شرعي إصطلاحات

شرعي إصطلاحات

تعريف : کسی لفظ کے وہ مخصوص معنی جو شریعت مطهره میں مراد لیے جاتے ہیں، انھیں اصطلاحِ شرعی کہتے ہیں۔حکمِ شرعی دو قسم پر ہے ایک امر اور دوسرا نہی، پہلے قسم کے احکام کو مامورات اور دوسری قسم کے احکام کو منہیات یا ممنوعات کہا جاتا ہے مامورات ميں  فرض ، واجب ، سنت ، مستحب یا مندوب  شامل هيں اور ممنوعات ميں حرام ، مکروه تحریمی ، مکروه تنزیهی ،اور مباح  شامل هيں 



شرعي إصطلاحات كا هر مسلمان كے لئے جاننا ضرورى هے گو هم سب إن إصطلاحات كو وقتاً فوقتاً لفظاً إستعمال تو كرتے هيں ليكن إن كي تعريف سے مسلمانوں كي أكثريت لا علم هے ذيل ميں إختصار كے ساتهـ إن شرعي إصطلاحات كي تعريف اور أن كا شرعي حكم تحرير كيا جا رها هے


  فرض
فرض وه عمل هے جس کا لازم اور ضروری هونا دلیلِ قطعی سے ثابت هو.
خواه وه عمل مستقل هو مثلا فرض نماز ، فرض روزه یا کسی مستقل عمل میں رکن کی حیثیت رکهتا هو. جیسے  نماز میں سجده ، رکوع یا اس کے لئے شرط کی حیثیت رکهتا هو جیسے نماز کے لئے نیت یا وضو وغيره وغيره
* بحرالرائق ص290 *

  واجب
واجب هر وه لازم اور ضروری عمل هے جس کا ضروری هونا دلیل ظنی سے ثابت هو
مثال کے طور پر نماز وتر کا واجب هونا هم پر حدیث نبوی سے واجب هے ، مردوں کے لئے داڑهی رکهنا حدیث سے ثابت هے وغيره وغيره
* قواعد الفقه ص539 *

ضروری نوٹ.... فرض اور واجب عمل کے اعتبار سے دونوں لازم اور ضروری هیں 
البته عقیدے کے اعتبار سے دونوں میں فرق هے
فرض عمل کی فرضیت کا انکار کرنے والا شرعاً کافر اور دائره اسلام سے خارج هوتا هے جبکه واجب عمل کے وجوب سے انکار کرنے والے کافر نهیں هوتا البته سخت گناه گار ، فاسق هوتا هے 


 سنت 
سنت نبی كريم صلی الله علیه وآله وسلم سے ثابت شده طریقے کو کهتے هیں چاهے آپ صلی الله علیه وآله وسلم نے اس کا حکم فرمایا هو یا اس کی تائید فرمائی هو یا کسی کو وه عمل کرتے هوئے دیکها هو اور اس پر نکیر نه فرمائی هو یعنی اس کو اس عمل سے منع نهیں فرمایا هو إس كي دو قسميں هيں 1- سنت مؤكده 2- سنت غير مؤكده
* قواعد الفقه ص328 *

  مستحب یا مندوب
یه وه عمل هوتا هے جس کے کرنے میں ثواب هو اور اس کے نه کرنے میں گناه نه هو....اس کو نفل یا تطوُّع بهی کهاجاتا هے جیسے هم نفل يا سنت غير مؤكده نماز پڑهتے هیں. تو ثواب هوتا هے نه پڑهے تو گناه بهي كوئى نهیں
* فتاوی شامی ج1 ص123 *


حرام
يه وه عمل هوتا هے جس سے اجتناب اور اپنے آپ کو بچانا فرض هے اور یه دلیل قطعی سے ثابت هوتا هــے يعني اس کا حرام هونا قرآنی آیت سے ثابت هوتا هے
* فتاوی شامی ج6 ص338 *


  مکروه تحریمي
اس کا مطلب یه هے جو حرام کے قریب هو اور اس کا چهوڑنا واجب هو اور اس سے اپنے آپ کو بچانا اور گریز کرنے کا لزوم روایت سے ثابت هو يعني دلیل ظنی سے ثابت هو مکروہِ تحریمی وہ فعل ہے جس سے لازمی طور پر رک جانے کا مطالبہ ہو اور وہ مطالبہ دلیلِ ظنی سے ثابت ہو۔ (یہ واجب کے مقابل ہے اور اس کو اپنانے سے عبادت ناقص ہو جاتی ہے)۔ مثلاً نماز وتر کا چھوڑنا، نمازِ وتر چونکہ واجب ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی زندگی میں اس کو کبھی ترک نہ فرمایا اور اس کے چھوڑنے پر وعید سنائی ہے۔
أَلْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا، اَلْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوْتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا، اَلْوِتْرُ حَقُّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا.
ابوداؤد، السنن
’’وتر حق ہے اور جو وتر ادا نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے وتر حق ہے اور جو وتر ادا نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے وتر حق ہے اور جو وتر ادا نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘هو
* کتاب ، الطحطاوی ص 80 *

ضروری نوٹ.... حرام اور مكروه تحريمي عمل کے اعتبار سے دونوں سے بچنا لازم اور ضروری هے البته عقیدے کے اعتبار سے دونوں میں فرق هے.
ِحرام کی حرمت کا انکار کرنے والا شرعاً کافر اور دائره اسلام سے خارج هے جبکه مكروه تحريمي سے انکار کرنے والا کافر نهیں هوتا البته سخت گناه گار اور فاسق هوگا

 مکروه تنزیهی 
 اس سے اپنے آپ کو بچانا گریز کرنا اولی هو یعنی بهتر هو که مکروه تنزیهی پر عمل نه کیا جائے مکروہِ تنزیہی وہ فعل ہے جس کو ترک کرنے کے مطالبہ میں شدت نہ پائی جائے مثلاً محرم الحرام کی صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھنا
* فتاوی شامی ج1 ص131 *

 مباح 
یه وه عمل هے جس کا کرنا اور نه کرنا برابر هو یعنی اس کے کرنے میں نه ثواب هو اور نه  کرنے میں گناه بهی نه هو مثلاً  لذیذ کھانے کھانا اور نفیس کپڑے پہننا 
* قواعد الفقه ص460 *
______
Share: