علامات قيامت
علامات کبریٰ
مختلف احادیث کی روشنی میں علامات
قيامت
--------
قیامت سے پہلے بڑی بڑی علامتیں ظاہر
ہوں گی جن پر ایمان لانا ضروری ہےانھیں علامات کبریٰ کہا جاتا ہے
1- حضرت امام مہدی کا ظہور
قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں سب سے
پہلی علامت حضرت امام مہدی کا ظہور ہے، احادیث مبارکہ میں حضرت امام مہدی کا ذکر
بڑی تفصیل سے آیا ہے
آپ ؓ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ
عنہا کی نسل سے ہوں گے اور نجیب الطرفین(یعنی باپ اورماں دونوں کی طرف سے) سید ہوں
گے۔ ان کا نام نامی محمد اور والد کا نام عبداللہ اور والده كا نام آمنه هوگا۔مہدی
ان کا لقب ہوگا،جس کا مطلب ہے ہدایت یافتہ جس طرح صورت و سیرت میں بیٹا باپ کے
مشابہ ہوتا ہے اسی طرح وہ شکل و شباہت اور اخلاق و شمائل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ
وآله وسلم کے مشابہ ہوں گے۔وہ نبی نہیں ہوں گے، نہ ان پر وحی نازل ہوگی، نہ وہ
نبوت کا دعوی ٰکریں گے، نہ ان کو کوئی نبی کہے گا۔ امام مہدی مدینہ منورہ میں
پیدا ہوں گے مدینہ طیبہ میں هي ان كي تربیت ہوگی،
آخری زمانے میں جب مسلمان ہر طرف سے
مغلوب ہوجائیں گے، مسلسل جنگیں ہوں گی، شام میں بھی عیسائیوں کی حکومت قائم ہوجائے
گی، ہر جگہ کفار کے مظالم بڑھ جائیں گے، اس زمانے کے نیک لوگ، اولیاء اللہ اور
اَبدال سب ہی امام مہدی کی تلاش میں ہوں گے،، امام اس ڈر سے کہ لوگ انہیں حاکم اور
امام نہ بنالیں، مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ آجائیں گے، اور بیت اللہ شریف کا طواف
کر رہے ہوں گے، حجر اسود اور مقامِ ابراہیم کے درمیان ہوں گے کہ پہچان لئے جائیں
گے اور لوگ ان کو گھیر کر ان سے حاکم اور امام ہونے کی بیعت کرلیں گے، اسی بیعت کے
دوران ایک آواز آسمان سے آئے گی جس کو تمام لوگ جو وہاں موجود ہوں گے سنیں گے، وہ
آواز یہ ہوگی:
”یہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ اور حاکم
بنائے ہوئے امام مہدی ہیں“
جب ان سے بیعتِ خلافت ہوگی تو
روایات و آثار کے مطابق ان کی عمر چالیس برس کی ہوگی جب آپ کی بیعت کی شہرت
ہوگی تو مدینہ منورہ کی فوجیں مکہ معظمہ میں جمع ہوجائیں گی، شام، عراق اور یمن کے
اہل اللہ اور اَبدال سب آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور بیعت کریں گے۔ ایک فوج
حضرت امام مہدی سے لڑنے کے لئے آئے گی، جب وہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان
ایک جنگل میں پہنچے گی اور ایک پہاڑ کے نیچے ٹھہرے گی تو سوائے دو آدمیوں کے سب کے
سب زمین میں دھنس جائیں گے، امام مہدی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ آئیں گے، رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے روضہٴ مبارک کی زیارت کریں گے، پھر شام روانہ ہوں
گے، دمشق پہنچ کر عیسائیوں سے ایک خونریز جنگ ہوگی جس میں بہت سے مسلمان شہید
ہوجائیں گے، بالآخر مسلمانوں کو فتح ہوگی، امام مہدی ملک کا انتظام سنبھال کر
قسطنطنیہ فتح کرنے کے لئے عازمِ سفر ہوں گے۔ قسطنطنیہ فتح کرکے امام مہدی شام کے
لئے روانہ ہوں گے، شام پہنچنے کے کچھ ہی عرصے بعد دجال نکل پڑے گا، دجال شام اور
عراق کے درمیان میں سے نکلے گا اور گھومتا گھماتا دمشق کے قریب پہنچ جائے گا، نماز
کے وقت لوگ نماز کی تیاری میں مصروف ہوں گے کہ اچانک حضرت عیسیٰ علیہ السلام دو
فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے آسمان سے اُترتے ہوئے نظر آئیں گے، دجال حضرت
عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر بھاگے گا، بالآخر بابِ لُدّ پر پہنچ کر حضرت عیسیٰ
علیہ السلام دجال کا کام تمام کردیں گے، اس وقت رُوئے زمین پر کوئی کافر نہیں رہے
گا، سب مسلمان ہوں گے، حضرت امام مہدی کی عمر پینتالیس، اڑتالیس یا انچاس برس ہوگی
کہ آپ کا انتقال ہوجائے گا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کی نماز جنازہ پڑھائیں گے،
بیت المقدس میں انتقال ہوگا اور وہیں دفن ہوں گے
2- خروجِ دجال
قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں سے
دوسری علامت خروجِ دجال ہے جو تاریخ انسانیت کا سب سے بڑا فتنہ هو گا احادیث
مبارکہ میں دجال کا ذکر بڑی وضاحت سے آیا ہے، ہر نبی دجال کے فتنے سے اپنی اُمت کو
ڈراتا رہا ہے، حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآله سلم نے اس کی نشانیاں بھی بیان
فرمائی ہیں، دجال کا ثبوت احادیث متواترہ اور اِجماعِ اُمت سے ہے۔
دجال یہودیوں کی نسل سے ہوگا جس کا
قد ٹھگنا ہو گا ،دونوں پاؤں ٹیڑھے ہونگے ۔ جسم پر بالوں کی بھر مار ہوگی ، رنگ سرخ
یا گندمی ہو گا سر کے بال حبشیوں کی طرح ہونگے،ناک چونچ کی طرح ہوگی، بائیں آنکھ
سے کانا ہو گا دائیں آنکھ میں انگور کے بقدر ناخنہ ہو گا۔ اس کے ماتھے پر ک، ا، ف،
ر لکھا ہوگا، جسے ہر مسلمان بآسانی پڑھ سکے گا ،
دجال شام اور عراق کے درمیان میں سے
نکلے گا، شروع میں وہ ایمان واصلاح کا دعویٰ لے کر اٹھے گا، لیکن جیسے ہی تھوڑے
بہت متبعین میسر ہوں گے وہ نبوت اور پھر خدائی کا دعویٰ کرے گا۔ یہاں سے اصفہان
پہنچے گا، اصفہان کے ستر ہزار یہودی اس کے ساتھ ہوجائیں گے، پھر خدائی کا دعویٰ
شروع کردے گا اور اپنے لشکر کے ساتھ زمین میں فساد مچاتا پھرے گا،۔ایک قدم تاحد
نگاہ مسافت کو طے کرلے گا دجال پکا جھوٹا اور اعلی درجہ کا شعبدے باز ہو گا، اس کے
پاس غلوں کے ڈھیر اور پانی کی نہریں ہو نگی، زمین میں مدفون تمام خزانے باہر نکل
کر شہد کی مکھیوں کی مانند اس کے ساتھ ہولیں گے ۔جو قبیلہ اس کی خدائی پر ایمان
لائے گا دجال اس پر بارش برسائے گا جس کی وجہ سے کھانے پینے کی چیزیں ابل پڑیں
گے،درختوں پر پھل آجائیں گے،
کچھ لوگوں سے آکر کہے گا کہ اگر میں
تمہارے ماں باپوں کو زندہ کر دوں تو تم کیا میری خدائی کا اقرار کرو گے؟ لوگ اثبات
میں جواب دیں گے ۔اب دجال کے شیطان ان لوگوں کے ماں باپوں کی شکل لے کر نمودار ہوں
گے نتیجتاً بہت سے افراد ایمان سے ہاتھ دھوبیٹھیں گے۔ اس کی رفتار آندھیوں سے
زیادہ تیز اور بالوں کی طرح رواں ہو گی، وہ کرشموں اور شعبدہ بازیوں کو لے کر دنیا
کے ہر ہر چپہ کو روندے گا، تمام دشمنانِ اسلام اور دنیا بھر کے یہودی امت مسلمہ کے
بغض میں اس کی پشت پناہی کر رہے ہوں گے
زمین پر اس کا قیام چالیس دن ہوگا،
جس ميں ایک دن ایک سال دوسرا ایک مہینہ اور تیسرا ایک ہفتہ کے برابر ہوگا بقیہ
معمول کے مطابق ہوں گے،اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ سے مختلف خرقِ عادت اُمور اور شعبدے
ظاہر فرمائیں گے، وہ لوگوں کو قتل کرکے زندہ کرے گا، وہ آسمان کو حکم کرے گا آسمان
بارش برسائے گا، زمین کو حکم کرے گا زمین غلہ اُگائے گی، ایک ویرانے سے گزرے گا
اور اسے کہے گا: اپنے خزانے نکال! وہ اپنے خزانے باہر نکالے گی، پھر وہ خزانے شہد
کی مکھیوں کی طرح اس کے پیچھے پیچھے چلیں گے، آخر میں ایک شخص کو قتل کرے گا، پھر
زندہ کرے گا، اس کو دوبارہ قتل کرنا چاہے گا تو نہیں کرسکے گا -
دجال پوری زمین کا چکر لگائے گا،
کوئی شہر ایسا نہیں ہوگا جہاں دجال نہیں جائے گا، سوائے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ
کے، کہ ان دو شہروں میں فرشتوں کے پہرے کی وجہ سے وہ داخل نہیں ہوسکے گا، بہت سے
ملکوں سے ہوتا ہوا یمن تک پہنچے گا، بہت سے گمراہ لوگ اس کے ساتھ ہوجائیں گے، یہاں
سے مکہ مکرمہ کے لئے روانہ ہوگا، مکہ مکرمہ کے قریب آکر ٹھہرے گا، مکہ مکرمہ کے
گرد فرشتوں کا حفاظتی پہرہ ہوگا، جس وجہ سے وہ مکہ مکرمہ میں داخل نہ ہوسکے گا،
پھر مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہوگا یہاں بھی فرشتوں کا حفاظتی پہرہ ہوگا، دجال
مدینہ منورہ میں بھی داخل نہ ہوسکے گا، اس وقت مدینہ منورہ میں تین مرتبہ زلزلہ
آئے گا جس سے کمزور ایمان والے گھبرا کر مدینہ منورہ سے باہر نکل جائیں گے اور
دجال کے فتنے میں پھنس جائیں گے۔
مدینہ منورہ میں ایک اللہ والے دجال
سے مناظرہ کریں گے، دجال انہیں قتل کردے گا، پھر زندہ کرے گا، وہ کہیں گے اب تو
تیرے دجال ہونے کا پکا یقین ہوگیا ہے، دجال انہیں دوبارہ قتل کرنا چاہے گا مگر
نہیں کرسکے گا۔ یہاں سے دجال شام کے لئے روانہ ہوگا، دمشق کے قریب پہنچ جائے گا،
یہاں حضرت امام مہدی پہلے سے موجود ہوں گے کہ اچانک آسمان سے حضرت عیسیٰ اُتریں
گے، حضرت امام مہدی تمام انتظامات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے کرنا چاہیں گے
وہ فرمائیں گے منتظم آپ ہی ہیں، میرا کام دجال کو قتل کرنا ہے-
اگلی صبح حضرت عیسیٰ مسلمانوں کے
لشکر کے ساتھ دجال کے لشکر کی طرف پیش قدمی فرمائیں گے، گھوڑے پر سوار ہوں گے،
نیزہ ان کے ہاتھ میں ہوگا، دجال کے لشکر پر حملہ کردیں گے، بہت گھمسان کی لڑائی
ہوگی، حضرت عیسیٰ کے سانس میں یہ تاثیر ہوگی کہ جہاں تک ان کی نگاہ جائے گی وہیں
تک سانس پہنچے گا اور جس کافر کو آپ کے سانس کی ہوا لگے گی وہ اسی وقت مرجائے گا-
دجال حضرت عیسیٰ کو دیکھ کر بھاگنا شروع کردے گا، آپ اس کا پیچھا کریں گے ”بابِ
لُدّ“ پر پہنچ کر دجال کو قتل کردیں گے اس طرح دجال كا يه فتنه ختم هو جائے گا
3- حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذات
مقدسہ اس لحاظ سے یگانہ ہے کہ بغير باپ كے آپ کی ولادت باسعادت کا واقعہ معجزانہ
طور پر ہوا۔ آپ کا زندہ آسماں پر جانا بھی خارقِ عادت اور حیرت انگیز معجزہ کی
حیثیت میں وقوع پذیر ہوا، اور قیامت کے قریب آپ کا نزول بھی ایک زبردست معجزانہ
حیثیت کا حامل ہوگا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام وجیہ الشکل،
درمیانے قد و قامت اور سفید سرخی مائل رنگت کے ہوں گے۔ ان کے سر کے بالوں کی
لمبائی دونوں شانوں تک ہو گی۔ ان کے بالوں کا رنگ بہت سیاہ، چمکدار جیسے نہانے کے
بعد ہوتے ہیں۔ بال سیدھے یعنی پیچدار نہ ہوں گے۔ صحابہ کرام رضوان الله عليهم میں
سے حضرت عروہ بن مسعود رضي الله تعالى عنه کے مشابہ ہوں گے۔ حضرت کے خصائص و
معجزات میں یہ بات شامل ہے کہ وہ بحکم خداوندی مُردوں کو زندہ کرتے۔ برص کے بیمار
کو تندرستی دیتے۔ بحکم خداوندی مادر زاد اندھے کو شفا بخشتے، مٹی کی چڑیوں میں
اللہ تعالیٰ کے حکم سے جان ڈالتے۔
یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام
کے قتل کا ارادہ کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کی اور کفار کے نرغہ کے وقت
آپ کو آسمان پر زندہ اٹھا لیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قرب قیامت ميں خروج دجال كے
بعد آسمان سے واپس زمین پر تشریف لائیں گے۔ نزول کے وقت آپ کے جسم پر زرد رنگ کی
دو چادریں ہوں گی۔ جن میں سے ایک کو تہ بند بنا کر باندھا ہوا ہوگا، دوسرے چادر کے
طور پر اوڑھ رکھا ہوگا جب سر جھکائیں گے تو اس سے چاندی کے موتی کی طرح پانی کے
قطرے ٹپکیں گے۔ آپ کے سر پر ایک لمبی ٹوپی ہوگی۔ آپ زرہ پہنیں گے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول سے
پہلے ایک رومی لشکر مقام اعماق یا وابق میں اترے گا۔ ان سے جہاد کے لیے مدینہ
منوره سے ایک لشکر چلے گا۔ یہ لشکر اپنے زمانہ کے بہترین لوگوں کي جماعت ہوگي۔ اس
جہاد میں لوگوں کے تین حصے ہو جائیں گے۔ ایک تہائی حصہ شکست کھائے گا۔ ایک تہائی
شہید ہو جائے گا۔ اور ایک تہائی فتح پائیں گے۔ قسطنطنیہ فتح ہو جائے گا۔ جس وقت وہ
مال غنیمت تقسیم کرنے میں مشغول ہوں گے تو خروجِ دجال کی غلط خبر مشہور ہو جائے
گی۔ لیکن جب لوگ ملک شام واپس آئیں گے تو دجال نکل آئے گا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول کے وقت
دونوں ہاتھ فرشتوں کے کندھوں پر رکھے ہوئے اتریں گے۔ ۔ ۔ آپ کا نزول مرکزی جامع
مسجد کے شرقی (سفید) مینارہ کے قریب ہوگا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول سے چند
منٹ پہلے لوگ نماز کے لیے اپنی صفیں درست کر رہے ہوں گے۔ اس وقت اس جماعت کے امام
حضرت مہدی ہوں گے۔ ان کی تشریف آوری پر امام مہدی (جو مصلے پر جاچکے ہوں گے) پیچھے
ہٹ جائیں گے اور ان سے امامت کی درخواست کریں گے، مگر آپ علیہ السلام امام مہدی کو
حکم فرمائیں گے کہ نماز پڑھائیں کیونکہ اس نماز کی اقامت آپ کے لیے ہوئی ہے جب
حضرت مہدیؓ پیچھے ہٹنے لگیں گے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کی پشت پر ہاتھ رکھ
کر انھیں امام بنائیں گے۔ پھر حضرت امام مہدی نماز پڑھائیں گے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام چالیس یا
پینتالیس برس زمین پر رہیں گے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نکاح بهي کریں گے۔ ان كي
اولاد بھی ہوگی۔ ایک روایت کے مطابق آپ کے دو صاحبزادے ہوں گے۔ نزول کے بعد حضرت
عيسى عليه السلام صلیب توڑیں گے۔ یعنی صلیب پرستی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔
خنزیر کو قتل کریں گے یعنی نصرانیت کو مٹائیں گے۔ آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ دجال
اور یہودیوں کے ساتھ جہاد کریں گے۔ آپ دجال کو ارض فلسطین میں مقام لُد پر قتل
کریں گے۔ اس وقت آپ کے سانس کی ہوا اتنی دور تک پہنچے گی، جہاں تک آپ کی نظر جائے
گی۔ جس کسی کافر پر آپ کے سانس کی ہوا پہنچ جائے گی، وہ مر جائے گا ادهر مسلمانوں
کا ایک لشکر ہندوستان سے جہاد کرے گا اور اس کے بادشاہوں کو قید کرے گا۔ یہ لشکر
اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول و مغفور ہوگا۔ جس وقت یہ لشکر واپس ہوگا تو عیسیٰ علیہ
السلام کو ملک شام میں پائے گا۔
اس کے بعد تمام دنیا مسلمان ہو جائے
گی۔ جو یہودی باقی ہوں گے، چن چن کر قتل کر دیے جائیں گے۔ کسی یہودی کو کوئی چیز
پناہ نہ دے سکے گی۔ یہاں تک کہ درخت اور پتھر بول اٹھیں گے کہ ہمارے پیچھے یہودی
چھپا ہوا ہے۔ اس وقت اسلام کے سوا تمام مذاہب مٹ جائیں گے۔ اور جہاد موقوف ہو جائے
گا کیونکہ کوئی کافر ہی نہ رہے گا اور اس لیے جزیہ اور خراج کا حکم بھی باقی نہ
رہے گا۔ مال و زر لوگوں میں اتنا عام ہو جائے گا کہ کوئی (صدقہ یا زکوٰۃ کی شکل
میں) قبول نہ کرے گا۔ ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حج یا عمرہ یا دونوں کریں گے۔ رسول
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اقدس پر بھی حاضری دیں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ
السلام قرآن و سنت پر خود بھی عمل کریں گے اور لوگوں کو بھی اس پر چلائیں گے۔ہر
قسم کی دینی اور دنیوی برکات نازل ہوں گی۔ سب کے دلوں سے بغض و حسد اور کینہ نکل
جائے گا۔ ایک انار اتنا بڑا ہوگا کہ ایک جماعت کے لیے کافی ہوگا۔ ایک دودھ دینے
والی اونٹنی لوگوں کی ایک جماعت کے لیے کافی ہوگی۔ ایک بکری ایک قبیلہ کے لیے کافی
ہوگی۔ ہر ڈنک والے زہریلے جانور کا ڈنک وغیرہ نکال لیا جائے گا، یہاں تک کہ اگر
ایک بچہ سانپ کے منہ میں ہاتھ دے گا تو وہ اس کو نقصان نہ پہنچائے گا۔ ایک لڑکی
شیر کے دانت کھول کر دیکھے گی اور وہ اس کو کوئی تکلیف نہ پہنچا سکے گا۔ بھیڑیا
بکریوں کے ساتھ ایسا رہے گا جیسا کتا ریوڑ کی حفاظت کے لیے رہتا ہے۔ ساری زمین امن
و امان سے اس طرح بھر جائے گی جیسے برتن پانی سے بھر جاتا ہے۔ صدقات کا وصول کرنا
چھوڑ دیا جائے گا۔
پھر مدينه منوره ميں اُن کا انتقال
ہوگا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مبارک میں دفن ہوں گے۔ متعدد روایات
میں یہ مضمون وارد ہے کہ اسی حجرۂ مبارک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور
حضرات شیخین رضی اللہ عنہم کی تین قبورِ مبارکہ کے ساتھ چوتھی قبر حضرت عیسیٰ علیہ
السلام کی بھی ہوگی اور وہ روزِ حشر انہی کے ساتھ محشور ہوں گے۔
4- یاجوج وماجوج كا ظهور
یاجوج ماجوج كا ظاهر هونا قيامت كي
علامات کبریٰ ميں سے ايك علامت هے
امام مہدی کے انتقال کے بعد تمام انتظامات
حضرت عیسیٰ عليه السلام کے ہاتھ میں ہوں گے اور نہایت سکون و آرام سے زندگی بسر ہو
رہی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ عليه السلام پر وحی نازل فرمائیں گے کہ میں
ایک ایسی زبردست قوم ( یاجوج ماجوج ) كو نکالنے والا ہوں جس کے ساتھ کسی کو مقابلے
کی طاقت نہیں ہے، آپ میرے بندوں کو کوہِ طور پر لے جائیں،
قرآن پاک میں دو مقامات پر یاجوج
ماجوج کا ذکر آیا ہے ایک سورۃ الکہف میں دوسرے مقام سورۃ الانبیاء میں جو درج ذیل
ہے:
قَالُوا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ
إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ
خَرْجًا عَلَى أَن تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّاo قَالَ مَا
مَكَّنِّي فِيهِ رَبِّي خَيْرٌ فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ
وَبَيْنَهُمْ رَدْمًاo آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ حَتَّى إِذَا
سَاوَى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انفُخُوا حَتَّى إِذَا جَعَلَهُ نَارًا قَالَ
آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًاo فَمَا
اسْطَاعُوا أَن يَظْهَرُوهُ وَمَا اسْتَطَاعُواْ لَهُ نَقْبًاo قَالَ هَذَا
رَحْمَةٌ مِّن رَّبِّي فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَّاءَ وَكَانَ
وَعْدُ رَبِّي حَقًّاo وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ
فِي بَعْضٍ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعْنَاهُمْ جَمْعًاo (الکهف)
انہوں نے کہا: اے ذوالقرنین! بیشک
یاجوج اور ماجوج نے زمین میں فساد بپا کر رکھا ہے تو کیا ہم آپ کے لئے اس (شرط) پر
کچھ مالِ (خراج) مقرر کردیں کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک بلند دیوار بنا دیںo (ذوالقرنین
نے) کہا: مجھے میرے رب نے اس بارے میں جو اختیار دیا ہے (وہ) بہتر ہے، تم اپنے
زورِ بازو (یعنی محنت و مشقت) سے میری مدد کرو، میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک
مضبوط دیوار بنا دوں گاo تم مجھے لوہے کے بڑے بڑے ٹکڑے لا دو، یہاں
تک کہ جب اس نے (وہ لوہے کی دیوار پہاڑوں کی) دونوں چوٹیوں کے درمیان برابر کر دی
تو کہنے لگا: (اب آگ لگا کر اسے) دھونکو، یہاں تک کہ جب اس نے اس (لوہے) کو (دھونک
دھونک کر) آگ بنا ڈالا تو کہنے لگا: میرے پاس لاؤ (اب) میں اس پر پگھلا ہوا تانبا
ڈالوں گاo پھر ان (یاجوج اور ماجوج) میں نہ اتنی طاقت
تھی کہ اس پر چڑھ سکیں اور نہ اتنی قدرت پا سکے کہ اس میں سوراخ کر دیںo (ذوالقرنین
نے) کہا: یہ میرے رب کی جانب سے رحمت ہے، پھر جب میرے رب کا وعدہ (قیامت قریب) آئے
گا تو وہ اس دیوار کو (گرا کر) ہموار کردے گا (دیوار ریزہ ریزہ ہوجائے گی)، اور
میرے رب کا وعدہ برحق ہےo اور ہم اس وقت (جملہ مخلوقات یا یاجوج اور
ماجوج کو) آزاد کر دیں گے وہ (تیز و تند موجوں کی طرح) ایک دوسرے میں گھس جائیں گے
اور صور پھونکا جائے گا تو ہم ان سب کو (میدانِ حشر میں) جمع کرلیں گےo
حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ
وَمَأْجُوجُ وَهُم مِّن كُلِّ حَدَبٍ يَنسِلُونَo ( الانبياء)
یہاں تک کہ جب یاجوج اور ماجوج کھول
دیئے جائیں گے اور وہ ہر بلندی سے دوڑتے ہوئے اتر آئیں گےo
ياجوج و ماجوج یافث بن نوح کی اولاد
میں سے ہيں، شمال کی طرف بحر منجمد سے آگے یہ قوم آباد ہے، ان کی طرف جانے والا
راستہ پہاڑوں کے درمیان ہے، جس کو حضرت ذوالقرنین رحمه الله نے تانبا پگھلا کر
لوہے کے تختے جوڑ کر بند کردیا تھا، بڑی طاقت ور اور كثير التعداد قوم ہے دو
پہاڑوں کے درمیان نہایت مستحکم آہنی دیوار کے پیچھے بند ہے،ایک روایت میں ہے کہ یاجوج
ماجوج ہر روز اس دیوار کو کھودتے ہیں۔ جب تھوڑی سي رہ جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ کل آ
کر توڑ لیں گے۔ اللہ تعالیٰ شب بھر میں پھر اس کو ویسا ہی مضبوط کر دیتے ہیں۔ جب
اللہ تعالیٰ اس کو کھولنے کا ارادہ فرمائیں گے تو اس روز جب محنت کر کے آخری حد
میں پہنچا دیں گے اس دن یوں کہیں گے کہ ان شاء اللہ کل اس کو توڑلیں گے۔ اللہ کے
نام اور اس کی مشیت پر موقوف رکھنے سے آج توفیق ہو جائے گی تو دیوار کا باقی ماندہ
حصہ اپنی حالت پر ملے گا اور وہ اس کو توڑ کر نکل پڑیں گے۔ یہ قوم باہر نکل آئے گی
اور ہر طرف پھیل جائے گی اور فساد برپا کرے گی۔ یاجوج ماجوج آہنی دیوار ٹوٹنے کے
بعد ہر بلندی سے دوڑتے ہوئے نظر آئیں گے، امام احمد کی روایت ہے جس بستی پر گذریں
گے اس کو تباہ کریں گے ، جس پانی پر سے گذریں گے اسے پی جائیں گے جب ان کی پہلی
جماعت بحیرہٴ طبریہ پر سے گزرے گی تو اس کا سارا پانی پی جائے گی، جب دوسری جماعت
گزرے گی تو وہ کہے گی: ”شاید اس میں کسی زمانے میں پانی ہو گا۔“ ۔ مسلم کی حدیث
میں ہے وہ کہیں گے اب زمین والوں کو تو ہم مار چکے ، لاؤ آسمان والوں کو بھی
ماریں۔ پھر آسمان کی طرف تیر ماریں گے۔ اللہ تعالیٰ ان تیروں کو خون سے رنگ کر
لوٹا دے گا۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے ، وہ کہیں گے اب ہم آسمان
والوں پر بھی غالب ہوئے۔ ایک روايت میں ہے کہ وہ زمین کے سب جانور سانپ، بچھو ،
ہاتھی اور سور تک بھی کھا جائیں گے اور ابھی ان کا مقدمہ الجیش شام میں ہو گا تو
ساقہ (لشکر کا آخری حصہ ) خراساں میں لیکن اللہ تعالى مکہ مكرمه , مدینہ منوره اور
بیت المقدس کو ان سے بچائے رکھے گا۔
یاجوج وماجوج کی وجہ سے حضرت عیسیٰ
عليه السلام اور مسلمان بڑی تکلیف میں ہوں گے، کھانے کی قلّت کا یہ عالم ہوگا کہ
بیل کا سر سو دینار سے بھی قیمتی اور بہتر سمجھا جائے گا، حضرت عیسیٰ عليه السلام
یاجوج وماجوج کے لئے بددُعا کریں گے، اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں میں ایک بیماری
پیدا فرما دیں گے جس سے سارے ياجوج وماجوج مرجائیں گے، جب عیسیٰ علیہ السلام مع
اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اتریں گے تو ان کی بدبو اور خون کی وجہ سے ایک بالشت بھی
جگہ خالی نہیں پائیں گے پھر آپ اور ان کے ساتھی دعا مانگیں گے توالله تعالیٰ لمبی
گردن والے اونٹوں کی مثل پرندے بھیجے گا جو انہیں اٹھا کر جہاں اللہ تعالیٰ چاہیں
گے پھینک دیں گے، پھر موسلا دھار بارش ہوگی جو ہر جگہ ہوگی کوئی مکان یا کوئی
علاقہ ایسا نہیں ہوگا جہاں پر یہ بارش نہ پہنچے، وہ بارش پوری زمین دھوکر صاف و
شفاف کردے گی اور بدبو ختم ہوجائے گی۔زمین دھل دھلا کر ہتھیلی کی طرح صاف ہو جائے
گی۔ پھر بحکم اللہ اپنی برکتیں اگا دے گی۔ اس دن ایک جماعت کی جماعت ایک انارسے
سیر ہو جائے گی اور اس کے چھلکے تلے سایہ حاصل کر لے گی۔ ایک اونٹنی کا دودھ لوگوں
کی ایک جماعت کو ایک گائے کا دودھ ایک قبیلے کو اور ایک بکری کا دودھ ایک گھرانے
کو کافی ہوگا
5- دخان ( دُھوئیں کا ظاہر ہونا)
قرب قيامت كي علامتوں ميں سے ايك
علامت تمام زمين پر دهوئيں كا چها جانا هے چنانچہ وہ ایک بڑا دھواں ہوگا جو ظاہر
ہو کر مشرق سے مغرب تک تمام زمین پر چھا جائے گا اور مسلسل چالیس روز تک چھایا رہے
گا اس کی وجہ سے تمام لوگ سخت پریشان ہو جائیں گے ، مسلمان تو صرف دماغ وحواس کی
کدورت اور زکام میں مبتلا ہوں گے مگر منافقین وکفار بیہوش ہو جائیں گے اور ان کے
ہوش وحواس اس طرح مختل ہو جائیں گے کہ بعضوں کو کئی دن تک ہوش نہیں آئے گا بعض ایک
دن بعض دو دن اور بعض تین دن کے بعد ہوش میں آئیں گے واضح رہے کہ قرآن کریم میں جو
یہ فرمایا گیا ہے
"(فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي
السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ ( 10 ) 📷
تو اس دن کا انتظار کرو کہ آسمان سے
صریح دھواں نکلے گا
يَغْشَى النَّاسَ ۖ هَٰذَا عَذَابٌ
أَلِيمٌ ( 11 ) 📷
جو لوگوں پر چھا جائے گا۔ یہ درد
دینے والا عذاب ہے( الدخان)
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور
ان کے تابعین کے قول کے مطابق ان آیات میں اسی دھوئیں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو
قرب قيامت ميں هوگا اور اس حديث مباركه سے بهي اس كي تائيد هوتي هے جس ميں رسول
كريم صلى الله عليه و آله وسلم نے قيامت كي دس بڑي علامتوں كا ذكر فرمايا تو اس
ميں دخان يعني دهوئيں كا بهي ذكر فرمايا حديث مباركه مندرجه زيل هے
"حضرت حذیفہ بن اسید غفاری
بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے ہم اس
وقت مذاکرہ کر رہے تھے‘ آپ نے پوچھا تم کس چیز کا ذکر کر رہے ہو؟ صحابہ رضوان الله
عليهم نے کہا ہم قیامت کا ذکر کر رہے ہیں‘ آپ نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم
نہیں ہوگی جب تک تم دس علامتیں نہ دیکھ لو پھر آپ نے دخان (دھوئیں) دجال‘ دابۃ
الارض‘ سورج کا مغرب سے طلوع‘ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا نزول‘ یاجوج ماجوج‘
تین بار زمین کا دھنسنا (مشرق میں دھنسنا‘ مغرب میں دھنسنا‘ جزیرۃ العرب میں
دھنسنا) اور اس کی آخری علامت آگ ہوگی جو یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو محشر کی طرف
لے جائے گی"
جهاں تك علامات قيامت (كبرى) كے
وقوع پذير هونے كي ترتيب كا تعلق هے اس بارے چونكه روايات ميں إختلاف پايا جاتا هے
اس لئے يه الله تعالى هي جانتے هيں كه ان كي ترتيب كيا هوگي البته همارے لئے اتنا
ايمان ركهنا ضروري هے كه قرآن و حديث ميں قيامت كي جو علامتيں ذكر هوئي هيں وه هر
صورت هو كر رهيں گي
6- خسف يعني زمین کا دھنسنا
قرب قيامت كي علامتوں ميں سے ايك
علامت خسف يعني زمین کا دھنسنا بهي هے زمین کا دھنسنا تین بار هو گا ايك مرتبه
مشرق میں ‘ ايك مرتبه مغرب میں اور ايك مرتبه جزیرۃ العرب میں چنانچه حديث مباركه
ميں هے
" حضرت حذیفہ بن اسید رضی الله
تعالى عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ہماری طرف اپنے کمرے
سے جھانکا، اس وقت ہم قیامت کا ذکر کر رہے تھے، تو آپ نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک
قائم نہیں ہو گی جب تک تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو! مغرب (پچھم) سے سورج کا نکلنا،
یاجوج ماجوج کا نکلنا، دابہ (جانور) کا نکلنا، تین بار زمین کا دھنسنا: ایک پورب
میں، ایک پچھم میں اور ایک جزیرہ عرب میں، عدن کے اندر سے آگ کا نکلنا جو لوگوں
کو ہانکے یا اکٹھا کرے گی، جہاں لوگ رات گزاریں گے وہیں رات گزارے گی اور جہاں لوگ
قیلولہ کریں گے وہیں قیلولہ کرے گی۔
(صحیح مسلم، سنن ابی داود، سنن ابن
ماجہ و مسند احمد)
ايك دوسري حديث ميں مقام بيداء یا
بیداء کی سر زمین میں ايك لشكر كے زمين ميں دهنسنے كا ذكر هے
"ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی
اللہ تعالى عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا:
”لوگ اللہ کے اس گھر پر حملہ کرنے
سے باز نہ آئیں گے حتیٰ کہ ایک لشکر لڑنے کے لیے آئے گا، جب وہ لوگ مقام بیداء
یا بیداء کی سر زمین میں پہنچیں گے، تو اول سے لے کر اخیر تک تمام زمین میں دھنسا
دیئے جائیں گے، اور ان کے درمیان والے بھی نہیں بچیں گے“۔ میں نے عرض کیا: اگر ان
میں سے کوئی ایسا بھی ہو جسے زبردستی اس لشکر میں شامل کیا گیا ہو؟ تو آپ صلی اللہ
علیہ وآله وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انہیں اپنی اپنی نیت کے موافق
اٹھائے گا“۔ ( سنن الترمذي - مسند احمد )
7- سورج کا مغرب سے طلوع ہونا:
قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں سے ایک
بڑی علامت سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ہے، قرآنِ کریم اور احادیث مبارکہ میں اس کا
ذکر موجود ہے۔ دُھویں کے ظاہر ہونے اور زمین دھنس جانے کے واقعات کے بعد ذوالحجہ
کے مہینے میں دسویں ذوالحجہ کے بعد اچانک ایک رات بہت لمبی ہوگی کہ مسافروں کے دل
گھبرا کر بے قرار ہوجائیں گے، بچے سو سو کر اُکتا جائیں گے، جانور باہر کھیتوں میں
جانے کے لئے چلانے لگیں گے، تمام لوگ ڈر اور گھبراہٹ سے بے قرار ہوجائیں گے، جب
تین راتوں کے برابر وہ رات ہوچکے گی تو سورج ہلکی سی روشنی کے ساتھ مغرب کی طرف سے
طلوع ہوگا اور سورج کی حالت ایسی ہوگی جیسے اس کو گہن لگا ہوتا ہے، اس وقت توبہ کا
دروازہ بند ہوجائے گا اور کسی کا ایمان یا گناہوں سے توبہ قبول نہ ہوگی، سورج
آہستہ آہستہ اُونچا ہوتا جائے گا، جب اتنا اُونچا ہوجائے گا جتنا دوپہر سے کچھ
پہلے ہوتا ہے تو واپس مغرب کی طرف غروب ہونا شروع ہوجائے گا اور معمول کے مطابق
غروب ہوجائے گا، پھر حسب معمول طلوع و غروب ہوتا رہے گا۔
جنانجه ارشاد ربانی ہے،
يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ
رَبِّكَ لَا يَنفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِن قَبْلُ أَوْ
كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا ۗ(الأنعام)جس دن تیرے رب کی نشانیاں آ پڑیں گی، اس وقت کسی متنفس کے لیے اس
کا ایمان قبول کر لینا سود مند نہ ہو گا، کیونکہ وہ پہلے نہ تو ایمان رکھتا تھا
اور نہ ہی اپنے ایمان سے کسی اچھائی کو حاصل کیا،
اسي طرح حديث مباركه ميں هے
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى
تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا ، فَإِذَا رَآهَا النَّاسُ آمَنَ مَنْ
عَلَيْهَا ، فَذَاكَ حِينَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ
مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا ۗ ).رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و سلم نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ
ہو، پھر اس کے بعد جب وہ طلوع ہو گا، تو لوگ اسے دیکھتے ہی ایمان لے آئيں گے، مگر
یہ ایسا مرحلہ ہو گا جب کسی نفس کے لیے اس کا ایمان قبول کر لینا سودمند نہ ہو گا،
کیونکہ اس سے پہلے نہ تو اس نے ایمان قبول کیا تھا اور نہ ہی اپنے ایمان سے کسی
اچھائی کو حاصل کیا تھا، (صحیح بخاری) اسی طرح جو شخص اس علامت کے ظہور سے پہلے
فوت ہو جائے، تو اس کے لیے بھی ایک وقت مؤجل ہے، جس کے بعد اس کا ایمان اور اس کی
توبہ قبول نہ ہو گی، جیسا کہ حدیث مباركه میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و
سلم نے فرمایا :
"إِنَّ الله
عزَّ وجَلَّ يقْبَلُ توْبة العبْدِ مَالَم
يُغرْغرِ".
اللہ تعالٰی اپنے بندے کی توبہ اس
وقت تک قبول کرتا ہے، جب تک اس کی روح حلق میں نہ آ جائے یعنی ہچکی نہ بند جائے،
(سنن ترمذی)
سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کی کیا
کیفیت ہوگي؟ اس سے متعلق سیدنا ابو ذر رضی اللہ تعالى عنہ سے مروی ایک حدیث ہے
” کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآله
وسلم نے فرمایا کیا تجھے معلوم ہے جب سورج غروب ہوتا ہے تو کہاں جاتا ہے؟ میں نے
کہا‘ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآله وسلم کو علم ہے۔ آپ نے فرمایا سورج
عرش کے نیچے جا کر سجدہ کرتا ہے اور اجازت طلب کرتا ہے اسے اجازت مل جاتی ہے۔ قریب
ہے کہ وہ سجدہ کرے گا اور اس کا سجدہ قبول نہ ہو۔ وہ طلوع ہونے کی اجازت طلب کرے
گا اور اس کو اجازت نہ ملے اسے حکم ہو جدھر سے آیا اسی طرف سے طلوع ہوجا۔ چنانچہ
سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سورج اپنے مستقر کی طرف
چلا جاتا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کا ٹھکانا عرش کے نیچے
ہے۔“ [ رواہ البخاری ]
8- دابۃالارض کا زمین سے نکلنا:
قیامت کی بڑی علامتوں میں سے ایک
بڑی علامت دابة الارض کا زمین سے نکلنا ہے، اس کا ذکر قرآنِ کریم اور احادیث
مبارکہ میں موجود ہے۔ دابۃ الارض کا لفظی معنی تو ہوتا ہے زمین کا چوپایہ ۔ اور اس
سے مراد دیمک ہوتی ہے جو لکڑی کو چاٹ جاتی ہے اورلکڑی ایک دن بیکار ہو جاتی ہے،
لیکن جب علامات قیامت کے بیان میں
یہ لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ مخصوص اور عجيب وغريب جانور لیا جاتا ہے جو
قیامت کے قریب خروج کرے گا، اس جانور کا چہرہ اور قدوقامت عام جانوروں سے مختلف ہو
گا، ۔مغرب سے سورج طلوع ہونے کے واقعے کے کچھ ہی روز بعد مکہ مکرمہ میں واقع پہاڑ
صفا پھٹے گا اور اس سے ایک عجیب و غریب جانور نکلے گا اس جانور كے جسماني آجزاء
مختلف جانوروں سے مشابه هوں گے جو لوگوں سے فصيح زبان مين باتیں کرے گا، اور بڑی
تیزی کے ساتھ ساری زمین میں پھر جائے گا، اس کے پاس حضرت سلیمان علیہ السلام کی
انگوٹھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا ہوگا، ایمان والوں کی پیشانی پر حضرت
موسیٰ کے عصا سے ایک نورانی لکیر کھینچ دے گا، جس سے ان کا سارا چہرہ روشن ہوجائے
گا، اور کافروں کی ناک یا گردن پر حضرت سلیمان کی انگوٹھی سے سیاہ مہر لگادے گا،
جس سے اس کا سارا چہرہ میلا ہوجائے گا، لوگوں کے مجمع میں ایمان والوں کو کہے گا:
یہ ایمان دار ہے، اور کافر کے بارے میں کہے گا کہ: یہ کافر ہے، اس کے بعد وہ غائب
ہوجائے گا۔یہ جانور انتہائی تیز رفتار ہو گا اور کوئی شخص دوڑ میں اس کا مقابلہ نہ
کر سکے گا، مومن اور کافر کے درمیان اس امتیاز کے بعد اسے ختم کرنا ممکن نہ ہو گا،
اور ہزار طرح کے جتن کر لینے کے بعد بھی پیشانی پر لکھے ہوئے لفظ مومن یا کافر کو
مٹایا نہ جا سکے گا اور مومن و کافر کی شناخت اس کے بعد نہایت آسان ہو جائے گی
چنانچه قرآن مجید کی ایک آیت میں اس
جانور كا ذکر موجود ہے:
وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ
عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِّنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ
النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ
جب ان کے اوپر عذاب کا وعده ثابت ہو
جائے گا، ہم زمین سے ان کے لیے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے باتیں کرتا ہوگا کہ
لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں کرتے تھے۔(سورۃ النمل)
ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی عليه اس
آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:
یہ جانور آخری زمانے میں نکلے گا جب
کہ لوگوں میں فساد بپا ہو چکا ہو گا اور لوگ اللہ تعالی کے احکام کر ترک کر چکے
ہوں گےاور دین حق کو بدل چکے ہوں گے تو اللہ تعالی ان کے لۓ زمین سے جانور نکالے
گا کہا گیا ہے کہ وہ مکہ سے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ کہیں اور سے نکلے گا اور
لوگوں کے ساتھ اس معاملے پر باتیں کرے گا ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما اور قتادہ
بیان کرتے ہیں کہ – اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے بھی یہ بیان کیا گیا ہے –
کہ ان کے ساتھ باتیں کرے گا یعنی لوگوں سے مخاطب ہو گا
9- ٹھنڈی ہوا کا چلنا اور تمام
مسلمانوں کا وفات پاجانا:
علامات قيامت(كبرى) ميں سے ايك
علامت جنوب كي طرف سے ٹھنڈی ہوا کا چلنا اور تمام مسلمانوں کا وفات پا جانا هے
چنانچه دأبة الأرض ( زمين كاجانور) كے خروج
کے کچھ ہی دنوں كے بعد جنوب کی طرف سے ایک ٹھنڈی اور نہایت فرحت بخش ہوا چلے گی،
جس سے تمام مسلمانوں کی بغل میں کچھ نکل آئے گا، جس سے وہ سب مرجائیں گے، حتیٰ کہ
اگر کوئی مسلمان کسی غار میں بهي چھپا ہوا ہوگا تو اس کو بھی یہ ہوا پہنچے گی اور
وہ بهي وہیں مرجائے گا چنانچه اس كے بعد رُوئے زمین پر کوئی بهي مسلمان
باقي نهيں رہے گا، زمين پر صرف كافر هي باقي ره جائيں گے ، شرار الناس یعنی صرف
بُرے لوگ هي باقي رہ جائیں گے۔
مندرجہ ذیل احادیث مباركه میں يه
صراحت موجود ہے کہ قیامت سے پہلے تمام مؤمنین کو موت آجائے گی اور قیامت صرف
كافروں پر هي قائم هوگي كيونكه قيامت کے دن کوئی مؤمن (كلمه گو) زندہ نہ ہوگا
وہ احادیث مباركه یہ ہیں :-
1- بے شک اللہ عزّوجل ایک ہوا بھیجے
گا جو ریشم سے زیادہ نرم ہوگی پس جس کے دل میں ایک دانہ یا ایک ذرہ کی برابر بھی
ایمان ہوگا وہ اسے نہ چھوڑے گی اور اس کی روح قبض کرلے گی. (صحیح مسلم)
2- قیامت نہ آئے گی جب تک یہ کیفیت
نہ ہوجائے کہ زمین میں اللہ اللہ نہ کہا جائے. (صحیح مسلم )
3- قیامت ایسے کسی شخص پر نہیں آئے
گی جو اللہ اللہ کہتا ہو.
(صحیح مسلم)
4- قیامت نہیں آئے گی مگر صرف بد
ترین لوگوں پر۔ (صحیح مسلم )
علاماتِ قیامت کی احادیث میں حضرت
انس رضی اللہ عنہ کی يه روایت بهي ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے
فرمایا :
موت قیامت ہے، پس جو مَرا اُس کی
قیامت تو آہی گئی۔ (الاحیاء )
10 - دنيا مين حبشیوں کی حکومت اور
بیت اللہ کا شہید ہونا:
جب سارے مسلمان مرجائیں گے اور
رُوئے زمین پر صرف کافر هي رہ جائیں گے اس وقت ساری دُنیا میں حبشیوں کا غلبہ
ہوجائے گا اور انہی کی حکومت ہوگی، قرآنِ کریم دلوں اور کاغذوں سے اُٹھالیا جائے
گا، حج بند ہوجائے گا، دلوں سے خوفِ خدا اور شرم و حیا بالکل اُٹھ جائے گی، لوگ
برسر عام بے حیائی کریں گے، بیت اللہ شریف کو شہید کردیا جائے گا، حبشہ کا رہنے
والا چھوٹی پنڈلیوں والا ایک شخص بیت اللہ شریف کو گرائے گا۔
کعبۃُ اللہ ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی
نشانیوں میں سے ایک عظیمُ الشَّان نشانی ہے ۔ جب تک یہ قائم ہے دنیا باقی ہے جب اس
کو گرا دیا جائے گا تو دنیا تباہ و برباد ہو جائے گی اور قیامت بَرپا ہو جائے گی ۔
قربِ قیامت میں ایک بدبخت حبشی خانۂ کعبہ کوگرادے گا جس کے فورًا بعد قیامت قائم
ہوجائے گی ۔ آخری زمانے میں جو کالا حبشی شخص كعبه كو منہدم کرے گا اس کا نام ذُو
السُّوَيْقَتَيْنِ (دو چھوٹی پنڈلیوں والا) ہوگا ۔ اس کا یہ نام اس کی پنڈلیوں کے
چھوٹے اور باریک ہونے کی وجہ سے ہوگا ۔ وہ کعبہ کے ایک ایک پتھر کو گرا دے گا ، اس
کے غلاف کو اتار دے گا اور اس کے زیورات کو لوٹ لے گا ۔
آحاديث مباركه ميں اس حبشي كے بارے
ميں مذكور هے :
1- عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ
عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:
"اتْرُكُوا الْحَبَشَةَ مَا تَرَكُوكُمْ فَإِنَّهُ لَا يَسْتَخْرِجُ كَنْزَ
الْكَعْبَةِ إِلَّا ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنْ الْحَبَشَةِ".
ترجمہ : عبداللہ بن عمرو رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اہل حبشہ کو چھوڑے
رہو جب تک وہ تمہیں چھوڑے ہوئے ہیں، کیونکہ کعبہ کے خزانے کو سوائے ذُو
السُّوَيْقَتَيْنِ حبشی کے کوئی اور نہیں نکالے گا ۔((سنن أبي داود)
2-عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ
اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
قَالَ: "يُخَرِّبُ الْكَعْبَةَ ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنْ
الْحَبَشَةِ".
ترجمہ : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے
کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”کعبہ کو دو پتلی پنڈلیوں والا ایک
حبشی برباد کر دے گا ۔ (صحیح بخاری)
3- عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو،
قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "
يُخَرِّبُ الْكَعْبَةَ ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنَ الْحَبَشَةِ، وَيَسْلُبُهَا
حِلْيَتَهَا، وَيُجَرِّدُهَا مِنْ كِسْوَتِهَا، وَلَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ
أُصَيْلِعَ أُفَيْدِعَ، يَضْرِبُ عَلَيْهَا بِمِسْحَاتِهِ وَمِعْوَلِهِ ۔
ترجمہ : سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی
اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کعبے کو
چھوٹی اور پتلی پنڈلیوں والا ایک حبشی برباد کردے گا، وہ اس کے زیورات کو لوٹ لے
گا اور اسے غلاف سے محروم کردے گا۔ میں گویا اس کو دیکھ رہا ہوں: گنجا، ٹیٹرھے
ہاتھ پاؤں والا، کعبہ کو اپنے بیلچے اور کدال کے ذریعے سے ڈھا رہا ہے ۔ (مسند احمد
بن حنبل )
4- عن أَبَا هُرَيْرَةَ، أَنَّ
رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "يُبَايَعُ لِرَجُلٍ
مَا بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ، وَلَنْ يَسْتَحِلَّ الْبَيْتَ إِلَّا
أَهْلُهُ، فَإِذَا اسْتَحَلُّوهُ فَلَا تَسْأَلْ عَنْ هَلَكَةِ الْعَرَبِ، ثُمَّ
تَأْتِي الْحَبَشَةُ فَيُخَرِّبُونَهُ خَرَابًا لَا يَعْمُرُ بَعْدَهُ أَبَدًا،
وَهُمُ الَّذِينَ يَسْتَخْرِجُونَ كَنْزَهُ ۔
ترجمہ : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک شخص(اس شخص سے
مراد امام مہدی ہیں) کی حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان بیعت کی جائے گی۔ اس
گھر کی حرمت کو اس کے رہنے والے ہی پامال کریں گے۔ اور جب ایسا ہوگا تو پھر عربوں
کی ہلاکت اور بربادی کے بارے میں پوچھا نہ جائے گا۔ پھر حبشہ سے ایک لشکر آئے گا
جو کعبہ کو تباہ و برباد کردے گا۔ اس تباہی کے بعد پھر اللہ کا یہ گھر کبھی آباد
نہ ہوسکے گا۔ یہی لوگ اس کا خزانہ بھی نکال کر لے جائیں گے ۔ (مسند احمد بن حنبل )
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
اپنے ایک ارشاد میں اشارہ فرمایا کہ ایک وقت آئے گا جب اس گھر کی حرمت کو اس رہنے
والے ہی پامال کردیں گے ۔
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : چھوٹی پنڈلیوں والا ایک حبشی خانہ
کعبہ کوگرادے گا ۔ ’’گویا میں اسے دیکھ رہاہوں کہ وہ کالا اور چَوڑی ٹانگوں والا
ہے ، کعبہ کے پتھر اُکھاڑ اُکھاڑ کر پھینک رہا ہے ۔ (بخاری)
شرح بخاری میں ہے آخری زمانے میں
حضرتِ سَیِّدُنا عیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے
وصال کے بعد جب سِینوں اور كتابون سے قرآن پاک اُٹھا لیا جائے گا تو اس کے بعد وہ
بدبخت حبشی خانۂ کعبہ کو گرائے گا ۔
(عمدۃ ا لقا ری شرح بخا ری، )
11- آگ کا لوگوں کو ملک شام کی طرف
ہانکنا:
قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں سے آخری
علامت آگ کا نکلنا ہے، قیامت کا صور پھونکے جانے سے پہلے زمین پر بت پرستی اور کفر
پھیل جائے گا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کے شام میں جمع ہونے کے اسباب پیدا ہوں
گے، شام میں حالات اچھے ہوں گے، لوگ وہاں کا رخ کریں گے،
پھر یمن سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں
کو ارضِ محشر یعنی شام کی طرف ہانکے گی، جب سب لوگ ملک شام میں پہنچ جائیں گے تو
یہ آگ غائب ہوجائے گی، اس کے بعد عیش و آرام کا زمانہ آئے گا، لوگ مزے سے زندگی
بسر کر رہے ہوں گے، کچھ عرصہ اسی حالت میں گزرے گا کہ اچانک قیامت قائم ہوجائے گی
رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم
نے جس حديث مباركه ميں قيامت كي دس نشانيون كا ذكر فرمايا اس ميں آخري علامت كے
طور پر اس آگ كا ذكر فرمايا چنانچہ حديث مباركه ميں هے
عن حذيفة بن أسيد الغفاري أطَّلَع
النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وآلِه وسلَّم علينا ونحن نتَذاكَرُ فقال ما تَذكُرونَ
قالوا نَذكُرُ الساعةَ قال إنها لن تَقومَ حتى ترَوا قبلَها عشْرَ آياتٍ فذَكَر
الدُّخانَ والدجَّالَ والدابَّةَ وطُلوعَ الشمسِ من مَغرِبِها ونُزولَ عيسى ابنِ
مريمَ صلَّى اللهُ عليه وآلِه وسلَّم ويَأجوجَ ومَأجوجَ وثلاثَ خُسوفٍ خَسفٌ
بالمَشرِقِ وخَسفٌ بالمَغرِبِ وخَسفٌ بجزيرةِ العربِ وآخِرُ ذلك نارٌ تَخرُجُ من
اليمَنِ تَطرُدُ الناسَ إلى مَحشَرِهم
حضرت حذیفہ ابن اسید غفاری رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ آپس میں قیامت کا ذکر کر رہے تھے کہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہماری طرف آنکلے اور پوچھا کہ تم لوگ کس چیز کا ذکر
کر رہے ہو ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ہم قیامت کا تذکرہ کر رہے ہیں تب آپ صلی اللہ
علیہ وآله وسلم نے فرمایا " یقینا قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک تم اس
سے پہلے دس نشانیوں کو نہ دیکھ لوگے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ان دس
نشانیوں کو اس ترتیب سے ذکر فرمایا :
١- دھواں ٢ - دجال ٣- دابہ الارض ٤-
سورج کا مغرب کی طرف سے نکلنا ٥ - حضرت عیسی ابن مریم کا نازل ہونا ٦ - یاجوج
ماجوج کا ظاہر ہونا اور (چھٹی، ساتویں اور آٹھویں نشانی کے طور پر ، آپ صلی اللہ
علیہ وآله وسلم نے تین خسوف کا (یعنی تين مقامات پر زمین کے دھنس جانے کا ) ذکر
فرمایا ایک تو مشرق کے علاقہ میں ، دوسرے مغرب کے علاقہ میں اور تیسرے جزیرہ عرب
کے علاقہ اور دسویں نشانی ، جو سب کے بعد ظاہر ہوگی وہ آگ ہے جو یمن کی طرف سے نمودار
ہوگی اور لوگوں کو گھیر ہانک کر زمین حشر کی طرف لے جائے گی
حضرت ابو سریحہ رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم بالاخانہ میں تھے اورہم اس کےنیچے
باتیں کررہے تھے ، پھر اس حدیث کی طرح روایت بیان کی ، شعبہ نے کہا: میرا خیال ہے
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمايا: جہاں یہ لوگ جائیں گے آگ وہیں
جائے گی اور جہاں یہ لوگ قیلولہ کریں گے آگ بهي وہیں رہے گی
ایک حدیث میں یوں ہے کہ وہ ایک ایسی
آگ ہوگی جو ( یمن کے مشہور شہر عدن کے آخری کنارے سے نمودار ہوگی اور لوگوں کو
ہانک کر ارض حشر کی طرف لے جائے گی اور ایک حدیث میں یوں ہے کہ وہ ایک ایسی آگ
ہوگی جو یمن کے مشہور شہر عدن کے آخری کنارے سے نمودار ہوگی اور لوگوں کو ہانک کر
ارض حشر کی طرف لے جائے گی نیز ایک روایت میں دسویں نشانی کے طور پر یمن کی طرف سے
یا عدن کے آخری کنارے سے آگ کے نمودار ہونے کی بجائے ایک ایسی ہوا کا ذکر کیا گیا
ہے جو لوگوں کو سمندر میں پھینک دے گی۔" (مسلم)
"اور لوگوں کو ہانک کر ارض حشر
کی طرف لے جائے گی”
میں ارض حشر سے مراد ملک شام کا وہ
علاقہ ہے جہاں وہ آگ لوگوں کو لے جا کر چھوڑے گی ایک روایت میں یہ بهي منقول ہے کہ
وہ آگ حجاز کی سر زمین سے نمودار ہوگی اور یہ حدیث بهي دو سندوں کے ساتھ حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے
فرمایا كه قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ سر زمین حجاز سے ایسی آگ
ظاہر نہ ہوجائے جس سے بصریٰ کے اونٹوں کی گردنیں روشن ہوجائیں گی۔ جب کہ حدیث بالا
میں اس کا یمن کی جانب سے نمودار ہونا بیان کیا گیا ہے اس بارے قاضی عیاض نے
فرمايا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ قیامت کی نشانی کے طور پر جس آگ کا ذکر کیا گیا ہے وہ
ایک نہیں دو ہوں گی، اور وہ دونوں لوگوں کو گھیر کر ہانک کر ارض حشر (یعنی ملک
شام) کی طرف لے جائیں گی۔ یا یہ بهي ممكن هے کہ وہ آگ تو ایک ہی ہوگی جو ابتداء
میں یمن کی جانب سے نکلے گی لیکن اس کا ظہور حجاز کی سر زمین سے ہوگا ۔
اس موقع پر اس بات کی وضاحت بھی
ضروری ہے کہ اس سلسلہ میں صحيح بخاری کی جو روایت ہے جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ
قیامت کی علامتوں میں سے سب سے پہلی علامت وہ آگ ہوگی جو لوگوں کو مشرق کی طرف سے
گھیر ہانک کر مغرب کی طرف لے جائے گی جب کہ حقیقت میں وہ آگ سب سے آخری علامت ہوگی
جیسا کہ حدیث میں مذکور ترتیب سے بھی واضح ہوتا ہے پس اس تضاد کو اس تاویل کے ذریعہ
دور کیا جائے گا کہ آگ کی سب سے آخری نشانی مذکورہ آگ ہوگی، اور صحيح بخاری کی
روایت میں آگ کو جو سب سے پہلی نشانی قرار دیا گیا ہے تو وہ اس اعتبار سے هے کہ آگ
قیامت کی ان نشانیوں میں سے سب سے پہلی نشانی ہوگی جن کے بعد دنیا کی چیزوں میں سے
کوئی چیز بهي باقی نہیں رہے گی بلکہ ان نشانیوں کے وقوع پذیر ہونے کے ساتھ ہی صور
پھونکا جایئگا، ان کے برخلاف حدیث میں جن نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے ہر
ایک نشانی کے بعد بھی دنیا کی چیزیں باقی رہیں گی۔
ایک ایسی ہوا کا بهي ذکر کیا گیا ہے
جو لوگوں کو سمندر میں پھینک دے گی یہ روایت بظاہر اس روایت کے خلاف ہے جس میں آگ
کا ذکر ہے پس ان دونوں روایتوں کے درمیان مطابقت ویکسانیت پیدا کرنے کے لئے یہ کہا
گیا ہے کہ اس دوسری روایت میں لفظ ناس (لوگوں) سے مراد کفار ہیں ( كيونكه مسلمان
تو اس وقت هوں گے هي نهيں) اور ان (كفار) كو ہانکنے والی آگ ہوا کے سخت جھکڑ کے
ساتھ ملی ہوئی ہوگی تاکہ ان کفار کو سمندر میں دھکیلنے کا عمل زیادہ تیز رفتاری کے
ساتھ پورا ہو سو قرآن کریم كے ان الفاظ ( وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ ) میں اس
حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے
ایک زبردست آگ جو یمن سے نكلے گی
اور لوگوں کو ہانکتی ہوئی محشر کی طرف لے جائے گی، لوگ آگے ہونگے اور آگ پیچھے جو
پیچھے رہ جائے گا وہ جل جائے گا۔ یمن میں کئی آتش فشاؤں کے دہانے موجود ہیں، قیاس
یہی ہے کہ یہ آگ یہیں سے نکلے گی۔ میدان حشر کے بارے میں اختلاف ہے، عرفات کے
میدان کو بھی کہا جاتا ہے جبکہ شام، اردن، لبنان اور فلسطین کے مقامات کی طرف بھی
اشارہ ہے، یہیں بیت المقدس بھی ہے اور کئی احادیث میں رسول كريم صلى الله عليه
وآله وسلم نے اس مقام کی یعنی بیت المقدس اور فلسطین کی تعریف فرمائی ہے اور یہیں
دجال اور یہودیوں کا خاتمہ بھی ہوگا ! والله عالم
12- صور پھونکا جانا اور قیامت کا
قائم ہونا:
قرآن وحديث ميں مذكور تمام قيامت كي
علامات کے واقع ہوجانے کے بعد عیش و آرام کا زمانہ آئے گا، محرم کی دس تاریخ اور
جمعہ کا دن ہوگا، لوگ اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوں گے کہ اچانک قیامت قائم ہوجائے
گی،
قیامت درآصل صورِاسرافیل کی اُس
خوفناک چیخ کا نام ہے جس سے پوری کائنات زلزلہ میں آجائے گی، اس ہمہ گیر زلزلہ کے
ابتدائی جھٹکوں ہی سے دہشت زدہ ہوکر دودھ پلانے والی مائیں اپنے دودھ پیتے بچوں کو
بھول جائیں گی، حاملہ عورتوں کے حمل ساقط ہو جائیں گے،دو آدمیوں نے کپڑا پھیلا
رکھا ہوگا، اس کو سمیٹ نہ سکیں گے اور نہ ہی خرید و فروخت کرسکیں گے کہ قیامت قائم
ہوجائے گی، ایک شخص اپنی اُونٹنی کا دُودھ لے کر جائے گا اور اسے پی نہیں سکے گا
کہ قیامت قائم ہوجائے گی، ایک شخص اپنے پانی والے حوض کی مرمت کر رہا ہوگا اور اس
سے پانی نہیں پی سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی، ایک شخص نے نوالہ منہ کی طرف
اُٹھایا ہوگا اسے منہ میں ڈال نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی
صورِاسرافیل کی خوفناک چیخ اور
زلزلہ کی شدت دم بدم بڑھتی جائے گی جس سے تمام انسان اور جانور مرنے شروع ہوجائیں
گے یہاں تک کہ زمین و آسمان میں کوئی جاندار زندہ نہ بچے گا، زمین پھٹ پڑے گی،
پہاڑ دھنی ہوئی روئی کی طرح اُڑتے پھریں گے، ستارے اور سیارے ٹوٹ ٹوٹ کر گر پڑیں
گے اور پوری کائنات موت کی آغوش میں چلی جائے گی۔ اس عظیم دن کی خبر تمام انبیاء
کرام علیہم السلام اپنی اپنی امتوں کو دیتے چلے آئے تھے مگر رسولِ كريم صلی اللہ
علیہ وآله وسلّم نے آکر یہ بتایا کہ قیامت قریب آپہنچی اور میں اس دنیا میں اللہ
کا آخری رسول ہوں، قرآنِ حکیم نے بھی اعلان کیا کہ ‘قیامت نزدیک آپہنچی اور
چاند شق ہوگیا اور یہ کہہ کر لوگوں کو چونکایا
حضرت اسرافیل کے صور پھونکنے کی
آواز پہلے ہلکی اور پھر اس قدر ہیبت ناک ہوگی کہ اس سے سب جاندار مرجائیں گے، زمین
و آسمان پھٹ جائیں گے، ہر چیز ٹوٹ پھوٹ کر فنا ہوجائے گی،آسمان و زمین میں جتنی
مخلوقات ہیں سب ختم ہو جائیں گی۔اورایک وقت ایسا آئے گا جب اللہ تعالى کے علاوہ
کوئی زندہ نہیں بچے گا پھر اللہ تعالى سب کو زندہ کريں گے۔
چالیس سال بعد دوبارہ حضرت اسرافیل
صور پھونکیں گے جس سے سب جاندار زندہ ہوکر میدانِ محشر میں جمع ہونا شروع ہوجائیں
گے۔ خلاصہ یہ کہ ہر شخص کو موت کے بعد قیامت کے دن زندہ ہو کرمیدان حشر میں اللہ
تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے اعمال کا حساب دینا ہے، جس کے بعد وہ جنت کی نعمتوں یا
جہنم کی سزاؤں سے ہمکنار ہو گا (والله عالم) تمام أحباب سے دعاؤں كي درخواست هے
"اللهمَّ مَن أَحييتَه منَّا
فأَحيهِ على الإسلامِ، ومَن تَوفيَّتَه منَّا فتوفَّه على الإيمانِ"
( آمین يا رب العالمين)