قتل خطاء

قتل خطاء

قتل خطاء بھی د نیا وی احکا م کے اعتبا ر سے قا بل مواخذ ہ جر م ہے ، اس پر جو سزائیں مقر ر کی گئی ہیں وہ تین ہیں :۔
 اگر مقتو ل قا تل کا کو ئی ا یسا قر یبی ر شتہ دار ہو جس کی مو ت پر قا تل کو ورا ثت کا حق پہنچتا ہو تو قتل کرنے کی و جہ سے قا تل حقِ ورا ثت سے محر وم ر ہے گا ، کیو نکہ اس میں اس کا بھی ا حتما ل ہے کہ کہیں قا تل نے جائیداد ہتھیانے کے لئے قتل کا یہ طر یقہ ا ختیا ر کیا ہو ۔

 دوسری سزا یہ ہے کہ ا نسا نی جا ن اللہ تعا لیٰ کی عظیم مقد س اما نت ہے اس میں خیا نت کر نے پر قا تل دو مہینے متوا تر رو زے ر کھے گا تا کہ قاتل کو ا پنے کیے ہو ئے جر م پر ندامت اور
 افسو س کا احسا س ہو ۔ اس کا تعلق چونکہ
فیما بینہٖ وبین اللّٰہ۔
ہے اس لئے اس میں جبرا ور طا قت کے ا ستعما ل کا کو ئی سوا ل پید ا نہیں ہو تا ۔

 تیسری سزا خو ن بہا کی ادا ئیگی ہے تا کہ ا نسا ن کا خو ن ضا ئع نہ ہو ، قتلِ خطا کی صو رت میں یہ خو ن بہا دس ہزار دراہم ہیں جو دو ہزار نو سو سو لہ تو لہ آ ٹھ ما شہ  چا ند ی کے 
مساوی ہے لہٰذ ا اتنی مقدار میں چا ندی کی مروّجہ قیمت دیت شمار ہو گی ۔خو ن بہا کی ا تنی خطیر رقم کی تقرری میں بنیا دی فلسفہ مقتو ل کے زخم خو ردہ ور ثا ء کے لئے تسلی ہے ، ممکن ہے کہ اس ما لی تعا ون سے ان کے جذ با ت ٹھنڈے ہو ں اور ا نتقامی جذ بہ کا جو لا وا اُ ن کے دلو ں میں اُ بل رہا تھا شا ید خو ن بہا کی و صولی سے متا ثر ہو ئے بغیر نہ ر ہے ۔
(فتاوی حقانیہ )

دیت کی ادا ئیگی کا ذمہ دار کو ن ہے ؟
لیکن ا تنی بڑ ی رقم کی ادا ئیگی شا ید قا تل کے بس میں نہ ہو ، ممکن ہے کہ تحمل کی استطاعت نہ ر کھنے کی و جہ سے وہ ا پنی جا ن کا نذ را نہ پیش کر سکے جس سے دیت کی ادا ئیگی نا ممکن ہو ، اس لئے شر یعت نے اس کو ممکن بنا نے اور قا تل کو ہلا کت کے اس بھنورسے
نکالنے کے لئے دیت کی ادا ئیگی کی ذمہ دار ی’’عا قلہ ‘‘ کے کند ھو ں پر ڈالی ہے ’’عا قلہ ‘‘ سے مر اد اہل د یو ان ( دفتر ی ر یکا رڈ میں متعلقہ زمرہ ) قو م ،قبیلہ ہے ، ’’ عا قلہ کے تعین میں 
بنیادی تصور یہ ہے کہ جن لو گو ں سے تکلیف اور مصیبت کے وقت قا تل تعا ون اور مد د کی
  امید ر کھتا ہو وہی اس کا عا قلہ متصو ر ہو گا ، مو جو د ہ وقت میں یو نین ، محکمہ اور کمپنی اس کے ضمن میں آ سکتے ہیں ۔ مثلاً سکول کا ایک استا د کہیں قتلِ خطا ء کا مر تکب ہو تو اس قتل کی دیت پو رے صو بہ کے اسا تذہ سے لی جا ئے گی ۔ ممکن ہے کو ئی یہ کہے کہ یہ کہا ں کا انصا ف ہے کہ ایک گمنا م شخص کے جرم کی سزا پو رے محکمہ وا لوں کو دی جا ئے ، لیکن اسلامی ذ ہن ر کھنے وا لا شخص ایسے لا یعنی شبہا ت کا کبھی تصور بھی نہیں کر تا ، کیو نکہ تما م مسلما ن بمنزلہ جسد ِ واحد ہیں ، ایک عضو کی تکلیف پر پورا جسم تکلیف محسو س کر تا ہے ، مشر ق میں ر ہنے وا لے کی خو شی اور غم کا احسا س مغر ب میں ر ہنے وا لے مسلما ن کو بھی ہو گا ۔ کو ئی مسلما ن کسی دُ و سرے مسلما ن کے مصیبت میں مبتلا ہو نے سے تعلق نہیں رہ سکتا ۔ اسلا م میں قو ی وحد ت اور یگا نگت بنیا دی چیز ہے ، لہٰذا ا یسی مصیبت میں کم از کم اس کے عا قلہ کو تعا ون کا ہا تھ یقینا بڑھا نا چا ہیے ۔
عا قلہ پر دیت کے تعین کا ایک دوسرا فا ئد ہ یہ بھی ہے کہ اتنی بڑ ی قو م جب دیت ادا کر ے گی تو لازماً قاتل کو ا یسے اوصا ف اور با توں سے یا د کرے گی جن کا سننا قا تل کے لئے نا گوار ہو گا ۔ ا یسے قبیح حا لات اور منا ظر سے بچنے کے لئے آئند ہ ہر ایک شخص نہا یت ا حتیا ط سے کا م لے گا ۔ اگر غو ر سے معز ز شخص لا کھو ں رو پے قر با ن کر کے ا پنے با رے میں ایسی با تیں سننا گو ارا نہیں کر تا ۔
(فتاوی حقانیہ )

دیت کی و صو لی کا طر یقۂ کار
عا قلہ پر دیت کا جو بوجھ ڈالا گیا ہے یہ کو ئی ا یسا بو جھ نہیں جو اس کے قو ت بردا شت سے زیا دہ ہو ، عا قلہ سے دیت مجموعی طو ر پر تین سا لو ں میں وصو ل کی جا ئے گی ، ا ما م محمد رحمتہ اللہ علیہ کی تحقیق کی رو شنی میں ایک شخص پر تین سا لو ں میں چا ردرا ہم یعنی چودہ ما شہ چا ند ی کی قیمت سے ز یا دہ بو جھ نہیں ڈا لا جا ئے گا ۔ ، پھر اگر قر یبی علا قہ میں اتنی گنجا ئش نہ ہو تو عا قلہ کا دا ئرہ و سیع کیا جا ئے گا تا کہ ایک شخص پر زیا دہ بو جھ نہ ڈا لا جا سکے ۔
پھر دیت کی و صو لی کے لئے آ سا ن طر یقہ متعین کیا گیا ہے کہ دیت لو گو ں کے ما ہا نہ ، ششما ہی اور سالانہ وظا ئف سے منہا کی جا ئے گی ۔ مو جودہ دور میں اگر ہر ملا زم کی تنخواہ سے ماہا نہ دیت کی رقم کا ٹی جا ئے تو  تنخواہ دار طبقہ پر کو ئی خا ص بو جھ نہیں هو گا۔
اس محیرالعقول نظا م تحفظ جان سے کسی کو ڈرنا نہیں چا ہیے ، اسلام د ینِ فطر ت ہے اس میں نہ ظلم کی حوصلہ ا فز ائی ہے اور نہ ظا لم کا استیصال مقصود ہے ۔ اسلا م میں ظا لم اور مظلو م 
دونوں سے تعا ون کیا جا تا ہے ۔ ظا لم سے تعا ون کا مطلب یہ ہے کہ اس کو ظلم سے با ز ر ہنے پر مجبو ر کیا جا تا ہے اور مظلوم کی طر ف ہمدردی اور تعا ون کا ہاتھ بڑھایا جا تا ہے ۔ اسلا م کے نظا م دیت میں اگر ایک طرف قا تل کو جھنجھوڑا جا تا ہے تو دو سری طرف عا قلہ پر یہ ذمہ داری ڈا ل کر اس کے سا تھ سہو لت اور آ سا نی کا رو یہ ر کھتا ہے ، پھر دیت کی و صو لی سے مقتو ل کے غمز دہ ور ثا ء کے لئے ا طمینا ن د لا نے کا ہمد رد دانہ رو یہ اسلا م کا ا نفر اد ی 
مقا م ہے ۔
(فتاوی حقانیہ )
Share: