اسلامی عقائد


اسلامی عقائد

سوال نمبر 1: اصطلاحِ شرعی کا کیا مطلب ہے؟
جواب :کسی لفظ کے وہ مخصوص معنی جو شریعت میں مراد لیے جاتے ہیں، انھیں اصطلاح شرعی کہتے ہیں۔


سوال نمبر 2: احکامِ شرعیہ کتنے ہیں؟
جواب :حکم شرعی دو قسم پر ہے ایک امر اور دوسرا نہی، پہلے قسم کے احکام کو مامورات اور دوسری قسم کے احکام کو منہیات یا ممنوعات کہا جاتا ہے پھر امر اور نہی کے اعتبار سے احکام شرعیہ گیارہ ہیں، پانچ جانب فعل (امر) میں یعنی وہ جن سے کسی فعل کی طلب ثابت ہوتی ہے، ان میں سب سے اہم ومقدم فرض ہے۔ پھر واجب پھر سنت موکدہ پھر سنت غیرموکدہ پھر مستحب۔
اور پانچ احکام جانب ترک (نہی) میں ہیں، یعنی وہ جن سے کسی فعل کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ اس میں کمتر درجے کا خلاف اولیٰ ہے۔ اس سے اوپر مکروہ تنزیہی ہے۔ اس سے اوپر سات، اس سے اوپر مکروئہ تحریمی اور ان سب سے اوپر حرام، یہ سب دس احکام ہوئے اور گیارھواں سب سے بیچ میں مباحِ خالص ہے۔

سوال نمبر 3: فرض کی کتنی قسمیں ہیں اور ہر ایک کی تعریف کیا ہے؟
جواب :فرض کی دو قسمیں ہیں (۱) فرض اعتقادی (۲) اور فرض عملی اعتقادی وہ حکم شرعی جو دلیل قطعی سے ثابت ہو یعنی ایسی دلیل سے جس میں کوئی شبہ نہ ہو۔ اس کا انکار کرنے والا ائمہ حنفیہ کے نزدیک مطلقاً کافر ہے اور اگر اس کی فرضیت دین اسلام کا عام و خاص پر روشن واضح مسئلہ ہو جب تو اس کے منکر کے کفرپر اجماع قطعی ہے ایسا کہ جو اس منکر کے کفر میں شک کرے خود کافر ہے۔ بہرحال جو کسی فرض اعتقادی کو بلا عذر صحیح شرعی ایک بار بھی چھوڑے وہ فاسق ، گناہ کبیرہ کا مرتکب اور عذاب جہنم کا مستحق ہے۔ جیسے نماز، رکوع، سجود۔
فرض عملی وہ حکم شرعی ہے جس کا ثبوت تو ایسا قطعی نہ ہو، مگر نظر مجتہد میں دلائل شرعیہ کے بموجب یقین ہے کہ بے اس کے کیے آدمی بری الذمہ نہ ہوگا۔ یہاں تک کہ اگر وہ کسی عبادت کے اندر فرض ہے تو وہ عبادت بے اس کے باطل و کالعدم (معدوم) ہوگی، اس کا بے وجہ انکار فسق و گمراہی ہے ۔ ہاں اگر کوئی مجتہد دلیل شرعی سے اس کا انکار کرے تو کر سکتا ہے ۔ جیسے ائمہ مجتہدین کے اختلافات کہ ایک امام کسی چیز کو فرض کہتے ہیں۔ اور دوسرے نہیں مثلاً حنفیہ کے نزدیک ایک چوتھائی سر کا مسح وضو میں فرض ہے اور شافعیہ کے نزدیک ایک بال کا اور مالکیہ کے نزدیک پورے سر کا ۔ مگر اس فرض عملی میں ہر شخص اسی امام کی پیروی کرے جس کا مقلد ہے اپنے امام کے خلاف بلاضرورت شرعی دوسرے کی پیروی جائز نہیں۔

سوال نمبر 4: فرض عملی کی کتنی قسمیں ہیں؟
جواب :فرض عملی کی دو قسمیں ہیں
فرض عین -  فرض کفایہ
فرض عین وہ فرض ہے جس کا ادا کرنا ہر عاقل بالغ پر ضروری ہو جیسے نماز پنجگانہ ۔ اور فرض کفایہ اس فرض کو کہتے ہیں جس کو دو ایک مسلمان ادا کرلیں۔ توسب مسلمانوں کے ذمہ سے فرض ساقط ہو جائے گا اور ایک آدمی بھی ادا نہ کرے تو سب گنہگار ہوں جیسے غسل میت اور نماز جنازہ۔

سوال نمبر 5: واجب کے (کتنی)قسم پر ہے؟
جواب :فرض کی طرح واجب بھی دو قسم پر ہے۔ (۱) واجب اعتقادی (۲) واجب عملی
واجب اعتقادی وہ شرعی حکم ہے جس کی ضرورت دلیل ظنی سے ثابت ہو۔ فرض عملی اور واجب عملی اسی کی دو قسمیں ہیں اور واجب عملی وہ حکم شرعی (یا واجب اعتقادی) کہ بے اس کے کئے بھی بری الذمہ ہونے کا احتمال ہے مگر غالب گمان اس کی ضرورت پر ہے اور اگر کسی عبادت میں اس کا بجالانا درکار ہو تو عبادت بے اس کے ناقص رہے مگر ادا ہو جائے اور کسی واجب کا ایک بار بھی قصداً چھوڑ نا گناہِ صغیرہ ہے اور چند با ر ترک کرنا گناہِ کبیرہ۔

سوال نمبر 6: سنت کی کتنی قسمیں ہیں؟
جواب سنت دوقسم پر ہے ایک سنت موکدہ جسے سنت ہدی(سنن الہدیٰ) بھی کہتے ہیں دوسری سنت غیر موکدہ جس کو سنت زائدہ (سنن الزوائد) بھی کہتے ہیں اور کبھی اسے مستحب اور مندوب بھی کہتے ہیں۔

سوال نمبر 7: سنت موکدہ کسے کہتے ہیں؟
جواب :سنت موکدہ وہ حکم شرعی ہے جس کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ کیا ہو، البتہ اس خیال سے کہ کہیں امت پر فرض نہ ہو جائے کبھی ترک بھی فرمایا ہو یعنی نہ کیا ہو یا وہ کہ اس کے کرنے کی شریعت میں تاکید آئی۔

سوال نمبر 8: سنت موکدہ کسے کہتے ہیں؟
جواب :سنت موکدہ کا کرنے والا ثواب پائے گا اور جو شخص بلا عذر شرعی ایک بار بھی ترک کرے وہ ملامت کا مستحق ہے اور ترک کی عادت کرے تو فاسق ، عذاب جہنم کا مستحق اور گناہگار ہے اگرچہ اس کا گناہ واجب کے ترک سے کم ہے۔ اور ایسے شخص کی گواہی نامقبول، اور بعض علمائے سلف نے فرمایا کہ اس کا ترک قریب حرام کے ہے اور اس کا ترک مستحق ہے کہ معاذ اللہ شفاعت سے محروم ہو جائے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو میری سنت کو ترک کر گے گا۔ اسے میری شفاعت نہ ملے گی۔

سوال نمبر 9: سنت غیر موکدہ کسے کہتے ہیں؟ اور اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب :سنت غیرموکدہ وہ حکم شرعی جس پر شریعت میں تاکید نہیں آئی ، مگر اس کا ترک کرنا بھی شریعت کو پسند نہیں لیکن نہ اس حد تک کہ اس پر عذاب تجویز کرے، اس کا کرنا ثواب اور نہ کرنا اگرچہ بطور عادت ہو یا باعثِ عتاب نہیں۔

سوال نمبر 10: مستحب کسے کہتے ہیں؟
جواب :مستحب وہ حکم شرعی جس کا بجا لانا نظر شرع میں پسند ہے، خواہ خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کیا ہو۔ یا اس کی طرف رغبت دلائی یا علمائے کرام نے اسے پسند فرمایا اگرچہ احادیث میں اس کا ذکر نہ آیا۔ اس کا کرنا ثواب اور نہ کرنے پر کچھ الزام نہیں۔

سوال نمبر 11: شریعت نے جن کاموں کی ممانعت کی وہ کتنی قسم پر ہیں؟
جواب :ممنوعات شرعیہ پانچ قسم پر ہیں، حرام قطعی، مکروہ تحریمی ، اسا ء ت ، مکروہ تنزیہی، خلاف اولیٰ۔

سوال نمبر 12: حرام قطعی کسے کہتے ہیں؟
جواب :حرام قطعی وہ ممنوع شرعی ہے جس کی ممانعت دلیل قطعی سے ثابت ہو، یہ فرض کا مقابل ہے، اس کا ایک بار بھی قصداً کرنا گناہ کبیرہ وفسق ہے اور بچنا فرض و ثواب۔

سوال نمبر 13: مکروہ تحریمی کسے کہتے ہیں؟
جواب :مکروئہ تحریمی وہ ممنوع شرعی ہے جس کی ممانعت دلیل قطعی سے ثابت ہو۔ یہ واجب کا مقابل ہے۔ اس کے کرنے سے عبادت ناقص ہو جاتی ہے اور کرنے والا گناہگار ہوتا ہے۔ اگرچہ اس کا گناہ حرام سے کم ہے اور چند بار اس کو کرنا گناہ کبیرہ ہے۔

سوال نمبر 14: مکروہ تحریمی کو حرام کہہ سکتے ہیں یانہیں؟
جواب :حرام اور مکروہ تحریمی میں جو فرق ہے وہ باعتبار عقیدے کے ہے کہ حرام قطعی کی حرمت کا انکار کرنے والا کافر ہے جبکہ مکروہ تحریمی کی ممانعت کا منکر کافر نہیں اور بچنا جس طرح حرام سے فرض ہے یونہی مکروہ تحریمی سے باز رہنا لازم ہے اس بناء پر مکروہ تحریمی کو حرام کہہ سکتے ہیں بلکہ ائمہ متقدمین حرام کو بھی مکروہ کہہ دیتے ہیں۔

سوال نمبر 15: اساءت کسے کہتے ہیں؟
جواب :اساء ت وہ ممنوع شرعی ہے جس کی ممانعت کی دلیل حرام اور مکروہ تحریمی جیسی تو نہیں مگر اس کا کرنا ہے برا۔ ایک آدھ بار کرنے والا مستحق عتاب ہے اور عادتاً اس کا مرتکب عذاب کا مستحق ہے۔ یہ سنت موکدہ کے مقابل ہے۔

سوال نمبر 16: مکروہ تنزیہی کسے کہتے ہیں؟
جواب :مکروہ تنزیہی وہ ممنوع شرعی ہے جس کا کرنا شرع کو پسند نہیں، مگر نہ اس حد تک کہ اس پر وعید عذاب فرمائے۔ اس کا ترک کرنے والا فضیلت و ثواب پائے گا اور کرنے والے پر نہ عذاب ہے نہ عتاب ، یہ سنت غیرہ موکدہ کے مقابل ہے۔

سوال نمبر 17: خلاف اولیٰ کسے کہتے ہیں؟
جواب :خلاف اولیٰ وہ ممنوع شرعی ہے جس کا نہ کرنا بہتر تھا، کیا تو کچھ مضائقہ و عتاب نہیں، جو نہ کرے گا فضیلت پائے گا ، یہ مستحب کا مقابل ہے۔

سوال نمبر 18: مباح کسے کہتے ہیں؟
جواب :مباح اس کام کو کہتے ہیں جس کے لیے نہ کوئی حکم ہے نہ ممانعت لہٰذا اس کا کرنا نہ کرنا یکساں ہے، کرو تو ثواب نہیں نہ کرو تو کچھ عذاب نہیں جیسے لذیذ غذا عمدہ لباس جبکہ بطورِ اسراف نہ ہو۔

سوال نمبر 19: کسی امر مباح پر دلیل شرعی کی حاجت ہے یا نہیں؟
جواب :کسی امر کو جائز و مباح کہنے والوں کو ہر گز دلیل کی حاجت نہیں کہ ممانعت پر کوئی دلیل شرعی نہ ہونا ۔ یہی اس کے جائز ہونے کی دلیل کافی ہے۔ اگر اس فعل میں کوئی برائی ہوتی تو شریعت مطہرہ ضرور اس سے آگاہ فرماتی اور اس سے باز رہنے کا کوئی نہ کوئی حکم شریعت میں وارد ہو جاتا۔

سوال نمبر 20: احتیاطًا کسی امر مباح کو حرام یا بدعت کہہ سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب :اب  قرآن کریم اتر چکا ، دین کامل ہو گیا اور کوئی نیا حکم آنے کو نہ رہا  الله تعالى نے قرآن مجيد ميں فرما ديا كه  جو کچھ رسول تمھیں عطا فرمائیں وہ  لے لو (یعنی اس پرعمل کرو) اور جس سے منع فرمائیں اس سے باز رہو
تو جن باتوں کا شریعت نے نہ حکم دیا نہ منع کیا اس كے متعلق علماء كي رائے پر عمل كيا جائے

سوال نمبر 21: سنت کو نفل کہہ سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب :نفل اس عمل مشروع و جائز کو کہتے ہیں جو فرض و واجب نہ ہو، لہٰذا نفل عام ہے کہ سنت پر بھی اس لفظ کا اطلاق آیا ہے۔ اور اس کے غیر کو بھی نفل کہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام فقہ کی کتابوں میں باب النوافل میں سنن کا ذکر بھی کرتے ہیں کہ نفل ان کو بھی شامل ہوتے ہیں ، البتہ اگر سنتوں کے لیے کوئی خاص بات ہوتی ہے تو اس کو الگ بیان کر دیا جاتا ہے۔

سوال نمبر 22: جن دلیلوں سے یہ شرعی احکام ثابت ہوتے ہیں وہ کتنی ہیں؟
جواب :شریعت کے دلائل چار ہیں، قرآن ، حدیث، اجماع امت اور قیاس۔

سوال نمبر 23: قیاس کا کیا مطلب ہے؟
جواب :قیاس کے شرعی معنی ہیں کہ فرعی مسئلہ کو اصل مسئلہ سے علت اور حکم میں ملا دینا ۔ یعنی ایک مسئلہ ایسا درپیش آگیا جس کا ثبوت قرآن وحدیث میں نہیں ملتا تو اس کی مثل کوئی وہ مسئلہ لیا جو قرآن و حدیث میں ہے اور اس کے حکم علت معلوم کر کے یہ کہا کہ چونکہ وہ علت یہاں بھی ہے لہٰذا اس کا حکم بھی وہی ہوگا۔ اسی کا نام قیاس ہے۔ تو قیاس اصل میں حکم شریعت کا مظہر یعنی ظاہر کرنے والا ہے خود مستقل حکم نہیں یعنی قرآن و حدیث میں یہ حکم تو تھا مگر ظاہر نہ تھا۔ قیاس نے اسے ظاہر کر دیا۔ البتہ قیاس میں شرط یہ ہے کہ قیاس کرنے والا مجتہد ہو، ہر کس و ناقص کا خیال معتبر نہیں۔ قیاس کا ثبوت قرآن و حدیث اور افعال صحابہ سے ہے، اسی لیے اس کا مطلقاً انکار کفر ہے۔
Share: