ماہ محرم الحرام اور یوم عاشوره


یوم عاشوراء زمانہٴ جاہلیت میں قریشِ مکہ کے نزدیک بڑا محترم دن تھا
اسی دن خانہٴ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا اور قریش اس دن روزہ رکھتے تھے، قیاس یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کچھ روایات اس کے بارے میں ان تک پہنچی ہوں گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ قریش ملتِ ابراہیمی کی نسبت سے جو اچھے کام کرتے تھے، ان کاموں میں آپ ان سے اتفاق واشتراک فرماتے تھے، اسی بنا پر حج میں بھی شرکت فرماتے تھے، اپنے اس اصول کی بنا پر آپ قریش کے ساتھ عاشورہ کا روزہ بھی رکھتے تھے؛ لیکن دوسروں کو اس کا حکم نہیں دیتے تھے، پھر جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے اور یہاں یہود کو بھی آپ نے عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا اور ان کی یہ روایت پہنچی کہ یہ وہ مبارک تاریخی دن ہے، جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے نجات عطا فرمائی تھی اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرقاب کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کے روزے کا زیادہ اہتمام فرمایا اور مسلمانوں کو بھی عمومی حکم دیا کہ وہ بھی اس دن روزہ رکھا کریں(بخاری۱/۴۸۱) بعض حدیثوں میں ہے کہ آپ نے اس کا ایسا تاکیدی حکم دیا جیسا حکم فرائض اور واجبات کے لیے دیا جاتا ہے؛ چنانچہ بخاری ومسلم میں سلمہ بن الاکوع اور ربیع بنت معوذ بن عفراء سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشورہ کی صبح مدینہ منورہ کے آس پاس کی ان بستیوں میں جن میں انصار رہتے تھے، یہ اطلاع بھجوائی کہ جن لوگوں نے ابھی تک کچھ کھایا پیا نہ ہو وہ آج کے دن روزہ رکھیں، اور جنھوں نے کچھ کھاپی لیا ہو وہ بھی دن کے باقی حصے میں کچھ نہ کھائیں ؛ بلکہ روزہ داروں کی طرح رہیں، بعد میں جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو عاشورہ کے روزہ کی فرضیت منسوخ ہوگئی اور اس کی حیثیت ایک نفل روزہ کی رہ گئی (بخاری شریف۱/۲۶۸، مسلم شریف ۱/۳۶۰) لیکن اس کے بعد بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہی رہا کہ آپ رمضان المبارک کے فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزوں میں سب سے زیادہ اسی روزہ کا اہتمام فرماتے تھے،


ماه محرم كي فضيلت

یوم عاشوره کے ساتھ ساتھ شریعت مطہرہ میں محرم کے پورے ہی مہینے کو بهي خصوصی عظمت حاصل ہے چنانچہ چند وجوہ سے اس ماہ کو تقدس حاصل ہے:
پہلی وجہ تو یہ ہے کہ احادیث شریفہ میں اس ماہ کی فضیلت وارد ہوئی ہے؛ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا:
أفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ صِیَامِ شَہْرِ رَمَضَانَ شَہْرُ اللّٰہِ الْمُحَرَّمُ․ (ترمذی )
یعنی ماہ رمضان المبارک کے روزوں کے بعد سب سے افضل روزہ ماہ محرم الحرام کا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ صَامَ یَوْمًا مِنَ الْمُحَرَّمِ فَلَہ بِکُلِّ یَوْمٍ ثَلاَثُوْنَ یَوْمًا․(الترغیب والترہیب )
یعنی جو شخص محرم کے ایک دن میں روزہ رکھے اور اس کو ہر دن کے روزہ کے بدلہ تیس دن روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے سوال کیا کہ ماہ رمضان المبارک کے بعد کون سے مہینہ کے میں روزے رکھوں؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہی سوال ایک دفعہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے بھی کیا تھا، اور میں آپ کے پاس بیٹھا تھا، تو آپ نے جواب دیا تھا کہ:
انْ کُنْتَ صَائِمًا بَعْدَ شَہْرِ رَمَضَانَ فَصُمِ الْمُحَرَّمَ فانَّہ شَہْرُ اللّٰہِا فِیْہِ یَوْمٌ تَابَ اللّٰہُ فِیْہِ عَلٰی قَوْمٍ وَیَتُوْبُ فِیْہِ عَلٰی قَوْمٍ آخَرِیْنَ ․ (ترمذی )
یعنی ماہ رمضان کے بعد اگر تم کو روزہ رکھنا ہے تو ماہِ محرم میں رکھو؛ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ (کی خاص رحمت) کا مہینہ ہے، اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور آئندہ بھی ایک قوم کی توبہ اس دن قبول فرمائے گا۔
دوسری وجہ جو مندرجہ بالا احادیث شریفہ سے معلوم ہوئی کہ یہ ”شہرُ اللّٰہ“ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں کا مہینہ ہے تو اس ماہ کی اضافت اللہ کی طرف کرنے سے اس کی خصوصی عظمت وفضیلت ثابت ہوئی۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ مہینہ ”اشہر حرم“ یعنی ان چار مہینوں میں سے ہے کہ جن کو دوسرے مہینوں پر ایک خاص مقام حاصل ہے، وہ چار مہینے مندرجه زيل ہیں:
(۱) ذی قعدہ
(۲) ذی الحجہ
(۳) محرم الحرام
(۴) رجب (بخاری شریف )
چوتھی وجہ یہ کہ اسلامی سال کی ابتداء اسی مہینے سے ہے چنانچہ امام غزالی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ ماہِ محرم میں روزوں کی فضیلت کی ايك وجہ یہ بهي ہے کہ اس مہینے سے سال کا آغاز ہوتا ہے اس لیے اسے نیکیوں سے معمور کرنا چاہیے، اور رب العزت سے یہ توقع رکھنی چاہیے کہ وہ ان روزوں کی برکت پورے سال رکھے گا۔ (احیاء العلوم )

ماہ محرم اور یوم عاشوره كي بعض رسميں اور بدعات
جيسا كه تفصیل سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ماہ محرم بہت ہی بابرکت اور مقدس مہینہ ہے لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اس باعظمت مہینہ میں زیادہ سے زیادہ عبادات میں مشغول ہوکر خدائے تعالیٰ کی خاص الخاص رحمت کا اپنے کو مستحق بنائیں؛ مگر ہم نے اس مبارک مہینہ کو خصوصاً یوم عاشوره کو طرح طرح کی خود تراشیدہ رسومات وبدعات کا مجموعہ بنا کر اس کے تقدس کو اس طرح پامال کیا کہ الامان والحفیظ، اس ماہ میں ہم نے اپنے کو چند در چند خرافات کا پابند بنا کر بجائے ثواب حاصل کرنے کے الٹا معصیت اور گناہ میں مبتلا ہونے کا سامان کرلیا ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جس طرح اس ماہ میں عبادت کا ثواب زیادہ ہوجاتا ہے، اسی طرح اس ماہ کے اندر معصیات کے وبال وعقاب کے بڑھ جانے کا بھی اندیشہ ہے اس لیے ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اس محترم مہینہ میں ہر قسم کی بدعات وخرافات سے احتراز کرے۔ ذیل میں مختصر انداز میں اس ماہ کی چند بدعات ورسومات کی نشاندہی کی جاتی ہے۔

ماتم اور تعزيه كي محالس اور جلوس
-محرم كے پهلے عشره میں مسلمانوں کی کثیر تعداد ماتم کی مجلسوں میں، اسی طرح دسویں تاریخ کو تعزیہ کے جلوس کا نظارہ کرنے کے لیے جمع ہوجاتی ہے، اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے؛ حالانکہ اس کے اندر کئی گناہ ہیں:
(۱) ایک گناہ تو اس میں یہ ہے کہ ان مجالس اور جلوس میں شرکت کرنے سے دشمنانِ صحابہ کی رونق بڑھتی ہے؛ جبکہ دشمنوں کی رونق بڑھانا حرام ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ”مَنْ کَثَّرَ سَوَادَ قَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ“ (کنزالعمال ) یعنی جس نے کسی قوم کی رونق بڑھائی وہ انھیں میں سے ہے۔
(۲) دوسرا گناہ اس میں یہ ہے کہ جس طرح عبادت کا کرنا اور دیکھنا اور اس سے خوش ہونا باعثِ اجر وثواب ہے، اسی طرح گناہوں کے کاموں کو بخوشی دیکھنا بھی گناہ ہے، ظاہر ہے کہ ماتم کی مجلس میں جانا اور تعزیہ نکالنا یہ سب گناہ کے کام ہیں۔
(۳) تیسرا گناہ یہ ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہے، وہاں اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے اور ایسی غضب والی جگہ پر جانا بھی گناہ سے خالی نہیں، غرض کہ ان مجلسوں اور جلوسوں سے بھی احتراز کرنا لازم ہے۔
( احسن الفتاویٰ ، خیرالفتاویٰ )

یوم عاشوره کی چھٹی كرنا
یوم عاشوره کی چھٹی کرنے میں کئی قباحتیں ہیں، مثلاً: پہلی قباحت تو یہ ہے کہ اس دن چھٹی کرنا روافض اور اہلِ تشیع کا شعار ہے اور غیروں کے شعار سے اجتناب لازم ہے؛ کیونکہ حدیث میں ہے
”مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ“ (مشکوٰة )
جس شخص نے کسی دوسری قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔
دوسری قباحت یہ ہے کہ اس دن چھٹی کرکے ہم لوگ بیکاری اور بے ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہیں؛ جبکہ اہلِ تشیع اپنے مذہب کے لیے بے پناہ مشقت اور سخت محنت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
تیسری خرابی یہ ہے کہ چھٹی کرنے کی وجہ سے اکثر مسلمان تعزیہ کے جلوس میں چلے جاتے ہیں اور تعزیہ کے جلوس میں شرکت کی خرابیاں بتائی جا چکی ہیں۔

محرم کی دسویں تاریخ کو کھچڑا پکانا
بعض لوگ محرم کی دسویں تاریخ کو کھچڑا پکاتے ہیں، یہ بالکل ناجائز اور سخت گناہ كي بات ہے، البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ سیّدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خوشی میں خوارج دسویں محرم کو مختلف اناج ملا کر پکاتے تھے۔
”فَکَانُوْا الٰی یَوْم عَاشُوْرَاءَ یَطْبَخُوْنَ الْحُبُوبَ“ (البدایہ والنہایہ ) معلوم ہوا کہ اس دن کھچڑا پکانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے دشمنی رکھنے والوں کی ایجاد کردہ رسم ہے، اہل بیت سے الفت ومحبت رکھنے والوں کو اس رسم بد سے بچنا نہایت ضروری ہے۔
 (فتاویٰ رشیدیہ )

کھانا پکا كر إيصال ثواب كرنا
محرم کے مہینے میں خصوصاً نویں، دسویں، گیارہویں تاریخ میں بعض لوگ کھانا پکا کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی روح کو ایصالِ ثواب کرتے ہیں، یہ طریقہ بھی بالکل غلط اور کئی قباحتوں کا مجموعہ ہے۔مثلاً
جن ارواح کو ایصال ثواب کیا جاتا ہے اگر ان کو نفع ونقصان کا مالک سمجھا گیا اوران اکابرِ سلف کے نام سے وہ کھانا پکایا گیا تو یہ شرک ہے اورایسا کھانا ”مَا اُہِلَّ بِہ لِغَیْرِ اللّٰہِ“ میں داخل ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔
اور عموماً یہ خیال کیاجاتا ہے کہ جو چیز صدقہ دی جاتی ہے، میت کو بعینہ وہی ملتی ہے؛ حالانکہ یہ خیال بالکل باطل ہے، میت کو وہ چیز نہیں پہنچتی؛ بلکہ اس کا ثواب پہنچتا ہے۔
نيز ایصالِ ثواب میں اپنی طرف سے قیود لگا لی گئي ہیں یعنی صدقہ کی متعین صورت مثلاً کھانا متعین، مہینہ متعین، دن متعین؛ حالانکہ شریعت نے ان چیزوں کی تعیین نہیں فرمائی، جو چیز چاہیں جب چاہیں صدقہ کرسکتے ہیں، شریعت کی دی ہوئی آزادی پر اپنی طرف سے پابندیاں لگانا گناہ اور بدعت بلکہ شریعت میں مداخلت ہے۔

پانی یا شربت کی سبیل لگانا
بعض لوگ محرم کی دسویں تاریخ کو پانی کی یا شربت کی سبیل لگاتے ہیں اور راستوں وچوراهوں پر بیٹھ کر گزرنے والے کو وہ پانی یا شربت پلاتے ہیں تو اگرچہ پانی بلانا باعثِ ثواب اور نیکی کا کام ہے؛ لیکن یہ عمل بھی مندرجہ بالا پابندیوں کی وجہ سے بدعت اور قابلِ ترک ہے۔ ( فتاویٰ رشیدیہ )

مسجد یا گھر میں مٹھائی تقسیم کرنا
بعض جگہوں پر یہ بھی رواج ہے کہ دس محرم کو مٹھائی وغیرہ مسجد میں لا کر یا گھر میں ہی تقسیم کردیتے ہیں، یہ امر بھی معصیت اور
خلافِ شریعت ہے۔ ( فتاویٰ محمودیہ )


عید کی طرح زینت کرنا
بعض حضرات یومِ عاشورہ میں عید کی طرح زینت اختیار کرتے ہیں، یہ بھی بدعت ہے، اور بعض حضرات جواز کے قائل ہیں، اور تائید میں حدیث پیش کرتے ہیں؛ مگر جواز پر دلالت کرنے والی تمام احادیث موضوع ہیں۔
(فتاویٰ عبدالحئی بحوالہ جامع الفتاویٰ )

محرم ميں نكاح کو منحوس سمجھنا 
اس سلسلے میں اصل سوال یہ ہے کہ یہ مہینہ معظم ومحترم ہے یا منحوس ہے؟ شیعہ حضرات اس ماہ کو منحوس سمجھتے ہیں اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ان کے نزدیک شہادت بہت بری اور منحوس چیز ہے اور چونکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اس میں ہوئی ہے اس لیے وہ لوگ اس میں کوئی تقریب اور خوشی کا کام شادی ونکاح وغیرہ نہیں کرتے۔
اس کے برخلاف سنیوں کے نزدیک یہ مہینہ معظم ومحترم اور فضیلت والا ہے، محرم کے معنی ہی پُرعظمت اور مقدس کے ہیں، جیسا کہ ابتداء میں بیان کیا گیا ہے۔ اب جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ مہینہ اور دن افضل ہے تو اس میں نیک اعمال بہت زیادہ کرنے چاہئیں، نکاح وغیرہ خوشی کی تقریبات بھی اس میں زیادہ کرنی چاہئیں، اس میں شادی کرنے سے برکت ہوگی۔ ان شاء اللہ۔ اس مہینے میں شادی کو منحوس سمجھنا شیعی ذہنیت ہے، جس سے پرہیز لازم ہے۔

مُحرم میں قبروں پر جانا، مٹی، پانی ڈالنا
محرم کے شروع ہوتے ہی لوگوں میں طرح طرح کے رواج و رسوم شروع ہو جاتے ہیں جن میں سے ایک ھے:
• قبروں پر مٹی، پانی، پھول ڈالنا اور ان کی تازی لپائی کرنا خصوصاً ۸، ۹ اور ۱۰ محرم کے دن۔ اس کے پیچھے عقیدہ یہ ھے کہ مُردے کو آرام و سکون ملے گا اور واقعہ کربلا کی وجہ سے ان مُردوں کی بھی مغفرت ہو جائے گی
یہ ایک غلط سوچ ھے درآصل یہ رواج ہمارے هان ایک مخصوص جماعت سے آیا ھے يه رواج ۱۵۰ سال پہلے شروع هوا ۔ محرم کے آغاز سے ہی قبروں کی لیپا پوتی کا کام شروع ہوجاتا ھے۔ جوں جوں ۱۰ محرم قریب آتا جاتا ہے قبرستانوں میں رونق کے اندر اضافہ ہو جاتا ھے۔ ۱۰ محرم کا سورج طلوع ہوتے ہی لوگ جوان بہو، بیٹیوں کو لے کر قبرستانوں کی جانب نکل پڑتے ہیں۔ پھولوں اور اگربتیوں کے ٹھیلے لگائے جاتے ہیں۔ قبروں کی لیپا پوتی کی جاتی ھے، ان پر مرد و زن اکٹھے مٹی ڈالتے ہیں، پھر مٹی ڈالنے کے بعد قبر پر کھڑے ہوکر شیرینی تقسیم کی جاتی ھے اور کہا جاتا ھے اگر کوئی مٹی ڈالنے کے بعد شیرینی تقسیم نہ کرے تو قبر والے پر بوجھ رہتا ھے۔
پھول ، مالا، اگربتی ، موم بتی کا کاروبار ایک طرف اور عورت ومرد کا اختلاط دوسری طرف۔ پھر قبروں پہ نذر ونیاز، پھول مالے اور اگربتی و موم بتی کی رسمیں انجام دینا، مُردوں سے اِستغاثہ کرنا۔ یہ سب امور قبروں پر مٹی ڈالنے کی غرض سے جانے کے بعد کیے جاتے ہیں۔ ان رسومات میں ہر سال مزید اضافے ہوتے جارہے ہیں۔
ان سب سے کئی ایک غیر شرعی قباحتیں لازم آتی ہیں مثلا؛ً بے پردگی، مَحرم کے بغیر گھر سے نکلنا، وغیرہ۔ قبروں کی زیارت مسنون عمل ھے مگر قبروں کو میلہ ٹھیلہ کی جگہ بنانا، اس کو سجدہ کرنا، اس سے مراد مانگنا، اس کے لئے نذر و نیاز کرنا، وہاں نماز پڑھنا یہ سب شرکیہ و بدعیہ اعمال ہیں۔ ان چیزوں سے نبی ﷺ نے منع فرمایا ھے۔ عورتوں کا وہاں اِختلاط حرام ھے، اگربتی و موم بتی کی رسم بدعت ھے اور قبروں کو لیپنا پوتنا، قبرستان کو بارونق بنانا اس بات کی علامت ھے کہ ایسا آدمی آخرت سے غافل ھے ورنہ جس سے عبرت لینی ھے اسے چمکانا نہیں ھے وہاں آنسو بہانا ھے اور آخرت کی یاد تازہ کرنی ھے۔
حاصلِ کلام يه كه محرم کے پہلے دس دنوں میں جیسے اور بہت سے غیر شرعی معاملات کو سرانجام دیا جاتا ھے وہاں قبروں پر مٹی، پانی، پھول وغیرہ ڈالنے جانا وغیرہ بھی ایک لغو عمل ھے اور چونکہ اس کو التزام سے کیا جاتا ھے اور ہر سال اس میں اضافہ ہو رہا ھے تو شریعت کے لحاظ سے یہ عمل بدعت ھے۔ لحاظہ جو لوگ ایسے امور میں ملوث ہیں ان کو اخلاق سے سمجھانا چاہیے اور مُحرم الحرام میں کی جانے والی بدعات کو ترک کر دینا چاہیے۔

یومِ عاشورہ کی فضیلت
تاريخ ميں بهت أهم واقعات كا اس دن وقوع پذير هونا یوم عاشورہ کی خصوصی اہمیت کي دليل هے ، علاوہ ازیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے بھی اس دن کی متعدد فضیلتیں وارد هوئي ہیں؛
(1) عن أبی قتادة رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: انّي أحْتَسِبُ عَلَی اللّٰہِ أنْ یُکفِّر السنةَ التي قَبْلَہ․ (مسلم شریف ، ابن ماجہ)
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ عاشوراء کے دن کا روزہ گذشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔
(2) عن إبن عباس ما رأیتُ النبیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَتَحَرّیٰ صیامَ یومٍ فضَّلَہ علی غیرِہ الّا ہذا الیومَ یومَ عاشوراءَ وہذا الشہرَ یعنی شہرَ رَمَضَان (بخاری - مسلم )
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں كه میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی فضیلت والے دن کے روزہ کا اہتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا، سوائے اس دن یعنی یومِ عاشوراء کے اور سوائے اس ماہ یعنی ماہِ رمضان المبارک کے۔
مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے آپ کے طرزِ عمل سے یہی سمجھا کہ نفل روزوں میں جس قدر اہتمام آپ یومِ عاشورہ کے روزہ کا کرتے تھے، اتنا کسی دوسرے نفلی روزہ کا نہیں کرتے تھے۔
(3) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لَیْسَ لِیَوْمٍ فَضْلٌ عَلٰی یومٍ فِي الصِّیَامِ الاَّ شَہْرَ رَمَضَانَ وَیَوْمَ عَاشُوْرَاءَ․
(رواہ الطبرانی والبیہقی)
روزہ کے سلسلے میں کسی بھی دن کو کسی دن پر فضیلت حاصل نہیں؛ مگر ماہِ رمضان المبارک کو اور یوم عاشورہ کو (کہ ان کو دوسرے دنوں پر فضیلت حاصل ہے)۔
ان احادیث شریف سے ظاہر ہے کہ یوم عاشوره بہت ہی عظمت وتقدس کا حامل ہے؛ لہٰذا ہمیں اس دن کی برکات سے بھرپور فیض اٹھانا چاہیے۔

یوم عاشوره میں کرنے کے کام
احادیث مباركه سے یومِ عاشوره میں صرف دو عمل ثابت ہیں:
(1) روزہ: جیسا کہ اس سلسلے میں روایات گزرچکی ہیں؛ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار ومشرکین کی مشابہت اور یہود ونصاریٰ کی بود وباش اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے، اس حکم کے تحت چونکہ تنہا یوم عاشوره کا روزہ رکھنا یہودیوں کے ساتھ تشابہ تھا، دوسری طرف اس کو چھوڑ دینا اس کی برکات سے محرومی کا سبب تھا؛ اس لیے رسول الله صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ یوم عاشوره کے ساتھ ایک دن کا روزہ اور ملا لو، بہتر تو یہ ہے کہ نویں اور دسویں تاریخ کا روزہ رکھو، اور اگر کسی وجہ سے نویں کا روزہ نہ رکھ سکو تو پھر دسویں کے ساتھ گیارہویں کا روزہ رکھ لو؛ تاکہ یہود کی مخالفت ہوجائے اور ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا تشابہ نہ رہے، جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے یوم عاشوره کا روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس دن کو یہود بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا: فَاذَا کَانَ العامُ المُقْبِلُ ان شاءَ اللّٰہ ضُمْنَا الیومَ التاسعَ قال فَلَمْ یَأْتِ الْعَامُّ الْمُقْبِلُ حَتّٰی تَوَفّٰی رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم (مسلم شریف ) یعنی جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو بھی روزہ رکھیں گے، ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ اگلا سال آنے سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی وفات ہوگئی۔
بعض فقہاء نے لکھا ہے کہ صرف یوم عاشوره کا روزہ رکھنا مکروہ ہے؛ لیکن حضرت علامہ انور شاہ کاشمیری رحمة الله عليه نے فرمایا ہے کہ عاشوره کے روزہ کی تین شکلیں ہيں
 نویں، دسویں اور گیارہویں تینوں کا روزہ رکھا جائے
 نویں اور دسویں يا دسويں اور گیارہویں کا روزہ رکھا جائے
 صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔
ان میں پہلی شکل سب سے افضل ہے، اور دوسری شکل کا درجہ اس سے کم ہے، اور تیسری شکل کا درجہ سب سے کم ہے، تو حضرت شاہ صاحب نے فرمایا کہ تیسری شکل کا درجہ جو سب سے کم ہے اسی کو فقہاء نے کراہت سے تعبیر کردیا ہے، ورنہ جس روزہ کو آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے رکھا ہو اور آئندہ نویں کا روزہ رکھنے کی صرف تمنا کی ہو اس کو کیسے مکروہ کہا جاسکتا ہے۔ (معارف السنن )
(2) اہل وعیال پر رزق میں فراخی: شریعتِ اسلامیہ نے اس دن کے لیے دوسری تعلیم دی ہے کہ اس دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے میں وسعت اورفراخی کرنا اچھا ہے؛ کیونکہ اس عمل کی برکت سے تمام سال اللہ تعالیٰ فراخیِ رزق کے دروازے کھول دیتا ہے؛ چنانچہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ أوْسَعَ عَلٰی عِیَالِہ وَأہْلِہ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ أوْسَعَ اللّٰہُ عَلَیْہِ سَائِرَ سَنَتِہ․ (رواہ البیہقی، الترغیب والترہیب) یعنی جو شخص عاشوره کے دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے کے سلسلے میں فراخی اور وسعت کرے گا تو اللہ تعالیٰ پورے سال اس کے رزق میں وسعت عطا فرمائیں گے۔

يوم عاشوره تاريخ كے آئينے ميں
یوم عاشورہ بڑا ہی مہتم بالشان اور تاريخي أهميت اور عظمت کا حامل دن ہے یوم عاشوره زمانہٴ جاہلیت میں بهي قریشِ مکہ کے نزدیک بڑا محترم دن تھا، اسی دن خانہٴ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا اور قریش اس دن روزہ رکھتے تھے، قیاس یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کچھ روایات اس کے بارے میں ان تک پہنچی ہوں گی تاریخ کے بهت سے عظیم واقعات اس مبارك دن سے جڑے ہوئے ہیں جن ميں سے كچه مندرجه زيل هيں :
 یوم عاشورہ میں ہی آسمان ، زمین اور قلم کو پیدا کیا گیا۔
اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا۔
 اسی دن حضرت آدم علیٰ نبینا وعلیہ الصلاة والسلام کی توبہ قبول ہوئی۔
 اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا۔
 اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہولناک سیلاب سے محفوظ ہوکر کوہِ جودی پر لنگرانداز ہوئی۔
 اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ،،خلیل اللہ“ بنایا گیا اور ان پر آگ گلِ گلزار ہوئی۔
 اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔
 اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی
 اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کو مصر کی حکومت ملی۔
 اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ایک طویل عرصے کے بعد ملاقات ہوئی۔
 اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم واستبداد سے نجات حاصل ہوئی۔
 اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی۔
 اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت واپس ملی۔
 اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کو سخت بیماری سے شفا نصیب ہوئی۔
 اسی دن حضرت یونس علیہ السلام چالیس روز مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعد نکالے گئے۔
 اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوئی اور ان کے اوپر سے عذاب ٹلا۔
 اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔
اور اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کے شر سے نجات دلا کر آسمان پر اٹھایا گیا۔
 اسی دن دنیا میں پہلی بارانِ رحمت نازل ہوئی۔
 اسی دن قریش خانہٴ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے۔
 اسی دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہ سے نکاح فرمایا۔
 اسی دن نواسہٴ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جگر گوشہٴ فاطمہ رضی اللہ عنہما کو میدانِ کربلا میں شہید کیا گیا

 ۔

رَبَّنَا لا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ O
( آمین ثم آمین يا رب العالمين )


Share: