قبولِ استغفار

قبولِ استغفار

اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہی خیر کا ہر کام ہوتا ہے
وَمَا تَوْفِیْقِی اِلَّا بِاللّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیبْ
انسان جاہل ہے،بلکہ جہول ہے، اللہ تعالیٰ اسے جو علم سکھائیں ،بس وہی حقیقی علم ہے
سُبْحَانَکَ لَا عِلْمَ لَنَا اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیمْ
علم کے ساتھ اگر اس علم پر یقین…یعنی شرح صدر بھی نصیب ہو جائے تو ایسا علم ’’دعوت‘‘ بن کر صدقہ جاریہ ہو جاتا ہے…شرح صدر بھی اللہ تعالیٰ عطاء فرماتے ہیں اور دعوت کے لئے زبان و قلم بھی
رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَیَسِّرْلِیْ اَمْرِیْ ، وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّن لِّسَانِیْ یَفْقَہُو قَوْلِی
بارش چلتی رہے تو دریا اور ندی ،نالے آباد رہتے ہیں…بارش رک جائے تو دریا بھی سوکھ جاتے ہیں مرتے دم تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم ملتا رہے تو علم و دعوت کا گلشن آباد رہتا ہے، اور علم میں اضافہ اللہ تعالیٰ ہی عطاء فرماتے ہیں
رَبِّ زِدْنِی عِلْمَا
مقبول دعوت وہی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا خوف بھی ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف امید بھی…اللہ تعالیٰ مغفرت والے بھی ہیں اور عذاب والے بھی …اللہ تعالیٰ خود اپنے بندوں کو اپنی مغفرت کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ان مقبول بندوں نے بھی…لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی طرف بلایا…جن کی دعوت کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے
وَاَنَا اَدْعُوْکُمْ اِلٰی الْعَزِیْزِ الْغَفَّارْ
مغفرت اور امید کی طرف دعوت کا طریقہ یہ ہے کہ…اللہ تعالیٰ کے بندوں کو توبہ اور استغفار کی طرف بلایا جائے…ان گناہوں سے بھی جن کو معاشرے میں گناہ سمجھا جاتا ہے…اور ان گناہوں سے بھی جو بہت خطرناک ہیں مگر ان کو گناہ نہیں سمجھا جاتا…اور ان پر توبہ نہیں کی جاتی…
دعوت کا یہ ایک مکمل نصاب ہے …اسی نصاب کا ایک حصہ ’’قرآن مجید‘‘ کی وہ دعائیں ہیں …جن میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت مانگی گئی ہے … استغفار کی یہ دعائیں…اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہیں؎…اسی لئے قرآن مجید کا حصہ ہیں…اور جنہوں نے ان دعاؤں کو پڑھا ان کو ماضی میں مغفرت اور کامیابی ملی…ان دعاؤں کی یہ تاثیر اب بھی برقرار ہے…الحمد للہ گذشتہ کالم میں پانچ دعائیں آ گئیں…آج اللہ تعالیٰ کی توفیق سے باقی دعائیں بیان کرنی ہیں…

حضرت سیدنا آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا استغفار
رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ 
(الاعراف:۲۳)
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ فرمائے گا تو ہم ضرور تباہ ہو جائیں گے۔
یہ وہ استغفار ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود حضرت آدم علیہ السلام کو تلقین فرمایا…یہ وہ استغفار ہے جس سے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی …یہ انسان کا پہلا استغفار اور روئے زمین کا ابتدائی استغفار ہے…بہت جامع، بہت مؤثر، بہت پُرکیف اور مقبول استغفار…

 حضرت سیدنا موسى علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تسبیح اور توبہ
سُبْحٰنَکَ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ
(الاعراف:۱۴۳)
یا اللہ ! آپ کی ذات پاک ہے، میں آپ کے حضور توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شوق و محبت سے بے تاب ہو کر درخواست کی…یا اللہ اپنی زیارت کرا دیجئے…فرمایا! وہ (یہاں دنیا میں) ہرگز نہیں ہو سکتی…سامنے والے پہاڑ پر نظر رکھیں ہم اس پر اپنی تجلی ڈالتے ہیں…اگر وہ سہہ گیا تو آپ بھی زیارت کر لینا…پہاڑ پر تجلی آئی تو وہ ریزہ ریزہ ہو گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو گئے …جب ہوش آیا تو زبان پر اللہ تعالیٰ کی تسبیح تھی…اور اس بات پر توبہ کہ ایسی درخواست کیوں پیش کی…حضرات انبیاء علیہم السلام ہر طرح کے صغیرہ کبیرہ گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں…ان کا استغفار اور ان کی توبہ اُن کے بلند مقام کے لحاظ سے ہوتی ہے…کوئی بات یا کام اس مقام سے تھوڑا سا ہٹا تو فوراً استغفار اور توبہ میں لگ گئے…ہم جب ان الفاظ میں استغفار کریں تو ’’اول المومنین ‘‘ کی جگہ ’’من المومنین‘‘ کہہ لیا کریں…
سُبْحٰنَکَ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاَنَا مِنَ الْمُؤْمِنِینْ
ویسے ’’اول‘‘ کا ایک معنی آگے بڑھ کر ایمان لانا ہے… جیسا کہ فرعون کے جادوگروں نے ایمان قبول کرتے وقت کہا تھا…اَنْ کُنَّا اَوَّلَ الْمُوْمِنِینْ

 شدید ندامت والا استغفار
لَئِنْ لَّمْ یَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَیَغْفِرْلَناَ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ 
(الاعراف: ۱۴۹)
ترجمہ: اگر ہمارے رب نے ہم پر رحم نہ کیا اور ہمیں نہ بخشا تو بے شک ہم تباہ ہو جائیں گے…
حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام تورات لینے گئے …پیچھے قوم نے بچھڑے کو اپنا معبود بنا کر اپنے ایمان کا جنازہ نکال دیا…جب حضرت موسیٰ علیہ السلام واپس تشریف لائے اور قوم کو سمجھایا اور انہیں اس نقصان کا اندازہ دلایا جو وہ کر بیٹھے تھے…تب ان کی آنکھیں کھلیں ،باطل کا جوش ٹھنڈا پڑا…اور آگے ہمیشہ ہمیشہ کی آگ نظر آئی…اور یہ کہ کفر و شرک کر کے اپنی پوری زندگی کے عمل برباد کر ڈالے تب تو ان کے جسموں اور ہاتھوں تک کی جان نکلنے لگی…انتہائی شرمندگی،ندامت،بے قراری اور گہرے پانی میں ڈوبنتے انسان کی طرح چلائے…
لَئِنْ لَّمْ یَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَیَغْفِرْلَناَ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
یہ اگرچہ دعاء کے الفاظ نہیں …مگر اظہار ندامت اور طلب مغفرت میں دعاء جیسے ہیں … تب رحمت الٰہی متوجہ ہوئی اور توبہ کا حکم نامہ اور طریقہ عطاء فرما دیا گیا…

 صلہ رحمی والا استغفار
رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِاَخِیْ وَاَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِکَ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ 
(الاعراف:۱۵۱)
ترجمہ:اے میرے رب! مجھے اور میرے بھائی کو معاف فرما دیجئے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرمائیے اور آپ سب سے زیادہ رحم کرنے والے ہیں
حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے پیچھے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو چھوڑ گئے تھے…واپس آ کر قوم کو شرک میں مبتلا دیکھا تو آپ پر شدید دکھ ، رنج اور غم و غصہ طاری ہو گیا…اسی دینی غصہ میں حضرت ہارون علیہ السلام کو بھی پکڑ لیا اور جھنجھوڑا کہ …آپ نے جانشینی کا حق ادا نہیں کیا… حضرت ہارون علیہ السلام نے اپنا عذر بیان فرمایا کہ میں نے قوم کو بہت سمجھایا…مگر انہوں نے میری ایک نہ سنی الٹا مجھے قتل کرنے پر آمادہ ہو گئے…اب آپ مجھ پر سختی کر کے قوم والوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دیں اور مجھے ان ظالموں میں شمار نہ کریں… اپنے بھائی کا عذر سن کر حضرت موسیٰ علیہ السلام … ان سے مطمئن ہوئے اور فوراً اپنے لئے اور ان کے لئے استغفار کرنے لگے…اس میں دو باتیں تھیں … ایک یہ کہ دعاء کرنے سے یہ اشارہ دیا کہ میں آپ سے مطمئن ہوں…اور دوسری یہ کہ سخت رویے کی وجہ سے بھائی کو جو تکلیف پہنچی اس کا بھی ازالہ ہو جائے … کسی کے لئے استغفار کرنا یعنی اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی مغفرت مانگنا…بہت بڑا تحفہ، ہدیہ اور احسان ہے …پھر اس میں یہ بھی اشارہ ملا کہ اپنے کسی بھی قریبی عزیز سے کوئی رنجش ہو جائے تو صلح کے بعد اس کے لئے استغفار کیا جائے … قرآن مجید کے الفاظ موجود ہیں … بھائی سے رنجش اور صلح ہو تو یہی الفاظ اور اگر کوئی اور ہو تو ’’اخی‘‘ کی جگہ اس کا نام …مثلاً بیوی سے رنجش پھر صلح ہوئی تو
رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِزَوجَتِیْ وَاَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِکَ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْن
والدین سے تو رنجش ہونی ہی نہیں چاہیے … ان کے لئے بھی انہی الفاظ میں استغفار کر سکتے ہیں
رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِاَبِیْ…رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِاُمِّیْ…’’یا‘‘… رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَاَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِکَ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْن

 اجتماعی مصیبت اور قومی مشکل کے 
وقت کا استغفار
اَنْتَ وَلِیُّنَا فَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْنَ
(الاعراف:۱۵۵)
ترجمہ: یا اللہ! تو ہی ہمارا تھامنے والا ہے، پس ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے
حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے ستر نمائندہ افراد کو اپنے ساتھ ’’طور ‘‘ پر لے گئے … وہاں ان سب نے اللہ تعالیٰ سے کلام سنا مگر یقین کرنے کی بجائے اَڑ گئے کہ…جب تک ہم خود اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو نہ دیکھ لیں ہم یقین نہیں کر سکتے…اس پر سخت زلزلہ آیا،بجلی کڑکی اور وہ سب کانپ کر مر گئے…حضرت موسی علیہ السلام بہت پریشان ہوئے کہ واپس جا کر قوم کو کیا بتائیں گے؟ وہ تو یہ سمجھیں گے کہ ان کے نمائندوں کو میں نے مار دیا تب خوب عاجزی سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوئے دعاء مانگی،استغفار کیا تو وہ سب دوبارہ زندہ کر دئیے گئے…معلوم ہوا کہ اجتماعی مشکلات اور قومی مصیبتوں کا حل بھی ’’ توجہ الی اللہ‘‘ اور ’’استغفار‘‘ ہے…دعاء کے شروع میں اَللّٰھُمَّ لگا لیں…
(اَللّٰہُمَّ) اَنْتَ وَلِیُّنَا فَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْن
(۱۱) ربّ غفور کے سہارے
بِسْمِ اللّٰہِ مَجْرٖھَا وَمُرْسٰھَا، اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
(ہود:۴۱)
ترجمہ: اللہ کے نام سے ہے اس کا چلنا اور ٹھہرنا، بے شک میرا رب ہی بخشنے والا مہربان ہے
جب طوفان آ گیا تو حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے ایمان والے ساتھیوں سے فرمایا! اللہ کے نام سے کشتی پر سوار ہو جاؤ، کچھ غم ،فکر اندیشہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس کشتی کا چلنا اور ٹھہرنا سب اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کے نام کی برکت سے ہے … اور اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے لئے ’’غفور‘‘ یعنی بخشنے والا اور ’’رحیم‘‘ یعنی مہربان ہے…اللہ تعالیٰ کی شانِ مغفرت اور شانِ رحمت ہی ایمان والوں کو ہر طوفان ،ہر مصیبت اور ہر آزمائش سے پار لگاتی ہے …کشتی یا کسی بھی سواری پر…سوار ہوتے وقت یہ والہانہ دعاء پڑھ لینی چاہیے…

 حضرت سیدنا نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام کا 
مؤثر استغفار
رَبِّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اَسْئَلَکَ مَالَیْسَ لِیْ بِہٖ عِلْمٌ ، وَاِلَّاتَغْفِرْلِیْ وَتَرْحَمْنِیْٓ اَکُنْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ
(ہود:۴۷)
ترجمہ: اے میرے رب! میں تیری پناہ لیتا ہوں اس بات سے کہ تجھ سے سوال کر وں اس چیز کا جس کا مجھے علم نہیں…اور اگر تو نے مجھے نہ بخشا اور مجھ پر رحم نہ کیا تو میں تباہ ہو جاؤں گا…
طوفان میں حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا غرق ہو رہا تھا…حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی…اے میرے رب! میرا بیٹا بھی میرے ’’ اہل ‘‘ میں سے ہے…جن کو بچانے کا آپ نے وعدہ فرمایا ہے… حکم آیا کہ …اے نوح! وہ آپ کے اہل میں سے نہیں ہے…اس کے اعمال خراب ہیں آپ کو اس کے بارے ہم سے سوال نہیں کرنا چاہیے…اس تنبیہ پر حضرت نوح علیہ السلام کانپ اُٹھے اور فوراً توبہ و استغفار میں مشغول ہو گئے…اگر کسی مسلمان سے دعاء میں کوئی غلطی، بے ادبی…یا تجاوز ہو جائے…تو ان الفاظ میں استغفار ان شاء اللہ مفید رہے گا…

کسی کو معاف کرتے وقت کا استغفار
یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ
(یوسف:۹۲)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ تمہیں بخشے اور وہ سب سے زیادہ مہربان ہے
حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنی غلطی تسلیم کی،ندامت کا سچا اظہار کیا اور حضرت یوسف علیہ السلام سے معافی چاہی…حضرت یوسف علیہ السلام نے معافی دیتے وقت ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے استغفار فرمایا…پس کسی کو معاف کرتے وقت اس کے لئے استغفار کرنا خوبصورت سنت یوسفی ہے
یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِینْ

 اللہ تعالیٰ پر توکل اور اللہ تعالیٰ ہی سے توبہ
ھُوَ رَبِّیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ مَتَابْ 
(الرعد:۳۰)
ترجمہ: وہی ( اللہ تعالیٰ) میرا رب ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں،اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف میرا رجوع ہے…
حکم دیا گیا کہ…آپ کہہ دیجئے…
ھُوَ رَبِّیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ مَتَابْ

 اپنے لئے، والدین کے لئے اور سب ایمان والوں کے لئے استغفار
رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ
(ابراہیم:۴۱)
اے ہمارے رب! مجھے اور میرے والدین کو اور ایمان والوں کو حساب قائم ہونے کے دن بخش دے…
یہ دعاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مانگی …یہ بہت جامع اور نافع استغفار ہے…

 اسم اعظم والا استغفار
لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْن
(الانبیائ:۸۷)
ترجمہ: آپ کے سوا کوئی معبود نہیں آپ بے عیب ہیں بے شک میں گناہگاروں میں سے تھا…
یہ حضرت یونس علیہ السلام کی تسبیح ہے…اس میں تہلیل بھی ہے یعنی لا الہ الا انت اور تسبیح بھی ہے ’’سبحانک ‘‘ اور استغفار بھی ہے…اِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِین…
اس استغفار کے بہت فضائل احادیث و روایات میں آئے ہیں… یہ ہر غم ،مصیبت، مشکل اور پریشانی کا حل ہے…امت مسلمہ نے ہمیشہ اس تسبیح و استغفار سے بڑے بڑے منافع حاصل کئے ہیں…بندہ نے استغفار کے موضوع پر اپنی زیر طبع کتاب میں اس ’’آیت کریمہ‘‘ کے فضائل و خواص پر کئی روایات جمع کر دی ہیں…

 مقبولین کا استغفار
رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَناَ وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْن 
(المؤمنون:۱۰۹)
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے،تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما، تو بہت بڑا رحم فرمانے والا ہے…
دنیا میں کافر اور منافق خود کو عقلمند سمجھتے ہیں … اور ایمان والوں کا مذاق اڑاتے ہیں کہ یہ (نعوذ باللہ ) بیوقوف لوگ ہیں…ان کو دنیا کی سمجھ ہی نہیں …قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کافروں کے سامنے ان ایمان والوں کی کامیابی کا اعلان فرمائیں گے…اور ساتھ ان کے اِس استغفار کا بھی تذکرہ فرمائیں گے…کہ میرے بندوں میں سے کچھ لوگ کہتے تھے
رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَناَ وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِینْ
تو تم کفار ان کا مذاق اڑاتے تھے…
آج دیکھنا کہ میں ان کو کیسی کامیابی، بدلہ اور مقام دیتا ہوں…

 مغفرت اور رحمت مانگو
رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ 
(المؤمنون:۱۱۸)
ترجمہ: اے میرے رب معاف فرما اور رحم کر اور تو سب سے بہتر رحم فرمانے والا ہے…یہ بہت مؤثر اور میٹھا استغفار ہے…اور قرآن مجید میں حکم فرمایا گیا ہے کہ
کہو! رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِینْ
وہ جو کچھ دینا چاہتے ہیں اسی کو مانگنے کا حکم فرماتے ہیں…مغفرت اور رحمت مل جائے تو اور کیا چاہیے…

 مقرب فرشتوں کا تائب ایمان والوں کے لئے استغفار
رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ وَقِھِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ ، رَبَّنَا وَاَدْخِلْھُمْ جَنّٰتِ عَدْنِ نِ الَّتِیْ وَعَدْتَّھُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآئِھِمْ وَاَزْوَاجِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ ۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ، وَقِھِمُ السَّیِّاٰتْ ۔ وَمَنْ تَقِ السَّیِّاٰتِ یَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَہ۔ وَذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
(المؤمن:۷تا۹)
ترجمہ! اے ہمارے رب! تیری رحمت اور تیرا علم سب پر حاوی ہے پس جن لوگوں نے توبہ کی ہے اور تیرے راستے پر چلتے ہیں انہیں بخش دے اور انہیں جہنم کے عذاب سے بچا لے…
اے ہمارے رب! انہیں ہمیشہ کی جنتوں میں داخل فرما جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کو جو ان کے باپ دادوں اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میںسے نیک ہیں۔ بے شک تو غالب حکمت والا ہے اور انہیں برائیوں سے بچا اور جس کو تو اس دن برائیوں سے بچائے گا پس اس پر تو نے رحم کر دیا اور یہ بڑی کامیابی ہے…
یہ بڑی اہم دعاء ہے مکمل تفصیل تو یہاں ممکن نہیں چند اشارات لے لیں…
یہ دعاء عرش اٹھانے والے اور عرش کے گرد طواف کرنے والے مقرب فرشتوں کا وظیفہ ہے…اندازہ لگائیں کیسی برکتوں والی دعاء ہو گی…
 اس دعاء میں اللہ تعالیٰ کے تائب بندوں کے لئے استغفار ہے… ہم جب ایسے بندوں کے لئے دعاء اور استغفار کریں گے تو اس سے خود ہمیں بہت نفع ملے گا…
 جب ہم یہ دعاء اللہ تعالیٰ کے تائب بندوں اور ان کے متعلقین کے لئے کریں گے تو حدیث شریف کے وعدے کے مطابق فرشتے یہی دعاء ہمارے لئے کریں گے…


 مقبول اور سعادتمند بندوں کا استغفار
رَبِّ اَوْزِعْنِی اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ ۔ اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ 
(الاحقاف : ۱۵)
ترجمہ: اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر کروں جو تو نے مجھ پر انعام کی اور میرے والدین پر اور میں نیک عمل کروں… جسے تو پسند کرے اور میرے لئے میری اولاد میں اصلاح کر بے شک میں تیری طرف توبہ کرتا ہوں اور بے شک میں فرمانبرداروں میں ہوں…
یہ سعادتمند اور مقبول انسان بننے کا ایک قرآنی نصاب ہے…
اللہ تعالیٰ سے شکر کی توفیق مانگنا…ان نعمتوں پر جو اپنے اوپر اور اپنے والدین پر ہوں…
 اللہ تعالیٰ سے نیک اور مقبول اعمال کی توفیق مانگنا
 اپنی اولاد کی اصلاح اور نیکی کی دعاء مانگنا
 اللہ تعالیٰ سے توبہ،استغفار کرنا…
 اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کا اقرار کرنا…
اگلی آیت میں ان افراد کا جو یہ پانچ کام کرتے ہیں،بدلہ مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال قبول فرماتے ہیں …ان کے گناہ معاف فرماتے ہیں …اور انہیں اہل جنت میں شامل فرماتے ہیں…
بعض مفسرین کے نزدیک یہ آیت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی …پس یہ بہت قیمتی دعاء ہے…توجہ اور یقین سے مانگنی چاہیے…

بڑے مقام والا استغفار
رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا  غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ
(الحشر:۱۰)
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہماری اور ہمارے ان بھائیوں کی مغفرت فرما جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لئے کینہ قائم نہ ہونے پائے… اے ہمارے رب! بے شک تو بڑا مہربان،نہایت رحم والا ہے…
یہ بہت نافع،مؤثر اور جامع استغفار ہے… قرآن مجید میں سمجھایا گیا کہ بعد والے مسلمان جو دل کے یقین کے ساتھ یہ دعاء مانگتے ہیں…وہ انعام میں اپنے سے پہلے والوں کے ساتھ ملحق کر دئیے جاتے ہیں…اس دعاء میں اپنے اسلاف کے لئے بھی استغفار ہے…جو بڑا فضیلت والا عمل ہے… وہ افراد جن کے دل میں مسلمانوں کے لئے بغض اور کینہ زیادہ پیدا ہوتا ہو وہ اس دعاء کا بہت اہتمام کریں …بے حد نافع ہے…

دشمنوں سے حفاظت والا استغفار
رَبَّنَا عَلَیْکَ تَوَکَّلْنَا وَاِلَیْکَ اَنَبْنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ ، رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَاغْفِرْلَنَا رَبَّنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ 
(الممتحنۃ:۴۔۵)
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہم نے تجھ پر بھروسہ کیا اور تیری ہی طرف ہم رجوع ہوئے اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے اے ہمارے رب ہمیں کفار ( کے ظلم و ستم ) کا تختہ مشق نہ بنا اور اے ہمارے رب! ہماری مغفرت فرما بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے…
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ایمان والے رفقاء نے استغفار پر مشتمل یہ دعاء مانگی … اور کافر حکمرانوں اور کفر کی طاقت سے کھلم کھلا براء ت کا اِعلان فرمایا…

 اہلِ ایمان کا آخرت میں استغفار
رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْلَنَا اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ
(التحریم:۸)
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہمارے لئے ہمارا نور پورا فرما اور ہمیں بخش دے بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے
اہل ایمان یہ دعا آخرت میں مانگیں گے… دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ سے نور اور مغفرت مانگتے رہنا چاہیے…

 حضرت سیدنا نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام کا 
جامع استغفار
رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتْ 
(نوح:۲۸)
ترجمہ: اے میرے رب! مجھے اور میرے والدین کو بخش دے اور جو ایمان والا میرے گھر میں داخل ہو جائے اور ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو (بخش دے)
الحمد للہ
الحمد للہ! قرآن مجید کے بیان فرمودہ چوبیس استغفار آ گئے… حضرت سلیمان علیہ السلام کا استغفار اور ملکہ بلقیس کا استغفار شامل نہیں کیا گیا …کیونکہ وہ ایسی دعاؤں پر مشتمل ہے جو کسی اور کو مانگنے کی اجازت نہیں…اللہ تعالیٰ ہمیں سچی توبہ اور سچا استغفار اور اپنی مغفرت نصیب فرمائے
سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ نَشْھَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلّا اَنْتَ نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ اِلَیْکَ
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللھم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحمدُ رَّسُولُ اللہ
Share: