نیت کے آداب

نیت کے آداب
( ماخوذ از : موسوعة الآداب الإسلامیة )

اللہ تعالی نے فرمایا ہے 
[وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ]
(البینۃ: 5)
یعنی: اہل کتاب کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اسی کے لئے دین کو خالص رکھیں یکسو ہوکر، اور نماز کو قائم رکھیں اور زکوۃ دیتے رہیں، یہی ہے دین سیدھی ملت کا ۔
أمیر المؤمنین حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نےروایت کی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى" 
(بخاری و مسلم  )
یعنی: تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر انسان کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ہو ۔
اور  نبی كريم صلی اللہ علیہ وآله  وسلم سے ایک آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو بہادری ، حمیت ( عصبیت ) ، اور دکھاوے کے لئے لڑرہا ہے کہ ان میں سےکون اللہ کی راہ میں ہے؟ تو انہوں نے فرمایا:
"مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللهِ" 
(بخاری:7457 ، مسلم: 1904 )
یعنی : جو شخص اللہ تعالی کے کلمے کی بلندی کے لئے لڑے گا وہ اللہ کے راستے میں ہے۔
تمام اعمال و اقوال کے وقت اچھی نیت کرنا اللہ تعالی کے ہاں ان کے قبول ہونے کا سبب ہے ، یہ کامیاب ہونے کے اسباب میں سے ایک ہے اور کام کے فائدے اور اس کی برکت کے عام ہونے کا سبب ہے۔
نیت کے آداب میں سے یہ ہے کہ اللہ تعالی کے لئے اخلاص ہو۔ اور ہر بات اور کام کا مقصد اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنا ہو اور ریا، شہرت، فخر اور تکبر سے دور رہے ۔ بلاشبہ یہ (چیزیں ) قول اور عمل کی برکت ختم ہونے اور اجر و ثواب کے ضائع ہونے کا سبب ہے۔
جب انسان بچپن سے اپنے آپ کے محاسبےاور عمل میں خلوص ، دل کی پاکی اور تمام حالات میں سچائی کا عادی ہوجائے، اور اللہ تعالی کے بارے میں ، اس کی کتاب (قرآن مجید)، اس کے رسول (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآله وسلم)،مسلمانوں کے اماموں اور عام لوگوں کے ساتھ اپنے تمام معاملات میں خیر خواہی کا عادی ہوجائے ، تو اللہ تعالی اس انسان کے اعمال اور اقوال میں برکت فرمادے گا اور اس کو ہر خیر کی توفیق بخشے گا ۔چناچہ اللہ تعالی دلوں کو جاننے والا ہے اور نیتوں کا علم رکھنے والا ہے۔ 
فرمان باری تعالی ہے
[أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ] (الملک:14)
یعنی: کیا وہی (اللہ ) نہیں جانتا ہے جس نے( سب کچھ ) پیدا کیا؟ ! جب کہ وہ باریک بین اور باخبر ہے ۔
اور اللہ تعالی نے فرمایا 
[وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ] 
(ق) 
یعنی: ہم نے انسان کو پیدا کیا ہےاور اس کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں ان سے ہم واقف ہیں اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں۔
احسان یہ ہے (جیسے کہ رسول كريم د صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا): کہ تم اللہ تعالی کی عبادت اس طرح کرو گویا تو اسے دیکھ رہا ہو، اگر تو اسے نہ دیکھے تو پھر یہ تو سمجھ کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔ اللہ تعالی ہمارا امتحان لے رہا ہے تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ کون اپنے عمل میں احسان کرتا ہے اور کون غلط کار ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے
[ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ] (الملک:2 )
یعنی: (اللہ تعالی نے موت و زندگی پیدا کی) تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے، اور وہ غالب (اور)بخشنے والا ہے۔
عمل کے ساتھ احسان یہ ہے کہ نیت صحیح ہو اور ظاہر اور باطن میں اللہ تعالی کے لئے اخلاص ہو۔ جس شخص نے عمل میں غیر اللہ کو شریک ٹھہرایا ، تو اس کی عمل راکھ ہو جائے گی، اور اس کی محنت و مشقت ضائع ہو جائے گی۔اس کے قول اور فعل (اعمال)کی برکت زائل ہوجائے گی، اور وہ خسارہ زدوں میں سے بن جائے گا۔
جب مسلمان اپنے مباح کاموں میں خیر کی نیت کرے گا، توبہت ثواب ملے گا، (ہمارے) اسلاف میں سے بہت سارے لوگ عمل کرنے سے پہلے رُکتے تھے تاکہ وہ ریا ، شہرت، اور اللہ کی خوشنودی کے سوا دوسرے کسی بھی مقصد سے ، اپنی نیت کو صاف و پاک کریں۔
 اللہ تعالی سے دعا  ہے  کہ وہ ہمیں عافیت بخشے اور ہمارے تمام اعمال و اقوال اور حرکات وسکنات میں درست نیت اور اللہ تعالی کے لئے خلوص عطا فرمائے ، بے شک وہ (اللہ تعالی)سننے والا اور دعا قبول فرمانے والا ہے۔
Share: