَبْهَاهُ مِنْ بَعِيدٍ ، وَأَحْسَنُهُ وَأَجْمَلُهُ مِنْ قَرِيبٍ ، حُلْوُ المَنْطِقِ ، فَصْلًا لَا نَزْرَ وَلَا هَذَرَ ، كَأَنَّ مَنْطِقَهُ خَرَزَاتُ نَظْمٍ يَتَحَدَّرْنَ ، رَبْعَةٌ لَا تَشْنَؤُهُ مِنْ طُولٍ ، وَلَا تَقْتَحِمُهُ عَيْنٌ مِنْ قِصَرٍ ، غُصْنٌ بَيْنَ غُصْنَيْنِ ، فَهُوَ أَنْضَرُ الثَّلَاثَةِ مَنْظَرًا ، وَأَحْسَنُهُمْ قَدْرًا ، لَهُ رُفَقَاءُ يَحُفُّونَ بِهِ ، إِنْ قَالَ سَمِعُوا لِقَوْلهِ ، وَإِنْ أَمَرَ تَبَادَرُوا إِلَى أَمْرِهِ ، مَحْفُودٌ مَحْشُودٌ ، لَا عَابِسَ، وَلَا مُفَنِّدَ

اردو ترجمہ

  ام معبد نبی پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کے بارے میں بتاتی ہیں  

میں نے ایک شخص کو دیکھا ، جس کی نظافت نمایاں ، جس کا چہرہ تاباں ، اور جس کی ساخت میں تناسب تھا ، پاکیزہ اور پسندیدہ خو ، نہ فربہی کا عیب نہ لاغری کا نقص ، نہ پیٹ نکلا ہوا ، نہ سر کے بال گرے ہوئے ، چہرہ وجیہہ ، جسم تنومند اور قد موزوں تھا ، آنکھیں سر مگیں  ، فراخ اور سیاہ تھیں ، پتلیاں کالی اور آنکھوں کی سفیدی بہت سفید تھی ، پلکیں لمبی اور گھنی تھیں ، ابرو ہلالی ، باریک اور پیوستہ ، گردن لمبی اور صراحی دار ، داڑھی گھنی اور گنجان ، سر کے بال سیاہ اور گھنگھریالے  ، آواز میں کھنک کے ساتھ لطافت ، بات کریں تو رخ اور ہاتھ بلند فرمائیں  ، کلام شیریں اور واضح  ، نہ کم سخن اور نہ بسیار گو ، گفتگو اس انداز کی جیسے پروئے ہوئے موتی ، دور سے سنو تو بلند آہنگ ، قریب سے سنو تو دلفریب ، کلام نہ طویل نہ بے مقصد بلکہ شیریں ، جامع اور مختصر، خاموشی اختیار کرے ، تو پر وقار اور تمکین نظر آئے ، قد نہ درازی سے بد نما ، اور نہ اتنا پستہ کہ نگاہ بلند تر پر اٹھے ، لوگوں میں بیٹھے تو سب سے جاذب  ، دور سے نظریں ڈالیں تو بہت با رعب ، دو نرم و نازک شاخوں کے درمیان  ، ایک شاخِ تازہ جو دیکھنے میں خوش منظر ، چاند کے گرد ہالے کی طرح رفیق گرد و پیش ، جب کچھ کہے تو سراپا گوش ، حکم دے تو تعمیل میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں ، سب کا مخدوم  ، سب کا مطاع  ، مزاج میں اعتدال ، تندی اور سختی سے دور

 ابو معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ یہ صفات سن کر بول اٹھے کہ خدا کی قسم یہ تو وہی صاحب قریش صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ تھے جن کا ذکر ہم سنتے رہتے ہیں، میں ان سے جا کر ضرور ملوں گا۔

حضرت امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا  کے قبول اسلام کی دو مختلف روایات ملتی ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ ان کے کانوں میں ’’صاحب قریش صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ‘‘ کی بھنک پہلے سے پڑ چکی تھی۔ چنانچہ جب پہلے پہل ان کی نظر حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے رخ انور پر پڑی تو ان کے دل نے گواہی دی کہ یہ وہی صاحب قریش صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ہیں جو توحید کے داعی اور نیکی و ہدایت کا سرچشمہ ہیں۔ بکری کا واقعہ دیکھا تو انہیں قطعی یقین ہو گیا کہ مہمان عزیز اللہ کے سچے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ہیں چنانچہ وہ اسی وقت سچے دل سے مسلمان ہو گئیں اور حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے ان کیلیے دعائے خیر و برکت فرمائی۔

دوسری روایت یہ ہے کہ حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے مدینہ منورہ تشریف لیجانے کے بعد ابو معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اور امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا  دونوں میاں بیوی ہجرت کرکے مدینہ پہنچے اور رحمت عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی خدمت میں حاضر ہو کر سعادت ایمانی سے بہرہ مند ہوئے۔

حضرت امّ معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کی زندگی کے مزید حالات تاریخوں میں نہیں ملتے تاہم ان کی زندگی کے ایک واقعے نے جو اوپر بیان ہوا ہے انہیں شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں اتنا بلند مقام عطا کردیا کہ ملت اسلامیہ کے تمام افراد ابد الآباد تک اس پر رشک کرتے رہیں گے۔

 یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ حج کے زمانہ میں ازواج مطہرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُن سے ام معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کی ملاقات بھی ہوئی، اور حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے زمانۂ خلافت کے اخیر میں یا حضرت عثمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کے عہد خلافت میں ام معبد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کاا نتقال ہوا۔

Share: