علامات قیامت


علامات قیامت

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
كُلُّ نَفۡسٍ۬ ذَآٮِٕقَةُ ٱلۡمَوۡتِ‌ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوۡنَ أُجُورَڪُمۡ يَوۡمَ ٱلۡقِيَـٰمَةِ‌ۖ فَمَن زُحۡزِحَ عَنِ ٱلنَّارِ وَأُدۡخِلَ ٱلۡجَنَّةَ فَقَدۡ فَازَ‌ۗ وَمَا ٱلۡحَيَوٰةُ ٱلدُّنۡيَآ إِلَّا مَتَـٰعُ ٱلۡغُرُورِ (سُوۡرَةُ آل عِمرَان)
ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور تمہیں قیامت کے دن پورے پورے بدلے ملیں گے پھر جو کوئی دوزخ سے دور رکھا گیا اور بہشت میں داخل کیا گیا سو وہ پورا کامیاب ہوا اور دنیا کی زندگی سوائے دھوکے کی پونجی کے اور کچھ نہیں
لفظ قیامت اور اس كي هولناكي سے تقريباً هر مسلمان شخص واقف هے يعني قیامت وہ دن هے جس دن اس دنیا کو مکمل طور پر ختم کر کے انسانوں اور جنوں کو ميدان محشر ميں اکھٹا کیا جائے گا.قیامت پر یقین رکھنا ایک مسلمان کے ایمان کا ایک لازمی حصّہ ہے اور اس دن کی تفصیلات سے آگاہ رہنا بہت اہم ہے،اس لئے کہ جب علم ہوگا تو انسان اس دن کی تیاری کرے گا،
دوسرا یہ کہ انسان جب قیامت کے متعلق جانے گا تو اسکو یہ حقیقت سمجھ آئے گی کہ ہم اس دنیا میں ہمیشہ کے لئے نہیں آئے بلکہ دنیا مٹنے والی ہے اور اسکی ہر چیز فانی ہے.قرآن مجيد میں جگہ جگہ اس دنیا کے فنا ہونے کی تفصیل آئى ہے نیز رسول الله صلی الله علیہ وآله وسلم متواتر صحابہ كرام رضوان الله علیھم اجمعین کو قیامت کے بارے میں بتاتے رہتے تھے.اسلئے کہ یہ ایک بہت اہم معامله ہے جس سے آگاہ رہنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے.
افسوس ہے کہ ہمارے ہاں اس دن کا بہت کم ذکر ہوتا ہے. هم غفلت کی نیند سو رہے ہيں ،کوئی جھنجھوڑنے والا نہیں.دنیا کس طرف جا رہی ہے یہ بہت کم لوگ دیکھ پا رہے ہیں.ہم لمحہ بہ لمحہ اس ہولناک دن کے قریب ہوتے جا رہےہیں.قیامت کب آئے گی کسی کو نہیں معلوم،یہ صرف الله کے علم میں ہے،لہٰذا یہ ایک غیبی بات ہے جس پر ہمیں اتنا پختہ یقین ہونا چاہیے،جیسا کہ اپنے زندہ ہونے پر یقین ہے.رسول الله صلی الله علیہ وآله وسلم نے اس امّت پر احسان عظیم کیا کہ قیامت کی علامات کو انتہائی تفصیل سے بیان فرما ديا اور الله کے فضل اور رحمت سے وہ معلومات نسل در نسل ہم تک پہنچیں.همارے لئے ان علامات سے آگاہ رہنا بے حد ضروری ہے.یہ وہ دن ہو گا جو ایک گھڑی کے اندر اندر انسانوں کے سروں پر آن کھڑا ہوگا.جس کے بعد حساب و کتاب کا مرحلہ شروع ہو جائے گا. جيسا كه قرآن مجيد ميں اس كا ذكر هے

علامات قیامت کی أقسام:
علامات قیامت كو علماء كرام نے دو حصوں ميں تقسيم كيا هے پھلي قسم كو علامات صغرى اور دوسري قسم كو علامات كبرى كها جاتا هے
علامات صغرى :
علامات صغرى سے قيامت كي وه علامتيں مراد هيں جو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی ولادت مبارك سے لے كر آج تك وقوع میں آچکیں هيں اور حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ظہور تک وقوع میں آتی رہیں گی، یہاں تک کہ دوسری قسم سے مل جائیں گی۔
علامت صغرى ميں سے بهت سي علامتون كا مكمل طور پر ظهور هو چكا هے كچهـ ايسى هيں جو جزوي طور پر ظهور پذير هو چكي هيں اور يه سلسله جاري هے اور كچهـ حضرت إمام مهدي رضی اللہ تعالیٰ عنہ كے ظهور تك ظاهر هوتي رهيں گي اور حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ظہور كے بعد "علامات كبرى" كا سلسله شروع هو جائے گا
علامات كبرى:
دوسری قسم کی علامات جنهيں علامات كبرى كها جاتا هے وہ ہیں جن كا ظهور امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد شروع هوگا اور يه سلسله ظہور نفخ صور تک جاري رهے گا یہ علامات یکے بعد دیگرے پے در پے ظاہر ہوں گی جیسے سلک مروارید سے موتی گرتے ہیں۔ ان کے ختم ہوتے ہی قیامت برپا ہو جائے گی
قیامت کب آئے گی اس کا حتمی علم كسي نبی يا رسول کو بھی نہیں ہے؛ چنانچہ حدیث جبریل میں جب اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے حضرت جبریل امین نے عرض کیا،
”فاخبرنی عن الساعة“ وفی روایة ”متی الساعة“
مجھے بتائیے کہ قیامت کب آئے گی؟ تو اس کے جواب میں آپ نے فرمایا: ”مالمسئول عنہا باعلم من السائل“
جس سے اس کے بارے میں پوچھا گیا ہے وہ خود پوچھنے والے سے زیادہ علم نہیں رکھتا،
مطلب یہ ہے کہ خلق خدا میں کوئی اس صلاحیت کا حامل نہیں ہے کہ اس سے قیامت کا وقت واقعی دریافت کیا جائے؛ کیوں کہ یہ مفاتیح الغیب میں سے ہے جن کا علم خالق کائنات کے علاوہ کسی کو بھی نہیں ہے۔
البتہ الله علیم وحکیم نے اپنے آخری نبی رسول كريم صلی اللہ علیہ وآله سلم کو اس کی بہت ساری علامتوں اور نشانیوں سے آگاہ کردیا تھا، جنھیں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآله سلم نے منشائے إلهي کے مطابق دیگر وحی الٰہی کی طرح مکمل جزم ویقین کے ساتھ امت کو پہنچا دیا ہے، ان سے وقوع قیامت کی دوری ونزدیکی کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ قیامت کی پیشگی علامتوں کے طور پر رسول كريم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ یہ ساری علامتيں خواہ تواتر کے ساتھ قطعی طور پر ثابت ہوں، یا ظنی طور پر ان کا ثبوت ہو، یہ سب کی سب باب عقائد میں داخل ہیں، یہ خیال کہ عقیدہ میں صرف وہی امور داخل ہیں جو تواتر کے ساتھ قطعی طور پر ثابت ہیں صحیح نہیں ہے، ، بس فرق یہ ہے کہ جو باتیں قطعی دلائل سے ثابت ہیں وہ عقیدہ قطعیہ ہوں گی اور جو چیزیں ظنی دلیلوں سے ہم تک پہنچی ہیں وہ ظنی طور پر عقیدہ میں شامل ہوں گی، اور اسی لحاظ سے ان کے قبول ورد کے تعلق سے حکم میں فرق وتفاوت ہوگا۔ محدثين كرام (اللہ تعالیٰ ان کی قبروں کو نور سے معمور فرمائے) نے نبی كريم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت دیگر علوم واحکام کی طرح قیامت سے متعلق ان کی پیش گوئیوں کو بھی پورے اہتمام کے ساتھ اپنی تصانیف میں ”اشراط الساعة“ یا ”امارات الساعة“ کے عنوان سے جمع کردیا ہے، علامات صغرى كو عام طور پر علماء نے دو قسموں میں تقسیم کیا ہے:
(۱) علامات بعيده :  یعنی وہ نشانیاں جو ظاہر ہوکر گزرگئیں،
(۲) علامات متوسطہ: یعنی جن کے ظہور کا سلسلہ جاری ہے
قيامت کی علامات صغریٰ میں سے سب سے پہلی علامت رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری اور آپ صلی اللہ علیہ وآله سلم کی وفات ہے ‘پچھلی آسمانی کتابوں میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا لقب ”نبی الساعۃ“ بهي لکھا ہے۔ جس کا معنی ہے: ” قیامت کا نبی “یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآله سلم وہ آخری نبی ہوں گے کہ جن کی امت پر قیامت قائم ہو گی ۔

علامات صغرى: 


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات

جيسا كه گذشته قسط ميں اس كا ذكر هوا كه رسول كريم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا دھچکا قرب قیامت کی ابتدائی علامات میں سے ہے چنانچه حديث مباركه ميں هے سیدنا حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالى عنہ بیان کرتے ہیں"میں غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی خدمت أقدس میں حاضر ہوا،رسول كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم چمڑے کے ایک خیمے میں تشریف فرما تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا:" قیامت سے پہلے چھ نشانیاں شمار کر لو۔ 1۔میری وفات 2۔پھر بیت المقدس کی فتح 3۔پھر وہ زبردست موت جو تم میں بکری کی قعاص بیماری کی طرح پھیل جائے گی۔ 4۔پھر مال کی کثرت ،حتی کہ ایک شخص کو سو دینار ديے جائیں گے مگر وہ پھر بھی راضی نہ ہوگا۔ 5۔پھر ایک ایسا فتنہ نمودار ہوگا جو عربوں کے ہر گھر میں داخل ہو جائے گا۔ 6۔پھر تمھاری بنو اصفر(عیسائیوں)سے صلح ہوگی مگر وہ تم سے بد عہدی کریں گے اور تمہاری طرف 80 جھنڈوں تلے جمع ہو کہ آئیں گے اور ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار فوجی ہوں گے۔" (صحیح بخاری) (حدیث مباركه میں بیان کردہ باقی باتیں إن شاء الله آگے اپنے اپنے مقام پر ترتیب سے آئیں گی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی وفات جهاں اہل اسلام کے لئے عظیم ترین سانحہ تھا وهاں آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم كا اس دنيا سے رخصت هو جانا قيامت كي إيك أهم نشاني بهي هے آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی وفات کے ساتھ ہی وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا سو نبوت كا سلسله هميشه هميشه كے لئے ختم هو گيا آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم كے بعد اب كوئي نبي نهيں هو سكتا تاهم آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم كي رحلت كے بعد ملت اسلام میں فتنوں کا سلسہ شروع ہو گیا جو اب تك جاري هے ان ميں مسيلمه كذاب سے ليكر لعنتي مرزا قادياني تك نبوت كے جهوٹے دعويداروں كا فتنه بهي شامل هے تاهم جونكه آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم خاتم النبيين هيں اس لئے قيامت بهي آپ كي امت پر هي قائم هو گي
حدیث مباركه ميں ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنه کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا:
جب مال غنیمت کو دولت قرار دیا جانے لگے اور جب زکوٰة کو تاوان سمجھا جانے لگے اور جب علم کو دین کے علاوہ کسی اور غرض سے سکھایا جانے لگے اور جب مرد بیوی کی اطاعت اور ماں کی نافرمانی کرنے لگے اور جب دوستوں کو تو قریب اور باپ کو دور کیا جانے لگے اور جب مسجد میں شور وغل مچایا جانے لگے اور جب قوم وجماعت کی سرداری، اس قوم وجماعت کے فاسق شخص کرنے لگیں اور جب قوم وجماعت کے لیڈر وسربراہ اس قوم وجماعت کے کمینہ اور رذیل شخص ہونے لگیں اور جب آدمی کی تعظیم اس کے شر اور فتنہ کے ڈر سے کی جانے لگے اور جب لوگوں میں گانے والیوں اور سازوباجوں کا دور دورہ ہوجائے اور جب شرابیں پی جانی لگیں اور جب اس امت کے پچھلے لوگ اگلے لوگوں کو برا کہنے لگیں اور ان پر لعنت بھیجنے لگیں تو اس وقت تم ان چیزوں کے جلدی ظاہر ہونے کا انتظار کرو:- سرخ یعنی تیز وتند اور شدید ترین طوفانی آندھی کا، اور زلزلے کا، اور زمین میں دھنس جانے کا اور صورتوں کے مسخ وتبدیل ہوجانے کا اور پتھروں کے برسنے کا، نیز ان چیزوں کے علاوہ قیامت کی اور تمام نشانیوں اور علامتوں کا انتظار کرو، جو اس طرح پے در پے وقوع پذیر ہوں گی، جیسے لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور اس کے دانے پے در پے گرنے لگیں۔ ”حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: جب میری امت ان پندرہ باتوں میں (کہ جن کا ذکر اوپر کی حدیث میں ہوا) مبتلا ہوگی تو اس پر آفتیں اور بلائیں نازل ہوں گی، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے اوپر کی حدیث میں ذکركرده ان پندرہ باتوں کو شمار فرمایا
.
زيل ميں محتلف آحاديث مباركه كي روشني ميں علامات صغرى كا ذكر كيا جاتا هے
(1) ایک دور آئے گا جب کوی شخص مسجد کی قریب سے گذرے گا لیکن وھاں دورکعت نماز نھیں پڑهے گا
(2) دین پر عمل اتنا هي مشکل ھوجائے گا جتنا کہ انگارے ھاتھ میں لینا
(3) بخل عام ھوجائے گا بخل صرف مال میں هي نھیں هو گا بلكه باقی چیزوں میں بھی هو گا
(4) لوگوں کے دل سخت ھوجائيں گے
(5) مساجد کی بنانے میں مقابلے شروع ھوجا ئيں گے مسجدیں خوب سجائي جائيں گي
(6)قرآن کو بھی صرف سجایا هي جائے گا
(7)انساں حلال حرام کا بالكل پرواه نھیں کرے گا
(8) سود عام هو جائے گا
(9) دیگر امم یعنی یھود ونصاری کی تابعداری اور نقالي شروع ھوجائے گي
(10) زلزلے کثرت سے آئيں گے
(11) اچانک اموات زیادہ ھونگي
(12)لوگ صرف جان پھچان والوں کو سلام کرینگے یعنی صرف جان پھچان والوں کو سلام ھونگے سب کو نھیں کرینگے
(13)وعدوں کا پاس نھیں رھے گا
(14) نا اھل حکمران مقررھوجائيں گے
(15) بدترین يعني ذلیل اور کمینے لوگ بڑے بن جائيں گے
(16) لوگ اپنی حاکموں کو مارنے لگيں گے
(17) مسلمان آپس میں لڑيں گے
(18) ذليل لوگ مالدار بن جائيں گے
(19) تجارت اور بزنس بهت بڑه جائے گا حتی کہ عورت اپنی شوھر کی کاروبار میں مدد کریگی
(20) زمانہ مختصر ھوجائے گا یعنی وقت تیز رفتاری سے گذرے گا گويا سال مهينه كي طرح اور مهينه هفته كي طرح اور هفته دن كي طرح گزرے گے
(21) جھوٹی گواھی عام ھوجائے گي
(22) قلم کا ظھور ھوگا یعنی میڈیا ترقی کرے گا
(23) لوگوں كي نظر ميں دنیا محبوب ھوجائے گی
(24) موت سے نفرت ھوجائے گي
(25) کافر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑیں گے
(26) نیک لوگ مرجائيں گے بیکار لوگ رھ جائيں گے
(27) امانت داری ختم ھوجائے گی
(28) فتنہ ھر گھر میں داخل ھوجائے گا
(29) بڑے بڑے تجارتي مراكز قائم هوں گے
(30) لوگوں ميں لڑائی جهگڑا عام هو جائے گا
(31) اولاد نافرمان ہو جائے گی ‘بیٹیاں تک (جن ميں طبعي طور پر والدين كي فرمانبرداري هوتي هے ) ماں کی نافرمانی کرنے لگیں گی ‘
(32) علم اٹھ جائے گا اور جہالت عام ہو جائے گی ‘دین کا علم لوگ دنیا کمانے کے لیے حاصل کرنے لگیں گے۔
(33) نااہل لوگ آمیر اور حاکم بن جائیں گے ‘اور ہر قسم کے معاملات ‘عہدے اور مناصب نااہلوں کے سپرد ہو جائیں گے۔ جوجس کام کا اہل اور لائق نہ ہوگا وہ کام اس کے سپرد ہو جائے گا۔
(34)لوگ ظالموں اور برے لوگوں کی تعظیم اس وجہ سے کرنے لگیں گے کہ یہ ہمیں تکلیف نہ پہنچائیں۔
(35) شراب کھلم کھلا پی جانے لگے گی‘ زنا کاری اور بد کاری عام ہو جائےگی۔
(36) علانیہ طور پر ناچنے اور گانے والی عورتیں عام ہو جائیں گی،گانے بجانے کا سامان اور آلات موسیقی بھی عام ہو جائیں گے۔
(37)جھوٹ عام پھیل جا ئے گا اور جھوٹ بولنا عيب كي بجائے کمال سمجھا جانے لگے گا۔
(38) امیر اور حاکم ملک کی دولت کو ذا تی ملکیت سمجھنے لگیں گے اور اسے اپنا حق سمجهيں گے
(39) امانت میں خیانت شروع ہو جا ئے گی ‘اما نت کے طو ر پر رکھوائی جانے والی چیزوں کو لوگ ذاتی دولت سمجھنے لگیں گے۔
(40) نیک لوگوں کی بجا ئے رزیل اور غلط کار قسم کے لوگ اپنے اپنے قبیلے اور علا قے کے سردار بن جا ئیں گے
(41) شرم و حیا بالکل ختم ہو جا ئے گي عورتيں خوب بن سنور كر بازاروں ميں بے پرده گهوميں گي
(42) ظلم و ستم عام ہو جا ئے گا۔ مظلوم كي مدد اور ظالم كے سامنے كلمئه حق كهنا مفقود هو جائے گا
(43) ایمان سمٹ کر مدینہ منورہ کی طرف چلا جائے گا جیسے سانپ سکڑ کر اپنی بل کی طرف چلا جا تا ہے۔
(44) زکوٰة کو لوگ تاوا ن سمجھنے لگیں گے‘ مال غنیمت کو اپنا مال سمجھا جانے لگے گا۔
(45) مردوں ميں ماں کی نافرمانی اور بیوی کی فرماں برداری عام ہو جائے گی۔
(46) عورتیں زیادہ اور مرد کم ہو جائیں گے‘ یہاں تک کہ ایک مرد پچاس عورتوں کا نگران ہو گا۔
(47) قیامت سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت میں سے تیس بڑے بڑے کذاب اور دجال آئیں گے‘ ہر ایک نبوت کا دعویٰ کرے گا حالانكه حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آخری نبی ہیں‘ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کو ئی نبی نہیں۔
(48)عرا ق کا مشہور دریا فرات سونے کا ایک پہاڑ یا سونے کا ایک خزانہ ظاہر کرے گا‘ جس پر لوگ لڑيں گے‘ چنانچہ اس لڑائی میں ہر سو میں سے ننانوے لوگ قتل ہو جائيں گے۔(ممکن ہے سونے کے پہاڑ یا سونے کے خزانے سے مراد عراق کا تیل ہو۔ واللہ اعلم)
(49) تاجر تجارت كي غرض سے ، فقراء بهيك مانگنے كے لئے اور علماء دكهلاوے كے لئے حج كريں گے
(50) نماز كا خشوع وخضوع ختم هو جائے گا يهاں تك كه بهري مسجد ميں ايك شخص بهي خشوع و خضوع سے نماز پڑهے والا نه هو گا
(51) مذكوره بالا علامتوں كے ظهور پذير ہو چکنے كے بعد سخت قسم کے عذاب شروع ہوںگے اس میں سرخ آندھیاں آئیں گی‘ آسما ن سے پتھر برسیں گے‘ کچھ لوگ زمین میں دھنسا دیے جائیں گے‘ لوگو ں کی شکلیں مسخ ہو جائیں گی‘ پھر پے در پے کئی نشانیاں ایسے ظاہر ہوں گی جیسے ہار کا دھاگہ ٹوٹنے پر مسلسل دانے گرنے لگتے ہیں
(52) رسول كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم فرماتے هيں کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ ( پختہ کار ) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔
(53) لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی
اس کی تشریح اہل علم نے کئی طرح کی ہے، سب سے بہتر توجیہ یہ ہے کہ اس میں اولاد کی نافرمانی کی طرف اشارہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ قرب قیامت میں اولاد اپنے والدین سے اس قدر برگشتہ ہوجائے گی کہ لڑکیاں جن کی فطرت ہی والدین کی اطاعت خصوصاً والدہ سے محبت و پیار ہے، وہ بھی ماں باپ کی بات اس طرح ٹھکرانے لگیں گی جس طرح ایک آقا اپنے زرخرید غلام کی بات کو لائق توجہ نہیں سمجھتا، گویا گھر میں ماں باپ کی حیثیت غلام لونڈی کی طرح ہوکر رہ جائے گی۔
(54) وہ لوگ جن کی کل تک معاشرے میں کوئی حیثیت نہ تھی، جو ننگے پاوٴں اور برہنہ جسم جنگل میں بکریاں چرایا کرتے تھے وہ بڑی بڑی بلڈنگوں میں فخر کیا کریں گے، یعنی رذیل لوگ معزز ہوجائیں گے،
(55) لوگوں میں سے ذیادہ کمینہ ، دنیا میں سب سے ذیادہ خوشحال ہو گا
(56) دین پر صبر کرنے والے کا حال ایسے ہو گا جیسے انگارا ہاتھ میں رکھنے والے کا اگر گراتا ہے تو دین جاتا ہے اگر رکھتا ہے تو ہاتھ جلتا ہے
(57) آخری زمانہ میں عبادت گزار لوگ جاہل ہوں گے اور قرأ و علماء فاسق ہوں گے
(58) لوگ مساجد کے بارے میں فخر کریں گے
5- بری بات کرنا، بدکلامی کرنا، قطع رحمی، امین کا خیانتی ہونا اور خیانتی کا امانت دار ہونا بهي قیامت کی نشانیوں میں سے ہے
(59) چاند موٹا دكهائى دے گا اور یہ کہ جب پهلي رات كو چاند کو دیکھا جائے گا تو چاند اپني موٹائي كي وجه سے دوسری يا تیسری رات کا محسوس ہوگا
(60) مسجديں راستے بنائی جائیں گی يعني مسجدوں ميں سے آمد و رفت كا سلسله شروع هو جائے گا اور اچانک اموات ظاہر ہوں گی-
(61) بارش کی کثرت اور کھیتوں کی کمی هو گي
(62) ،قراء کی بہتات اور فقہاء کی قلت هو جائے گي
(63) امراء كثرت سے هوں گے ليكن امانت داروں کی کمی هوگي -
(64) نیک لوگ ایک ایک ہو کر دنیا سے رخصت ہو جائیں گے گھٹیا لوگ کھجوروں کی بھوسی كي طرح بچ جائیں گے -
(65) زہد روایتی ہو گا اور پرہیز گاری بناوٹی-
(66) بارش کی کثرت اور شرپسندوں اور شرارتیوں کی بھرمار هوگي
(67) جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا سمجھا جائے گا-
(68) بیگانوں سے دوستی اور قریبی رشتہ داروں سے بیگانگی اور قطع رحمی کا سلوک کیا جائے گا-
(69) ہر قبیلہ کا سردار ( وڈیرہ،رئیس وغیرہ) منافق ہوگا اور اور بازار فاسقوں اور فاجروں سے بھرے ہوں گے
(70) گھر- محلہ -علاقہ میں مؤمن کی حیثیت بکری کے چھوٹے اور ذلیل ترین بچے جیسی ہو گی
(71) مسجدوں کی محرابیں خوبصورت رنگ برنگی بنائی جائیں گی لیکن دل ویران ہوں گے-
(72) مرد مردوں پر اکتفا کریں گے اور عورتیں عورتوں سے يعني هم جنسي كي وبا پهيل جائے گي
(73) مسجدیں مضبوط اور پختہ بنائی جائیں گی اور منبر بہت ذیادہ اونچے بنائے جائیں گے-
(74) ویران شہروں کو آباد کیا جائے گا اور آباد شہروں کو ویران کیا جائے گا
(75) لہو لعب ( گانے بجانے ) کے آلات ظاہر ہوں گے اور شرابیں بکثرت پی جائیں گی-
(76) شرطه یعنی پولیس اور فوج وغیرہ كي كثرت هوگي بچوں کی حکومت ہو گی عورتیں ذیادہ ہو جائیں گی بادشاہ ظلم کریں گے
(77) غیبت کرنے والوں، چغل خوروں اور منہ پر عیب بیان کرنے والوں کی کثرت ہو جائے گی
(78) اولادالزنا ( ناجائز اولاد ) بہت ذیادہ ہو جائے گی-(آج مغربي ممالك ميں يه منظر ديكها جا سكتا هے جهاں پر خانداني نظام بري طرح ٹوٹ پهوٹ كا شكار هو گيا هے )
(79) جھوٹی گواہیاں عام هوں گي ( جھوٹی گواہیاں دينے والوں كو كوئي ندامت نهيں هوگي ) اور شہادت حق کو چھپايا جائے گا
(80) شراب عام هوگي اور اس كا کا نام بدل کر پیا جائے گا جيسا كه آج كے زمانه ميں اس كے مختلف نام ركهے گئے هيں
(81) سود کو تجارت کا نام دے کر حلال قرار دیا جائے گا ( نام نهاد علماء اس كو شريعت سے ثابت كرنے كے لئے دليليں ديں گے )
(82) رشوت ہدیہ کے طور پر لی جائے گی
(83) زکٰوۃ کے بدلے تجارت کی جائے گی اور تجارت بڑھ جائے گی مال کی فراوانی ہوگی صاحب مال کی مال کی وجہ سے تعظیم کی جائے گی
(84) ریشم پہننے کی(مردوں ميں ) کثرت هوگي (حالانكه ريشم كو مردوں كے لئے اسلام ميں جائز نهيں ركها گيا )
(85) مرد عورتوں كي اور عورتيں مردوں كي (شكل و صورت بنانے اور لباس وغيره ميں )مشابهت اختيار كريں گي
(86) .قیامت سے قبل حجاز سے ایک بہت بڑی آگ نکلے گی جس کا اثر شام تک پہنچے گا۔
(87) علم حجاز مقدس کی طرف پلٹ جائے گا۔
(88) .ایک موقع ایسا آئے گا کہ سر زمین عرب پر،جو ریگستانی علاقہ ہے، سرسبزی و شادابی پھیل جائے گی، نہریں جاری ہو جائیں گی، جس میں جانور جہاں چاہیں گے چریں گے۔
(89) كفار كے دلوں سے مسلمانوں كي هيبت نكل جائے گي كفار مسلمانوں پر هر طرف سے ٹوٹ پڑيں گے
(90) عورتيں لباس پهنے هوں گي ليكن پهر بهي ننگي هوں گي( يعني باريك اور تنگ لباس زيب تن كريں گي )
(91) الله تعالى كي قدرت سے ايك لشكر سرزمين مدينه كے قريب زميں ميں دهنسا ديا جائے گا
(92) كوڑے پر ڈالي هوئي جوتي كا تسمه كلام كرے گا اور آدمي كو اس كے گهر كے بهيد بتائے گا بلكه خود انسان كي ران اسے خبر دے گي
(93) جانور(درندے) آدمي سے كلام كريں گے
(94) لوگ مصيبتوں كي وجه سے موت كي آرزو كريں گے يهاں تك كه آدمي قبر پر گزرے گا اور كهے گا كه كاش ميں اس قبر والے كي جگه هوتا
(95) هرج زياده هو جائے گا پوجها گيا كه هرج كيا هے تو رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمايا كه "قتل"
 (96) سمندر میں شیاطین بندھے پڑے ہیں جنہیں حضرت سلیمان علیہ السلام نے باندھ رکھا تھا وہ سمندر سے نکل کر لوگوں کو قرآن پڑھ کر سنائیں گے یعنی دین کی باتیں کریں گے
(97) قرب قیامت میں کتے کے چھوٹے بچے کو پالنا بہتر ہو گا اس سے کہ کوئی اپنے بچے کو پالے ( کیوں کہ جيسا كه اوپر گزرا ہے کہ اولاد کو ماں باپ کی قدر نہ ہو گی بڑوں کی عزت نہ کی جائے گی زنا کی اولاد کی کثرت ہو گی یہاں تک کہ مرد عورت سے شارع عام پر زنا کرے گا لوگ ریا کاری کے طور پر نرمی سے بات کریں گے لیکن انکے دل بھیڑیے جیسے ہوں گے
(98) اہل مسجد ( نمازی) (نماز كي إمامت) ایک دوسرے کے ذمہ لگاتے پھریں گے لیکن كوئي امام نہ ملے گا جو انہیں نماز پڑھائے
(99) تم امام ( امیرالمومنین) کو قتل کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے سے جنگ کرو گے اور تمہارے بدترین لوگ تمہاری دنیا کے وارث ہوں گے
(100) شیطان انسان کی صورت میں شکل بدل کر لوگوں کے پاس آئے گا انہیں جھوٹی باتیں بیان کرے گا لوگ متفرق طور پر اسکی باتوں کو پھیلائیں گے ان میں سے ایک کہے گا میں نے ایسے آدمی سے سنا ہے جس کا چہرہ تو میرا جانا پہچانا ہے لیکن اسکا نام نہیں جانتا
(101) آدمی بھائی ( مسلمان بھائی ) کو قتل کرے گا لیکن اسے معلوم نہ ہو گا کہ وہ اسے کیوں قتل کر رہا ہے
(102) منبروں کے خطیب ذیادہ ہوں گے اور علماء کا جھکاؤ امراء ( مالداروں اور اربابِ حکومت ) کی طرف ہو گا وہ ان کے لئے حرام کو حلال قرار دیں گے اور ان کی خواہش کے مطابق فتوے دیں گے
(103) علم دنیا سے اٹھا لیا جائے گا ، اولاد المخنث يعني ہجڑوں کی کثرت هو جائے گي اور سقارون ظاہر ہو جائیں گے عرض کی گئی سقارون کون ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ لوگ جو ملاقات کے وقت ایک دوسرے پر لعنت کریں گے اور السلام وعلیکم کی بجائے گالی گلوچ بکیں گے
(104) مرد عورت کی طرف مائل ہو کر محض پیسہ کی لالچ ميں اس سے نکاح کرے گا
(105) قطع رحمی عام ہو جائے گی ناحق مال لیا جائے گا ناحق خون بہائے جائیں گے سوالی چکر لگائیں گے مگر انہیں ملے گا کچھ بھی نہیں
(106) کتاب اللہ کو بیکار بنا دیا جائے گا اس پر عمل نہیں ہو گا اسلام غریب ہو جائے گا کینہ و بغض لوگوں میں عام ہو جائے گا آدمیوں کی عمر گھٹ جائے گی اچھے لوگوں پر تہمت لگائی جائے گی اونچی عمارتیں بنائی جائیں گی اولاد والے غمگین پھریں گے لوگ بلاوجہ ہلاک ہوں گے بانجھ عورتیں خوش ہوں گی جھوٹ عام سچ کم ہو گا خواہشات نفسانی کی پیروی کی جائے گی علم کم جہالت کی کثرت ہو گی بارشیں ذیادہ لیکن پیداوار کم ہو گی سردی میں کمی ہو گی فحاشی عام ہو جائے گی
(107) زمین لپیٹ دی جائے گی ( دور کے سفر آسان ہو جائیں گے جیسے آج کل ہوائی جہاز ٹرین بسیں وغیرہ ) خطباء جھوٹ بولیں گے حق کے خلاف شریر لوگوں کا ساتھ دیں گے ایسے لوگ جنت کی خوشبو نہ سونگھیں گے
(108) ایسی قوم پیدا ہو گی جو اپنی زبانوں سے ایسے کھائیں گے جیسے گائے زبانوں سے کھاتی ہے (اس سے مراد جھوٹی تعریف کرنے والے جیسا کہ آج کل میڈیا اور سیاست دان کرتے ہیں)
(109) لوگ جانوروں کی طرح راستوں پر عورتوں سے زنا کریں گے
(110) عورت دن میں کھلم کھلا زنا کراتی پائے جائے گی کوئی اسے برا نہیں سمجھے گا اس زمانہ میں جو لوگ انہیں صرف اتنا بهي کہیں گے کہ راستہ سے تھوڑا ہٹ کے یہ کام کر لو تو يه اس زمانه كے إعتبار سے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسے نیک لوگ ہوں گے
(111) قلوب ایک دوسرے سے اجنبی ہو جائیں گے لوگوں کی باتیں مختلف ہو جائیں گی ( ایک دوسرے کے منہ پر بات بدل بدل کے کریں گے ) لوگ دین میں ماں باپ کے خلاف ہو جائیں گے
(112) لوگ چھوکروں پر ایسے غیرت کریں گے جیسے لوگ اپنی بیویوں پر كرتے هيں ( چھوکروں سے غلط محبت کی وجہ سے دوسروں سے لڑیں گے)
55- اللہ تعالٰی كي طرف سے تین چیزوں کی کمی هو جائے گي
حلال کا روپیہ پیسہ - علم جس سے استفادہ ہو - اخوت فی سبیل اللہ
(113) صدقہ و خیرات کی کمی ہو جائے گی ، آبادیاں ویرانوں ميں اور ویرانے آباديوں ميں تبديل ہوں گے آدمی امانت سے ایسے کھیلے گا جیسے اونٹ سے تو اس وقت تم اور قیامت ان دو ( شہادت اور درمیان والی ) انگلیوں کی طرح ہو گے
(114) آئمہ (حکام) کا ظلم ، نجوم کی تصدیق ، قدر و قضا (تقدیر) کی تکذیب عام هو گي
(115) لوگ کہیں گے قرآن مخلوق ہے یاد رکھو يه نہ خالق هے نہ مخلوق ہاں وہ اللہ تعالٰی کا کلام ہے اسی سے ابتداء اسی کی طرف لوٹے گا 
(116) مکہ مکرمہ کا پیٹ چاک کرکے نہروں کی طرح بنادیا جائے گا اور اس کی عمارتیں پہاڑ کی چوٹیوں کے برابر ہوں گی جب ايسا هو جائے تو سمجهـ لينا كه معامله سر پر آ گيا هے
ذرا ابھی مکہ مكرمه کے موجودہ حالات اور عمارتوں کو دیکھیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ مکہ المکرمہ نے یہ زمانہ دیکھ لیا ہے۔ وہاں کی عمارات پہاڑوں سے اونچی ہوگئی ہیں اور مکہ مكرمه کے پہاڑوں کے بیچوں بیچ سرنگوں (Tunnels) کا جال بچھا دیا گیا ہے جن ميں ٹريفك رواں دواں هے بهلا وہ بات کیسے نہ پوری ہو جو نبی كريم نے فرمائی ہو ؟؟
(117) (دنیا کی ابتداء سے آخر دنیا تک ) کل پانچ جنگ عظیم ہونگی ، جن میں سے دو تو (اس امت سے پہلے ) گزر چکیں اور تین اس امت میں ہونگی ، ترک جنگ عظیم اور رومیوں سے جنگ عظیم اور دجال سے جنگ عظیم ۔ اور دجال والی جنگ عظیم کے بعد کوئی جنگ عظیم نہیں ہوگی۔
یعنی ٹوٹل پانچ بڑی جنگوں کا ہونا اس دنیا کی قسمت میں تھا۔۔ گو کہ دنیا کے شروع ہونے سے ختم ہونے تک ان گنت جنگیں اور لڑائیاں ہوئيں اور هونا هيں مگر جو انتہائی بڑی بڑی لڑائیاں اور جنگیں ہونی ہیں وہ پانچ ہیں۔ جن میں بہت لوگوں نے مرنا ہے۔ دو بڑی جنگیں تو حضورآكرم سے بھی پہلے ہوگئیں اور ایسا ہونا کوئی انوکھی یا انہونی بات ہرگز نہیں کیونکہ نبی کا تشریف لانا خود قیامت کی ہی علامت تھی اور آپ سے پہلے دنیا کی زیادہ مدت اور وقت تو مکمل ہو ہی چکا تھا تو دو بڑی جنگوں کا ہونا کوئی ایسی بات نہیں جسے تسلیم کرنے میں کسی کو کوئی مسئلہ یا پریشانی ہو۔۔ باقی رہ گئیں تین۔۔ جن میں سے دو مزید (پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم) بھی ہوچکی ہیں۔۔
اب آخری معرکہ یعنی آخری جنگ عظیم رہ گئی ہے۔۔ جس کی ابتداء امریکہ نے ایک ڈرامہ کے ذریعہ ۔۔ 2001-11-09 سے کردی هوئي هے ۔۔ پہلا حملہ مجاہدین کی سرزمین افغانستان پر کیا گيا اور دجال کے ایجنٹس نے کھل کر یہود و نصاریٰ کا ساتھ دیا۔ جن میں وہ بندہ سرفہرست ہے جس نے اسلام آباد میں مسجد اور مدرسه پر آپریشن کرکے اپنی عاقبت کو خراب کردیا اور پاکستان میں ایک نہ ختم ہونے والی دہشت گردی، جنگ و فساد کا بڑا دروازہ کھول دیا۔۔ اس کے بعد عراق پر حملہ ہوا۔۔ پھر اسرائیلیوں نے لبنان پر حملہ کیا۔۔ ابھی دجال کے حواری پاکستان (اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت) پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔۔ ایران ، شام ، مصر ، ترکی ان سب کے نمبر آئیں گے۔۔ شام میں بھی ظلم و ستم اور فساد ہو چکا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی احادیث کے مطابق وہیں آنا ہے جو حالات سامنے هيں ان سے وہ وقت اب زیادہ دور نہیں لگتا
(118) کچھ فتنے رات کی گھڑیوں كي طرح ظاهر هوں گے ( کہ ہر گھڑی پہلی سے زیادہ تاریک ہوتی ہے) ان فتنوں میں صبح کوآدمی مؤمن رہے گا، اور شام کو کافر ہوجائے گا، اور شام کو مومن رہے گا، اور صبح کو کافر ہوجائے گا، اس میں بیٹھا شخص کھڑے شخص سے بہتر ہو گا، اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا، (تو رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمايا كه تم ایسے فتنے کے وقت میں اپنی کمانیں توڑ دینا، ان کے تانت کاٹ ڈالنا، اور اپنی تلواروں کی دھار کو پتھروں سے مار کر ختم کر دینا ، پھر اگر اس پربھی کوئی تم میں سے کسی پر چڑھ آئے، تواسے چاہئے کہ وہ آدم کے نیک بیٹے (ہابیل ) کے مانند ہوجائے''۔
(119) عراق کے بہترین لوگ شام اور شام کے بدترین لوگ عراق میں چلے جائيں گے ( اور اللہ کے رسول نے فرمایا: ایسے حالات میں تم شام میں سکونت اختیار کرو۔)
اس روایت کے مطابق قیامت سے پہلے تمام اہل ایمان شام میں جمع ہو جائیں گے۔ مذکورہ بالا روایات اور اس جیسی روایات سے یہ ہدایت ملتی ہے کہ خیروشر کے آخری معرکہ میں اصل کردار جس خطہ ارضی نے ادا کرنا ہے وہ سرزمین بلادِ شام ہے۔ بلادِشام کی فضیلت واہمیت‘ اہل ایمان کو دورِ فتن میں سر زمین مقدس کی طرف ہجرت کی ترغیب وتشویق‘ تا قیامت بلادِ شام کو اللہ کی نصرت پر مبنی مسلمانوں کی علمی و سیاسی قیادت و سیادت کا مرکز قرار دینا‘ دورِ فتن میں بلادِ شام کو مسلمانوں کا وطن قرار دینا‘ ارضِ شام میں نزولِ عیسیٰ اور ظہورِ مہدی کی خبریں
اس وجہ سے آپ نے فرمایا: "تمہارا افضل رباط عسقلان ہے" جس میں اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ یہ رباط بلاد شام ہے اور بلاد شام کو کفار للچائی ہوئی نظروں سے دیکھیں گے، بلاد شام کی قدیم تاریخ کے مطالعےسے پتہ چلتا ہے کہ یہ سرزمین ہر زمانے میں اسٹرٹیجک اہمیت کی حامل رہی، اور اس پر کنٹرول حاصل کرنے سے مراد فلسطین کے شمالی وجنوبی اور مشرقی تمام علاقوں تک اپنا کنٹرول آسان کرنا ہے۔
قرآن کریم اور أحادیث نبویہ صلى الله عليه وآله وسلم میں ملک شام کی سرزمین کا بابرکت ہونا متعدد مقامات میں مذکور ہے۔ یہ مبارک سرزمین پہلی جنگ عظیم تک عثمانی حکومت کی سرپرستی میں ایک ہی خطہ تھی۔ بعد میں انگریزوں اوراہل فرانس کی سازشون نے اس سرزمین کو چار ملکوں(شام، لبنان، فلسطین اور اردن) میں تقسیم کرادیا،لیکن قرآن وسنت میں جہاں بھی ملک شام کا تذکرہ وارد ہوا ہے اس سے یہ پورا خطہ مراد ہے، جو عصر حاضر کے چار ملکوں (سوریا، لبنان، فلسطین اور اردن)پر مشتمل ہے۔
اسی مبارک سرزمین کے متعلق نبی اکرم کے متعدد ارشادات احادیث کی کتابوں میں محفوظ ہیں، مثلاً اسی مبارک سرزمین کی طرف حضرت امام مہدی حجاز مقدس سے ہجرت فرما کر قیام فرمائیں گے اور مسلمانوں کی قیادت فرمائیں گے۔ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا نزول بھی اسی علاقہ یعنی دمشق کے مشرق میں سفید مینار پر ہوگا۔ غرضیکہ یہ علاقہ قیامت سے قبل اسلام کا مضبوط قلعہ و مرکز بنے گا۔اسی مبارک سرزمین میں قبلہ اول واقع ہے، جس کی طرف نبی اکرم اور صحابہ کرام ؓنے تقریباً 16 یا18 ماہ نمازیں ادا فرمائی ہیں۔ مسجد حرام اور مسجد نبوی کے بعد سب سے بابرکت وفضیلت کی جگہ مسجد اقصیٰ ہے۔
 (120) مسجد کے اندر شور و غل اور دنیا کی باتیں ہوں گی۔
(121) نماز کی شرائط وارکان کا لحاظ کئے بغیر لوگ نمازیں پڑھیں گے۔ یہاں تک کہ پچاس میں سے ایک نماز بھی قبول نہ ہوگی، وغیرہ وغیرہ۔
(122) دنیا ظلم و جور سے پر ہوجائے گي ،ہر جگہ کفار کے مظالم بڑھ جائیں گے،
(123) مسلمانوں مين اختلاف اور آپسی خلفشار هو جائے گا اور وه اقتدار کے لیے آبس ميں لڑیں گے
(124) (كافر) قومیں مسلمانوں پر گدھوں کی مانند ٹوٹ پڑیں گی بلاد شام پر كنترول كرنے كے لئے کفار للچائی ہوئی نظروں سے دیکھیں گے (اور اس پر کنٹرول حاصل کرنے سے مراد فلسطین کے شمالی وجنوبی اور مشرقی تمام علاقوں تک اپنا کنٹرول آسان کرنا ہے۔)
(125) شام میں بگاڑ ہو جائے گا حدیث پاک میں ارشاد ہے ﺭﺳﻮﻝ اللّٰه صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :” ﺟﺐ ﺍﮨﻞِ ﺷﺎﻡ ﺗﺒﺎﮨﯽ ﻭ ﺑﺮﺑﺎﺩﯼ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﯿﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﻧﮧ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ
(126) مسلمانوں اور نصاریٰ میں صلح ہو گی، پھر نصاریٰ غدر کریں گے،
(127) مسلسل جنگیں ہوں گی، مسلمان ہر طرف سے مغلوب ہوجائیں گے، شام میں بھی عیسائیوں کی حکومت قائم ہوجائے گی،
(128)عرب میں بھی مسلمانوں کی باقاعدہ پُرشوکت حکومت نہیں رہے گی، خبیر کے قریب تک عیسائی پہنچ جائیں گے، اور اس جگہ تک ان کی حکومت قائم ہوجائے گی بچے کھچے مسلمان مدینہ منورہ پہنچ جائیں گے
(129) لوگوں کے دل میں یہ داعیہ پیدا ہوگا کہ اب امام مہدی کو تلاش کرنا چاہئے، ان کے ہاتھ پر بیعت کرکے ان کو امام بنالینا چاہئے، اس زمانے کے نیک لوگ، اولیاء اللہ اور اَبدال سب ہی امام مہدی کی تلاش میں ہوں گے، بعض جھوٹے مہدی بھی پیدا ہوجائیں گے ، اس وقت حضرت امام مہدی مدینہ منورہ میں ہوں گے، ، امام اس ڈر سے کہ لوگ انہیں حاکم اور امام نہ بنالیں، مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ آجائیں گے
(إمام مهدي كا ظهور علامات صغرى كي آخري اور علامات كبرى كي پهلي نشاني هو گا اس كے بعد پے در پے علامات كبرى ظاهر هوں گي)

Share: