طلبِ علم کے لیے چین تک جانے کا حکم إيك من گهڑت حديث

طلبِ علم کے لیے چین تک جانے کا حکم 
إيك من گهڑت حديث

(اطلبو العلم ولو بالصین)
"علم حاصل کرو خواہ تمہیں‌ چین تک جانا پڑے"
'موضوع:الموضوعات لابن الجوزی(1/215)ترتیب الموضوعات للذھبی(111)الفوائد المجموعۃ(852)'

همارے هاں فضائلِ علم ميں اكثر يه (حديث) ذكر كي جاتي هے جبكه جمهور محدثين نے إس حديث كے وجود هي سے إنكار كيا هے يعني درآصل يه رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كا فرمان نهيں هے بلكه صريحاً اپنے پاس سے بنائى هوئى بات هے . ذيل ميں إس كي تفصيل ملاحظه فرمائيں

موضوع  يعني من گھڑت
٭ امام ابن الجوزیؒ مذکورہ بالا حدیث نقل کر کے لکھتے ہیں: ’’اس کی نسبت رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم کی طرف صحیح نہیں ہے۔ اس کے راوی حسن بن عطیہ کو ابو حاتم الرازیؒ نے ضعیف کہا ہے بخاریؒ اسے منکر الحدیث بتاتے ہیں۔ابن حبانؒ نے کہا ہے کہ یہ روایت باطل ہے جس کی کوئی اصلیت نہیں۔‘‘ (کتاب الموضوعات ص ۲۱۶ جلد ۱ )

٭ امام سخاویؒ نے بھی اس حدیث کو مردود کہا ہے اور لکھا ہے کہ ابن حبانؒ اس کو باطل کہتے ہیں اور ابن جوزیؒ نے اسے موضوعات سے شمار کیا ہے۔
( المقاصد الحسنہ ص ۶۳ )
٭ حوت بیروتی لکھتے ہیں: ’’ابن حبانؒ نے اس کو باطل کہا ہے اور ابن جوزیؒ نے اس کو موضوع قرار دیا ہے۔ حاکم نیشا پوریؒ اور ذہبیؒ کہتے ہیں کہ اس کی کوئی سند درست نہیں۔‘‘ 
(اسنی المطالب فی احادیث مختلفۃ المراتب ص ۴۲ )

٭ امام منذریؒ نے ائمہ حدیث کے تفصیلی بیانات کی روشی میں اسے رد کیا ہے۔ 
(فیض القدیر شرح جامع الصغیر ص ۵۴۲۔ ۵۴۳ )

٭ سب سے مفصل بحث اس پر دورِ حاضر کے نامور محدث ناصر الدین البانی نے کی ہے۔ آپ اسے مردود قرار دے کر آراء ائمہ اور دیگر دلائل سے اس کا بطلان ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’یحییٰ بن معین نے کہا کہ میں اس کے راوی ابو عاتکہ کو نہیں جانتا۔ احمد بن حنبلؒ نے اس کا انکار بڑے شدومد سے کیا ہے۔ ابن حبانؒ نے اس کو باطل کہا ہے اور سخاوی نے اس کی تائید کی ہے۔ عقیلی نے اپنی کتاب ’’الضعفاء‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ولو بالصین‘‘ کے الفاظ سوائے ابی عاتکہ کے کسی نے روایت نہیں کیے جبکہ معلوم ہے کہ یہ شخص متروک الحدیث ہے۔ عقیلیؒ نے اس کو بہت ہی ضعیف کہا ہے۔ بخاریؒ نے منکر الحدیث کہا ہے نسائی نے کہا ہے کہ ثقہ نہیں ہے۔ ابو حاتمؒ نے ذاہب الحدیث کہا ہے اور سلیمانیؒ نے کہا کہ اس کا وضعِ حدیث کرنا معروف ہے۔ دوسری سند کے ایک راوی یعقوب کو ذہبیؒ نے کذاب کہا ہے اور تیسری سند کے راوی عبد اللہ الجویباری سیوطیؒ نے اس کووضاع کہا ہے۔ 
(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ )

مذکورہ بالا محدثین اور ناقدین کی توضیحات سے معلوم ہو گیا کہ یہ حدیث کسی شخص کی وضع کردہ ہے اور جن دو تین سندوں سے یہ حدیث مروی ہے۔ سب میں سخت ضعیف بلکہ وضاع راوی موجود ہیں جن کی بنا پر اس کا موضوع (بناوٹی) ہونا ظاہر ہے۔

فرمانِ رسول صلى الله عليه وآله وسلم
٭اس فرمانِ رسول صلى الله عليه وآله وسلم كو جو تقریبا 200 اصحاب رضوان اللہ اجمعین سے مروی ہے یاد رکھنا  چاهيے
نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: " جس شخص نے مجھ پر ایسی بات کہی جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانا (جہنم کی) آگ میں بنا لے " ۔ 
(صحیح بخاری:109)

ایک اور جگہ ارشاد نبوی فرمانِ رسول صلى الله عليه وآله وسلم ہے کہ: جس نے مجھ سے ایک حدیث بیان کی اور وہ جانتا ہے کہ یہ روایت جھوٹی (میری طرف منسوب) ہے تو یہ شخص جھوٹوں میں سے ایک (یعنی کذاب) ہے۔ 
(مسند علی بن الجعد:140 و سندہ صحیح، صحیح مسلم:1)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
Share: