سفید بالوں کو خضاب كرنا يعني رنگنا ۔
آحاديث مباركه كي روشني ميں
بالوں کو رنگنا خضاب کہلاتا ہے اور اس کی درج ذیل صورتیں اور قسمیں ہیں
بالوں کو رنگنا خضاب کہلاتا ہے اور اس کی درج ذیل صورتیں اور قسمیں ہیں
رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم كا بالوں کو رنگنے کا حکم
سیدنا ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا : ((غیر و الشیب ولا تشبھوا بالیھود)) بڑھاپے (بالوں کی سفیدی) کو (خضاب کے ذریعے ) بدل ڈالو اور (خضاب نہ لگانے میں) یہودیوں کی مشابہت نہ کرو۔
سیدنا ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا : ((غیر و الشیب ولا تشبھوا بالیھود)) بڑھاپے (بالوں کی سفیدی) کو (خضاب کے ذریعے ) بدل ڈالو اور (خضاب نہ لگانے میں) یہودیوں کی مشابہت نہ کرو۔
(الترمذی: ۱۷۵۲ و قال : “حسن صحیح وسندہ حسن”)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا : یہودی اور نصرانی (عیسائی) خضاب نہیں لگاتے لہٰذا تم ان کے خلاف کرو
(تم خضاب لگاؤ)
(صحیح البخاری : ۵۸۹۹ ، صحیح مسلم: ۲۱۰۳)
مہندی کا خضاب(رنگ) لگانا یا مہندی میں کوئی اور چیز ملا کر سفید بالوں کو رنگین کرنا بھی جائز ہے ۔
إيسا كوئى بهي كلر جس سے بال بالكل سياه نه هوں سے بالوں كو خضاب كے لئے إستعمال كرنا جائز هے بشرطيكه إس ميں كوئى حرام مواد موجود نه هو
زرد خضاب لگانا بھی ٹھیک ہے
سیدنا ابن عمر رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ “رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم دباغت دیئے ہوئے اور بغیر بال کے چمڑے کا جوتا پہنتے تھے اور اپنی ریش مبارک (داڑھی) پر آپ ورس (ایک گھاس جو یمن کے علاقے میں ہوتی تھی) اور زعفران کے ذریعے زرد رنگ لگاتے تھے
(صحیح البخاری : ۵۸۹۹ ، صحیح مسلم: ۲۱۰۳)
مہندی کا خضاب(رنگ) لگانا یا مہندی میں کوئی اور چیز ملا کر سفید بالوں کو رنگین کرنا بھی جائز ہے ۔
إيسا كوئى بهي كلر جس سے بال بالكل سياه نه هوں سے بالوں كو خضاب كے لئے إستعمال كرنا جائز هے بشرطيكه إس ميں كوئى حرام مواد موجود نه هو
زرد خضاب لگانا بھی ٹھیک ہے
سیدنا ابن عمر رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ “رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم دباغت دیئے ہوئے اور بغیر بال کے چمڑے کا جوتا پہنتے تھے اور اپنی ریش مبارک (داڑھی) پر آپ ورس (ایک گھاس جو یمن کے علاقے میں ہوتی تھی) اور زعفران کے ذریعے زرد رنگ لگاتے تھے
(ابوداود : ۴۲۱۰ وسندہ حسن ، النسائی : ۵۲۴۶)
احادیث مباركه سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے بعض دفعہ سرخ اور زرد خضاب لگایا ہے اور بعض دفعہ نہیں بھی لگایا۔ نیز دیکھئے فتح الباری
احادیث مباركه سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے بعض دفعہ سرخ اور زرد خضاب لگایا ہے اور بعض دفعہ نہیں بھی لگایا۔ نیز دیکھئے فتح الباری
(۳۵۴/۱۰)
شیخ نور پوری حفظہ اللہ لکھتے ہیں :”احادیث مباركه میں رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم کے بالوں کو رنگنے کا بھی ذکر ہے اور نہ رنگنے کا بھی، جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے رنگنے سے تعلق امرندب پر محمول ہے البتہ کل کے کل بال سفید ہوجائیں کوئی ایک بال بھی سیاہ نہ رہے تو پھر رنگنے کی مزید تاکید ہے ۔”
شیخ نور پوری حفظہ اللہ لکھتے ہیں :”احادیث مباركه میں رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم کے بالوں کو رنگنے کا بھی ذکر ہے اور نہ رنگنے کا بھی، جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے رنگنے سے تعلق امرندب پر محمول ہے البتہ کل کے کل بال سفید ہوجائیں کوئی ایک بال بھی سیاہ نہ رہے تو پھر رنگنے کی مزید تاکید ہے ۔”
(احکام و مسائل ۵۳۱/۱)
سفید بالوں میں سیاہ خضاب (رنگ) لگانا
سفید بالوں میں سیاہ خضاب (رنگ) لگانا درج ذیل دلائل کی روشنی میں حرام ہے
سیدنا جابر بن عبداللہ رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن سیدنا ابوبکر رضي الله تعالى عنه کے والد ابوقحافہ رضي الله تعالى عنه کو لایا گیا، ان کے سر اور داڑھی کے بال بالکل سفید تھے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا : “غیر واھذا بشیئ و اجتنبوا السواد“ اس کا رنگ بدلو اور کالے رنگ سے بچو۔
سفید بالوں میں سیاہ خضاب (رنگ) لگانا
سفید بالوں میں سیاہ خضاب (رنگ) لگانا درج ذیل دلائل کی روشنی میں حرام ہے
سیدنا جابر بن عبداللہ رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن سیدنا ابوبکر رضي الله تعالى عنه کے والد ابوقحافہ رضي الله تعالى عنه کو لایا گیا، ان کے سر اور داڑھی کے بال بالکل سفید تھے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا : “غیر واھذا بشیئ و اجتنبوا السواد“ اس کا رنگ بدلو اور کالے رنگ سے بچو۔
(صحیح مسلم : ۵۵۰۹/۲۱۰۲)
سیدنا عبداللہ بن عباس رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: “ایسی قومیں آخر زمانہ میں آئیں گی جو کبوتر کے پپوٹوں کی طرح کالے رنگ کا خضاب کریں گی وہ جنت کی خوشبو تک نہ پائیں گی
(ابوداود: ۴۲۱۲ وسندہ صحیح، النسائی: ۵۰۷۸)
---------------------
(ابوداود: ۴۲۱۲ وسندہ صحیح، النسائی: ۵۰۷۸)
---------------------