امیر شریعت مولانا عطا اللہ شاه بخاری رحمة اللہ عليه


امیر شریعت مولانا عطا اللہ شاه بخاری رحمة اللہ عليه
 كا بهترين أخلاق اور إيك عيسائي بهنگي كا خاندان
 سميت قبول إسلام
جالندهر کے جامعه خیر المدارس میں ختم نوبت كا جلسہ ہوا اور جلسے کے اختتام پر کهانا لگايا گيا ، دستر خوان پر امیر شریعت مولانا عطا اللہ شاه بخاری رحمة اللہ عليه بهی تهے ان کی نظر ایک نوجوان عیسائی پر پڑی جو بهنگى تها اور ٹواليٹ وغيره كي صفائي كا كام كررها تها تو مولانا نے اسکو فرمایا
" بهائی کهانا کها لو"
عیسائی نے جواب دیا
"جی میں تو بهنگی ہوں"
شاه جی نے درد بهرے لہجے میں فرمایا
"انسان تو ہو اور بهوک تو لگتی ہے"
یہ کہہ کر اٹهے اور اور اس کے ہاتھ دهلا کر اپنے ساته دستر خان پر بٹها لیا .... وہ بیچارہ تهر تهر کانپ رها تها اور کہتا جاتا تها
"جی میں تو بهنگی ہوں" - "جی میں تو بهنگی ہوں"
شاہ صاحب نے اسے اپنے ساتهـ بٹها ليا اور خود لقمہ بنا کر اس کے منہ میں ڈالا، اس کا حجاب اور خوف کچھ دور ہوا تو شاہ صاحب نے ایک آلو اس کے منہ میں ڈال دیا جب اس نے آدها آلو کاٹ لیا تو باقی آدها شاه صاحب نے خود کها لیا، اسی طرح اس نے پانی پیا تو اس کا بچایا ہوا پانی بهی شاه صاحب نے خود هي پی لیا....وقت گذر گیا اور وہ عیسائی کهانا کها کر وهاں سے غائب ہو گیا.. اس پر رقت طاری تهی،وہ خوب رویا اور اسکی کیفیت ہی بدل گئی....
عصر کے وقت وہ عیسائی اپنی بیوی اور بچے کو لے کر آیا اور کہا
" شاہ جی ! آپ نے جو محبت کی آگ لگائی ہے وہ اب آپ هي بجهائیں بهی ، اللہ کے لئے ہمیں کلمه پڑها کر مسلمان کر لیں"
اورمیاں بیوی دونوں بچے سميت مسلمان ہوگئے..
وه ادائے دلبری ہو یا نوائے عاشقانہ !!!
جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ
-----
Share: